عدم دفع الزکاة
( زکوٰة نہ دینا)
کبائر منصوصہ میں سے سینتیسواں گناہ زکوٰة واجب کو نہ دینا ہے چنانچہ جیسا کہ عبد العظیم کے صحیفہ میں امام محمد تقی امام علی رضا امام موسیٰ کاظم اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) سے نقل کیا گیا ہے اور یہ ایسا گناہ ہے کہ جس کے لئے قرآن مجید میں صریحاً عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے چنانچہ ذکر شدہ صحیفہ میں امام (علیہ السلام) نے اس کے کبیرہ ہونے کا سورہ توبہ کی چونتیس ویں آیت سے استدلال کیا ہے:
(
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّتَهَ وَلٰا یُنْفِقُوْنَهٰا فی سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذٰابٍ اَلِیْمٍ یَّومَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نٰارِ جَهَنَّمَ فَتُکویٰ بِهٰا جِبٰاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُم وَظُهُوْرُهُمْ هٰذٰا مٰا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُم فَذُوْقُوا مٰا کُنْتُم تَکْتِزُونَ
)
۔ (سورہ توبہ آیت ۳۴،۳۵)
اور جو لوگ سونااورچاندی جمع کرتے جاتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو (اے رسول) ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔جس دن وہ(سونا چاندی) جہنم کی آگ میں گرم (اور لال)کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور انکی پشتیں داغی جائیں گی(اور ان سے کہا جائے گا) یہ وہ ہے جسے تم نے اپنے لئے (دنیا میں)جمع کر کر رکھا تھا۔تو (اب)اپنے کئے کا مزہ چکھو۔
روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں کنز سے مراد ہر وہ مال ہے کہ جس سے زکوٰة اور دوسرے واجب حقوق ادا نہ کئے گئے ہوں سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(
وَلٰا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمٰا اٰتٰاهُمُ اللّهُ مِنْ فِضْلَه هُوَ خَیْراًلَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مٰا بَخِلُوْا بِه یَوْمَ الْقِیٰامَتِه وَلِلّٰهِ مِیْرٰاثُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَ اللّٰهُ بِمٰا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
)
۔ (سورہ آل عمران آیت ۱۸۰)
اور جن لوگوں کو خداوندعالم نے اپنے فضل و(کرم) سے کچھ دیا ہے (اور پھر)بخل کرتے ہیں وہ ہر گز اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لئے (کچھ)بہتر ہو گا بلکہ یہ ان کے حق میں بد تر ہے(دنیا میں بھی کیونکہ ان کے مال سے برکت ختم ہو جاتی ہے اور آخرت میں بھی کیونکہ بے پناہ عذاب وعقاب کے مستحق ہوں گے) (کیونکہ) جس (مال) کا بخل کرتے ہیں عنقریب ہی قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کے گلے میں پہنایا جائے گا اور سارے آسمان و زمین کی میراث خدا کے لئے ہیے اورجو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔
یعنی وہ لوگ جن کے قبضے میں صرف چند روز کے لئے عاریتاً مال ہے اوہ مر جائیں گے اور فقط خدائے عزوجل کی ذات باقی رہے گی تو اس سے قبل کہ یہ اموال تم سے لے لئے جائیں اور تم ان سے محروم ہو جاو اسے راہ خدامیں خرچ کر کے استفادہ کرو۔
تفسیر منہج الصادقین میں لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے جسے بھی مال عطا کیا ہو،اور اگر وہ شخص بخل کی بناء پر اسکی زکوٰةادا نہ کرے تو اسکا وہ مال روز قیامت ایک بڑے سانپ کی صورت اختیار کر جائے گا۔اور بے پناہ زہر اور خطرناک ہونے کے بناء پر اس (سانپ)کے سر پر بال نہ ہوگا اور اس کی آنکھوں کے نیچے دو سیاہ نشان ظاہر ہوں گے وہ سانپوں کی موذی ترین اقسام میں سے ہے۔پس وہ سانپ طوق کی صورت میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا تو سانپ کے دونوں سرے اسکے چہرے کو اپنے گرفت میں لے لیں گے اور وہ ڈانٹتے ہوئے کہیں گے میں تمہارا وہی مال ہوں کہ جس پر تم دنیا میں دوسروں پر فخر کرتے تھے۔
عَن اَبِیْ جَعْفَرٍ(ع) قٰالَ مٰامِنْ عَبْدٍ مُنِعَ مِنْ زَکوٰةِ مٰالِهِ شَیاً اَلَّاجَعَلَ اللّٰهُ ذٰالِکَ یَوْمَ الْقیِٰامَةِ ثُعْبٰاناً مِّنْ نٰارٍ مُّطَوَّقاً فِیْ عُنُقِهِ یَنْهَشُ مِنْ لَحْمِهِ حَتّٰی یَفْرَغُ مِنَ الْحِسٰابِ
(زکات وسائل باب ۳ ج ۶ ص ۱۱)
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا جو کوئی بھی اپنے مال کی زکوٰة ادا نہ کرے تو روز قیامت وہ مال آگ کے اژدھے کی صورت میں اس کی گردن میں ہوگا اور وہ اس کا حساب ختم ہونے تک اس کا گوشت چباتا رہے گا۔آپ سے یہ بھی مروی ہے کہمَامِنْ ذِیْ رَحِمٍ یَأتِیْ ذٰا رَحِمَهُ یَسْئَالُهُ مِنْ فَضْلٍ اَعْطٰاهُ اللّٰهُ اِیَّاهُ فَیَبْخَلُ بِهِ عِنْدَهُ اِلّاٰ اَخْرَجَ اللّٰهُ لَهُ مِنْ جَهَنِّمِ شُجٰاعاً یَتَلَمَّزُ بِلِسٰانِه حَتّٰی یُطَوِّقَهُ
۔(تفسیر منہج الصادقین)جو کوئی اپنے کسی ایسے رشتہ دارکو جو اس کے پاس آئے اور اس مال کثیر میں سے کہ جوخدائے کریم نے اسے عطا یا ہے اس میں سے کچھ طلب کرے تو اگر وہ بخل کی بنا پر کچھ نہ دے تو خداوندعالم دوزخ سے ایک اژدھا باہر نکالتا ہے جو اپنی زبان کو اپنے منہ کے گرد گھماتا ہے تاکہ وہ (شخص)آئے اور وہ اژدھا اس کی گردن کا طوق بن جائے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ سونے چاندی کا کوئی مالک اگر(اس کی ) زکوٰة واجب(یا خمس واجب کو جیسا کہ تفسیر قمی میں ہے) وہ ادا نہ کرے تو روز قیامت خداوند عالم اسے ایک ہمواروروشن بیابان میں قید کردے گا اور اس پر ایک اژدھا مسلط کر دے گا کہ جس کے بال زہر کی زیادتی کی بنا پر گر گئے ہوں گے اور جب وہ (اژدھا)اسے پکڑنا چاہیے گا تو وہ فرار ہونے کی کوشش کر یگا لیکن جب مجبو ہوجائے گا اور سمجھ لے کہ(میں)فرار نہیں ہو سکتا تو اپنے ہاتھ کو اس (اژدھے)کے نزدیک لے جائے گا اوروہ اس کے ہاتھ کو فخل(نر اونٹ)کی طرح چبائے گااور اس کی گردن میں طوق بن جائے گا چنانچہ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر بھیڑ گائے اور اونٹ کا کوئی مالک اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرے گا توخدائے عزوجل روز قیامت اسے روشن بیابان میں قید کردے گا اور ہر کھروالا (جانور)اسے روندے گا اور ہرنوکیلے دانتوں والا جانور اسے چیرے پھاڑے گا اور جو کوئی بھی اپنے کھجور کے درخت،انگور یا اپنی زراعت کی زکوٰة ادا نہیں کرے گا تو روز قیامت ز مین کا وہ حصہ منزلہ طوق کی مانند اس کی گردن میں ہوگا۔(زکات وسائل الشیعہ باب ۳ حدیث ۱ ج ۶ ص ۱۱ کافی)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
ا نَّ اللّٰهَ قَرَنَ الزَّکٰوةَ بِالصَّلٰوةِ فَقٰالَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ فَمَنْ اَقٰامَ الصَّلٰوةَ وَلَمْ یُوتِ الزَّکٰوة فَکَاَنَّهُ لَمْ یَقُمِ الصَّلٰوةِ
۔ (وسائل باب ۳ ج ۶ ص ۱۱)
خداوندعالم نے زکوٰة کو نماز کے ساتھ قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو ۔پس جو کوئی نماز پڑھے اور زکوٰة نہ دے،تو ایسا ہے کہ اس نے نماز(ہی) نہیں پڑھی کیونکہ یہ دونوں ملے ہوئے ہیں۔
آپ نے یہ بھی فرمایا ایک روز رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسجد میں تشریف فرما تھے آپ نے اس وقت پانچ افراد کو ان کا نام لے کر پکاراور فرمایا اٹھو اور ہماری مسجد سے باہر نکل جاواوریہاں نماز نہ پڑھو کیونکہ تم زکوٰة نہیں دیتے ہو۔
(زکات وسائل الشیعہ باب ۳۱ حدیث ۱۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
مَنْ مَنَعَ الزَّکٰوةَ سُئِلَ الرَّجْعَتِه عِنْدَ الْمَوْتِ وَهُوَقَوْل اللّهِ تَعٰالٰی رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعِلَّی اَعْمَلُ صٰالِحاً فِیْمٰا تَرَکْتُ
(وسائل باب ۳ حدیث ۲۴ ج ۶ ص ۱۴)
جو کوئی اپنے مال کی زکوٰة اد انہیں کرتا،تو وہ موت کے وقت چاہے گا کہ اسے دنیا میں بھیج دیا جائے تا کہ وہ زکوٰة ادا کرے جیسا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اے پروردگار مجھے واپس لوٹا دے تاکہ جو عمل صالح میں نے ترک کیا ہے اسے انجام دوں،یعنی موت کے وقت کہے گا پروردگار مجھے دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ جو مال میں نے رکھا ہے اس سے نیک کا م انجام دوں پس اس سے کہا جائے گا ایسا نہیں ہو سکتا یعنی تم واپس نہیں پلٹ سکتے۔
اس کے علاوہ آپ اس آیتوَعَنْهُ فِیْ تَفْسِیرِ قَوْلَه تَعٰالیٰ کَذٰالِکَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمٰالَهُمْ حَسَرٰاتٍ عَلَیْهِم
