گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110494
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110494 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

گناہ پر اصرار

چالیسواں گناہِ کبیرہ گناہوں پر اصرار ہے یعنی بار بار گناہ کرنا ہے۔ اعمش حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں والاصرار علی صغائر الذنوب اور صغیرہ گناہوں پر اصرار کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔اسی طرح حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے صدوق نے نقل کی ہے کہ آپ والاصرار علی صغائر الذنوبکو گناہِ کبیرہ میں شمار فرماتے ہیں اور ایسے ہی حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ جس گناہِ صغیرہ پر اصرار ہو وہ صغیرہ نہیں کبیرہ ہے جس طرح وہ گناہِ کبیرہ جس پر شرمندگی ہو اور جس کے ترک کرنے کا ارادہ کر لیا جائے پھر کبیرہ نہیں رہتا یعنی اس کی سزا باقی نہیں رہتی۔ (کافی)یہ حدیث صاف صاف دلالت کرتی ہے کہ گناہِ صغیرہ پر اصرار کرنے سے وہ کبیرہ ہو جاتا ہے۔

ابوبصیر کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "خدا کی قسم جب تک بندہ اپنے گناہ پر اصرار کرتا رہے گا خدا اس کی عبادت اور اطاعت قبول نہیں کرے گا۔"(کافی)

یہ حدیث بھی اس بات پر کھلی دلالت کرتی ہے کہ اصرار سے گناہ کبیرہ بن جاتا ہے کیونکہ جب گناہ، صغیرہ کبیرہ گناہوں کے ترک کر دینے اور فرائض کی انجام دہی سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور بخش دیا جاتا ہے عبادتوں اور اطاعتوں کے قبول ہونے میں کس طرح رکاوٹ بن سکتا ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے گناہ پر اصرار کرنا گناہِ کبیرہ ہے جس کی وجہ سے دوسری تمام عبادتیں ناقابل قبول رہتی ہیں۔

کافی میں رسول خدا کی ایک اور حدیث ہے کہ سنگدلی کی ایک نشانی گناہ پر اصرار کرنا ہے۔

اس شرط سے گناہ کی معافی کہ اس پر اصرار نہ ہو

گناہ پر اصرار کے کبیرہ ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ خدا نے گناہ کے ترک کر دینے کو گناہوں کی بخشش اور بہشت میں پہنچنے کی شرط قرار دیا ہے۔ وہ آل عمران کی سورت میں فرماتا ہے "وہ لوگ جب کوئی بُرا کام (گناہِ کبیرہ) کرتے ہیں یا اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں (یعنی گناہِ صغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور خداسے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخشنے والا کون ہو سکتا ہے اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ جب یہ اپنے کیے ہوئے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے تو ان کا انعام خدا کی بخشش اور بہشتوں میں دائمی قیام ہو گا جن میں نہریں بہتی ہوں گی اور عمل کرنے والوں کا انعام کتنا اچھا ہے"۔ (آیت ۱۳۵)

تفسیر المیزان میں لکھا ہے "فاحشہ کے معنی بُرا فعل ہیں اور اس کا استعمال زنا کے لیے ہوتا ہے اس لیے اگر اس آیت میں اس سے مراد خصوصیت سے زنا ہے تو لامحالہ لفظ ظلم سے خاص گناہِ صغیرہ مراد ہو گا اور لفظ "ذکرواللّٰہ "سے جو اس آیت میں موجود ہے یہ مطلب نکلے گا کہ توبہ اور استغفار کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان خدا کو یاد کرے اور دل کی گہرائی سے اس سے لَو لگائے ورنہ صرف زبان ہلا کر عادت یا کسی اور وجہ سے جو کچھ بھی کہا جائے گا کوئی فائدہ نہیں دے گا اور جملہ "ولم بصرواعلی مافعولا" نے توبہ واستغفار کو گناہ پر اصرار نہ کرنے سے مشروط کر دیا ہے کیونکہ گناہ پر اصرار اور اسے بار بار دہرانا انسان کی روح میں ایک ایسی کیفیت اور حالت پیدا کر دیتا ہے جس کی موجودگی میں پھر خدا کی یاد بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی اور اس حالت سے مراد ہے خدا کے حکم کو حقیر سمجھنا، اس کی توہین کی اہمیت نہ جاننا اور اپنے آپ کو اس کی مقدس بارگاہ میں بڑا سمجھنا اور ظاہر ہے کہ انسان میں ایسی حالت پیدا ہو جانے سے پھر بندگی کی روح باقی نہیں رہتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا کی یاد کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جان لینا چاہیئے کہ یہ واقعہ اس صورت میں پیش آتا ہے جب گناہ پر جان بوجھ کر اصرار کیا جائے اسی لیے فرمایا ہے "وھویعلمون"

سب سے بڑا گناہ کبیرہ

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں "گناہ پر اصرار کرنے سے ڈرو اور بچو کیونکہ اصرار سب سے بڑا گناہِ کبیرہ ہے ا ور سب سے بڑا جرم ہے۔" (کتاب الغررللآمدی) اور خدا کے نزدیک سب سے بڑا گناہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اس پر اصرار کرتا ہو۔ (کتاب الغرللآمدی) اسی طرح فرماتے ہیں "الاصرار اعظم حوبة" گناہوں پر اصرار سب سے بڑا گناہ ہے۔

محقق خوانساری امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس جملے کی تشریح اور ترجمہ یوں فرماتے ہیں :گناہ پر اصرار گناہ کے لحاظ سے زیادہ بڑا ہوتا ہے یعنی اصرار دوسرے گناہوں سے بڑا ہوتا ہے اسی لیے حوبہ کو زیر سے پڑھا جائے اور ممکن ہے کہ حوبہ کو زیر سے پڑھا جائے تو مطلب یہ نکلے گا کہ اصرار زیادہ بڑا گناہ ہے۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ اصرار گناہ صغیرہ پر ہی کیوں نہ ہو اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اصرار کا گناہ باقی تمام کبیرہ گناہوں سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے اور اس کی تائید حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم کسی شخص کے گناہوں پر اصرار کی وجہ سے خدا اس کی کوئی عبادت اور اطاعت قبول نہیں کرے گا۔

گناہ پر اصرار کیا ہوتا ہے ؟

تمام فقہاء کا اس بات پر تو اتفاق بلکہ اجماع ہے کہ گناہِ صغیرہ پر اصرار گناہِ کبیرہ ہو جاتا ہے لیکن اصرار کے معنی میں اختلاف ہے اور اس کے متعلق ان کے کئی قول ہیں ان میں تسلیم شدہ بات جو بالاتفاق اصرار اور کبیرہ ہے یہ ہے کہ ایک شخص جس گناہِ صغیرہ کے ارتکاب کے بعد پشیمان نہیں ہوتا بلکہ پھر اس کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے برابر جاری رکھتا ہے۔ مثلاً ریشمی لباس پہننا یا انگلی میں سونے کی انگوٹھی پہننا جو مردوں کے لیے حرام ہے اگرچہ اس کا گناہِ کبیرہ ہونا ثابت نہیں ہوا ہے لیکن اس صورت میں جب وہ اس لباس اور انگوٹھی کا پہننا ترک نہیں کرتا بلکہ اس کا پہننا برابر جاری رکھتا ہے وہ بالکل گناہِ کبیرہ ہو جاتا ہے بلکہ مثلاً ایک شخص کسی نامحرم کو تاکنا یا دوسروں کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا جاری رکھتا ہے اور بجائے اس کے کہ اپنی ہر نظر پر شرمندہ ہو اور استغفار کرے تو ایسے اصرار اور مداومت کو فقیہوں نے بالاتفاق گناہِ کبیرہ کہا ہے۔

جب کئی قسم کے گناہ صغیرہ کا مرتکب ہو اور نہ انہیں کرتے ہوتے شرمندہ ہو نہ استغفار کرے۔ مثلاً ریشمی لباس پہننے، سونے کی انگوٹھی انگلی میں ڈالے، نامحرم پر نظر کرے اور اس سے مصافحہ کرے اور جسم سے جسم بھڑائے تو شہید علیہ الرحمہ نے کتاب قواعد اور کچھ دوسرے فقہاء نے فرمایا ہے کہ یہ بھی گناہِ صغیرہ پر اصرار اور کبیرہ میں شمار ہے یعنی ان کے نزدیک لغت یا عام رواج کے مطابق کسی طرح بھی ایک ہی قسم کے گناہِ صغیرہ پر اصرار اور کئی قسم کے گناہانِ صغیرہ کے ارتکاب میں کوئی فرق نہیں ہے۔

کچھ فقہاء نے فرمایا ہے کہ کیے ہوئے گناہ سے توبہ نہ کرنا بھی اصرارِ گناہ میں ہے چاہے وہ گناہ پھر نہ کرے اور چاہے وہ گناہ کرنے کی نیت بھی نہ رکھتا ہو لیکن تحقیق کی نظر سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں آخری صورتوں میں لغت یا عرف عام کے لحاظ سے اصرار کا اطلاق مشکل ہے بلکہ لفظ اصرار کے عرفی معنی کے خلاف ہے۔

ان آخری دو صورتوں کا ماخذ دو روایتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک جابر کی حضرت باقر (علیہ السلام) سے روایت جو پچھلی آیت کے جملے "ولم یصروا " کی تفسیر میں فرماتے ہیں "اصرار یہ ہے کہ ایک شخص گناہ کرتا ہے اور اس سے استغفار نہیں کرتا اور اس کے ترک کرنے کی نیت بھی نہیں رکھتا۔" پس ممکن ہے کہ امام کا مقصد اس اصرار کا مطلب بیان کرنا ہو جو اس آیت میں آیا ہے نہ کہ وہ اصرار جو گناہِ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔

دوسری روایت میں حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے ابن ابی عمیر نے کی ہے اور اس کا وہ ٹکڑا جو یہاں دلیل بنتا ہے یہ ہے کہ "ہر مومن کو اس کے کیے ہوئے گناہِ کبیرہ کی سزا ملے گی بجز اس صورت کے جبکہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہو گا اور جیسے ہی وہ شرمندہ ہو اور اس نے توبہ کی وہ شفاعت کا مستحق ہے اور جو اپنے گناہ پر شرمندہ نہ ہو وہ اصرار کرنے والا ہے اور اصرار کرنے والا بخشے جانے کے لائق نہیں ہوتا کیونکہ وہ دراصل اس بات پر ایمان نہیں رکھتا ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر اسے خدا کے وعدوں کا یقین ہوتا تو وہ ضرور پشیمان ہوتا۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد)

اس حدیث میں بھی جابر کی حدیث کی طرح حضرت نے شرمندہ نہ ہونے اور کیے ہوئے گناہ سے توبہ اور استغفار نہ کرنے کو اصرار سمجھا ہے یا چاہے وہ پھر گناہ کرے بلکہ پھر گناہ کرنے کی نیت بھی نہ رکھتا ہو۔

لیکن جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے اوّل تو امام کے کلام کا موضوع گناہِ کبیرہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ گناہِ کبیرہ سے توبہ نہ کرنا اصرار ہو۔ لیکن گناہِ صغیر ہ میں اس گناہ کی عملی تکرار ہی اصرار ہوتا ہے۔ دوسرے امام کا کلام ایسے موضوع سے متعلق ہے جہاں توبہ نہ کرنا خدا کے وعدوں سے بے پروائی اور قہرِ خدا سے امان کے باعث ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ترک توبہ خود مکر خدا سے بے خوفی ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس شرمنہ نہ ہونے اور توبہ نہ کرنے کو مجازِ اصرار کہتے ہوں۔ چنانچہ حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے یہ قول منسو ب ہے "گناہ پر اصرار مکر خدا سے بے خوفی ہے، او مکرِ خدا سے صرف گھاٹا پانے والے ہی بے خوف ہوتے ہیں۔" (تحف العقول)

مختصر یہ ہے کہ اصرار کے تسلیم شدہ معنی گناہ کی عملی تکرار ہے اس گناہ کے بعد شرمندہ ہوئے اور توبہ کیے بغیر اس طرح کہ عرف عام میں یہ کہا جائے کہ اس نے گناہ جاری رکھا یا گناہ میں اضافہ کیا۔

( ۱) گناہ کو چھوٹا سمجھنا

کچھ عالموں نے کہا ہے کہ ہر صغیرہ گناہ اصرار کرنے سے کبیرہ ہو جاتا ہے اور اس کی چند ایسی صورتیں ہیں جو گناہِ صغیرہ پر جعفرصادق آتی ہیں اور اسے گناہِ کبیرہ میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ مثلاً گناہ کا چھوٹا سمجھنا یعنی جب کسی سے کوئی صغیرہ گناہ سرزد ہو اور وہ اسے چھوٹا اور حقیر سمجھے اور اپنے آپ کو خدا کی سزا کا مستحق نہ جانے تو اس کا گناہ کبیرہ اور وہ قہرِ خدا کا سزاوار بن جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس نے خدا کی ممانعت کو حقیر جانا اور بندگی کے دائرے سے باہر نکل گیا اور روایات کی صراحت کے مطابق ایسا گناہ بخشے جانے کے قابل نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تمام کبیرہ گناہوں سے دُوری اختیار کرنے کے بعد بھی گناہانِ صغیرہ پر باز پرس نہ ہونا صرف خدا کے فضل اور رحمت پر منحصر ہے ورنہ خدا کی ہر ممانعت کے لیے چاہے کبیرہ ہو یا صغیرہ عقل کی رو سے سزا کا مستحق ہونا ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ فضلِ خدا صرف اسی شخص پر ہوتا ہے جو اس کی بندگی کے راستے سے نہیں بنتا اور جو کوئی تکبر اور نخرے کرنے والا ہے اور اپنی بے مائعگی اور خدا کی عظمت نہیں پہچانتا اور اسی وجہ سے اپنے گناہ کو حقیر گردانتا ہے اس پر خدا کا فضل نہیں ہو گا بلکہ ایسا شخص انتقام اور ذلت کا مستحق ہو گا۔

غرض خداوندعالم اپنے فضل سے اس شخص کے گناہِ صغیرہ کو (کبیر ترک کرنے کے بعد) بخش دے گا جو اپنے گناہ کو چھوٹا اورحقیر نہیں سمجھتا۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ سب سے سخت گناہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اسے حقیر سمجھے۔(وسائل الشیعہ)

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں "بخشے نہ جانے والے گناہوں میں ایک شخص کا یہ کہنا بھی شامل ہے کہ اس گناہ کے علاوہ جو میں نے کیا، کاش میرا اور کسی کے بارے میں اور کوئی مواخذہ نہ ہوتا۔(وسائل الشیعہ) یعنی یہ گناہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے"۔ آنحضرت کا یہ قول بھی ہے "ان گناہوں سے ڈرتے رہو جنہیں چھوٹا اور حقیر سمجھا گیا ہے۔ یقینا خدا کی طرف سے انہیں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور یہ گناہ اس شخص پر جمع کر دئیے جائیں گے یہاں تک کہ وہ اسے ہلاک کر دیں گے۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے "ان گناہوں سے ڈرو اور بچو جنہیں چھوٹا اور حقیر سمجھا گیا ہے۔" روای نے پوچھا "حقیر گناہ کون سے ہیں؟" امام نے فرمایا "ایک شخص گناہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے اگر اس گناہ کے سوا میرا اور کوئی گناہ نہ ہوتا تو میں کتنا خوش قسمت ہوتا۔ یہ گناہ تو چھوٹا اور ناچیز ہے۔" (کافی باب استغفار الذنب)

( ۲) گناہ پر خوشی

گناہِ صغیرہ کو جو باتیں گناہِ کبیرہ بنا دیتی ہیں ان میں کیے ہوئے گناہ پر خوشی، مسرت کا محسوس کرنا بھی ہے کیونکہ خدا اور قیامت پر ایمان لانے کا لازمہ کیے ہوئے گناہ پر غمگین اور شرمندہ ہونا ہے چاہے وہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "جس شخص کو اس کے نیک اعمال خوش کرتے اور بُرے اعمال غمگین بنا دیتے ہیں وہ مومن ہے۔" (وسائل الشیعہ)

جس طرح خدا بڑا ہے اسی طرح اس کے امر اور نہی کی مخالف بھی بڑی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ "گناہ کرتے وقت اس گناہ کی طرف مت دیکھ جو تیری نظر میں چھوٹا ہے بلکہ خدا کی عظمت اور بڑائی پر دھیان دے جس کی تو مخالفت کر رہا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب جہاد)

جس طرح گناہ پر شرمندگی اور افسوس اسے ختم اور اس کے کرنے والے کو پاک کر دیتے ہیں اسی طرح گناہ پر خوشی اور مسرت اسے بڑا بناتی اور مضبوط ومستحکم کر دیتی ہے اور درحقیقت گناہ پر خوشی مکر الہٰی سے بے خوفی ہے جس کے گناہ کی بڑائی بیان کی جا چکی ہے۔

رسول خدا فرماتے ہیں "جو شخص گناہ کرتے میں خوش ہوتا اور ہنستا ہے وہ روتا ہو اجہنم میں جائے گا۔" (وسائل الشیعہ کتاب الجہاد)

اسی طرح یہ بھی فرمایا ہے "گناہ کی چار باتیں خود اس گناہ سے بدتر ہیں:( ۱) گناہ کو چھوٹا سمجھنا، ( ۲) اس پر فخر کرنا، ( ۳) اس پر خوش ہونا اور ( ۴) اس پر اصرار کرنا۔" (مستدرک)

( ۳) گناہ کا ظاہر کرنا

اپنا گناہ دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا اور بیان کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے اور گناہ کا اظہار خدا کی محترم چیزوں کی توہین بھی ہے۔

حضرت رسول خدا فرماتے ہیں "جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور اسے غیر خدا سے چھپاتا ہے تو وہ نیکی (اس کے مقابلے میں ظاہر ہوتی ہے) ستر گنا ہو جاتی ہے اور جو کوئی گناہ کرتا ہے اگر اس نے اسے (بے غیرتی اور بے پروائی سے) ظاہر کر دیا تو اس پر خدا کی تباہی واقع ہو گی (یعنی توبہ کی توفیق نہیں ہوگی تو خدا کی مہربانی کی نظر سے گِر جائے گا) اور اگر اس نے اسے چھپائے رکھا تو بخش دیا جائے گا۔" (کافی )

جاننا چاہیئے کہ دو صورتوں میں گناہ ظاہر کر دینے سے نقصان نہیں ہوتا۔ ایک اس جگہ جہاں عقل تقاضا کرے۔ مثلاً طبیب کے سامنے اس کا اظہار، اگر علاج کے لیے اس کا اظہار ضروری ہو یا جہاں کسی عالم کے سامنے اس کا حکم معلوم کرنے کے لیے ضرورت ہو، دوسرے گناہگاری کا خصوصی نہیں عمومی اظہار۔ اس سے بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ظاہر کرتے وقت عجز اور انکسار بہت عمدہ چیز ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہے کہ میں خدا کی بارگاہ میں گناہگار ہوں رو سیاہ ہوں مجھ سے بڑے بڑے گناہ سرزد ہوئے ہیں بلکہ خداکے سامنے گناہگاری کا اقرار بہترین مناجات اور عبادت ہے اور توبہ کے قبول ہونے، دل کی نورانیت بڑھانے اور درجہ بلند کرنے میں بڑے اثرات رکھتا ہے۔

