بسم الله الرحمٰن الرحیم
الحمد لله رب العالمین والصلواة والسلام علی سیدالانبیآء والمرسلین واله الطاهرین
انسانی رفعت
(
لَقَدْ خَلَقْناَ الْاِنْساَنَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم
)
(سورہ تین ۴)
یہ قرآنی آیت انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے چونکہ دنیا نے انسان کے صحیح مقام کو نہ سمجھا، اس لئے اس کے کردار کا بھی صحیح تعین نہ ہو سکا اور نقطہ نگاہ میں بلندی پیدا نہ ہو سکی۔
ظاہر ہے کہ ہمیشہ مقصد ذریعہ سے اونچا ہوتا ہے جو شئے پست ہو گی اس کا مصرف اسی نسبت سے پست ہو گا اور جو چیز بلند ہو گی اس کا مقصد اسی لحاظ سے بلند تر ہو گا
اگر انسان اپنے درجہ و مقام کو سمجہ لے تو اپنے مقصدِ ہستی اور مصرفِ زندگی کی بلندی کا احساس ہو جائے گا اور یھی اس کی بلندکرداری کی ضمانت ہو گی۔ پھر اسی ایک چیز کے سمجہ لینے سے اس کی حقیقی ترقی اور تنزلی کا سمجھنا بھی آسان ہو جائے گا اس لئے کہ ہر شے کی ترقی اس خصوصیت امتیازی کے ارتقاء کے ساتھ ہے جو اس شے کا جوھر خصوصی ہے۔
انسان اگر تمام دوسری کائنات سے الگ کوئی شے ہوتا تو اس کا سمجھنا آسان ہوتا مگر یہ تو باقی کائنات کے ساتھ بھت سی مشترک حیثیتوں میں متحد ہے یہ جسم رکھتا ہے اس اعتبار سے پتھروں کے ساتھ حصہ دار ہے۔ نشوونما رکھتا ہے اس لحاظ سے درختوں کے ساتھ ہم مرتبہ ہے۔ احساس و حرکت ارادی رکھتا ہے اس حیثیت سے حیوانوں میں شامل ہے اور پھر کوئی خاص جوھر رکھتا ہے جس کی بدولت یہ انسان ہے اور ان سب سے ممتاز ہے۔
انسان کو اگر ان پھلوؤں کے لحاظ سے دیکھا جائے جو دوسروں کے ساتھ مشترک ہیں تو اسے اشرف المخلوقات سمجھنا ہی غلط معلوم ہو گا اس لئے کہ ان تمام چیزوں میں وہ دوسروں سے کم نظر آئے گا۔ بلند محسوس بھی نہ ہو گا۔ جسمیت میں وہ پھاڑوں کے برابر نھیں ہے۔ نشوونما میں درختوں کے مثل نھیں۔ قوت سامعھ، باصرہ یا شامہ اکثر حیوانات کی انسان سے بھت زیادہ طاقتور ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا برتر ہونا ان مشترک جھات کے لحاظ سے نھیں ہے بلکہ اس کی بلندی اس مخصوص جوھر کے لحاظ سے ہے جو اس میں ہے اور کسی دوسرے میں نھیں ہے وہ کیا چیز ہوسکتی ہے؟ علم اور عمل۔
انسانی علم و عمل کی خصوصیت:
علم کے معنی اگر بس جاننے کے ہیں اور یھی اس دور میں معیار علم سمجھا جاتا ہے دنیا کے ممالک کی وسعتیں اور مردم شماریاں جان لیں۔ پھاڑوں کی اونچائیاں اور دریاؤں کی گھرائیاں جان لیں۔ سیاروں کے فاصلے زمین سے اور ان کی پیمائش معلوم کر لیں نباتات کے خواص او رپتھروں کی کیفیات معلوم کر لیں۔
اگر یھی علم بمعنی ”دانستن“ انسان کا خاص جوھر ہے تو کون کھتا ہے کہ حیوان علم سے بے بھرہ ہے۔ حیوان بھی بھت کچھ جانتا ہے اپنے رھنے کی جگہ کو جانتا ہے اپنے کھانے کی غذا کو جانتا ہے۔ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ہے۔ اپنے حفظان صحت کے اصول جانتا ہے۔ اسی لئے جنگل میں کوئی جانور بیمار نھیں پڑتا۔ بے شک انسانوں کے غیرطبعی ماحول میں آ کر وہ بیمار پڑنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر عمل کے معنی بس کچھ نہ کچھ کام کرنے کے ہیں تو حیوان بھی عمل سے خالی نھیں ہے۔ وہ بقدر امکان اپنی غذا کے حصول کے ذرائع مھیا کرتا ہے جو ا س کے مقصد میں سدراہ ہو اسے دفع کرتا ہے اور اپنے حریف سے بقدر امکان مقابلہ کرتا ہے۔
