تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167163 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مبطلات نماز کے احکام:

بات کرنا:

١۔اگر نماز گزار عمداًکوئی لفظ کہیز اور اس کے ذریعہ کسی معنی کو پہنچاناچاہے تو اس کی نماز باطل ہے۔(١)

٢۔اگر نماز گزار عمداًکوئی لفظ کہے اور یہ لفظ دویا دوسے زائد حروف پر مشتمل ہو، اگرچہ اس کے ذریعہ کسی معنی کو پہنچانا مقصدنہ ہو، احتیاط واجب کی بناپر اسے نماز دوبارہ پڑھنی چاہئے۔(٢) ٭٭

٣۔نماز میں کسی کو سلام نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر کسی نے نماز گزار کوسلام کیا تو واجب ہے اس کا جواب دیدے اور چاہئے کہ سلام کو مقدم قراردے.مثلاً کہے:

''السلام علیک'' یا'' السلام علیکم''''علیکم السلام''نہ کہے.(٣) ٭٭٭

____________________

(١)توضیح المسائل،ص١٥٤

(٢) توضیح المسائل،م ١٥٤.

(٣) توضیح المسائل،م١١٣٧.

*(گلپائیگانی، اراکی) اگر وہ لفظ دوحرف یا اس سے زیادہ ہوتو (توضیح المسائل ص ١٩٩)

٭٭(خوئی) اس کی نماز باطل نہیں ہے لیکن نماز کے بعد سجدہ سہو بجالانا لازم ہے (مسئلہ ١١٤١)

٭٭٭(اراکی۔ گلپائیگانی) اسی صورت میں جواب دینا چاہئے جیسے اس نے سلام کیا ہو لیکن''علیکم السلام''کے جواب میں ''سلام علیکم'' کہنا چاہئے(مسئلہ١١٤٦)،(خوئی) احتیاط واجب کی بناء پر اسی صورت میں جواب دینا چاہئے کہ جیسے اس نے سلام کیا ہو لیکن'' علیکم السلام'' کے جواب میں جس طرح چاہے جواب دے سکتا ہے۔

۱۴۱

ہنسنا اور رونا :

١۔اگر نماز گزار عمداً قہقہہ لگاکر ہنسے، تو اس کی نماز باطل ہے۔

٢۔مسکرانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

٣۔اگر نماز گزار کسی دنیوی کام کے لئے عمداًآواز کے ساتھ ،روئے تو اس کی نماز باطل ہے۔

٤۔آواز کے بغیررونے، خوف خدا یا آخرت کے لئے رونے سے، اگرچہ آواز کے ساتھ ہو، نماز باطل نہیں ہوتی*(١)

قبلہ کی طرف سے رخ موڑنا:

١۔اگر عمداًاس درجہ قبلہ سے رخ موڑ لے کہ کہا جائے وہ قبلہ رخ نہیں ہے، تو نماز باطل ہے۔

٢۔ اگر بھولے سے پورے رخ کو قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف موڑلے ٭٭، تواحتیاط واجب ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے، لیکن اگر پوری طرح قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف منحرف نہ ہوا ہو تو نماز صحیح ہے۔(٢)

نماز کی حالت کو توڑنا:

١۔اگر نماز گزار نماز کے دوران کوئی ایسا کام انجام دے جس سے نماز کی اتصالی حالت (ہیئت) ٹوٹ جائے ،مثلاًمبطلات نماز کا ساتواں اور آٹھواں نمبر، تالی بجانا اور اچھل کود کرنا وغیرہ، اگرچہ سہواً بھی ایسا کام انجام دے تو نماز باطل ہے۔(٣)

٢۔اگر نماز کے دوران اس قدر خاموش ہوجائے کہ دیکھنے والے یہ کہیں کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز باطل ہے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١٥٦مبطلات نماز کا ساتواں اور آٹھواں نمبر.

(٢)توضیح المسائل،م ١١٣١ (٣) توضیح المسائل،م ١١٥٦.نویں مبطلات نماز

(٤) توضیح المسائل،م ١١٥٢.