غرض گناہ کا عمومی اعتراف اور قصور کا اقرار غرور کی ضد ہے اور دین کے بزرگوں کا پسندیدہ طریقہ رہا ہے یہاں تک کہ خطوں اور کتابوں میں لوگ اپنے عاصی، مذنب (گناہگار)، اقل (سب سے کم یعنی کمتر ہونے)، احقر العباد (سب سے چھوٹا بندہ) وغیرہ کے لقب لکھا کرتے تھے۔

( ۴) انسان کی سماجی حیثیت اور گناہ

جب کوئی شخص سماج میں اس طرح ممتاز ہو کہ اس کے کردار اور گفتار کا لوگوں کے حالات پر اثر پڑ سکتا ہو مثلاً اہل عِلم اور پاکیزگی اور تقویٰ میں مشہور لوگوں سے جو دُنیا والوں کی روحانی پیشوائی کے لائق ہوتے ہیں، جب کوئی گناہ صغیرہ بھی سرزد ہوتا ہے تو اس سے لوگوں میں گناہِ کبیرہ کی جرأت پیدا ہو جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو اس بات سے ان کا ایمان اور عقیدہ بھی ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔ تو اس شخص کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا گناہِ صغیرہ بھی منکر کا حکم ہے یعنی بُرائی کرنے کا تقاضا ہے۔ یعنی عملی طور سے اور عقل اور شرع کی رو سے بھی اس کا عِلم اور عقل اس کے گناہ کی اہمیت بڑھا دیتے ہیں اور اس کے صغیرہ کو کبیرہ کرنے کے زمرے میں لے آتے ہیں۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں"جاہل کے ستر گناہ بخش دئیے جائیں گے اس سے پہلے کہ عالم کا ایک گناہ بخشا جائے۔" (کافی)

"زلة العالم تفسدالعوالم"

محقق خوانساری امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس جملے کی تشریح اور ترجمے میں فرماتے ہیں کہ عالم کی غلطی کئی دُنیاؤں کو خراب کر دیتی ہے۔ عالم کی غلطی سے وہ گناہ مراد ہے جو وہ کرتا ہے یا وہ غلطی اور خطا ہے جو اسے شرعی حکم میں واقع ہوتی ہے اور ان دونوں باتوں میں سے ہر ایک سے کئی دُنیاؤں کو بگاڑ ڈالنا اس اعتبار سے ہے کہ جب عالم علم اور عقل کے باوجود گناہ کرتا ہے تو اس کی برائی اکثر لوگوں کی نظر سے دُور ہو جاتی ہے اور وہ اس کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور اسے معمولی شمار کرتے ہیں اور جو خطا اور غلطی وہ کسی حکم شرع میں کرتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حکم بہت سے لوگوں میں مدتوں تک جاری رہے اور ان کے بہت سے کاموں کی بنیاد اسی پر رکھی رہے اس لیے لازم ہے کہ عالم گناہ سے پرہیز کرنے اور اپنے آپ کو خطا اور غلطی سے بچانے میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط سے کام لے۔ (الغرروالدررللآمدی)

آپ نے یہ بھی فرمایا ہے "عالم کی غلطی کشتی کے ٹوٹ جانے کی طرح ہوتی ہے جو خود ڈوب جاتی ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ڈبو دیتی ہے۔"

سچ مچ کے گناہ کبیرہ میں شمار ہے

یہ جو کہا گیا ہے کہ گناہِ صغیرہ استحقار (حقیر سمجھنا، لاپرواہی برتنا)، استصغار (چھوٹا سمجھنا)، گناہ سے خوشی، اصرار اور علم (یعنی یہ معلوم ہو کہ تکرار سے کبیرہ ہو جاتا ہے) میں سے کسی ایک عنوان کے ساتھ کبیرہ ہو جاتا ہے اس سے بظاہر حقیقی کبیرہ اور شدید سزا کا مستحق ہونا مراد ہے۔ یعنی گناہ صغیرہ ان میں سے کسی ایک عنوان کے ساتھ گناہ کبیرہ کی مانند عذاب کا مستحق بن جاتا ہے لیکن گناہ صغیرہ کا ان میں سے کسی ایک عنوان کے ساتھ اس طرح اصطلاحی کبیرہ ہونے کا علم نہیں ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا فاسق اور غیر عادل ہو جائے بلکہ اس کے برعکس ظاہر ہے اور گناہ صغیرہ کے اصطلاحی کبیرہ ہونے کی مسلمہ خصوصیت اس پر اصرار ہے۔

اصرار کا تعین عمومی اور روایتی ہے

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اصرار یہ ہے کہ کسی مقررہ گناہ کو دوبارہ کیا جائے لیکن ہر بار گناہ کے بعد نہ پشیمان ہو نہ توبہ کرے یا پھر مجموعی طور پر بہت سے گناہ سرزد ہوں چاہے وہ مختلف نوعیت کے ہوں۔

لیکن گناہ کی تکرار یا ان کی کثرت کی تعداد کتنی ہو اس کا تعین عمومی اور روایتی ہوتا ہے۔ اس کے لیے کوئی مقررہ پیمانہ نہیں ہے کیونکہ گناہانِ صغیرہ اپنے باہمی اختلاف اور گناہانِ کبیرہ کے قریب اور دُور ہونے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض تین بار میں کبیرہ ہو جاتے ہیں بعض اس سے زیادہ مرتبہ میں، کچھ کم مرتبہ میں۔ بہرحال اس بات کا تعین عمومی اور روایتی لحاظ سے ہوتا ہے۔

قابلِ توجہ !

جن گناہوں کا ذکر چالیس عنوانا تکے تحت کیا گیا ہے وہ ایسے گناہ ہیں جن کے کبیرہ ہونے کی صراحت معتبر آیتوں اور حدیثوں میں کی گئی ہے جیسا کہ تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ کتاب وسائل الشیعہ کے باب تعیین الکبائر میں کتاب جہاد سے دومرسل روایتیں نقل کی گئی ہیں جن میں سے ایک میں ان گناہانِ کبیرہ کے تحت جن کا کسی نص میں حوالہ نہیں ہے استحلال البیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں الجنف فی الوصیة کا مختصر طور پر ذکر کیا جاتا ہے تاکہ نص میں بیان ہونے والے گناہوں میں سے کوئی بات چھوٹنے نہ پائے۔

الجنف فی الوصیة

وصیت میں جنف کے معنی ہیں تمام وارثوں یا ان میں سے بعض پر اس طرح ظلم وستم کرنا کہ انہیں وراثت سے محروم کر دیا جائے۔ تفسیر قمی میں سورہ البقرہ کی آیت ۱۸۲ کی تشریح کے سلسلے میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے یہ روایت کی گئی ہے کہ جنف یہ ہے کہ بعض وارثوں کو نوازے اور بعض وارثوں کو محروم رکھے اور اثم یہ ہے کہ آتش کدوں کو آباد کرنے اور منشیات تیار کرنے کا حکم دے۔ (مختصر بات یہ ہے کہ اس کے مال کو حرام کا میں خرچ کرنے کی وصیت کرے) ہر صورت میں یہ وصی پر ہے کہ وہ ان میں سے کسی بات پر بھی عمل نہ کرے۔

مفلس وارث کا لحاظ کرنا ضروری ہے

اگر وارث مالدار ہو تو وصیت کرنے والا اپنے تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے اور اس سے زیادہ کی وصیت وارث کی اجازت پر موقوف ہے اور جو بعض وارث مفلس یا زیادہ نیک اور متقی ہوں تو وصیت کرنے والا اپنے تہائی مال میں سے کچھ مال کی ان کے لیے وصیت کر سکتا ہے کہ ان کے ورثے کے حق سے زیاد انہیں دیا جائے۔

اگر وارث مفلس ہو تو بہتر یہ ہے کہ وصیت نہ کرے یا چھٹے یا پانچویں حصے سے زیادہ کی وصیت نہ کرے کیونکہ مفلس وارث کی ضرورت پوری ہو جانا خود ایک اچھا مصرف ہے کیونکہ یہ صلہ رحم ہے خاص طور پر اگر نابالغ ہو۔

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں "میرے نزدیک ترکے کے پانچویں حصے کی وصیت کرنا اس سے بہتر ہے کہ میں چوتھائی حصے کی وصیت کروں اور چوتھائی کی وصیت تہائی کی وصیت سے بہتر ہے اور جس شخص نے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی وصیت کی اس نے گویا کچھ باقی نہ چھوڑا۔ " (بحار جلد ۲۳ صفحہ ۴۶) یعنی جتنے کی وصیت کر سکتا تھا اور جس سے ورثہ کو محروم رکھ سکتا تھا وہ کر بیٹھا۔

حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں "اگر کوئی شخص اپنے مال میں سے کچھ مقدار اپنے ان رشتے داروں کو دینے کی وصیت کرے جو اس کے وارث نہیں ہیں تو یہ مستحب ہے اور جو ایسی وصیت نہیں کرتا تو مرتے وقت اس کا عمل اللہ کی نافرمانی پر ختم ہو گا۔" (بحار جلد ۲۳ ، منقول از فقہ الرضا) یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور گناہگار ہو گا اور شاید اس کے گناہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے صلہ رحم کا خیال نہیں رکھا جو اللہ کے اہم واجبات میں داخل ہے اور اس صورت میں جب کہ ایسی وصیت ترک کرنا لوگوں کے لیے قطع رحم ہو۔ مثلاً کوئی دولت مند شخص غیر وارث مفلس رشتے دار رکھتا ہو (ان کے لیے وصیت نہ کرے) تو یہ فعل بالکل حرام اور گناہِ کبیرہ ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔

وارث دوسروں پر مقدم ہے

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے کئی چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور مال دُنیا میں سے اس کے پاس صرف چھ غلام تھے۔ مرتے وقت اس نے سب کو آزاد کر دیا۔ جب اس کا معاملہ حضرت رسول خدا کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا "اس کے ساتھ کیا کیا گیا؟"

لوگوں نے کہا "ہم نے اسے دفن کر دیا۔"

آپ نے فرمایا "اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اسے مسلمانوں کے قریب دفن نہ ہونے دیتا کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ گیا۔" (وافی)

قاعدے کے مطابق ترکے کی تقسیم

غرض یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس کے وصی پر لازم ہے کہ وہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت پر عمل نہ کرے جب تک کہ وارث اس کی اجازت نہ دے۔

اس کے علاوہ حرام کاموں میں وصیت کرنا جائز نہیں ہے اور وصی پر واجب ہے کہ اگر مرنے والے نے وصیت بھی کی ہے تو اسے نظر انداز کر دے اور نیک کاموں میں خرچ کرے۔

اس کے علاوہ بعض وارثوں کو ورثے سے محروم کر دینا بھی جائز نہیں ہے اور وصی پر واجب ہے کہ ان کا جو حصہ خدا نے مقرر کر دیا ہے وہ ان کو دے۔ ( ۱)

اگر ایسے مالدار شخص کے جس کے پہلے درجے کے وارث (مثلاً اولاد اور والدین) موجود ہوں دوسرے طبقے کے (مثلاً بھائی اور بہن) یا تیسرے درجے کے رشتے دار (مثلاً چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں) مفلس ہوں تو اسے وصیت کرنا چاہیئے کہ اس کے ترکے میں سے کچھ ان مفلس رشتے داروں کو بھی دے دیا جائے اور اگر وہ ایسی وصیت نہ کرے اور عام اصطلاح میں قطع رحم کرے تو سمجھئے کہ وہ گناہگار مرا ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے وصیت فرمائی تھی کہ حسن افطس کو جو آپ کے چچا کا بیٹا تھا آپ کے مال میں سے ستر اشرفیاں دی جائیں۔ ایک شخص نے کہا "اے آقا! آپ ایسے شخص کو بخشش کر رہے ہیں جس نے آپ پر حملہ کیا اور جو آپ کو مار ڈالنا چاہتا تھا۔" امام نے فرمایا "تم یہ چاہتے ہو کہ میں ان لوگوں میں شمار نہ کیا جاؤں جن کی خدا نے صلہ رحم کے باعث تعریف کی ہے اور ان کی صفت میں فرمایا "والذین یصلون ما امر اللّّٰہ بہ ان یوصل ویخشون ربھم ویخافون سوء الحساب" اور پوری حدیث قطع رحم کی بحث میں نقل کی گئی ہے۔

( ۱) مزید معلومات کے لیے عملی رسالے اور فقہ کی کتابیں دیکھئے۔

غیرواضح کبیرہ گناہ ۔

جیسا کہ کتاب کی ابتداء میں بیان کیا گیا گناہوں کا کبیرہ ہونا چار میں سے کسی ایک طریقے سے ثابت ہوتا ہے۔ اوّل کے کبیرہ ہونے کی کسی معتبر نص میں صراحت کی گئی ہو۔ دوسرے قرآن مجید یا کسی معتبر روایت میں اس لیے جہنم اور عذاب کا صاف صاف یا ضمنی طور پر وعدہ کیا گیا ہو۔ تیسرے کتاب یا سنت میں یہ صراحت کی گئی ہو کہ یہ گنا ان کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا ہے جن کا کبیرہ ہونا مذکورہ بالا دو طریقوں سے ثابت ہو چکا ہے۔ چوتھے وہ گناہ دینداروں کے نزدیک بڑا ہو۔

یہ جان لینا چاہیئے کہ اس حکم کا مآخذ وہ بہت سی روایتیں ہیں جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے۔ مثلاً ابن ابی یعفور کے صحیحہ میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ کسی شخص کی عدالت ان کبیرہ گناہوں کے ترک کرنے سے جانی جاتی ہے جن کے لیے خدا نے دوزخ کا وعدہ کیا ہے۔

اس قول سے بخوبی ظاہو ہو جاتا ہے کہ ہر وہ گناہ جس کے لیے جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے کبیرہ ہے۔ اسی طرح صحیحہ علی بن جعفر (علیہ السلام) میں ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے ان کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھتے ہیں جن کے متعلق خدا قرآن میں فرماتا ہے "ان یجتنبوا کبائر" تو امام فرماتے ہیں: "کبیرہ وہ گناہ ہیں جن کے لیے خدا نے دوزخ لازم کر دی ہے"۔ اور اسی طرح کافی میں امام جعفرصادق (علیہ السلام) کا قول حلبی سے نقل کیا گیا ہے۔

ابوبصیر کہتا ہے:" میں نے حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) کے متعلق سُنا ہے کہ آپ نے جب یہ آیت پڑھی "جسے دانائی بخشی گئی ہے اسے بہت کچھ خیر بھی عطا کی گئی ہے"۔ تو حضرت نے دانائی (حکمت) کے معنی بیان فرمائے، امام کا پہچاننا اور کبیرہ گناہوں سے الگ رہنا جن کا ٹھکانا خدا نے جہنم بتایا ہے۔" (کافی)

آپ ہی سے محمد بن مسلم روایت کرے ہیں کہ خدا نے جس گناہ کی سزا دوزخ قرار دی ہے وہ کبیرہ ہے۔ (کافی)

غرض بہت سی نصوص خصوصاً صحیحہ عبدالعظیم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید یا سنت معتبرہ میں رسول خدا یا آئمہ (علیھم السلام) کی طرف سے جس گناہ کے لیے خصوصیت سے آتشِ دوزخ کے وعدے کا ذکر کیا گیا ہے وہ کبیرہ ہے چاہے صاف صاف اور براہِ راست ہو جیسے نماز ترک کرنے والے کا دوزخ میں جانا۔ (سوہ مریم آیت ۵۹) یا بالواسطہ ہو جیسا کہ خدا فرماتا ہے "نماز ترک کرنے والا مشرک ہے۔" (سورہ روم آیت ۳۱) اور اس کے بعد فرماتاہے "مشرک آتشِ جہنم میں رہے گا"۔ (سورہ بیّنہآیت ۶) اسی طرح چاہے اس کے عمل کے عوض آتش جہنم کا صاف وعدہ کیا گیا ہو"۔ (سورہ ماعون آیات ۴ ۔ ۵) یا کسی سلسلے میں وعدہ کیا گیا ہو مثلاً پیغمبر اکرم کا قول ہے جو کوئی نماز جان بوجھ کر چھوڑے گا وہ خدا اور اس کے رسول کی پناہ سے خارج ہے۔ (من ترک الصلوٰة متعمداً فقد بری من ذمة اللّٰہ و ذمة رسولہ)۔ اور ظاہر کہ اس جملے میں نماز ترک کرنے والے کے دائمی عذاب اور ہلاکت سے کنایہ ہے۔ چنانچہ صحیحہ عبدالعظیم میں ترک نماز کے گناہِ کبیرہ ہونے کے لیے اسی حدیث کو بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے۔

اسی سے ابن عباس کے اس قول کے صحت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کبیرہ گناہ سات کے مقابلے میں سات سو کے قریب ہیں کیونکہ جن گناہوں کے لیے کتاب یا معتبر سنت میں عذاب کا صاف صاف یا ضمنی طور پر وعدہ کیا گیا ہے وہ بہت ہیں۔ اگر انہیں تفصیل کے ساتھ الگ الگ جمع کیا جائے تو سات سو سے بھی اوپر ہو جائیں گے اور ان کا جمع کرنا بھی وقت کی تنگی کے باعث سخت مشکل اور دقّت طلب ہے اس لیے یہاں ان میں سے کچھ ایسے گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں لوگ زیادہ تر مبتلا ہوتے ہیں۔

غیبت

جن گناہوں کا کبیرہ ہونا عذاب کے اس وعدے سے سمجھا جاتا ہے جو ان کے لیے قرآن مجید اور بہت سی حدیثوں میں کیا گیا ہے ان میں سب سے پہلا غیبت کرنا ہے۔ جیسا کہ خدا سورہ نور میں فرماتا ہے: "دُنیا اور آخرت میں ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے جو ایمان لانے والوں (مومنوں) کی بُری حرکتیں (مثلاً زنا اور دوسری قسم قسم کی بُرائیاں) فاش کرنا پسند کرتے ہیں۔" (سورہ نور آیت ۱۹)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے ابن ابی عمیر نے روایت کی ہے کہ جو شخص کسی مومن کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ دیتا ہے جو اس کی دونوں آنکھوں نے دیکھا اور دونوں کانوں نے سُنا ہے اس کا شمار ان لوگوں میں ہے جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے "جو لوگ مومنوں کے متعلق بُری باتیں آشکارا ہونا پسند کرتے ہیں ان کے لیے واقعی دردناک عذاب ہے۔"