پھر آخر وہ علم اور عمل جو انسان سے مخصوص ہے کیا ہے۔؟
ھم جھاں تک سمجھ سکے ہیں علم کے شعبہ میں انسان کا امتیاز خصوصی دو باتوں سے ہے۔ ایک یہ کہ حیوان کا علم محسوسات کے دائرہ میں اسیر ہے پھلے جو میں نے کھا کہ وہ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ہے یہ پورے طور پر درست نھیں ہے حقیقت میں وہ پھچانتا ہے جس کے ہاتہ سے غذا پاتا ہے جو اصل غذا کا دینے والا ہے اگر اس کے سامنے نھیں آتا اور انپے ہاتہ سے غذا نھیں دیتا تو وہ اسے نھیں پھچانے گا۔ اب اگر انسان کا علم بھی ایسا ہو کہ جس رئیس سے ملا اسی کو ولی نعمت جان لیا۔ جس نے تنخواہ دی اسی کو خدا سمجھ لیا تو پھر حیوان اور انسان میں کوئی فرق نھیں۔
انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالم احساس و مشاھدہ کے ماوراء اپنی عقل کی مدد سے کچھ حقیقتوں کا پتا لگاتا اور ان کا تیقن کرتا ہے اور وھی ایمان بالغیب کا سرچشمہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حیوانی علم محدود ہے یعنی جتنا اسے واھب العطا یا کی طرف سے مل گیا بس اتنا ہی ہے۔ شھد کی مکھی بس مسدس خانے بنانا جانتی ہے اور وہ بھترین بناتی ہے کوئی مھندس بغیر پرکار کی مدد کے اتنے متوازن خانے نھیں بناتا لیکن جو شکل اس کی فطرت میں داخل ہے بس وھی بنا سکتی ہے۔ مربع و مثلث وغیرہ نھیں بنا سکتی اسی طرح تارِ عنکبوت بے نظیر صنعت ہے مگر اس کی شکل بدلنا اس کے امکان میں نھیں ہے لیکن انسانی علم؟ اس کا کام ہے معلومات سے مجھولات کا پتا لگانا۔ یہ اپنے علم میں برابر ترقی کرتا رھتا ہے۔
(اس کا بیان رسائل ”اسلام کی حکیمانہ زندگی“ اور ”زندگی کا حکیمانہ تصور“ میں تفصیل کے ساتھ ہوا ہے)
عمل کی منزل میں انسان کی خاص صفت یہ ہے کہ حیوان کے افعال بتقاضائے طبیعت ہوتے ہیں۔ اس سے بحث نھیں کہ بامحل ہیں یا بے محل۔ مگر انسان میں سوجہ بوجھ۔ حق اور ناحق کا امتیاز اور صحیح و غلط میں امتیاز کی قوت ہے اور اسی اعتبار سے مختلف افراد کی انسانیت کے مدارج قائم ہوتے ہیں۔
اکثر افراد ایسے ہیں جن کی صورت انسان کی ہے مگر کردار حیوانی ہے وہ یہ ہیں۔ جن کے افعال طبیعت کے تقاضے سے ہوتے ہیں۔ ایک شخص کی طبیعت میں غیرمعمولی غصہ ہے وہ بارود کا خزانہ ہے ذرا سی بات پر مشتعل ہو جاتا ہے۔ اس سے اس جوش غضب کے ماتحت کبھی ایسے افعال بھی ممکن ہے وقوع میں آ جائیں جو نتائج کے اعتبار سے ممدوح و مستحسن ہوں جیسے مظلوم کی حمایت میں اسے غصہ آ جائے اور یہ بڑہ کر ظالم کو دفعہ کر دے مگر چونکہ اس کا غیض و غضب بتقاضائے طبیعت ہے اس لئے دوسرے وقت اس شخص سے خود کسی بے گناہ پر ظلم ہو گا اور یہ اپنے غصہ کی وجہ سے ایسے اقدامات کر ڈالے گا جو عقلاً و شرعاً کسی صورت سے بھی ممدوح و مستحسن نھیں ہو سکتے۔ اسی طرح ایک آدمی ہے گیلی مٹی کا بنا ہوا جسے کبھی غصہ ہی نھیں آتا۔ یہ بعض اوقات ایسے محل پر سکوت کرے گا جھاں کوئی اقدام بڑے فتنہ و فساد اوربرے نتائج کا باعث ہو اس وقت سب اس کی تعریف کریں گے کہ کیا کھنا۔ اس نے اپنے حلم وتحمل سے کتنے بڑے فساد کو روک لیا۔ لیکن چونکہ یہ سکوت و سکون کسی احساس فرض کا نتیجہ نھیں بلکہ طبیعت کا تقاضا ہے۔ اس لئے یھی شخص ایسے مواقع پر بھی سکوت کر جائے گا جھاں خاموشی ظلم و تشدد کی ہمت افزائی کا سبب ہے یہ انسانی کردار نھیں ہے۔
