گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 110505
ڈاؤنلوڈ: 7308

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110505 / ڈاؤنلوڈ: 7308
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

والد ین کی خدمت جہاد ہے بہتر ہے

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں راہِ خدا میں جہاد کرنے کا شوق رکھتا ہوں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، پس راہ خدا میں جہاد کرو ۔ بے شک اگر تم مارے گئے تو اللہ کے نزدیک زندہ رہو گے اور رزق پاؤ گے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہو گا۔ اگر سلامتی کے ساتھ واپس آئے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہوگے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس شخص نے کہا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، میرے والدین زندہ ہیں اور بڑھاپے کی حالت میں ہیں اور مجھ سے کافی انس رکھتے ہیں۔ مجھ سے جدائی ان کو پسند نہیں۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا اگر ایسا ہے تو ان کی خدمت میں ٹھہر جا۔ قسم اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، والدین سے ایک دن رات انس میں رہنا ایک سال کے مسلسل جہاد سے افضل ہے۔ یہ روایت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ فرمایا:

کُنْ بَارَاً وَّ اقْتَصِرْ عَلٰی الجَنَّة، وَاِنْ کُنْتَ عَاقاً فَاقْتَصِرْ عَلَی النَّارَِ

"والدین کے خدمت گار بن کر جنت میں مقام حاصل کر لو اور اگر والدین کے عاق ہو گئے تو جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لو۔"

والدین سے نیکی گناہوں کا کفارہ ہے

ماں باپ سے نیکی بہت سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ، ایسا کوئی بُرا کام باقی نہیں بچا جس کا میں مرتکب نہ ہوا ہوں۔ کیا میرے لیے توبہ ہے؟ آنحضرت نے فرمایا، جاؤ، باپ کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو ۔ جب وہ نکل گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اس کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔

والدین کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے:

رِضیٰ اللّٰهِ مَعَ رِضیٰ الْوَلِدَیْنِ وَسَخَطُ اللّٰهِ مَعَ سَخَطِ الْوَالِدَیْنِ (بحارالانوار)

"والدین کی رضامندی میں اللہ کی رضا ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔"

آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مزید ارشاد فرمایا:

بَیْنَ الْاَنْبِیَاءِ وَالْبَارِدَرَجَةٌ وَبَیْنَ الْعَاقِ وَالْفَرَاعِنَهِ دَرَکَةُ (مستدرک)

"والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بہشت میں پیغمبروں سے صرف ایک درجہ کے فرق پر ہو گا۔ اور والدین کا عاق شدہ جہنم میں فراعنہ سے صرف ایک درجہ نیچے ہو گا۔"

والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے کے لیے ملائکہ کی دعائیں

حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

بِرُّالوَالِدَیْن اَکْبَرُ فَرِیضَةٍ ۔

"والدین کے ساتھ نیکی کرنا واجباتِ الٰہیہ میں سب سے بڑا فریضہ ہے۔"

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کے دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے:

اللّٰهُمَّ احْفِظِ الْبارِیْنَ بِعِصْمَتِکَ (مستدرک)

"خدایا! والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو (تمام برائیوں اور آفتوں) سے محفوظ رکھ۔"دوسرا فرشتہ کہتا ہے:

اللّٰهُمَّ اَهْلِکِ العَاقِیْنَ بِغَضَبکَ (مستدرک)

"خداوندا! جن لوگوں سے ان کے والدین ناراض ہیں، انہیں اپنے غضب کے ذریعہ ہلاک فرما۔"

اس میں شک نہیں کہ فرشتوں کی دعا قبول درگاہ الٰہی ہوتی ہے۔

عا ق کا دنیوی اثر

مذکورہ احادیث میں عاق والدین کے لیے آخرت کے عقوبات بیان ہوئے ہیں۔ عاق ہونا ایک ایسا گناہ ہے کہ اس کے وضعی و طبعی آثار اور ردّ عمل آخرت سے پہلے ہی اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت خاتم الانبیاء نے فرمایا:

ثَلَاثَةٌ مِّنَ الذّنُوْبِ تُعْجِّلُ عُقُوْبَتُهَا وَلَاتُوخِرُ الْآخِرَةَ عُقُوْقُ الوالِدَیْنِ وَالْبَغْی عَلٰی النَّاس وَکُفْرِ الْاِحسانِ (بحارالانوار)

"گناہوں میں تین گناہ ایسے ہیں جن کی سزا عجلت سے اس دنیا میں دی جاتی ہے اور قیامت تک تاخیرنہیں کی جاتی۔ ان میں سے پہلے والدین کا عاق ہونا، دوسرے اللہ کے بندوں پر ظلم کرنا اور تیسرے احسان پر ناشکری کرنا۔"

حضرت امام محمدباقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

صَدَقَةُ السِرِتُطْفِیْءُ غَضَب الرَّبِ وَبِرُّالْوَالِدَیْنِ وصِلَةُ الرَّحِمِ یَزیدَانِ فِیْ الْاَجَلِ

(بحارالانوار)

"مخفی طور پر صدقہ دینا پروردگار کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور والدین کے ساتھ نیکی و قرابت داروں سے صلہ رحم عمر کو دراز کرتا ہے۔ "

ایک اور حدیث میں فرمایا:

البِرُّ وَصَدَقَةُ السِّرِّ یَنْفِیَانِ الفَقْرَ وَیَزِیْدَان فِیْ العُمرِ وَیَدْفَعَانَ عَںْ سَبْعِیْنَ مَیْتَةَ سُوْءٍ

(بحارالانوار)

"ماں باپ سے نیکی اور پوشیدہ خیرات کرنے سے فقر دور ہوتا ہے اور یہ دونوں عمر کو طویل کرتے ہیں اور ستر قسم کی بُری موت اس سے دور ہوتی ہے۔"

یہ بھی فرمایا کہ:

مَنْ یَضْمِنُ لِی بِرَّ الْوالِدَیْنِ وَصِلَةَ الرَّحِمِ اَضْمِنُُ لَه کَثْرَة الْمَالِ وَزِیَارَةَ الْعُمَر وَالْمَحَبَّةَ فِی العَشِیْرَة (مستدرک)