چنانچہ صحیح کی اس روایت کے مطابق غیبت اس آیت کے حکم میں داخل ہے جس میں اس کے لیے عذاب کا صاف صاف وعدہ کیا گیا ہے۔ سورہ حجرات کی آیت ۱۲ میں کہا گیا ہے: "تم میں سے بعض لوگوں کو دوسروں کی غیبت نہیں کرنا چاہیئے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ تم اسے ضرور بُرا سمجھو گے۔"

اس آیت میں چند امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ غیبت کرنے والے پر آخرت میں جو عذاب ہو گا اس کا بیان ہے اور وہ اس طرح کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے غیبت آخرت میں اس کا مردہ گوشت کھانے کی صورت میں مجسم ہو جائے گی اور اس امکان کی تائید بھی پیغمبر اکرم کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میں نے معراج کی شب میں کچھ لوگوں کو جہنم میں دیکھا کہ وہ مردار کھا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا "یہ کون لوگ ہیں؟" تو انہوں نے جواب دیا:" یہ وہ لوگ ہیں جو دُنیا میں لوگوں کا گوشت کھاتے تھے ۔" (مستدرک کتاب حج باب ۱۳۲) یعنی لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ اسی سے ایک حکم میں داخل ہونا مراد ہو یعنی شریعت کے حکم کے مطابق غیبت کرنا اس شخص کا مردار گوشت کھانے کے برابر ہو جس کی غیبت کی گئی ہے

حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:"تمہارا اپنے مومن بھائی کی غیبت کرنا مردار کھانے سے بھی بڑا حرام ہے۔" (مستدرک کتاب حج باب ۱۳۲) ان دونوں امکانات کے پیشِ نظر آیت سے ظاہر ہے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے۔

سورہ ہمزہ میں کہا گیا ہے: "ویل لکل ھمزہ لمزة" تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے۔ یہ جملہ خدا کی طرف سے ہر غیبت کرنے والے اور اس چغل خور کے لیے عذاب کا وعدہ ہے جو دوستوں میں تفرقہ ڈالتا ہے۔

بعضوں نے کہا کہ ہمزة طعنہ دینے والے اور لمزہ غیبت کرنے والا ہے اور بعضوں نے اس کے بالکل برعکس کہا ہے اور بعضوں نے کہا کہ ہمزہ اسے کہتے ہیں کہ جو سامنے بُرائی کرتا ہے اور لمزہ وہ ہے جو کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے۔

ویل بھی جہنم کا ایک درجہ ہے یا اس کا ایک کنواں ہے اور سخت عذاب کے معنوں میں بھی استعمال ہو اہے اس لیے غیبت وہ گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید میں کتنے ہی مقامات پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ گناہِ کبیرہ ہے۔

غیبت اور اہل بیت (علیھم السلام) کی روایات

جن روایتوں میں غیبت کرنے پر عذاب کے وعدے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہت ہیں بلکہ متواتر ہیں یہاں صرف وہ بیان کی جاتی ہیں جو شیخ علیہ الرحمہ نے مکاسب محر ّمہ میں لکھی ہیں۔

رسول خدا سے کئی سلسلوں سے روایت ہے کہ غیبت کا گناہ زنا سے بھی بدتر ہے کیونکہ زنا کرنے والا اگر توبہ کر لیتا ہے تو خدا اسے بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو نہیں بخشتا جب تک کہ وہ شخص جس کی اس نے غیبت کی ہے اسے معاف نہیں کر دیتا۔ (مکاسب)

ایک دن آنحضرت نے اپنے خطبے کے بیچ میں سود کے گناہ کی شدت بیان کی اور فرمایا کہ سود کے ایک درہم کا گناہ چھتیس بار زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ پھر فرمایا "بلاشبہ سود کھانے کا بدترین درجہ مسلمان کی آبروریزی اور اس کی بے عزتی ہے۔" ان دونوں حدیثوں کی رو سے غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اس اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ وہ زنا اور سود سے بھی بدتر ہے ۔

آپ یہ بھی فرماتے ہیں "جو کسی مومن کی غیبت کرتا ہے اور وہی بُرائی بیان کرتا ہے جو اس میں موجود ہے پھر بھی خدا اس شخص کو اور اس مومن کو بہشت میں اکٹھا نہیں کرے گا اور جو شخص مومن کے پیٹھ پیچھے اس کی وہ بُرائی بیان کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے تو دونوں میں جو دین کی پاکیزگی ہے وہ پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ پھر غیبت کرنے والا اس مومن سے الگ ہو جائے گا اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جہنم بُری جگہ ہے۔" (مکاسب)

جو شخص لوگوں کی غیبت کر کے ان کا گوشت کھاتا ہے اگر اس نے یہ سوچا کہ وہ حلال زادہ ہے تو غلط سوچا۔ غیبت سے بچو کیونکہ یہ دوزخ کے کتوں کی غذا ہے۔ (مکاسب)

جو اپنے دینی بھائی کی غیبت کرنے کے لیے اور اس کا چھپا ہوا عیب فاش کرنے کے لیے سفر کرے گا وہ جو پہلا قدم اُٹھائے گا وہ اسے دوزخ میں پہنچا دے گا۔(مکاسب)

روایت ہے کہ غیبت کرنے والا اگر توبہ بھی کرے گا تو وہ آخری شخص ہو گا جو بہشت میں پہنچے گا اور جو توبہ کیے بغیر ہی مر جائے گا تو وہ پہلا شخص ہو گا جو دوزخ میں جائے گا۔ (مکاسب)

شہیدِ ثانی حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) اور پیغمبر اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ کفر کے سب سے زیادہ قریب حالت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے ایک لفظ سنتا ہے اور اسے اس لیے روک لیتا ہے کہ اس بات سے رسوا کرے ایسے شخص کو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ (کشف الربیہ، شہید ثانی)

اس سے ملتے جلتے مضمون کی چند روایتیں اصولِ کافی میں نقل کی گئی ہیں۔

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "غیبت کرنا کوڑھ کی بیماری سے زیادہ تیزی کے ساتھ ایک شخص کے دین پر اثر کرتا اور اسے اس کے دل سے ختم کر دیتا ہے ۔"(اصول کافی )

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :"غیبت کرنا ہر مسلمان کے لیے حرام ہے اس میں شک نہیں ہے کہ غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے اور ختم کر ڈالتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا کر ختم کر دیتی ہے۔" (اصولِ کافی)

شیخ فرماتے ہیں :غیبت کے نیکیوں کو کھا جانے والے جملے سے مراد یہ ہے کہ غیبت ان تمام نیک کاموں کو جو کیے گئے ہیں باطل کر دیتی ہے یا یہ مراد ہے کہ اس کے پچھلے ثوابوں سے اس کی سزائیں زیادہ ہو جاتی ہیں یا یہ کہ غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں درج ہو جاتی ہیں جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ چنانچہ یہ بات کئی حدیثوں میں آئی ہے۔ مثلاً رسول خدا سے روایت ہے کہ ایک بندے کو قیامت میں حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور اس کا اعمالنامہ اسے دیں گے۔ جب وہ اس میں وہ نیک کام جو اس نے دُنیا میں کیے تھے نہیں پائے گا تو کہے گا "اے خدا! یہ اعمال نامہ تو میرا نہیں ہے کیونکہ مجھے اس میں اپنی نیکیاں نہیں ملتیں۔" تب اس سے کہا جائے گا "تیرا خدا نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔ تیری نیکیاں لوگوں کی تیرے غیبت کرنے کی وجہ سے مٹ گئیں۔" پھر دوسرے بندے کو لائیں گے اور اس کا اعمال نامہ اسے دیں گے۔ وہ اس میں وہ نیکیاں بھی دیکھے گا جو اس نے نہیں کی ہیں تو وہ کہے گا "اے خدا! یہ نامہ اعمال میرا نہیں ہے کیونکہ اس میں جو یہ سب نیکیاں درج ہیں میں نے انجام نہیں دی ہیں۔" اس سے کہا جائے گا "یہ فلاں شخص کی نیکیاں ہیں جس نے تیری غیبت کی تھی۔ اس کے بدلے میں اس کی نیکیاں تجھے بخش دی گئی ہیں۔"

شیخ مذکورہ روایتیں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے جیسا کہ بعض فقہاء نے فرمایا ہے بلکہ سخت ترین گناہِ کبیرہ (سود اور زنا سے بھی بڑھ کر) ہے جیسا کہ مذکورہ روایتوں میں صراحت کی گئی ہے۔"

خیانت بھی ان کبیرہ گناہوں میں شامل ہے جن کی صراحت نص میں کی گئی ہے۔ اور غیبت کو خیانت کی ایک قسم بھی سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ اپنے دینی بھائی کا گوشت کھانے سے بڑھ کر جب کہ وہ بے خبر اور غافل ہو اور کونسی خیانت ہو سکتی ہے اس سے بڑھ کر اور کونسی خیانت ہو سکتی ہے جو اس کا بھید کھولتی اور اس کا عیب ظاہر کر دیتی ہے۔

جاننا چاہیئے کہ غیبت کا حرام ہونا صرف مومن سے مخصوص ہے یعنی اس شخص سے جو صحیح عقیدہ رکھتا ہو جن میں آئمہ اثنا عشر (علیھم السلام) کی امامت کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے اس عقیدے کے مخالفین کی غیبت حرام نہیں۔ پھر بھی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں کی غیبت ترک کر دینا چاہیئے خصوصاً ان لوگوں کی جو حق کے دشمن نہ ہوں اور صحیح عقیدہ ترک نہ کر چکے ہوں۔

یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ غیبت کا حرام ہونا صرف بالغ مومن سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ نابالغ بچے سے غیبت کرنا بھی حرام ہے جو غیبت سن کر متاثر اور دُکھی ہوتا ہے اور بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ مومن بچّوں سے غیبت کرنا بالکل حرام ہے۔ چاہے وہ بالغ ہوں چاہے نابالغ۔

غیبت کے معنی اور اس کے مواقع

رسول خدا فرماتے ہیں: "غیبت یہ ہے کہ تو اپنے دینی بھائی کی کسی بُری یا کریہہ بات کا ذکر کرے۔" (مکاسب) اور حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "غیبت یہ ہے کہ تُو اپنے دینی بھائی کا وہ عیب بیان کرے جسے خدا نے چھپا رکھا ہے۔" (مکاسب) اور حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو کوئی کسی غیر حاضر شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو اس میں موجود ہے اور لوگ بھی اس سے واقف ہیں تو وہ غیبت نہیں ہے۔ البتہ اگر ایسی بات کہے جو اس میں موجود ہے لیکن لوگ نہیں جانتے تو گویا اس نے اس کی غیبت کی اور اگر کوئی ایسی بات کہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو پھر اس نے اس پر بہتان باندھا ہے۔" (مکاسب)

ان دوسری دو روایتوں کے بموجب جب کوئی بات کسی مومن کے بارے میں کہی جاتی ہے اور وہ اس کا ایسا عیب ہے جو سُننے والے اور دوسرے لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہے تو غیبت میں اس کا شمار نہیں ہوتا چاہے وہ مومن کی بُرائی، ملامت، تکلیف دہی اور توہین میں شمار نہیں ہوتا چاہے وہ مومن کی بُرائی، ملامت، تکلیف دہی اور توہین میں شمار ہو اور ان عنوانات کے تحت حرام ہو جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے۔

شیخ نے اہل لغت کے کلمات، غیبت کے معنی سے متعلق روایات اور معنی کی تحقیقات نقل کرنے کے بعد کچھ بیانات دئیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ غیبت کے اطلاق کی تین قسمیں ہیں: غیبت ہونا مسلّم ہو یا غیبت ہونا ظاہر ہو یا اس کا غیبت ہونا ظاہر نہ ہو۔

پہلی قسم وہ موقع جب کہ وہ قطعی غیبت ہوتی ہے ایک ایسی بات کا ذکر کرنا ہے جو کسی شخص سے منسوب اس کا کوئی شرعی یا مشہور عام نقص ہو اور وہ بھی سننے والے سے اس طرح چھپا ہو کہ جس کی غیبت کی جائے وہ اس کے کھل جانے پر رضامند نہ ہو اور غیبت کرنے والا بھی اسے ذلیل کرنے اور اس میں عیب نکالنے پر تلا ہوا ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی کسی مومن کو گھٹانے کے لیے اس کی پوشیدہ بُرائی بیان کرے تو وہ بلاشبہ غیبت اور گناہِ کبیرہ ہے۔

دوسری قسم جو بظاہر غیبت کا مصداق ہے دوسرے کا چھپا ہوا عیب بیان کرنا ہے لیکن اس کی مذمت کرنے، اس میں عیب نکالنے اور اُسے گرانے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور غرض سے مثلاً تفریح کے لیے یا دلیل اور ثبوت دینے کے لیے یا ہمدردی کی خاطر دوسرے کا چھپا ہوا عیب بیان کرے تو بھی اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور روایتیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یہ بھی غیبت کا مصداق ہے اور اسی ذیل میں آتا ہے۔

تیسری قسم ایک شخص کا عیب کسی ایسے آدمی کے سامنے بیان کرنا ہے جو اسے جانتا ہے بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ غیبت کے دائرے سے خارج ہے اگرچہ کچھ روایتوں سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہ بھی غیبت ہے۔

ایسی صورت میں جب کہ کہنے والا دوسرے کو ملامت کرتا اور اس کی مذمت کرتا ہے قطعی حرام ہے چاہے اس کا غیبت میں شمار ہونا مشکوک ہو کیونکہ اس قسم کا بیان مومن کی دل آزاری اور توہین کا سبب ہوتا ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

اگر مذمت اور توہین کی نیّت نہیں ہے اور مجبوراً مذمت ہو جاتی ہے مثلاً کسی شخص کی ماں بدکردار تھی تو یہ تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔ چنانچہ سورہ حجرات میں دوسروں کے بارے میں نام رکھنے سے صاف صاف منع کیا گیا ہے۔ (آیت ۱۰)

غیبت کی قسمیں

واضح روایتیں اور فقہاء کے اقوال یہ ہیں کہ کسی کا عیب یا نقص بیان کرنے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ نقص جسم کا ہے یا خاندان کا یا عادتوں کا، گفتگو کا ہے یا عمل کا، دین کے متعلق ہے یا دُنیا کے متعلق یا خاص اس انسان سے متعلق ہے مثلاً لباس، گھر، سواری وغیرہ کا عیب ہے اور بعض نے ہر ایک کی مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ مثلاً جسم سے متعلق غیبت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ فلاں اعمش ہے (جس کی آنکھیں ہمیشہ ڈبڈبائی رہتی ہیں) یا احول (بھینگا) ہے یا اعور (ایک آنکھ کا یعنی کانا) ہے اقرع (گنجا) ہے یا بونا، لمبا، کالا یا پتلا وغیرہ ہے یعنی اس کی ایسی خصوصیات بیان کرے جن کو سن کر وہ ناخوش اور آزردہ ہو جائے۔

غیبت گالی بھی ہوتی ہے مثلاً کوئی کہ فلاں کا باپ بدکار یا بدذات یا کنجوس تھا یا اوباش وغیرہ تھا اور اخلاق کی غیبت یہ ہوتی ہے جیسے کہے کہ فلاں بداخلاق، کنجوس، مغرور یا ڈرپوک یا کمزور اور منافق یا چور اور ظالم ہے۔

دین سے متعلق کاموں کی غیبت یہ ہوتی ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص جھوٹا یا شرابی یا نماز میں سست ہے۔ دُنیاوی کاموں کی غیبت یہ ہے جیسے کوئی کہے فلاں بے ادب ہے، ناشکرا ہے، اپنی اوقات نہیں پہچانتا، بکواسی یا پیٹو یا بہت سونے والا ہے۔ لباس کے متعلق مثلاً کوئی کہے کہ اس کا لباس میلا، پھٹا، پرانا، ڈھیلا ڈھالا، اٹنگا ہے۔ ایسے ہی اس کے متعلق دوسری باتوں میں بھی اگر اسے بُرائی سے اس طرح یاد کیا جائے کہ اسے اچھا نہ لگے بلکہ اس کی دل آزاری ہو تو یہ غیبت ہو گی۔

جاننا چاہیئے کہ غیبت میں کوئی فرق نہیں ہے خواہ دوسرے کا عیب زبان سے کھولا جائے یا عمل سے یا اشارے سے صاف صاف کہا جائے یا ایسے کنائے سے جو سمجھ میں آ جائے۔ کبھی کبھی کنائے سے غیبت اور بھی بُری ہوتی ہے جیسے یہ کہا جائے الحمد للہ کہ خدا نے ہمیں حکومت کی ہوس یا ظالموں کی ہم نشینی یا دولت کا لالچ نہیں دیا یا یہ کہا جائے حرص یا کنجوسی یا بے شرمی سے خدا کی پناہ، خدا ہمیں شیطان کی بُرائی سے بچائے اور ان باتوں سے کنایہ اس شخص کی طرف ہو جو ان کاموں کو مرتکب ہوا ہے۔

اکثر ہوتا ہے کہ بعض دھوکے باز جب کسی کی غیبت کرنا چاہتے ہیں تو اس کی تعریف سے شروع کرتے ہیں کہ فلاں کتنا اچھا آدمی ہے لیکن افسوس ہے کہ شیطان کے چکر میں آ گیا اور اب یوں ہو گیا ہے۔ کبھی منافقت سے دوسرے کے لیے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں کہ افسوس مجھے کتنا صدمہ ہوا اور فلانے کے لیے میرا دل کتنا کڑھا جب اس سے یہ فعل سرزد ہوا۔ اگر سچ مچ کا دوست ہوتا اور اس کا غم کھاتا تو کبھی اس کا راز فاش نہ کرتا اور اس کی بُرائی نہ کرتا۔

ایک غیر معین شخص کی غیبت

غیبت اس صورت میں ہوتی ہے جبکہ کسی مخصوص شخص کی ہو اور اگر کسی ایسے شخص کی غیبت ہو جس کا نام ونشان نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے مثلاً کوئی کہے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ایسا تھا اور ایسا تھا۔ البتہ جب چند لوگوں میں سے ایک غیر معین شخص کی غیبت کرے کہ فلاں شخص کا ایک بیٹا ایسا ہے تو یہ حرام ہے کیونکہ اس طرح کہنے والے نے ان سب کو تکلیف دی اور آزار پہنچایا ہے اور اگر زیادہ لوگوں میں سے صرف ایک شخص کی غیبت کرے مثلاً کہے کہ ایک اصفہانی یا شیرازی ایسا اور ویسا تھا تو یہ جائز ہے اور اگر یہ بھی کہے کہ بعض اصفہانیوں یا شیرازیوں میں فلاں عیب ہوتا ہے تو بھی جائز ہے لیکن یہ کہے کہ تمام شیرازیوں یا اصفہانیوں میں فلاں عیب ہوتا ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اس صورت میں اس شہر کے تمام باسیوں کی توہین ہوتی ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شہر کے اکثر لوگوں میں یہ عیب پایا جاتا ہے تو یہ بات اختیار کے خلاف یعنی غیر محتاج بلکہ اس کے حرام ہونے میں زیادہ قوت اور امکان ہے۔

