بقیہ معصُومین(ع) کی سِیرت
خمسہ نجباء یعنی پنجتن(ع) پاک کے کردار میں انسانی رفعت کا نمونہ سامنے آ چکا مگر اسلام صرف پچاس ساٹھ برس کے لئے نہ تھا وہ تو قیامت تک کے لئے تھا اور قیامت تک کتنے زندگی کے دوراھے آنے والے ہیں جن کی مثال اس مختصر مدت کے اندر درپیش نھیں ہوئے تھے۔ اس لئے چودہ معصومین(ع) کی ضرورت ہوئی اور انھیں اتنے عرصہ تک آنکھوں کے سامنے رکھا گیا جتنے عرصہ میں انقلابات کا وہ ایک پورا دور پورا ہو جائے جس کے بعد تاریخ پھر اپنے آ پ کو دھراتی ہے اور جس میں ہر پھر کر وھی صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو ذرا بدلی ہوئی شکل میں اصل حقیقت کے لحاظ سے پھلے کی قائم شدہ نظیروں میں سے کسی ایک کے مطابق ہیں اس طرح زندگی کے ہر دوراھے پر ان معصومین(ع) میں سے کسی نہ کسی ایک کی مثال رھنمائی کے لئے موجود ہوگی اور یوں سمجھنا چاھئے کہ ان تمام معصومین(ع) کے کردار سے مل جل کر جس ایک مزاج کی تشکیل ہو گی وہ انسانی کردار کا ہمہ گیر مکمل دستور العمل ہو گا۔
امام حسین(ع)
جس طرح حضرت امام حسن(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ہیں ۲ اور ۳ ہ اسی اعتبار سے امام حسین(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ہیں ۳ اور ۴ ہ اگر ان کی ولادت ۲ ہ میں ہوئی ہے تو ان کی ۳ میں ہے اور اگر ان کی ولادت ۳ میں ہے تو ان کی ۴ ہ میں ولادت ہوئی ہے۔ اس طرح وفات رسول کے وقت ان کو چھٹا یا ساتواں برس تھا۔
اس دور اور اس کے بعد جناب امیر(ع) کے دور میں جو کچھ حسن مجتبیٰ (ع) کے بارے میں کھا جا چکا وہ حسین(ع) کی سیرت کے ساتھ بالکل متحد ہے اس لئے کہ ایک سال کے فرق سے کوئی فرق احساسات، تاثرات اور ان کے مقتضیات میں نھیں ہوتا۔ جن واقعات سے جتنا وہ متاثر ہو سکتے تھے اتنا ہی یہ اثر لے سکتے تھے۔ وفات رسول کے بعد سے ۲۵ برس کا دور جو امیرالمومنین نے گوشہ نشینی میں گزارا وہ جس طرح ان کے لئے ایک دور ابتلاء تھا ان کے لئے بھی تھا۔ جو جو مناظر ان کے سامنے آ رہے تھے وہ ان کے سامنے بھی بلکہ امام حسن(ع) کو تو دنیا نے صرف بحیثیت صلح پسند اور حلیم کے پھچانا ہے۔ اس لئے وہ اس دور میں ان کے امتحان کی عظمت کو بآسانی شاید محسوس نہ کرے مگر حسین(ع) کو تو دنیا نے روز عاشور کی روشنی میں دیکھا ہے اور بڑا صاحب غیرت و حمیت، خوددار، گرم مزاج اور اقدام پسند محسوس کیا ہے۔ اس روشنی میں ۲۵ برس کے دور خاموشی پر نظر ڈالئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے شباب کی منزلیں وھی تھیں جو حضرت امام حسین(ع) کی تھیں۔ ۲۵ سال کی مدت کے اختتام پر وہ ۳۳ برس کے تھے تو یہ بتیس برس کے گویا۔ عمر کے لحاظ سے حسین(ع) اس وقت عباس(ع) تھے کربلا میں جو ابوالفضل العباس کے شباب کی منزل تھی وہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے اختتام پر حسین(ع) کے شباب کی منزل تھی۔ اس عمر تک وہ تمام واقعات سامنے آتے ہیں جو اس دور میں پیش آتے رہے۔ اور امام حسین خاموش رہے۔ مصائب و حوادث کے وہ تمام جھونکے آئے اور ان کے سکوت کے سمندر میں تموج پیدا نہ کر سکے۔