"جو کوئی مجھے یہ ضمانت دے کہ والدین سے نیکی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے گا تو میں بھی اسے کثرت مال اور درازی عمر کے علاوہ اپنے قبیلہ میں محبوب بننے کی ضمانت دوں گا۔"

حضرت امام نقی (علیہ السلام) نے فرمایا:

اَلعُقُوْقُ یُعْقِّبُ الْقِلَّةَ وَیُودِّیْ اِلٰی الذِلَّةِ

"والدین کی ناراضگی سے (روزی کی) کمی اور ذلت پیچھا کرتی ہے۔"

عاقِ والدین گدائی و بد نصیبی کا سبب بنتا ہے

مدینہ منورہ کے ایک دولت مند جوان کے ضعیف ماں باپ زندہ تھے۔ وہ جوان ان کے ساتھ کسی قسم کی نیکی نہیں کرتا تھا اور انہیں اپنی دولت سے محروم کیے ہوئے تھا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس جوان سے اس کا سب مال و دولت چھین لیا۔ وہ ناداری ، تنگ دستی اور بیماری میں مبتلا ہو گیا اور مجبوری و پریشانی انتہا کو پہنچ گئی۔

جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا جو کوئی ماں باپ کو تکلیف پہنچاتا ہے اُسے اس جوان سے عبرت حاصل کر نی چاہیئے۔

دیکھو ! اس دنیا میں اس سے مال ودولت واپس لے لی گئی ، اس کی ثروت و بے نیازی فقیری میں اور صحت بیماری میں تبدیل ہو گئی۔ اس طرح جو درجہ اس کو بہشت میں حاصل ہونا تھا ، وہ ان گناہوں کے سبب اُس سے محروم ہو گیا۔ اس کی بجائے آتشِ جہنم اس کے لیے تیار کی گئی ۔ (سفینة البحار)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹے حضرت یو سف (علیہ السلام) سے ملاقات کرنے مصر تشریف لائے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی ظاہری سلطنت اور شان و شوکت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے والد بزرگوار کے احترام کے لیے اپنی سواری سے نیچے نہیں اُترے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنا ہاتھ کھو لیے، آپ (علیہ السلام) نے جب ہاتھ کھولا تو اس سے ایک روشنی نکلی اور آسمان کی طرف بلند ہوئی۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دریافت کیا یہ نور جو میرے ہاتھ سے نکلا اور آسمان کی جانب چلا گیا ، یہ کیا تھا؟

جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا ، نبوت کا نور آپ (علیہ السلام) کے صلب سے باہر نکل گیا۔ کیونکہ آپ (علیہ السلام) نے اپنے والد کا احترام بجا نہیں لایا تھا اس لیے آپ (علیہ السلام) کے بیٹوں میں سے کسی کو پیغمبری نہیں ملے گی۔

اس میں شک نہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اُترے لیکن یہ تکبّر اور بے اعتنائی کی وجہ سے نہیں تھا۔ کیونکہ انبیائے کرام (علیہم السلام) ہر قسم کے گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں۔ البتہ اپنی سلطنت اور شان و شوکت کا اعلیٰ مقام برقرار رکھنے اور رعایا پر رُعب و دبدبہ بٹھانے کی خاطر تھا۔

عاق والد ین کا بُرا انجام

عاق والدین کے وضعی آثار میں سے ایک اثر بُرا انجام ہے۔ اس کے بر عکس والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے عاقبت سنور جاتی ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُّخَفِّفَ اللّٰهُ عَنْه سَکَرَاتَ الْمَوْتِ فَلَیْکُنْ لِقَرَابَتِهِ وَصُوْلاً وَّلوَالِدَیْهِ بَارّاً فَاِذَا کَانَ کَذٰلِکَ هَوَّنَ اللّٰهُ عَلَیْهِ سَکَرَاتَ الْمَوْتِ وَلَمْ یَصبَهُ فِیْ حیٰوتهٍ فَقْرٌ اَبَداً (سفینة البحار جلد ۲ ص ۶۸۷)

"جس کی خواہش ہو کہ جان کنی کی کیفیت اس پر آسان ہو جائے، اسے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم اور والدین کے ساتھ نیکی بجا لانا چاہیئے۔ جب کوئی ایسا کرے گا تو خداوند عالم موت کی سختیاں اس پر آسان کر دے گااور وہ شخص زندگی بھر کسی پریشانی و تنگ دستی میں نہ ہوگا۔"

والدین کی دعا جلد مستجاب ہوتی ہے

ماں باپ اولاد کے حسن سلوک کے یا بد سلوکی کے نتیجے میں جو بھی دعا کرتے ہیں، وہ بارگاہِ الٰہی میں ضرور قبول ہوتی ہے۔ اس بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ اس سلسلے کی ایک روایت دعائے مشلول کی فضیلت میں نقل ہوئی ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک نوجوان کا اپنے باپ کی بد دعا کے نتیجے میں سیدھا ہاتھ بے کار ہو گیاتھا۔ وہ نوجوان باپ کی وفات کے بعد متواتر تین سال مسجد الحرام میں ساری رات بارگاہِ رب العزت میں گڑ گڑا کر دعائیں کرتا تھا۔ ایک دن مولائے متقیان حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کو اس نوجوان پر ترس آیا۔ چنانچہ آپ نے اُسے دعائے مشلول تعلیم فرمائی۔ اور وہ نوجوان اس دعا کی برکت سے شفا یاب ہو گیا۔

ماں حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ سزا وار ہے

ماں کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ماں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے سلسلے میں تین مرتبہ تکراراً حکم دیا ہے اور چوتھی مرتبہ باپ سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دریافت کیا گیا کہ والدین میں کس کا حق زیادہ ہے؟

آپ نے فرمایا:

کیا ماں وہی ہستی نہیں ہے جس نے مدتوں تجھے اپنے رحم میں اٹھائے رکھا اور اس کے بعد وضعِ حمل کی سختیاں برداشت کیں؟ پھر اپنی چھاتی سے تیرے لیے غذا مہیا کی۔ پس ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ (مستدرک ۶۲۸)

ماں باپ کے حقوق

کسی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سوال کیا کہ باپ کا کیا حق ہے؟ فرمایا، جب تک وہ زندہ ہے اس کی اطاعت کرنا، پھر پوچھا کہ ماں کا کیا حق ہے؟فرمایا، اگر صحراؤں میں ریت کے ذرات کے برابر اور بارش کے قطرات کی مقدار میں بھی اگر ماں کی خدمت سرانجام دی جائے تو پھر بھی شکم مادر میں ایک دن بھی رہنے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ (مستدرک)

