حسنِ مجتبیٰ ع
امام حسنع کی ولادت ۲ یا ۳ ہجری میں ہوئی۔ رسول کی وفات کے وقت ساتواں یا آٹھواں برس تھا اور ان کی یہ عمر پوری پیغمبر خدا کے غزوات کی عمر ہے۔ ۲ ہ میں جنگ بدر ہوئی اور اس کے بعد ان کی عمر کے ساتھ غزوات کی فھرست آگے بڑھی۔ جس طرح علی کی پرورش پیغمبر کی گود میں تبلغ اسلام کے ساتھ ہوئی ویسے ہی حسن مجتبیٰ کی پرورش رسول کی گود میں رسول کے غزوات اور اپنے والد (حضرت علیع مرتضیٰ) کے فتوحات کے ساتھ۔ ہوئی ان کے بچپن کی کھانیاں اور سوتے وقت کی لوریاں گویا یھی تھیں کہ علیع کسی جھاد سے واپس آئے ہیں۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) سے تذکرہ ہو رھا ہے خندق میں یہ ہوا۔ یہ تذکرے کانوں میں پڑ رہے ہیں اور آنکھیں جو دیکہ رھی ہیں وہ یہ کہ دشمنوں کے خون میں بھری ہوئی تلوار ہے اور سیدہ عالم اسے صاف کر رھی ہیں۔ پیغمبر کے ارشادات بھی گوش زد ہو رہے ہیں کبھی معلوم ہوا کہ آج نانا نے والد بزرگوار کے لئے کھا:
ضرْبةُ علٍیّ یَوْمَ الْخَنْدقٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَقَلین
۔ کبھی سنا فرمایا:لَاُعْطَیّن رَایةً غدًا رَجُلاً غَیر فّرارٍ یُحِبُّ اللّٰه وَرَسُوْلَه‘
کبھی ملک کی صدا گوش زد ہوئی:لَا فَتٰی اِلَّا علّی لَا سَیف الّا ذوالفقار
۔ ان تذکروں کے علاوہ بس ہے تو عبادت اور سخاوت کی مثالوں کا مشاھدھ۔ یہ ہے سات آٹہ برس کا حسنع کا رسول کی زندگی میں دور حیات۔
سات آٹہ برس کی عمر کے بچے چاھے معاملات میں عملی حصہ نہ لیں اور ادب و حفظِ مراتب کی بنا پر بزرگوں کے سامنے گفتگو میں بھی شرکت نہ کریں مگر وہ احساسات و تاثرات، جذبات اور قلبی واردات میں بالکل بزرگوں کے ساتھ شریک رھتے ہیں اور ان کے دلوں کے اندر ولولوں کا طوفان بھی اٹھتا ہے۔ اور منصوبوں کی عمارتیں بھی کھڑی ہوتی ہیں اور اس وقت کے تاثرات و تصورات کے نقوش اتنے گھرے ہوتے ہیں کہ وہ مٹا نھیں کرتے۔
یقیناً یہ اتنا زندگی کا دور امام حسنع کے دل و دماغ میں عام انسانی فطرت کے لحاظ سے ولولہ و ہمت کی لھروں میں تموج ہی پیدا کرنے والا تھا سکون پیدا کرنے والا نھیں مگر اس سات آٹہ سال کے بعد ایک دم ورق الٹتا ہے۔ اب یہ منظر سامنے ہے کہ باپ گوشہ نشیں ہیں۔ اور ماں گریہ کناں۔ وہ تمام ناگوار حالات سامنے ہیں جن کا اظہار کسی کے لئے پسندیدہ ہے یا ناپسند۔ بھرحال تاریخ کے اندر وہ موجود اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔ یقیناً اگر حضرت علی بن ابی طالبع کا دس برس کی عمر کے بعد ۱۳ برس رسول کے ساتھ رہ کر مکہ کی خاموش زندگی میں خاموشی کے راستے پر قائم رہنا ایک جھادِ نفس تھا تو حسن مجتبیٰ کا بھی ۸ برس کی عمر کے بعد پچیس سال باپ کے صبر و استقلال کے ساتھ ہم آھنگ رہنا ان کا ایک عظیم جھاد تھا۔ وہاں علیع کے سامنے ان کے مربی رسول کے جسم پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور وہ خاموش تھے اور یھاں حسنع کے سامنے ان کے باپ علی بن ابی طالبع کے گلے میں رسی باندھی جاتی ہے اور مادر گرامی کے دروازے پر آگ لگانے کے لئے لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں اور انھیں ہر طرح کی ایذائیں پھنچائی جاتی ہیں اور حسن مجتبیٰ(ع)خاموش ہیں۔ اسی خاموشی میں آٹہ برس سے اٹھارہ برس اور اٹھارہ برس سے اٹھائیس برس بلکہ سات آٹہ برس کی عمر کے بعد ۲۵ سال میں ۳۳ برس کے ہوئے مگر وہ جس طرح ساتھ آٹہ برس کے بچپن کے دور میں حضرت علی بن ابی طالبع کے ساتھ ایک کم عمر بچہ کی طرح تھے بالکل اسی شان سے اٹھارہ اور اٹھائیس اور تیس بتیس برس کی عمر کے جوان ہو کر بھی ہیں۔ مسلک ہے تو باپ کا طریقہ کار ہے تو باپ کا۔ نہ ان کے بچپن میں کوئی نادانی کا قدم اٹھتا ہے نہ جوانی میں کوئی جوش کا قدم اٹھتا ہے پھر حضرت علیع نے خاموشی کے ماحول میں آنکہ ہی کھولی تھی اور امام حسنع تو آٹہ برس کی عمر اس جنگ کے ماحول میں گزار چکے تھے جس سے شجاعانہ اقدامات کو طبیعت میں رچ بس جانا چاھئے اس کے بعد ۲۵ سال اس طرح گزار رہے ہیں۔ اتنی طولانی مدت کے اندر کبھی جوش میں نہ آنا۔ اپنے ہم عمروں سے کبھی تصادم نہ ہونا کسی دفعہ بھی ایسی کوئی بات نہ ہونا جو مصلحتِ علیع کے خلاف ہو۔ یہ ان کی زندگی کا کارنامہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کی دھندلی نگاہ حرکت کو دیکھتی ہے سکون کو نھیں۔ آندھیوں کو دیکھتی ہے سناٹے کو نھیں۔ شورش طوفان دیکھتی ہے سمندر کے سکون پر نظر نھیں ڈالتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس دور کے فتوحات جو اکثریتی طاقت نے کئے جزو تاریخ بن گئے اور اسلام کی جو خدمت خاموش رہ کر کی گئی اور اس کے جو نتائج ہوئے وہ تاریخ میں کھیں نظر نہ آئیں گے بھرحال اب یہ ۲۵ سال گزرے اور وہ وقت آیا جب حضرت علی بن ابی طالبع برسراقتدار ہیں اس کے بعد جمل صفین اور نھروان کے معرکے ہیں اور حضرت امام حسنع ان میں اپنے والد بزرگوار حیدرِ کرارع کے ساتھ ساتھ ہیں۔
حسن کے ہاتہ میں جمل کی لڑائی میں تلوار اسی طرح پھلی بار ہے جس طرح بدر میں علیع کے ہاتہ میں پھلی بار۔ مگر جیسے انھوں نے پھلی ہی لڑائی میں شجاعان آزمودہ کار پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ویسے ہی جمل میں جو کارنامہ دوسروں سے نھیں ہوتا وہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنی تلوار سے کرکے دکھا دیتے ہیں۔
اسی طرح صفین میں ایسا معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت امیرع اپنے فرزند محمد حنیفھع کے لئے اسے مثال قرار دیتے ہیں او جیسا کہ دینوی نے ’الاخبارالطوال“ میں لکھا ہے ایک ایسے موقع پر جب لشکر امیرالمومنینع کے ایک بڑے حصہ نے شکست کھائی تھی، یہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح تھے کہ انھیں تیروں سے بچا رہے تھے اور خود اپنے کو تیروں کے سامنے پیش کئے دیتے تھے۔
مخالف حکومت کا پروپیگنڈا بھی کیا چیز ہے؟ اس نے حکایتیں تصنیف کی ہیں کہ حسن مجتبیٰ(ع)تو طبعاً صلح پسند تھے۔ مگر ان کی بے جگری کے ساتھ ان نبردآزمائیوں میں عملی شرکت ان تصورات کو غلط ثابت کر دیتی ہے۔
جنگ جمل میں کوفہ والوں کو ابو موسیٰ اشعری نے جو وہاں حاکم تھے نصرت امیرالمومنینع سے روک دیا تھا۔ یہ حسن مجتبیٰ ہی تھے جنھوں نے جا کر تقریر کی اور پورے کوفہ کو جناب امیرع کی نصرت کے لئے آمادہ کر دیا۔
ھاں جب صفین میں نیزوں پر قرآن اٹھائے گئے اور امیرالمومنینع نے حالات سے مجبور ہو کر معاھدہ تحکیم پر دستخط کئے تو جوان سال بیٹے حسنع و حسینع دونوں باپ کے ساتھ اس معاھدہ میں بھی شریک تھے بالکل جس طرح حضرت امیر پیغمبر خدا کے ساتھ ساتھ تھے جنگ اور صلح دونوں میں۔ اسی طرح حسنع و حسینع اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ہر منزل میں شریک نظر آتے ہیں۔