غیبت کا کفارہ اور توبہ

چونکہ غیبت کرنا گناہِ کبیرہ ہے اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس پر واجب ہے کہ فوراً اپنے کہے پر شرمندہ ہو کیونکہ اس نے اپنے پروردگار کی مخالفت کی اور دل سے شرمندہ ہونے کے بعد زبان سے استغفار بھی کرے اور نیّت کرے کہ پھر ایسا گناہ نہیں کرے گا۔ چونکہ بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کا غیبت کرنے والے پر حق پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ممکن ہو تو اس سے معافی مانگ لے اور اپنے آپ سے راضی کر لے اور جس طرح اس نے اس کی غیبت کی ہے اس کے مقابلے میں اسے نیکی سے یاد کرے تو بہتر ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے وہ مر چکا ہے یا اس کی پہنچ سے باہر ہے یا اس سے معافی مانگے سے اس کے دُور ہو جانے کا اندیشہ ہو مثلاً وہ غیبت کی باتوں سے بے خبر ہے اور ان کے سُننے سے ناخوش ہو جائے گا اور معافی مانگنے کی غرض پوری نہیں ہو سکے گی تو ایسے موقع پر اس کی مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے اور خدا سے عرض کرنا چاہیئے کہ اے پروردگار! اس شخص کو راضی اور خوش کر دے جیسا کہ صحیفہ سجادیہ کی دعا ۳۹ میں اور پیر کے دن کی دعا میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔

غیبت کے جائز ہونے کے مواقع

فقہاء نے بعض موقعوں پر غیبت کرنے کو جائز سمجھا ہے۔ یہاں شیخ نے جو کچھ مکاسب میں فرمایا ہے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے:

( ۱) اس شخص کی غیبت کرنا جس کا گناہ پوشیدہ نہیں ظاہر ہو۔ مثلاً کوچہ وبازار میں ہاتھ میں شراب کا پیالہ لیے کھلم کھلا پیتا پھرے۔ چنانچہ روایت میں ہے :"جب کوئی گناہگار کھلم کھلا گناہ کرتا ہے اور کسی کا لحاظ نہیں کرتا تو اس کی غیبت حرام نہیں ہے۔" اسی طرح جس نے شرم اور لحاظ ختم کر دیا یعنی لوگوں کے سامنے جو گناہ کرنے میں نہیں شرمایا اس کی غیبت نہیں ہوتی یعنی اس کی غیبت کرنا حرام نہیں ہے۔ (مکاسب)

جاننا چاہیئے کہ غیبت اس گناہ کے سبب سے جائز ہو جاتی ہے جو کھلم کھلا کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ جو گناہ پردے میں کیے جاتے ہیں ان کے باعث بھی غیبت جائز ہو جاتی ہے یا نہیں اگرچہ شیخ فرماتے ہیں کہ اگر کھلا ہوا گناہ چھپے ہوئے گناہ سے زیادہ سخت ہو تو اس کے ذکر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن احتیاط اسے ترک کر دینے میں ہی ہے۔

یہ بھی معلوم ہو جانا چاہیئے کہ کھلم کھلا گناہ کرنے والے کی غیبت اس صورت میں جائز ہے جبکہ اس نے خود اپنے گناہ کا اقرار کیا ہو لیکن اگر وہ اپنے عمل کا کوئی صحیح عذر پیش کرے تو اس کی غیبت جائز نہیں ہے۔ مثلاً شراب کو دَوا کے طور پر اور بیماری کے علاج کی غرض سے پینے کا عذر کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ایسے شخص کی تقلید میں ہوں جو شراب کو اس صورت میں جائز جانتا ہے یا مثلاً رمضان کے مہینے میں کھانا کھانے کے لیے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ میں مریض یا مسافر ہوں یا دوسرے قابلِ قبول عذر رکھتا ہے اور مثلاً ایسا شخص جو گناہ کرتا ہے تو اپنے عمل کے لیے کوئی عذر گھڑ لیتا ہے بشرطیکہ اس عذر میں بظاہر کوئی نقصان یا خرابی نہ ہو اور احتیاط اس شخص کی غیبت ترک کرنے میں بھی ہے جو کسی انجان شہر یا اجنبی محلے میں وہ گناہ کھلم کھلا کرتا ہے۔

( ۲) مظلوم اگر اپنے آپ پر کیے ہوئے ظالم کو ظلم بیان کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ غیبت نہیں ہے جیسا کہ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے :" جو شخص اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد ظالم سے انتقام لیتا ہے اور جو ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں ان پر کوئی سختی یا ناخوشی نہیں ہے۔" (ظالموں سے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے )۔ دراصل گناہ اور عذاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور کسی سبب اور دلیل کے بغیر حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (سورہ شوریٰ آیت ۳۹)

خداوند عالم سورہ نساء میں فرماتا ہے:" خدا مظلوم کے علاوہ اور کسی کا کھلم کھلا بُری باتیں کرنا پسند نہیں کرتا۔" (آیت ۱۴۸)

احتیاط اس میں ہے کہ مظلومیت کا اظہار اس شخص کے سامنے کرے جس سے اسے داد خواہی یعنی انصاف کی اُمید ہو اور اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس شخص سے انصاف نہیں ہو گا یا یہ انصاف نہیں کرے گا تو اس سے ظالم کی شکایت نہ کرے اور اس کے ظلم کا ذکر بھی نہ کرے۔

( ۳) مشورہ طلب کرنے والے کو نصیحت۔ جب کوئی مسلمان کسی ایسے معاملے میں جو کسی مخصوص شخص کے ساتھ کرنا چاہتا ہے کسی سے مشورہ کرتا ہے اور جس سے مشورہ کیا جاتا ہے اور وہ اس مخصوص شخص کا کوئی ایسا عیب جانتا ہے جو اگر بیان نہیں کرتا تو معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور وہ مسلمان پریشانی میں پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ درحقیقت اس کو یہ عیب نہ بتانا نقصان میں پھنسانے اور اس کے ساتھ خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ تو اس صورت میں اس شخص کا عیب بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جاننا چاہیئے کہ اس مسئلے میں احتیاطاً دو باتوں کا لحاظ رکھنا ہے ایک یہ کہ ایسی صورت میں اس شخص کا عیب بیان کرے جب نہ کہنے سے نقصان زیادہ ہو اور اگر اس کے برعکس ہو یعنی مشورہ کرنے والے کا نقصان سے زیادہ اس شخص کی بے آبروئی اور بے عزّتی کا نقصان ہو جس کا عیب بیان کیا جاتا ہے تو لازم ہے کہ اس کا عیب بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس شخص کے عیب کا ذکر کرنا اس وقت جائز ہے جب اس معاملے سے پیدا ہونے والی خرابی روکنے کے لیے اس عیب کا ذکر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ ہو۔ اگر اس عیب کا ذکر کیے بغیر ہی کام چل جائے مثلاً اتنا ہی کہے کہ اس معاملے میں مجھ اس کی صلاحیت کا علم نہیں ہے اور وہ (مشورہ کرنے والا) اسی کو مان لیتا ہے تو پھر اسی پر اکتفا کرنا چاہیئے۔

( ۴) نہی از منکر کی نیّت سے جب کہ اس کی تمام شرطیں پوری ہوتی ہوں غیبت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی جب کسی مسلمان کا کوئی بُرا فعل دیکھے اور یہ سمجھے کہ اگر وہ اس کی غیبت کرتا ہے تو وہ اس کام کو ترک کر دے گا غیبت جائز ہے۔ لیکن اس صورت میں جب کہ اس کے بُرے فعل پر اس شخص کا اصرار جانتا ہے البتہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے ترک کر دیا ہے تو اس کا ذکر جائز نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے قضیئے کے مانند غیبت کرنے کی خرابی اور اس بُرے فعل کی خرابی کا موازنہ کر لینا چاہیئے۔ اگر اس مسلمان کی بے عزتی کا نقصان اس بُرے فعل کے نقصان سے زیادہ ہے جس میں وہ مشغول ہے تو اس کی غیبت کرنا جائز نہیں ہے چاہے اسے اس بات کا یقین ہی ہو کہ غیبت کرنے سے وہ شخص اس گناہ کو ترک کر دے گا۔

اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کا گناہ دیکھو تو اس کے صحیح ہونے ہی کا گمان کرو اور اگر اس کا گناہ ہونا قطعی نظر آئے اور اسے صحیح سمجھا ہی نہ جا سکے تو ایسی صورت میں جبکہ اس مسلمان نے وہ گناہ ترک کر دیا ہو اور اسے نہ دُہرایا ہو اس کے اس گناہ کا ذِکر کرنا حرام ہے اور اسی طرح اسے منع کرنا یا ملامت کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ نہی از منکر کا مقصد ترکِ گناہ ہوتا ہے اور جب کسی نے خود ہی گناہ ترک کر دیا ہو تو پھر اسے منع کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اگر اس نے گناہ ترک نہیں کیا بلکہ اس پر اصرار کرتا ہے تو اس صورت میں چھپے ہوئے گناہ کو دوسرے کے سامنے کھولنا اور بیان کرنا حرام ہے۔ اسے نہی از منکر کی تمام شرطوں کے ساتھ گناہ سے روکنا چاہیئے اور اگر نہ رُکے اور یہ سمجھ میں آئے کہ اس کا گناہ دوسروں سے بیان کرنے پر یہ اسے ترک کر دے گا تو اس صورت میں اس کا گناہ بیان کرنا جائز ہے لیکن شرط یہی ہے کہ گناہ کا ترک کرنا اس مسلمان کی آبرریزی اور رسوائی سے زیادہ اہم ہو۔

