تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167047 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 خودشناسی میں ارادہ کا کردار

اگر آپ اپنی ہوا و ہوس کو قوی سمجھتے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ خودسازی کے بارے میں آپ کا ارادہ ضعیف ہے ۔اگر آپ اپنے ارادہ کو مضبوط بنا لیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قدم بڑھائیں تو اس صورت میں آپ کویقین ہو جائے گا کہ آپ کا نفس اور ہوا و ہوس آپ کے زیر تسلط اور مغلوب ہے۔

آپ یقین رکھیں کہ ارادہ کی حقیقت سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے محکم ارادے کے سامنے آپ کے نفس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ولایت و امامت کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''صٰاحِبُ النِّیَّةِ الْخٰالِصَةِ نَفْسُهُ وَ هَوٰاهُ مَقْهُوْرَتٰانِ تَحْتَ سُلْطٰانِ تَعْظِیْمِ اللّٰهِ  وَالْحَیٰائِ مِنْهُ'' (1)

جو کوئی پختہ ارادہ اور خالص نیت کا مالک ہو ،اس کا نفس اور ہوا و ہوس سلطنت الٰہی کی تعظیم  اور خدا سے حیاء کی وجہ سے مقہور و مغلوب ہوتی ہیں۔

یعنی خالص اور پختہ ارادہ رکھنے والا شخص خود کو خدا کی عظمت کے سامنے حاضر سمجھتا ہے اور برے کاموں کو انجام دینے کی راہ میں شرم و حیاء مانع آتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کا نفس، نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس مغلوب ہو جاتی ہیں اور یہ ان پر مسلط ہو جاتاہے۔

اس بناء پر اپنے نفس کے قوی ہونے کا گلہ و شکوہ نہ کریں بلکہ اپنے ارادے کے ضعف اور ناپختگی کا رونا روئیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۱۰ ، مصباح الشریعہ:4

نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

آپ ارادہ کر لیں کہ جب بھی کوئی گناہ یا برا کام انجام دیں تو اس کے برابر اچھا اور نیک کام انجام دیں اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ مشاہدہ کریں گے کہ آپ میںنفسانی خواہشات کمزورہو چکی ہیں۔حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''اِذٰا عَلِمْتَ سَیِّئَةً فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُوْهٰا'' (1)

جب بھی تم نے کوئی برا کام انجام دیا تو پھر نیک کام بھی انجام دو تا کہ برے کام کو نابود کر سکو۔

غلط اور برے کاموں کے جبران کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے سے ناپسندیدہ اور برے کاموں کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔اس کے آثار میں سے ایک نفسانی خواہشات کی قدرت ہے۔اس بناء پر ہمیں  خاندان وحی علیھم السلام کے انسان ساز فرامین سے ابھی یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سے جب بھی کوئی خطا سرزد ہو جائے  تو اس کے جبران کے طور پر نیک اور اچھا عمل انجام دیں تا کہ برے عمل کا اثر ختم ہو جائے۔یہ کامیابی کی ایک اہم کنجی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔آپ کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات کی پیروی کرنے سے آپ کے لئے تاریک راہیں بھی روشن ہو جائیں گی،آپ کے لئے پیچیدگیا ں حل ہو جائیں گی  اور آپ پر غالب نفس مغلوب ہو جائے گا ۔تب آپ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

اب ہم آپ کے لئے اسلام کے درخشاں ستارے مرحوم مرزا قمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۸۹، امالی  طوسی:ج۱  ص۱۸۹

۲۱

مرحوم مرزا قمی کی وفات کے بعد ''شیروان ''کا رہنے والا ایک شخص ہمیشہ آپ کے مرقد پر حاضر ہوتا اور وہ کسی سے کوئی اجرت لئے بغیروہاں ایک خادم کی طرح خدمت کرتا ۔نیز کسی نے اسے اس کام پر معین بھی نہیں کیا تھا۔کیونکہ یہ کام رائج اور مرسوم نہیں تھا اس لئے اس کی خدمت گزاری کی وجہ دریافت کرنے لگے۔

اس نے کہا:میں شیروان کا رہنے والا ہوں اور اس شہر کے امیر ترین افراد میں سے ہوں ۔میں سمجھا کہ میں حج کے لئے مستطیع ہوں  لہذامیں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے ارادہ سے سفر کا لباس پہن کر شہر سے نکلا۔

مکہ معظمہ پہنچنے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد میں دریائی راستہ کے ذریعے واپس روانہ ہوا۔ایک دن میں رفع حاجت کے لئے کشتی کے کنارے پر بیٹھا کہ میرے پیسوں کی تھیلی پھٹ گئی اور سارے پیسے دریا میں گر گئے ۔ میرے د ل سے ایک سرد آہ نکلی  اور اس بارے میں میری امید ٹوٹ گئی ۔ میں پریشانی و حیرانگی کے عالم میںاپنی منزل کی طر ف لوٹا اور اپنا تھوڑا بہت سامان اٹھا کر نجف اشرف  میں داخل ہوا اور کائنات کے مشکل کشاء حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام سے متوسل ہوا۔

ایک رات میں نے آنحضرت علیہ السلام کو عالم خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا:

پریشان نہ ہو،تم قم جاؤ اور اپنے پیسوں کی تھیلی مرزا ابوالقاسم عالم قمی سے مانگو  وہ تمہیں دے دیں گے۔میں خواب سے بیدار ہوا ور میں نے اس خواب کو اس دن کے عجائب میں سے جانااور میں خود سے کہا کہ میرے پیسوں کی تھیلی عمان کے دریا میں گری ہے اور حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے میری قم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے!

میں نے خود سے کہا:عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد حضرت معصومہ علیھا السلام کی زیارت کی غرض سے قم جاؤں گا اور میں یہ واقعہ میرزا قمی سے بیان کروں گاشاید انہیں اس کا کوئی حل معلوم ہو۔

اسی لئے میں قم آیا اور حضرت فاطمۂ معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے بعد مرحوم مرزا قمی کے گھر گیا اتفاقاً وہ قیلولہ کا وقت تھا اور آپ اپنی بیرونی رہائشگاہ پر تشریف فرما نہیں تھے

۲۲

میں نے ان کے ایک خادم سے کہا:میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے علاقہ سے آیا ہوں :مجھے جناب مرزا قمی سے بہت ضروری کام ہے

خادم نے جواب میں فرمایا:وہ ابھی آرام فرما رہے ہیں۔آپ جائیں اور عصر کے وقت تشریف لائیں ۔

میں نے کہا:میری ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔

خادم نے تند لہجہ میں کہاجاؤ! اندر والا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

میںجسارت کرتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر دستک دی ،اندر سے آواز آئی فلاں شخص صبر کرو میں آتا ہوں اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا ۔پھر وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے کپڑوں سے مجھے پیسوں کی وہی تھیلی نکال کر دی جو عمان کے دریا میں گر  گئی تھی اور مجھ سے فرمایا:میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کو اس واقعہ کی خبر ہو ۔یہ تھیلی لو اور اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔

میں نے مرزا قمی کی دست بوسی کی اور ان سے الوداع کہہ کر اس دن کے اگلے روز اپنے وطن روانہ ہو گیا۔کام کاج اور روزگار کی مصروفیت کے باعث کافی عرصہ میں اس واقعہ کو بھول گیا ۔کچھ عرصہ کے بعد جب میں تھک گیا تو ایک روز میں اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گذشتہ سفر کی روداد سنانے لگا ۔مجھے یہ واقعہ بھی یاد آیا اور میں نے اسے اپنی زوجہ سے بیان کر دیا۔

جب میری زوجہ اس واقعہ سے آگاہ ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا  اور اس نے کہا:جب تم ایسے شخص سے آشنا ہو گئے ہو توتم نے اسی پر اکتفاء کیوں کی  اور تم نے ان کی ملازمت کیوں نہیں کی اور  ان کی ہمنشینی و صحبت کیوں اختیار نہیں کی؟

میں نے کہا:پس مجھے کیا کرنا چاہئے؟

۲۳

اس نے کہا:انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے اور مرنے کے بعد انہی کے مرقد کے ساتھ دفن ہونا چاہئے ۔

میں نے کہا:کیونکہ مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اس لئے میں یہ کام انجام نہ دے سکا ۔اب تو وقت گزر گیا اور میں اس عظیم نعمت سے محروم ہو گیا ہوں۔

اس نے کہا:نہیں !واللہ!اب بھی وقت نہیں گزرا اور تم آسانی سے اس کا جبران کر سکتے ہو۔ کیونکہ قم ایک آباد اور معنوی شہر ہے  اور اگر انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہو جائے تو اس سے نیک  کام اور کیا ہو سکتاہے ۔اٹھو !ہمارے پاس جو کچھ ہے اسے اپنے ساتھ قم لے چلتے ہیں  اور اسے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی حضرت معصومہ علیھا السلام کے روضۂ مطہر کی مجاوری اور اس بزرگ ہستی کی خدمت میں بسر کرتے ہیں۔

میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی تمام جائیداد ،گھر اور زمین وغیرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ  کے ساتھ قم چلا گیا۔جب میں قم میں داخل ہوا تو مجھے خبر ملی کہ مرزا قمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں  اس وقت سے میں نے ان کیقبر کی ملازمت اختیار کر لی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گابلکہ یہ میرے لئے باعث فخرہے۔(1)

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں لیکن ہم نے انہیں انجام دینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔اسی لئے ہم اسے ناممکن کہتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ ممکن ہوتے ہیں  اور وہ واقع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں اور آئندہ بھی واقع ہو سکتے ہیں۔جیسے پیسوں کی وہ تھیلی جو عمان کے دریا میں گر گئی تھی اور جو مرحوم مرزا قمی  نے اپنے کپڑوں سے نکال کر اس کے مالک کو دی۔

۔

--------------

[1] ۔ عبقریّ الحسان: ج۲ص۱۰۰

۲۴

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے جس شخص کیطرف رہنمائی کی تو فرمایا:وہ پیسوں کی تھیلی مرزا ابو القاسم عالم قمی سے مانگو۔یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ایسے افراد کو عالم سمجھتے ہیں؛ حالانکہ آپ دوسر ی طرح سے بھی تعبیر فرما سکتے تھے اور ان کی شہرت کی وجہ سے صرف مرزا قمی کہہ کرہی معرفی کروا سکتے تھے