ان کے ۲۵ برس حضرت علی(ع) کی خاموشی کے ہمدم، وہ حضرت رسول پر مظالم دیکہ رہے تھے جو ان کے مجازی حیثیت سے باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور یہ حضرت علی(ع) پر مظالم دیکہ رہے تھے جو ان کے حقیقی حیثیت سے باپ تھے جس طرح وہاں کوئی تاریخ نھیں بتاتی کہ کسی ایک دفعہ بھی علی(ع) کو جوش آ گیا ہو اور رسول کو علی(ع) کے روکنے کی ضرورت پڑی ہو۔ اسی طرح کوئی روایت نھیں بتاتی کہ اس ۲۵ برس کی طویل مدت میں کبھی حسین(ع) کو جوش آ گیا ہو اور حضرت علی(ع) نے بیٹے کو روکنے کی ضرورت محسوس فرمائی ہو یا سمجھانے کی کہ یہ نہ کرو۔ اس سے ہمارے مقصد یا اصول کو نقصان پھنچے گا۔
اس کے بعد وہ وقت آیا کہ جب حضرت علی(ع) نے میدان جھاد میں قدم رکھا۔ تو اب جھاں حسن(ع) تھے وھیں حسین(ع) بھی تھے۔ وہ باپ کے داھنی طرف تو یہ بائیں طرف۔ ہر معرکہ میں عملی حیثیت سے شریک ہیں۔ اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا گیا تو جھاں بڑے بھائی کے دستخط وھیں چھوٹے بھائی کے دستخط۔ جناب امیر کی شھادت کے بعد اسی طرح یہ حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ ہیں جھاد میں بھی اور صلح میں بھی۔ ابو حنیفہ دنیوری نے الاخبار الطوال میں لکھا ہے کہ صلح کے بعد دو شخص امام حسن(ع) کے پاس آئے۔ یہ جذباتی قسم کے دوست تھے صحیح معرفت نہ رکھتے تھے انھوں نے سلام کیا:
اسلام علیک یامذلَ المومنین
”اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے آپ کو سلام ہو۔“
یہ بخیالِ خود مومنین ہیں جن کا یہ اخلاق ہے اور یہ ان کا بلند اخلاق ہے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ جو سلام ہو اس کا بھی جواب دینا لازم سمجھتے ہیں۔ اور ملائمت کے ساتھ فرماتے ہیں۔
لست مذلّھم بل معذّھم میں نے مومنین کو ذلیل نھیں کیا بلکہ ان کی عزت رکھلی، اس کے بعد مختصر طور پر انھیں صلح کے مصالح سمجھائے جس پر وہ خاموشی سے واپس ہو گئے اور اب وہ اٹھ کر امام حسین(ع) کے پاس آئے اور خود ہی یہ واقعہ پیش کیا کہ ہم سے امام حسن(ع) سے یہ گفتگو ہوئی ہے۔ آپ نے امام حسن(ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا: صدق ابو محمّد یعنی حضرت امام حسن(ع) نے بالکل سچ فرمایا۔ صورت حال یھی تھی اور اس کا تقاضا اسی طرح تھا۔
بعض سورما قسم کے آدمی آئے اور انھوں نے کھا: آپ حسن مجتبیٰ (ع) کو چھوڑیئے، وہ صلح کے اصول پر برقرار رھیں مگر آپ اٹھئے ہم آپ کے ساتھ ہیں اچانک حکومت شام پر ہلہ بول دیں۔ امام حسین(ع) نے فرمایا: غلط بالکل غلط۔ ہم نے ایک معاھدہ کر لیا ہے اور اب ہم پر اس کا احترام لازم ہے۔ ہاں اسی وقت حضرت نے یہ کھہ دیا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس وقت تک بالکل چپ چاپ بیٹھا رہنا چاھئے جب تک یہ شخص یعنی معاویہ زندہ ہے۔ یہ آپ کا تدبر تھا۔ آپ جانتے تھے کہ معاویہ کی طرف سے آخر میں اور شرائط کے ساتھ اس شرط کی خلاف ورزی ہو گی کہ انھیں اپنے بعد کسی کو نامزد نہ کرنا چاھئے۔ اس وقت ہمیں اٹھنے کا موقع ہو گا۔
اب کون کھہ سکتا ہے کہ حسن(ع) کی صلح کے بعد حسین(ع) کی جنگ کسی پالیسی کی تبدیلی، ندامت و پشیمانی یا اختلاف رائے و مسلک کا نتیجہ تھی؟ ۲۰ سال پھلے کھا جا رھا ہے کہ ہمیں اس وقت تک خاموش رہنا چاھئے جب تک معاویہ زندہ ہے اس سے ظاہر ہے کہ ۲۰ برس کی طویل راہ کے تمام سنگ میل نظر کے سامنے ہیں اور پورا لائحہ عمل پھلے سے بنا ہوا ہے مرتب ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ طویل سکوت بھی اسی معاھدہ کے تحت ضروری ہے اور اس وقت کے اقدام کا بھی اسی معاھدہ کے ماتحت حق ہو گا۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک ہے کہ حسن مجتبیٰ (ع) کی صلح حسین(ع) بن علی(ع) جنگ کی ایک تمھید ہی تھی۔ اور کچھ نھیں۔