ایک جوان اور اس کی اپاھج ماں

روایت ہے کہ ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میری ماں ہاتھ پیر سے معذور ہے۔ وہ اپنی جگہ سے خود ہل نہیں سکتی۔ میں اس کے پیٹھ پر بٹھاتا ہوں، اس کے منہ میں نوالہ دیتا ہوں، اس کی گندگی کو پاک و صاف کرتا ہوں، کیا میں نے اس کا حق ادا کر دیا؟

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، نہیں۔ کیونکہ تم اس کے پیٹ میں مدتوں رہے۔ اس کے جسم سے تم کو کھانے اور پینے کی اشیاء فراہم ہوتی رہیں۔ اس کے ہاتھ پیر مسلسل تمہاری حفاظت کے لیے استعمال ہوئے ۔ ان زحمات کے باوجود یہ تمہاری درازی عمر کے لیے تمنا کرتی رہی۔ لیکن تم ہو کہ آرزو رکھتے ہو کہ وہ دنیا سے رخصت ہو جائے تا کہ تم کو اس کی فکر سے آزادی مل جائے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ماں کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم مستحبّی نماز پڑھ رہے ہو اور اسی اثناء میں باپ نے تم کو بلایا تو نماز قطع نہ کرنا، لیکن ماں اگر بلائے تو تم نماز چھوڑ دو۔

جی ہاں، ماں کی عظمت و عزت بہت زیادہ ہے۔ جیسا کہ حضرت خاتم الانبیاء نے ارشاد فرمایا:

الْجَنَّةُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّهاتِ

"بہشت کی تلاش میں دور جانے کی ضرورت نہیں، بہشت تو ماؤں کے قدموں تلے موجود ہے۔"

والدین مسلمان ہوں یا کافر، ان کے ساتھ نیکی کرو

والدین مومن و عبادت گزار ہوں یا کافر و خطا کار، بلا تفریق ان کے حق میں نیکی کرنا واجب ہے اور ان کا عاق ہونا حرام ہے۔ چنانچہ سورہ لقمان کی پندرہویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:

وَاِنْ جَاهَداکَ عَلٰی اَن تُشْرِکَ بِی مَالَیْسَ لَکَ بِهِ عِلِمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً ۔

"اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے، جس کا تجھے کچھ علم نہیں ، تو ان کی اطاعت نہ کر، (مگر ان کو تکلیف نہ پہنچانا) اور دنیا کے کاموں میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا جو کہ شرعِ مطہر کی نظر میں پسندیدہ اور مقتضائے رحم و کرم ہو۔"

سُنّی ماں باپ کے لیے دع

معمر بن خلّاد نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے پوچھا اگر میرے ماں باپ حق کی پیروی کرنے والے اور شیعہ نہ ہوں تو کیا پھر بھی ان کے حق میں دعا کرنا جائز ہے؟

آپ (علیہ السلام) نے فرمایا، ہاں۔ اگر وفات پا گئے ہوں تو ان کے حق میں دعا کرو، ان کے نام پر صدقہ دو اور اگر زندہ ہوں تو ان کی دل جوئی کرو اور خوش رکھو۔

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ بَعَثَنِیْ بِالرَّحْمَةِ لَا بِالعُقُوْقِ

"اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمةٌ للعالمین بنا کر بھیجا مگر عاق میں۔"

جناب جابر نے کہا کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے والدین حق کے مخالف ہیں۔ یعنی شیعہ اہل بیت (علیہم السلام) نہیں ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے حق میں ایسی ہی نیکی کرو جیسے تم ہمارے شیعوں کے ساتھ نیکی کرتے۔ (اصول کافی)

تین چیزوں میں مومن و کافر برابر ہیں

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

ثَلَاثٌ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهِ تَعَالٰی لِاَحَدٍ فِیْهِنَّ رُخْصَةٍ: اَدَاءُ الْاَمَانَةِ اِلٰی البِرَ وَالْفَاجِرِ والْوَفَاءُ بِالْعَهْدِ اِلٰی البِْرِّ وَالْفَاجِرِ وَبِرُّ الْوَالِدَیْنِ بِرَّین کاِنَا اَوْفَاجِرَیْنِ (اصول کافی)

"تین چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ (اول) امانت کی واپسی، اگر چہ مالک مومن ہو یا کافر (دوم) ایفائے عہد کرنا، معاہدہ کرنے والا خواہ مومن ہو یا کافر (سوم) والدین سے نیکی کرنا، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر ۔

حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے مامون کے نام ایک خط لکھا جس میں شریعت اسلامیہ کا ذکر تھا اور اس ضمن میں یہ مضمون بھی تحریر تھا:

وَبِرُّالْوَالِدَیْنِ وَاجِبٌ وَاِنْ کَانا مُشْرِکَیْنِ وَلاطَاعَةَ لهُمَّا فِیْ مَعْصِیةِ الخالِق (عیون الاخبار الرضا)

"والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا واجب ہے اگر چہ دونوں مشرک ہی ہوں۔ البتہ والدین کی اطاعت واجب نہیں جبکہ خالق کی نافرمانی کا سبب بنے۔"

زکریا بن ابراہیم کو صادق آل محمد کی نصیحت

ابراہیم کا بیٹا زکریا نصرانی تھا، بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی زیارت سے مشرف ہوا تو اس نے عرض کی کہ میری ماں نصرانی و نابینا ہے، وہ بڑھاپے کی حالت میں ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، ماں کی خدمت کرو اور اچھے طریقے سے پیش آؤ۔

مرنے پر اس کا جنازہ دوسروں کے حوالے نہ کرنا، بذات خود تجہیز و تکفین کا کام انجام دینا۔ اس جملے میں بعد ہونے والی دو پیش گوئی کی طرف اشارہ فرمایا، ایک اس کی ماں کی وفات اور دوسرا اس کا مسلمان ہونا۔