پس ہمیشہ جستجو اور طلب جاری رکھو تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ خودشناسی تک رسائی حاصل کر سکیں اور کچھ غیر ممکن امور آپ کے لئے ممکن بن سکیں۔جیسا کہ نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کوانسان کی لاشعوری طور پر طلب کرتاہے یا پھر انسان ان سے آگاہ ہوتاہے۔نفس کو کنٹرول کرنا بھی ایسے ہی ہے ۔یعنی اگر انسان چاہے تو اپنے نفس پر قابو پا سکتاہے ،جس طرح انسان اسے بالکل آزاد چھوڑ کر حیوانات سے بھی پست  و بدترہو سکتا ہے۔

آدمی زادہ طرفی معجون است     از ملایک سرشتہ و زحیوان

گر کند  میل این، پس از آن     ور کند میل، شود بہ  از  آن

۲۵

2۔ خودشناسی میں خوف خدا کا کردار

خداوند عالم کی معصیت و مخالفت کا خوف انسان کو ہوا و ہوس  ترک کرنے کی طرف مائل کرتا ہے  جس کے نتیجہ میں انسان کو خود شناسی کا راستہ مل جاتاہے  اور ہدایت کا راستہ فراہم ہو جاتاہے ۔

خداوند متعال کا ارشاد ہے:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوٰی (1)

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے اور جنت انہی کا مقام ہے۔

خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف عقل کی قوت سے ایجاد ہوتاہے انسان جتنا زیادہ عقلمند ہو گا اور اپنی تجربی عقل میں جتنا زیادہ اضافہ کرے گا ،اتنا ہی اس میں خدا کے قوانین کی مخالفت کا خوف زیادہ ہو جائے گا اور وہ اتنا ہی زیادہ ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرے گا۔

--------------

[1]۔ سورۂ نازعات، آیہ:40،41

۲۶

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''قٰاتِلْ هَوٰاکَ بِعَقْلِکَ'' (1)

اپنی ہوا و ہوس کو عقل کے ذریعہ نابود کرو۔

اس بناء پر انسان کی عقل جتنی کامل اور زیادہ ہو گی ،اس میں نفس کی مخالفت اور نفسانی خواہشات کو مارنے کی قدرت  بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اسے بہتر طریقے سے خودشناسی حاصل ہو گی۔

آپ عقل کی قوت سے استفادہ اور تجربی عقل میں اضافہ کے ذریعے اپنے امور اور پروگرام میں اچھی طرح غور وفکر کر سکتے ہیں اور اسے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ تطبیق دے سکتے ہیں۔غور و فکر    سے آپ کی عقلی قدرت کو تقویت ملے گی اور آپ میں خودشناسی اور خودسازی کے لئے آمادگی پیدا ہو گی اور خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف بھی زیادہ ہو گا اور آپ زیادہ قوت و طاقت سے نفس کی مخالفت کر پائیں گے۔

--------------

[1] ۔بحار  الانوار:ج۱ص۱۹۵  اور  ج۷۱ص۴۲۸

۲۷

3۔ اپنے باطن اور ضمیر کو پاک کرنا

ہمیں خودسازی کے لئے نہ صرف اپنے ضمیر کو معارف اہلبیت علیھم السلام سے منور کرنا چاہے  بلکہ اپنے وجود کی گہرائیوں کو دشمنان دین کی چاہت سے بھی پاک کرناچاہئے اور اپنے ضمیر کو اہلبیت ولایت و عصمت علیھم السلام  کے تابناک انوار سے روشن کرنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام خدا کو مخلوق سے تشبیہ دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''لَمْ یَعْقَدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهِ عَلٰی مَعْرِفَتِکَ'' (1)

اپنے پوشیدہ ضمیر کو اپنی معرفت کا پیوند نہیں لگایاہے۔

اس بناء پر انسان کو نہ صرف ظاہری شعور و ضمیر سے آگاہ ہونا چاہئے بلکہغائب اور پوشیدہ ضمیر سے بھی آگاہ ہونا چاہئے ۔خود سازی اور خود شناسی کے لئے انسان کو ضمیر اور شعور کے دونوں مرحلوں کو پاک کرنا چاہئے ۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۷ ص۳۲۰

۲۸

 خودشناسی کے موانع

۱۔ ناپسندیدہ کاموں کی عادت خودشناسی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے:

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہم اپنے وجود میں روحانی طاقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اس سے استفادہ نہ کریں اور اسے برے اور بیکار کاموں کا عادی بنا لیں؟!

مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں سب سے بہترین عبادت ناپسندیدہ اور بری عادتوں پر غلبہ پانا ہے؛کیونکہ کسی بھی کام کا عادی ہو جانا انسان پر فطرت ثانوی کے حاکم ہونے کی مانند ہے ۔

اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام عادت کو فطرت ثانویہ کا نام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اَلْعٰادَةُ طَبْعُ ثٰانٍ'' (1)

عادت فطرت ثانوی ہے۔

اسی لئے جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جائے تو وہی چیز انسان پر حاکمہوجاتی ہے ۔اسی وجہ سے کسی برے اور ناپسندیدہ کام کا عادی شخص اگر خود کو برے کاموں سے نجات دے تو گویا اس نے افضل ترین عبادت انجام دی ہے ۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۱۸۵          

۲۹

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اپنے ایک مختصر کلام میں فرماتے ہیں:

''اَفْضَلُ الْعِبٰادَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

سب سے افضل عبادت عادت پر غالب آنا ہے۔

کیونکہ برے اور ناپسندیدہ کاموں پر غالب آنے سے روحانی کمالات تک پہنچنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور عالی ترین معنوی مقامات تک پہنچنے کا وسیلہ فراہم ہو جاتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''بِغَلَبَةِ الْعٰادٰاتِ أَلْوُصُوْلُ اِلٰی أَشْرَفِ الْمَقٰامٰاتِ'' (2)

عادتوں پر غلبہ پانے سے عظیم مقامات حاصل ہوتے ہیں۔

صرف گناہوں کا عادی ہونا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کا بیہودہ اور ناپسندیدہ کام ترقی  اور زندگی کے دوسرے اہم امور تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔انسان کو چاہئے کہ وہ روحانی قوتوں کے  حصول کے لئے ناپسندیدہ عادتوں کی پیروی سے اجتناب کرے تا کہ کمالات کے عالی مراحل تک پہنچ سکے۔مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیْرُ مُدْرِکِ الدَّرَجٰاتِ مَنْ أَطٰاعَ الْعٰادٰاتِ'' (3)

جو کوئی اپنی عادتوں کی اطاعت کرے ، وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۲ص۳۷۵           

[2] ۔ شرح غرر الحکم: ج۳ص۳۸۲

[3] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۲

۳۰

کیونکہ کوئی بھی عادت انسان کو زنجیر کی طرح قید کر لیتی ہے اور پھر ترقی کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتااور  بلند معنوی درجات تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس بناء پر کمال کے مراحل تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کی بری عادتوں اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنا لازم اور ضروری ہے تا کہ انسان آسانی سے روحانی تکامل تک پہنچ سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیِّرُوا الْعٰادٰاتِ تَسْهُلَ عَلَیْکُمُ الطّٰاعٰاتِ'' (1)

عادتوں کو تبدیل کرو (یعنی بری عادتوں کو ترک کر دو)تا کہ اطاعت(خداوندی) تمہارے لئے آسان ہو سکے۔

اس فرمان سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے خدا کے احکامات کی پیروی کو مشکل بنانے کے لئے شیطان اور نفس کا ایک حربہ انسان کو برے کاموں کا عادی بنا دینا ہے۔اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ احکامات الٰہی کی آسانی سے پیروی کے لئے شیطان اور نفس کے اس حربہ سے ہوشیار  اور باز رہے تا کہ آسانی سے خدا کے احکامات کی پیروی کر سکے اور مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی رہنمائی سے انسانیت کے بلند درجوں تک پہنچ سکے۔

گلی کہ تربیت  ز  دست  باغبان  نگرفت

اگر بہ چشمۂ خورشید سرکشد خود روست

ہر انسان کے پاس بے شمار سرمایہ ہوتاہے کہ جس سے استفادہ کرناچاہئے لیکن بیہودہ اور ناپسندیدہ عادتیں اس سرمایہ کو قید  کر دیتی ہیں جو انسان کی قدرت و توانائی کو مزید قوت و طاقت بخشنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۱

۳۱

بری عادت کا عادی ہو جانے والا انسان ایسے سرمایہ دار شخص کی طرح ہوتاہے کہ جس نے اپنے اموال کو ضائع کر دیا ہو ۔ایسا انسانجب تک اپنے سرمایہ کو آزاد نہ کر الے اسے حسرت و ناامیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جس طرح انسان اپنے سرمایہ اور اموال کو مقید حالت سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح سے اسے خود کو بری عادتوں سے نجات دلانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ۔

لیکن افسوس کہ اب انسانی معاشرے نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی عظیم روحانی توانائیوں کو قید کر رکھا ہے ۔ایک گروہمعاشرے کو صرف مادّی امور میں ہی ترقی دلانے کے لئے کوشاں ہے تو دوسرا گروہ کمزور ممالک کے اموال و وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے ۔حالانکہ یہ سب خود کو انسان دوست اورحقوق بشر کے حامی سمجھتے ہیں!!

