گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110509
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110509 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

حرام مہینوں میں جنگ اورخدا کی راہ سے روکنا

حرام مہینوں میں جنگ کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور وہ چار مہینے یہ ہیں: ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب اور اس سے مراد مسلمانوں کے جنگ کرنے کی ابتداء ہے جو ان چار مہینوں میں حرام ہے اس لحاظ سے اگر کافروں یا ایسے لوگوں کی طرف سے جنگ چھیڑی جائے جو ان چار مہینوں کو حرام نہیں مانتے تو مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ان سے ان چار مہینوں میں بھی لڑیں۔

اس بات کے گناہِ کبیرہ ہونے کے متعلق قرآن مجید کی صراحت کافی ہے جو کہتا ہے: "تجھ سے حرام مہینے میں جنگ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ حرام مہینے میں لڑنا بڑا گناہ ہے۔" (سورة بقرہ آیت ۲۱۷)

ان چار گناہوں سے مراد ہے خدا کی راہ سے منع کرنا، خدا سے کفر کرنا، لوگوں کو مسجد الحرام سے روکنا اور مسجد الحرام سے اس کے لوگوں کو باہر نکالنا۔ یہ چار باتیں خدا کے نزدیک حرام مہینوں میں جنگ کرنے سے بھی زیادہ بڑے گناہ ہیں۔

اس آیت کے نازل ہونے کی وجہ اور اس کے متعلقات کے بارے میں تحقیقات کی ایک تفصیل ہے جو تفسیر مجمع اور منہج وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں جس بات کا جاننا لازم ہے وہ "صدعن سبیل اللّٰہ" کے معنی اور مراد ہیں جس کا گناہ کبیرہ ہونا مسلّم ہے اور جو قرآن مجید میں کئی مقامات پر کافروں اور منافقوں کا کام شمار کیا گیا ہے مثلاً خداوندعالم سورہ ابراہیم میں فرماتا ہے کافروں پر ان کے سخت عذاب کی وجہ سے افسوس ہے۔ انہوں نے دُنیا کی زندگی کو پسند کیا اور اسے آخرت پر ترجیح دی اور یہ دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں۔" (آیت ۲)

صد عن سبیل اللّٰہ کے واقعات اور معاملات

( ۱) اس کا سب سے سخت معاملہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء کی طرح خدا پر ایمان لانے اور دوسرے تمام صحیح عقیدوں سے دوسروں کو روکنا ہے جو نہیں چاہتے کہ حضرت محمد ابن عبداللہ کی نبوت اور حقانیت ان کی قوم پر ظاہر ہو اور وہ اس کے معتقد ہوں اور سنی علماء کی طرح جو سنی مسلمانوں کو علی بن ابی طالب کی امامت اور بلا فصل خلافت اور ان کے گیارہ فرزندوں کی امامت کا علم نہیں ہونے دیتے۔

( ۲) دوسروں کو واجبات پر عمل کرنے اور محرمات الہٰی کو ترک کرنے سے روکنا۔ مثلاً ایک شخص پر حج واجب ہے اور وہ حج کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو دوسرا اسے کسی نہ کسے بہانے سے روکتا ہے۔ اسی طرح نماز روزے اور دوسرے واجبات میں روکتا ہے اور جب امر بہ معروف اور نہی از منکر گناہِ کبیرہ ہو اور ان کے لیے شدید عذابوں کا وعدہ کیا گیا ہو جیسا کہ بیان جا چکا ہے، پھر اس شخص کا کیا حال ہو گا جو معروف سے منع کرتا ہے اور منکر کا حکم دیتا ہے۔

( ۳) دوسروں کو ایسے نیک کام سے روکنا جو خدا کے نزدیک اچھا اور اس کے نزدیک لے جانے والا ہو مثلاً خدا کی راہ میں خرچ کرنے اور دوسرے مستحب کاموں سے دوسروں کو روکنا۔ (مناع للخیر معتداثیم)

اگرچہ تیسری قسم کو حرام نہیں کہہ سکتے لیکن احتیاط اس کے ترک کرنے میں ہے کیونکہ جس شخص کو نیکی سے روکا گیا ہے وہ روکنے والے سے قیامت میں باز پرس کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ تو نے مجھ پر ظلم کیا تھا اور مجھے نیکی اور قربِ الہٰی حاصل کرنے کے طریقوں سے روکا تھا اور اس کی مذمت میں جوروایتیں کتاب امر بمعروف وسائل الشیعہ باب ۸ میں بیان کی گئی ہیں وہی کافی ہیںْ

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نیکی کی راہ کے لٹیروں پر خدا لعنت کرے۔" جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو آپ نے فرمایا: "یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ دوسرے بھلائی اور نیکی کرتے ہیں لیکن یہ ان کی ناشکری کرتے ہیں اسی لیے پھر نیک لوگ دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی نہیں کرتے۔" (کافی)

