گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110595
ڈاؤنلوڈ: 7329

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110595 / ڈاؤنلوڈ: 7329
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

ہتک حرمتِ کعبہ

قرآن پاک کے بعد عالم اسلام میں کعبہ معظمہ سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز و شریف اور محترم نہیں۔ہر فرد مسلمان بدیہی طور پر اس مطلب کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کعبہ کی ھتک حرمت نہ صرف گناہ کبیرہ ہے بلکہ بعض حالتوں میں کفر و ارتدادکا موجب بھی ہے چنانچہ اہانت قرآن کے ضمن میں ذکر کیا گیا۔

صدوق جناب امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں :ان عزوجل حرمات ثلث لیس مثلهن شیء کتابه وهو حکمته ونوروه بیته الذی جعله قبلته للناس وعترةنبیکم (خصال صدوق ص ۲۴۶)

خداوند عالم کے نزدیک تین چیزیں اتنی محترم ہیں کہ ان کے مقابلے پر کوئی اور شئے قابل احترام نہیں پہلا قرآن مجید جو خدا کی حکمت بالغہ اور اس کا نور ہے دوسرا وہ بیت ہے جسے لوگوں کے لئے قبلہ قرار دیا گیا تیسر ہمارے نبی اعظم کی عترت یعنی آل محمد (علیہم السلام) اجمعین هیں،اس کے علاوه فرمایاماخلق فی الارض بقعته احب الیه من الکعبته ولا اکرم علییه منها (من لایحضرہ الفقیہ جلد دوم ص ۱۷۵)

خداوند عزوجل نے روئے زمین پر کوئی ایسا مکان پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک کعبہ سے زیادہ پسندیدہ اور اس سے بڑھ کر قابل احترام ہو۔

ہر صاحب ایمان اور تمام مسلمان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کعبہ معظمہ کی توہین کرنا بہت بڑا گناہ ہے بلکہ تمام حرم الہی اور شہر مکہ کا احترام ہر فرد مسلمان پر واجب و لازم ہے۔

احترام کعبہ کے متعلق تاکید

اس کے علاوہ اس گناہ کے کبیرہ ہونے پر نص موجود ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے واضح طور پر ارشاد فرمایا:و استحلال البیت الحرامیعنی بیت الحرام کی توہین اوراس کی بے حرمتی کو جائز و مباح سمجھنا گناہ کبیرہ ہے۔سورہ مائدہ میں فرمایا گیا( یا ایها الذین امنوالا تحلوا شعائر اللّٰه ) (سورہ مائدہ آیت ۲)

اے ایماندارو خدا کی نشانیوں کی بے حرمتی حلال نہ سمجھو ۔تفسیر المیزان میں لکھا ہے احلال یعنی کسی محترم چیز کو لا پرواہی اور بے توجہی سے مباح سمجھنا اور شعائر کے احترام کو ترک کرنے سے مراد ہے۔اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ کعبہ معظمہ اعظم شعائر ہے۔

چنانچہ ارشاد فرمایا( ومن یعظم حرمات اللّٰه هو خیر له عند ربه ) (سورہ حج آیت ۲۹) جو شخص خدا کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس رب کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔

بعض مفسرین کے مطابق اس آیت شریفہ میں حرمات سے مراد کعبہ معظمہ بیت الحرام ہے اس کے علاوہ مسجد الحرام اور مکہ مکرمہ جو کہ بلد الحرام ہے اور حرام مہینے اور دوسری حرمت والی چیزیں مراد ہیں۔

اہانت کے مراتب

جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا ہے ہتک حرمت کے کچھ مراتب جیسے قرآن کو پھاڑنا یاجان بوجھ کر نجاست سے آلودہ کرنا ،کفر و ارتداد کا سبب بنتے ہیں لیکن توہین کے بعض دوسرے درجے بھی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

حرم میں الحاد

ہر وہ گناہ اورخلاف شرع عمل جو مکہ معظمہ میں واقع ہو وہ بیت اور بلد حرام کی اہانت اور ہتک کے ضمن میں شمار ہوتا ہے ۔کیونکہ اس میں جا کر خلاف قانون الہٰی اقدام کرنا اس کی انتہائی بے ادبی،لاپرواہی اوربے حرمتی ہے ۔چنانچہ بعض روایات میں حرم خدا میں نیک عمل کے انجام دینے سے دوگنا ثواب ملتا ہے اسی طرح حرم میں واقع ہونے والے عمل بد کا گناہ بھی دوسری جگہوں کی نسبت دو گنا ہے۔

روایات اہل بیت اطہار (علیہم السلام) سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے اگر کوئی حرم میں کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جس کیلئے حد یا سزا مقرر کر دی گئی ہو تو اس مقررہ حد سے زیادہ سزاملنی چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حرم خدا کے اندر بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔اس لئے ہر وہ گناہ جو حرم خدا میں انجام دیتا ہے وہ گناہ کبیرہ ہے۔بعض فقہاء جیسے شیخ احمد جزائری اپنی کتاب آیات الاحکام کتاب حج صفحہ ۱۶۱ میں فرماتے ہیں کہ حرم خدا میں واقع ہونے والے ہر گناہ کے کبیرہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا گیا:( ومن یرد فیه بالحاد بظلم نذقه من عذاب الیم ) (سورہ حج آیت ۲۵) اور جو شخص حرم میں الحاد(یعنی ظلم و تجاوز کے ذریعہ قانون الہٰی اور حق سے انحراف) کرے ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھا دیں گے۔

یہ یاد رکھئے مکہ معظمہ کی حدود میں گناہ واقع ہونا بجائے خود گناہ کبیرہ ہے۔جب گناہ صادر ہوتا ہے تو اس سے حرم الہی اور بلد امن کی توہین لازم آتی ہے اس لیے ہتک حرم کا گناہ اس گناہ کے علاوہ ہے یعنی دو گناہ کبیرہ شمار ہوتے ہیں۔