۳۲

2۔ خود فراموشی

اگر انسان کے علم کا منبع وحی الٰہی ہوتو اس  کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا اتنی ہی اس کی توجہ پاکسازی اور تہذیب نفس کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ اگر علم کا منبع و سرچشمہ صحیح ہو اور خدا کے لئے علم حاصل کیا جائے تو یہ نفس کی آلودگی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔اسی لئے ہر عالم رباّنی نفس کی مخالفت اور تہذیب  و اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے۔

امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

کُلَّمٰا اَزْدٰادَ عِلْمُ الرِّجٰالِ زٰادَتْ عِنٰایَتُهُ بِنَفْسِهِ وَ بَذَلَ فِْ رِیٰاضَتِهٰا (1)

انسان کا علم جتنا زیادہ ہو  جائے ، اس کی نفس کی طرف توجہ بھی زیادہ ہو جاتی ہے  اور وہ اس کی ریاضت میں زیادہ توجہ کرتا ہے۔

اس بناء پر علم و آگاہی انسان کو خودسازی اور خودشناسی کی دعوت دیتی ہے اور نفس سے مربوط مسائل میں غفلت و فراموشی سے باز رکھتی ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص6۲۱

۳۳

 خودفراموشی کے دو عوامل، جہل اور یاد خدا کو ترک کرنا

خود کو پہچاننے والے افراد کے مقابل میں ایسے بھی افراد ہیں کہ جو نفس کی شگفتگی اور اس کے آثار سے بے خبر ہیں اور انہیں زندگی کے مسائل کی کوئی خبر نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور تہذیب نفس کی کوشش نہیں کرتے۔اسی وجہ سے وہ خود شناسی کی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔

سنگی و گیاہی کہ در اوخاصیتی ھست

زان آدمی بہ ، کہ در او منفعتی نیست

مولائے کائنات حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''مَنْ جَهَلَ نَفْسَهُ أَهْمَلَهٰا'' (1)

جو کوئی اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس بناء پر خود فراموشی کے عوامل میں سے ایک نفس کے حیاتی مسائل سے جہالت اور علم و آگاہی کا نہ ہونا ہے ۔انسان کا علم اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کی روشنی میں جتنا زیادہ ہو گا ،اتنا ہی وہ ان مسائل کی طرف زیادہ متوجہ ہو گا۔

خود فراموشی اور نفس کو بے لگام چھوڑ دینے کی دوسری وجہ گناہ انجام دینا اور خدا  و اولیائے خدا کی یاد کو ترک کرنا ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۷۸

۳۴

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہلبیت  اطہار علیھم السلام کی یاد خدا کی یاد ہے اور ان کو بھلا دینا خدا کو بھلا دینا ہے ۔کیونکہ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''اِذٰا ذُکِرْنٰا ذُکِرَ اللّٰهِ '' (1)

جب ہمیں(خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام ) یاد کیا جائے تو خدا گو یاد کیا گیاہے۔

خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا ،انسان کو زندگی کے اہم مسائل سے غافلکر دیتا ہے اور عظیم معنوی حقائق سے بھی دور کر دیتا ہے  اورا نسان کو خودفراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 اس بارے میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:

(وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ) (2)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں ۔

پس گناہ اور خدا اور خدا کے احکامات کو بھلا دینا انسان کو خود فراموشی میں گرفتار کر دیتاہے۔اس بناء پر خودشناسی کے لئے خودسازی کی کوشش کریں اور خود سازی کے لئے خود فراموشی کو چھوڑیں  اور خودفراموشی کو ترک کرنے کے لئے جہل و نادانی ،خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو  ترک نہ کریں ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج۷۲ ص۲۵۸، اصول  کافی: ج۲ص۱۸6

[2]۔ سورہ  حشر، آیت:۱۹

۳۵

پس علم و دانش اور خدا و اولیائے خدا کی یاد انسان کوخودفراموشی سے  دور رکھتی ہے ۔خود فراموشی کو چھوڑ کر خودسازی تک پہنچ سکتے ہیںاور خودسازی سے خودشناسی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ہی نہ پہچان سکیں تو ہم راہ نجات سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ لَمْ یَعْرِفْ نَفْسَهُ بَعُدَ عَنْ سَبِیْلِ النَّجٰاةِ وَ خَبَطَ فِ الضَّلاٰلِ وَ الْجَهٰالاٰتِ '' (1)

جو کوئی اپنے نفس کو نہ پہچان سکے ،وہ راہ نجات سے دور ہو جائے گا اور گمراہی و جہالت میں مبتلا ہو جائے گا۔

اس وجہ سے خود شناسی اور معرفت نفس کی عظمت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ مَعْرِفَةَ کَمَعْرِفَتِکَ بِنَفْسِک'' (2)

کوئی بھی معرفت تمہارے نفس کی معرفت کی طرح نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۴۲6

[2]۔ بحار الانوار: ج۷۹ص۱6۵، تحف العقول:284

۳۶

 نتیجۂ بحث

روحانی مسائل میں تکامل کے لئے ہمیں خودشناسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔جیسا کہ ہم خاندان وحی علیھم السلام  کی تعلیمات سے سیکھتے ہیں کہ جسے اپنے نفس کی معرفت اور خودشناسی حاصل ہو جائے گویا وہ بلند مقام تک پہنچ کر مفید ترین معارف سے آگاہ ہوا ہے۔

اپنے نفس کو پہچانیں اور اس کی قدرت و طاقت اور توانائیوں سے آگاہی حاصل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ اپنی قوت کو شیاطین کے تسلط سے رہا کریں اور اپنے روحانی سرمایہ کو بیگانوں کے ہاتھوں قید سے نجات دلائیں۔

اپنی روحانی قوت کے حقیقی دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے ساتھ برسر پیکار آنے سے کمالات کے بلند درجوں تک پہنچیں۔ہوا و ہوس اور بے فائدہ زندگی اور بیہودہ کاموں کی عادت روح کے خطرناک ترین دشمن ہیں جو آپ  کی روحانی قوتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔

غور وفکر ، پختہ ارادے ،ہمت،ایمان و یقین اور ایسی ہی دوسری قوتوں کے ذریعے اپنی روح کو ایسے دشمنوں کی قید سے نجات دلائیں اور ان قوتوں کو تقویت دینے سے خودشناسی تک پہنچیں اور روح اور کمال کے بلند درجوں کی طرف پرواز کریں۔

ای نقد اصل و فرع ندانم چہ گوہری؟

کز آسمان بر تر و از خاک کمتری!

۳۷

دوسراباب

معارف  سے  آشنائی

حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :

'' اَلْمَعْرِفَةُ بُرْهٰانُ الْفَضْلِ ''

معرفت ،فضیلت کی دلیل ہے۔

    اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

    معارف کا ایک گوشہ

    معارف کہاں سے سیکھیں

    عارف نما لوگو ں کی شناخت

    عرفاء کی شناخت

    عرفاء کی صفات

    صاحبان معرفت کی صحبت

    عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

    نتیجۂ بحث

۳۸

اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اعتقادات اور معارف کی بحثوں میں سے ایک اہم بحث امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کی معرفت ہے  جوہم سب پر لازم و واجب ہے ۔جہاںتک ہو سکے ہمیں اپنی توانائی کے مطابق آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام اور امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے۔یہ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے ۔اس کا لزوم مسلّم و ثابت ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے زید نامی شخص سے فرمایا:

''اَتَدْرِ بِمٰا اُمِرُوا؟اُمِرُوا بِمَعْرِفَتِنٰا  وَ الرَّدَّ اِلَیْنٰا وَ التَّسْلِیْمِ لَنٰا'' (1)

کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کس چیز کا حکم دیاگیا ہے ؟انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں پہچانیں اور اپنے عقائد کوہماری طرف منسوب کریں اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جائیں۔

اس بناء پر معارف کے باب میں ایک اہم مسئلہ ا نسان کاآئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔معصومین علیھم السلام کے فرامین اور ارشادات میں غور و فکر کریں تا کہ ان ہستیوں کی عظمت کو سمجھ سکیں ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج 2ص۲۰۴

۳۹

آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت میں اضافہ کے لئے ابو بصیر کی ایک بہترین روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

قٰالَ :دَخَلْتُ فِ الْمَسْجِدَ مَعَ اِبِ جَعْفَرٍ علیه السلام وَ النّٰاسُ یَدْخُلُوْنَ  وَ یَخْرُجُوْنَ فَقٰالَ لِی:سَلِ النّٰاسَ هَلْ یَرَوْنَنِ؟فَکُلُّ مَنْ لَقَیْتُهُ قُلْتُ لَهُ :أَرَأَیْتَ أَبٰا جَعْفَرٍ علیه السلام؟فَیَقُوْلُ :لاٰ وَ هُوَ وٰاقِف حَتّٰی دَخَلَ اَبُوْ هٰارُوْنِ الْمَکْفُوْفُ ،قٰالَ:سَلْ هٰذٰا فَقُلْتُ:هَلْ رَأَیْت اَبَا جَعْفَرٍ؟فَقٰالَ أَلَیْسَ هُوَ قٰائِماً ،قٰالَ:وَمٰا عِلْمُکَ؟قٰالَ :وَ کَیْفَ لاٰ أَعْلَمُ وَهُوَ نُوْر سٰاطِع

قٰالَ:وَ سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْاَفْرِیْقِیَّةِ:مٰا حٰالُ رٰاشِدٍ؟

قٰالَ:خَلَّفْتُهُ حَیًّا صٰالِحًا یُقْرِؤُکَ السَّلاٰمُ قٰالَ:رَحِمَهُ اللّٰهُ  

قٰالَ:مٰاتَ؟قٰالَ:نَعَمْ،قٰالَ:وَ مَتٰی؟قَالَ بَعْدَ خُرُوْجِکَ بِیَوْمَیْنِ :

قٰالَ وَاللّٰهِ مٰا مَرَضٍ وَ لاٰ کٰانَ بِهِ عِلَّة قٰالَ:اِنَّمٰا یَمُوْتُ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ مَرَضٍ اَوْ عِلَّةٍقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟قٰالَ:رَجُل کٰانَ لَنٰا مُوٰالِیًا وَ لَنٰا مُحِبًّا

ثُمَّ قٰالَ:لَئِنْ تَرَوْنَ اَنَّهُ لَیْسَ لَنٰا مَعَکُمْ اَعْیُن نٰاظِرَة اَوْاَسْمٰاع سٰامِعَة، لَبِئْسَ مٰا رَأَیْتُمْ ،وَاللّٰهِ لاٰ یَخْفٰی عَلَیْنٰا شَیْئ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ ،فَاحْضِرُوْنٰا جَمِیْعًا وَ عَوِّدُوا اَنْفُسَکُمْ الْخَیْرَ ، وَ کُوْنُوْا مِنْ اَهْلِهِ تُعْرَفُوْا فَاِنِّ بِهٰذٰا اٰمُرُ وُلْدِ وَ شِیْعَتِ''(1)