زکریا جب واپس کوفہ پہنچا تو والدہ کے ساتھ بہت ہی ہمدردی و مہر بانی سے پیش آنے لگا۔ یہاں تک کہ نوالے اس کے منہ میں رکھتا، کپڑے تبدیل کرتا، نہلاتا و دھلاتا تھا۔ مختصر یہ کہ ہر ممکن خدمات انجام دیتا رہا۔

ماں نے پوچھا، بیٹا، جس وقت تم نصرانی تھے اس قدر میری خدمت نہیں کرتے تھے۔ اب کیا وجہ ہے کہ دن رات میری خدمت کرتے ہو؟

زکریا نے جواب دیا : اے میری ماں، میرا ایک مولا ہے، وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرزند ہے۔ اس نے مجھے اس طرح تیری خدمت انجام دینے کی نصیحت کی ہے۔

ماں نے پوچھا، کیا وہ پیغمبر ہے؟

زکریا نے کہا، نہیں۔ بلکہ وہ فرزند پیغمبر ہے۔

ماں نے کہا، اے بیٹا، ایسا شخص پیغمبر ہونا چاہیئے۔ کیونکہ ایسی نصیحتیں اور احکامات انبیاء کرام (علیہم السلام) ہی دیتے ہیں۔

زکریا نے کہا، پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبد اللہ پر سلسلہ نبوت ختم ہو چکا ہے۔ وہ خاتم الانبیاء ہیں۔ لیکن مجھے نصیحت کرنے والے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں۔

اس کی ماں بے ساختہ کہہ اٹھی کہ اے بیٹا، یہ دین اسلام تمام ادیان سے بہتر ہے۔ جسے تو اپنایا ہے۔ وہ مجھے بھی تعلیم دے تاکہ میں بھی مسلمان ہو جاؤں۔

پس زکریا نے اسے شہادتین اور تمام عقائد حقہ کی تعلیم دی۔ اس کے بعد اس عورت نے نماز ظہرین و مغربین ادا کی۔ اسی شب اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگے تو اپنے بیٹے سے کہنے لگی، بیٹا، جو کچھ تم نے مجھے تعلیمات دی تھیں، ان کی دوبارہ تکرار کرو۔ زکریا نے تکرار شروع کی، وہ عورت سنتی رہی اور اسی حالت میں رحلت کر گئی۔

والد ین سے زند گی اور موت کے بعد نیکی کرنا

والدین کی نافرمانی کرنا حرام اور ان کے ساتھ نیکی کرنا واجب ہے، چاہے وہ زندہ ہو ں یا مر گئے ہوں۔ بعبارت دیگر ، ان کی موت کے بعد بھی اولاد کے ذمے ان کے حقوق باقی رہتے ہیں۔

اگر والدین کی موت کے بعد اولاد ان کو فراموش کردے، ان کے لیے کارِ خیر بجا نہ لائے تو اس صورت میں اولاد عاقِ والدین شمار ہوگی۔ اگرچہ ان کی زندگی میں حقوق ادا بھی کیے ہوں اور مرتے وقت تک ان کی خدمت سرانجام دی ہو۔

مرنے کے بعد والدین کے حقوق

اول) ایسے واجبات کا ادا کرنا جو انہوں نے اپنی حیات میں انجام نہ دیئے ہوں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج اور قرضے وغیرہ

دوم) ان کی وصیت پر عمل کرنا

سوم) ان کی مغفرت و بخشش کے لیے مختلف اعمال بجالانا چاہیئے۔ ان کی طرف سے صدقہ دینا، کارِ خیر انجام دینا، مستحب اعمال بجا لانا، مختصر یہ کہ جتنا ممکن ہو مادّی و معنوی تحائف اور ہدیے ان کو بھیجنے چاہیئیں۔

والدین کے عقوق ان کی وفات کے بعد

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے:

اِنَّ الْعَبْدَ لیَکُوْنُ بَارّاً لِوَالِدَیْهِ فِی حَیوٰتِهِمَا ثُمَّ یُموْتَانِ فَلَا یَقٓضِیْ عَنْهُمَا دَیْنُهمَا وَلَا یَسْتَغفِرُلَهُمَا فَیَکْتُبُهُ اللّٰهُ عَاقاً وَاِنَّهُ لَیْکُوْنُ عَاقاً لَّهُمَا فِیْ حَیٰوتِهِمَا وَغَیْرُ بَارٍّم بهُمَا فَاِذا مَاتَا قَضیٰ دَیْنَهُمَا وَاسْتَغْفَرَ لَهُمَا فَیْکُتبُهُ اللّٰهُ بارّاً ۔ (اصول کافی)

"بے شک اگر ایک بندہ والدین کی زندگی میں تو نیک رہے اور جب وہ دونوں مر جائیں تو وہ اُنہیں بھول جائے، ان کے قرض ادا نہ کرے، اور نہ ہی ان کے لیے مغفرت و رحمت طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں عاق والدین لکھے گا۔ اور دوسرا بندہ ماں باپ کی زندگی میں تو عاق رہے مگر ان کی موت کے بعد ان کے قرضے ادا کرے اور ان کے لیے مغفرت و بخشش طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا نام والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں کی فہرست میں لکھے گا۔"

عمل ایک ، ثواب متعدد

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہیں کس چیز کی مشکل درپیش ہے کہ والدین کی حیات و موت میں ان کی خدمت نہیں کرتے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) پہلے والدین کے مرنے کے بعد نیکی کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ان کی نماز پڑھو(یعنی ان کی قضا نمازیں خود یا اُجرت دے کر پڑھوائیں، اگر ان کے ذمے قضا نماز نہ ہو تو نوافل خود پڑھے یا اُجرت دے کے پڑھوائے)، ان کی طرف سے صدقہ دو، ان کے قضا روزے رکھو اور حج ادا کرو۔ تم جو کچھ عمل بجا لاؤ گے اس کا ثواب دونوں کو ملے گا۔

اس کے علاوہ والدین کے حق میں نیکی کرنے کا صلہ دو گنا عطا ہو گا۔ ایک اصل عمل بجا لانے کے سلسلے میں ، دوسرا والدین کے حق میں نیکی کرنے کے صلے میں۔

والدین کے لیے دعا و استغفار

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دریافت کیا کہ کیا والدین کے مرنے کے بعد بھی میرے ذمے ان کے کچھ حقوق باقی رہتے ہیں؟