جناب اما م جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں ہر وہ ظلم جو لوگ اپنے آپ پر مکہ مکرمہ میں کرتے ہیں جیسا چوری یا کسی پر ظلم کرے یا قانون الہی کی حدود سے تجاوز کرے وہ میری نگاہ میں الحاد ہے۔یہی وجہ ہے کہ اہل تقویٰ حرم الہٰی میں زیادہ دیر ٹھہرنے سے پرہیز کرتے ہیں تا کہ حرم میں کسی گناہ کے مرتکب ہو کر عذب الہی کے مستحق نہ بنیں کتاب وافی میں اس سے ملتی جلتی کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں،

علامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں اس حدیث شریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص مکہ میں ارتکاب گناہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے اس کے لئے حدود مکہ کے اندر رہائش اختیار کرنا کراہت نہیں۔حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے کسی نے پوچھا مکہ میں ایک ایسا پرندہ ہے جس کے شر سے حرم کے کبوتر محفوظ نہیں۔امام (علیہ السلام) نے فرمایا اسے پکڑ کر مار ڈالو کیوں کہ اس نے الحاد کیا ہے ۔ (کافی کتاب حج باب ۱۴۱) مخفی نہ رہے کہ حرم الہٰی کی حد ہر طرف سے چار فرسخ ہے جو مجموعی سولہ فرسخ بنتے ہیں( اور ہر فرسخ تین میل کے برابر ہے) (مسالک کتاب الحج ص ۱۴۲)

حرم محل امن ہے

جو شخص حرم کے باہر کوئی جرم وخیانت اور پھر حرم میں پناہ حاصل کرے تو پھر کوئی دوسرا اس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور معاشرت ترک کرے اس سے لینا دینا سختی سے بند کر دیں یہاں تک اپنی مرضی سے حرم سے باہر نکل جائے ۔پھر اسے اپنے جرم کی سزا دیں ۔لیکن اگر کوئی شخص حدود حرم کے اندر اس قسم کے جرم کرتا ہے جس سے قصاص ،حد یا تعزیر لازم آئے تو ایسی صورت میں حرم ہی میں اس پر قصاص یا حد الہی جاری کیا جائے گا۔

جناب امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے کسی ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو حرم کے باہر کسی کو قتل کرے اور پھر وہی شخص حرم میں داخل ہو جائے؟آپ نے فرمایا جب تک حرم میں ہے اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ایسے شخص کا کھانا پینا بند کر دیا جائے اس سے کسی قسم کا لین دین نہ کیا جائے اور ٹھہرنے کے لئے جگہ نہ دے یہاں تک جب وہ حرم سے باہر نکل جائے تو پھر اس پر حد جاری کی جاسکتی ہے۔

پھر سوال کیا گیا آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو حرم کے اندر کسی کو قتل کرے یاچوری کا مرتکب ہو؟امام (علیہ السلام) نے فرمایا ایسے شخص پر حرم ہی میں حد جاری کر دی جائے گی کیوں کہ اس شخص کے دل میں حرم خدا کے لئے کوئی حرمت باقی نہیں رہی۔

سماعہ نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا میرا مال کسی شخص کے پاس تھا وہ ایک مدت تک اپنے آپ کو مجھ سے چھپاتا رہا۔یہاں تک کہ ایک دن کعبہ کے اردگرد طواف کرتے دیکھا تو کیا میں اس وقت اس سے اپنے مال کا مطالبہ کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس پر سلام نہ کرو(تاکہ وہ تمہیں پہچان جائے) جب تک وہ حرم سے باہر نہ نکل جائے اسے نہ ڈراو۔(وافی نقل از کافی صفحہ ۱۷)

حیوانات کاذبح کرنا اور نباتات کا اکھاڑنا

حرم خدا میں اونٹ،گائے،گوسفند اور مرغی کے سوا حرم میں موجود دوسرے جانوروں کو ذبخ کرنا حرام ہے ۔مگر سانپ ،بچھو،چوہے،مچھر اور ہر موذی جانور عشرات کے شر سے بچنے کے لئے مارنا جائز ہے۔اسی طرح حرم میں اگنے والے کسی درخت یا نباتات کا توڑنا بھی حرام ہے۔مزین معلومات حاصل کرنے کے لئے مراجع عظام کے مناسک حج کا مطالعہ کریں۔

احرام کے بغیر حرم میں داخل ہونا

مکہ معظمہ بلکہ حرم میں بغیر احرام داخل ہونا جائز نہیں۔ یعنی سال کے دوران جب بھی حرم اور مکہ معظمہ جائے تو میقات سے احرام باندھنا اور اسی حالت میں داخل ہونا واجب ہے۔پھر طواف وسعی اور تقصیر کے بعد احرام سے باہر نکل سکتا ہے ۔مگر جس شخص کا حرم اور میقات سے باہر بار بار آمدورفت کا پیشہ ہو جیسے ڈاکیہ ،لکڑہار۔چرواہا،ڈرائیوں وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں اسی طرح جس کا سابقہ احرام اور حالیہ احرام کے درمیان ایک ماہ سے کم مدت گزر رہی ہو۔مفصل مسائل جاننے کے خواہشمند حضرات رسائل عملیہ کی طرف رجوع کریں۔

بعض فقہاء عظام احرام باندھے بغیر حرم کی حدود میں داخل ہونے کو گناہ کبیرہ میں محسوب کرتے ہیں جو کہ استحلال البیت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔

روبہ قبلہ یا پشت کر کے رفع حاجت کرنا

قبلہ کی طرف رخ یا پشت کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنا حرام ہے خواہ آبادی میں ہو یا غیر آباد اور عمارت کے اندراحتیاط یہ ہے نابالغ بچہ کو اس مقصد کے لئےروبہ قبلہنہ بٹھایا جائے اگر بچہ خود ایسا کرے تو اس کو ٹوکنا واجب نہیں۔لیکن عاقل وبالغ انسان ایسا کرے تو اس صورت میں جبکہ وہ مسئلہ نہ جانتا ہو تو اس کو سمجھانا چاہیے۔اگر مسئلہ جاننے کے باوجود بھی عمداً ایسا کر رہا ہے تو نہی عن المنکر کے سلسلے میں اس کا منع کرنا واجب ہے اس کی تفصیل نہی عن المنکر کے باب میں ذکر ہو چکی ہے۔

اگر قبلہ سے تھوڑا دائیں یا بائیں منحرف ہوجائے اورمکمل طور پر روبہ قبلہ یا پشت نہ ہو تو پھرحرام نہیں۔تفصیل کے لئے مراجع کرام کے رسائل عملیہ کی طرف رجوع کریں۔