ابو بصیر کہتے ہیں :میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا جب کہ وہاں پر لوگوں کی رفت و آمد تھی۔

امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:لوگوں سے پوچھو کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟

میں ہر ایک سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے امام باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں۔یہاںتک کہ وہاں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص آیا ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:46،خرائج:ج۲ص۵۹۵ح 7

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

و ما ارسل المرسلين الا مبشرين و منذرين

۲_ انبياعليه‌السلام كا فريضہ يہ نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو ايمان لانے پر مجبور كريںو ما نرسل المرسلين الا مبشرين و منذرين

چونكہ گذشتہ آيات ميں نزول آيات كے تقاضے اور اس كے رد كى بات ہورہى تھي_ لامحالہ يہ سوال پيش آتاہے كہ لوگوں كى ہدايت كے سلسلے ميں انبياعليه‌السلام كى ذمہ دارى كيا ہے ؟ اور كہاں تك ہے ؟ يہ آيت انداز (ڈرانے) اور تبشير (خوشخبرى دينے) ميں انبياعليه‌السلام كا تبليغى فريضہ محدود كرتے ہوئے لوگوں كو ايمان پر مجبور كرنے كو انبيائعليه‌السلام كى ذمہ دارى كى حدود سے باہر قرار ديتى ہے_

۳_ تبليغ كے سلسلے ميں انبياعليه‌السلام كى ذمہ دارى و فرائض كى حدود متعين كرنے والا خداوندعالم ہے_

و ما نرسل المرسلين الا مبشرين و منذرين

۴_ تبليغ كى بنيادى روش، خوف و رجا پيدا كرنا ہے_و ما نرسل المرسلين الا مبشرين و منذرين

۵_ جو لوگ ايمان لاتے ہيں اور نيك اعمال انجام ديتے ہيں وہ نہ اپنے مستقبل كے بارے ميں ڈرتے ہيں اور نہ ہى ماضى پر غمگين ہيں _فمن امن و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون _

غالبا ''خوف'' آئندہ كے ڈر اور ''حزن'' گذشتہ كے غم كے بارے ميں استعمال ہوتاہے_

۶_ نيك اعمال انجام دينے والے مومنين پر نہ خوف و ڈر مسلط ہوتا ہے اور نہ ہى وہ غم و اندوہ ميں گرفتار ہوتے ہيں _

فمن امن و اصلح فلاخوف عليهم و لا هم يحزنون حرف ''على '' كے معانى ميں سے ايك، استيلاء و غلبہ ہے_اس جملہ ميں مؤمنين پر خوف و ڈر كے استيلا و غلبے كى نفى كى گئي ہے_ نہ يہ كہ انھيں كبھى بھى خوف لاحق نہيں ہوتا_ اسى طرح ''لا يحزنون'' ميں مومنين پر حزن و غم كے استمرار كى نفى كى گئي ہے نہ كہ مطلق حزن كى نفى ہے_

۷_ انبياعليه‌السلام پر ايمان لانے كے ساتھ ساتھ نيك عمل انجام دينا، نفسياتى توازن كے سالم رہنے، كى راہ ہموار كرتاہے_

فمن ء امن و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون غم اور ڈر ان افراد كى خصوصيات ميں سے ہے كہ جو نفسياتى توازن و تندرستى سے بہرہ مند نہيں ہيں _ چونكہ خداوندعالم نے ان آيات ميں ، غم و اندوہ سے دور رہنے كا سبب بيان كيا ہے جس سے مذكورہ مفہوم اخذ كيا جا سكتاہے_

۸_ ايمان و يقين، نيك و شائستہ عمل اور قلبى اطمينان و آسودگى رسالت انبياعليه‌السلام كے ثمرات و نتائج ہيں _

۱۴۱

و ما نرسل المرسلين الا فمن امن و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

۹_ انسان كا فطرتاً قلبى اطمينان و اور نفسيانى سكون كى طرف مائل ہونا_

فمن امن و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

رسالت انبياءعليه‌السلام ميں قلبى آسودگى جيسے ثمرات پر بھروسہ كرنا انسانوں ميں اس خواہش كى بنيادوں كى نشاندہى كرتاہے_

آرام و سكون :آرام و سكون كى راہيں ۷; نفسياتى آرام و سكون كى راہيں ۸

اصلاح :اصلاح كے آثار ۵

اطمينان :اطمينان كى راہيں ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياء كا انذار ۱; انبياء كا كردار۸; انبياء كى بشارت ۱; انبياء كى تبليغ ۳; انبياء كى تبليغ كى حدود۱ ; انبياء كى ذمہ دارى كى حدود ۲،۳; انبياء كى خدمات ۸

انسان :انسان كے رجحانات ۹;انسانى فطرت۹

ايمان :آثار ايمان ۵، ۷; انبيا پر ايمان ۷; ايمان اور عمل ۷; ايمان كا متعلق۷; ايمان كے اسباب۸

تبليغ :تبليغ ميں اميد دلانا ۴;تبليغ ميں بشارت دينا ۱ تبليغ ميں ڈر ۴; تبليغ ميں ڈرانا (انذار) ۱ ; روش تبليغ ۴

تندرستى :نفسياتى تندرستى كاسبب ۷

خدا تعالي:افعال خدا ۳

دين :دين ميں جبر كى نفى ۲

رحجانات :امنيت و اطمينان كى طرف ميلان ۹; نفسياتى آسودگى كى طرف ميلان ۹

عمل صالح :نيك عمل كے آثار ۷; نيك عمل كى راہيں ۸

مؤمنين :مؤمنين اور خوف ۵، ۶;مومنين اور غم ۵، ۶ ; مؤمنين كا مستقبل ۵; مؤمنين كے مقامات۵، ۶

نيك لوگ:نيك لوگوں كا مستقبل ۵; نيك لوگ كے مقامات و درجات ۵

ہدايت :ہدايت ميں اختيار ۲

۱۴۲

آیت ۴۹

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ )

اور جن لوگوں نے تكذيب كى انھيں ان كى نافر مانيوں كى وجہ سے عذاب اپنى لپيٹ ميں لے لے گا

۱_ آيات الہى كو جھٹلانے والے عذاب ميں گرفتار ہونگے_والذين كذبوا بآيتنا يمسهم العذاب

۲_ خوف اورغم، آيات الہى كو جھٹلانے والوں كا دنيوى عذاب ہے_

فمن امن و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون والذين كذبوا بآيتنا يمسهم العذاب

مؤمنين سے خوف و غم كى نفى كے بعد، تكذيب كرنے والوں كے ليے عذاب كى بحث چھيڑنا، اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ تكذيب كرنے والوں كا غم اور خوف و ہى ان كے ليے دنيوى عذاب ہے_

۳_ فسق (نافرمانى اور حق كى راہ سے نكلنے) پر ہميشہ قائم رہنا ، عذاب الہى كا موجب بنتاہے_يمسهم العذاب بما كانوا يفسقون جملہء ''كانوا يفسقون'' ماضى استمرار ہے_

يعنى وہ ہميشہ فسق و فجور ميں زندگى گذارتے ہيں _ (الفسق : العصيان و الترك لامر الله عزوجل والخروج عن طريق الحق لسان العرب )

۴_ رسالت انبياعليه‌السلام كو جھٹلانا فسق ہے_و ما نرسل المرسلين الا مبشرين و منذرين و الذين كذبوا بآيتنا يمسهم العذاب بما كانوا يفسقون

۵_ آيات الھى كو جھٹلانے والے فاسق ہيں _والذين كذبوا بآيتنا يمسهم العذاب بما كانوا يفسقون

۶_ فكر و اعتقادات ميں حق سے عدول كرنا، آيات الہى كو جھٹلانے كى راہيں ہموار كرتاہے_

والذين كذبوا بآيتنا يمسهم العذاب بما كانوا يفسقون

۱۴۳

جملہ ''بما كانوا يفسقون'' ہوسكتاہے اس تكذيب (جھٹلانے) كا بيان ہو كہ جسكا نتيجہ عذاب ہے_ يعنى چونكہ وہ فاسق تھے، لہذا تكذيب كرتے تھے_ اور پھر سورہ انعام مكى ہے اور گذشتہ آيات ميں بھى اعتقادات كى بحث گذرى ہے اس سے پتہ چلتاہے كہ يہ فسق، فسق نظرياتيہے نہ عملى _

آيات خدا :آيات خدا كو جھٹلانے كا سبب ۶;آيات خدا كوجھٹلانے والوں كا خوف و ڈر ۲; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا عذاب ۱، ۲; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا غم واندوہ ۲; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا فسق ۵

انبياعليه‌السلام :انبيا كى تكذيب (جھٹلانا) ۴

حق :حق سے روگردانى كے آثار ۶

خدا تعالى :خداتعالى كے عذاب ۳

عذاب :اسباب عذاب ۱، ۳; اہل عذاب ۱; دنيوى عذاب كے اسباب ۲

عصيان :عصيان و نافرمانى كے آثار ۳

عقيدہ :باطل عقيدے كے آثار ۶

فاسقين : ۵

فسق :فسق پر مداومت كے آثار ۳ موارد فسق ۴

۱۴۴

آیت ۵۰

( قُل لاَّ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَاء نُ اللّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلاَ تَتَفَكَّرُونَ )

آپ كہئے كہ ہمارا دعوى يہ نہيں ہے كہ ہمارے پاس خدائي خزانے ہيں يا ہم عالم الغيب ہيں اور نہ ہم يہ كہتے ہيں كہ ہم ملك ہيں _ ہم تو صرف وحى پروردگاركا اتباع كرتے ہيں اور پو چھئے كہ كيا اندھے اور بينا برابر ہو سكتے ہيں آخر تم كيوں نہيں سوچتے ہو