جو کچھ یہاں کہا گیا ہے اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ نہی از منکر کی خاطر مسلمان کی غیبت اسی صورت میں جائز ہے جب وہ مسلمان اس گناہ پر اصرار کرتا ہو اور صرف منع کرنے سے باز نہ آتا ہو اور اس گناہ کا نقصان اس کی آبروریزی اور رسوائی سے زیادہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ اگر اس کی غبیت کی جائے گی تو وہ اس گناہ کو ترک کر دے گا۔ اگر ان چاروں شرطوں میں سے ایک بھی کم ہوئی تو اس کی غیبت کرنا حرام ہے

( ۵) ایسے شخص کا عیب کھولنا اور اس کی غیبت کرنا جو خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے اور خدا کے دین میں بدعت کو رواج دینے والا ہے تو اس خیال سے کہ لوگ اس سے دھوکا نہ کھائیں اور اس کے جال میں نہ پھنسیں۔

( ۶) جس گناہگار نے کوئی روایت بیان کی ہو یا کسی بات کی گواہی دی ہو اس نیت سے اس کی غیبت کرنا کہ لوگ اس کے گناہ سے واقف ہو جائیں او اس کی بات کا اثر قبول نہ کریں۔

( ۷) کسی کا ایسے عیب اور نقص سے ذکر کرنا جس سے وہ مشہور ومعروف ہو جیسے اعمش (جس کی بینائی کمزور ہو اور آنکھیں برابر ڈبڈبائی رہتی ہوں)، بھینگا، لنگڑا وغیرہ لیکن اس طرح کہ اس کا عیب بیان کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اسے صرف پہچنوانا منظور ہو اور وہ شخص بھی ان القاب (ناموں) سے ناراض نہ ہو ورنہ ان سے پرہیز کر کے کسی دوسری طرح اسے صرف پہچنواناچاہیئے ۔

( ۸) کسی ایسے شخص کی تردید (کاٹ) کرنا جو کسی خاندان سے یا نسل سے اپنے تعلق کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو کیونکہ نسلوں اور خاندانوں کی حفاظت کا خیال دعوے دار کی بے عزت کے نقصان پر مقدم ہے۔

( ۹) کتاب کشف الریبہ میں بعض فقہاء سے نقل کیا گیا ہے جب دو آدمیوں کسی شخص کا گناہ دیکھیں اور اس کی غیر حاضر میں ایک دوسرے سے بیان کریں تو یہ جائز ہے کیونکہ کہنے والا سُننے والے سے کوئی ایسی بات نہیں کہتا جو سُننے والے کی نظر سے چھپی ہوئی ہو بلکہ جو بات اس نے خود بھی دیکھی ہے وہی دُہراتا ہے اور شہد نے فرمایا ہے کہ ایسی بات چیت ترک کرنا خاص طور پر اس صورت میں بہتر ہے جب کہ یہ خیال ہو کہ سُننے والا اسے بھول چکا ہے یا یہ اندیشہ ہو کہ اصل واقعہ مشہور نہ ہو جائے۔

شیخ انصاری فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کا اس گناہ کا ایک دوسرے سے بیان کرنا اگر اس شخص کی ملامت اور عیب جوئی کی خاطر ہو تو حرام ہے ورنہ جائز ہے۔

( ۱۰) کلیہ یہ ہے کہ جس موقع پر کسی مومن کی غیبت کرنے میں اس کی رسوائی کے نقصان سے زیادہ فائدہ ہو جیسے اپنے معاملات میں گواہی دینا تو غیبت جائز ہے۔

غیبت سُننا بھی حرام ہے

جس طرح غیبت کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اسی طرح غیبت سُننا بھی تمام فقہاء کے نزدیک یکسر حرام ہے اور پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: " غیبت سُننے والا غیبت کرنے والے کے برابر ہے اور غیبت پر کان دھرنے والا غیبت کرنے والوں میں سے ہے۔" (مستدرک الوسائل کتاب حج باب ۱۳۶) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کسی مسلمان کی غیبت کرنا کفر کے برابر ہے اور غیبت سننا اور اس سے خوش ہونا شرک کے برابر ہے۔"

(کشف الریبہ)

ان روایتوں کو دیکھنے کے بعد جو مومن کی شان میں آئی ہیں، اس کے احترام کو کعبے سے بھی زیادہ اور اس کی آبروریزی کو اس کا خون بہانے کے برابر جانتی اور اس کا راز کھولنے کو دردناک عذاب کا سبب شمار کرتی ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیبت کا سب سے بڑا رکن اور مومن کی توہین کا سبب سُننے والا شخص ہوتا ہے کیونکہ اگر سُننے والا نہ ہو یا نہ سُنے تو غیبت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جب یہ دیکھے کہ کوئی شخص کسی مومن کا عیب بیان کر رہا ہے تو اسے نہ سنے بلکہ اس کی کاٹ کرے اور اس مومن کی حمایت کرے۔

رسولِ خدا فرماتے ہیں: "جس کسی کے سامنے اس کے دینی بھائی کی غیبت ہو رہی ہو اور وہ حتی الامکان اس کی حمایت کرتا ہے تو خدا دُنیا اور آخرت میں اس کی، مدد فرمائے گا اور اگر اس نے امکان اور سکت کے باوجود اس کی حمایت نہیں کی تو خدا بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا اور دُنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا۔" (المجالس)

آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جو کوئی اپنے دینی بھائی کے ساتھ اس کی اس غیبت کے سلسلے میں جو کسی صحبت میں ہوتی ہے اس طرح نیکی کرتا ہے کہ اس غیبت کی تردید کرتا ہے تو خدا دُنیا اور آخرت کی ہزاروں قسم کی بُرائیاں اس سے دُور کر دے گا اور اگر وہ شخص امکان اور سکت کے باوجود غیبت کی تردید نہیں کرے گا تو اس کے گناہ غیبت کرنے والے کے گناہ سے ستر گنا زیادہ ہو جائیں گے۔"

شیخ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس غیبت سُننے والے کے گناہ جس نے غیبت سن کر اس کی کاٹ نہیں کی خود غیبت کرنے والے سے بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی یہ خاموشی یا پہلو تہی مومن اور دوسروں کی غیبت کرنے کی لوگوں کو جرأت دلاتی ہے۔

غیبت کی کاٹ کرنا غیبت سے روکنا اور غیبت سُن کر خاموش رہنا غیبت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

پس اگر کوئی دُنیاوی عیب ہو تو کہے کہ یہ عیب نہیں ہے بلکہ عیب وہ باتیں ہیں جنہیں خدا نے عیب قرار دیا ہے اور جن سے منع فرمایا ہے یعنی گناہ اور اس میں اپنے بھائی سے ایسی بات منسوب کرنا بھی شامل ہے جس کو خدا نے عیب نہیں جانا ہے یعنی تیرا غیبت کرنا عیب ہے اور اگر وہ دینی عیب ہو مثلاً اگر کوئی مومن کا کوئی گناہ بیان کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی صحیح صحیح وجہ بیان کرے یعنی اس کی صحیح توجیہ کرے اور اگر صحیح توجیہ ممکن نہ ہو و کہے کہ مومن معصوم نہیں ہوتا اس سے گناہ سرزد ہونا ممکن ہے اس لیے اس کی مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے اسے ملامت یا رُسوا نہیں کرنا چاہیئے۔ ممکن ہے تیری ملامت اور تنبیہ اس مومن کے گناہ سے زیادہ ہو۔

غیبت کی کاٹ کے مستثنٰی موقعے

جاننا چاہیئے کہ اس صورت میں غیبت سُننا حرام اور اس کی کاٹ اور مومن کی حمایت واجب ہے جبکہ ان دس موقعوں میں سے کوئی موقع پیش نہ آئے جن پر غیبت کے جائز ہونے کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس لیے غیبت کی تین قسمیں ہو سکتی ہیں: اوّل وہ جسے وہ یہ جان لے کہ یہ دس استثنائی موقعوں کی غیبت ہے۔ ایسی صورت میں اس کا سُننا جائز اور اسے کاٹنا واجب نہیں ہے۔ دوم وہ جبکہ یہ یقین کر لے کہ یہ غیبت مذکورہ موقعوں کی نہیں ہے پھر اس کا سُننا قطعی حرام اور امکانی حد تک اس کی کاٹ واجب ہے۔ سوم جب یہ خیال ہو کہ یہ غیبت کے جائز موقعوں سے متعلق ہے۔ اس صورت میں موازنہ کرے اس غیبت کو نہ سُننے، رد کرنے بلکہ مومن کی حمایت کا غیبت کرنے والے کی عزت بچانے سے کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ موقع جائز ہو اور گناہ نہ ہو۔ مثلاً غیبت کرنے والا کہے کہ شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اور اس عیب کی وہ کوئی صحیح وجہ بیان کرے۔

دوزخ اور دوزبانا

شیخ انصاری مکاسب میں غیبت کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: "اگر غیبت کرنے والا ایسا ہو جو اس کے شخص کے منہ پر جس کی غیبت کر رہا ہے تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے لیکن پیٹھ پیچھے اس کے عیب بیان کرتا ہے تو اس کا عذاب دُگنا ہوتا ہے اور شرع میں اسے ذواللسانین یعنی دو زبانوں والا کہا جاتا ہے اور اس صورت میں غیبت سخت حرام ہو جاتی ہے۔ روایتوں میں کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جب قیامت میں آئے گا تو اس کے منہ سے آگ کی دو زبانیں لٹکتی ہوں گی۔ (مکاسب)