ہتک حرمت مساجد

ہر وہ عمارت جو مسجد کے نام سے کسی ایک دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ذریعہ بنائی جائے اس کا احترام واجب ہے اورا س کی اہانت مثلاً خراب کرنا یا نجاست سے آلودہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ہر دین دار بدیہی طور بخوبی جانتا ہے کہ مسجد پروردگار عالم کی طرف منسوب ہے۔و ان المساجدللّٰہ مساجد اللہ ہی کے لئے مخصوص ہیں۔ اس لئے اس کی اہانت خداوند تبارک و تعالیٰ کی اہانت ہے،

عن ابی بصیر قال سئلت ابا عبد الله (علیه السلام) عن العلته فی تعظیم المساجد فقال(ع) انما امر بتعمیر المساجد لانها بیوت فی الارض

(وسائل کتاب الصلوة باب ۸ ج ۳ ص ۵۵۷)

ابو بصیر راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابی عبد اللہ جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا کیا سبب ہے کہ مساجد کے احترام کا حکم صادر ہواہے؟ آپ نے فرمایا اس کیوجہ یہ ہے کہ مسجدیں زمین پر اللہ کا گھر ہیں۔

روایت ہے خداوند تبارک وتعالیٰ نے فرمایا مسجدیں زمین پر میرا گھر ہیں۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو میرے گھر میں وضو کر لیتے ہیں اور باطہارت میرے گھر میں میری زیارت کرتے ہیں ایسے میں صاحب خانہ پر لازم ہے کہ جو لوگ اس کی زیارت کو آئیں ان کا احترام کریں ۔جولوگ تاریکی شب میں مساجد جانے کے قصد سے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں ان کو اس نور کی بشارت دو جو روز قیامت ان کو فراہم کر دوں گا۔(وسائل الشیعہ کتاب الصلوة باب ۲۹)

اس کے علاوہ ہر صاحب ایمان ہتک حرمت مساجد کو گناہ کبیرہ تسلیم کرتے ہیں۔قرآن مجید میں مساجد کے خراب کرنے کو ہتک حرمت کی ایک قسم قرار دیا ہے اور ظلم کے مراتب میں سے بڑا ظلم شمار کرتے ہوئے فرمایا۔ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعی فی خرابھا(سورہ بقرہ آیت ۱۱۴) اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو خدا کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے روکے اور ان کی خرابی کے درپے ہو۔ہم ذیل میں مساجد سے متعلق کچھ احکام کو ان کی اسناد کا ذکر کئے بغیر بطور اختصار لکھ رہے ہیں۔

( ۱) مسجد کا نجس کرنا حرام ہے

مسجد کا نجس کرنا حرام ہے نیز کسی نجس العین چیز کا مسجد میں داخل کرنا بھی جس سے مسجد نجس ہونے کا اندیشہ ہو حرام ہے۔لیکن مسجد نجس نہ ہو اور ہتک ہو جائے تب بھی حرام ہے ۔عین نجس تو نہیں مگر متنجس(نجس شدہ چیز)بھی مسجد میں لے جانے کا حکم بھی یہی ہے چاہے وہ خشک ہی کیوں نہ ہو اور مسجد کی نجاست کا باعث بھی نہ بنے حرام ہے۔اگر مسجد نجس نہ ہو اور اس سے مسجد کی ہتک حرمت بھی لازم نہ آئے تو جائز ہے۔بنا بر احتیاط عین نجس کو کسی حالت میں مسجد میں داخل نہ کیا جائے۔

( ۲) مسجد کی تطہیر واجب ہے

مسجد سے نجاست دور کرنا اور فوری طور پاک کرنا واجب ہے تا کہ عرف میں یہ نہ کہا جاسکے کہ مسجد پاک کرنے میں تاخیر وغفلت ہوئی ہے۔واجب فوری سے مطلب یہ ہے کہ مثلاً اگر نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو پہلے مسجد کو پاک کرنا چاہئے۔مسجد کی زمین،چھت،دیوار کسی اندورنی حصہ ،باہر اور فرش نجس ہونے کے بعد فوری طور پر پاک کرنے کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نہیں بلکہ بغیر استثناء فوری طور پر پاک کرنے کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نہیں بلکہ تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے ۔اگر مال خرچ کرنا لازم ہو تو اس کا خرچ کرنا بھی واجب ہے۔اگر یہ کام اکیلا انسان انجام نہیں دے سکتا ہے تو دوسروں سے مدد لینا واجب ہے۔

( ۳) مسجد میں جنابت ،حیض اور نفاس کی حالت میں ٹھہرنا

جنب شخص،حائض اورنفساء عورت کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔( ولاجب الاجنباالاعابری سبیل حتی تغسلوا ) (سورہ نساء آیت ۴۳) اور نہ جنابت کی حالت یہاں تک کہ غسل کرلو مگر صرف عبور کے لئے ۔یعنی ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسرے سے نکل جائیں۔لیکن مسجد الحرام اور مسجد النبی سے جنب شخص،حائض اور نفساء عورت کا گزرنا بھی جائز نہیں۔

( ۴) مسجد کے مستحبات

مسجد میں چراغ جلانا،پاک وپاکیزہ رکھنا،داخل ہوتے وقت پہلے سیدھے پاوں اور باہر نکلتے ہوئے پہلے بائیں پاؤں کر رکھنا مستحب ہیں۔ داخل ہوتے ہوئے اس بات کا اطمینان کر لو کہ جوتا نجس تو نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے مسجد نجس ہو جائے۔مسجد میں باطہارت(وضو اور غسل کے بعد)داخل ہو۔بہترین لباس پہن لو اور خوشبو لگا کر داخل ہو جاو اور اندر داخل ہونے کے بعد دو رکعت نماز تحیت بجالاو۔