*(تمام مراجع)احتیاط واجب ہے کہ دنیوی کام کے لئے آواز کے بغیر بھی نہ روئے، (توضیح المسائل ص ٢٠٩)

٭٭(گلپائیگانی) اگر سر کو قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف موڑلے اور عمدا ہویا سہواًنماز باطل نہیں ہوگی۔ لیکن مکروہ ہے.(م١١٤٠)

۱۴۲

٣۔واجب نماز کو توڑنا حرام ہے،مگر مجبوری کے عالم میں،جیسے درج ذیل مواقع پر:

*حفظ جان۔

*حفظ مال۔

*مالی اور جانی ضرر کو روکنے کے لئے۔

٤۔قرض کو ادا کرنے کے لئے نماز کو درج ذیل شرائط میں توڑ دے تو کوئی حرج نہیں :

*قرضدار، قرض کو لینا چاہتا ہو۔

*نماز کا وقت تنگ نہ ہو،یعنی قرض ادا کرنے کے بعد نماز کو بصورت ادا پڑھ سکے۔

*نماز کی حالت میں قرض کو ادا نہ کرسکتا ہو۔(١)

٥۔ بے اہمیت مال کے لئے نماز کو توڑنا مکروہ ہے۔(٢)

وہ چیزیں جو نماز میں مکروہ ہیں:

١۔ آنکھیں بندکرنا۔

٢۔ انگلیوں اور ہاتھوں سے کھیلنا۔

٣۔حمد یا سورہ یاذکر پڑھتے ہوئے، کسی کی بات سننے کے لئے خاموش رہنا.

٤۔ہروہ کام انجام دینا جو خضوع وخشوع کو توڑنے کا سبب بنے۔

٥۔رخ کو تھوڑاسا دائیں یا بائیں پھیرنا (چونکہ زیادہ پھیرنا نماز کو باطل کرتا ہے )۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١١٥٩ تا ١١٦١.

(٢)توضیح المسائل،م ١١٦٠.

(٣) توضیح المسائل،م ١١٥٧

۱۴۳

سبق ٢١: کا خلاصہ

١۔درج ذیل امور نماز کو باطل کردیتے ہیں:

*کھانا اور پینا.

*بات کرنا.

*ہنسنا.

*رونا.

*قبلہ سے رخ موڑنا۔

*ارکان نماز میں کمی و بیشی کرنا۔

نماز کی حالت کو توڑنا ۔

٢۔نماز میں بات کرنا، اگرچہ دوحرف والا ایک لفظ بھی ہو، نماز کو باطل کردیتا ہے.

٣۔قہقہہ لگا کر ہنسنا نماز کو باطل کردیتا ہے۔

٤۔بلند آواز میں دنیوی امور کے لئے رونا نماز کو باطل کردیتا ہے۔

٥۔اگر نماز گزار اپنے رخ کو پوری طرح دائیں یا بائیں طرف موڑلے یا پشت بہ قبلہ کرے تو نماز باطل ہوجائے گی۔

٦۔ اگر نماز گزار ایسا کام کرے جس سے نماز کی حالت (ہیئت) ٹوٹ جائے تو،نماز باطل ہے۔

٧۔حفظ جان ومال اور قرض کو ادا کرنے کے لئے، جب قرضدار قرض کا تقاضا کرے اور وقت نماز میں وسعت ہو اور نماز کی حالت میں قرض ادانہ کرسکتا ہو،نماز کو توڑنا اشکال نہیں ہے۔

۱۴۴

سوالات:

١۔ کن امور سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟

٢۔ اگر کوئی شخص نماز گزار کو نماز کی حالت میں سلام کرے تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٣۔ کس طرح کا ہنسنا اور رونا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

٤۔اگر نماز گزار متوجہ ہوجائے کہ ایک بچہ بخاری (ہیٹر سے مشابہ ایک چیز ہے) کے نزدیک جارہا ہے اور ممکن ہے اس کا بدن جل جائے، کیا نماز کو توڑ سکتا ہے؟

٥۔ایک مسافر نماز کی حالت میں متوجہ ہوتا ہے کہ ریل گاڑی حرکت کرنے کے لئے تیار ہے کیا وہ ریل کو پکڑنے کے لئے نماز کو توڑسکتا ہے؟

۱۴۵

سبق نمبر ٢٢

اذان، اقامت اور نماز کا ترجمہ

اذان واقامت کا ترجمہ:

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خدا سب سے بڑاہے۔

*اَشْهَدُاَنْ لَاْاِلٰهَ اِلاّ اللّٰه

میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔

*اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰهِ

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پیغمبر ہیں

*اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ وَلِیُّ اللّٰهِ ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ علی علیہ السلام مومنوں کے امیر اور لوگوں پر خدا کے ولی ہیں۔

*حَیَّ عَلَی الصَّلوٰةِ

نماز کی طرف جلدی کرو

*حَیَّ عَلَی الْفَلاٰحِ.