۱_ پيغمبر(ص) كا وظيفہ ہے كہ لوگوں كے ليے اپنے اختيارات اور فرائض بيان كريں _قل ان اتبع الا ما يوحى الي

۲_ پيغمبر(ص) وہ بات زبان سے نہ نكاليں جس سے خداوند عالم كے خزانے پر (آنحضرت(ص) ) كے اختيار كا پتہ چلتاہو_قل لا اقول لكم عندى خزاء ن الله

۳_ دنيا بھر كے خزانے ، خداوند كے ليے مخصوص ہيں اور اسى كے اختيار ميں ہيں _خزاء ن الله

۴_ پيغبر(ص) اپنے علم غيب كا دعوى نہيں كرتے_و لا اعلم الغيب

۵_ پيغمبر(ص) نے كبھى بھي، فرشتہ ہونے كا دعوى نہيں كيا_و لا اقول لكم انى ملك

۶_ بعض لوگوں كى نظر ميں ، خزائن الہى پر اختيار ہونا، علم غيب ركھنا اور فرشتتہ ہونا(ہي) پيغمبرى كى علامت ہے_

قل لا اقول لكم عندى خزاء ن الله و لا اعلم الغيب و لا اقول لكم انى ملك

۷_ مشركين كا پيغمبر(ص) سے غير اصولى تقاضے كرنا اور بے جا

۱۴۵

توقعات ركھنا_قل لا اقول لكم انى ملك

ملك (فرشتہ) ہونے كى نفى اور سے معلوم ہوتاہے كہ لوگوں ميں اس قسم كى توقعات موجود تھيں _

۸_ پيغمبر(ص) اور دينى پيشواؤں كے بارے ميں غلو اور افراط سے بچنے كا لازمى ہونا_قل لا اقول لكم انى ملك

اس قسم كے موارد كى نفى (يعنى فرشتہ ہونے كى نفى و غيرہ) پر پيغمبر(ص) كى ذمہ داري، سب كے ليے ايك دستور اور حكم كى حيثيت ركھتى ہے تا كہ (لوگ) انبيائے الہى كے بارے ميں غلو و افراط كا راستہ نہ اپنائيں اور خدا پر سبقت نہ ليں _

۹_ دينى پيشواؤں اور مبلغين كا فريضہ ہے كہ وہ اپنے بارے ميں لوگوں كے غلو (و افراط) پر مبنى خيالات كے خلاف جنگ ومقابلہ كريں _قل لا اقول لكم انى ملك

پيغمبر(ص) كے ليے، آيت ميں مذكورہ موارد كے اعلان كرنے كا لازمى ہونا_ (بتاتاہے كہ) يہ بات سب دينى پيشواؤوں اور مبلغوں كےلئے ضرورى ہے كہ وہ لوگ كو ان موارد سے آگاہ كريں _

۱۰_ فقط وحى الہي، پيغمبر(ص) كے فرائض كو متعين كرتى ہے_قل لا اقول لكم انى ملك ان اتبع الا ما يوحى الي

۱۱_ پيغمبر(ص) فقط وحى الہى كے تعيين كردہ حدود كے اندر، معجزات پيش كرنے كا اختيار ركھتے ہيں _

قل لا اقول لكم انى ملك اتبع الا ما يوحى الي جملہ ''ان اتبع الا ما يوحي'' اپنے مورد بحث موضوع كى مناسبت سے ہوسكتاہے كہ معجزات پيش كرنے كے ليے ايك حد مقرر كررہاہو_ يعنى ميں فرشتہ اور خزانوں كا مالك نہيں ہوں _ فقط وحى الہى كے تابع ہوں اور جہاں اور جس شكل ميں بھى لازم ہوگا، ميں معجزہ دكھاؤں گا_

۱۲_ پيغمبر(ص) فقط وحى الہى كے تابع ہيں نہ كہ مشركين كے تقاضوں كے_ان اتبع الا ما يوحى الي

۱۳_ انبياعليه‌السلام فقط وحى دريافت كرنے كى وجہ سے دوسروں سے ممتاز ہيں _قل لا اقول لكم ان اتبع الا ما يوحى الي

۱۴_ انبياعليه‌السلام كے فرائض اور قدرت كى حدود سے آگاہ اور لاعلم لوگوں ميں فرق نابينا (اندھے) اور بينا كے فرق جيسا ہے_قل لا اقول لكم انى ملك قل هل يستوى الاعمى والبصير افلا تتفكرون

آيت ميں ''اعمي'' اور ''بصير سے كيا مراد ہے ؟

۱۴۶

يہاں چند احتمالات ہيں _من جملہ يہ كہ جو لوگ،انبيائعليه‌السلام كے فرائض اور قدرت كى حدود بيان ہونے كے بعد، ان حقائق كو قبول كر ليتے ہيں وہ ''بصير'' اور جو لوگ جہالت كى بناپربے جا تقاضے كرتے ہيں وہ ''اعمى ''(اندھے) ہيں _

۱۵_ پيغمبر(ص) سے مشركين كى بے جا توقعات، نادانى و جہالت كا نتيجہ ہيں _

قل لا اقول لكم عندى خزاء ن الله و قل هل يستوى الاعمى و البصير

۱۶_ پيغمبرعليه‌السلام پر ايمان لانے والے مومنين، بينا اورہدايت يافتہ ہيں اور آپ كو(ص) جھٹلانے والے اندھے اور گمراہ ہيں _فمن امن والذين كذبوا قل هل يستوى الاعمى والبصير

چونكہ آيات كا موضوع پيغمبر(ص) كى رسالت كا اثبات ہے_ لہذا كہا جا سكتاہے ''البصير'' سے مراد آنحضرت(ص) پر ايمان لانے والے مؤمنين ہيں اور ''الاعمى '' سے مراد آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والے ہيں _

۱۷_ پيغمبر(ص) بينا اور ہدايت يافتہ ہيں اور مشركين، اندھے اور گمراہ ہيں _فمن امن والذين كذبوا قل هل يستووى الاعمى و البصير

ظاہراً ''البصير'' سے مراد پيغمبر(ص) اور (الاعمى ) سے مراد مشركين ہيں _چونكہ آيت كا موضوع، پيغمبر(ص) پر ايمان لانا ہے، گويا آيت، آنحضرت(ص) پر ايمان كے لزوم كا فلسفہ بيان كررہى ہے_ يعنى جب پيغمبر(ص) بصير ہيں تو دوسروں كو بھى چاہيئے كہ آپ(ص) پيروى كريں _

۱۸_ مشركين كى بے جا توقعات اور نبوت كے بارے ميں انكے غلط تصورات كا اصل سبب ان كا غور وفكر اور تعقل نہ كرنا_قل لا اقول لكم عندى خزاء ن الله افلا تتفكرون

جملہ ''افلا تتفكرون'' اس قسم كى آيات ميں بيان شدہ تمام معارف كے بارے ميں غور و فكر كرنے كى ايك دعوت ہے_

۱۹_ حقائق تك پہنچنے كا (واحد) راستہ غور و فكر سے كام لينا ہے_قل لا اقول لكم عندى خزاء ن الله افلا تتفكرون

۲۰_ پيغمبر(ص) كے فرائض و قدرت كى حدود اور آپ (ص) كے معجزات كے بارے ميں غور كرنے پر خداوند متعال كا ترغيب دلانا_قل لا اقول لكم افلا تتفكرون

آيت كے اہم اور واضح مصاديق ميں سے ايك پيغمبر(ص) كے فرائض اور قدرت كى حدود كا تعين ہے_ كہ جس كے بارے ميں جملہ''افلا تتفكرون'' لوگوں كو غور و فكر كرنےكى دعوت دے رہاہے_

۱۴۷

۲۱_ انبياعليه‌السلام كے فرائض اور قدرت كى حدود كے بارے ميں غور وفكر نہ كرنا اور ان كے بارے ميں خرافات كا قائل ہونا، خداوند عالم كى طرف سے مذمت كا باعث بنتاہے_قل لا اقول لكم عندى خزاء ن الله افلا تتفكرون

۲۲_عن الرضا عليه‌السلام ان رسول الله(ص) لم يكن ليحرم ما احل الله و لا ليحلل ما حرم الله و لا ليغير فراء ض الله و احكامه كان فى ذلك كله متبعا مسلما مؤديا عن الله و ذلك قول الله عزوجل : ''ان اتبع الا ما يوحى الي ... (۱)

امام رضاعليه‌السلام فرماتے ہيں رسول خدا(ص) كبھى بھي، حلال خدا كو حرام ، حرام خدا كو حلال اور احكام الہى كو تبديل كرنے والے نہيں تھے_ بلكہ وہ ان تمام (باتوں ميں ) اتباع كرنے والے اور خداوند عالم كى جانب سے بيان كرنے والے تھے_ اور يہى معنى ہے اس كلام خدا كا كہ''ان اتبع الا ما يوحى الي''

آفرينش :خزائن آفرينش كا مالك ۳

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) اور الہى خزائن ۲; آنحضرت(ص) اور علم غيب ۴; آنحضرت(ص) اور مشركين ۱۲; آنحضرت (ص) كا دعوى ۴،۵;آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والوں كا اندھاپن ۱۶ ; آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والوں كى گمراہى ۱۶ ;آنحضرت(ص) كى اطاعت ۲۲; آنحضرت(ص) كى بصيرت۱۷;آنحضرت كى ذمہ دارى ۱; آنحضرت كى ذمہ دارى كا تعين ۱۰; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى كى محدوديت ۲۰ ، ۲۱،۲۲; آنحضرت(ص) كى سيرت ۱۲;آنحضرت(ص) كى قدرت كى محدوديت ۲۰ ، ۲۱;آنحضرت(ص) كے اختيارات ۱،۱۲

آنحضرت(ص) كے بارے ميں غلو ۸ اطاعت :مشركين كى اطاعت كا ترك كرنا ۱۲

انبياعليه‌السلام :انبياء پر وحي۱۳; انبياء كى ذمہ دارى كى حدود ۱۴ ، انبياء كى قدرت كى حدود ۱۴ ; انبياء كے فضائل ۱۳