( ۵) مسجد کے مکروہات

مساجد سے عبور کرنا مکروہ ہے مگر یہ کہ دو رکعت نماز تحیت بجالانے کے بعد مسجد سے گزر جائے ساتھ ہی اگر دوسری نمازیں بھی ادا کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔مسجد میں ناک اور منہ کی آلودگی نہیں پھینکنا چاہیے مسجد میں سونا،اذان کے علاوہ مسجد میں آواز بلند کرنا۔کھوئی ہوئی چیزوں کا اعلان کرنا یا اس کو کسی سے طلب کرنا،ایسے اشعار کا پڑھنا جن میں وعظ و ہدایت نہ ہو مکروہ ہیں،مسجد میں دنیوی امور کی باتیں اور خرید وفروخت نہیں ہونا چاہئے ،پیاز ۔لہسن یا منہ سے بد بو پیدا کرنے والی چیزیں کھا کر مسجد نہیں جانا چاہئے۔اس کے علاوہ بچہ اور دیوانے کو مسجد میں جگہ نہ دو۔

فضیلت کے اعتبار سے مساجد کے مراتب

مسجد میں سب سے زیادہ افضل و اشرف مسجد الحرام ہے اس میں پڑھنے والی ایک نماز دوسری جگہوں کی نسبت ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔اس کے بعد مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہے جس میں ایک نماز کا ثواب دوسرے مقام پر پڑھی جانے والی دس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔پھر مسجد کوفہ اور مسجد اقصیٰ کے مراتب ہیں کہ جہاں پڑھی جانے والی نماز ایک ہزار نمازوں کے مساوی ہے جو دوسری جگہوں میں پڑھی جاتی ہے۔اس کے بعد ہر شہر کی جامع مسجد ہے جس کی نماز کا ثواب سو نمازوں کے برابر ہے۔پھر محلہ کی مسجد جس کی نماز پچیس نمازوں کی مانند ہے اور سب سے آخری درجہ اس مسجد کا ہے جو بازار میں واقع ہو اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کو ثواب دوسری نمازوں سے بارہ گنا زیادہ ہے۔

ہتک حرمت قبور معصومین (علیہم السلام)

جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ ہدیٰ (علیہم السلام) کی قبور کا احترم ہر مسلمان کے نزدیک ضروری ہے چونکہ ہر دین دار ان کی اہانت اور ہتک حرمت کو بڑا گناہ سمجھتا ہے۔مشاہد مشرفہ کے احترام لازم ہونے کے متعلق بہت سی روایتیں موجود ہیں لیکن ہم یہاں پر شیخ مفید کی کتاب تہذیب سے ایک روایت نقل کر کے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

جناب رسول خدا نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے مخاطب ہو کر فرمایا۔یاعلی خدا نے تمہاری اور تمہاری اولاد کی قبروں کی بہشت کے قطعوں میں سے ایک قطعہ اور بلند مقامات میں سے ایک مقام قرار دیا ہے۔اس نے اپنی مخلوق میں سے جن کے دل پاک و صاف ہیں اور بندگان خدا میں سے مخلص و منتخب بندوں کا دل تمہاری طرف مائل کیا ہے۔جو تمہاری محبت کی راہ میں ہر قسم کی تکلیف اور ذلت گوارا کرتے ہیں۔یہ لوگ تمہاری قبروں کو آباد کریں گے۔اور خداوند عزوجل کی خوشنودی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی محبت میں تمہاری قبروں کی زیارت کرتے رہیں گے۔

یا علی !یہی لوگ میری خصوصی شفاعت کے حقدار ہوں گے۔روز قیامت میرے حوض پر وارد ہوں گے اور میرے ہمسایہ ہوں گے۔یا علی جو شخص ان کی قبروں کی تعمیر کروائے اور ان کی زیارت کو آئے گا گویا اس نے بیت المقدس کی تعمیر میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مدد کی ہے۔جو شخص ان قبروں کی زیارت کرے اس کے کئے سات غیر واجب حج کا ثواب ہے۔اس کے گناہ اس طرح معاف کر دئیے جائیں گے جیسا کہ شکم مادر سے ابھی پیدا ہو اہو۔

یا علی تمہیں بشارت ہو اور اپنے دوستون کو ان نعمتوں کی بشارت دو جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور جو آج تک کسی انسان کے تصور سے نہیں گزرے۔لیکن کچھ پست انسان ایسے ہوں گے جو آپ کی زیارت کو آنے والوں کی اس طرح توہین و سرزنش کریں گے جیسے کسی بد کار عورت کی سرزنش کی جاتی ہے۔یہ لوگ میری امت کے شریر افراد ہو ں گے جنہیں میری شفاعت نصیب نہ ہوگی جو کبھی میرے حوض پر وارد نہ ہو سکیں گے۔

(کتاب وافی ابواب الزیارات باب ۱۷۱ ص ۱۹۶)

مشاہد مشرفہ کی فضیلت سے متعلق روایات کو معلوم کرنے کے لئے کتاب مزار وافی وسائل الشیعہ اور بحار الانوار جلد ۲۲ مطالعہ فرمائیں۔

معصوم کی قبر کی توہین کفر ہے

جناب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) کی قبور کا احترام کرنا جبکہ ضروریات دین میں سے ہے تو ان کی اہانت اور ہتک حرمت بھی گناہ کبیرہ ہے ۔بلکہ سب سے بڑا گناہ اورکفر و شرک کی حد میں شمار ہوتا ہے ۔مثلاً قبور معصومین (علیہم السلام) کومنہدم کرنا اور ان کو نجس کرنا بلکہ احتیاط یہ ہے کہ جب نجس اور نجاست کی حالت میں رکھنے سے ہتک حرمت کا موجب بھی نہ بنے پھر بھی احتیاطاً پاک کرنا چاہئے۔

مشہور فقہاء کرام فرماتے ہیں جنب ،حائض اور نفساء کا مشاہد مشرفہ میں توقف کرنا جبکہ حرمت کا باعث ہو تو وہاں بھی مساجد کی طرح ٹھہرنا حرام ہے۔بعض دیگر فرماتے معصومین (علیہم السلام) کے حرم میں گزرجانے کے قصد سے داخل ہونا مسجد الحرام ی طرح جائز نہیں ہے۔

قبر معصوم کے کنارے نماز پڑھنا

مشاہد مشرفہ میں نماز پڑھتے وقت نماز گزار کی پشت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام کی قبروں کی طرف نہ ہو کیوں کہ یہ عمل ان ذوات مقدسہ کی توہین اور نماز باطل ہونے کاموجب ہے۔بلکہ قبر کے پیچھے سمت قبلہ کھلا رکھ کر نماز پڑھی جائے۔احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ قبر مطہر کے دائیں اور بائیں جانب قبر کے برابر میں بھی نماز نہ پڑھی جائے بلکہ قبر شریف سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر نماز ادا کرنی چاہئے۔