کامیابی کی طرف جلدی کرو۔

*حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ

بہترین کام کی طرف جلدی کرو۔

*قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰة

نماز قائم ہوگئی

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خدا سب سے بڑاہے۔

*لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه

پروردگار عالم کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔

۱۴۶

نماز کا ترجمہ:

تکبیرة الاحرام:

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خداسب سے بڑاہے۔

حمد:

*بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں

*الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ٭

سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والاہے۔

* الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ ٭

وہ عظیم اور دائمی رحمتوں والا ہے۔

* مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ ٭

روز قیامت کا مالک ومختار ہے۔

* ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ٭

پروردگارا. ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں:

*اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ٭صِرَاطَ الَّذِینَ َنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ٭

ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ،جوان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں.

* غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ (٭)

ان کا راستہ نہیں، جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں:

۱۴۷

سورہ:

* بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں

* قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَد ٭

اے رسول:! کہدیجئے کہ اللہ ایک ہے۔

* اَللّٰهُ الصَّمَدُ٭

اللہ برحق اور بے نیاز ہے۔

* لَمْ یَلِدُ وَلَمْ یُوْلَدْ٭

اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد۔

* وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً اَحَدُ.

اور نہ اس کا کوئی کفووہمسر ہے۔

ذکر رکوع:

* سُبْحَانَ رَبیَّ العظیم وَبِحَمْدِه

اپنے پروردگار کی ستائس کرتاہوں اور اسے آراستہ جانتاہوں۔

ذکر سجود:

* سُبْحَانَ رَبیَّ الْاَعْلٰی وَبِحَمْدِه

اپنے پروردگار کی (جو سب سے بلند ہے)ستائش کرتا ہوں اور آراستہ جانتا ہوں

تسبیحات اربعہ:

* سُبْحٰانَ اللّٰه وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاٰ اِلَهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَر

خداوند عالم پاک اور منزہ ہے، تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں پروردگار عالم کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور خدا سب سے بڑا ہے۔

۱۴۸

تشہد:

*''أَشْهَدُ أَنْ لاٰاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰشَریْکَ لَه

میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

*وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُهُ وَرَسُوْلُهْ.

اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندہ اور خدا کا بھیجاہوا( رسول) ہے۔

* أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ''.

خداوندا!: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے خاندان پر درود بھیج۔

سلام:

* اَلْسّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّهَاْ اْلنَبِیُّ وَرَحْمَةُ اْﷲِ وَ بَرَکَاْتُه.

درود اور خدا کی رحمت وبرکات ہو آپ پراے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !

* اَلْسّلَاَمُ عَلَیْنَاْ وَ عَلٰی عِبَاْدِ اْللّٰهِ اْلصَّاْلِحِیْنَ

درود و سلام ہو ہم (نماز گزاروں)پر اور خدا کے شائستہ بندوں پر۔

* اَلسّلَاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اْللّٰهِ وَ بَرکَاْتُه.

سلام اور خدا کی رحمت و برکت آپ پر ہو۔

۱۴۹

سوالات:

١۔اس جملہ کا ترجمہ کیجئے جو اقامت میں موجود ہے لیکن اذان میں نہیں ہے؟

٢۔تسبیحات اربعہ کا ترجمہ کیجئے؟

٣۔سبق میں مذکررہ سورہ کے علاوہ قرآن مجید سے ایک چھوٹے سورہ کو انتخاب کرکے اس کا ترجمہ کیجئے؟

٤۔نماز کے پہلے اور آخری جملہ کا ترجمہ کیا ہے؟

٥۔تکراری جملوں کو حذف کرنے کے بعد نماز کے کل جملوں کی تعداد (اذان واقامت کے علاوہ) کتنی ہے؟

۱۵۰

سبق نمبر٢٣، ٢٤

شکیات نماز

بعض اوقات ممکن ہے نماز گزار، نماز کے کسی حصے کوانجام دینے کے بارے میں شک کرے، مثلاً نہیں جانتا کہ اس نے تشہد پڑھا ہے یا نہیں، ایک سجدہ بجا لایا ہے یا دو سجدے،بعض اوقات نماز کی رکعتوں میں شک کرتا ہے، مثلاً نہیں جانتا اس وقت تیسری رکعت پڑھ رہاہے یا چو تھی۔