بصيرت :اہل بصيرت ۱۶ ،۱۷;اہل بصيرت كى اہميت۱۴

بے جا توقعات :بے جا توقعات كا منشا ۱۸

تشبيہات :اندھوں (نابيناؤں ) سے تشبيہ ۱۰; بينا لوگوں سے تشبيہ ۱۰

تعقل ( غور و فكر ) :آثار تعقل ۱۹; آنحضرت(ص) كے معجزہ ميں تعقل ۲۰; تعقل كرنے كى تشويق ۲۰; تعقل نہ كرنے كے آثار ۱۸; عدم تعقل پر سرزنش ۲۱

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۲ ص ۲۰ ح ۴۵ ب ۳۰، نور الثقلين ج ۱ ص ۷۲۰ ح ۹۱_

۱۴۸

جہالت :جہالت كے آثار ۱۵

حق :حق تك رسائي كا طريقہ ۱۹

خدا تعالى :خدا كى سرزنشيں ۲۱;خدا كى نصيحتيں ۲۰; خدا كے خزانے ۳; خدا كے ساتھ خاص ۳

روايت : ۲۲

رہبرى :دينى رہبرى كے بارے ميں غلو ۸; وظيفہ رہبرى ۹

عقيدہ :خرافات پر مبنى عقيدہ ركھنے پر ملامت ۲۱

علم غيب :علم غيب كى اہميت ۶

علماء :علماء كا مقام و منزلت ۱۴

غلو:غلو كا مقابلہ ۹; غلو كا ممنوع ہونا۷;غلو كے ترك كى اہميت۸

فكر :غلط فكر كا منشاء ۱۸; غلط فكر كے خلاف جنگ ۹

قرآن :تشبيہات قرآن ۱۴

گمراہ لوگ : ۱۶، ۱۷

لوگ (عوام) :لوگوں كى بصيرت و فكر ۶

مبلغين :مبلغين كى مسئوليت ۹

مشركين :مشركين اور آنحضرت(ص) ۷ ، ۱۵; مشركين كا اندھاپن ۱۷; مشركين كا تقاضا ۷; مشركين كى بے جا توقعات ۷ ، ۱۵، ۱۸; مشركين كى جہالت ۱۵; مشركين كى غلط فكر ۱۸ ; مشركين كى گمراہى ۱۷ ;

معجزہ :معجزات دكھانے كى حدود ۱۱

ملائكہ :ملائكہ كے مقامات و درجات ۶

مؤمنين :مؤمنين كى بصيرت ۱۶

نبوت :نبوت كى نشانياں ۶

وحى :وحى كا كردار ۱۰;وحى كى پيروى ۱۲ ہدايت يافتہ لوگ : ۱۶، ۱۷

۱۴۹

آیت ۵۱

( وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُواْ إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ )

اورآپ اس كتاب كے ذريعہ انھيں ڈرائيں جنھيں يہ خوف ہے كہ خدا كے بارگاہ ميں حاضرہوں گے اور اس كے علاوہ كوئي سفارش كرنے والا يا مددگار نہ ہو گا شايد ان ميں خوف خدا پيدا ہو جائے

۱_ وحى اور قرآن كے ذريعے لوگوں كو ڈرانا پيغمبر(ص) كے فرائض ميں سے ہے_و انذر به الذين يخافون

''بہ الذين'' كى ضمير ''ما يوحي'' كى طرف لوٹتى ہے_ اور ''ما يوحي'' سے مراد مطلق وحى ہے اور قرآن اس كا سب سے بڑا اور كامل ترين مصداق ہے_

۲_ ميدان محشر اور بارگاہ خداميں حاضر ہونے سے ڈرنے والوں كے ليے انبياعليه‌السلام كى دعوت و انذار كى قبوليت كا آسان ہونا_و انذر به الذين يخافون ان يحشروا الى ربهم

۳_ قيامت كے دن بارگاہ خدا ميں انسانوں كا جمع ہونا اس كى ربويت كاتقاضا ہے_ان يحشروا الى ربّهم

۴_ پيغمبر(ص) كا وظيفہ ہے كہ وہ قيامت سے ڈرنے والوں پر اپنى تبليغ كے دوران زيادہ سے زيادہ توجہ ديں _

و انذر به الذين يخافون ان يحشروا الى ربّهم

انبياعليه‌السلام كو چاہيئے كہ سب لوگوں كو ڈرائيں _ ليكن ايك گروہ كا انذار (ڈرانے) كے ليے تعارف كرانا، ظاہر كرتاہے كہ تبليغ و انذار ميں ان پر زيادہ توجہ دى گئي ہے_

۵_ تبليغ كے ليے مناسب مواقع كى تلاش كرنے اور اس پر زيادہ سے زيادہ توجہ دينے كى ضرورت ہے_

و انذر به الذين يخافون ان يحشروا الى ربهم

۶_ وحى اور قرآن كا لوگوں كى تبليغ اور انذار كے ليے كافى ہونا_و انذر به

''بہ'' كى ضمير كا مرجع ''قرآن'' ہے_ يعنى قرآن كے ذريعے انذار كرو_ جب انذار كا وسيلہ مشخص

۱۵۰

ہوچكاہے تو لازمى ہے كہ قرآن كو انذار (ڈرانے) كے ليے كافى ہونا چاہيئے_

۷_ لوگوں كو ڈرانے كے ليے وحى اور اس كى تعليمات سے استفادہ كرنا لازمى ہے_و انذر به

انذار (ڈرانے) كے وسيلے كى ياد دلانا اور اسے معين كرنا، ہوسكتاہے يہ اشارہ ہو كہ وحى كى حدود ميں رہتے ہوئے انذار كرنا چاہيئے_

۸_ جس دن سوائے خدا كے اور كوئي مددگار اور شفيع نہيں ہوگا ، اس دن سے ڈرنا انذار انبياعليه‌السلام كو قبول كرنے كى راہ ہموار كرتاہے_و انذر به الذين يخافون ان يحشروا الى ربهم ليس لهم من دونه ولى ولا شفيع

۹_ قيامت كے دن فقط خداوند عالم ہى شفاعت اور مدد كرنے والا ہے_و انذر يخافون ان يحشروا الى ربهم ليس لهم من دونه ولى و لا شفيع

۱۰_ قيامت كے دن سوائے خداوند متعال كے كسى اور مددگار اور شفيع كے نہ ہونے كى جانب توجہ ركھنا، آخرت كے خوف كا موجب بنتاہے_الذين يخافون ليس لهم من دونه ولى و لا شفيع

۱۱_ انذار (ڈرانے) كے مقاصد ميں سے ايك قيامت سے ڈرنے والوں كو، شرك و كفر سے اجتناب كى طرف لے جانا ہے_وانذر به الذين يخافون ان يحشرو الى ربهم لعلهم يتقون

اس آيت ميں ''يتقون'' اصطلاحى تقوى كے معنى ميں نہيں ہے _ بلكہ اس سورہ كى آيات كے مطابق كہ جو كفر اور تكذيب كے بارے ميں ہيں (يتقون) سے مراد كفر اور تكذيب جيسے گناہوں سے اجتناب كرنا ہے_

۱۲_ قيامت كا خوف، آيات الہى كى تكذيب اور كفر سے اجتناب كى راہ ہموار كرتاہے_و انذر به الذين يخافون ان يحشروا لعلهم يتقون

۱۳_ انسان كى تربيت اور عقائد كى اصلاح كے ليے انذار (ڈرانے) سے كام لينے كى ضرورت_و انذر به لعلهم يتقون

۱۴_ تبليغ ميں قيامت كو مد نظر ركھنا اور اس سے متعلق مسائل كى طرف متوجہ كرانا ايك بنيادى و تعميرى عنصر كى حيثيت ركھتاہے_وانذر به الذين يخافون ان يحشروا الى ربهم لعلهم يتقون

۱۵۱

آنحضرت(ص):آنحضرت(ص) كى تبليغ ۴، آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱،۴; آنحضرت(ص) كے ڈراوے۱

آيات خدا :آيات خدا كى تكذيب سے اجتناب ۱۲

ابھارنا :ابھارنے اور ترغيب دلانے كے عوامل ۸، ۱۲

انبياعليه‌السلام :انذار انبياء كو قبول كرنے كا سبب ۸; دعوت انبيا كو قبول كرنے كا سبب ۲

انذار :انذار كرنے كے وسائل ۶;اہميت انذار ۱۳; قبول انذار كى راہ ۲; فلسفہ انذار ۱۱، ۱۳; وحى قرآن كے ذريعے انذار ۶، ۷

انسان :انسان اور قيامت ۳; انسانوں كا اخروى اجتماع ۳; انسانوں كا اخروى حشر ۳

تبليغ :تبليغ كے آلات و ابزار ۶; تبليغ ميں روش كى آگاہى كى اہميت ۵; تبليغ ميں مؤثر عوامل ۱۴; قرآن كے ذريعے تبليغ ۶

تربيت :تربيت كے دوران انذار ۱۳

خداتعالى :خدا كى امداد ۸،۹; خدا كى ربوبيت كے آثار ۳; خدا كى شفاعت ۸،۹،۱۰;خدا كے ساتھ خاص۸، ۹، ۱۰

خوف :حشر سے خوف ۴; حشر سے خوف كے آثار۲،۱۱; حشر سے خوف كے عوامل ۱۰; قيامت سے خوف ۴; قيامت سے خوف كے آثار ۸ ، ۱۱،۱۲

ذكر :ذكر قيامت كى اہميت ۱۴;ذكر قيامت كے آثار ۱۰

شرك :شرك سے اجتناب ۱۱

عقيدہ :عقيدہ كو صحيح كرنے كے عوامل ۱۱، ۱۲، ۱۳

قرآن :قرآن كا كردار ۱، ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيت ۸; قيامت كے دن امداد ۹; قيامت كے دن شفاعت ۹، ۱۰

كفر :كفر سے اجتناب ۱۱; كفر سے اجتناب كى راہ ۱۲

وحى :وحى كا كردار ۱، ۶، ۷

۱۵۲

آیت ۵۲

( وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ )

اور خبردار جو لوگ صبح وشام اپنے خدا كو پكارتے ہيں اور خدا ہى كو مقصود بنا ئے ہوئے ہيں انھيں اپنى نرم سے الگ كيجئے گا _ نہ آپ كے ذمہ ان كا حساب ہے اورنہ ان كے ذمہ آپ كا حساب ہے كہ آپ انھيں دھتكارديں اور اس طرح ظالموں ميں شمار ہو جائيں

۱_ مشركين بعض مومنين كو پيغمبر(ص) كے اطراف سے دور كرنے كے ليے آنحضرت(ص) پر دباؤ ڈالتے تھے_

و لا تطرد الذين يدعون ربهم

۲_ پيغمبر(ص) كے نزديك مومنين كے ايك خاص گروہ كى موجودگى بعض كفار كے ليے ناگوار تھي_

و لا تطرد الذين يدعون ربهم

اس آيت كے ذيل ميں نقل شدہ شان نزول اور پھر آيت كا لہجہ، اصحاب پيغمبر(ص) كى حالت پر گواہ ہے اور ان كے فقر اور اقتصادى و اجتماعى حيثيت نہ ركھنے كى حكايت كررہاہے_ اور يہى بات، مالدار اور صاحب حيثيت كفار كے اعتراضات اور رد عمل كا باعث بنى ہے_

۳_ پيغمبر(ص) كو نہيں چاہيئے كہ وہ مشركين كى خوشنودى كے ليے مومنين كو اپنے آپ سے دور كريں _

و لا تطرد الذين يدعون ربهم

اس آيت كے شان نزول ميں آياہے كہ مشركين ميں سے بعض سركردہ لوگ، پيغمبر(ص) كے حضور اس شرط كے ساتھ حاضر ہونے كو تيار تھے كہ فقير، مسكين اور عام مومنين پيغمبر(ص) كے حضور حاضر نہ ہوں (لہذا) يہ آيات ان كے تقاضے كو رد كرنے كے ليے نازل ہوئي ہيں _

۴_ دينى رہبروں اور مبلغين كو نہيں چاہيئے كہ وہ اپنے پاس سے مسكين اور نادار و افراد كو دور كرديں _

و لا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداوة و العشى يريدون وجهه

۵_ پيغمبر(ص) كے اطراف ، صبح و شام بارگاہ خدا ميں مخلصانہ عبادت و دعا كرنے والے مومنين كا حاضر ہونا_

و لا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداوة و

۱۵۳

العشى يريدون وجهه

۶_ اہل ايمان كو اس طرح تبليغ و انذار نہيں كرنا چاہيئے كہ جو ان كى دورى كا سبب بنے_

و انذر و لا تطرد الذين يدعون ربهم

گذشتہ آيت ميں قيامت سے ڈرنے والوں كو انذار كرنے كى بحث ہورہى تھي_ كہ جس ميں مومنين بھى شامل ہيں اور اس آيت ميں مومنين كو دور كرنے سے روكا گيا ہے_ اسى سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ كيا گيا ہے_

۷_ تبليغ دين كے (مختلف) طريقوں كا دقيق جائزہ لينے اور انكى اہميت كا اندازہ لگانے كى ضرورت ہے_

و انذر به و لا تطرد الذين يدعون ربهم

بعض مفسرين كے بقول آيت ''لا تطرد ...'' گذشتہ آيت پر ايك تبصرہ ہے اس فرض كى بنا پر ہوسكتاہے كہ آيت تبليغ ميں ايك كلى قاعدے كى طرف راہنمائي ہو_ يعنى تبليغ كا ہر طريقہ اپنانے سے پہلے اس كے مختلف پہلوؤں كے بارے ميں تحقيق كرنى چاہيئے تا كہ اس كے احتمالى نقصانات سے بچنے كى ضرورى تدابير كى جاسكيں _

۸_ بارگاہ خدا ميں مخلصانہ دعا اور عبادت كى قدر و منزلتو لا تطرد الذين يدعون ربهم يريدون وجهه

۹_ صبح و شام دعا اور عبادت كے ليے مناسب وقت ہے_يدعون ربهم بالغد وة والعشي

۱۰_ دعا كى حالت ميں ربوبيت خدا كى طرف توجہ كرنا آداب دعا ميں سے ہے_يدعون ربهم بالغدو ة والعشيّ

۱۱_ دعا قرب خدا تك پہنچنے اور اس كى رضا حاصل كرنے كا ايك (بہترين) راستہ ہے_يدعون ربهم يريدون وجهه

''وجہ'' صورت اور چہرے) كے معنى ميں ہے_ چونكہ خداوند عالم كے بارے ميں اس كلمہ كا حقيقى معنى مراد لينا معقول نہيں ہے_ بنابرايں ہوسكتاہے كہ ''يريدون وجھہ'' سے مراد ''يريدون مرضاتہ'' ہو_ چنانچہ اكثر مفسرين نے يہى احتمال ديا ہے_

۱۲_ خداوند متعال كى بارگاہ ميں دعا اور عبادت كرنے والے اس كے نزديك، عزيز اور قابل قدر ہيں خواہ (وہ لوگ) فقير و نادار ہى كيوں نہ ہوں _

و لا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداوة والعشى يريدون وجهه

۱۵۴

۱۳_ پيغمبر(ص) كے گرد كمزور (اور فقير و نادار) مومنين كے اكٹھا ہونے كے ضرر رساں ہونے پر مبنى مشركين كى خير خواہى كى وجہ سے ان (نادار مومنين) كو پيغمبر(ص) كے حضور حاضر ہونے سے محروم نہيں كيا جاسكتا _

ما عليك من حسابهم من شيء و ما من حسابك عليهم من شيء فتطر دهم

''حسابھم'' ہوسكتاہے مصدر اپنے فاعل (ھم) كى جانب مضاف ہو يعنى مومنين اور ان كے فقر و محروميت كے بارے ميں مشركين كا مؤقف_

۱۴_ پيغمبر(ص) كے فرائض ميں يہ شامل نہيں كہ آپ(ص) اپنے پاس آنے والے فقير و نادار مؤمنين كے حاضر ہونے يا نہ ہونے كے اثرات كا اندازہ لگائيں يا (انكے) اعمال كا محاسبہ كريں _

و لا تطرد الذين يدعون ربهم بالغدوة ما عليك من حسابهم من شيئ

''من حسابهم'' كى ضمير كا مرجع، آيت كے اول ميں ذكر ہونے والا موصول ہے اور اس سے مراد وہى فقير و نادار مؤمنين ہيں _ اور ''من'' بنابر قول اہل ادب، زائدہ ہے اور استغراق كا معنى دے رہاہے_ يعنى ان كے كسى عمل كا حساب تجھ سے نہيں (ہوگا) من جملہ پيغمبر كے محضر ميں ان كا حاضر ہونا اور نہ ہونا بھى ہے _

۱۵_ خدا پيغمبر اكرم(ص) كے حضور فقير و مسكين مسلمانوں كى آمد و رفت كو پيغمبر(ص) اور اسلام كے ليے نقصان دہ نہيں سمجھتا_ما عليك من حسابهم من شيئ

''حسابھم'' ميں ضمير كا مرجع ہوسكتاہے معنوى ہو يعنى جو لوگ پيغمبر(ص) كے گرد سے نادار مؤمنين كو دور كرنے كے خواہش مند تھے_ اور ''ما عليك'' سے مراد يہ ہے كہ كفار كے نظريات كى وجہ سے آپ كو كوئي نقصان نہيں پہنچے گا_

۱۶_ مومنين كا فريضہ نہيں ہے كہ وہ دوسروں كے ساتھ پيغمبر(ص) كے طرز عمل كا محاسبہ كريں _

و ما من حسابك عليهم من شيئ

۱۷_ پيغمبر(ص) كو لوگوں كے ساتھ ميل جول ركھنے ميں انكى فقيرى اور اميرى اور پيٹ بھرے و بھوكے كا لحاظ نہيں كرنا چاہيئے_ما عليك من حسابهم من شيء و ما من حسابك عليهم من شيئ

۱۸_ ہر شخص اپنے عمل كا جوابدہ ہے_ما عليك من حسابهم من شيء وما من حسابك عليهم من شيئ

۱۹_ نہ پيغمبر(ص) مشركين اور مخالفين كے عمل و فكر كے جوابدہ ہيں اور نہ ہيمشركين سے پيغمبر(ص) كے عمل كا حساب ليا جائے گا_ما عليك من حسابهم من شيء و ما من حسابك عليهم من شيئ

اس مفہوم ميں ''حسابھم'' اور ''عليھم'' كى

۱۵۵

دونوں ضميروں كا مرجع، مشركين ہيں _ اور ''حسابھم'' ميں مصدر كى اپنے فاعل كى طرف اضافت ہے_ يعنى ''حساب المشركين''

۲۰_ پيغمبر اكرم(ص) كو نہيں چاہيئے كہ وہ اپنے پاس سے فقير و نادار مومنين كو دور كركے، ظالمين كى صف ميں شامل ہوجائيں _فتطردهم فتكون من الظلمين

۲۱_ دينى رہبر اور مبلغين، اپنے پاس سے فقير و نادار مومنين كو دور كرنے كى صورت ميں ظالم (كہلانے كے حق دار) ہيں _فتطردهم فتكون من الظلمين

۲۲_ اجتماعى حيثيت نہ ركھنے كى وجہ سے مومنين كو (اپنے آپ سے) دور كرنا ظلم ہے_فتطردهم فتكون من الظلمين

۲۳_ جو لوگ پيغمبر(ص) سے نادار و ضعيف مؤمنين كو دور ركھنے كے خواہاں تھے وہ ظالم ہيں _فتطردهم فتكون من الظلمين ''الظالمين'' كا ال اگر ''عھدكا '' ہو تو آيت ميں مذكور افرادكو ( دور كرنے كا تقاضا كرنے والوں ) كے ليے ''ظالم'' كا عنوان انتخاب كرنا، ان كے ظالم ہونے كى تصريح ہے_