ْخداوند عالم ان کے اعمال کو ان کے لئے افسوسناک حالت میں دکھائے گا کہ وہ جہنم سے باہر نہیں آسکتے کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
هُوَ الرَّجُلُ یَدْعُ مٰالَهُ لٰا یُنْفِقُهُ فِیْ طٰاعَتِه اللّٰهِ بُخْلاً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیَدَعَهُ لِمَنْ یَّعْمَلُ فِیهِ بِطٰاعَتِه اللّٰهِ اَوْ بِمَعْصِیَتِه اللّٰهِ فَاِنْ عَمِلَ فِیْهِ بِطٰاعَته اللّٰهِ رَاٰهُ فِیْ مِیْزٰانِ غَیْرِه فَرٰاهُ حسرةً وَقدکان المالُ له وان کان عمِلَ به فی معصیته اللّٰه قواة بِذٰالِکَ الْمٰالُ حَتّٰی عَمِلَ بِه مَعْصِیَتَهِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ
(وسائل الشیعہ باب ۵ حدیث ۵ ج ۶ ص ۲۱)
کہ وہ شخص جو اپنے مال کو سنبھال کر رکھتا ہے اور راہ خدا میں انفاق کرنے سے بخل کرتا ہے اور جب مرتا ہے تو اسے لوگوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے کہ جو راہ خدا میں اس کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں یا گناہ میں اگر اس کا وہ (مال)راہ خدا میں خرچ ہو تو اس نیکی کو دوسروں کے نامہ عمل میں دیکھتا ہے اور افسوس کرتا ہے کیوں درحقیقت یہ اس کا مال تھا اگر معصیت خدا میں خرچ ہو یعنی گناہگار کا اس کے مال سے تقویت ملی ہو تو یہ بھی اس کیلئے حسرت کا سامان ہے اس موضوع سے متعلق روایات کو عیاشی،مفید،صدوق اور طبرسی نے اپنی کتابوں میں حضرت محمد باقر (علیہ السلام) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے بھی نقل کیا ہے۔
وَقَالَ رَسُولُ اللّهِ (صلی الله علیه و آله) مٰا مِحِقَ الْاِسْلٰامُ مَحْقَ الشُّحِّ شَیٌ ثُمَّ قٰالَ اِنَّ لَهٰذا الشُّحِّ دَیْباً کَدَبَیْبِ النَّمْلِ وَشُعُباً کَشُعبِ الشِّرْکِ
(وسائل باب ۵ حدیث ۵ ج ۶ ص ۲۱)
اور حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں کہ کوئی چیز بخل کی مانند اسلام کو ختم نہیں کرتی اس کے بعد فرمایا بخل کا راستہ چیونٹیوں کے راستے کی طرح ہے بظاہر دکھائی نہیں دیتا ہے اور اس کی بھی شرک کی اقسام کی طرح بہت سے اقسام ہیں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
وَعَنْ عَلِّیٍ(ع) اِذٰا مَنَعُوالزَّکٰوةَ مُنِعَتِ الْاِرْضُ بَرَکَتَهٰا مِنَ الزُّرُوعِ وَالثِّمٰارِ وَ الْمَعٰادِنِ کُلَّهٰا
۔ (سفینہ البحار ج ۱ ص ۱۵۵)
جس وقت لوگ زکوٰة ادانہیں کریں گے تو زمین سے ان کی زراعت ان کے میووں اوران کی معدنیات میں سے برکت اٹھالی جائے گیوَعَنِ النَّبِیَّ (صلی الله علیه و آله) دٰاوُوْا مَرْضٰاکُمْ بِالصِّدَقَتهِ وَادْفَعُوا اَمُواجَ الْبَلآءِ بِالدُّعٰآ ءِ وَحَصِّنُوا اَمْوٰالَکُمْ بِالزَّکٰوةِ
(وسائل باب اول حدیث ۱۳)
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں کہ صدقہ کے ذریعے اپنے مریضوں کا علاج کرو، اور مصیبت و بلا کے طوفان کو دعا کے ذریعے دور کرو اور زکوٰة کے ذریعے اپنے مال کی حفاطت کرو۔
عَنِ الصّٰادِقِ(ع) اِنَّ لِلّٰهِ بُقٰاعاً تُسَمَّی الْمُنْتِقِمَتهِ فَاِذیا اَعْطٰٰی اللّٰهُ عَبْداً مٰالاً لَمْ یَخْرُجْ حَقَّ اللّٰهَ مِنْهُ سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَیهِ بُقعةً مِنْ تَلْکَ الْبُقٰاعِ فَاَتْلَفَ الْمٰالَ فِیهٰا ثُمَّ مٰاتَ و َتَرَکَهٰا
(وسائل الشیعہ باب ۵ حدیث ۱۰ ج ۶ ص ۶۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں ۔خدا کے لئے زمین میں ایسے مکانات ہیں کہ جنہیں انتقام لینے والا کہتے ہیں پس جب بھی خداوند عالم کسی بندے کو مال عطا کرے اور وہ (بندہ)اس حق کو جسے خدا نے واجب فرمایا ہے اس مال میں سے نہ دے تو(خدا)ان مکانات میں سے ایک مکان اس پر مسلط کر دیتا ہے اور اس مال کو اسی جگہ تلف کرتا ہے اور اس کے بعد(وہ اسی مکان میں)رہ جاتا ہے اور اسے دوسروں کے لئے چھوڑ جاتا ہے اور کئی روایتوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ جو کوئی مال کو راہ خیر میں صرف کرنے میں بخل کرے گا تو اسے اس سے کہیں زیادہ راہ شر میں صرف کرنا پڑے گا وہ روایات جو باب زکات میں وارد ہوئی ہیں بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر اس قدر کافی ہے۔
زکات نہ دینے والا کافر ہے
جیسا کہ ترک زکوٰة کی عقوبتوں کی اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے کاذکر ہوا اور یہ فسق کا موجب ہے یہ اس صورت میں ہے کہ جب اس کے وجوب پر اعتقاد رکھتا ہو اور بخل کی بناء پر زکات نہ دیتا ہو لیکن اگر زکوٰة کا نہ دینا اس کے وجوب پر اعتقاد نہ رکھنے کی وجہ سے ہو ۔تو پس وہ کافر اور نجس ہے کیونکہ زکوٰة کاوجوب نماز کیطرح دین کے مسلمہ احکامات میں سے ہے اورجو کوئی ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو تو وہ اسلام سے خارج ہے اور اس صورت میں زکوٰة کے وجوب سے انکار اور پنے لئے حلال سمجھنے کی طرف اشارہ ہے وہ روایات کہ جن میں زکوٰة نہ دینے والے کے کفر کی تشریح کی گئی ہے۔ان میں امام جعفرصادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں:
عَنْ اَبِی عَبْدِاللّٰهِ (علیه السلام) اِنَّ اللّهِ فَرَضَ لَلْفُقَرآء فِیْ اَموٰالَ الْاغَنْییآءِ فَرِیضَةً لٰا یَحْمُدوْنَ اِلّٰا بِاَدٰائِهٰا وَهِیَ الزَّکٰوةُ بِهٰا حُقِنُوا دِمٰائٓهُمْ وَبِهٰا سَمُّوا مُسلِمِیْنَ
۔
(وسائل باب ۴ حدیث ۲ جلد ۶ ص ۱۸)
بے شک خداوندعالم نے فقراء کے لئے ثروت مندوں کے مال میں (حصہ)واجب کیا ہے ایسا واجب کہ جس کی ادائیگی پر مالداروں کی تعریف کی جاتی ہے اوروہ زکوٰة ہے کہ جس کے دینے سے ان کا خون بہانا حرام ہو جاتا ہے اور اس کے ادا کرنے والے مسلمان کہلائے جاتے ہیں۔
یعنی اگر مالدار لوگ(انکار کرتے ہوئے) زکوٰة واجب نہ دیں تو وہ مسلمان نہیں اور ان کا خون بہانا حرام نہیں ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں،
مَنْ مَنَعَ قِیْرٰاطاً مِّنَ الزَّکوٰةِ فَلَیْسَ بِمُومِنٍ وَّلٰا مُسْلِمٍ وَهُوَ قَوْلَ اللّٰهِ رَبِّ ارْجِعُوْنِی لَعَلِّیْ اَعْمَلُ صٰالِحاً فِیْمٰا تَرَکْتُ
۔(وسائل ج ۶ ،ص ۱۸)
اگر کوئی ایک قیراط( ۲۰ دینار یعنی جو کے چار دانوں) کے برابر زکوٰة واجب میں سے نہ دے تو وہ نہ مومن ہے نہ مسلمان اور وہی ہے کہ جس کے مرنے کے وقت(کی حالت)کی خداوند عالم نے خبر دی ہے کہ کہے اگر پروردگار مجھے(دنیامیں) لوٹا دے تا کہ اپنے چھوڑے ہوئے عمل صالح کو انجام دوں ۔آپ نے یہ بھی فرمایا:
مَنْ مَنَعَ قِیْراٰطاً مِّنْ الزَّکٰوةِ فَلْیَمُتْ اِنْ شٰآءَ یَهُوْدِیّاً وَاِنْ شٰآءَ نَصْرٰانِیّاً
(زکوہ وسائل الشیعہ باب ۴ حدیث ۴ ج ۶ ص ۱۸)
جو کوئی زکوٰة میں سے ایک قیراط(جو کے چار دانے کے برابر)نہ دے تو پس وہ بے ایمان ہو کر دین یہودی یا نصرانی پر مرتا ہے۔
وَقَالَ(ع) اَیْضاً دَمٰانِ فِیْ الْاِسْلٰامِ حَلٰالٌ مِّنَ اللّٰهِ عَزَّوجَلَّ لٰا یَقْضِیْ فِیْهِمٰا اَحَدٌ حَتّیٰ یَبْعَثُ اللّٰهَ قٰائِٓماً اَهْلَ الْبَیْتِ فَاِذٰا بَعَثَ اللَّهُ قٰائِٓمُنٰا اَهْلَ الْبَیْتِ حَکَمَ فِیْهِمٰا بِحُکْمِ اللّٰهِ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ الزّٰانِیُ الْمُحْصِنُ یَرْجُمُهُ وَمٰانِعُ الزَّکٰوةِ یَضْرِبُ عُنُقَهُ
(زکوہ وسائل ج ۶ ص ۱۹ اور کافی)
آپ نے مزید ارشاد فرمایا اسلام میں دو خون بہا نا خداوند عالم کی طرف سے حلال کیا گیا ہے اور کوئی بھی حکم خدا کو ان دو کے بارے میں جاری نہیں کرے گا یہاں تک قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظہور فرمائیں گے تو آپ ان دو(خونوں)کے بارے میں حکم خداوندی کا اجراء کریں گے اور ان دو میں سے ایک زنا کرنے والا ہے کہ جو اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے زنا کرے پس اسے سنگسار کیا جائے گا اور دوسرا زکوٰة نہ دینے والا ہے کہ جس کی گردن اڑا دی جائے گا۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں:
مٰا ضَاعَ مٰالٌ فِیْ بَرٍّ اَوْ بَحْرٍ اِلّی ا بِمَنْعِ الزَّکوٰةِ وَاِذٰا قٰامَ الْقآئِمُ اَخَذَ مٰانِعُ الزَّکٰوةِ فَضَرَبَ عُنُقَهُ
(وسائل الشیعہ باب ۵ حدیث ۸ ج ۶ ص ۲۰)
صحرااور دریا میں فقط زکوٰة نہ دینے کے سبب مال ضائع ہوتا ہے اور جب قائم آل عجل اللہ تعالیٰ فرجہ قیام کریں گے تو زکوٰة نہ دینے والے کو پکڑ کر اس کی گردن مار دیں گے۔اللہ تعالی فرماتا ہے۔
وَوَیْلٌ لِّلْمُشرِکِیْنَ الَّذِیْنَ لٰا یُو تُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَ ةِ هُمْ کافِرُوْنِ
۔(سورہ فصلت آیت ۶ ۔ ۷)