نماز میں شک کے بارے میں کچھ خاص احکام ہیں اور ان سب کا اس مختصر کتاب میں بیان کرنا امکان سے خارج ہے، لیکن خلاصہ کے طور پر اقسام شک اور ان کے احکام بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

نماز میں شک کی قسمیں(١) :

١۔نمازکے اجزاء میں شک:

الف: اگر نمازکے اجزاء کو بجالانے میں شک کرے، یعنی نہیں جانتا ہوکہ اس جزء کو بجالایا ہے یا نہیں، اگر اس کے بعد والاجزء ابھی شروع نہ کیا ہو، یعنی ابھی فراموش شدہ جزء کی جگہ سے نہ گزرا ہوتو اسے بجالانا چاہئے۔ لیکن اگر دوسرے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک پیش آئے، یعنی محل شک جزء کی جگہ سے گزر گیا ہو ، تو ایسے شک پر اعتبار کئے بغیر نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ١٩٨و ٢٠٠

۱۵۱

ب: اگر نماز کے کسی جزء کے صحیح ہونے میں شک کرے، یعنی نہ جانتاہوکہ نماز کے جس جزء کو بجالایا ہے، صحیح بجالایاہے،یا نہیں، اس صورت میں شک کے بارے میں اعتنا نہ کرے اور اس جزء کو صحیح مان کر نماز جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

٢۔ رکعتوں میں شکز

وہ شک جو نماز کو باطل کرتے ہیں() :

١۔ اگر دورکعتی یاسہ رکعتی نماز جیسے صبج کی نماز یا مغرب کی نماز میں، رکعتوں میں شک پیش آئے تو نماز باطل ہے۔

٢۔ ایک اور ایک سے زیادہ رکعتوں میں شک کرنا، یعنی اگر شک کرے ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ،نماز باطل ہے۔

٣۔ اگر نماز کے دوران یہ نہ جانتا ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہے تو اسکی نماز باطل ہے۔

*وہ شک جن کی پروانہ کرنی چاہئے:(٢)

١۔مستحبی نمازوں میں

٢۔ نماز جماعت میں ۔ ان دونوں کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

٣۔ سلام کے بعد اگر نماز تمام کرنے کے بعد اس کی رکعتوں یا اجزاء میں شک ہوجائے تو ضروری نہیں ہے، نماز کو دوبارہ پڑھیں۔

٤۔ اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ نماز پڑھی یا نہیں؟ تو نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م١١٦٥.

(٢)توضیح المسائل م١١٦٨.

*نماز کی رکعتوں میں شک کے اور مواقع ہیں چونکہ ان کا اتفاق کم ہوتاہے لہٰذا ان کے بیان سے چشم پوشی کرتے ہیں مزید وضاحت کے لئے توضیح المسائل ١١٦٥ تا١٢٠٠ ملاحظہ کیجئے.

۱۵۲

چار رکعتی نماز میں شک(١)

شک = قیام کی حالت میں=رکوع میں =رکوع کے بعد =سجدہ میں =سجدوں کے بعد بیٹھنے کی حالت میں=نمازصحیح ہونے پر نماز گزار کا فریضہ

٢اور ٣ میں شک =باطل =باطل =باطل =باطل *=صحیح =تین پربنا رکھ کر اور ایک رکعت نماز پڑھے اور سلام پھیرنےکے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر بجالائے۔(٭٭)

٢اور ٤ میں شک=باطل =باطل =باطل =باطل =صحیح =چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

٣اور ٤ میں شک =صحیح =صحیح =صحیح=صحیح =صحیح =چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرنے کے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دور کعت بیٹھ کر بجالائے۔

٤ اور ٥ میں شک =صحیح =باطل=باطل=باطل=صحیح =اگر قیام کی حالت میں شک پیش آئے، رکوع کئے بغیر بیٹھ جائے

او ر نماز تمام کرکے ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔٭٭٭اور اگر بیٹھے ہوئے

شک پیش آئے تو چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرکے دو سجدہ سہو بجالائے۔

____________________

(١) تو ضیح المسائل ،م ١١٩٩، العروة الوثقیٰ ج٢س ٢٠ م ٣.