۴۱ ہ میں یہ صلح ہوئی اور ۶۰ ہ میں معاویہ نے انتقال کیا اس بیس سال کی طولانی مدت میں کیا کیا ناسازگار حالات پیش آئے اور عمال حکومت نے کیا کیا تکلیفیں پھنچائیں مگر ان تمام حالات کے باوجود جس طرح رسول کے ساتھ علی(ع) مکہ کی تیرہ برس کی زندگی میں جس طرح حضرت علی(ع) کے ساتھ حسن مجتبیٰ (ع) اور خود حسین(ع) ۲۵ برس کی گوشہ نشینی کے دور میں، اسی طرح حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ امام حسین(ع) دس برس کے ان کے دور حیات میں جو صلح کے بعد تھا حالانکہ اس زمانہ کے حالات کو وہ کن عمیق قلبی تاثرات کے ساتھ دیکھتے تھے ان کا اندازہ خود ان کے اس فقرے سے ہوتا ہے جو انھوں نے حضرت امام حسن(ع) کے جنارے پر مروان سے کھا تھا۔ جب مروان نے وفات حسن(ع) پر اظہار افسوس کیا تو امام حسین(ع) نے فرمایا کہ اب رنج و افسوس کر رہے ہو اور زندگی میں ان کو غم و غصہ کے گھونٹ تم پلاتے تھے جو کہ یاد ہیں مروان نے جواب دیا بے شک! وہ ایسے کے ساتھ تھا جو اس پھاڑ سے زیادہ متحمل اور پرسکون تھا۔
یہ تعریف اس وقت مروان امام حسن(ع) کی کر رھا تھا جو دنیا سے اٹھ چکے تھے مگر کیا اس تعریف میں خود حسین(ع) بھی حصہ نہ رکھتے تھے؟ کیا اس طویل مدت میں انھوں نے کوئی جنبش کی جو حسن مجتبیٰ کے سکون کے مسلک کے خلاف ہوتی؟ پھر امام حسن(ع) کے جنازے کے ساتھ جو ناگوار صورت پیش آئی وہ روضہ رسول پر دفن سے روکا جانا۔ وہ تیروں کا برسایا جانا۔ یھاں تک کچھ تیروں کا جسدِ امام حسن(ع) تک پھنچنا۔ یہ صبرآزما حالات اور ان سب کو امام حسین(ع) کا برداشت کرنا۔
کوئی شاید کھے کہ حسین(ع) کیا کرتے؟ بے بس تھے مگر کیا کربلا میں حسین(ع) کو دیکھنے کے بعد وہ یہ کھنے کا حق رکھتا ہے؟ کربلا میں تو سامنے کم از کم ۳۰ ہزار تھے اور جنازہ حسن(ع) پر سدراہ ہونے والی جماعت زیادہ سے زیادہ کئی سو ہو گی۔ حسین(ع) کے ساتھ عباس(ع) بھی موجود ہیں جو اس وقت ۲۲ برس کے مکمل جوان تھے جناب محمد حنیفہ بھی موجود تھے جن کی شجاعت کا تجربہ دنیا کو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے ساتھ جمل اور صفین میں ہو چکا تھا۔ مسلم بن عقیل بھی موجود تھے جنھیں بعد میں پورے کوفہ کے مقابلہ میں تن تنھا حسین(ع) نے بھیج دیا اور انھوں نے اکیلے وہ بے نظیر شجاعت دکھائی جو تاریخ میں یادگار ہے۔
علی(ع) اکبر بھی بنا برقول قوی اس وقت ۱۵ برس کے تھے جو کربلا کے قاسم سے زیادہ عمر رکھتے تھے اور تمام بنی ہاشم موجود تھے۔ پھر کچھ تو آلِ رسول کے وفادار غلام تھے اور دوسرے اعوان و انصار بھی موجود ہی تھے اس صورت حال میں حضرت امام حسین(ع) کے عمل کو بے بسی کا نتیجہ سمجھنا کھاں درست ہو سکتا ہے۔
مگر حسین(ع) خاموش رھتے ہیں اور ان سب کو خاموشی پر مجبور رکھتے ہیں امام حسن(ع) کا جنازہ واپس لے جاتے ہیں جنة البقیع میں دفن کر دیتے ہیں اور اس کے بعد دس برس حسنی صلح کے مسلک پر خاموشی کے ساتھ گزار دیتے ہیں اور اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ بڑے بھائی کا دباؤ یا مروت اور احترم کا تقاضا نہ تھا بلکہ مفاد اسلامی کا لحاظ تھا جس کے وہ بھی محافظ تھے اور اب یہ اس کے محافظ ہیں۔