اور ان مشرکوں پر افسوس ہے جو زکوٰة نہیں دیتے اور آخرت سے انکار کرتے ہیں۔
عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) اِنَّهُ قٰالَ وَالَّذِیْ نَفْسَ مُحَمَّدبیده مٰا خٰانَ اللّٰهُ اَحَدٌ شَیئاًمِّنْ زَکوٰةِ مٰالَه اِلّٰا مُشْرِکٌ بِاللّٰهِ
(مستدرک)
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں اس خداکی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ)کی جان ہے کہ خداوندعالم کے ساتھ سوائے اس مشرک کے کوئی خیانت نہیں کرتا جو کہ اپنے مال کی زکوٰة میں سے کوئی چیز نہیں دیتا۔
قَالَ (صلی الله علیه و آله) یٰا عَلِیُّ کَفَّرَ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ منْ هٰذِهِ الْاُمَّتِه عَشَرَةِ الْقَتَّاتُ وَالسّٰاحِرُ وَالدَّیُّوْثُ وَنٰاکِحُ الْمَرْأةِ حَرٰاماً فِی دُبِرُهٰا وَنٰاکِحُ الْبَهِیْمَتِه وَمَنْ نَکَحَ ذٰاتٍ مُحْرِمٍ مِنْهُ وَالسّٰاعِیْ فِی الْفِتْنَتهِ وَبٰایعُ السِّلٰاحِ مِنْ اَهْلِ الْحَرْبِ وَمٰانِعُ الزَّکٰوةِ وَمَنْ وُّجِدَ سَعَةً فَمٰاتَ وَلَمْ یَحُجْ
۔(خصال ص ۴۵۰ باب عشرہ)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں اے علی!اس امت میں دس گروہ خائے بزرگ و برتر کے کافر ہیں اول چغل خور ،دوسرا جادوگر،تیسرا دیوث(جو کہ یہ جانتا ہو کہ اس کی بیوی زنا کرتی ہے ،لیکن وہ غیرت نہ کرے)چوتھا جو اجنبی عورت کے پیچھے حرام طور پر وطی کرے،پانچواں جو حیوان سے وطی کرے ،چھٹا جو اپنے محرم سے زنا کرے،ساتواں جو فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرے۔آٹھواں جو ایسے کافروں کو اسلحہ فروخت کرے جو مسلمانوں سے جنگ کررہے ہوں،نواں زکوٰة نہ دینے والا دسواں جو استطاعت رکھتے ہوئے حج نہ کرے اور اسی حالت میں مرجائے۔ان جیسی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰة نہ دینا اور اسی طرح نماز نہ پڑھنا ،حج نہ کرنا جب بھی انکار کی بناء پر ہوتو وہ کافر ہیں اور جسطرح آخرت میں اسلام کی برکتوں سے جو کہ جہنم سے نجات کاذریعہ ہو گی محروم رہیں گے بالکل اسی طرح دنیا میں بھی اسلام کے ظاہری احکام سے مثلاً مسلمان کا پاک ہونا،اور ایک دوسرے سے ارث لینا اور عقد ونکاح کرنا وغیرہ سے محروم ہوتے ہیں اور اگر انکار کرتے ہوئے نہ ہو بلکہ کنجوسی اور سستی کی بناء پر ہو تو بے شک کافرنہیں ہیں اور ظاہراً مسلمان ہیں لیکن در حقیقت بلحاظ باطنی کفر وشرک کی اقسام میں سے ایک قسم کا اطلاق ان پر ہوتا ہے اور اگر اس دنیا سے باایمان رخصت ہو بھی جائیں تو بھی شدید عذاب میں گرفتار ہوں گے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ْ
زکوٰہ واجب ہونے کا سبب
زکوٰة کے اور اسی طرح دوسرے صدقات کے واجب ہونے میں حکمتیں (پو شیدہ) ہیں کہ جن میں سے بعض کا روایات میں ذکر کیا گیا ہے یعنی یہ (خدا کی طرف سے )سرمایہ داروں کا امتحان ہے کہ آیا ان کے نزدیک خداوندعالم زیادہ عزیز و محبوب ہے یا اس فانی دنیا کا مال اور آیا ثواب،بہشت اور جزائے الہٰی پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں یا نہیں؟آیا پروردگار عالم جل جلالہ کی بندگی کے دعوے میں سچے ہیں یا نہیں؟ دوسرا فائدہ یہ کہ اس ذریعے سے پریشان حال اور تہی دستوں کا روزگار منظم ہوتا ہے چنانچہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) زکوٰة کے فواہد بیان فرماتے ہیں۔
اِنَّمٰا وُضِعَتِ الزَّکٰوةُ اِخْتِبٰاراً لَلْاَغْنِیآءِ وَمَعُوْنَةً لِّلْفُقَرآءِ وَلَوْ اَنَّ النّٰاسَ اَدَّوُا زَکوٰةَاَمْوٰالِهْمِ مٰابَقِیَ مُسْلِمٌ فَقْیِراً مُحْتٰاجاً وَلاَسْتَغْنٰی بِمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهُ وَاَنَّ النَّاسَ مَاافْتَقَرُوا وَلٰا احْتٰاجُوا وَلٰا جٰاعُوا وَلٰا عَرُوْا اِلّٰا بِذُنُوْبِ الْاَغْنِیٰآءِ وَ حَقِیقٌ عَلَی اللّٰهِ تَبٰارَکَ وَتَعٰالٰی اَنْ یَّمْنَعَ رَحْمَتَهُ مِمَّنْ مَّنَعَ حَقَّ اللّٰهِ فِیْ مٰالِهِ وَاُقْسِمُ بِاالَّذِیْ خَلَقَ وَبَسَط الرِّزقَ اَنَّهُ مٰا ضٰاعَ مٰالُ فِیْ بَرٍّ وَلٰا بَحرٍ اِلّٰا بِتَرْکِ الزَّکوٰهَِ
(کافی وسائل باب اول حدیث ۹)
بلاشبہ زکوٰة سرمایاہ داروں کی آزمائش اور غریبوں کی حاجت پوری کرنے کے لئے واجب کی گئی ہے اور (یقینا)اگر لوگ اپنے مال کی زکوٰة اداکرتے تو مسلمانوں میں کوئی بھی غریب اورفقیر نہ ہوتا اور نہ کوئی دوسرے کا محتاج ہوا اور نہ ہی کوئی بھوکا ننگا رہتا مگر غریبوں پر پریشانی سرمایہ داروں کے گناہ اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔اس صورت میں اللہ تعالیٰ پر واجب ہوتا ہے جو کوئی مالی حقوق ادا نہیں کرتا ہے وہ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھے۔اور میں ذات خداوندی کی قسم کھاتا ہوں کہ جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کی روزی میں کشادگی عطا فرمائی بے شک خشکی اور تری میں کسی قسم کا مال ضائع نہیں ہوتا مگر زکوٰة کے ادا نہ کرنے پر اور تیسرا فائدہ یہ کہ نفس کا بخل جیسی ذلالت سے پاک ہونا اور اس تباہ و برباد کر دینے والی بیماری سے شفا حاصل کرنا ہے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہےْ۔
(
خُذْمِنْ اَمْوٰالَهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْهِم بِهٰا
)
(سورہ ۹ آیت ۱۰۳)
(اے رسول)تم ان کے مال کی زکوٰة لو اور اس کی بدولت ان کو (گناہوں)سے پاک صاف کردو۔
اور سورہ حشر میں اللہ تعالی فرماتا ہے
(
وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهَ فَاُعلٰئِٓکَ هُمُ الْمُفْلِحُونِ
)
۔(سورہ ۵۹ آیت ۹)
اور جو شخص اپنے نفس کو ہوا وہوس سے محفوظ رکھے تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔
اور بخل کا علاج مال سے سخاوت کرنا ہے اور باربار اس طرح کرو تاکہ سخاوت کی عادت پڑجائے اور جس قدر ممکن ہو ان آداب کا خیال کرتے ہوئے صدقات کی ادائیگی کرے تو وہ اس مہلک مرض سے نجات پا سکتا ہے۔
زکوٰة اور صد قہ مال کو زیاد ہ کرتا ہے
زکوٰة کے دینوی نتائج مال کا زیادہ ہونا ہے اگر راہ خدا میں انفاق اس کی شرائط کے ساتھ واقع ہو تو خدائے عزوجل کا یقینی وعدہ ہے کہ اس میں برکت ہو گی اور شیطانی خیال کے برعکس چونکہ بخیل وکنجوس لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ راہ خدا میں انفاق کرنے سے ان کا مال کم ہوجائے گا اور وہ فقیر ہو جائیں گے اور یہی شیطانی خیال انہیں انفاق سے روکے رکھتا ہے جبکہ قرآن مجید میں صراحتاً فرمایا گیا ہے
(
وَیُربِی الصَّدَقٰاتِ
)
۔(سورہ بقرہ آیت ۲۷۶)
خداوند عالم خیرات کو بڑھاتا ہے یعنی دنیا میں اس میں برکت دے گا اور آخرت میں بھی اجر جزیل عنایت فرمائے گا اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے
(
وَمٰا انْفَقْتُم مِنْ شَیءٍ فَهُوِ یُخْلِفُهُ وَهُوَ خَیْرُ الرّٰازِقِیْنِ
)
(سورہ سبا آیت ۳۹)
اور تم لوگ کو کچھ بھی(اس کی راہ میں) خرچ کرتے ہو۔وہ اس کا عوض(اسی دنیا میں)دے گا وہ سب سب بہتر روزی دینے والا ہے۔اور سورہ روم میں فرماتا ہے
(
وَمٰا اٰتَیتُمْ مِنْ زٰکٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰئِکَٓ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ
)
(سورہ روم آیت ۳۹)
اور تم لوگ جو خدا کی خوشنودی کے ارادے سے زکوٰة (واجب اور مستحب صدقات) دیتے ہو تو ایسے ہی لوگ خدا کی بارگاہ سے دو نادون لینے والے ہیں ۔ان آیات مقدسہ میں مال میں برکت اور بہت زیادہ اجر وثواب دونوں شامل ہیں اس بات کی تائید میں بہت زیادہ روایات ہیں حضرت فاطمہ زہراء =کے خطبہ فدک میں ہے۔
فَجَعَلَ اَللّٰهُ الْاِیْمٰانَ تَطْهِیْراً لَّکُمْ مِنْ الشَّرْکِ وَالصَّلٰوةُ تَنْزِیْهاً لَّکُمْ عَنِ الْکِبْرِوَالزَّکوٰةُ تَزْکِیةًلِلنَّفْسِ وَنُمٰآءً فِی الرِّزْقِ
(بحار الانور ج ۸ ص ۱۰۹)
خداوند عالم نے شرک کی نجاست سے پاک ہونے کے لئے ایمان کے حصول کو واجب قرار دیا ہے اور غرور و تکبر کے مرض سے نجاب کے لئے نماز کو واجب کیا ہے اور بخل و کنجوسی کے مرض سے نجات کے لئے زکوٰة کو واجب کیا ہے(تا کہ انسان سخاوت کی فضیلت سے متصف ہو اور گناہوں کی آلودگی سے پاک ہو)اور یہ تمہارے رزق کی زیادتی کا سبب بھی ہے۔
حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ
مَنْ بَسَطَ یَدَهُ بِالْمَعْرُوفِ اِذٰا وَجَدَ هُ یَخْلِفَ اللّٰهُ لَهُ مٰا اَنْفَقَ فِیْ دُنْیٰا هُ فَیُضٰاعِفُ لَهُ فِی اٰخِرَتِه
۔(کافی)