*حضرت آیت اللہ خوئی کے فتوی کے مطابق اگر ذکر سجدہ کے بعد شک پیش آئے اور حضرت آیت اللہ گلپائیگانی کے فتوی کے مطابق اگر شک ذکر واجب کے بعد پیش آئے تو شک کا حکم وہی ہے جو بیٹھنے کی حالت میں ہے.(مسئلہ ١١٩٩)

٭٭(اراکی ۔ خوئی) احتیاط واجب کی بنابر پر کھڑے ہو کر پڑھے (م١١٩١) (گلپائیگانی )ایک رکعت کھڑے ہو کر پڑھے۔ (م١٢٠٨)

٭٭٭(گلپائیگانی)اس صورت میں احتیاط لازم ہے کہ نماز کے بعد احتیاط کے طور پر دو سجدہ سہو بجالائے۔(مسئلہ ١٢٠٨)

۱۵۳

یاددہانی:

١۔ جو کچھ نماز میں پڑھا یا انجام دیا جاتاہے وہ نماز کا حصہ یاایک جزء ہے۔

٢۔ اگر نماز گزار شک کرے کہ نماز کے کسی جزء کو پڑھا ہے یا نہیں، مثلا ًشک کرے کہ دوسرا سجدہ بجالایا ہے یا نہیں، اگر دوسرے جزء میں داخل نہ ہوا ہو تو اس جزو کو بجالانا چاہئے، لیکن اگر بعد والے جزو میں داخل ہوا ہو تو شک کی پروانہ کرے، اس لحاظ سے اگر مثلاً، بیٹھے ہوئے، تشہد کو شروع کرنے سے پہلے شک کرے کہ ایک سجدہ بجالایا ہے یا دو، تو ایک اور سجدہ کو بجالانا چاہئے۔ لیکن اگر تشہد کے دوران یا کھڑے ہونے کے بعد شک کرے، تو ضروری نہیں ہے کہ سجدہ کو بجالائے بلکہ نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

٣۔ نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کو بجالانے کے بعد شک کرے، مثلاً حمد یا اس کے ایک لفظ کو پڑھنے کے بعد شک کرے کہ صحیح بجالایا ہے یا نہیں، اس شک پر توجہ نہ کرے اور ضروری نہیں اس کو دوبارہ بجالائے، بلکہ نماز کو جاری رکھے، صحیح ہے۔

٤۔اگر مستجی نمازوں کی رکعتوں میں شک کرے، تو دوپر بنا رکھنا چاہئے چونکہ نماز وتر کے علاوہ تمام مستجی نمازیں دورکعتی ہیں،اگر ان میں ایک اور دو یا دو اور بیشتر میں شک پیش آئے تو دوپر بنارکھے، نماز صحیح ہے۔

٥۔ نماز جماعت میں، اگر امام جماعت شک کرے لیکن ماموم کو شک نہ ہوتومثلاًاللہ اکبر کہہ کر

امام کو مطلع کرے ، امام جماعت کو اپنے شک پر اعتنا نہیں کرنا چاہئے، اور اسی طرح اگر ماموم نے شک کیا لیکن امام جماعت شک نہ کرے، تو جس طرح امام جماعت نماز کو انجام دے ماموم کو بھی اسی طرح عمل کرنا چاہئے اور نماز صحیح ہے۔

٦۔ اگر نماز کو باطل کرنے والے شکیات میں سے کوئی شک پیش آئے، تو تھوڑی سی فکر کرنی چائے اور اگر کچھ یاد نہ آیا اور شک باقی ر ہا تو نماز کو توڑکر دوبارہ شروع کرنا چاہئے ۔

۱۵۴

نماز احتیاط:

١۔ جن مواقع پر نماز احتیاط واجب ہوتی ہے، جیسے ٣ اور ٤ میں شک وغیرہ سلام پھیرنے کے بعد نماز کی حالت کو توڑے بغیر اور کسی مبطل نماز کو انجام دئے بغیر اٹھنا چاہئے اور اذان واقامت کہے بغیر تکبیر کہہ کر نماز احتیاط پڑھے۔

نماز احتیاط اور دیگر نمازوں میں فرق:

*اس کی نیت کو زبان پر نہیں لاناچاہئے۔

*اس میں سورہ اور قنوت نہیں ہے۔ (گرچہ دورکعتی بھی ہو)