حضرت امام موسیٰ جعفر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کسی واجب یا مستحب نماز میں قبر امام پر سجدہ کرنا جائزنہیں بلکہ قبر شریف پر داہنا رخسار رکھا جا سکتا ہے۔لیکن قبر کے نزدیک نماز پڑھنے کی صورت میں قبر شریف کو آگے قرار دے کی پشت سر کھڑا ہونا چاہئے۔قبر سے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا جائز نہیں کیوں کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے امام سے آگے بڑھے ۔ہاں داہنی طرف کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں (یعنی قبر شریف سے آگے یا برابر کھڑا نہ ہو)۔(وسائل الشیعہ کتاب الصلواة باب ۲۶ مکان المصلی)

حضرت حجت بن الحسن عجل اللہ فرجہ الشریف سے مروی ہے ک قبر معصوم کے آگے اور داہنی یا بائیں طرف نماز پڑھنا جائز نہیں کیوں کہ کسی شخص کو امام کے آگے یا برابر میں کھڑے ہونے کا حق نہیں۔صاحب کتاب وسائل نے دوسری حدیث کو جس میں داہنی اور بائیں طر ف کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے کراہت پر محمول کیا ہے۔

بعض فقہاء فرماتے ہیں اس بحث کا معیار یہ ہے کہ جس عمل سے مسلم طور پر ہتک حرمت صادق آتی ہے وہ ماموم کا امام حقیقی سے آگے بڑھنا ہے۔لیکن داہنی اور بائیں جانب کھڑے ہونے پر ہتک حرمت لازم نہیں آتا۔لیکن داہنی اور بائیں جانب کھڑے ہونے پر ہتک حرمت لازم نہیں آتا۔مگر احتیاط پر عمل کرنا بہت

تربت حسینی کی ہتک حرمت

حضرت ابا عبد اللہ الحسین (علیہ السلام) کی قبر شریف کے اطراف سے لے کر بنا بر اختلاف روایات ایک میل یا چار میل یا بارہ میل دور تک کے احاطے سے تربت شریفہ بیماروں کی شفاء یا اس پر بارگاہ خداوندی میں پیشانی رکھ کر سجدہ کرنے کے لئے اٹھاتے ہیں۔

اس کے علاوہ قدرت نے دوسرے خواص و آثار بھی اس میں ودیعت کر رکھے ہیں اس لحاظ سے ہم اس خاک کربلا کو باعث برکت و رحمت سمجھ کر اپنے بزرگان دین کی پیروی میں انہی کے فرمان کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔شیعوں کے نزدیک یہ بدیہی امر ہے کہ تربت کربلا کا احترام لازم اور اسکی ہتک حرمت گناہ کبیرہ ہے۔حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) سے لے کر اب تک تربت حسینیہ کی ہتک حرمت اور توہین بزرگان دین بڑے گناہوں میں شمار کئے گئے ہیںِ اس لئے کہ تربت کی توہین صاحب قبر کی ہتک حرمت کا مترداف ہے اور صاحب قبر امام (علیہ السلام) کی توہین گناہ کبیرہ ہونا واضح ہے جس کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں۔

بنا برایں تربت کربلائے معلی لا پرواہی اور اہانت سے زمین پر پھینکنا،پائمال کرنا،نجس کرنا اور اس طرح دوسرے طریقے سے توہین گناہ کبیرہ ہیں۔اگر رفع حاجت کے وقت کسی کے ساتھ تربت سیدا الشہداء (علیہ السلام) سے بنی ہوئی تسبیح یا سجدہ گاہ ہو اور وہ بیت الخلاء میں گر جائے تو باہر نکانا اور پاک کرنا واجب ہے جب تک باہر نہ نکالی جائے وہاں رفع حاجت کرنا حرام ہے۔اگر نکالنا ممکن نہ ہوتو اس کا دروازہ بند رکھنا چاہئے چنانچہ یہ مسئلہ ہتک حرمت قرآن کے ضمن میں بیان ہوا۔

تربت حسینی کی فضیلت

زمین کربلا کی شرافت اورترتب حسینی کی فضیلت اس کے عظیم اثرات کے متعلق بہت سی روایتیں موجود ہیں۔ہم ذیل میں فضیلت تربت کی دو روایتوں اور توہین کے برے اثرات پر مبنی دو واقعات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

جناب شیخ مفید کے استاد شیخ ابن قولویہ اپنی کتاب کامل الزیارت میں اپنے استاد کے حوالے سے محمد بن مسلم سے روایت نقل کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے میں مدینہ منورہ گیا اور وہاں بیمار پڑگیا۔حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اپنے غلام کے ساتھ ایک برتن میں تھوڑا سا شربت جس پر رومال ڈھکا ہوا تھا۔میرے لئے بھجوایا ۔غلام نے کہا اس دوائی کو پی لیں ۔امام (علیہ السلام) نے مجھے حکم دیا ہے جب تک آپ اس دوا کو نہ پئیں میں واپس نہ جاوں ۔میں نے غلام کے ہاتھ سے لے وہ دوا پی لی ۔وہ ایک خوش مزہ ٹھنڈا شربت تھا جس سے مشک کی خوشبو آرہی تھی ۔غلام نے کہا حضرت کا حکم ہے دوا نوش کرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضری دیں۔ میں نے تعجب کیا کہ میں حرکت پر قدر نہیں پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا کیوں کر آپ کی خدمت میں جاسکوں گا؟لیکن جیسے ہی میں نے شربت کو گلے سے اتارا گویا جکڑے ہوئے زنجیر سے آزاد ہوگیا۔میں اپنے پیروں پر چل کر در دولت امام (علیہ السلام) پر حاضر ہوا اور داخل ہونے کی اجازت چاہی ۔امام نے فرمایا۔صبح الجسم فادخل تیرا بدن صحت یاب ہوا اب داخل ہوجاو۔