اور ادھر حکومت شام کی طرف سے اس تمام مدت میں ہر ہر شرط کی خلاف ورزی ہو رھی تھی۔ چن چن کے دوستانِ علی(ع) کو قتل کیا جا رھا تھا اور جلاوطن کیا جا رھا تھا۔ کیسے کیسے افراد؟ حجر بن عدی اور ان کے ۱۶ ساتھی۔ یہ دمشق کے باہر مرج عذراء میں سولی چڑھا دیئے جاتے ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ یہ حجر بن عدی فضلائے صحابہ میں سے تھے۔ مسائل فقھیہ میں ان کے فتاوےٰ جمع کئے جائیں تو ایک جزو کا رسالہ ہو جائے۔ مگر علی(ع) کے دوست تھے اس لئے ان کی صحابیت بھی کام نہ آ سکی۔ کوفہ سے قید کرکے دمشق بلوائے گئے۔ حاکم شام نے اپنے دربار میں بلا کر ان سے پوچہ گچہ یا صفائی پیش کرنے کا موقع بھی دینا پسند نہ کیا۔ حکم ہو گیا کہ بیرون شھر ہی روک دیئے جائیں اور وھیں سولی دے دی جائے۔ ان کی شھادت کی خبر اتنی دردناک تھی کہ عبداللہ بن عمر نے اس کا ذکر سنا تو چیخیں مار کر رونے لگے۔ ام المومنین عائشہ کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے کھا۔ آخر معاویہ خدا کو کیا جواب دے گا، کہ ایسے ایسے نیکوکار مسلمانوں کا خون کر رھا ہے۔
عمرو بن الحمق الخزاعی وہ بزرگوار تھے جنھیں پیغمبر خدا نے غائبانہ طور پر اپنے سلام سے سرفراز کیا تھا ان کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر بلند کیا گیا۔ یہ سب سے پھلا سر تھا جو اسلا م میں نیزہ پر بلند ہوا۔
ان حوادث سے عبداللہ بن عمر اور عائشہ بنت ابی بکر ایسے لوگ اس قدر متاثر تھے تو حسین(ع) بن علی(ع) جن کے والد بزرگوار کی محبت کی پاداش ہی میں یہ سب کچھ ہو رھا تھا جتنا بھی متاثر ہوتے کم تھا۔
پھر حضرت امام حسن(ع) کے دس سال تک سکوت اور عدم تعرض کی جو قیمت ان کو ملی یعنی زھر قاتل اور کلیجے کے بھتر ٹکڑے اور پھر ان کی وفات پر دمشق کے قصر سے اظہار مسرت میں اللہ اکبر کی بلند آوازان سب باتوں کے بعد حضرت امام حسین(ع) کی خاموشی۔ کیا کسی میں ہمت ہے جو اس وقت کے حسین(ع) پر جنگجوئی کا الزام عائد کر سکے؟
اب اس کے بعد وہ ہنگام آیا جسے امام حسین(ع) کی آنکھیں بیس برس پھلے دیکہ رھی تھیں یعنی حاکم شام نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی داغ بیل ڈال دی اور اس کے لئے عالم اسلام کا دورہ کیا۔
اب امام حسین(ع) کے لئے وہ شاہر اہ سامنے آ گئی جو انکارِ بیعت سے شروع ہوئی اور آخر تک انکارِ بیعت ہی کی شکل میں قائم رھی۔
پھر اس انکارِ بیعت کو کیا کوئی وقتی، جذباتی فیصلہ یا ہنگامی جوش کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے؟
یاد رکھنا چاھئے کہ انکارِ بیعت تو ابھی قانونی جرم قرار بھی نہ پایا تھا۔ خلافت ثلٰثہ میں بھت سوں نے بیعت نھیں کی۔ حضرت علی(ع) کے دور میں عبداللہ بن عمر نے بیعت نھیں کی اسامہ بن زیدنے بیعت نھیں کی سعد بن ابی وقاص نے بیعت نھیں کی۔ حسان بن ثابت نے بیعت نھیں کی۔ مگر ان بیعت نہ کرنے والوں کو واجب القتل نھیں سمجھا گیا۔
امام حسین(ع) نے بیعت نہ کرکے اپنے کو حمایتِ باطل سے الگ کیا بس۔ اس کے علاوہ کوئی اقدام نھیں کیا۔ مگر معاویہ کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا تو اس نے پھلا ہی حکم اپنے گورنر ولید کو یہ بھیجا کہ حسین(ع) سے بیعت لو اور بیعت نہ کریں تو ان کا سر قلم کرکے بھیج دو۔ یہ تشدد کا آغاز کدھر سے ہو رھا ہے؟ حاکم مدینہ کو اس حکم کی تعمیل کی ہمت نہ ہوئی تو اسے معزول کیاگیا۔ امام حسین(ع) کو اگر تشدد سے کام لینا ہوتا تو آپ ہلاکت معاویہ کی خبر ملتے ہی مدینہ کے تخت و تاج پر قبضہ کر لیتے جو اس وقت ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ اس کے بعد کم از کم عالم اسلام تقسیم تو ہو ہی جاتا مگر آپ ایسا نھیں کرتے بلکہ جا کر مکہ میں پناہ لینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں کسی کی جان لینا نھیں ہے اپنی جان بچانا منظور ہے۔