جو کوئی نیکی کی راہ میں خرچ کرے تو خداوند عالم اس کا عوض دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے اجر میں اضافہ کرے گا۔آپ نے مزید ارشاد فرمایا کہاِسْتَنْزِلُوْا الرّزْقَ بِالصَّدَقَةِ
۔(وسائل باب الصدقہ حدیث ۱۹ ج ۶ ص ۲۵۹) صدقہ کے ذریعہ اپنی روزی طلب کرو۔کتاب عدة الداعی میں تحریر ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے فرزند سے فرمایا گھر کے اخراجات کے لئے کتنی رقم موجود ہے ؟انہوں نے کہا چالیس دینار ہیں امام (علیہ السلام) نے فرمایا ان سب کو راہ خدا میں صدقہ کر دو بیٹے نے کہ اسکے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔امام (علیہ السلام) نے فرمایا تم سب کو صدقہ کر دو خداوند عالم ہی اسکے عوض دے گا کیا تم نہیں جانتے کہ ہر چیز کی ایک کنجی ہوتی ہے اور رزق کی کنجی صدقہ(خیرات)ہے پس ان کے بیٹے محمد نے سب دینار صدقہ کر دیئے ابھی دس دن سے زیادہ نہیں گزرنے تھے کہ کہیں سے امام (علیہ السلام) کے پاس چار ہزار دینار پہنچے تو آپ نے فرمایا بیٹا ہم نے چالیس دینار دیئے تو خداوند عالم نے اس کے عوض ہمیں چار ہزار دینار دے دیئے۔
جناب امیر المومنین علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ جب بھی فقیر و محتاج ہو جاو تو خداوند عالم کے ساتھ صدقہ دے کر تجارت کرو۔
عَنِ الَّرضٰا (ع) اَنَّهُ قٰالَ لِمَوْلٰی لَهُ هَلْ اَنْفَقْتَ الْیَوْمَ شیئاً فَقٰالَ لٰا وَاللّٰهِ فَقٰالَ(ع) فَمِنْ اَیْنَ یُخْلِفُ اللّٰهُ عَلَیْنٰا
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے غلام سے فرمایا کہ کیا آج کوئی چیز راہ خدا میں دی ہے؟غلام نے عرض کیا بخدا نہیں تو آب نے فرمایا پس خدائے عزوجل ہمیں عوض کہاں سے دے گا۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) ایک حدیث کے ضمن میں اس آیت فَھُوَ یُخْلِفُہُ یعنی جو کچھ راہ خدا میں خرچ کیا جائے خدا اس کا عوض فوراً دیتا ہے کے بارے میں فرماتے ہیں
اَفَتَرَی اللّٰهة اَخْلَفَ وَعْدَهُ قُلْتُ لٰا قٰالَ فِممَّ قُلْتة لٰا اَدْرِیْ قٰالَ (ع) لَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ اِکْتَسَبَ الْمٰالَ مِنْ حِلِّه وانفقه فی حِله لَمْ یُنْفِقْ دِرْهَماً اِلّٰا اَخْلَفَ عَلَیهِ
(کتاب دعاء کافی ج ۲ ص ۵۹۵)
کیا تم نے یہ گمان کیا کہ خداوعدہ خلافی کرتا ہے راوی نے عرض کیا نہیں امام (علیہ السلام) نے فرمایا پھر تم اپنے انفاق کا عوض کیوں نہیں پاتے۔ اس نے عرض کیا میں نہیں جانتا امام (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی رزق حلال حاصل کر کے اس میں سے ایک درہم بھی راہ حلال میں خرچ کرے تو اسے اس کا عوض ضرور ملتا ے یعنی اگر اس کا عوض نہ ملے پھر یا تو وہ مال حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہے یا بے موقع حرام راہ میں خرچ کیا ہے۔
اس بارے میں بھی آیات وروایات بہت زیادہ ہیں لیکن اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
مرحوم نوری نے کتاب کلمہ طیبہ میں راہ خدا میں صدقہ و خیرات کی فضیلت کے بارے میں چالیس حکایتیں تحریر کی ہیں جن میں عالم زبانی آخوند ملا فتح علی نے ایک واقعہ اپنے قابل اعتماد رشتہ دار کا نقل کیا ہے جنہوں نے بیان کیا کہ ایک سال جبکہ مہنگائی بہت زیادہ تھی میرے پاس زمین کا یاک ٹکڑا تھا جس پر میں نے جو کاشت کر رکھی تھی اتفاقاً میرا کھیت دوسرے تمام کھیتوں سے بہت جلد سر سبز وشاداب ہو گیا اور دانے کھانے کے قابل ہو گئے چونکہ ہر طبقہ کے لوگ پر یشانی اور گرسنگی کی حالت میں تھے میرا دل تڑپا اور میں نے اس کے منافع کا خیال دل سے نکال دیا چنانچہ میں مسجد میں گیا اور اعلان کیاکہ میں نے اس زمین کی جو چھوڑدی ہے اس شرط کے ساتھ کہ ضرورت مند کے سواکوئی اسے ہاتھ نہ لگائے اور فقیر بھی اپنی اور پنے گھر والوں کی ضرورت سے زیادہ نہ لے جب تک کہ تمام کھیتوں کی فصل نہ پک جائے پس فقراء وہاں پر گئے اور ہر روز آکر اپنی ضرورت کے مطابق لے جاتے دیگر مجھے اس کی فکر نہ تھی کیونکہ میں اس سے علیحدہ ہو گیا تھا اور مجھے اس کی کوئی امید نہ تھی۔
اور جب دوسرے تمام کھیتوں کی فصل پک گئی اور لوگوں کی پریشانی خوشحالی میں بدل گئی میں بھی جب اپنے دوسرے تمام کھیتوں کے حساب سے فارغ ہو گیا تو میں نے حصاد(کٹائی فصل) کے کارندوں سے کہا کہ وہ زمین کے اس حصے کی طرف جائیں اور کٹائی کریں شاید وہاں خوشوں میں کچھ جو باقی رہ گئی وہ نکل آئے پس جب انہوں نے جا کر فصل کاٹی تو کوٹنے اور صاف کرنے کے بعد جو جو حاصل ہوئی وہ دوسری زمینوں سے دوگنی تھی یعنی فقرآء کے لے جانے کے باوجود اس میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ اور زیادہ ہو گئی تھی حسب معمول محال تھا کہ ایک خوشہ بھی اس میں باقی رہتا اور اس سے بھی عجیب یہ کہ خزاں شروع ہوئی تو موسم کے مطابق ہر وہ زمین کہ جس پر کاشت کی گئی ایک سال تک اس فصل سے محروم ہو جائے یعنی اس پر سال سے پہلے کاشت نہیں کی جاسکتی لیکن زمین کا وہ حصہ اپنی حالت پر اسی طرح باقی رہا نہ ہل چلایا گیا نہ بیج ڈالے گئے یہاں تک کہ بہار شروع ہو گئی اور برف ختم ہو گئی میں نے دیکھا کہ وہ حصہ بغیر کاشتکاری کے سرسبز و شاداب ہے اور تمام کھیتوں سے زیادہ اچھا اور قوی تر ہے۔
میں اس قدر حیرت زدہ ہو کہ مجھے شک ہو اکہ کہیں یہ کوئی اور زمین تو نہیں اور جب فصل حاصل ہوئی تودوسرے کھیتوں سے کئی گناہ زیادہ تھی اس کے علاوہ مرحوم سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ ان کا سڑک کے کنارے ایک انگوروں کا باغ تھا اور جب شاخوں میں پہلی بار انگور لگے تو انہوں نے باغ کے نگہبان کو حکم دیا کہ باغ کا وہ حصہ جو سڑک سے متصل ہے اسے سڑک سے گزرنے والوں کے لئے چھوڑ دو اس کے بعد سے انگوروں کو توڑنے کا وقت تک ہر گزرنے والے نے وہ انگور کھائے اور پنے ساتھ لے گیا او رکسی کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا اور جب خزاں کے آخر میں انگور توڑنے سے فارغ ہوئے تو اس احتمال کی بناء پر وہاں گئے کہ شاید اس حصے پر کوئی چیز گزرنے والوں سے پوشیدہ رہ گئی ہو اور کچھ انگور پتوں میں چھپے ہوں جب اس حصے سے توڑے ہوئے انگوروں کو لایا گیا تو وہ دوسرے حصے کے انگوروں سے کئی گناہ زیادہ تھے اور تمام راہ گیروں کے کھانے کے باوجود ان میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ زیادہ ہو گئے تھے۔
اس کے علاوہ نقل کیا ہے ہر سال جب گندم کوپاک وصاف کر کے گھر لاتے تھے تب اس کی زکوٰة اداکرتے لیکن ایک سال تصیفہ کے بعد اور گھر لانے سے قبل خیال آیا کہ زکوٰة کی ادائیگی میں تاخیر مناسب نہیں گندم حاضر اور فقرآء موجود ہیں پس جن فقرآء کو جانتے تھے انہیں خبر دی اور گندم کا حساب لگایا فقرآء کے حصے کو الگ کیا اور ان کے درمیان تقسیم کر دیا اور باقی کو گھر لے گئے اور گھر میں گندم بڑے بڑے دبوں میں رکھ دی اور اس کی سب مقدار معلوم تھی لیکن جب بعد میں حساب کیا تومعلوم ہو اکہ وہ مقدار جو فقراء میں تقسیم کی تھی وہ گندم کم نہیں ہوئی تھی اور اس گندم کی مقدار زکوہ دینے سے قبل کی مقدار کے برابر تھی۔
مذکورہ کتاب میں حاجی مہدی سلطان آبادی سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک سال جب میں غلہ سے فارغ ہو اتو گندم کا وزن کیا اور اس کی زکوٰة اسی جگہ اداکردی اس کے بعد وہ غلہ تقریباً ایک ماہ اسی مقام پر رہا تو حیوانات اور چوہے بھی اس میں سے کھاتے رہے اس کے بعد میں نے اس کا وزن کیا تو گندم روز اول کے برابر تھی یعنی جو زکوٰة میں ں ے دی تھی او رجانوروں نے ضائع کر دی تھی اس سے ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔
زکوٰة کی قسمیں ان کے موارد اور مقدار
زکوٰة کی دو قسمیں ہیں واجب اور مستحب اور زکوٰة واجب کی بھی دو قسمیں ہیں مال کی زکوٰة اور بدن کی زکوٰة( زکوٰة فطرہ) زکوٰة کا مال نو چیزوں سے متعلق ہے چار قسم کے غلے(گندم،جو ،خرما،کشمش)تین طرح کے مویشی(گوسفند ،گائے ،اونٹ)اور دو طرح کی نقدین(سونا اور چاندی)۔
چار طرح کے غلوں کا نصاب: گندم، جو، خرما، کشمش،پر زکوٰة تب واجب ہوتی ہے کہ جب ان کی مقدار خاص نصاب تک پہنچ جائے اور وہ نصاب ۲۸۰ من تبریزی سے ۴۵ مثقال کم ہے جو تقریباً ۸۴۷ کیلوگرام ہوتا ہے اور اگر(گندم،جو ،خرما،انگور)کی سینچائی بارش کے پانے یا نہر سے ہوئی ہویازمین کی رطوبت(مثلاً مصر کی بعض زمینوں کی طرح)سے ہوئی ہو تو ان کی زکوٰة دسواں ۱۰ حصہ ہوگی اور اگر کنوئیں کے پانی وغیرہ سے ہوئی ہو تو بیسواں ۲۰ حصہ زکوٰة ہوگی۔
تین طرح کے مویشیوں کا نصاب