کفرانِ نعمت

کفرانِ نعمت (احسانِ فراموشی) گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسے چند مقامات پر کفر بھی کہا گیا ہے اور اسے پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہونے کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔

خدا سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "اور اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا تھا کہ اگر میری نعمتوں (ایمان اور نیک اعمال کی بدولت فرعون اور دوسروں کے شر سے نجات) پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب (ناشکروں یا احسان فراموشوں پر) سخت ہو گا۔" (آیت ۷)

خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔" (آیت ۱۵۲)

قومِ سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہے

خداسورة سبا کے باشندوں کے بارے میں یوں فرماتا ہے: "سبا کے قبیلے کے لیے (جو یمن میں تھا) لوگوں کے گھر (ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں) کی نشانی تھے اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے دو باغ تھے جو راہ چلنے والے کے دائیں بائیں یا ان کے گھروں کے دونوں طرف واقع تھے (اور کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی) پیغمبروں نے ان سے کہا: "خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔" انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا (اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے)۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا (بتایا گیا ہے کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی) اور ان دونوں باغوں کو ہم نے دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا جن میں سے کچھ درخت بیری کے تھے یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں اور کیا ہم ناشکروں کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں؟" (آیات ۱۵ تا ۱۷)

نعمت نقمت ہو جا تی ہے

خدا سورة نحل میں فرماتا ہے: "خدا نے ایک گاؤں کی مثال بیان کی ہے جس کے باسی امن اور اطمینان سے رہتے تھے ۔ہر طرف سے ان کے پاس بافراغت روزی چلی آتی تھی (خشکی اور تری دونوں سے) پھر انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھوک اور خوف کو ان کا اور اوڑھنا (لباس) بنا کر ان کے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھا دیا۔" (آیت ۱۱۲) لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔

ناشکرا پن ایک قسم کا کفر ہے

ٍ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ناشکرے پن کو کفر میں ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان کی بات دہراتا ہے کہ خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے اپنے فضل سے بخشا ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گذار ہوں یا ناشکرا۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے شکر ادا کرتا ہے (کیونکہ اس سے اس کی نعمت بڑھتی ہے) اور جو کوئی ناشکرا پن کرے تو کرے حقیقت یہ ہے کہ میرا خدا شکرگذاری سے بے نیاز اور کریم ہے۔ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کر دوں گا اور جو ناشکرا پن کرو گے تو پھر بلاشبہ میرا عذاب بھی سخت ہو گا اور خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر کرتے رہو ار میری ناشکری نہ کرو۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب وجوہ الکفر)

امام کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خد نے ان تینوں گناہوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں اس طرح کہ اس نے نعمت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات

اس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن صرف چند کے بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے:

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔" (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۷)

آپ یہ بھی فرماتے ہیں "تین گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے ۔ والدین کی نافرمانی، لوگوں پر ظلم اور احسان فراموشی"۔ (وسائل الشیعہ)

ٍ آپیہ بھی فرماتے ہیں: "خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔" (مستدرک ص ۳۱۶)

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: "کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔" (مستدرک ص ۳۹۶)

کفرانِ نعمت کے معنی

کفرانِ نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:

( ۱) نعمت سے ناواقفیت: یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفرانِ نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفرانِ نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔

( ۲) حالت کے لحاظ سے کفر: یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ (سورة یونس آیت ۵۸) اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔

( ۳) اعضائے جسم سے کفر: یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے (سورة الضحٰی آیت ۱۱) اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) (ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفرانِ نعمت بھی شامل ہے۔" (معانی الاخبار)

پیغمبر اکرم بھی فرماتے ہیں "مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔" (بحار الانوار جلد ۳)

شکر نعمت کے واجب ہونے کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں ملتی ہیں اور شکر کی حقیقت اور اس کی قسموں کی اس قدر تفصیل موجود ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لیے اصول کافی اور دوسری اخلاقی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔

اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہے

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے گاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔" (دعائے اوّل صحیفہ سجادیہ)

غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔

واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)

چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے سے پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔" پھر امام نے فرمایا: "تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "حقیقت میں خدا کا شکر ادا کرنا اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ہے جس کے ذریعے سے تمہیں خدا کی نعمت ملی۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔" (وسائل الشیعہ)

رسول خدا فرماتے ہیں: "قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۶)

پچھلی گفتگو میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث نقل کی گئی تھی جس میں آپ فرماتے ہیں: "اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے اور اس کی ناشکری گذاری (احسان فراموشی) کی وجہ سے نیکی کرنے والا پھر دوسروں کے ساتھ بھلائی نہ کرے۔" ( ۱)

( ۱) دیکھئے وسائل کتاب امر بمعروف جسکے باب ۸ میں اس موضوع پر ۱۶ حدیثیں، باب ۷ میں ۱۱ حدیثیں اور مستدرک میں ۱۴ حدیثیں اور باب ۷ میں ۹ حدیثیں بیان ہوئیں ہیں۔

