گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110492
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110492 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

خطرے کا اعلانا

اگر سالار قافلہ خطرے کا اعلان کرے کہ ہماری منزل بہت دور ہے نہ آبادی ہے اور نہ ہی پانی۔ راستے میں حیوانات اور درندے موجود ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس قدر ممکن ہو خوراک و پانی اور دوسرے لوازمات اٹھائیں اور ہر شخص اپنا نگران اور ہوشیار رہے۔ اس اعلان کے ساتھ خود سالار قافلہ بھی جلدی جلدی اپنے سفر کا سامان جمع کرتا ہے اور اگلی منزل کے خوف سے اس پر وحشت طاری ہو جاتی ہے ، وہ کانپتا ہے اور گریہ کرتا ہے۔ جب سربراہِ قافلہ ، رہنمائے کاروان کی حالت ایسی ہوگی تو اس قافلے والوں کا کیا حشر ہو گا؟ اس کی پریشانی سے کاروان والوں کا پریشان ہونا لازمی امر ہے اور فطرت کا تقاضہ بھی۔

لہٰذا اس اطمینان سے قیمتی اوقات ضائع نہ کریں۔ اپنے رہنما کی پیروی کریں تا کہ میدان حشر میں حسرت بھرے دل اور آنسو بھری آنکھوں سے روبرو ہونے کی نوبت نہ آئے۔

سالار قافلہ خوف زد ہ ہے

اے ایمان و تقویٰ کے قافلو! تمہارا میرِ کارواں اور قافلے کا سالار حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سفر آخرت سے سخت ڈرتے ہیں اور اس راستے کے خطرات سے سب کو آگاہ فرماتے ہیں۔ ہر رات مسجد کوفہ میں بلند آواز سے فرماتے تھے:

تَجَهَّزُوارَحِمَکُمُ اللّٰهُ فَاِنَّ اَمَامَکُمْ عَقَبَةً کَسئُوداً ؟ وَمَنَازِلٌ مُحَوِّفَةٌ لَابُدَّمِنَ الوُرُوْدِ عَلَیْهَا وَالوُقُوْفِ بِهَا ۔

"مسافرو! خدا تم پر رحم کرے ، سامان سفر باندھ لو اور تیار رہا کرو۔ بے شک تمہارے آگے بہت سی دشوار گزار گھاٹیاں اور خوفناک منازل موجود ہیں۔ ان سے گزرے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔"اس کے بعد مولا (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

آه مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَبُعْدِ السَّفَرِوَعَظِیْم الْمَوْدرِدِ (نہج البلاغہ)

"افسوس زادِ راہ قلیل ہے ، سفر طویل ہے اور پہنچنے کا مقام عظیم ہے۔"

افسوس کا مقام ہے کہ بے پناہ دنیوی مصروفیات اورنفسانی خواہشات کی لہروں میں پھنسنے کی بنا پر ہم حضرات آئمہ اطہار (علیہم السلام) سے جدا ہو کر رہ گئے ہیں۔ رابطہ منقطع ہے۔ ہم ان کے اخلاق کریمہ اور سیرت طیبہ کی پیروی سے قاصر ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس بات سے محفوظ رکھے کہ ہم ان کی محبت و ولایت کے دائرے سے باہر قدم رکھ کر شیطانی ولایت و گمراہی میں داخل ہوں۔ کیونکہ بعض گناہوں کے اثر سے گناہ گار انسان ولایت خدا اور ولایت اہل بیت (علیہم السلام) سے خارج ہو جاتا ہے اور ولایتِ شیطان میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے وجود پر شیطان مکمل مسلّط ہو کر اس پر حکمرانی کرنے لگتا ہے۔

مومن کی اہانت کرنے پر انسان ولایت سے خارج ہو جاتا ہے

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے:

مَنْ رَوَیٰ عَلٰی مُومِنٍ رَوَایَةً یُرِیْدُ بِهَاشَیْنَه وَهَدْمُ مُرَوَّتِهِ لِیَسْقُطَ مِنْ اَعَیْنَ النَّاس اَخْرَجَه اللّٰهُ مِنْ وَّلاَیَتِهِ اَلٰی وَلَایَةِ الشَّیْطَانِ (اصول کافی)