( ۱) گوسفند کے پانچ نصاب ہیں:
پہلا نصاب:چالیس ہے اور اسکی زکوٰة ایک گوسفند ہے اور چالیس سے کم پر زکوٰة نہیں ہے۔
دوسرا نصاب:ایک سو اکیس ہے اور اسکی زکوٰة دو گوسفند ہے۔
تیسرا نصاب:دو سو ایک ہے اور اس کی زکوٰة چار گوسفند ہے۔
چوتھانصاب:تین سو ایک اور اس کی زکوٰة چار گوسفند ہے۔
پانچواں نصاب:چار سویا اس سے زیاہ ایسی صورت میں ہر سو سو کا حصہ کرے اور ہر سو گوسفند پر ایک گوسفند زکوٰة دے۔
( ۲) گائے کے دو نصاب ہیں:
پہلا نصاب تیس ہے (پس جب کسی کے پاس تیس گائے ہوں تو زکوٰة واجب ہوجاتی ہے)اوراس کی زکوٰة گائے کاایک بچھڑا ہے جو دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو اور تیس سے کم پر زکوٰة نہیں ہے۔
دوسرا نصاب :چالیس ہے اور ان کی زکوٰة گائے کا ایک مادہ بچہ ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو اور ساٹھ پر دو سالہ دو بچھڑے،ستر پر ایک دوسالہ بچھڑا اور ایک تین سالہ بچھڑا اور اسی طرح جس قدر مقدار بڑھتی جائے تو تیس تیس یا چالیس چالیس کا حساب کرے اور زکوٰة دے۔
( ۳) اونٹ کے بارہ نصاب ہیں:
پہلا نصاب: پانچ اونٹ اور ان کی زکوٰة ایک گوسفند ہے اور جب تک عدد اس سے کم ہو تو ان پر زکوٰة نہیں ہے۔
دوسرا نصاب:دس اونٹ اور ان کی زکوٰة دو گوسفند ہے۔
تیسر نصاب:پندرہ اونٹ اور ان کی زکوٰة تین گوسفند ہے۔
چوتھانصاب:بیس اونٹ اور ان کی زکوٰة چار گوسفند ہے:
پانچواں نصاب:پچیس اونٹ اور ان کی زکوٰة پانچ گوسفند ہے۔
چھٹا نصاب :چھبیس اونٹ اور ان کی زکوٰة ایک دو سالہ اونٹ ہے۔
ساتواں نصاب: چھتیس اونٹ اور ان کی زکوٰة ایک تین سالہ اونٹ ہے۔
آٹھواں نصاب:چھیالیس اونٹ اور انکی زکوٰة ایک چار سالہ اونٹ ہے۔
نواں نصاب:اکسٹھ اونٹ اور ان کی زکوٰة پانچ سالہ اونٹ ہے۔
دسواں نصاب:چھہتر اونٹ اور ان کی زکوٰةتین سالہ دو اونٹ ہے
گیارہواں نصاب:اکانوے اونٹ اور ان کی زکوٰة چار سالہ دو اونٹ ہے۔
بارہواں نصاب:ایک سو اکیس اونٹ اور اس کے اوپر جس قدر بڑھتے جائیں تو ان کی زکوٰة پر چالیس اونٹوں پر ایک تین سالہ اونٹ ہوگی یا ہر پچاس اونٹوں پر ایک چارسالہ اونٹ ہوگی۔
سونے اور چاندی کانصاب
سکّے دار چاندی کے دونصاب ہیں:
پہلانصاب :ایک سو پانچ مثقال ہے اگر ایک سال تک رکھا ہوا ہو اور اس کا کوئی معاملہ بھی طے نہ ہو توواجب ہے کہ ۴۰/۱ حصہ یعنی ۲ مثقال اور پندری چنے کے برابر زکوٰة دینا ہو گی(اور اگر چاندی اتنی نہ ہوتو پھر اس کی زکوٰة دینا واجب نہیں ہے)۔
دوسرا نصاب : ۲۱ مثقال ہے یعنی جب ایک سو پانچ مثقال سے اکیس مثقال اور زیادہ ہوجائے تو پھر تمام ۱۲۶ مثقال چاندی، ۴۰/۱ حصہ زکوٰة دے اور اگر چند سال (چاندی)رکھی ہو تو ہر سال واجب ہے کہ ۴۰/۱ حصے کو بطور زکوٰة ادا کرے سوائے اس کے کہ پہلے نصاب سے بھی کمتر ہوجائے۔
سکے د ارسونے کے بھی دو نصاب ہیں
پہلا نصاب :بیس مثقال شرعی ہے جن میں سے ہر ایک مثقال اٹھارہ چنے کے برابر ہوتا ہے جومعمولاًپندرہ مثقال کے برابر ہے اورجب بھی بیس مثقال شرعی سونا ایک سال تک رکھا ہو توواجب ہے کہ ۴۰/۱ حصہ جونو چنے کے دانوں کے برابر ہوتا ہے اس کی زکوٰة دے۔
دوسرا نصاب :چار مثقال شرعی ہے یعنی جب بیس مثقال میں چار مثقال اور زیادہ ہو جائیں تو سب کا ۴۰/۱ حصہ ادا کرے اوراگر کمتر اضافہ ہوتو وہی نصاب اوّل کے نو چنے کے برابر کافی ہے اسی طرح جتنا بڑھے گا یعنی چار اضافہ ہو تو سب کی زکوٰة دے اور اگرچارسے کم اضافہ ہوتو زیادہ کی زکوٰة نہیں ہے بطور کلی جب بھی چاندی ۱۰۵ مثقال اور سونا ۱۵ مثقال سے معمولاً زیادہ ہو تو اگر ان سب کا ۴۰/۱ حصہ ادا کردے تو واجب ادا ہوجاتا ہے بلکہ تب بھی زیادہ ہی دیا ہے۔
جس قدر ذکر ہوا یہ زکوٰة کے مجمل احکام تھے اور اس کے مفصل مسائل اور فروعات رسالہ عملیہ میں موجود ہیں اور جو(افراد)جاننا چاہتے ہوں وہ ان (رسائل عملیہ)کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
زکوٰة فطرہ
جو شخص عید الفطر کی رات میں(اوّل ماہ شوال)غروب آفتاب کے وقت بالغ وعاقل وغنی(جوکوئی فعلاً یا مہینے پر یا سال کے آخر میں اپنے ذریعہ آمدنی سے سال بھر کے اخراجات پورے کر سکتا ہو وہ غنی ہے)ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ اپنا اور جن لوگوں کی خوردونوش اسکے ذمے ہے یہاں تک کہ دودھ پیتے بچے اورمہمان ہر ایک کے لئے ایک صاع جو تقریباً تین کلو گرام کا ہوتا ہے گندم یا کھجور یا کشمش یا چاول،روٹی وغیرہ (بطورفطرہ)کسی مستحق کو دے اور اگران میں سے کسی ایک کی قیمت بھی ادا کردے تو کافی ہے۔
یاد رکھیے! زکات فطرہ کے فوری فوائد اس سال کی موت ہے امان میں رہنا ہے (یعنی ناگہانی موت سے نہ کہ حتمی )مروی ہے کہ
اَنّهُ قٰالَ عَلَیهِ السَّلٰامُ لِوَکَیْلِهِ اِذْهَبْ فَاَعْطِ مِنْ عِیٰالِیَ الْفِطْرَةَ اَجْمَعِهِمْ وَلٰاتَدَعْ مِنْهُمْ اَحَداً فَاِنَّکَ اِنْ تَرَکْتَ مِنْهُمْ اَحَداًتَخَوَّفْتُ عَلَیْه الْفَوْتَ قُلْتُ وَمَاالْفَوْتُ؟قٰالَ عَلَیهِ السَّلاٰمُ اَلْمَوْتُ
۔
جناب امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے وکیل اخراجات سے فرمایا جاو میرے تمام گھروالوں کی زکات فطرہ ادا کرو اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہ کرنا کیونکہ اگر اس کی زکوٰة نہیں دی گئی تو مجھے اس کے فوت ہو جانے کا خوف لاحق رہے گا۔میں نے عرض کیا فوت سے آپ کی کیا مراد ہے؟فرمایا موت اور اس کاثواب ایک مہینے کے روزوں کا قبول ہونا ہے۔امام (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا:اِنَّ مَنْ تَمٰامِ الصَّوْمِ اِعْطٰآء ُ الزَّکٰوةِ
یعنی زکوٰة فطرہ ماہ مبارک رمضان کے روزوں کو کامل کرتی ہے۔
زکوٰة کا مصرف
(
اِنَّمَا الصَّدَقٰاتُ لِلْفُقَرآءِ وَالْمَسٰاکِیْنَ وَالْعٰامِلِیْنَ عَلَیْهٰا وَالمُولَّفِته قُلُوْبُهُم وَفِی الرِّقٰابِ وَالغٰارِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ علِیْمٌ حَکِیمٌ
)
۔ (سورہ توبہ آیت ۶۰)
خیرات تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا اور اس (زکوٰة)کے کارندوں اور جن کی تالیف قلب کی گئی ہے اورغلاموں کو آزاد کرنے اورقرض داروں کا(جو خود سے ادا نہیں کر سکتے) اور خدا کی راہ میں جہاد میں اور پردیسیوں کی کفالت میں(خرچ کرنا چاہیے یہ حقوق)خدا کی طرف سے مقرر کئے ہوئے ہیں اورخدا بڑا دانا اور صاحب حکمت ہے۔ زکوٰة کے مال کو آٹھ جگہوں پرخرچ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ اس آیت شریفہ میں ذکر ہے۔
( ۱) فقیر پر اور فقیر سے وہ شخص مرد ہے جس کے پاس اپنے اہل و عیال کے لئے سال بھر کا بھی خرچ نہ ہو(نہ فعلاً ہو )یعنی ابھی موجود)نہ بعد میں ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو)پس جو کوئی صنعت،جائیداد ،یامال رکھتا ہو اور اپنا اور اپنے گھر والوں کا سال بھر کا خرچہ پورا کر سکتا ہو تو فقیر نہیں ہے۔
( ۲) مسکین پر اور مسکین وہ ہے جو فقیر سے زیادہ تنگ دست ہو۔
( ۳) اس شخص کو زکوٰة دی جاسکتی ہے جوامام یا نائب امام کی طرف سے زکوٰة جمع کرے اور اسے امام نائب امام یا مستحق تک پہنچاتا ہو۔
( ۴) ان مسلمانوں کو جن کا ایمان کمزور ہے ان کی تقویت اور ثابت قدمی کیلئے زکوٰة دی جاسکتی ہے۔
( ۵) جو غلام سختی میں مبتلا ہوں انہیں آزاد کرناے کی نیت سے یا خریدنے پر زکوٰة خرچ کر سکتے ہیں۔
( ۶) اس مقروض کو جو اپنا قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو زکوٰة دے سکتے ہیں۔
( ۷) راہ خدا میں زکوٰة خرچ کی جاسکتی ہے اور اس سے مراد ہر ہو کام ہے کہ جس میں عمومی دینی فائدہ ہو مثلاًمساجد یا ایسا مدرسہ قائم کرنا تا کہ جہاں پر دینی تعلیم دی جاتی ہو یا پل بنانا یا دو گروہوں یا دو افراد کے درمیان صلح کرانا یا عبادات میں مدد دینا وغیرہ۔
( ۸) ایسے مسافر پر خرچ کی جاسکتی ہے جو سفر میں مجبور ہو چکا ہو اور قرض لے کریا اپنی کوئی چیزبیچ کر اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہو اگر چہ وہ اپنے شہر میں فقیر نہ ہو۔
مستحب زکوٰة
سات چیزوں میں زکوٰة مستحب ہے:
( ۱) سرمایہ یعنی ایسا مال جسے انسان تجارتی معاملات میں خرچ کرنا چاہتا ہو۔
( ۲) دالوں کی قسمیں مثلاًچاول،چنے،دال،ماش وغیرہ لیکن سبزیوں مثلاً بینگن، کھیرے، تربور و خربوزہ کی زکوٰة نہیں ہے۔
( ۳) مادہ گھوڑے۔
( ۴) زیور اور بناو سنگھار کی چیزیں مومنین کو عاریتاً دینا۔
( ۵) چھپا ہوایا دفن کیا ہوامال کہ جس میں مال تصرف نہیں کر سکتا ہوپس استطاعت کی صورت میں مستحب ہے کہ اس کی ایک سال کی زکوٰة ادا کرے۔