میں گریہ کناں بیت الشریف میں داخل ہوا۔امام (علیہ السلام) کو سلام کیا۔آپ کے ہاتھوں اور سر کو بوسہ دیا۔فرمانے لگے اے محمد کیوں دو ر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا مولا میری جان آپ پر فدا ہو میں اپنی کمی قدرت ،غربت اور راہ کی دوری۔آپ سے جدائی اور آپ کی خدمت میں حاضر رہنے کی کمی سعادتی پر رورہا ہوں اور بار بار دیکھ رہا ہوں۔

فرمایا دیکھو قدرت و توانائی کی کمی سے ہمارے چاہنے والے شیعیان تمہاری طرح مشکلات اور مصیبتوں میں مبتلا رہتے ہیں۔لیکن جہاں تک تمھاری غربت کا تعلق ہے تو مومن اس دنیا میں شر پسند لوگوں کے درمیان غریب ہی غریب ہے یہاں تک کہ وہ رحمت خدا سے پیوستہ نہ ہوجائے ۔لیکن تمہارا یہ کہنا کہ میرا مکان مدینہ سے دور ہے تو تمہیں چاہئے کہ حضرت ابی عبدا للہ الحسین کی پیروی کرو کہ مدینہ سے دور نہر فرات کے کنارے خوابگاہ ابدی میں ہیں ۔باقی رہا ہماری محبت اورشوق دیدار کی تمنا۔پس خداوند کریم تمہارے دل کی کیفیت سے آگاہ ہے وہ تمہاری اس نیک نیتی کی صلہ یقنیاً عطا فرمائے گا۔

اس کے بعد فرمایا کیا امام حسین (علیہ السلام) کی قبر کی زیارت کو جاتے ہو؟

میں نے عرض کیا ۔ہاں مگر بہت ڈر اور خوف کے ساتھ ،فرمانے لگے۔ماکان فی ھذا اشدفالثواب فیہ علی قد الخوف(نفس المہموم ص ۲۹۴) خصائص تالیف شیخ شوشتری)جتنا خوف اورسختی ہو گی اس کا ثواب اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس سفر میں جس کو خوف زیادہ ہوگا وہ روزقیامت کی ترس سے محفوط رہے گا۔اور گناہوں سے پاک ہو کر واپس لوٹے گا۔مزید ارشاد فرمایا تم نے اس شربت کو کیسا پایا۔میں نے کہا گواہی دیتا ہوں کہ آپ اہل بیت رحمت اور اوصیاء کے وصی ہیں۔جس وقت غلام شربت لے کر آیا مجھ میں اتنی قوت نہیں تھی کہ پیروں پر کھڑا ہوتا۔ میں اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا۔جب میں نے وہ شربت پیا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے اس سے پہلے اتنا خوش مزہ،سرد اور خوشبودار شربت کبھی نہیں پیا تھا۔

غلام نے کہا میرے مولا نے فرمایا کہ میرے پاس چلے آو میں نے طے کر لیا چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے میں اس حال میں بھی جاوں گا۔جب میں روانہ ہو ا تو مجھے محسوس ہوا گویا میری بیماری دور ہوگئی میں اس خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے آپ کو شیعوں کے لئے سبب رحمت قرار دیا ہے۔فرمایا ان الشراب الذی شربتہ من طین قطر الحسین (علیہ السلام) وھو افضل مااستثقیٰ (کامل الزیارت تالیف ابن قولویہ)تم نے جو شربت پیا وہ قبر حضرت حسین (علیہ السلام) کی مٹی سے تھا وہ بہترین شئے ہے جسے میں شفاء کے لئے استعمال کرتا ہوں خبردار کسی چیز کو اس کے برابر نہ سمجھنا ہم اسے اپنے بچوں اور عورتوں کھلاتے ہیں اور اس سے بے شمار خیروبرکت محسوس کرتے ہیں۔میں نے عرض کیا میری جان آپ پر فدا ہو ہم بھی اسے اٹھا کر اپنے لئے طلب شفاء کریں گے ۔آپ نے فرمایا جب لوگ اس تربت کو اٹھا کر حایر حسینی)حدود کربلا) سے باہر نکل جاتے ہیں تو اس کی حفاظت میں احتیاط نہیں کرتے اور محفوظ طریقے سے باندھ کر نہیں رکھتے ہیں۔ایسی صورت میں ہر جن وجانور اور دوسری مخلوق جو کسی تکلیف میں مبتلا ہو اسے سونگھتے ہیں تو اس کی برکت دوسرے حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن جس تربت سے شفاء ہوتی ہے اس کو اس طرح نہیں چھوڑنا چاہئے جس سے اس کا اثر زائل ہو ۔اگر حفاظت میں غفلت نہ ہو تو اسے اپنے بدن سے مس کر ے یا اسے کھائے اسی وقت شفاء پاجائے گا۔ تربت بالکل حجر اسود کی مانند ہے جو ابتداء میں سفید یاقوت کی طرح چمکتا تھا جو بیمار اپنے آپ کو اس سے مس کرتا اسی وقت شفا یا ب ہو جاتا۔چونکہ بیماریو میں مبتلا اہل کفر و جاہلیت اپنے آپ کو اس سے مس کرتے تھے اس لئے اسکا رنگ سیاہ پڑھاگیا اور اس کے اثر میں کمی واقع ہوگئی۔

میں نے عرض کیا میری جان آپ پر قربان ہو تربت مبارکہ کو کیسے اٹھاوں اور محفوظ رکھوں۔ ا مام (علیہ السلام) نے فرمایا تم بھی ترتب کو دوسروں کی مانند اٹھاتے ہو کسی چیز میں محفوظ کئے بغیر اپنے میلے تھیلے میں ڈال دیتے ہو اس طرح اس کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔

میں نے عرض کیا مولا آپ درست فرماتے ہیں پھر فرمایا میں اگر تھوڑی تربت تمہیں دے دوں تو کس طرح لے جاو گے؟ میں نے عرض کیا اپنے کپڑوں کے درمیان رکھ کر لے جاوں گا۔آپ نے فرمایا اسی قرار داد کے مطابق جب تم واپس جاو تو اسی شربت سے جس قدر چاہو پیو اور تربت ساتھ نہ لے جاو کہ تم سے اس کی حفاظت نہ ہوسکے گی۔آنحضرت نے اس شربت کومجھے دو مرتبہ پلایا اس کے بعد کبھی اس درد بیماری میں مبتلا نہیں ہوا۔(مستند الشیعہ ص ۲۰۲ ۔لئالی الاخبارص ۴۲۵ کلیات مفاتیح الجنان ص ۸۷۰ ملاحظہ فرمائیں)