"کوئی شخص کسی مومن کے خلاف ایک مطلب نقل کرے جس سے مراد اس کے عیوب ظاہر کرنے ہوں یا لوگوں کے درمیان اس کی آبرو ریزی کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی سرپرستی اور یاری سے محروم کر دیتا ہے اور شیطان کی سرپرستی پر چھوڑ دیتا ہے۔"

اس موقع پر شیطان بھی اس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے:

( کَمَثَل الشَّیْطٰنِ اِذْقَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ انِّیْ بَرِیءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ العَالَمِیْنَ ) (سورہ ۵۹ ۔آیت ۱۶)

"(منافقوں کی) مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہا کہ کافر ہو جاؤ، پھر جب وہ کافر ہوگیا تو کہنے لگا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں۔ میں سارے جہاں کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔"

قتل نفس

گناہ کبیرہ میں پانچواں بڑا گناہ اس شخص کا قتل ہے جس کو خداوند عالم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان سے مارنے کا حکم نہ دیا ہو۔

قتل انسان کے گناہِ کبیرہ ہونے کی دلیل وہ مستند روایات ہیں جو اس کتاب کے آغاز میں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ قاتل نفس محرّمہ کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے:

( وَمَںْ یَقْتُلْ مُوْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَ اُئهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِیْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّلَهُ عَذَاباً عَظِیْماً ) (سورہ ۴ ۔آیت ۹۳)

"اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے(تو غلام کی آزادی وغیرہ اس کا کفارہ نہیں بلکہ) اس کی سزا دوزخ ہے۔ اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ اس پر خدا نے اپنا( غضب ڈھایا ہے) اور لعنت کی ہے اور بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔"

اس آیہ شریفہ میں قتل نفس کے لیے پانچ سزائیں قرار دی گئی ہیں۔ پہلی جہنم، دوسری جہنم میں ہمیشگی، تیسری غضب خدا میں گرفتاری، چوتھی لعن خدا میں مبتلا ہونا اور پانچویں عذابِ عظیم ۔

دائمی عذاب کفار کے لیے مخصوص ہے

ہمارے مذہب کے مسلّمہ عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ کفار کے لیے ابدی عذاب مخصوص ہے۔ بایں معنی اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو تو وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا نہیں رہے گا اگرچہ وہ نفسِ محترم کا قاتل بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ دوسرے گناہوں میں بھی ملوّث ہو ا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آیہ مذکورہ کی کچھ توجیہات بھی بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابدی عذاب کا مستحق اس وقت بنتا ہے کہ مومن کا قتل اس کے ایمان کی وجہ سے واقع ہوا ہو۔ بلاشبہ اس صورت میں قاتل کافر ہے اور ابدی عذاب کا مستحق ہے۔ چونکہ اس نے مومن کا خون بہانا حلال سمجھا۔ جبکہ مومن کو جان سے مارنا حرام ہے اور یہ حرمت ضروریات دین میں سے ایک ہے اور ضروریات دینی کا منکر کافر ہے۔

مسلمان کا خون اور مال محترم ہے

حجة الوداع کے موقع پر حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ لایَحِلُّ دَمُ امْرِءٍ مُسْلِمٍ وَلَا مَالُه اِلاَّ بِطِیْبَةِ نَفْسِهِ فَلا تَظْلِمُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلَاتَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّاراً (وسائل الشیعہ کتاب قصاص باب اوّل)

"لوگو! مسلمانوں کا خون بہانا حلال نہیں ہے۔ اسی طرح ان کی مرضی کے بغیر مال پر تصرف جائز نہیں۔ پس اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا اور میری موت کے بعد دوبارہ کفر کی طرف نہ پلٹنا۔

دوسری توجیہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ اس آیہ شریفہ میں خلود سے مراد لمبی مدت تک عذاب دینا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ گناہ گار ہمیشہ کے لیے ابدی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔

ایک قتل تمام انسانیت کے قتل کے برابر ہے

ارشاد خداوندی ہے:

( اِنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادًا فِیْ الْاَرضِ فَکَانَمَّا قَتَلَ النّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ اَحْیَاها فَکَانَّما اَحْییٰ النَّاسَ جَمِیْعاً ) (سورہ ۵ ۔آیت ۳۲)