*حمد کو آہستہ پڑھنا چاہئے۔ ( احتیاط واجب کی بنا پر )*

٢۔ اگر نما* احتیاط ایک رکعت واجب ہو، تو دونوں سجدوں کے بعد، تشہد پڑھ کر سلام پھیردے اور اگر دورکعت واجب ہو تو پہلی رکعت میں تشہد اور سلام نہ پڑھے بلکہ ایک اور رکعت ( تکبیرة الا حرام کے بغیر) پڑھے اور دوسری رکعت کے اختتام پر تشہد پڑھنے کے بعد سلام پڑھے ۔(١)

____________________

(١)توضیح المسائل م١٢١٥۔١٢١٦.

*گلپائیگانی۔ خوئی)سورہ حمد کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (مسئلہ ١٢٢٥)

۱۵۵

سجدہ سہو:

١۔ جن مواقع پر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، جیسے بیٹھنے کی حالت میں ٤ اور ٥ کے درمیان شک کی صورت میں تو نماز کا سلام پھیرنے کے بعد سجدہ میں جائے اور کہے:بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ بلکہ بہترہے اس طرح کہے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰه اَلسّٰلَاْمُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکاَتُه.*

اس کے بعد بیٹھے اور دوبارہ سجدہ میں جاکر مذکورہ ذکر وں میں سے ایک کو پڑھے اس کے بعد بیٹھے اور تشہد پڑھ کے سلام پھیردے۔(١)

٢۔ سجدۂ سہومیں تکبیرة الا حرام نہیں ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ١٢٥٠

*(خوئی) احتیاط واجب ہے دوسرا جملہ پڑھاجائے. (مسئلہ ١٣٥٩)

۱۵۶

سبق ٢٣و٤ ٢ کا خلاصہ

١۔ اگر نماز گزار نماز کے بعد والے جزء میں داخل ہونے سے قبل پہلے والے جزء کے بارے میں شک کرے تو اسے پہلا والاجزء بجالانا ضروری ہے۔

٢۔ اگر محل کے گزرنے کے بعد نماز کے کسی جزء کے بارے میں شک کرے تو اس کی پروانہ کرے۔

٣۔ اگرنماز کے کسی جزء کے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرے تو اس پر اعتنا نہ کرے۔

٤۔ اگر دورکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں کی تعداد میں شک ہوجائے تو نماز باطل ہے۔

٥۔ درج ذیل مواقع میں شک پر اعتنا نہیں کیا جاسکتا :

مستجی نمازوں میں

* نماز جماعت میں

* نماز کا سلام پھیرنے کے بعد

*نماز کا وقت گزرنے کے بعد ۔

٦۔ جن مواقع پر رکعتوں میں شک کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا، اگر شک کا بیشتر طرف چار سے زائد نہ ہوتو بیشترپر بنا رکھا جائے۔

٧۔نماز احتیاط نماز کی احتمالی کمی کی تلافی ہے، پس ٣اور ٤کے درمیان شک کی صورت میں ایک رکعت نماز احتیاط پڑھی جائے اور ٢اور ٤ کے درمیان شک کی صورت میں دورکعت نماز احتیاط پڑھی جائے۔

٨۔ نماز احتیاط اور دیگر نمازوں کے درمیان حسب ذیل فرق ہے:

*نیت کو زبان پر نہ لایا جائے۔

* سورہ اور قنوت نہیں ہے۔

*حمد کو آہستہ پڑھا جائے۔

٩۔ سجدہ سہو کو نماز کے فوراً بعد بجالانا چاہئے اور دوسجدے ایک ساتھ میں ، اس میں تکبیرة الا حرام نہیں ہے۔

۱۵۷

سوالات:

١۔ اگر نماز گزارتسبیحات اربعہ کے پڑھتے وقت شک کرے کہ تشہد کو پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا حکم کیا ہے؟

٢۔ اجزائے نماز میں شک کی چار مثالیں بیان کیجئے؟

٣۔اگر صبح یا مغرب کی نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میںشک ہوجائے تو فریضہ کیا ہے؟

٤۔ اگر چار رکعتی نماز کے رکوع میں شک کرے کہ تیسری رکعت ہے یا چوتھی تو حکم کیا ہے؟