جنازہ کے ساتھ تربت رکھنا

ایک زنا کر عورت تھی وہ جب بی زنا سے بچہ پیدا کرتی تو اپنے خاندان کے خوف سے اسے تنور میں جلادیتی۔اس کی ماں کے علاوہ کوئی دوسراشخص اس بدکاری سے واقف نہ تھا۔جب مرگئی اور اسے دفن کیا گیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا اور اسے قبر سے باہر نکال پھینکا۔کسی اور مقام پر دفن کیا گیا وہاں بھی اس کے ساتھ یہی حال رونما ہوا اس کے خاندان والوں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو اس واقعہ کی خبردی امام نے اس کی ماں سے پوچھا تیری بیٹی نے دنیا میں کیا کیا گناہ کئے ؟ جب اس کی ماں نے اس کے گناہوں کی تفصیل بیان کی تو امام نے فرمایا۔زمین ہر گز اسے قبول نہ کرے گی کیوں کہ وہ مخلوق خدا کو اس عذاب میں مبتلا کرتی تھی جس کا حق صرف خدا ہی کو ہے(آتش جہنم میں جلانا صرف رب العالمین کا مختص عذاب ہے کسی اور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مخلوق خدا کو آگ مین جلائے)پھر فرمایا اس کی قبر میں تھوڑی سی تربت امام حسین (علیہ السلام) رکھ دو ۔لوگوں نے ایسا ہی کیا اس کے بعدزمین حرکت میں نہ آئی اور اسے قبول کیا۔(مستند الشیعہ کتاب طہارت ص ۲۰۲)

تربت کے ساتھ میت کی تجہیز

قبر میں میت کے چہرے کے سامنے تھوڑی مقدار میں تربت حسینی رکھنا مستحب ہے۔ میت کو حنوط دیتے وقت معمولی مقدار اس تربت شریفہ کا کافور میں ملانا بھی مستحب ہے۔ لیکن صرف پیشانی اور دونوں ہاتھوں کو تربت سے مسح کیا جائے۔دونوں گھنٹوں اور پاوں کی بڑی انگلیوں کو فقط کافور سے مسح کیا جائے کیونکہ گھنٹوں اور انگلیوں کوتربت سے مسح کرنا احترام کے منافی ہے۔

تربت ہر بیماری کا علاج ہے

شیخ طوسی اعلی اللہ مقامہ امالی میں اپنے مشائخ کرام سے روایت کرتے ہیں کہ محمد ازدی نے کہا میں مدینہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اور میرے برابر دو آدمی بیٹھے تھے جن میں سے ایک سفری لباس میں ملبوس تھا وہ دوسرے سے کہہ رہا تھا حضرت حسین (علیہ السلام) کی تربت ہر بیماری کے شفاء ہے۔میں ایک بیماری میں مبتلا تھا۔اور کسی دوا سے افاقہ نہیں ہو رہا تھا اور زندگی سے ناامید ہو چکا تھا۔موت سامنے نظر آنے لگی کہ ایسے میں کوفہ کی رہنے والی ایک بوڑھی عورت میرے پاس آئی۔میں اس وقت بیماری کی شدت سے درد وغم کے عالم میں مبتلا تھا وہ مجھ سے کہنے لگی میں دیکھ رہی ہوں روز بروز تمہاری حالت متغیر اور تکلیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔میں نے کہاہاں!ایسا ہی ہے۔کہنے لگی اگر چاہو تو میں تمہارے اس مرض کا علاج کروں اور نجات دوں میں نے کہا معالجہ کی ضرورت ہے۔اس نے ایک برتن میں پانی ڈال کر مجھے دے دیا۔میں نے جیسے ہی ہو پانی پیا اسی وقت تندرست ہو ا گویا کبھی بیماری نہ تھا۔

چند ماہ گزرنے کے بعد عورت دوبارہ میرے گھر آئی۔اس کا نام سلمہ تھا میں نے اس سے خدا کی قسم دے کر پوچھا وہ دوا کیا تھی جو تم نے مجھے دی تھی؟ کہنے لگی میں نے اس تسبیح کے ایک دانہ سے جواس وقت میرے ہاتھ میں ہے تیرا علاج کیا۔ میں نے پوچھا اس تسبیح کو خصوصیت کیا ہے؟تو کہنے لگی یہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی قبر مبارک کی خاک ہے۔

میں نے اس سے کہا اے رافضیہ تو نے میرا علاج حسین کی قبر کی مٹی سے کیا؟ وہ عورت غضبناک حالت میں میرے پاس سے اٹھ کر چلی گئی اس وقت میری بیماری لوٹ آئی۔بیماری کی شدت اب اتنی بڑھ گئی کہ مجھے اپنی موت کا یقین ہو گیا۔

یہ واقعہ کتنا عبرتناک ہے! ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اس کرامت کو دیکھ کر اس کی بصیرت میں اضافہ ہو جاتا وہ حق کو پہچان کر اس کی پیروی کرتا لیکن اس کے بجائے تربت مقدس کی توہین کی اور فوراًاس کی برکتوں سے محروم ہوا اور دوبارہ بیماری میں مبتلا ہو کر اس آیت کا مصداق قرار پایا۔ وننزل من القراٰن ما ھو شفاء و رحمتہ للمومنین ولا یزید الظالمین الاخسارا (سورہ اسراء آیت ۸۲) اور ہم قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے سراسر شفاء اور رحمت ہے مگر نافرمانوں کے لئے گھاٹے کے سوا کچھ فائدہ نہیں۔

سعد ی نے کیا خوب کہا ہے آب باران رحمت الہی ہے اس کی لطافت و پاکیزگی میں شک نہیں لیکن اگر اس کے قطرے صدف میں گریں تو قیمتی موتی اور سانپ کے منہ میں گریں تو زہر قاتل بنتے ہیں۔