"اگر کوئی دوسرے کو (ناحق) قتل کر ڈالے بغیر اس کے کہ وہ قصور وار ہو یا ملک میں فساد پھیلا دیاہے جیسے لٹیرے، زانی(محصنہ)، شوہردار عورت کے ساتھ بد فعلی کرنا وغیرہ، جن کو جان سے مارنا جائز ہے تو گویا اس سے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کر دیا گویا اس نے سب آدمیوں کو زندہ کر دیا۔

چونکہ حقیقت میں تمام مومنین آدم کے بیٹے اور ایک ہی نفس کا حکم رکھتے ہیں ۔ قاتل نے لوگوں کے درمیان قتل جیسی بُری چیز کی تعلیم دی ہے اور سب کو قتل پر اُکسایا ہے۔

خود کشی بھی قتل کے برابر ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَلَاتَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط اِنَّ اللّٰهَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً وَمَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ عُدْوَناً وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَاراً ط وَکَانَ ذٰلکَ عَلٰی اللّٰهِ یَسِیْراً ) (سورہ ۴ ۔آیت ۲۹)

"تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو کیونکہ خدا ضرور تمہارے حال پر مہربان ہے۔ (قتل نفس سے اس لیے منع کیا گیا ہے کیونکہ تمام مومنین ایک نفس کا حکم رکھتے ہیں۔ لہٰذا فرمایا کہ تم اپنی جانوں کو مت مارو)۔ دوسری عبارت میں تم اپنے آپ کو بتوں پر قربان نہ کرو یا غیظ و غضب کے وقت خودکشی نہ کرو۔ اور جو شخص ظلم و جور سے ایسا کرے گا تو (یاد رکھو)ہم بہت جلد اس کو آگ میں جھونک دیں گے۔ اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے۔"

تمام لوگوں کو زندہ کرنے کے برابر

ارشاد ربانی ہے:

( وَمَنْ اَحْیَاها فَکَانَّمَا اَحْیَیٰ النَّاسَ جَمِیْعًا )

"اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ کر دیا۔"

چنانچہ اگر کوئی کسی نفس محترم کی بقا کا سبب بنے جیسے کہ عفو کرے یا قصاص چھوڑ دے یا انتقام سے اپنے آپ کو باز رکھے یا کسی کو ہلاکت سے نجات دے یا دلائے تو یہ سب لوگوں کو نجات دینے کے برابر ہے اور وہ شخص اسی قدر ثواب کا مستحق بھی قرار پائے گا۔

بعبارت دیگر قتل نفس پروردگارِ عالم کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کے لیے سخت ترین عذاب کا وعدہ ہے۔ اسی طرح کسی نفس محترم کی حمایت و حفاظت بھی سب سے بڑی عبادت ہے۔

قاتل مسلمانی کی حالت میں نہیں مرت

کسی کا قتل گناہ کبیرہ ہونے کے بارے میں احادیث کی طرف اشارہ ہوتا ہے:

عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰهِ فِی رَجُلٍ قَتَلَ رَجُلاً مُومناً؟ قَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ یُقالُ لَه مِتْ اَیَّ مَیْتَةِ اِنْ شِٴْتَ یَهُوْدِیَّا وَاِنْ شِئَتَ نَصْرَانِیّاً وَّاِنْ شِئْتَ مَجُوْسِیّاً (کافی)

"حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے کسی مرد مومن کے قاتل کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ قاتل کے مرتے وقت اس سے کہا جاتا ہے کہ جس حالت میں مرنا چاہو، مر جانا۔ اگر تم چاہو یہودی بن کر یا مسیحی کی موت مرو، یا مجوسی کی موت مرو۔"

دوسری حدیث:

لَایَزالُ الْمُومِنُ فِیْ فسحَةٍ مِنْ دِیْنِهِ مَالَمْ یُصِبْ دَمَّا حَرَاماً وََقَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ لَایُوَفَقِ قَاتِلُ الْمُومِنُ مِتَعَمِّداً لِلَتَّوْبَةِ (الوسائل کتاب قصاص۔ ص ۴۶۲)