قَالَ نَعَمْ، الصَّلوٰةُ عَلَیْهِمَا وَالْاِسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَاِکْرَامُ صَدِیْقِهِمَا وَصِلَةُ رَحِمِهُمَا (کافی)

"فرمایا، ہاں۔ ان کے لیے نماز پڑھو اور استغفار کرو اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، ان کے رشتہ داروں سے حسن سلوک رکھو۔"

اطاعت والدین واجب ہونے کے مواقع

والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرماتِ الٰہی کے مقابل کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ مثلاً والدین اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہ لقمان کی پندرھویں آیت میں اس کی تصریح فرمائی ہے:

( وَاِنْ جَاهَدَکَ عَلٰى اَنْ یُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِه عِلْمٌ فَلَا تُعِطهُمَا ) ۔

"اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔"

یہ حدیث شریف اس آیت کریمہ کی تائید کرتی ہے:

لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ (بحارالانوار)

"مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔"

ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ وجوب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ اس اسی مخالفت کو عاق کہتے ہیں۔ مثلاً بیٹا غیر واجب سفرپر جانا چاہتا ہو لیکن والدین جانی و مالی ضرر کے اندیشے سے یا اس کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر جدائی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے سفر پر جانے سے منع کریں اور بیٹا منع کرنے کے باوجود سفر پر جائے تو اس صورت میں معصیت کا سفر ہوگا اور حرام ہوگا۔ ایسے سفر میں نماز و روزہ قضا نہیں ہو گا۔

مختصر یہ کہ ہر وہ مخالفت جو والدین کی ناراضگی ، رنجش اور اذیت کا سبب بن جائے، حرام ہے۔مگر یہ کہ ان کی اطاعت اولاد کے لیے ناقابل برداشت ہو یا دینی و دنیوی ضرر کا موجب ہو۔ مثلاً والدین اولاد کو شادی کرنے سے منع کریں، جبکہ شادی کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہو یا عسر و حرج در پیش ہوتا ہو یا یہ کہ والدین بیٹے سے کہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو جبکہ یہ حکم دونوں میاں بیوی کے لیے نقصان کا باعث ہو۔ ایسی صورت میں والدین کی اطاعت واجب نہیں لیکن ایسے امور جن میں والدین مخالفت کے باوجود ناراض نہ ہوتے ہوں اور ان کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی ہو، ایسے موقعوں پر مخالفت کا حرام ہونا یا اطاعت کا واجب ہونا میرے علم میں نہیں ہے۔

بہتر ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ تا حد امکان ان اوامر کو بجا لائیں اور مخالفت سے پرہیز کریں۔ خصوصاً جبکہ والدین اولاد کی مصلحت ملحوظ خاطر رکھ کر امر و نہی کریں اور اس میں ان کی ذاتی غرض نہ ہو۔

والدین کے امرو نہی میں تضاد

جب کبھی والدین کے احکام میں تضاد واقع ہو جائے مثلاً باپ کہے کہ فلاں کام کرو، ماں کہے کہ وہ کام نہ کرو تو ایسی صورت میں کوشش کی جائے کہ دونوں کو راضی رکھا جا سکے اور اگر کوئی دونوں کو راضی نہ کر سکے تو ماں کی خوشنودی کو ترجیح دے۔ چونکہ ابتدائے خلقت میں باپ سے پہلے ماں کے حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ ماں زیادہ تکالیف سہتی ہے خصوصاً ایّامِ حمل، وضعِ حمل اور دودھ پلانے کی زحمات ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ ماں اس لیے بھی زیادہ نیکی کا استحقاق رکھتی ہے کہ عورت پیدائشی طور پر مرد کی نسبت نازک مزاج ہوئی ہے۔ وہ اولاد کی معمولی سی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، بیتاب ہو جاتی ہے مامتا اُسے بے قابو کر دیتی ہے۔

اس کے برعکس باپ کی عقل و ہوش مضبوط اور مزاج سنجیدہ ہوتا ہے وہ اولاد کی تکلیف سے کم متاثر ہوتا ہے۔ باپ احساس کر لیتا ہے کہ بیٹا میری مخالفت ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ ماں کی خاطر داری کی بنا پر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ مخالفت سے ناراض نہیں ہوتا۔

والدین کی اجازت لازم ہے

شر ع مقدس ا سلام میں یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ کچھ امور میں اولاد ماں باپ دونوں سے یا کسی ایک سے اجازت حاصل کرے۔ جیسے وجوبِ کفائی مثلاًجہاد یا مستحبات مثلاً مستحبّی روزہ یا بعض عقود مثلاً عہد، قسم اور نذر بجا لانے میں ان سے اجازت لینا چاہیئے۔

شہیدِ اول نے کتاب قواعد میں حقوق والدین بیان فرماتے ہوئے دن عنوانات ترتیب دیئے ہیں۔اختتام انہیں عناوین پر زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔

اولاد کے سفر کے متعلق قول شہید

۱) مباح اور مستحب سفر والدین کے اذن کے بغیر حرام ہے لیکن تجارت کا سفر جس سے فائدہ حاصل کرنا مقصود ہو یا تحصیلِ علم کے لیے سفر کرنا، جبکہ جس جگہ والدین رہتے ہیں، ممکن نہ ہو ، ایسی صورت میں بعض فقہاء سفر جائز سمجھتے ہیں۔

۲) بعض فقہاء قائل ہیں کہ بیٹے پر ہر جگہ اور ہر حالت میں والدین کی اطاعت واجب ہے اگر چہ اس میں شک و شبہ بھی ہو۔ پس اگر والدین حکم کریں کہ ہمارے ساتھ غذا تناول کرو اور بیٹا غذا میں شبہ کی نظر رکھتا ہو ، پھر بھی واجب ہے کہ اطاعت بجا لائے اور ان کے ساتھ کھانا کھائے۔ کیونکہ والدین کی اطاعت بجا لانا واجب ہے اور شبہات چھوڑنا مستحب ہے۔

۳) جبکہ نماز کا وقت داخل ہو اور والدین کسی کام کی انجام دہی کے لیے حکم دیں تو اطاعتِ والدین کو مقدم سمجھیں چونکہ اوّل وقت میں نماز پڑھنا مستحب ہے اور اطاعتِ والدین واجب ہے۔