نیکی کے واسطے شکریے کہ حقیقت

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر (اچھا صلہ) عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔"

(وسائل الشیعہ۔ مستدرک)

آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: "جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔" (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)

غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا سورة رحمن میں فرماتا ہے: "کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟" (آیت ۶۰) لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔

روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس ظلم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔

ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے: "اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔" (سورة ابراہیم آیت ۳۴ ) ان نعمتوں میں سے ہر نعمت کی ناشکری، جن معنوں میں ذکر کیا گیا ، گناہِ کبیرہ اور عذاب کی سزاوار ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔

ہر نعمت سے اعلیٰ اور اہم آلِ محمد علیھم السلام کی ولایت ہے (دیکھئے بحار الانوار جلد ۷) اور اس نعمت کی ناشکری ہر گناہ سے سخت ہے اور اس کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔

تفسیر صافی اور برہان وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ایمان سے متعلق زیادہ تر آیتوں کا اشارہ ولایت پر ایمان رکھنے سے ہے اور اسی طرح کفر کے موضوع سے متعلق آیتیں زیادہ تر ولایت کے انکار سے متعلق ہیں۔ مثال کے لیے دو ایک آیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

خداوندعالم سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو جہنم میں جھونک دیا۔" (آیت ۲۴)

یہ بات بہت سی روایتوں میں آئی ہے کہ نعمت معصوم اور پاک اہل بیت علیھم السلام ہیں اور کفر بنی امیہ اور آلِ محمد کے دشمن ہیں۔

خدا سورةتکاثر میں فرماتاہے : "قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"(آیت ۸)

بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس بات میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا آلِ محمد کی ولایت مراد ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ نعمت کی اصل اور حقیقت وہی ولایت کی نعمت ہے کیونکہ ہر نعمت کی فیض رسانی اسی پر منحصر ہے۔

علماء کے وجود سے انکار

ولایت کی نعمت سے انکار خدا کے عالموں اور روحانی فقیہوں کے وجود سے انکار ہے جو حضرت حجة ابن الحسن (علیہ السلام) کی غیبت کے زمانے میں ان کے عام نائب ہیں اور ظاہر ہے کہ نائب سے انکار اس سے انکار ہے جس کا وہ نائب ہے۔ جس طرح نائب کا شکریہ اس کا شکریہ ہے جس کا وہ نائب ہے چونکہ اس کے بارے میں دلیلوں اور روایتوں کا ذکر اور علماء کی فضیلت کا بیان طول کلام اور اس کتاب کے موضوع سے غیر متعلق ہو جانے کا سبب ہو گا اس لیے صرف نائب امام اور اس کی نعمت سے انکار کے معنی بیان کرنے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔

نائب امام کون ہے؟

نائب امام وہ شخص ہے جو علومِ آلِ محمد سے فیضیاب ہو چکا ہو اور یقین اور اطمینان کے مقام پر پہنچ گیا ہو اور نفسانی کمالات کے لحاظ سے ہو اور ہوس کی قید سے آزاد ہو، نفس اور شیطان پر غالب آ چکا ہو اور عدالت کی صفت رکھتا ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ خود امام کا نمونہ ہو اور ان بزرگوار کے انوار سے فیض حاصل کر چکا ہو تاکہ دنیا والے اس کی گفتار اور کردار کی روشنی سے بلکہ اس کے نفس وجود سے فیضیاب ہوں اور اس کی پیروی کر کے نجات پائیں۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ اس بلند مقام (نیابت امام) پر پہنچنا بہت مشکل اور بہت زیادہ محنت اور مشقت کرنے پر منحصر ہے۔ چونکہ ایسے روحانی عالم کا وجود خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے اس لیے اس کا شکر بھی سب سے بڑا شکر ہے اور اسی طرح اس سے انکار بھی سب سے بڑا گنا ہ ہے۔

روحانی عالم کے وجود سے انکار

روحانی عالم کے وجود سے انکار یہ ہے کہ اس کے وجود کو نعمت نہ مانا جائے، اس کی حیثیت کی پرواہ نہ کی جائے، اس کی اطاعت لازم نہ سمجھی جائے یا خدانخواستہ اس کا حکم نہ مانا جائے جو خود گناہِ کبیرہ اور امام کی مخالفت کے برابر ہے اور یہ خدا سے شرک کرنے کی حد میں آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ امام سے کٹ جانا اور بے تعلق ہو جانا ہے۔

ابوحمزہ نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا: "عالم ہو یا طالب علم ہو یا اہل عِلم کا دوستدار بن اور چوتھی قسم (یعنی نہ عالم نہ طالب عِلم نہ ان کا دوستدار) نہ بن کیونکہ تو انہیں اپنا دشمن رکھ کر ہلاک ہو جائے گا۔" (اصولِ کافی کتاب فضل العلم باب اصناف الناس حدیث ۳)