انسانی کردار کی بلندی
انسان کی بلندی عقل و تدبر کے استعمال اور فرض شناسی میں ہے اس صفت کے کمال اور نقص سے اس کی بلندی اور پستی کے حدود متعین ہوتے ہیں یھی وہ تقویٰ ہے جسے قرآن نے معیارِ فضلیت بشری قرار دیا ہے۔ ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم (یعنی) ”تم میں زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرھیزگار ہو۔ “
فرائض ہمیشہ ایک ہی شکل و صورت پر نھیں ہوتے کوئی بڑے سے بڑا حکیم و دانشمند فرائض کی کوئی ایسی فھرست نھیں مرتب کرسکتا جو ہر شخص کے لئے ہر حال میں قابل ادائی ہو۔ سچ بولنے ہی کو لیجئے۔ یہ بے شک انسانی فرض ہے مگر کیا ہر موقع پر؟ مثال کے طور پر کوئی ظالم شمشیر بکف کسی مظلوم کے تعاقب میں ہو، وہ اس کی نظر بچا کر ہماری آنکھوں کے سامنے کھیں مخفی ہو جائے۔ اب وہ ظالم ہم سے پوچھے کہ کیا تم نے دیکھا ہے وہ کس طرف گیا ہے؟ اب کیا ہمیں سچ بولنا چاھئے؟ یقیناً اگر ہم نے سچ سچ کھہ دیا تو ظالم کی تلوار ہو گی اور مظلوم کا گلا ہو گا، اور اس خونِ ناحق کی ذمہ داری ہمارے سچ پر ہو گی۔
متعدد گناھان کبیرہ ہیں جو سچ سچ کھنے ہی سے وقوع میں آتے ہیں مثلاً نمامی یعنی لگائی بجھائی کرنا۔ چغلی کھانا۔ یہ سچ ہی ہوتا ہے جھوٹ نھیں ہوتا مگر وہ بھت بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح غیبت گناہ کبیرہ ہے۔ وہ بھی سچ ہی کھنے سے ہوتی ہے معلوم ہوا کہ ہر صورت میں سچ کھنا فریضہ انسانی نھیں ہے۔
اسی طرح امانت واپس کرنا۔ ضرور انسانی فریضہ ہے مگر اسی صورت میں کہ جب کوئی ظالم مظلوم کے قتل کا ارادہ رکھتا ہو اگر اس نے اپنی تلوار اتفاق سے ہمارے پاس بطور امانت رکھوائی ہو۔ اب اس وقت وہ اپنی تلوار ہم سے مانگے تو ہرگز ہم کو نہ دینا چاھئے ورنہ ہم شریکِ قتل ہوں گے۔
مذھبی حیثیت سے عبادات میں سب سے اھم نماز ہے لیکن اگر کوئی ڈوبتا رھا ہو او راس کا بچانا نماز توڑنے پر موقوف ہو تو نماز کاتوڑ دینا واجب ہو گا۔ اگر وہ ڈوب گیا اور نماز پڑھتے رہے تو یہ نماز بارگاہ الٰھی سے مسترد ہو جائے گی۔ کہ میرا بندہ ڈوب گیا اور تم نماز پڑھتے رہے مجھے ایسی نماز نھیں چاھئے۔ معلوم ہوا کہ فرائض اور عبادات باعتبارحالات و واقعات بدلتے رھتے ہیں۔ فرائض کی یھی نگھداشت جوھرِ انسانیت ہے۔
انسانِ کامل کی شان:
فرض شناس انسان کے افعال بتقاضائے طبیعت نھیں ہوتے بلکہ بتقاضائے فرض ہوتے ہیں اس کا عمل انتھاء پسندی کے دو نقطوں کے درمیان ہوتا ہے اسی کا نام عدل و اعتدال ہے، جو معیار حسنِ اخلاق ہے اور چونکہ عام افراد بشر عموماً طبیعتوں کے تقاضوں میں اسیر ہوتے ہیں اور افراط و تفریط میں مبتلاء اس لئے بلند افراد انسان کے خلاف عموماً دو طرف سے اعتراضات ہوتے ہیں۔ ایک ادھر والے انتھاپسندوں کی طرف سے اور دوسرے ادھر والے انتھاپسندوں کی جانب سے مگر وہ کبھی ان اعتراض کی پروا نھیں کرتے انھیں تو فرائض کے ادا کرنے سے مطلب ہوتا ہے۔
انسان کامل کے اعمال سطحی نگاہ رکھنے والوں کو بسااوقات متضاد نظر آتے ہیں مگر ان میں حقیقتاً کوئی تضاد نھیں ہوتا۔ بلکہ وہ مختلف حالات کے جداگانہ تقاضے ہوتے ہیں جو اس کے افعال میں ظاہر ہوتے ہیں۔
اس کے لئے ہمارے سامنے چودہ سیرتیں موجود ہیں جن میں سب سے مقدم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی (ص)کی سیرتِ پاک ہے۔