(جو سفر ماں باپ کی تکلیف کا باعث ہو، حرام ہے اور انسان کو اس سفر میں نماز پوری پڑھنا پڑے گی اور روزہ بھی رکھنا ہو گا۔ اگر اولاد ماں باپ کے روکنے کے باوجود سفر کرے جبکہ وہ سفر ان پر واجب ہو ۔ البتہ حج واجب کا سفر ہے تو نماز قصر پڑھے۔ دیکھو توضیح المسائل امام خمینی مسئلہ ۱۲۹۲ - ۱۲۹۱ ، الخوئی مسئلہ ۱۳۰۵ - ۱۳۰۴ ) ( مترجم)

نماز جماعت سے منع کرنا

۴) اقرب یہ ہے کہ والدین اپنے فرزند کو نماز ِباجماعت میں شرکت سے منع نہیں کرسکتے۔ مگر جبکہ بیٹے کی جماعت میں شرکت ان کے لیے تکلیف کا باعث بن جائے۔ مثلاً بیٹا نمازِ عشاء یا نمازِ فجر جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد جائے تو والدین کو خوف محسوس ہوتا ہو اپنے جان و مال کا یاپھر خود اولاد کی جان کا۔

۵) اس صورت میں جبکہ جہاد کے لیے سفر کرنا فرزند پر واجب ِ عینی نہ ہو تو والدین اس سفر سے منع کر سکتے ہیں۔

۶) واجباتِ کفائی میں والدین اولاد کو صرف اُسی صورت میں روک سکتے ہیں جبکہ دوسرے افراد کے ذریعے اسے انجام دینے کا گمان یا یقین حاصل ہو جائے۔ اس صورت میں والدین تمام واجباتِ کفائی سے بیٹے یا بیٹی کو روک سکتے ہیں۔

۷) بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اگر مستحبّی نماز میں مشغول ہو اور والدین اس کو بلائیں تو وہ نماز توڑ سکتا ہے۔

۸) باپ کے اذن نہ دینے کی صورت میں مستحبّی روزہ ترک کر دینا چاہیئے۔

۹) قسم اور عہد کے عقود کے بارے میں اگر والدین اجازت نہ دیں تو پھر ترک کر دینا چاہیئے۔

۱۰) اولاد پر واجب ہے کہ والدین کو کسی قسم کی تکلیف نہ دے یا کوئی دوسرا تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے تو اپنے امکان و قوت کے مطابق ان کا دفاع کرنا چاہیئے۔

احترام والدینا

والدین کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے پیش آنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اہل بیت اطہار (علیہم السلام) سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ مثلاً:

۱) والدین کو پکارنے کی صورت میں ان کا نام نہیں لینا چاہیئے بلکہ لقب یا کنیت وغیرہ سے یاد کرنا چاہیئے۔

۲) راستہ چلتے ہوئے والدین سے آگے نہ بڑھیں اور ان سے پہلے نہ بیٹھیں۔

۳) والدین سے قبل دستر خوان پر ہاتھ آگے نہ بڑھائیں۔

حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) اپنی والدہ گرامی کے ساتھ احتراماً کھانا تناول نہیں کرتے تھے۔ آپ (علیہ السلام) فرماتے تھے کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں کسی نوالہ کو والدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہوں اور میں ہاتھ بڑھا دوں۔ اگر میں نے ایسا کیا تو گویا ان کا ادب و احترام نہ کیا۔

۴) کسی مجلس میں والدین سے منہ پھیر کر نہ بیٹھیں۔

۵) دورانِ گفتگو اپنی آواز کو ان کی آواز پر بلند نہ کریں۔

۶) ایسے کام نہ کریں جس سے لوگ والدین کو ملامت کریں اور ان کولعن طعن کرنے کا سبب بنیں۔ یعنی کسی کے والدین کو بُرا بھلا نہ کہیں ، نتیجتاً وہ اس کے والدین کو نازیبا کلمات کہیں گے۔

۷) حضرت سجاد (علیہ السلام) نے راستے میں ایک لڑکے کو دیکھا جو اپنے والد کے ہاتھوں کے سہارے راستہ چل رہا تھا۔چنانچہ آپ (علیہ السلام) اس لڑکے سے ناراض ہوئے اور آخر عمر تک اس سے بات چیت نہ کی۔ (کافی)

واضح رہے کہ والدین کے حق میں نیکی کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے، فقہاء کے درمیان مسلمہ احسان وہ ہے جس سے والدین کی دل آزاری نہ ہوتی ہو۔ مثلاً ان کے مقررہ مصارف معیّن وقت میں ادا نہ کرنا اور مطالبہ پر مجبور کرنے کے بعد دینا،کسی تقریب میں مدعوئین کے ساتھ ان کو بھی باقاعدہ دعوت نہ دینا،کسی سفر سے واپسی پر ان کے لیے دوسروں کے ساتھ تحفہ تحائف نہ دینا۔

اس قسم کے احسانات کا ترک کرنا حرام ہے۔ البتہ ایسے امور جن سے والدین کی ناراضگی نہ ہوتی ہو، ان کی حرمت معلوم نہیں۔

البتہ آداب و احترام کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے، علمائے عظام کے درمیان مسلم آداب و احترام وہی نہیں ہیں جس کے ترک کرنے کی صورت میں والدین کے دل میں رنجش پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً اہانت و تحقیر کی نیت سے والدین سے منہ پھیرنا یا پیٹھ موڑ کر بیٹھنا،ان کی آواز سے اونچی آواز میں گفتگو کرنا، راستہ چلتے ہوئے ان سے آگے نکل جانا، یہ سب حرام ہیں۔

لیکن توہین و تحقیر کے بغیر بعض اوقات احترام و آداب کو ترک کرنا جس سے والدین ناراض نہ ہوتے ہوں، اس قسم کے بے احترامی کی حرمت معلوم نہیں ، پھر بھی اس قسم کے احترامات مستحبات میں شمار کیے گئے ہیں۔

اولاد کے حقوق جو کہ والدین پر واجب ہیں

جس طرح والدین کا ادب و احترام بجا لانا اورا ن کے ساتھ احسان کرنا اولاد پر واجب ہے، اسی طرح والدین کے ذمے بھی اولاد کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔ ان حقوق کی رعایت کرنا ماں باپ پر واجب ہے۔اگر خیال نہ کریں تو گویا صلہ رحم منقطع کیا کیونکہ انسان کے لیے ماں باپ کے بعد قریب ترین ارحام اولاد ہیں جبکہ قطعِ رحم بہت بڑا گناہ ہے، جو کہ بعد میں ذکر ہو گا۔