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خدا نے دانیال (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ میرے نزدیک میرا سب سے بڑا دشمن بندہ وہ نادان ہے جو اہلِ علم کے حق کی پرواہ نہیں کرتا اور ان کی پیروی نہیں کرتا اور میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ دوست بندہ پرہیزگار مناسب ثواب کا طالب، عالموں کا خادم، بردباروں کا پیرو اور حکمت شعاروں کی تواضح کرنے والا ہے۔" (اصول کافی باب ثواب العلم والتعلیم حدیث ۵)

علماء کے وجود سے انکار پر سخت سزائیں

اس نعمت کے انکار پر سخت سزاؤں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "ایک زمانہ آنے والا ہے جب لوگ عالموں سے یوں بھاگیں گے جیسے بھیڑیے سے بھیڑ بھاگتی ہے۔ چنانچہ خدا ان کو تین بلاؤں میں مبتلا فرمائے گا۔ ان کے مال وملکیت سے برکت اُٹھا لے گا، ان پر ظالم بادشاہ مقرر کرے گا، وہ دنیا سے بے ایمان جائیں گے۔" (سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۲۰)

واضح رہے کہ دینی علوم کے حاصل کرنے والے نیابت امام کے بلند مقام تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا وجود بھی نعمت ہے اور ان کا احترام کرنا بھی سب کے لیے لازم ہے اور ان کے وجود سے انکار، ان کی توہین اور سب کی بھی حرام ہے۔

فتنہ

فتنہ کو قرآن مجید میں صاف طور پر قتل سے بھی شدید اور بڑا مانا گیا ہے (سورة بقرة آیت ۱۹۱ ۔ ۲۱۷) اور چونکہ انسان کو ناحق قتل کرنا مانا ہوا گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اس لیے فتنے کا کبیرہ ہونا بھی مسلم ہوا جو قتل سے بھی بُرا ہے۔

فتنے کے سخت قابل نفرت اور قابل غیظ وغضب ہونے کے لیے یہی کافی ہے ہے خدا نے قرآن مجید میں اسے دور کرنے کے لیے جہاد کا حکم فرمایا ہے اور کہا ہے :"مشرکین سے جنگ کرو تاکہ فتنہ دُور ہو۔" (سورة بقرہ آیت ۱۹۳)

کتاب اسلام وصلح جہانبانی مولفہ سیّد قطب کے صفحہ ۵۶ پر لکھا ہے کہ وہ واحد جنگ جسے اسلام نے شرعاً جائز سمجھا اور لازم قرار دیا وہ جنگ ہے جو خدا کے کلمے کو اونچا کرنے کے لیے کی جائے اور خدا کے کلمے سے مراد وہ حقیقت ہے جو ایسے قانون اور سنت سے موافقت رکھتا ہو جسے دنیا اور انسان کے لیے ناقابلِ تغیر قرار دیا گیا ہو۔

ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ دنیا کی فطرت میں انحصار باہمی اور انسانی زندگی میں اشتراک عمل دو ایسے قانون ہیں جنہیں خدا زندگی کے تسلسل کے لیے چاہتا ہے یعنی وہ متوازن تنظیم جو دنیا کی ساخت میں رکھی گئی ہے اور جو دنیا کو بگڑنے اور بکھرنے سے روکتی ہے اور جس نے زندگی کو وہ قوت عطا کی ہے جسے سے وہ برابر ترقی اور تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اشتراک عمل اور باہمی تعاون کو جو تاریخِ انسانی میں علی العموم تمام انسانوں کی بہبود کے لیے ہے قائم رکھے۔

اسلام تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اس لیے کلمہ خدا اور خدا کے ارادے کا کام یہ ہے کہ اسلام جو عام لوگوں کے لیے بھلائی اور نیکی لایا ہے وہ سب تک پہنچا دے اور ان ہر قسم کے اسباب کو جو انسانوں اور ان نیکیوں اور بھلائیوں کے درمیان حائل ہوں دُور کر دے اس لحاظ سے جو کوئی انسانوں کی اس عمومی بھلائی کے حاصل ہونے میں راستے کا پتھر بنے اور اپنی قوت سے لوگوں کے اور اس بھلائی کے درمیان حائل ہو وہ شخص خدا کا دشمن ہے اور کلمہ خدا اور ارادہ خدا پر دست درازی کرتا ہے اس لیے دعوت اور تبلیغ کے راستے سے اس کے کانٹے کو ہٹانا اور دوبارہ کلمہ خدا کو قائم کرنا چاہیئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اسلام کو طاقت سے منوائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان کو سوچنے کی آزادی اور وسیع معلومات فراہم کی جائیں جن کی بدولت ہدایت اور عمومی بھلائی حاصل ہوتی ہے تاکہ اس سے انہیں بھی ہدایت حاصل ہو ورنہ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ اس کے سامنے سر جھکائے اور مجبوراً اسے مانے "لا اکراہ فی الدین" بلکہ یہ چاہتا ہے ان لوگوں کو راستے کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو حق کے راستے سے بھٹکاتے ہیں راستے کے کانٹوں کی طرح چن کر الگ کر دیں "وقاتلواھم حتی لاتکون فتنہ ویکون الدین کلہ للّٰہ" یعنی ان سے لڑو تاکہ فتنہ نہ رہے اور دین قطعی خدا سے مخصوص ہو جائے۔