( ۶) جب بھی زکوٰة سے چھٹکارا پانے کے لئے نصاب میں تصرف کرے (یعنی زکوٰة کے نصاب کو اس قدر گرادے مثلاً ایک سال ہونے سے پہلے اس کے ایک حصے کو بیچ دے)تو مستحب ہے کہ سال شروع ہونے پر اس مال کی زکوٰة دے۔
( ۷) مال اجارہ یعنی گھر،دوکان،باغ،حمام وغیرہ کی کرایہ و اجارہ پر۔
فوت شدہ نماز کی قضاء ضرور ادا کرنا چاہیئے
واجب نمازوں کی قضا میں سستی کرنا جائز نہیں چنانچہ اگر قضاء نمازوں میں سے کچھ اس کے ذمے باقی ہیں توواجب ہے کہ وصیت کرے تو اس کے وصی پر واجب ہو جاتا ہے کہ اسکی بابت اس کے مال کے تیسرے حصے میں سے۔
د وسرے واجب انفاق
زکوٰة کے بعد اہم ترین واجب الہٰی خمس ہے کہ جسے خداوند عالم نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ان کی آل کے لئے زکوٰة کے بدلے میں کہ جو ان پر حرام ہے ،مقرر فرمایا ہے اورجو کوئی خمس میں سے ایک درہم یا اس سے بھی کمتر نہ دے تو وہ حق آل محمد (علیہم السلام) پر ستم کرنے والوں اور غصب کرنے والوں میں ہوگا اور اگر اسے(اپنے لئے)حلال سمجھے اور اس کے وجوب کا منکر ہو تو ہو کافرین میں سے ہے حالانکہ اس کا وجوب اجماع مسلمین کی نگاہ میں اور قرآن مجید میں واضح ہے بلکہ قرآن پاک میں اسے خدا پر ایمان کی شرط بتایا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(
وَاعْلَمُوا اَنَّمٰا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَاَنَّ اللّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰامٰی وَالْمَسٰاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمٰا اَنْزَلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا یَوْمَ الْفُرْقٰانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰانِ وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شیْءٍ قَدِیْرٌ
)
(سورہ انفال آیت ۴۱)
اورجان لو جو نفع تم کسی چیز سے حاصل کرو تو اس میں سے پانچواں حصہ خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پردیسیوں کا ہے اور اگر تم خدا پر اور اس(غیبی امداد) پر ایمان لا چکے ہوجو ہم نے اپنے(خاص)بندے(محمد)پر فیصلہ کے دن(جنگ بدر میں)نازل کی تھی جس دن(مسلمان اور کافروں کی)دو جماعتیں باہم گتھ گئیں تھیں اورخدا تو ہرچیز پر قادر ہے۔
امام جعفرصادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں۔
اِنَّ اللّهَ حَیْثُ حَرَّمَ عَلَیْنٰا الصَّدَقَةَ اَنْزَلَ لَنَا الْخُمْسَ فَالصَّدَقَةَ عَلَیْنَا حَرٰامٌ وَالْخُمْسَ لَنٰا فَرِیضَةٌ واَلْکَرٰامَةَ لَنٰا حَلٰالٌ
(من لایحضرہ الفقیہ ج ۲ ص ۴۱)
چونکہ خداوند عالم نے ہم اہل بیت پر زکوٰة کو حرام اور خمس ہمارے لئے واجب اور ہدیہ ہمارے لئے جائز ہے۔
عَنِ الْاِمٰامِ الْبٰاقِرِ (ع) لٰا یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّشْتَرِیْ مِنَ الْخُمْسِ شَئاً حَتٰی یَصِلَ اِلَیْنٰا حَقَّنٰا
۔ (اصول کافی ج ۱ ص ۵۴۵)
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کسی کے لئے اس مال میں سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں جسکا خمس ادا نہ کیا ہواور جب تک کہ ہمارے حقدار کو اس کا حق ادا نہ کرے۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں۔
اِنَّ اَشَدَّ مٰافِیهِ النّٰاسَ یَوْمَ الْقِیٰامَةَ اَنْ یَّقُوْمَ صٰاحِبَ الْخُمْسِ فَیَقُوْلپ یٰا رَبَّ خَمِّسْنِی
(کافی جلد اول ص ۵۴۶)
روز قیامت لوگوں کے لئے سخت ترین وقت وہ ہوگا جب خمس کے مستحقین اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان لوگوں سے جہنوں نے (خمس )ادا نہ کیا ہوگا اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔
رزق کی وسعتِ مال کی پاکیزگی کل کاذخیرہ
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کے دوستوں میں سے فارس کے کسی ایک تاجر نے امام کو خط لکھا اور اس مال میں کہ جس کا خمس ادا نہیں کیا تھا تصرف کی اجازت چاہی امام (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں یہ تحریر فرمایا۔بلاشبہ خداوند عالم واسع اور کریم ہے اورخداوند عالم نے اس شخص کے لئے ثواب اور جزائے خیر کی ضمانت دی ہے کہ جو اس کے احکامات پر عمل کرے اور اس کے لئے عذاب ہے کہ جو اس کی مخالفت کرے بے شک انسان کیلئے صرف وہی مال جائز ہے جسے خداوند عالم نے حلال کیا ہو اور یقینا خمس ہماری ضرورت ہے اور ہمارے دین کا حکم ہے ہمارے اور ہمارے دوستوں کے روزگار کاذریعہ ہے اور ہماری عزتوں کی حفاظت پر خرچ کرنے کے لئے ہے یعنی جن لوگوں کی طرف سے ہمیں اذیت پہنچنے کا خدشہ ہے ۔
پس ہمیں خمس دینے سے اجتناب نہ کرو۔اور جس حد تک ہو سکے اپنے آپ کو ہماری دعاوں سے محروم نہ کرو یقینا خمس دینا تمہاری روزی کے وسیع ہونے اور گناہوں سے پاک ہونے کاسبب ہے اور اس پریشانی و بیچارگی کے دن(روز قیامت) کا ذخیرہ ہے اور مسلمان وہی ہے کہ جو کچھ اطاعت و بندگی میں اس نے خداوند عالم سے عہد کیا ہے اسے پورا کرے اورجو کوئی زبان سے قبول کرے اور دل سے مخالفت تو وہ مسلمان نہیں ہے۔
(وافی ،کافی اور تہذیب سے نقل شدہ)
حضرت حجت بن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ نے اپنے خاص نائب محمد بن عثمان کے ذریعہ ابو الحسن اسدی کو ایک خط بھیجا کہ جس میں تحریر فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلاٰئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ عَلٰی مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ مٰالِنٰا دِرْهَماً قٰالَ اَبُوالْحُسَنِ الْاَسَدی فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ اَنَّ ذٰالِکَ فِیْ جَمِیْعِ مَنِ اسْتَحَلَّ حَرٰاماً فَاَیِّ فَضْلٍ لِلْحُجّةِ عَلَیْهِ السَّلاٰمُ فِیْ ذٰالِکَ قٰالَ فَوَالَّذِیْ بَعَثَ مُحَمَّداً (صلی الله علیه و آله) بِالْحَقِّ بَشِیْراً لَقَدْ نَظَرْتُ بَعْدَ ذٰالِکَ فِیْ التَّوفیْعِ فَوَجَدَتُهُ قَدِ انْقَلَبَ اِلٰی مٰافِیْ نَفْسِیْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلاٰئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ عَلٰی مَنْ اَکَلَ مِنْ مٰالِنٰا دِرْهَماً
(اکمالُ الدّین صدوق باب توقیعات ص ۵۶۳)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔اللہ تعالیٰ ملائکہ اور تمام لوگوں کی اس شخص پر لعنت ہے کہ جوہمارے مال میں سے ایک درہم بھی جائز سمجھتا ہو ابو الحسن اسدی کہتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ اس لعنت کا مستحق وہ ہے کہ جو امام (علیہ السلام) کا کسی قسم کا مال کھا نا جائز سمجھتا ہو(نہ یہ کہ وہ شخص جو حلال سمجھنے بغیر کھائے اور تمام محرمات الہٰی میں یہی حکم ہے یعنی جو بھی حرام خدا کو حلال سمجھے تو وہ اس کی لعنت کا مستحق ہو گا تو اس بناء پر امام (علیہ السلام) کا مال کھانے اور دیگر محرمات میں کوئی فرق نہیں)پس اس خدا کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو بشارت دینے والے کی حیثیت سے برگزیدہ فرمایا میں نے دیکھا اس خط میں جو کچھ تحریر تھا فوراً مٹ گیا اور اس کی جگہ یہ تحریر ہو اکہ خدائے عزوجل،ملائکہ اور تمام لوگوں کی اس شخص پر لعنت ہے جو ہمارے مال میں سے (حق سادات سے)ہماری اجازت کے بغیر ایک درہم بھی کھائے،یعنی بے شک اسے حلال نہ سمجھتا ہو اور اس کے علاوہ خمس کے حکم کی تاکید کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں۔(اکمال الدین صدوق باب توقیعات ص ۵۶۳)
وجوب خمس کے موارد اور ان کا مصرف
خمس سات چیزوں پر واجب ہے:
( ۱) جنگ کا مال غنیمت
( ۲) جواہرات جو غوطہ خوری کے ذریعے حاصل ہوں
( ۳) کانیں
( ۴) خزانہ
( ۵) کاروبار وغیرہ کا نفع
( ۶) وہ حلال مال جو حرام میں مخلوط ہو گیا ہو اور جس کی مقدار معلوم نہ ہو
( ۷) وہ زمین جسے کافر ذمی مسلمان سے خریدے۔
ان میں سے ہر ایک کی شرائط اور احکام عملیہ رسالے میں ذکر کئے گئے ہیں۔خمس کے دوحصے کرنا چاہئیں ایک حصہ سادات کا ہے جو کسی ایسے سید کو دیں جو فقیر ہو ،یتیم ہو یا جس کا زادراہ سفر میں ختم ہو چکا ہو۔خمس کا دوسرا حصہ امام زمانہ (علیہ السلام) کا ہے جو ان کی غیبت میں ان کے نائب مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے یا اس کا م میں لگایا جائے جس کی مجتہد جامع الشرائط نے اجازت دی ہو۔
کتاب کلمہ طیبہ میں چالیس حکایتیں سادات جلیلہ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے اور اس سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کا ذکر کیا گیا ہے ہم ان میں سے ایک حکایت یہاں بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔
اربعین منتخب الدین اورکتاب فضائل شاذان،اور کتاب تحفت الازھار وسیلتہ المال میں متعدد اسناد سے نقل کیا گیا ہے کہ ابراہیم بن مہران سے کہ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں میرے پڑوس میں ابو جعفرنامی ایک خوش اخلاق آدمی تھا جب بھی کوئی سید اس کے پاس جاکر چیز طلب کرتا تو وہ اسے دے دیتا اور اگر وہ سید قیمت ادا کرتا تو رکھ لیتا ورنہ اپنے غلام سے کہتا کہ لکھ لو کہ یہ رقم علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے لی ہے اور ایک عرصے تک اس کی یہی روش رہی اور جب حالات نے اسے فقیر و محتاج کر دیا تو ایک روز وہ گھر میں بیٹھا ہوا اپنے سابقہ حساب کتاب کے رجسٹر کو دیکھ رہا تھا اور اگر اس میں سے اپنے کسی مقروض کو زندہ پاتا تو اپنا آدمی بھیج کر اپنی رقم طلب کرتا اور اگر مقروض زندہ نہ ہوتا اور نہ ہی اس کا کوئی مال ہوتا تو اس کے نام نیچے ایک خط کھینچ دیتا۔انہی دنوں ایک رات وہ گھر کے دروازے پر بیٹھا ہوا اپنا رجسٹر دیکھ رہا تھا کہ ایک ناصبی آدمی کا وہاں سے گزر ہوا تو اس(ناصبی)نے مذاق اڑاتے ہوئے طنزاً کہا کہ تمہارے بڑے مقروض علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟
ابو جعفر نے جب اس کی یہ بات سنی توبہت دل برداشتہ ہوا اور اٹھ کر چلا گیا۔اسی رات اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) تشریف فرما ہیں اور ان کے ساتھ امام حسن وحسین + بھی ہیں۔رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان سے فرمایا تمہارے والد کہاں ہیں؟تو امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے جواب دیا میں یہاں موجود ہوں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آنحضرت نے فرمایا اس شخص کا حق کیوں نہیں ادا کرتے تو انہوں نے فرمایا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں اس شخص کاحق لے کر آیا ہوں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا اسے دے دو انہوں نے ایک سفید اون کی تھیلی اسے دی اور فرمایا یہ ہے تمہارا حق اس کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا یہ لے لواور جب بھی اس کے فرزندوں میں سے کوئی تمہارے پا س آئے اور جو چیز تمہارے پاس موجود ہو مانگے تو اسے خالی ہاتھ نہ لوٹانا جاواس کے بعد تمہارے لئے کوئی پریشانی و محتاجی نہیں ہوگی۔
اس آدمی کا کہنا ہے کہ جب میں خواب سے بیدار ہواتو میرے ہاتھ میں وہی تھیلی موجود تھی میں نے اپنے بیوی کو جگایا اور کہا کہ چراغ روشن کرد جب میں نے تھیلی کھولی تو اس میں پوری ہزار اشرفیاں تھیں میری بیوی نے کہا اے بندہ خدا کچھ خوف خدا کرو کہیں اس غربت و فقر نے تمہیں بعض تاجروں کا مال لینے پر اکسایا ہو اور یہ انہی کامال ہو میں نے کہا بخدا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ قصہ اس طرح ہے اور جب میں نے اپنا رجسٹر منگوا کر اس میں وہ رقم جو علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے عنوان سے ان کی اولاد کو دی تھی دیکھی تو وہ کل ہزار اشرفیاں تھیں نہ کم اور نہ زیادہ۔
وہ عیال کہ جن کا نفقہ واجب ہے
واجب نفقوں میں سے زوجہ دائمی جو کہ اطاعت گزار ہو کا نفقہ اور اس کی اولاد اور اسکی اولاد جس قدر نیچے جاتے جائیں ضرورت مند ہونے کی صورت میں واجب ہے اور ماں باپ اور باپ کا باپ ماں کی ماں جس قدر اوپر جاتے جائیں اور وہ بھی ضرورت مند ہونے کی صورت میں انسان میں واجب نفقہ کو دینے کی حد تک طاقت ہو کہ اگر نہ دے تو لوگوں کی نگاہ میں قطع رحم ہو گا کہ جس کی تفصیل قطع رحم میں گزر چکی ہے۔
( ۱) مستحب انفاق
مستحب انفاق کی کئی قسمیں ہیں۔آیات وروایات متواترہ میں اس بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے خصوصاً اہم اوقات مثلاًجمعہ کے دن،روز عرفہ اور ماہ رمضان میں یا خاص افراد کے لئے مثلاً پڑوسی،رشتہ داروغیرہ۔صدقہ مرض کی دوا،بلا کو دور کرنے والا ،رزق کو نازل کرنے والا ،مال کو زیادہ کرنے والا اور ناگہانی آفات مثلاً بری موت،جلنا،غرق ہونا اور جنون کو موخر کرتا ہے ہے یہاں تک کہ ستر ملاوں کو دور کرتا ہے جس قدر ازیادہ دیا جائے اتنا ہی نتیجہ اچھا ہوگا اور اس کے کم ہونے کی بھی کوئی حد نہیں ہے خواہ کھجور کے ایک دانے کے برابر ہو۔
( ۲) ہد یہ
وہ چیز کہ جسے کوئی شخص دوستی کو بڑھانے کے لئے اپنے کسی غریب یا امیر مومن بھائی کو دے اور اگر یہ قصد قربت کے ساتھ ہو تو افضل عبادات میں سے ہے۔امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ
لَئِنْ اَهْدٰی لِاَخِیَ الْمُسْلِمِ هَدِیَّةً اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنَّ التَّصَدَّقَ بِمِثْلِهٰا
۔(کافی ج ۵ ص ۱۴۴)
اگر میں اپنے مومن بھائی کو بطور ہدیہ کوئی چیز دوں تو اسے صدقہ دینے سے زیاہد پسند کرتا ہوں۔
( ۳) ضیافت
مومن کی مہمان نوازی کی فضیلت کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں اوریہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اخلاق میں سے ہے مروی ہے کہ سات روز گزر چکے تھے اور امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے پاس کوئی مہمان نہیں آیا تو آپ روتے ہوئے فرمانے لگے میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں خداوند عالم نے مجھ پر سے لطف وکرم کی نظر تو نہیں ہٹالی۔
( ۴) حق معلوم اورمحروم
مال کی وہ مقدار کہ جسے کوئی مسلمان اپنی جائداد اور حیثیت کے مطابق اپنے لئے لازم کرلے کہ ہر روز یاہر ہفتہ یا ہر مہینہ باقاعدگی سے ضرورت مندوں اور اپنے رشتہ داروں کو ادا کرے گا چنانچہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے
(
وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوٰالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِلّسّٰائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ
)
۔(سورہ معارج آیت ۲۴ ۔ ۲۵)
اور جن کے مالوں میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (محروم)کے لئے حصہ مقرر ہے۔حضرت امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح آدمی تھا کہ جس کی ایک صالحہ بیوی تھی ایک دن اس آدمی سے خواب میں کہا گیا کہ خداوند عالم نے تمہاری اتنی عمر مقرر کی ہے کہ جس میں سے نصف عمر خوشحالی میں بسر ہو گی اور نصف غربت و تنگ دستی میں اورخداوند عالم نے تمہیں یہ اختیار دیا ہے کہ تم اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں خوشحالی چاہتے ہو یا آخری حصے میں یا اس کے برعکس چاہتے ہو؟اس آدمی نے جواب دیا میری ایک نیک بیوی ہے جو ہر کام میں میری شریک ہے میں اس سے مشورہ کر لوں تو جواب دوں گا اورجب صبح کو اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے کہا عمر کے ابتدائی حصے میں خوشحالی کو قبول کرو اور اس عافیت کو پالینے میں جلدی کرو شاید خدائے عزوجل ہم پر رحم فرمائے اور اپنی نعمتوں کو ہم پر تمام کرے اور جب دوسری رات اس آدمی سے خوب میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ عمر کے پہلے حصے کو خوشحالی میں گزارنا چاہتا ہوں ۔
پس کہا گیا تمہارے لئے ایسا ہی ہو گا اس کے بعد سے ہر طرح کی نعمت و آسائش حاصل ہو گئی اور اس کے پاس مال و دولت فروان ہو گیا تو اس کی بیوی نے اسے کہا اے بندہ خدا اب تم اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں کی مدد کرو اور ان کے ساتھ نیکی کا برتاو کرو اور فلاں پڑوسی اور فلاں ہمسایہ کو فلاں چیز بخش دو اس آدمی نے اپنی بیوی کے مشورے پر عمل کیااور اپنے مال کی سخاوت میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں کی یہاں تک کہ اس کی آدھی عمر گزر گئی تو اس آدمی نے دوبارہ اسی شخص کو خواب میں دیکھا جو یہ کہہ رہا تھا کہ تم نے راہ خدا میں انفاق کرنے سے گریز نہیں کیا اس لئے خداوند عالم نے تمہارے اس نیک عمل کے بدلے میں تمہاری عمر کے آخری حصے میں بھی اسی طرح خوشحالی لکھ دی ہے۔
( ۵) حق حصاد
زراعت کی وہ مقدار کہ جو فصل کی کٹائی کے وقت زکوٰة میں حساب کئے بغیر راستے سے گزرنے والوں کو ایک ایک مٹھی دی جائے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے واتو احقہ یوم حصادہ(سورہ ۶۹ آیت ۱۴۱) اور فصل کاٹنے کے دن خدا کا حق دے دو۔
صدقے کی قسموں میں یہ دو قسم کاصدقہ مستحب ہے چونکہ آیات و روایات میں اسکا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اسی لئے ان کی اہمیت کے پیش نظر دونوں کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے۔