"مومن اپنے دین کی وسیع فضا میں آزاد ہوتا ہے جب تک کسی کے حرام خون سے اپنے ہاتھوں کونہ رنگا ہو۔" مزید فرمایا: "جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرنے والے کو توبہ و انابہ نصیب نہیں ہوتی۔"

قتل کے شرکاء بھی قاتل ہیں

تیسری حدیث بھی امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ جناب رسول خدا سے عرض کیا گیا کہ ایک شخص مسلمان مارا گیا ہے اور اس کی لاش گلی میں پڑی ہوئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اصحاب وہاں پہنچے تو سوال کیا : اس کا قاتل کون ہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہمیں معلوم نہیں۔ آپ نے تعجب کے ساتھ فرمایا : کوئی مقتول مسلمانوں کے درمیان پڑا ہو اور اس کے قاتل کا کسی کو پتہ نہ ہو۔ اس خدا کی قسم جس نے مجھے پیغمبری کے لیے منتخب فرمایا، اگر تمام آسمان اور زمین میں رہنے والے ایک مسلمان کے خون میں شریک ہو جائیں اور اس سے سب خوش ہوں تو ضرور اللہ تعالیٰ ان سے کو بلا تفریق عذاب میں مبتلا کرے گا اور جہنم میں ڈال دے گا۔

اس حدیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قاتل اور شرکاءِ قتل کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں کسی کو پیش کریں گے ۔ اس کے ساتھ تھوڑا ساخون ہو گا(جتنا کہ حجامت سے نکلتا ہے)۔ وہ شخص کہے گا خدا کی قسم میں نے کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے قتل میں شریک ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا درست ہے لیکن کسی ایک دن تم نے میرے مومن بندے کا ذکر کیا اور یہی ذکر اُس کے قتل کا سبب بنا اس لیے اس کا خون تمہارے ذمے ہے۔

حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ اگر کوئی مشرق میں مارا جائے اور مغرب میں رہنے والا اس قتل پر راضی ہو جائے تو گویا وہ اس قتل میں شریک ہے۔

لَکَانَ الرَّاضِیْ عِنْدَ اللّٰهِ شَرِیْکُ الْقَاتِلِ (وسائل باب ۵ ص ۴۹۱)

حمل گرانا بھی حرام ہے

جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اس کو کسی طریقہ سے ضائع کرنا یا مارنا حرام ہے۔ ایسی صورت میں مثل قاتل دیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

جنین(ناقص الخلقت بچہ) اور بڑے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر چہ مارنے والے اس کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے ماں ایسی دوائی استعمال کرے جو حمل ساقط ہونے کا سبب بن جائے تو اس صورت میں اُن تمام سزاؤں کی مستحق ہو گی جو قاتل کے لیے معین ہیں۔ یعنی کسی نفس محترم کے قتل پر ایک ہزار مثقال سونا ادا کرنا واجب ہے۔

قاتل اگرچہ ماں باپ ہی ہوں پھر بھی اس دیہ سے ارث نہیں ملتی بلکہ ان کے سوا دوسرے ورثاء اس دیہ کے حق دار ہوں گے۔

عمداً نطفہ ضایع کرنا حرام ہے

مذکورہ بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کی شرعِ اقدس کس قدر انسانی زندگی اور اسکی حیات کی اہمیت کی قائل ہے۔کسی دوسرے موضوع کے بارے میں اس قدر تاکید و سفارش نہیں فرمائی جتنی نفس محترم کے لیے فرمائی ہے۔

یہاں تک کہ تکوینِ انسانی کا مادہ یعنی نطفہ رحم مادر میں ٹھہرنے کے بعد ضائع کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اور اس کے لیے دیہ بھی مقرر کر دیا ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے:

اگر نطفہ ضائع کیا گیا ہے تو ساٹھ مثقال سونا،اگر ہڈی پید اہو گئی تھی تو اسی مثقال سونا،اگر جنین (رحم مادر میں نا تمام بچہ) کے گوشت و اعضاء نمودار ہو گئے تھے لیکن روح داخل نہیں ہوئی تو سو مثقال سونا، اگر روح داخل ہوگئی تھی اور وہ لڑکا تھا تو ہزار مثقال سونا، اور لڑکی تھی تو پانچ سو مثقال سونا۔