اسلام اس لیے آیا ہے کہ پوری دنیا میں عدالت پھیلا دے اور انسانی سماج میں سماجی عدالت، عدالت قانو سازی اور بین الاقوامی عدالت قائم کرے اس لیے جب بھی کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے اور انصاف سے دُور ہو جائے مسلمانوں کولازم ہے کہ کلمہ توحید کو بلند کرنے کے لیے اس سے لڑیں چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ (کتاب اسلام وصلح جہانبانی)

خدا سورة البروج میں فرماتا ہے: "جو لوگ ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اور اس گناہ سے توبہ بھی نہیں کرتے ان پر دوزخ اور اس کی دہکتی بھڑکتی آگ کا عذاب ہو گا۔" (آیت ۱۰)

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "فتنے کی کوشش کرنے والا (فتنہ پیدا کرنے والا) خدا کا منکر (کافر) ہو جاتا ہے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔" (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۴۸ حدیث ۱۴)

فتنے کے معنی

اگرچہ اہلِ لغت نے محل استعمال کے لحاظ سے فتنے کے دس سے زیادہ معنی لکھے ہیں لیکن یہاں فتنے کے وہ عام اور روایتی معنی مراد ہیں جو اس کے اطلاق سے ظاہر ہوتے ہیں اور وہ ہیں ہنگامہ کھڑا کرنا اور کسی ایک شخص یا جماعت کا آرام، آزادی اور امن غارت کرنا، دو یا دو سے زیادہ انسانوں کو لڑانا، دو دھڑے بنوانا اور عوام کو تکلیف اور مصیبت میں پھنسانا۔

فتنہ دینی کاموں میں بھی ہوتا ہے اور دنیا کے کاموں میں بھی۔ پھر دینی فتنے کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ کبھی ایک شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں دین حق قبول کرنے نہیں دیتا اور اس راستے میں اپنی زبان اور قلم سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی ان لوگوں کو ایذا پہنچا کر اور تنگ کر کے جنہوں نے دین قبول کر لیا ہے دوسروں کو دین قبول کرنے سے روکتا ہے۔ مثلاً آغاز اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ مکے کے مشرکوں کا طرزِ عمل اور معاویہ کا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے شیعوں کے ساتھ برتاؤ۔

بنی اُمیّہ کا فتنہ بد ترین تھا

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبے میں فرماتے ہیں: "میرے نزدیک تمہارے لیے سب سے خطرناک فتنہ بنی امیہ کا فتنہ ہے (اپنی سختی، دورانیے اور دینی قوانین کی بیخ کنی کے لحاظ سے) درحقیقت یہ فتنہ تاریک اور اندھا ہے۔ (کیونکہ جس طرح اندھا اپنے ہی راستے پر چلتا ہے اس کی ہدایت بھی شریعت کے راستے پر نہیں اپنے ہی راستے پر تھی) اور دنیا والوں پر تاریکی لانے والا ہے کیونکہ اس کا اثر عام ہے یعنی اس کا شر سب تک پہنچتا ہے اور اس کی مصیبت خاص ہے۔ (مخصوص پرہیزگاروں اور ہلِ ایمان پر خصوصاً پیغمبر کے اہل بیت پر کیونکہ اس سے بڑا اور کوئی فتنہ نہیں ہو سکتا جس نے رسول خدا کی توہین کی، حسن اور حسین # کو ان کے ساتھیوں سمیت شہید کیا، کعبے کو منہدم کیا، مدینے میں مہاجر اور انصار کا قتل عام کیا، تقریباً اسّی سال تک منبروں اور میناروں پر امیرالمومنین (علیہ السلام) کو بُرا بھلا کہا اور حجا ج لعین کو مظلوموں کا خون بہانے کے لیے مسلط کیا) جس کسی نے اسے دیکھا، اس سے عبرت حاصل کی او اسے فتنہ جانا اور اس سے فرار کیا وہ گرفتار ہوا اور جو کوئی اس فتنے کی طرف سے اندھا بن گیا اور بنی امیہ کے قریب آ گیا وہ ان کے ظلم وستم سے محفوظ رہا۔ (نہج البلاغہ ۱۰۲)