بظاہر اسباب اگر یھاں قیام کا ارادہ مستقل نہ ہوتا تو احرام حج کیوں باندھتے؟ احرام باندھنا خود نیت حج کی دلیل ہے اور نیت کے بعد بلاوجہ حج توڑنا جائز نھیں۔ حضرت امام حسین(ع) سے بڑھ کر مسائل شریعت سے کون واقف ہو گا اور یہ ان کا مخالف بھی خیال نھیں کر سکتا کہ وہ جان بوجہ کر حکم شریعت کی معاذ اللہ مخالفت کریں گے اور وہ بھی کب؟ جب کہ حج کو صرف ایک دن باقی ہے۔
وہ جن کاذوق حج یہ تھا کہ مدینہ سے آ آ کر ۲۵ حج پا پیادہ کر چکے ہیں اب مکہ میں موجود ہوتے ہوئے حج کو عمرہ سے تبدیل فرما دیتے اور مکہ سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرز عمل سے خود ظاہر ہے کہ اس کا سبب غیرمعمولی اور ہنگامی ہے۔ چنانچہ ہر ایک پوچہ رھا تھا اور بڑی وحشت اور پریشانی کے ساتھ! آپ اس وقت مکہ چھوڑ رہے ہیں؟“
یہ ہر سوال امام(ع) کے دل پر ایک نشتر تھا۔ ہر ایک سے کھاں تک بتلاتے۔ کسی کسی سے کھہ دیا کہ نہ نکلتا تو وھیں قتل کر دیا جاتا اور میری وجہ سے حرمت خانہ کعبہ ضائع ہو جاتی۔
مکہ میں آنا بھی خطرہ کو حتی الامکان ٹالنا تھا اور اب مکہ سے جانا بھی یھی ہے اب آپ کوفہ تشریف لئے جا رہے ہیں۔ جھاں کے لوگوں نے آپ کو اپنی ہدایت دینی اور اصلاحِ اخلاقی کے لئے دعوت دی ہے مگر بیچ میں فوج حر آ کر سد راہ ہوتی ہے اب آپ پھلا کام یہ کرتے ہیں کہ اس پوری فوج کو جو پیاسی ہے سیراب کر دیتے ہیں۔ یہ فیاضی بھی جنگجویانہ انداز سے بالکل الگ ہے اس کے بعد وہ موقع آیا کہ نھر پر خیموں کے برپا کرنے کو روکا گیا اس وقت اصحاب کی تیوریوں پر بل تھے مگر امام(ع) نے فرمایا کہ مجھے جنگ میں ابتداء کرنا نھیں ہے۔ ریت ہی پر خیمے برپا کر دو۔ یہ نفس پر جبر اور حلم و تحمل وہ کر رھا ہے جسے بالآخر جان پر کھیل جانا اور اپنا پورا گھر قربان کر دینا ہے مگر وہ اس وقت ہو گا جب اس کا وقت آئے گا اور یہ اس وقت ہے جب اس کا وقت ہے۔
پھر عمر سعد کربلا میں پھنچتا ہے تو آپ خود اس کے پاس گفتگوئے صلح کے لئے ملاقات کا پیغام بھیجتے ہیں۔ ملاقات ہوتی ہے تو شرطیں ایسی پیش فرماتے ہیں کہ ابن سعد خود اپنے حاکم عبیداللہ بن زیاد کو لکھتا ہے کہ فتنہ و افتراق کی آگ فرو ہو گئی۔ اور امن و سکون میں کوئی رکاوٹ نہ رھی۔ حسین ملک چھوڑنے تک کے لئے تیار ہیں اس کے بعد خونریزی کی کوئی وجہ نھیں۔
اب یہ تو فریق مخالف ک اعمل ہے کہ اس نے ایسے صلح پسندانہ رویہ کی قدر نہ کی اور صلح کے لئے بڑھے ہوئے ہاتہ کو جھٹک کر پیچھے ہٹا دیا لیکن اس شرط پر حکومت مخالف راضی ہو گئی ہوتی۔ پھر حضرت امام حسن اور امام حسین(ع) کی افتادِ طبع میں کسی اختلاف کا تصور کرنے والوں کے تصورات کی کیا بنیاد باقی رہ سکتی تھی اور صورت حال کے سمجھنے کے بعد اب بھی یہ تصورات تو غلط ثابت ہو ہی گئے مگر وہ ابن زیاد کی تنگ ظرفی فرعونیت اور یزید کے منشاء کی تکمیل تھی کہ اس نے حضرت امام حسین(ع) پر صلح و امن کے سب راستوں کو بند کر دیا۔