اگر حاملہ عورت مر جائے تو اس کا پیٹ چاک (آپریشن) کر کے بچے کا نکالناواجب اور غفلت برتنا حرام ہے۔

اگر تاخیر کی بنا پر بچہ ضائع ہو جائے تو جس کی غفلت سے بچہ ضائع ہوا، اس پر دیہ واجب ہے۔

قتل کی توبہ

اگر کوئی جان بوجھ کر کسی نفس کو قتل کرے اور اس کے بعد توبہ کرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے آپ کو مقتول کے ولی کے حوالے کرے۔ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ قاتل سے قصاص لیں یا دیہ(خون بہا) لے لیں یا معاف کر دیں۔

معاف کرنے کی صورت میں یعنی اسے قتل نہ کریں تو قاتل پرتین چیزیں واجب ہوتی ہیں: ( ۱) ایک بندہ راہِ خدا میں آزاد کرے ( ۲) ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے ( ۳) ساٹھ روزے متواتر رکھے۔

اگر بندہ آزاد کرنا دسترس میں نہ ہو تو باقی دو کفارے ساقط نہیں ہوتے۔

اتفاقی اور خطائی قتل

غلطی سے کسی کو قتل کرنے کی صورت میں بھی مقتول کے سرپرستوں کو دیہ ادا کرنا واجب ہے لیکن اس صورت میں جبکہ مقتول کے ولی اسے معاف کردیں۔

اس کے علاوہ مذکورہ طریقے پر بندہ آزاد کرنا، فقیروں کو کھانا کھلانا اور ساٹھ روزے رکھنا بالترتیب واجب ہے۔

اسی طرح کسی کے اعضائے بدن کو کاٹنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ تفصیل کے خواہشمند فقہی کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔

والد ین کا عاق کرنا

گناہان کبیرہ میں سے چھٹا گناہ کبیرہ ماں باپ کا عاق ہے۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بعض آئمہ اطہار (علیہم السلام) سے روایت ملتی ہے کہ والدین کا عاق بڑے گناہوں میں سے ہے۔ جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ بلکہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ تمام گناہان کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ اللہ کا شریک قرار دینا اور والدین کا عاق ہے۔

عاق ایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں عذاب جہنم کا وعدہ ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں یوں بیان کرتا ہے:

( وَبَرّاً م بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّاراً شَقِیْاً )

"اور مجھ کو اپنی والدہ کا فرمان بردار بنایا اور الحمد للّٰلہ کہ مجھ کو سرکش نافرمان نہیں بنایا۔"(سورہ ۱۹ ۔آیت ۳۲)

چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ نہ تھے اس لیے ماں کا ذکر کیا گیا۔ اس سورے کی پانچویں آیت میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے ماں باپ دونوں کا ذکر ہے۔

ان آیتوں میں عاق والدین کو تین صفات سے یا د فرمایا ہے:( ۱) جبار یعنی سرکش ( ۲) شقی یعنی بد بخت ( ۳) عصی یعنی گناہ گار۔

اور ہر صفت کے لیے سخت عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ چنانچہ جبار کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَخَابَ کُلُّ جَبَّارِ عَنِیْدٍ مِّنْ وَّرَائِه جَهَنَّمُ وَیُسْقِیٰ مِنْ مَّآءٍ صِدِیْدٍ یَتَجَرَّعُه وَلَا بَکادُ یُسِیْغُهُ وَیََاْ تِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکانٍ وَمَاهُوَ بِمَیِْتٍ ط وَمِنْ وَّرَآئِه عَذَابٌ غَلِیْظِ )

(سورہ ۱۴ ۔آیت ۱۵ ۔ ۱۶ ۔ ۱۷)

"اور ہر ایک سرکش عداوت رکھنے والا ہلاک ہوا ۔ یہ تو دنیا کی سزا تھی اور اس کے پیچھے ہی پیچھے جہنم ہے اور اس میں اسے پیپ و لہو بھرا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا(زبردستی) اسے گھونٹ گھونٹ کر کے پینا پڑے گا۔ اور اُسے حلق سے بآسانی نہ اُتار سکے گا۔ اور (وہ مصیبت ہے کہ) اسے ہر طرف موت ہی موت آتی دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہ مارے نہ مر سکے گا اور پھر اس کے پیچھے سخت عذاب ہو گا۔"