جب ۲۱ ماہ رمضان ۴۰ ہ کو جناب امیرع کی وفات ہو گئی اور حضرت امام حسنع خلیفہ تسلیم کئے گئے تو آپ نے خود بھی حاکم شام کے خلاف فوج کشی کی۔ اور فوجوں کو لے کر روانہ بھی ہوئے اور اس طرح بھی ثابت کر دیا کہ راستہ آپ کا وھی ہے جو آپ کے والد بزرگوار کا راستہ تھا۔
اب اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اھل کوفہ کی اکثریت جنگِ نھروان کے بعد سے جناب امیرع کے ساتھ ہی سردمھری برتنے لگی تھی اور جنگ سے عاجز آچکی تھی جس پر خود حضرت علی بن ابی طالبع کے اقوال جو نھج البلاغہ میں مذکور ہیں، گواہ ہیں اس کا علم حاکم شام کو بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے ہو گیا تھا چنانچہ حضرت امیرع کے بعد انھوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے بھت سے روسائے کوفہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ عراق پر حملہ کیجئے اور ہم یھاں ایسی تدبیر کریں گے کہ حضرت امام حسنع کو قید کرکے آپ کے سپرد کر دیں۔
معاویہ نے یہ خطوط بعینہ حضرت امام حسن(ع)کے پاس بھیج دیئے۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسنع کوئی ایسی صلح کبھی نہ کریں گے جس میں ان کے نقطہ نظر سے حق کا تحفظ نہ ہو۔ اس لئے انھوں نے اس کے ساتھ ایک سادہ کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ چاھیں اس پر لکہ دیں میں انھیں منظور کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ان حالات میں جب کہ اپنوں کا حال وہ تھا اور مخالف یہ رویہ اختیار کر رھا تھا جنگ پر قائم رہنا ایک بلاوجہ کی ضد ہوتی جو آلِ رسول کی شان کے خلاف تھی۔
حضرت پیغمبر خدا نے تو حدیبیہ میں امن وامان کی خاطر مشرکین کے پیش کردہ شرائط پر صلح کی جسے سطحی نگاہ والے مسلمان سنجھ رہے تھے کہ یہ دب کر صلح ہے اور امام حسن نے جو صلح کی وہ ان شرائط پر جو خود آپ نے پیش کئے تھے اور جنھیں فریق مخالف سے منظور کرایا۔
ذرا اس صلح نامہ کے شرائط میں نظر ڈالئے۔ اس کی مکمل عبارت علامہ ابن حجر مکی نے صوائق محرقہ میں درج کی ہے۔
اس میں شرط اول یہ ہے کہ حاکم شام کتاب و سنت پر عمل کریں گے اس شرط کو منظورکراکے حضرت امام حسن(ع)نے وہ اصولی فتح حاصل کی ہے جو جنگ سے حاصل ہونا ممکن نہ تھی۔
ظاہر ہے کہ صلح نامہ کے شرائط میں بنیادی طور پر ایسی ہی چیز درج ہوتی ہے جو بنائے مخاصمت ہو۔ حضرت امام حسنع نے یہ شرط لگا کر ثابت کر دیا کہ ہماری بنائے مخاصمت معاویہ سے کوئی ذاتی یا خاندانی نھیں ہے بلکہ وہ صرف یہ ہے کہ ہم کتاب اور سنت رسول پر عمل کے طلب گار ہیں اور یہ اس سے اب تک منحرف رہے ہیں۔ پھر صلح نامہ کی دستاویز تو فریقین میں متفق علیہ ہوا کرتی ہے۔ وہ دونوں فریق اس کے کاتب ہوتے ہیں۔ یہ شرط درج کرکے امام حسنع نے حاکم شام سے تسلیم کرا لیا کہ اب تک حکومت شام کا جو کچھ رویہ رھا ہے وہ کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟
غلط اندیش دنیا کھتی ہے کہ امام حسنع نے بیعت کر لی۔ میں کھتا ہوں۔ اگر حقیقت پر غور کیجئے تو جب امام حسنع شریعت اسلام کے محافظ ہیں اور آپ نے اس کا اقرار حاصل کیا ہے کہ حاکم شام کتاب اور سنت کے مطابق عمل کریں گے تو اب یہ فیصلہ آسان ہے کہ جس نے شرائط مانے اس نے بیعت کی یا جس نے شرائط منوائے اس نے بیعت کی۔ حقیقت میں حضرت امام حسنع نے تو بیعت لے لی۔ خود بیعت نھیں کی۔