تربت کی توہین ہلاک کر دیتی ہے

شیخ طوسی کتاب مذکور میں موسی بن عبد العزیز سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا ایک نصرانی طبیب یوحنا مجھ سے ملاقات کے لئے آیا اور کہنے لگا ۔میں تم کو تمہارے دین اور پیغمبر کی قسم دیتا ہوں مجھے بتلاو کیا ہو شخص جو قصر ابن ہبیرہ(کربلا) میں دفن ہے اور لوگ جس کی زیارت کو جاتے ہیں کیا وہ تمھارے پیغمبر کے اصحاب میں سے ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔وہ ہمارے پیغمبر کے نواسے حضرت حسین (علیہ السلام) ہیں۔تم مجھے یہ بتلاو قسم کے ساتھ یہ سوال کیوں کیا؟تو کہنے لگا میں نے اس کی عجیب داستان سنی ہے ۔اس نے کہا ایک رات ہارون الرشید ملعون کے خادم شاپورنے مجھے طلب کیا جب میں اس کے پاس گیا تو وہ مجھے ساتھ لے کر موسی بن عیسیٰ کے گھر لے گیا جو خلیفہ کا قریبی رشتہ دار تھا۔

میں نے دیکھا وہ بستر پر بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ اور اس کے سامنے طشت میں اس کے اندرونی اعضاء بدن پڑے تھے۔ہارون الرشید نے اس کو ان دنوں کوفہ سے طلب کیا تھا۔ شاپور نے موسی کے خصوصی خادم سے اس کے آقا کے متعلق پوچھا کہ اس کی کیا حالت ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ خادم نے جواب دیا اب سے ایک گھنٹے پہلے بہت ا چھی حالت میں تھا اور اپنے ساتھیوں سے گفتگو کر رہا تھا ۔ان میں سے ایک شخص نے جو بنی ہاشم میں سے تھا اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا میں شدید بیمار تھا کسی طبیب کے علاج سے فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ میرے کاتب نے مجھ سے کہا حضرت حسین (علیہ السلام) کی تربت سے اپنا علاج کرو۔میں نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہو گیا۔

موسیٰ نے کہا کیا اس تربت کا کچھ حصہ تمہارے پاس باقی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں اور فوراً کسی کو بھجوا کر تھوڑی سی تربت منگوائی۔موسیٰ نے تربت لے کر توہین کے ارادے سے اسے اپنی نہاں گاہ کے سوارخ میں ڈال دیا۔موسیٰ نے اسی وقت ایک چیخ ماری النا ر النار یعنی میںآ گ میں جل رہا ہوں اس سے فوراً ایک طشت منگوایا اب جو کچھ تم طشت میں دیکھ رہے ہو وہ اس کے اندرونی اعضاء کے ٹکڑے ہیں۔اس کی یہ حالت دیکھ کر تمام ساتھی نکل گئے اور اس کا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا۔

شاپور کہنے لگا تم درست کہتے ہو لیکن رات یہیں رہو تا کہ اس کی حالت پر نظر رکھ سکو اور انجام معلوم ہو۔میں اس رات وہیں سحر ٹھہر گیا وہ صحر کے نزدیک واصل جہنم ہوا۔

راوی کہتا ہے یوحنا نصرانی طبیب ایک عرصہ تک حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کی زیارت کو آتا رہا۔اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور دین دار رہا ۔یہ روایت بحار الانوار کی دسویں جلد کے آخری حصہ میں بھی نقل کی گئی ہے۔

سچے خواب

مرحوم الحاج مرزا حسین نوری نور اللہ مرقدہ اپنی کتاب دار السلام میں تحریر فرماتے ہیں میرا ایک بھائی والدہ کے گھر ملاقات کے لئے گیا۔اس کی نچلی جیب میں حضرت سیدا لشہداء (علیہ السلام) کی تربت کی مہر موجود تھی۔جب والدہ کو اس کے متعلق خبر ہوئی تو اسے تنبیہ کی اور کہنے لگیں اس جیب میں تربت کی مہر رکھنا بے ادبی اور اہانت ہے کیوں کہ بہت ممکن ہے بیٹھتے وقت ران کے نیچے کچل کر ٹوٹ جائے۔میرا بھائی کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے اب تک دوتربت کی مہریں (سجدہ گاہ) میری ران کے نیچے آکر ٹوٹ چکی ہیں۔اس نے والدہ سے کہا کہ آج کے بعد دوبارہ قبا کی نچلی جیب میں نہ رکھے گا۔میرے والد بزرگورا کو اس واقعہ کا کوئی علم نہ تھا اس کے چند دن بعد انہوں نے عالم خواب میں دیکھا کہ حضرت سیدا لشہداء (علیہ السلام) ان کے کتاب خانہ میں داخل ہو کر ان کے پاس بیٹھ گئے ان سے اظہار لطف و مہربانی فرمایا اور ارشاد فرمایا اپنے لڑکوں کو بلاو تا کہ میں ان کو انعام دوں ۔میرے والد کے پانچ بیٹے تھے ۔انہوں نے سب کو بلایا ان کوسامنے حجرے میں بٹھا یا۔امام کے سامنے کچھ لباس رکھے تھے ایک ایک کو طلب فرما کر انعام کے طور پر ایک ایک لباس دئیے جارہے تھے۔جب میرے اس بھائی کی باری آئی جس نے تربت کو قبا کی نچلی جیب میں رکھا تھا امام نے اس کے غضب کی نگاہوں سے دیکھا اور میرے والد کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے تمہارے اس لڑکے نے اب تک دوبار میری تربت کی اپنی ران کے نیچے دبا کر توڑا ہے۔امام نے اس بھائی کودوسرے بھائیوں کی مانند حجرے میں طلب نہیں کیا اس کو انعام بھی کم درجے کا دیا بلکہ اس کا انعام حجرے کے باہر ڈال دیا۔جب والد کی آنکھ کھلی تو انہوں نے اس خواب کو میری والدہ سے بیان کیا۔والدہ نے میرے بھائی کے ساتھ گزرا ہوا واقعہ بیان کیا ۔والد اپنے خواب کی سچائی پر تعجب کرنے لگے۔

ہم جناب سید الشہداء (علیہ السلام) کے مقدس نام پر جو خدا کی رحمت و کرم کا مظہر ہیں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہمیں کہ میں گزشتہ گناہوں سے توبہ اور آئندہ کے لئے ان کی تکرار سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