( ۶) قرض الحسنہ
یعنی ایسے مسلمان جسے قرض کی ضرورت ہو قرض الحسنہ دینا امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:مَکْتُوْبٌ عَلٰی بٰابِ الْجَنَّتِه اَلمَّلَقتهُ بِعَشَرَةِ وَالْفَرْضُ لَمٰائِمَتهً عَشَرَ
(کافی) بہشت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے صدقہ دینے کی دس نیکیاں اور قرض الحسنہ کی اٹھارہ نیکیاں ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا:
مٰا مِنْ مُومِنٍ اَقَرْضَ مُومِناً بَلْشَمِسُ بِه وَجْهَ اللّٰهِ اِلاّٰ حَسِبَ اللّٰهُ لَهُ اَجْرَهُ بِحِسٰابِ الصَّلَقَتِه حتّیٰ یَرْجِعَ مٰالُهُ اِلَیْهِ
جب بھی کوئی مومن رضائے خدا کے لیے کسی مومن کو قرض دے تو خداوند عالم اس (قرض) کے واپس مل جانے تک اسے صدقہ میں شمار کرتا ہے۔(وافی)
یعنی ہر وہ لمحہ کہ جب وہ خدا کی رضا کے لیے (مقروض) کو مہلت دے تو ایسا ہے کہ اس نے اس تمام مال کو صدقہ کر دیا ہے کیونکہ وہ اس وقت مطالبہ کا حق رکھتا ہے لیکن مطالبہ نہیں کرے تو ایسا ہے کہ اس نے دو مرتبہ مال میں سے قرض دیا ہے پس وہ اس مال کے دوسرے اجر یعنی صدقہ کر دینے کا مستحق ہو گا۔
اس کے علاوہ آپ ہی سے مروی ہے کہ "مٰاعُوْن" (گھریلو سامان) کہ جس کے ترک پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا ہے وہ زکوٰة نہیں بلکہ اس سے مراد ضرورت مندوں کو قرض دینا اور طلب کرنے والوں کو عاریتاً گھریلو اشیاء دینا ہے۔
ابوبصیر نے آنحضرت سے عرض کیا ہمارے پڑوسی جب بھی ہم سے کوئی چیز عاریتاً لیتے ہیں تو اسے توڑ پھوڑ دیتے ہیں یا خراب کر دیتے ہیں اگر ہم انہیں منع کر دیں تو کیا ہمارے سر گناہ ہے؟ امام (علیہ السلام)نے فرمایا اگر وہ لوگ ایسے ہیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
( ۷) مقروض کو مہلت دینا یا اس کو بخشنا
ایسے مقروض کو مہلت دینا یا بخش دینا جو قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:مَنْ اَرٰادَ اَنْ یُظِلَّهُ اللّٰهُ یَوْمَ لاٰظِلَّ اِلاَّ ظِلَّهُ فَلْیَنْظُرْ مُعْسِرًاً اَوْیَدْعُ لَهُ مِنْ حَقِّه
جو کوئی اس دن خدائے بزرگ وبرتر کی پناہ میں رہنا چاہتا ہے کہ جس دن ااس کی پناہ کے علاوہ کوئی پناہ نہ ہوگی تو اسے چاہئے کہ مجبور وعاجز مقروض کو مہلت دے یا یہ کہ اسے بخش دے۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں۔ مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِراً کٰانَ لَہُ عَلَی اللّٰہِ فِی کُلِّ یَوْمٍ ثَوٰابَ صَدَقَةٍ بِمِثْلِ مٰالَہ حَتّٰی یَسْتَوْ فِیہِ جو کوئی مجبور مقروض کو مہلت دے تو(اس کے لئے اس کا ثواب خداوند عالم کے نزدیک ہر روز صدقہ دینے کے برابر ہے جب تک وہ مال اسے واپس نہیں مل جاتا۔)
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے عرض کیا گیا کہ عبد الرحمان بن سبابہ ایک مردہ شخص سے قرض کا طلبگار ہے ہم نے اس سے کہا کہ اسے بخش دو لیکن وہ قبول نہیں کرتا امام نے فرمایا :
فَقٰالَ (ع) وَیْحَهُ اَمٰا یَعْلَمُ اَنَّ لَهُ بِکُلِّ دِرْهَمٍ عَشَرَة اِذٰا حَلَّلَهُ وَاِنْ لَّمْ یُحَلِلَّهُ فَاِنَّمٰا هُوَ دِرْهَمٌ بِدْرِهَمٍ
وائے ہو اس پر کیا وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس مردے کو قرض بخش دے گا تو ہر درہم کے مقابلے میں بدلے میں صرف وہی ایک درہم پائے گا جس کا طلبگار ے۔
ضرورت مندوں کے لئے لباس ومسکن میں سخاوت
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
مَنْ کَسٰا اَخٰاهُ کِسْوَةَ شَتٰآءٍ اَوْصیفاً کٰانَ حَقّاً عَلَی اللّٰهِ اَنْ یَّکْسُوهُ مِنْ ثِیٰابِ الْجَنَّتهِ واَنْ یُهَوِّنَ عَلٰیهِ مِنْ سَکَرٰاتِ الْمَوْتِ وَاَنْ یُوسعَ عَلَیهِ فِیْ قَبِره وَاَن یَّلْقٰی الْمَلٰائِکٓتَهَ اِذٰا خَرَجَ مِنْ قَبْرِة بِالْبُشْریٰ
۔(کافی ج ۲ ص ۲۰۴)
جو کوئی اپنے مومن بھائی کو سردی یا گرمی کالباس پہنائے کو خدا وند عالم پر اس کا حق ہے کہ اسے بہشت کے لباسوں میں سے لباس پہنائے اور موت کے وقت جان کنی کی سختیوں سے اسے امان میں رکھے اور اس کی قبر کو اس کے لئے کشادہ کردے اور قیامت میں جب اپنی قبر سے باہر نکلے تو ملائکہ سے خوشی سے ملاقات کرے اسی طرح آپ فرماتے ہیں
مَنْ کَسٰا اَحَداًمِنْ فُقَرَآءِ الْمُسْلِمِیْنَ ثَوْباً مِنْ عُری اَوْ اَعٰانَهُ بشَیءٍ مّمٰا یَقْوِیِهِ عَلَی معِیْشَتِه و کَّلَ اللّٰهُ بِهِ سَبْعَتَه الاٰف مِّنَ الْمَلاٰئِکَّتِه یَسْتَغْفِرُوْنَ لَکُلِّ ذَنْبٍ عَمِلَهُ اِلٰی اَنْ یُّنْفِعَ فِی الصُّورِ
(کافی ج ۲ ص ۲۰۵)
جوکوئی مسلمان فقیر کو برہنگی سے نجات کیلئے لباس پہنائے یا مالی لحاظ سے مثلاً(گھر،سرمایہ وغیرہ)سے اس کی مدد کرے تو خداوند عالم سات ہزار ملائکہ کو مقرر کرتا ہے کہ قیامت تک اس کے ہر ایک گناہ کا استغفار کریں۔
( ۹) عزت واحترام نفس کی حفاظت
اپنی عزت و احترام کی حفاظت کے لئے اورشریروں کے شر اور ظالمین کے ظلم کو رفع کرنے کے لئے مال کی سخاوت،مروی ہے کہ بہترین انفاق وہ ہے کہ جس سے عزت کی حفاظت کی جاسکے۔
( ۱۰) خیرات جاریہ
خیرات جاریہ اور لوگوں کے فائدے کے لئے مال خرچ کرنا مثلاً مسجد مدرہ ،پل، سرائے، وغیرہ بنوانا یا آب جاری کا چشمہ کھدوانا،یا دینی کتابوں کو چھاپنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں کہ جن کا اثر مدتوں تک قائم رہتا ہے اور ان کی انجام دینے والا ان سے ثواب حاصل کرتا رہتا ہے۔
مرحوم حاجی نوری دار السلام میں شیخ بزرگورا عالم ربانی شیح عبد الحسین تہرانی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا مرزا نبی خان جو محمد شاہ قاجار کے خواص میں سے تھا جب اس کا انتقال ہوا تو وہ اپنے فسق وفجور کی بنا پر مشہور تھا ایک رات میں نے خواب میں اپنے آپ کو بہشت کے باغوں اور عمارتوں کی سیر کرتے ہوئے دیکھا اور ایک شخص میرے ساتھ ساتھ ہے جو مجھے عمارت و محلات دکھا رہا ہے پس ہم ایک جگہ ٹھہرے تو اس شخص نے کہا یہاں مرزا نبی جان کا محل ہے اگر اسے دیکھنا چاہتے ہو تو وہ وہاں بیٹھا ہے اس شخص نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو میں غور سے دیکھنے لگا وہ ایک بڑے ہال میں تنہا بیٹھا ہوا تھا اور جب اس نے مجھے دیکھا تو اشارہ کیا کہ اوپر آجاو میں اس کے قریب گیا تو اس نے اٹھ کر سلام کیا اور مجھے صدر مجلس میں بٹھایا اور خود اپنے اسی انداز سے جو دنیا میں تھا بیٹھ گیا میں اس کے اس مقام کی وجہ سے حیران و پریشان تھا اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اے شیخ گویا آپ میرے اس مقام کی وجہ سے حیرت زدہ ہیں کیونکہ میرے وہ اعمال کہ جن کا میں نے دنیا میں ارتکاب کیا تھا بہت برے اور عذاب کے سزاوار تھے ہاں ایسا ہی تھا لیکن سر زمین طالقان میں میری ایک نمک کی کان تھی جس کے کرائے کی رقم میں ہر سال مجلس عزا کے قیام کے لئے طالقان سے نجف اشرف بھیجتا تھا تو خداوند عالم نے اس کے عوض یہاں پر مجھے یہ محل وباغ عطا کیا ہے۔
شیخ مرحوم کہتے ہیں کہ میں متعجب خواب سے بیدار ہوا اور جب اپنے اس خواب کو درس میں بیان کیا تو عالم فاضل ملا مطیع طالقانی کی اولاد میں سے کی نے کہا کہ یہ خواب سچا ہے اس کی طالقان میں ایک نمک کی کان تھی اور اس کے کرایہ کی رقم کو جو تقریباً ایک سو تومان تھی وہ نجف اشرف بھیجتا تھا اور میرے والد ہی وہ رقم مجلس حسین (علیہ السلام) پر خرچ کرنے پر مامور تھے۔مرحوم شیخ استاد فرماتے ہیں اس وقت تک مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ طالقان سے تعلق رکھتا ہے اور ہر سال نجف اشرف میں مجلس عزا قائم کرتا تھا۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔
لَیْسَ یَتْبِعُ الرَّجُلُ بَعْدَ مَوتِهِ مِنَ الْاجِرِ اِلّا ثَلٰثَ خِصٰالِ صَدَقَةً اَجْرٰاهٰا فِی حَیٰوتِهِ فَهِیَ تَجْرِیْ بَعْدِ مَوْتَه وَسُنَّةٌ هُدیً سَنَّهٰا فَهِیَ یَعْمَلُ بِهٰا بَعْدَ مَوْتَه اَوْ وَلَدٌ صٰالِحٌ یَدْعُوْا لَهُ
(وافی،کافی اور تہذیب سے نقل شدہ)
مرنے کے بعد انسان کسی چیز سے بہرہ مند ہوسکتا سوائے تین چیزوں کہ ایسا صدقہ جو(اس نے) دنیا میں دیاتھا اور اس کے مرنے کے بعدبھی جاری ہو۔ دوسرے ایسی سنت کہ جس کی بنیاد رکھی ہو(مثلاً اذان کہنا) اور اس کے مرنے کے بعدبھی اس سنت پر عمل کیا جائے ۔تیسرے صالح فرزند جو اس کے لئے دعا واستغفار کرے۔(اور اسکی نیابت میں اعمال خیر بجا لائے جیسا کہ دوسری روایت میں ذکر کیا گیا ہے