تاریخ گواہ ہے کہ آغازِ اسلام سے آج تک کہ چودہ صدیاں گذر چکی ہیں ہر صدی میں دنیائے اسلام میں فتنے اٹھتے رہے ہیں اور ان فتنوں کی پیدائش اس لیے ہوتی رہی ہے کہ دنیا کو آزمایا جائے، اسلام کا دعویٰ کرنے والوں کا سچ ظاہر ہو جائے، پاک سے ناپاک الگ ہو جائے، خوش قسمتوں میں نیکی اور بدقسمتوں اور منحوسوں میں سنگدلی پیدا ہو جائے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس موضوع کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً سورة عنکبوت میں ہے: "احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون" (آیت ۲) کیا لوگوں نے یہ سوچا تھا کہ جیسے ہی وہ یہ کہہ دیں گے کہ ہم ایمان لے آئے وہ نجات پا جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں ہو گی؟

پچھلی صدی میں جو فتنے اٹھے ان میں سب سے شدید فتنہ پارٹی بازی کا فتنہ اور مادیت اور عیاشی کے طرفداروں اور ایمان داری اور روحانیت سے انکار کا فتنہ ہے جس نے سیلاب کی طرح یورپ اور امریکہ کی طرف سے اسلام ممالک کا رُخ کیا، آفرینش اور آخرت کے عقیدے کی جڑ دلوں سے اکھاڑ ڈالی اور اس کی جگہ مادیت، عیاشی، خود غرضی اور دنیا پرستی کا منحوس پودا لگا دیا۔ مسلمانون نے اس عہد کو آیت "فخلف من بعد ھم خلف اضاعوا الصلوة واتبعوا الشھوات فسوف یلقون غیاً" (سورة مریم آیت ۵۹) کا حقیقی مصداق قرار دیا یعنی پہلے مومن لوگوں کی جگہ ایسے لوگ آ گئے جنہوں نے نمازیں ترک کر دیں ور عیاشی کو اپنا شعار بنا لیا۔ یہ لوگ بہت جلد اپنی گمراہی کے نتائج ور ہلاکت دیکھ لیں گے۔

غرض ان لوگوں نے انسانی سماج سے شرافت اور روحانیت کا خاتمہ کر دیا۔ سب کو خدا اور آخرت کی یاد سے غافل بنا دیا اور طرح طرح کی خواہشات اور بدکاریوں میں اس طرح مشغول کر دیا کہ اسلام کا صرف نام ہی رہ گیا جیسا کہ پیغمبر اکرم نے آگاہ کیا تھا اور آج کے سماجی حالات کو جانچنے کے بعد بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی عمدہ صفات اُٹھ گئی ہیں۔ ان کی جگہ حیوانی اور شیطانی عادتوں نے لے لی ہے۔ مثلاً حیا جو انسان کی ایک عمدہ صفت ہے اور جو ہزاروں خرابیوں کو روکتی اور عام عصمت اور پاکدامنی کی حفاظت کرتی ہے ان کے درمیان سے اٹھ گئی ہے اور اس کی جگہ بے غیرتی اور فحاشی نے لے لی ہے۔ اسی طرح حقوق کی ادائیگی خصوصاً والدین کے حق کی ادائیگی جو انسانی سماج کے لوازمات میں سے شامل ہے اور غیر معمولی ایمانداری کی مستحق ہے جاتی رہے ہے اور اس کی جگہ حق ضائع کرنے، ناشکرے پن، احسان فراموشی اور دوسرے کی خدمت کو نظر انداز کرنے نے لے لی ہے۔

اشتراک عمل، امدادِ باہمی، تنظیم ، مہربانی، رحم، ہمدردی، خیرخواہی اور درگذر وغیرہ جن سے دنیاوی زندگی کا نظام اور آخرت کی نیکی اچھی طرح وابستہ ہے ختم ہو چکی ہیں ان کے مقابلہ میں خود غرضی، غرور کٹھورپن بے مروّتی اپنے آرام اور دوسرے کی تکلیف وغیرہ نے جگہ لے لی ہے۔ اسی طرح تمام طبقوں سے گفتار وکردار کی سچائی اُٹھ گئی ہے۔ اس کی جگہ دھوکا، ملاوٹ، فریب کاری اور چوٹٹا پن پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہر جنس کے لوگ اپنی اپنی جس میں کیسی کیسی تبدیلیاں کرتے ہیں اور انہیں صحیح بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مال حاصل کرنے اور اپنے مادی تکلفات کے وسائل کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی بے ایمانی اور جرم سے دریغ نہیں کرتے۔ چنانچہ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے زہریلی خوراک بیچی ہے اور اپنی نوع کی جانوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ حیوانات کی طرح ہو گئے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہیں اور آپس میں نفرت، غصہ اور زور آوری سے ملتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ مادیت کی خرابی کا نمونہ ہے اگر اس کی تفصیل بتائی جائے تو اس سے کتابیں بھر جائیں۔