پھر بھی جب نویں تاریخ کی سہ پھر کو حملہ ہو گیا تو حضرت(ع) نے ایک رات کی مھلت لے لی۔ جسے جنگ کرنا ہی مطلوب تھا وہ التوائے جنگ کی درخواست کیوں کرتا، مگر اس ایک رات کی مھلت کو حاصل کرکے بھی آپ نے اپنی امن پسندی کا ثبوت دیا اور دکھلا دیا کہ جنگ تو مجہ پر خواہ مخواہ عائد کی جا رھی ہے۔ میں جنگ کا اپنی طرف سے شوق نھیں رکھتا ہوں۔
پھر صبح عاشور کوئی دقیقہ موعظہ و نصیحت اور اتمام حجت کا اٹھا نھیں رکھا۔ خطبہ جو پڑھا وہ اونٹ پر سوار ہو کر اس لئے کہ وہ ہنگام امن کی سواری ہے گھوڑے پر نھیں سوار ہوئے جو جنگ کے ہنگام کا مرکب ہوتا ہے۔
باوجودیکہ خطبہ کے جو جواب ملے وہ دل شکن تھے مگر اس کے بعد بھی آپ نے اس کا انتظار کیا کہ فوج دشمن کی طرف سے ابتداء ہو او جب پھلا تیر عمر سعد نے چلہ کمان میں جوڑ کر اپنی فوج سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کھہ کے لگایا کہ ”گواہ رہنا پھلا تیر فوج حسینی کی طرف میں رھا کر رھا ہوں۔“ اور اس کے بعد چار ہزار تیر کمانوں سے روانہ ہو گئے اور جماعت حسینی (ع) کی طرف آ گئے۔ اس وقت مجبور ہو کر امام(ع) نے اذن جھاد دیا۔ اور اس کے بعد بھی خود اس وقت تک جھاد کے لئے تلوار نیام سے نھیں نکالی جب تک آپ کی ذات میں انحصار نھیں ہو گیا۔ جب تک ایک بھی باقی رھا آپ نے شمشیرزنی نھیں کی۔ اور اس طرح پیغمبر کے کردار کی تفسیر کر دی جب کوئی نہ رھا اس وقت تلوار کھینچی اور یہ ایسا وقت تھا جب کسی دوسرے میں دم نہ ہوتا کہ وہ جنبش بھی کر سکتا۔ تین دن کی بھوک پیاس اور اس پر صبح سے سہ پھر تک کی تمازتِ آفتاب میں شھداء کے لاشوں پر جانا اور پھر خیمہ گاہ تک پلٹنا اور پھر بھتر کے داغ عزیزوں کے صدمے اور ان کی لاشوں کا اٹھانا۔ جوان بیٹے کا بصارت لے جانا اور بھائی کا کمر توڑ جانا۔ اور اپنے ہاتھوں پر ایک بے شیر کو دم توڑتے میں سنبھالنا اور نوک شمشیر سے ابھی ابھی اس کی قبر بنا کر اٹھنااب اس عالم میں جذباتِ نفس کا تقاضا تو یہ ہے کہ آدمی خاموشی سے تلواروں کے سامنے اپنا سر بڑھا دے اور خنجر کے آگے گلا رکہ دے مگر حسین(ع) اسلامی تعلیم کے محافظ تھے ظلم کے سامنے سپردگی آئین شریعت کے خلاف ہے۔ حسین(ع) نے اب فریضہ دفاع کی انجام دھی اور دشمنانِ خدا کے مقابلہ کے لئے تلوار اٹھائی اور وہ جھاد کیا جس نے بھولی ہوئی دنیا کو حیدر صفدر کی شجاعت یاد دلا دی اور اس طرح دکھا دیا کہ ہمارے اعمال و افعال، جذبات نفس اور طبیعت کے تقاضوں کے ماتحت نھیں بلکہ فرائض و واجبات کی تکمیل اور احکام ربانی کی انجام دھی کے ماتحت ہوتے ہیں۔ چاھے طبعی تقاضے اس کے کتنے ہی خلاف ہوں۔
یھی انسانیت کی وہ معراج ہے جس کی نشاندھی حضرت امام حسین(ع) کے اسلاف کرتے رہے او روھی آج حسین(ع) کے کردار میں انتھائی تابانی کے ساتھ نمایاں ہیں۔
سیرتِ ائمہ(ع) کے ہمہ گیر پہلو:
حضرت امام حسین(ع) کے بعد ۹ معصومین(ع) کی زندگی میں چند اقدار مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ پھر اس دور میں کسی خونریز اقدام کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور امن و خاموشی کو ہر حال میں مقدم رکھا گیا اور اب ان اقدار کے تحفظ کے لئے جو واقعہ کربلا نے ذہن بشر کے لئے قائم کر دیئے تھے اس واقعہ کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ”عزائے حسین(ع) پر تاریخی تبصرہ ۔“ دیکھنے کے قابل ہے اور جس کا کامیاب نتیجہ عزاداری کے قیام و بقا کی شکل میں ہر شخص کے مشاہدہ میں ہے۔