دوسری شرط یہ تھی کہ تمھیں کسی کو اپنے بعد نامزد کرنے کا اختیار نہ ہو گا اس طرح حضرت امام حسن(ع)نے برفرض مخالفت شرط اول اس ضرر کو جو حاکم شام کی ذات سے مذھب کو پھنچتا محدود بنایا اور آئندہ کے لئے یزید ایسے اشخاص کا سدباب کر دیا۔
خواھانِ حاکم شام زیادہ نمایاں طور پر یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ حضرت امام حسنع نے سالانہ ایک رقم مقرر کی تھی کہ یہ تمھیں ادا کرنا ہو گی میں کھتا ہوں کہ یہ شرط اگرچہ مسلم نھیں ہے پھر بھی اگر یہ شرط رکھی ہو تو یہ آئینی حیثیت سے اپنے اصلی حقدار حکومت ہونے کے اعتراف کا فریق مخالف کے عمل سے قائم رکھنا ہے اور اگر زیادہ گھری نظر سے دیکھا جائے تو حضرت رسول خدا کا نصاریٰ سے جزیہ لے کرجنگ کو ختم کر دینا درست ہے تو حضرت امام حسنع کا حاکم شام پر سالانہ ایک ٹیکس عائد کرنا بھی بالکل صحیح ہے۔ یہ عملی مظاہر ہ ہے اس کا کہ ہم نے دب کر صلح نھیں کی ہے بلکہ خونریزی سے بچنے کی ممکن کوشش کی ہے۔
حضرت امام حسن(ع)کو اس صلح پر برقرار رھنے میں بھی کتنے شدائداور زخم ہائے زبان کا مقابلہ کرنا پڑا ہے مگر مفادِ دینی کے لئے یہ صلح ضروری تھی تو پُرجگری کے ساتھ حضرت(ع)تمام ایذاء و اھانت کے صدموں کو برداشت کرتے رہے۔ اور دس برس مسلسل پھر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزار کر حضرت علی بن ابی طالبع کے ۲۵ سال کے دور گوشہ نشینی کا مکمل نمونہ پیش کر دیا۔
اموی ذھنیت والوں کا یہ پروپیگنڈا کہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب(ع)اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین(ع)سے مختلف ذھنیت رکھتے تھے اور وہ صلح ان کی انفرادی افتاد طبع کا نتیجہ تھی۔ خود اموی حاکم شام کے عمل سے بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ اگر یہ بعد والا پروپیگنڈا صحیح ہوتا تو اس مصالحت کے بعد حاکم شام کو حضرت امام حسن(ع)سے بالکل مطمئن ہو جانا چاھئے تھا بلکہ حاکم شام کی طرف سے واقعی پھر امام حسن(ع)کی قدرومنزلت کے مسلمانوں میں بڑھانے اور نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ بلاتشبیہ جس طرح مشھور روایات کی بنا پر جناب عقیل کو حضرت علی بن ابی طالب(ع)سے بظاہر جدا کرنے کے بعد ان کی خاطرداریوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جاتا تھا۔ یھی بلکہ اس سے زیادہ حضرت امام حسن(ع)کے ساتھ ہوتا مگر ایسا نھیں ہوا۔ صلح کرنے کے بعد بھی امام حسن(ع)کو آرام اور چین نھیں لینے دیا گیا اور بالآخر زھر دغا سے آپ کو شھید کر دیا گیا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ حاکم شام بھی جانتے تھے۔ کہ یہ رائے، مسلک، خیال اور طبیعت کسی اعتبار سے بھی اپنے باپ بھائی سے جدا نھیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت انھیں فرض کا تقاضا یھی محسوس ہوا لیکن اگر مصلحت دینی میں تبدیلی ہو تو یھی کوئی نیا صفین کا معرکہ پھر آراستہ کر سکتے ہیں اور انھی کے ہاتہ سے کربلا بھی سامنے آ سکتی ہے اسی لئے ان کی زندگی اس کے بعد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ بنی رھی اور جب ان کی شھادت کی خبر ملی تو انھوں نے اطمینان کی سانس ہی نھیں لی بلکہ اپنے سیاسی ضبط و تحمل کے دائرہ سے بھی تجاوز کرکے بالاعلان انھوں نے مسرت سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حسن مجتبیٰ(ع)کی صلح کسی مخصوص ذھنیت یا طبیعت کا نتیجہ نھیں تھی۔ وہ صرف فرض کے اس احساس کا تقاضا تھی جو انسانی بلندی کی معراج ہے۔