واضح رہے کہ اس فتنے کا آغاز کرنے اور اسے رواج دینے والے لوگوں کی چال سماج کو کمزور بنانا اور اس کی روحانیت کو ختم کرنا ہے اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ سماج خصوصاً جوان نسل میں ایمانداری کو بُرا سمجھنے اور اس کا مذاق اُڑانے کا جذبہ پیدا کرنا اور ان کے اور سماج کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ وہ ایمانداری کے بلند درجات، انسانیت کی اعلیٰ صفات ار آدمیت اور شرافت کی علامات اور آثار کے بارے میں کچھ نہ سن پائیں اور پھر انہیں اندھا بہرا بنا کر اور خرابی کے گٹر میں گرا کر طرح طرح کے گندے جذبات میں مشغول بنا دیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کی خاطر ان کا سب سے بڑا ہتھیار اتہام ہے۔ کبھی انہیں دنیا کی حالتوں اور تمدن سے بے خبر کہتے ہیں اور کبھی انہیں سماجی ترقی کے مخالف بتاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ دنیا پرست اور جاہ طلب ہیں۔ چونکہ سماجی ترقی ان کی سرداری میں روڑے اٹکاتی ہے اس لیے یہ اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور اسی طرح کے مختلف الزام لگاتے ہیں۔ کسی سمجھ دار مسلمان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ سب الزامات اور اتہامات میں جنہیں اصلیت اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بدعت اور جاسوسی

دینی فتنوں میں بدعت کا بھی شمار ہے۔ جن لوگوں نے اسلام میں نئے نئے طریقے ایجاد کیے اور مسلمانوں کو الگ الگ کیا اور عالم اسلام میں ہزاروں فتنے اور فسادات پیدا کیے وہ بدترین فتنہ انگیز لوگ ہیں۔

ایک دینی فتنہ کافروں کے لیے ان باتوں کی جاسوسی کرنا بھی ہے جن کو مسلمانوں میں ہی پوشیدہ رکھنا چاہیئے جیسا کہ خداوندعالم سورة نساء میں منافقین کے متعلق فرماتا ہے: "جب ان تک کوئی خوف یا امن کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے ظاہر کر دیتے ہیں۔" (سورة نساء آیت ۸۳)

علامہ مجلسی  نے بیضاوی سے اس آیت کا مطلب نقل کیا ہے کہ وہ امن اور خوف کی باتیں ظاہر کر دیتے ہیں کچھ کمزور طبیعت کے مسلمانوں کا قاعدہ یہ تھا جب رسول خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے لشکر کی کوئی خبر ملتی تھی یا پیغمبر اکرم فتح یا شکست کے بارے میں خدا کی وحی کی اطلاع دیتے تھے تو اسے فاش کر دیتے تھے اور خود اس بات سے بھی پریشانی اور گڑبڑ پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ یہ آیت اس بات کے آشکارا کرنے کی مذمت کرتی ہے جس کے کھول دینے سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔

شیعوں کے بھید اور مشکل حد یثوں کا فا ش

یہی صورت شیعوں کے ایسے بھیدوں کے کھول دینے کی ہے جو ان کے اماموں نے مخالفوں کے بارے میں انہیں بتائیں کیونکہ اس سے مومنوں کو نقصان اور تکلیف پہنچتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تقیہ واجب ہو وہاں تقیہ نہ کرنا نقصان کا موجب ہوتا ہے۔

علّامہ مجلسی  فرماتے ہیں: "شاید علوم کی بعض مشکل باتیں ان لوگوں کو بتانا جو انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں بھید کھولنے ہی کے زمرے میں آتا ہے۔" (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب الاذاعہ حدیث ۱۲)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی ہماری حدیث ظاہر کر دے گا خدا اس کا ایمان سلب کر لے گا کیونکہ اس نے ہمیں کسی خطا پر قتل کی نہیں کیا بلکہ بے خطا اور عمداً قتل کیا۔" (کافی)

اس آیت کے معنی بیان کرتے ہوئے بھی کہ "وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں"۔ (سورة بقرة آیت ۶۱) فرمایا: "خدا کی قسم ان لوگوں نے پیغمبروں کو اپنی تلواروں سے نہیں قتل نہیں کیا بلکہ ان کے راز فاش کیے اور انہیں شہرت دی جس سے وہ قتل ہو گئے۔" (کافی)

د ینی جماعتوں کی پراگندگی

جو لوگ متحد اور متفق ہو کر خدا سے لو لگاتے اور اپنے پیغمبر اور امام کا ذکر کرتے ہیں ان میں زور زبردستی سے جماعت کے امام اور دینی پیشوا کے خلاف پیروکاروں میں یا پیروکاروں میں ایک دوسرے کے خلاف شک اور بدگمانی پیدا کر کے ان میں جدائی ڈالنا اور انہیں الگ الگ کر دینا یعنی ان کے دلوں کا اتحاد ختم کر دینا جو ہر بُرائی کی جڑ ہے اور خدا کو سخت ناپسند ہے ایک دینی فتنہ ہے۔