اور شقی صفت رکھنے والے کے بارے میں فرماتا ہے:

( فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّشَهِیْقٌ خَالِدِیْنَ فِیْهَا مَادامَتِ السَّمٰواتُ وَالْاَرْضُ اِلاَّمَاشَآءَ رَبُّکَ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْدُ )

(سورہ ۱۱ ۔آیت ۱۰۶،۱۰۷)

"پس جو لوگ بد بخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ و پکار ہو گی۔ وہ لوگ جب تک آسمان اور زمین ہے، ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (مگر جب تمہارا پروردگار نجات دینا چاہے) بے شک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے وہ کر ہی کے رہتا ہے۔"

عصی یعنی نافرمان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَنْ یَعْص اللّٰهِ وَرَسُوْلهُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَه یُدْخِلقه نَاراً خَالِداً فِیْهَا وَلَه عَذَابٌ مُّهِیْنٌ )

(سورہ ۴ ۔ آیت ۱۴)

"اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اس کی حدود سے گزر گیا تو بس خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اور وہ اس میں ہمیشہ (اپنا کیا بھگتتا)رہے گا۔ اس کے لیے بڑا رسوائی کا عذاب ہے۔"

عاق والدین سے متعلق احادیث

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَعُقُوْقِ الْوَلِدَیْنِ فَاِنَّ رِیْحَ الجَنَّةِ یُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفِ عَامٍ وَلَا یَجِدُ هَا عَاقٍ وَّلَاقَاطِعُ رَحِمٍ (وسائل الشیعہ)

"خبردار! والدین کی ناراضگی سے پرہیز کرو ۔ بے شک بہشت کی خوشبو ایک ہزار سال دور کے فاصلے سے سونگھ سکتا ہے لیکن ماں باپ کے عاق اور رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرنے والا جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکے گا۔"

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی سے روایت ہے:

مَنْ اَسْخَطَ وَالِدَیْہِ فَقَد اَسْخَطَ اللّٰہَ وَمَنْ اَغْضَبَھُمَا فَقَدْ اَغْضَبَ اللّٰہَ (مستدرک)

"جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا تو گویا اس نے اللہ کو ناراض کیا ۔ اور جس نے ان دونوں کو غضب ناک کیا تو اس نے اللہ کو غضب ناک کیا۔"

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

مَنْ آذیٰ وَالِدَیْهِ فَقَدْآذَانِی وَمَنْ آذَانِیْ آذَیٰ اللّٰهَ وَمَنْ آذیٰ اللّٰهَ فَهُوَ مَلْعُوْنٌ ۔ (مستدرک)

"جس کسی نے اپنے والدین کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی پس وہ ملعون ہے۔"

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے:

وَلیَعْمَل الْعَاقُ مَاشآءَ اَنْ یَعْمَلَ فَلَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ (مستدرک)

"ماں باپ کو جس نے ناراض کیا پھر وہ جتنا بھی چاہے عمل کرے بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔"

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

ثَلَاثَةٌ لاَّیُکَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَایُزَکِیْهِمْ وَلَایَنْظُرُ اِلَیْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلَیْمٌ وَهُمُ الْمُکَذِّبُ بِالْقَدَرِ وَالْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَلْعَاقُ ل،وَالِدَ یْهِ

(مستدرک۔ کتاب نکاح۔ باب ۷۵)

"تین گروہوں کے ساتھ خداوند تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان پر نظر رحمت رکھے گا، نہ ان کو گناہوں سے پاک فرمائے گا اور ان کے لیے دردنات عذاب ہے۔ ان تین گروہوں میں ایک تقدیر الٰہی کو جھٹلانے والا، دوسرا ہمیشہ شراب پینے والا اور تیسرا والدین کا عاق کیا ہوا۔

ولادین کا عاق قابل مغفرت نہیں

عاق والدین کی شقاوت کے لیے یہی کافی ہے کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) نے اس کے حق میں بد دعا کی اور کہا:

مَنْ اَدْرَکَ وَالِدَیْهِ وَلَمْ یُورِّ حَقَّهُمَا فَلَاغَفَرَاللّٰهُ لَهُ فَقُلْتُ آمِّیْن ۔ (بحارالانوار)

"جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کے حقوق ادا نہ کئے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہ کرے گا۔"

اس وقت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جبرائیل امین کی بد دعا کے بعد آمین کہا۔

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے:

مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَرَبَ وَالِدَیْهِ، مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْهِ (مستدرک)

"ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو مارا۔ ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا ہو۔"

عاق والدین کی نماز قبول نہیں

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ:

مَنْ نَظَرَاِلٰی اَبَوَیْهِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَّهُمَا ظَالِمَانِ لَه لَمْ یَقْبَلِ اللّٰهُ لَهُ صَلوٰةً (کافی)

"جو کوئی اپنے والدین کی طرف غصے سے نظر کرے گا حالانکہ والدین اولاد کے حق میں ظالم ہوں پھر بھی اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔"

احتضار کی حالت میں ایک جوان کے لیے پیغمبر کی شفاعت

ایک جوان آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ اسی اثناء میں حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) تشریف لائے اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے شہادتین کی تلقین فرمانے لگے۔ مگر وہ جوان کچھ نہ بول سکا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دریافت کیا کہ کیا اس کی ماں موجود ہے؟ جوان کے سرہانے بیٹھی ہوئی ایک عورت نے کہا ، جی ہاں ، میں اس کی ماں ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کیا تم اس سے ناراض ہو؟ عورت نے عرض کیا: ہاں ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)۔ چھ سال سے میرے اور اس کے درمیان بات چیت بند ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کی ماں سے خواہش کی کہ اپنے بیٹے کو معاف کر دے۔

چنانچہ اس عورت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کہنے پر بیٹے کی غلطیوں سے درگزر کیا اور اس سے راضی ہو گئی۔ فوراً ہی وہ جوان کلمہ شہادت پڑھنے لگا۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کیا: اس وقت تم کیا دیکھ رہے ہو؟

نوجوان نے عرض کیا: اے رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ایک کالا مرد نہایت بد صورت و بد بودار مجھے نہیں چھوڑ رہا۔

آپ نے فرمایا،یہ دعا پڑھو:

یَامَنْ یَّقْبَلُ الْیَسِیْرَ وَیَعْفُوْعَنْ الْکَثِیرَ اقْبَلْ مِنِّیْ الْیَسِیْرَ وَاعْفُ عَنِیّ الْکَثِیْرَ ۔

حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے پوچھا، اب کیا دیکھ رہے ہو؟

نوجوان نے عرض کیا ایک سفید رنگ کا خوب صورت اور معطر مرد میری طرف بڑھ رہا ہے۔ فرمایا، اسی دعا کی تکرار کرو۔ جب دوبارہ پڑھی تو کہنے لگا:یا رسول اللہ! دونوں میری نظروں سے غائب ہو گئے ۔ اس کے بعد آنحضرت کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار نمودار ہو گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، خداوندا! اس نوجوان کے گناہوں کے بخش دے۔ اس کے بعد جوان کی وفات ہو گئی۔(بحار الانوار)

اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ عاق والدین کی عاقبت کس قدر سخت ہے۔ وہ بے ایمانی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور ہمیشہ عذاب الٰہی میں مبتلا رہتا ہے۔ ورنہ کلمہ توحید کی تلقین کرنے والے جناب رسول خدا تھے۔ اس کے باوجود جوان کی زبان نہ کھل سکی۔ یہاں تک کہ اس کی ماں اس سے راضی نہ ہوئی۔ رسول خدا کے قدموں کی برکت اور ماں کی رضایت سے اس نوجوان کی بخشش ہو گئی۔

عاق سے کیا مراد ہے

علامہ مجلسی کتاب کافی کی شرح میں فرماتے ہیں:

الْمُرَادُ بِعُقُوْقِ الْوَالِدَیْنِ تَرْکُ الْاَدَبِ لَهُمَا وَالْاِتْیَانُ بِمَایُوْذیْهِمَا قَوْلاً وَفِعْلاً وَمُخَا لِفُتُهِما فِیْ اَغْرَضِهِمَا الْجَائِزَةِ عَقْلاً وَنَقْلاً ۔