دوسرے اپنی زندگی کی اس خاموش فضا کو انہوں نے معارف و تعلیماتِ اسلامی کی اشاعت کے لئے وقف رکھا اور تاریخ کے سردگرم حالات کے ساتھ اپنے امکانات کے مدارج کو فعلیت کی منزل میں لاتے رہے جس کا حیرت انگیز نمونہ یہ سامنے ہے کہ سلطنت و اقتدار کی بے پناہ پشت پناہی کے ساتھ اکثریت کے محدثین و فقہا کی مجموعی طاقت کا فراہم کردہ جتنا ذخیرہ احادیث صحاح ستہ کی شکل میں موجود ہے اس سے زیادہ جبر و قہر کے شکنجوں میں گھرے ہوئے ان ائمہ اہل بیت علیہم اسلام کی بدولت کتبِ اربعہ کی شکل میں ملتِ جعفریہ کے ہاتھوں میں موجود ہے جس کا موازنہ کرنے پر بالکل وہ نمونہ سامنے آتا ہے کہ جیسے قرآن مجید کے پہلے تعلیمات انبیا(ع)ء کے جو مسخ شدہ مجموعے کتب سماوی کے نام سے موجود تھے ان کے ہوتے ہوئے قرآن نے آ کر یہ کام کیا کہ جو اصل حقائق ان کتب کے تھے ان کو خالص شکل میں محفوظ کر دیا اور جو مہملات و مزخرفات شان انبیا(ع)ء کے خلاف ان میں سے حارج کر دیئے گئے تھے ان سب کو دور کرکے حقانیت انبیا(ع)ء کی شان کو نکھار دیا۔ اسی طرح سوادِ اعظم کے متداول احادیث کے ذخیرہ میں جتنی اصلیتیں تھیں ان کو آلِ محمد علیہم السلام نے اپنے صداقت ریز بیانات کے ساتھ محفوظ و مستحکم بنا دیا اور ان کے ساتھ سلطنتِ وقت کے کاسہ لیس اور یاوہ گو راویوں نے جو ہزاروں اس طرح کی باتیں شامل کر دی تھیں جن سے شان رسالت بلکہ شان الوہیت تک صدمہ پہنچتا تھا ان سب کا قلع قمع کرکے دامن الوہیت ورسالت کو بے داغ ثابت کر دیا۔ اور خالص حقائق و تعلیمات اسلامیہ کو منضبط کر دیا۔ اس طرح جیسے کتب سماوی میں قرآن بحسب ارشاد ربانی مہیمن علی الکل ہے اسی طرح سلسلہ احادیث میں یہ ائمہ معصومین علیہم اسلام کے ذریعہ سے پہنچا ہوا ذخیرہ ہے جو حقائق اسلامیہ پر مہیمن کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے اس کارنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس لئے ان کو ثقلین کا جزو بنا کر قرآن کے ساتھ امت اسلامیہ کے اندر چھوڑا گیا اور ارشاد ہوا تھا کہ: ما ان تمسّکتم بھما لن تضّلو بعدی ”جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔“
فقہ میں یہ حقیقت ہے کہ سوادِ اعظم نے قیاس کے وسیع احاطہ میں قدم رکھنے کے باوجود جس معیار تک اس فن کو پہنچایا فقہائے اہل بیت(ع) نے تعلیمات ائمہ کی روشنی میں قیاس سے کنارہ کشی کرنے اور قرآن و حدیث سے استناباطات کے تنگنائے میں اپنے کو مقید رکھنے کے باوجود اس سے بدرجہ بالاتر نقطہ تک اس فن کو پہنچا دیا۔ جس پر انتصار نہایہ اور مبسوط اور پھر تذکرة الفقہاء اور مختلف الشیعہ سے لے کر حدائق اور جواہر اور فقہ آقا رضا ہمدانی تک ایسی بسیط کتابیں گواہ ہیں جن کا عشر عشیر بھی سوادِ اعظم کے پاس موجود نہیں ہے۔
تیسرے اس سو ڈیڑھ سو برس کی مدت میں امت اسلامیہ کے اندر کتنے انقلابات آئے حالات نے کتنی کروٹیں بدلیں۔ ہواؤں کی رفتار کتنی مختلف ہوئی مگر ان معصومین(ع) کے اخلاق و کردار میں جو تعلیمات و اخلاقِ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوئی۔ نہ اپنے منہاج نظر کو بدلا اور نہ امن پسندی کے رویہ میں جسے اب مستقل طور پر سکوت و سکون کی شکل میں اختیار کر لیا تھا ذرہ بھر تبدیلی ہوئی۔ ان دونوں باتوں کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ہستی کو ان کے دور کی حکومت نے اپنا حریف ہی سمجھا۔ اس لئے ان سے کسی حکومت نے بھی غیرمعترضانہ حیثیت اختیار نہیں کی۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ دنیاوی حکومت کے مقابل اس محاذ کے جو حضرت علی بن ابی طالب(ع)، حضرت حسن مجتبیٰ اور حضرت امام حسین(ع) کی نگہبانی میں قائم رہا تھا، برابر محافظ رہے اور اسی لئے باطل حکومت انہیں اپنا حریف سمجھتی رہی۔ مگر کبھی حکومت کو ان کے خلاف کسی امن شکنی کے الزام کو ثابت کرنے کا موقع نہیں مل سکا اس لئے قید کیا گیا تو اندیشہ نقص امن کی بنا پر اور زندگی کا خاتمہ کیا گیا تو زہر سے جس کے ساتھ حکومت وقت کو اپنی صفائی پیش کرنے کا امکان باقی رہے۔
یہ تمام معصومین(ع) کی زندگی اور موت کی مشترک کیفیت بتلاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا طرزِ عمل ایک واحد نظام کا جز تھا جس کے قیام کے مجموعی حیثیت سے وہ سب ذمہ دار تھے۔
چوتھے اس وقت جب کہ علم، تقویٰ، عبادت وریاضت اور روحانیت ہر ایک کی ایک قیمت مقرر ہو چکی تھی اور ان سب جنسوں کا بازار سلطنت میں بیوپار ہو رہا تھا، یہ ہستیاں وہ تھیں جنہوں نے اپنے خداداد جوہروں کو دنیوی قیمتوں سے بالاتر ثابت کیا۔ نہ اپنا کردار بدلا اور نہ اپنے کردار کو حکومت وقت کے غلط مقاصد کا آلہ کار بنایا۔ نہ حکومتوں کے خلاف کھڑی ہونے والی جماعتوں کے معاون بنے اور نہ حکومتوں کے ناجائز منصوبوں کے مددگار ہوئے۔ حالانکہ حکومتوں نے ان ہر داؤں کو آزمایا۔ مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا اور اقتدارِ دنیا کی طمع کے ساتھ بھی آزمائش کی۔ مگر ان کا کردار ہمیشہ منفرد رہا۔ اور اموی و عباسی کسرویت و قیصریت کے زیرسایہ پروان چڑھی ہوئی دنیا کے ماحول کے اندر وہ علیحدہ صحیح اخلاق اسلامی کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ یہ ان کا خاموش عمل ہی وہ مستقل جہاد حیات تھا جو وہ بتقاضائے خلافت الٰہیہ مستقل طو رپر انجام دیتے رہے۔
پانچویں۔ اگرچہ ان بزرگواروں کی عمریں مختلف ہوئیں۔ ایک طرف حضرت امام جعفر صادق(ع) ہیں جو تقریباً پینسٹھ برس اس دارِ دنیا میں رہے دوسری طرف حضرت امام محمد تقی(ع) ہیں جو ۲۵ برس سے زیادہ اس دارِ فانی میں زندہ نہیں رہے۔ اور پھر برسراقتدار امامت آنے کے موقع پر عمروں کا اختلاف یعنی جب سابق امام(ع) کی وفات ہوئی اور بعد کے امام(ع) کی امامت تسلیم ہوئی اس وقت ایک طرف حضرت امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق(ع) ہیں جن کی عمر اپنے والد بزرگوار کی وفات کے وقت ۳۴ یا ۳۵ برس تھی اور دوسری طرف حضرت امام محمد تقی(ع) اور امام علی نقی(ع) ہیں جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ آٹھ نو برس تھیں مگر عالم اسلامی کا بیان متفق ہے کہ ہر ایک بزرگ اپنے دور میں عبادت، زہد، ورع، تقویٰ، ریاضت نفس، فیض و کرم تمام اخلاق میں مثالی زندگی کے مالک رہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے افعال نفسانی جذبات اور طبیعت کے تقاضوں کی بنا پر نہیں ہیں جن میں عمر کا فرق اثر انداز ہوتا ہے بلکہ وہ سب اسی للہیت اور احساس فرائض کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو انسانی کردار کی معراج ہے۔
اب فرداً فرداً ہر امام(ع) کے حالات میں ان کے زمانہ کی کیفیات کے انفرادی خصوصیات کے ساتھ ان مشترکہ اقدار کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کا مجمل حیثیت سے ابھی تذکرہ کیا گیا ہے۔