۲۴_ غلط بنياد پر قدروں كا تعين كرتے ہوئے اجتماعى روابط ميں تبعيض كرنا ظلم ہے_

فتطردهم فتكون من الظلمين

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) اور صحابہ ۳ ; آنحضرت(ص) اور فقير و نادار صحابہ ۱۴ ; آنحضرت(ص) اور مشركين ۳; آنحضرت(ص) كا عمل ۱۹; آنحضرت كى تاريخ ۱۵ ; آنحضرت كى ذمہ دارى ۳، ۱۳، ۱۷، ۲۰ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى كى حدود ۱۴ ; ۱۹ ; آنحضرت(ص) كے عمل كا حساب ۱۶

اجتماعى حيثيت :اجتماعى حيثيت سے محروم لوگ ۲۲

اجتماعى روابط :اجتماعى روابط ميں تبعيض ۲۴

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۲۳

انذار :روش انذار ۶

تبليغ :تبليغ كى قدر و منزلت كا تعين ۷; روش تبليغ ۶

تقرب :تقرب كے علل و اسباب ۱۱

۱۵۶

خدا تعالى :رضائے خدا حاصل كرنے كا طريقہ ۱۱

دعا :دعا كا وقت ۹;دعا كى اہميت۸;دعا ميں اخلاص ۸

دين :تبليغ دين كى روش ۷

ذكر :ربوبيت خدا كا ذكر ۱۰

رہبرى :دينى رہبرى كى ذمہ داري۴، ۲۱;رہبرى كى ذمہ داري۱۷

صحابہ :صحابہ كا دوركيا جانا ۱، ۳; فقير و نادار صحابہ ۱۵; مناجات صحابہ ۵; نادار صحابہ كا دور كيا جانا ۱۳، ۲۰

ظالمين : ۲۰، ۲۱، ۲۳

ظلم :موارد ظلم ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۴

عمل :عمل كا حساب ہونا ۱۴; عمل كا ذمہ دار ۱۸

قدريں :قدروں كا معيار ۱۲، ۱۷

قدروں كا تعين :قدروں كا غلط تعين ۲۴

قدرو قيمت كامعيار:ثروت كے مطابق قدر و منزلت تعين كرنا ۱۷; فقر كے مطابق قدر و قيمت معين كرنا ۱۷

كفار :صدر اسلام كے كفار كا ناخوش ہونا ۲

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى ۴، ۲۱

مستضعفين ( كمزور افراد ) :مستضعفين كو دور كرنا ۴; مستضعفين كى شخصيت كا لحاظ ۴

مشركين :مشركين اور آنحضرت ۱; مشركين اور صحابہ۱; مشركين كا عقيدہ ۱۹ ; مشركين كا عمل ۱۹ ;مشركين كى ذمہ دارى كى حدود ۱۹ ; مشركين كى خيرخواہى ۱۲ ; مشركين كى فكر ۱۳; مشركين كے طور طريقے ۱

معاشرت :لوگوں سے ميل ملاپ ۱۷

مناجات :رات كے وقت مناجات ۵، ۹; صبح كے وقت مناجات ۵، ۹; مناجات كى اہميت ۱۲، مناجات

۱۵۷

كے آثار ۱۱; مناجات كے آداب ۱۰;مناجات ميں ذكر خدا ۱۰

مناجات كرنے والے :مناجات كرنے والوں كا مقام و درجہ ۱۲

مومنين :مومنين كو انذار ۱۶; فقير مؤمنين كو دور كرنا ۲۳;

مومنين اور آنحضرت(ص) ۱۶ ; مومنين كو تبليغ ۶ ;مومنين كو دور كرنا ۶ ; ۶ ، ۲۲; مومنين كو دور كرنے كے نتايج ۲۰ ، ۲۲; مومنين كى ذمہ دارى كى حدود ۱۶ ; مومنين كى شخصيت كا لحاظ ركھنے كى اہميت ۳; مومنين كى شخصيت كى حفاظت ۲۰ ،۲۲

نقصان:نقصان و ضرر كا معيار

آیت ۵۳

( وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولواْ أَهَـؤُلاء مَنَّ اللّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ )

اور اسى طرح ہم نے بعض كو بعض كے ذريعہ آزمايا ہے تا كہ وہ يہ كہيں كہ يہى لوگ ہيں جن پر خدا نے ہمارے در ميان فضل و كرم كيا ہے اور كيا وہ اپنے شكر گذار بندوں كو بھى نہيں جانتا

۱_ خدا، معاشرے كے مختلف گروہوں اور طبقات كو ايك دوسرے كے ذريعے آزماتاہے_

و كذلك فتنا بعضهم ببعض

۲_ پيغمبر(ص) كے ہمراہ نادار مؤمنين كا ہونا، دوسروں كى آزمائش كا ايك وسيلہ ہے_و لا تطرد الذين يدعون ربهم و كذلك فتنا بعضهم ببعض

۳_ اجتماعى مقام و حيثيت سے محروم نادار مومنين، دوسرے لوگوں كى آزمائش كا وسيلہ ہيں _

ولا تطرد الذين يدعون ربهم و كذلك فتنا بعضهم ببعض

۴_ خداوند كى بارگاہ ميں ، نادار اور ضعيف مومنين كى قدر و منزلت اور عزت كا، مالدار اور قدرت مند لوگوں كى طرف سے مذاق اڑايا جانا_ليقولوا اهولاء منّ الله عليهم من بيننا

۱۵۸

۵_ صدر اسلام ميں مكہ كے وڈيرے تہى دست مومنين كو حقارت كى نظر سے ديكھتے تھے_

اهولا منّ الله عليهم من بيننا

۶_ امرا اور دولت مند لوگ فقط اپنے آپ كو خداوندعالم كے نزديك قابل عزت اور عزيز سمجھتے ہيں _

ليقولوا اهولاء منّ الله عليهم من بيننا

۷_ مومنين اجتماعى حيثيت سے محروم اور فقير ہونے كے باوجود خداوندعالم كے نزديك صاحب عزت ہيں _

اهولا منّ الله عليهم من بيننا

۸_ نادار و فقير مؤمنين كى عزت كا انكار، مشرك دولتمندوں سے آزمائش الہى كا نتيجہ ہے_و كذلك فتنا بعضهم ببعض ليقولو اهو لاء من الله عليهم من بيننا ''ليقولوا '' ميں ''ل'' ايك نظريئے كے مطابق، ''لام عاقبت'' اور ''فتنا'' كے نيتجے كا بيان ہے، مندرجہ بالا مفہوم اسى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۹_ اسلام اور ايمان، خداوندعالم كى جانب سے ايك عظيم نعمت اور رحمت ہے_اهولاء منّ الله عليهم من بيننا

''منّّ'' لغت ميں ''انعم'' كے معنى ميں آيا ہے ''منّ عليه منّا '' انعم'' (قاموس اللغة) اگر چہ يہ جملہ مشركين كے قول كى حكايت ہے ليكن قرآن نے اسے نقل كيا ہے اوراسے ردّ نہيں كيا، بنابرايں اسلام اور ايمان ايك خصوصى اور بلند پايہ نعمت ہے كہ جو خداوندعالم نے مومنين كو عطا فرمائي ہے_

۱۰_ خداوندعالم وسروں كى نسبت اپنى نعمتوں پر شكر بجا لانے والوں سے زيادہ آگاہ ہے_اليس الله باعلم بالشكرين

۱۱_ خداوند عالم كے نزديك عزت و تكريم كا معيار، شكر ہے_

ليقولوا اهو لاء منّ الله عليهم من بيننا اليس الله باعلم بالشكرين

۱۲_ مومنين پيغمبر(ص) اور الہى قانون پر ايمان لاكرنعمت ہدايت كا شكر بجا لاتے ہيں _

اهولاء منّ الله عليهم اليس الله باعلم بالشكرين

۱۳_ خدا كى بارگاہ ميں ايمان اور مخلصانہ دعا و مناجات، شكر گذارى ہے_

و لا تطرد الذين يدعون ربهم بالغدوة و العشى يريدون وجهه اليس الله باعلم بالشكرين

۱۴_ تہى دست افراد اور معاشرے كے نچلے طبقات ميں ايمان اور دعوت پيغمبر(ص) قبول كرنے كى زيادہ صلاحيت ہے_ولا تطرد الذين يدعون ربهم اليس الله باعلم بالشكرين

۱۵۹

آنحضرت-:آنحضرت(ص) كى دعوت قبول كرنے كى راہ۱۴

اجتماعى حيثيت :اجتماعى حيثيت سے محروم لوگ ۳، ۷

اجتماعى طبقات : ۱۴اجتماعى گروہ :اجتماعى گروہوں كا امتحان ۱

اسلام :تاريخ صدر اسلا م ۵ ; نعمت اسلام ۹

اقدار:اقدار كا معيار ۶ ،۷،۱۱

امرائ:امراء كا تعجب ۶; امراء كا قدريں معين كرنا ۶; امرا ء كا مذاق كرنا۴ ;مشرك امراكا امتحان ۸

امراء مكہ:امراء مكہ كے طور طريقے ۵

امتحان :امتحان كے آثار ۸ امتحان كے وسائل ۱، ۲، ۳

ايمان :آثار ايمان ۱۳; آنحضرت(ص) پر ايمان ۱۲; اسلام پر ايمان ۱۲; دين پر ايمان ۱۲ ; متعلق ايمان ۱۲; مقدمات ايمان۱۴; نعمت ايمان ۹

خدا تعالى :امتحان خدا ۱; خدا كى نعمتيں ۹، ۱۰، ۱۲;رحمت خدا كے درجات ۹; علم خدا ۱۰

دعا :مخلصانہ دعا ۱۳

شاكرين : ۱۰، ۱۲شكر :اہميت شكر ۱۱; نعمت شكر ۱۰; نعمت شكر كے موارد ۱۳

صحابہ :فقير صحابہ ۲فقرا:فقرا كا ايمان ۱۴

مناجات :مخلصانہ مناجات ۱۳

مؤمنين :فقير مومنين ۳، ۷، ۸; فقير مومنين كا مذاق ۴; فقير مومنين كى تحقير ۵; فقير مومنين كى قدر و منزلت ۴; مؤمنين كا نعمت پر شكر، ۱۲ ;مومنين كے فضائل كا انكار ۴، ۸;مومنين كے مقامات و درجات ۷

نعمت :نعمت كے درجات ۹

ہدايت :نعمت ہدايت ۱۲

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744