فتنے کا گناہ قتل سے بھی بڑا ہے

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ دینی فتنے کا گناہ قرآن مجید کی نص کے مطابق کسی انسان کے قتل کے گناہ سے بھی برا ہے کیونکہ کسی انسان کا قتل تو ایک عارضی اور مستعار دنیوی زندگی کا ختم کرنا اور حقیقت میں اس دنیا کی برائیوں اور آفتوں سے چھٹکارا پانا ہے لیکن دینی فتنے سے ابدی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور انسان دائمی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور جس قدر عالم آخرت دنیا سے بڑا اور اہم ہے بلکہ ناقابلِ قیاس ہے دینی فتنہ بھی قتلِ انسانی سے اتنا ہی بڑا اور اہم ہوتا ہے۔

وہ قتل جو سرکاٹنے سے بھی بدتر ہوتا ہے

حضرت امام سجاد (علیہ السلام)فرماتے ہیں: "کیا تمہیں میں ایسا قتل بتاؤں جو سر کاٹنے سے بھی بدتر ہوتا ہے۔" لوگوں نے کہا "ضرور بتائیے"َ آپ نے فرمایا: "جو کسی کو قتل کرے اور ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دے۔" لوگوں نے پوچھا "وہ کیا ہے؟" آپ نے فرمایا "اسے حضرت محمد ﷺکی نبوت اور حضرت علی (علیہ السلام) کی ولایت سے بھٹکائے، غیر خدا کے راستے اور دشمنانِ علی کے طریقے کی پیروی پر اس طرح مجبور کرے کہ دشمنان علی اسے پیشوا جانیں اور حضرت علی کی امامت اور فضیلت کا منکر ہو۔ تو یہ ہے وہ قتل جو بدقسمت مقتول کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رکھے گا اور اس کے قاتل کی سزا بھی دوزخ کا دائمی قیام ہو گا۔" (تفسیر علی ابن ابراہیم قمی)

اس کے علاوہ دینی فتنے غالب طور پر قتل اور خونریزیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔

دنیوی فتنہ

دنیوی فتنہ قتل سے بدتر ہوتا ہے کیونکہ جو کوئی پہلے فتنے کی آگ بھڑکاتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس آگ میں جلاتا ہے ان کو اس قدر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کرتا ہے جیسے وہ روزانہ قتل ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ اگر انہیں ایک ہی بار قتل کیا جاتا تو وہ کچھ آرام سے رہتے۔ دوسرے یہ کہ فتنے اکثر قتل وغیرہ یعنی زخمی کرنے اور اعضائے جسمانی کے ناکارہ اور ناقص بنا دینے کی طرف لے جاتے ہیں۔ شہید فرماتے ہیں کہ قتل ناحق گناہِ کبیرہ ہے اور بدن کے اعضاء (مثلاً ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ) کو نقصان پہنچانا قتل کے برابر ہے۔ (قواعد ص ۱۰۰)

معلوم ہونا چاہیئے کہ جس فتنے کا نقصان اور خرابی جتنی زیادہ ہو گی اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔

فتنے کا مطلب کفر اور شرک بھی بیان کیا گیا ہے

واضح رہے کہ زیادہ تر مفسرین نے اس آیت میں لفظ فتنہ کی کفر اور شرک سے تفسیر کی ہے۔ ایک روایت میں ہے جو حضرت امام باقر (علیہ السلام) کی آیت "حتی لاتکون" کی تفسیر میں ملی ہے آپ نے فتنے کے معنی شرک بتائے ہیں اور یہ معنی فتنے کے ان ظاہر معنوں سے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے کوئی تضاد نہیں رکھتے کیونکہ ظاہر میں روایتوں اور مفسرین کے الفاظ سے فتنے کے سبب کا بیان مراد ہے اس لیے کہ حقیقی مومن سے دینی یا دنیوی کوئی بھی فتنہ صادر نہیں ہو گا جیسا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) متقین کی صفات میں فرماتے ہیں: ان کی خوبی سے امید اور بدی سے امان اور بے خوفی ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ہمام) یعنی جس کے دل میں ایمان کی روشنی داخل ہو چکی ہے لوگوں کو اس کے شر سے امان ہے۔ سو فتنہ بھڑکانے والا یا باطنی اور ظاہری کافر اور مشرک ہے یا اگر مسلمان ہے تو ابھی کفر کی تاریکی اور شرک کی منزلوں سے نجات نہیں پا سکا ہے اور اس کا دل بھی ایمان کی روشنی سے نہیں جگمگایا ہے۔

ظالم کے لیے جاسوسی

فتنے کے مانے ہوئے معاملات میں حاکم اور ظالموں کے لیے جاسوسی کرنا بھی شامل ہے اور اس کا بڑا خطرہ اور خرابی اور اس کا قتل سے بھی برا ہونا ظاہر ہے اس لیے کہ ایک جاسوسی اور فتنہ انگیزی ہی قتلوں اور جرائم کا سبب ہو سکتی ہے۔ مثلاً ابن زیاد ملعون کے جاسوس معقل کی جاسوسی سے حضرت مسلم اور ہانی بن عروہ  گرفتار اور قتل ہوئے بلکہ کربلا کے حادثات اور اس کے بعد کے واقعات بھی اس ملعون جاسوس کے فتنے کی بدولت رونما ہوئے