چنانچہ جیسا کہ اولاد والدین کے حقوق کی مراعات نہ کرنے پر عقوق جیسے گناہ سے دوچار ہوتی ہے، اسی طرح والدین بھی اولاد کے حقوق ادا نہ کرنے پر عاق جیسی مشکلات و مسائل سے رو برو ہوتے ہیں۔

والدین اولاد کو کسی ناقابل برداشت کام کرنے کو مامور نہ کریں۔ بصورت ِ دیگر اولاد اس بارِگراں سے بچنے کے لیے بہانے تلاش کرے گی ، جس کے نتیجے میں وہ عاق ہو سکتی ہے۔

اولاد کے کردار و گفتار پر تادیبی و تعمیری تنقیدکی بجائے اگر ان پر بار بار اعتراض کیے جائیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہیں تو یہ عمل رفتہ رفتہ والدین کے ادب و احترام کے ترک پر منتج ہو گا اور اس سے ایک دوسرے کے درمیان نفرت بھی پیدا ہو سکتی ہے اور آخر میں عاق کی نوبت پہنچ سکتی ہے۔

اسی طرح اولاد کے ساتھ محبت ترک کرنے سے ردعمل کے طور پر اولاد بھی ماں باپ سے پیار و محبت کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس سے دونوں گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ارشاد فرمایا:

یَلْزِمُ الْوَالِدَیْنَ مِنَ الْعُقُوْقِ مَایَلْزِمُ الْوَالَدُ مِنْ عُقُوْقِهِمَا

"والدین کا عاق ہونا لازم آتا ہے جس طرح اولاد والدین کے حقوق ادا نہ کرنے پر عقوق میں مبتلا ہوتی ہے۔

بنا بر ایں والدین کا فریضہ ہے کہ اپنی اولاد کو ادب و احترام سے تعلیم و ترغیب دیں اور ان کی تربیت کے وسائل فراہم کریں۔ نیز ان کو شفقت و مہربانی سے قابو میں رکھیں اور عاق ہونے کے اسباب سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔

مثلاً معمولی خطا و لغزش سے تجاہل عارفانہ کے طور پر چشم پوشی کیا کریں۔ ان کے ناچیز احسان اور معمولی اطاعت کو قبول کر کے شکریہ ادا کریں۔ ان کے سامنے نیک خواہشات کا اظہار کرنے ہوئے دعائیں دیں۔

علماء عظام نے فقہی کتابوں میں ماں باپ پر اولاد کے حقوق کے بارے میں تفصیل سے مسائل بیان کیے ہیں۔ ان کا خلاصہ اس طرح یہاں ذکر کریں گے کہ ہم اپنے موضوع سے ہٹ نہ سکیں۔

نفقہ باپ پر واجب ہے

اولاد کی پیدائش سے لے کے رُشد(عقل و ہوش سنبھالنے اور نفع نقصان کی تمیز کرنے) تک نیز برسرِ روزگار ہونے سے خودکفیل ہونے تک خوراک و لباس اور رہائش وغیرہ کا انتظام باپ پر واجب ہے۔

اولاد کے بھی شوہر کے گھر پہنچنے یا خود کفیل ہونے تک اخراجات باپ کے ذمے ہیں۔

اولاد کی شادی کے لیے کوشش کرنا

والد پر عائد ہونے والے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ جب لڑکا بالغ و رشید ہو جائے تو اس کی شادی کی کوشش کی جائے۔ اگر لڑکی ہو تو اسے شوہر کے گھر پہنچائے۔ والدین لڑکی کو خاوند اختیار کرنے سے روک نہیں سکتے۔ چنانچہ قرآن مجید میں واضح ارشاد ہوتا ہے:

( فَلَا تَعْضُلُوْ هُنَّ اَنْ تَنکحِنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَّرَاضَوبِیْنَهُمْ بِالْمَعْرْوُفِ )

(سورہ ۲ ۔ آیت ۲۳۲)

"انہیں اپنے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو، جب آپس میں دونوں میاں بیوی شریعت کے مطابق اچھی طرح مل جل جائیں۔"

د ینی تعلیم و تربیت

حقوق اولاد میں سے ایک اہم ترین حق ان کی تعلیم و تربیت ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد کو ہر ممکن طریقے سے اصول و فروع دین سے آگاہ کریں۔ خصوصاً تلاوت قرآن و حفظ قرآن کی ترغیب دیں۔ آداب و اخلاق شرعی سکھانے میں غفلت نہ کریں۔ اگرچہ سختی بھی کرنا پڑے۔ البتہ اس سختی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو کہ "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کے باب میں بیان ہوں گے۔

اولاد سے محبت کرنے کے بارے میں بہت سی روایتیں موجود ہیں۔ یہاں ان میں سے چند ایک تبرکاً تحریر کی جاتی ہیں۔

اولاد سے پیار و محبت کرنا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے کہ اپنی اولاد سے محبت کیا کرو، ان پر رحم کیا کرو، جب ان سے کوئی وعدہ کرو تو اسے ضرور پورا کرو۔ چونکہ اولاد کی نظرِ امید صرف ماں باپ پر ہوتی ہے۔

وعدہ وفا نہ ہونے کی صورت میں بد دلی پیدا ہو جاتی ہے۔ آخر کار توقعات کے رشتے منقطع ہو جاتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اتنا کسی چیز سے غضب ناک نہیں ہوتا جتنا عورتوں اور بچوں کی دل شکنی سے ہوتا ہے۔

شفقت سے بچوں کو چومنا

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے جس نے اپنے بچے کو پیار کیا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک حسنہ درج ہوتا ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ بچوں کے ہر ایک بوسے پر بہشت کا ایک درجہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ بھی فرمایا کہ جب باپ اولاد کے چہرے پر شفقت و محبت سے نگاہ ڈالتا ہے اور خوش حال ہوتا ہے تو ایک بندہ راہ خدا میں آزاد کرنے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔

والدین کے بعد اولاد کے حق میں نیکی کرنا

حضور سرور کائنات (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرمان ہے کہ بچے کی ماں کا بھی احترام کرو۔ اس کے ساتھ برائی نہ کرو کیونکہ اولاد کے دل میں ماں کی خصوصی محبت ہوتی ہے۔ ماں کے ناراض ہونے سے بچوں کا دل دکھتا ہے اور وہ پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔

یہ روایت بھی منقول ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا: کس کے حق میں نیکی کرنا لازم ہے؟ فرمایا: ماں باپ کے حق میں۔ عرض کیا : دونوں اس دنیا سے رحلت کر گئے ہوں تو ؟ فرمایا: اولاد کے حق میں۔

لڑکی نیکی کی زیاد ہ سزاوار ہے

اولاد کے حق میں والدین کی جانب سے لڑکی کے ساتھ نیکی کرنے کی زیادہ تاکید ہے۔ مستحب ہے کہ باپ جو تحفہ گھر میں لائے اسے لڑکے سے پہلے لڑکی کو دے۔ خصوصاً جس لڑکی کا نام فاطمہ ہو۔ نیز اولاد کو لعن طعن اور بد دعا کرنے کی ممانعت کی گئی ہے اگر چہ بیٹا بیٹی والدین کی مخالفت ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔ والدین کی لعن طعن اولاد کی پریشانی اور فقیری کا باعث بنتی ہے۔

روحا نی باپ نیکی کا زیاد ہ مستحق ہوتا ہے

اس سے قبل عقوق والدین کی حرمت اور ان کے حق میں نیکی کرنے کے جو احکام بیان ہوئے تھے وہ عام والدین کے لیے تھے، جن سے اولاد پیدا ہوتی ہے ۔ جسمانی تربیت اور نشو و نما ان کے وجود کے سبب ہوئی لیکن روحانی باپ یعنی انسانوں کو ان کی غرض خلقت بتانے اور سعادت حقیقی سے ہمکنار کرنے والی ہستیاں حضرات محمد و آل محمد (علیہم السلام) ہیں۔ ہم سب روحانی اعتبار سے ان سے وابستہ ہیں اور ہر حال میں ان کے پیروکار۔ ان سے وابستگی ہی سے ہم جملہ آفات سے محفوظ اور نیکیوں سے مالا مال ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اَنَا وَعَلَیٌ اَبَوَاهٰذِهِ الْاُمَّةِ

"میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ہیں۔"

روحانی باپ کی شرافت و اہمیت جسمانی باپ کی نسبت اس قدر زیادہ ہے جیسا کہ بدن خاکی کی نسبت روح کو حاصل ہے۔

اسی طرح تمام والدین کے عقوق کے بارے میں جتنے عقاب کا وعدہ ہے، روحانی باپ کے عاق کی سزا اس سے ہزاروں گنا زیادہ سخت ہے۔

ثوا ب زیاد ہ عذاب سخت

ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے پر جتنے ثواب کا وعدہ فرمایا اس سے ہزاروں درجے زیادہ روحانی باپ کے ساتھ احسان کرنے کا ثواب ہے۔ اور اسی طرح عاق کرنے کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔ مثلاً بہشت اس کے لیے حرام ہونا، کسی عمل کا قبول نہ کرنا اگرچہ روزانہ رات بھر عبادت کرے، صبح کو روزہ رکھے۔

اس قسم کا عذاب اہل بیتِ اطہار (علیہم السلام) کی ولایت ترک کرنے پر بھی ہے۔ چونکہ آل محمد (علیہم السلام) حقیقی روحانی باپ ہیں۔

جتنی بھی آیات و روایات عاق والدین کے سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں، انہیں والدین سے مخصوص کردینا غلط ہو گا۔ کیونکہ تمام آیاتِ قرآنی و روایات اس سلسلے میں عمومی ہیں۔ عقوق والدین سے مراد والد جسمانی و والد روحانی، دونوں شامل ہیں۔ اس بات کی دلیل کے لیے قرینہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی اطاعت، ان کی شکر گزاری کو اپنی اطاعت اور شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ذکر فرمایا ہے:

( اَن اشْکُرْ لِیْ وَلوَالِدَیْکَ لَا تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً O )

حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) و حضرت علی کی سپاس گزاری

آیہ شریفہ( اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ) کے متعلق بہت سی روایتیں موجود ہیں۔فرماتے ہیں کہ یہاں "والدیک" سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔ یہاں والدین مقصود نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک ذات کے بعد افرادِ والدین میں سے بہترین ، شریف ترین اور کامل ترین والدین کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ اصول کافی میں صلہ رحم کے باب میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے دو روایتیں نقل کی گئی ہیں۔

پہلی حدیث عمرو بن یزید کا امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سورہ رعد کی اکیسویں آیت کا ترجمہ دریافت کرنا ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے:

( یَصِلُوْنَ مَا اَمَر اللّٰهُ بِهِ اَن یوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوءَ الْحِسَابَ )

"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں تعلقات قائم رکھنے کا حکم خدا نے دیا ہے۔ اُسے قائم رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور قیامت کے دن سخت حساب سے ڈرتے ہیں۔"

دوسری حدیث اسی آیہ مبارکہ کی تفسیر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت محمد و آل محمد کے صلہ رحم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اوراس میں مومنین کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: تجھے ایسا شخص نہیں ہونا چاہیئے کہ جو مذکورہ آیت کو فردِ واحد کے لیے مخصوص جانے بلکہ جب بھی سنیں کہ فلاں آیت فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کی مانند دوسرے افراد کے درمیان عمومیت قرار دینا چاہیئے۔

روحا نی والد ین کے عقوق

روحانی والدین کے عقوق سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے جن امور کو بجا لانے کا حکم دیا ہے، ان کو ترک کرنا، پیروی و اطاعت کی حدود سے نکل جانا، باہمی معنوی اتصال اور حقیقی روابط کو منقطع کرنا ہے۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ برُا نہیں لگے گا کہ ماں باپ ناراضگیوں کی بنا پر کہیں کہ یہ میری اولاد نہیں ہے۔ حاضرین نے کہا، ضرور، ہمیں بُرا لگے گا۔

آپ نے فرمایا کہ روحانی ماں باپ تمہارے والدین سے افضل ہیں ، لہٰذا اُنہیں اس بات کا موقع نہ دو بلکہ اُن کے فرزند ہونے کا شرف حاصل کرو۔