"عاق والدین سے مراد یہ ہے کہ اولاد ان کا ادب و احترام نہ کرے۔ کسی قسم کی گفتار و رفتار سے ان کو تکلیف پہنچائے۔ ان کی ایسی خواہشات و مطالبات کی مخالفت کرے جن کا پورا کرنا عقلاً و شرعاً جائز ہو۔

عاق والدین حرام ہونے کی دلیل کتاب و سنت اور اہل تشیع و اہل تسنن کا اجماع ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ "کم سے کم عاق ماں باپ کے سامنے اُف کہنا ہے۔ اگر خدا کی نگاہ میں اس سے کمتر کوئی چیز ہوتی تو اس کی مثال دے دیتا۔ والدین کی طرف تندی اور غصے سے نظر کرنا عاق کا سبب بنتا ہے۔ نیز والدین کو غمگین کرنے سے عاق ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع جن سے والدین کا ناراض ہونا یقینی ہو گناہ کبیرہ ہے۔"

والدین سے نیک کرنا واجب ہے

آیات قرآنی اور احادیثِ آئمہ طاہرین (علیہم السلام) سے استفادہ ہوتا ہے کہ والدین کی نافرمانی ان کی خاطر آزردہ کرنا اور تکلیف پہنچانا، جہاں حرام و گناہِ کبیرہ ہے وہاں ان کے حق میں احسان و نیکی کرنا اور کما حقہ‘ حق کی ادائیگی کرنا بھی واجب ہے۔ چنانچہ کچھ آیات تبرکاً ذکر کی جاتی ہیں:

( وَوَصَّینا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْناً ) (سورہ ۲۹ آیت ۸)

"اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔"

( اَنِ اشکُرْ لِیْ وَلواَلِدَیْکَ ) (سورہ ۳۱ ۔ آیت ۱۳)

"ہم نے انسان کو تاکید کی کہ میرا شکر ادا کرے اور اپنے والدین کا بھی۔"

اس آیہ شریفہ میں اپنا شکر اور والدین کا شکر ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ بے شک بندگانِ خدا پر اس کے شکر واجب ہے۔ اسی طرح اولاد پر والدین کا شکر بھی واجب ہے۔

( وَقضیٰ رَبُّکَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاه وَبالْوَالِدَیْنِ اِحْساناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الکِبَرُ اَحَدُهُمَا اَوْکلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ وَّلَاتَنْهَرْ هُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَخْفِضْ لَهُمَا جَناحَ الذُّلّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیراً ) (سورہ ۱۷ ۔آیہ ۲۳،۲۴)

"اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور اپنے ماں باپ سے نیکی کرنا۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں اور تمہاری خدمت کی ضرورت پڑے (یا ناراض ہوں) تو خبردار ان کے جواب میں "اُف" تک نہ کہنا اور نہ جھڑکنا اور (جو کچھ کہنا سننا ہو تو) بہت ادب سے کہا کرو اور رحم دلی سے ان کے سامنے خاکساری کا پہلو جھکاؤ اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار ! جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں میری پرورش کی ہے ، اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔"

یہاں آیہ مذکورہ میں خداوند عالم نے والدین کے ساتھ نیکی کو اپنی عبادت کے مترادف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہے، اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنا بھی واجب ہے۔

حضرت صادق آل محمد (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اگر "اُف" سے چھوٹا کوئی کلمہ عربی زبان میں ہوتا تو ذکر ہوتا اور ممنوع قرار دیا جاتا۔

ابی ولاد نے آپ سے وبالوالدین احساناً کے معنی دریافت کیے تو فرمایاکہ وا لدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ اگر ان کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو اظہار سے پہلے پیش کر دو۔

اس کے بعد( وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلاً کَرِیْماً ) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر والدین تم کو ماریں تو تم کہو کہ اللہ آپ کی مغفرت کرے۔

پھر وَاخْفِضْ لَہھُمَا کے بارے میں پوچھا تو آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ تندی سے ان کی طرف نگاہ نہ کرنا ، اپنی آواز ان کی آواز سے بلند نہ کرنا ، ایک ساتھ چلتے وقت آگے نہ بڑھنا، مجالس میں ان سے پہلے جگہ نہ لینا، اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھوں سے بلند نہ کرنا۔