٥۔ اگر کوئی شخص ٤ بجے بعد از ظہر شک کرے کہ نماز ظہر وعصر پڑھی ہے یا نہیں تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٦۔جو شخص تکبیرةالاحرام کہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح کہا ہے یا نہیں تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٧۔اگر قیام کی حالت میں ٤ اور ٥ کے درمیان شک ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

٨۔کیا آپ جانتے ہیں کہ نماز احتیاط میں کیوں حمد کو آہستہ پڑھنا چا ہئے؟

٩۔ کیا آپ کو آج تک کبھی نماز میں کوئی شک پیش آیا ہے؟ اگر جواب مثبت ہوتو وضاحت کیجئے کہ پھر کیسے عمل کیا ہے؟

١٠۔ سجدۂ سہو کو بجالانے کی کیفیت بیان کیجئے؟

۱۵۸

سبق نمبر ٢٥

مسافر کی نماز

انسان کو سفر میں چار رکعتی نمازوں کو دورکعتی( قصر) بجالانا چاہئے،بشرطیکہ اس کا سفر ٨ فرسخ یعنی تقریباً ٤٥کیلو میڑسے کم نہ ہو۔(١)

چند مسائل:

١۔ اگر مسافر ایسی جگہ سے سفر پر نکلے، جہاں پر اس کی نماز تمام ہو، *جیسے وطن اور کم از کم چار فرسخ جاکر چار فر سخ واپس آجائے تو اس سفر میں بھی اس کی نماز قصرہے۔(٢)

٢۔ مسافرت پر جانے والے شخص کو اس وقت نماز قصر پڑھنی چاہئے جب کم از کم وہ اتنادور پہنچے کہ اس جگہ کی دیوار کو نہ دیکھ سکے ٭٭اور وہاں کی اذان کو بھی نہ سن سکے۔٭٭٭اگر اتنی مقدار دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو تمام پڑھے۔(٣)

____________________

(١)تو ضیح المسائل، ص ٣ ١٧، نماز مسافر

(٢)توضیح المسائل،م ١٢٧٢و ٧٣ ١٢.

(٣)توضیح المسائل،نماز مسافر آٹھویں شرط.

* چاررکعتی نماز کو دو رکعتی کے مقابلہ میں نماز کو تمام کہتے ہیں.

٭٭اس فاصلہ کو '' حد ترخص'' کہتے ہیں

٭٭٭ (خوئی ۔اراکی) اس قدر دورچلاجائے کہ وہاں کی اذان نہ سن سکے اور دہاں کے باشندے اس کو نہ دیکھ سکیں ۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کو نہ دیکھ سکے۔(م١٢٩٢)

۱۵۹

٣۔اگر مسافر ایک جگہ سے سفر شروع کرے،ز جہاں نہ مکان ہو اور نہ کوئی دیوار،جب وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ اگر اس کی دیوار ہوتی تو وہاں سے نہ دیکھی جاسکتی، تو نماز کو قصر پڑھے۔(١)

٤۔ اگر مسافر ایک ایسی جگہ جانا چاہتا ہو، جہاں تک پہنچنے کے دوراستے ہوں، ان میں سے ایک راستہ٨ فرسخ سے کم اور دوسرا راستہ ٨ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو، تو ٨ فرسخ یا اس سے زیادہ والے راستے سے جانے کی صورت میں نماز قصر پڑھے اور اگر اس راستے سے جائے جو ٨ فرسخ سے کم ہے، تو نماز تمام یعنی چاررکعتی پڑھے۔(٢)

سفر میں نماز پوری پڑھنے کے مواقع

درج ذیل مواقع پر سفر میں نماز پوری پڑھنی چاہیئے

١۔آٹھ فرسخ طے کرنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے یا ایک جگہ پر دس دن ٹھہرے ۔

٢۔پہلے سے قصد وارادہ نہ کیا ہو کہ آٹھ فرسخ تک سفر کرے اور اس سفر کو قصد کے بغیر طے کیا ہو، جیسے کوئی کسی گم شدہ کو ڈھونڈنے نکلتاہے۔

٣۔ درمیان راہ ،سفر کے قصد کو توڑدے، یعنی چار فر سخ تک پہنچنے سے پہلے آگے بڑھنے سے منصرف ہوجائے اور واپس لوٹے۔

٤۔جس کا مشغلہ مسافرت ہو، جیسے ریل اور شہرسے باہر جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور، ہوائی جہاز کے پائیلٹ اور کشتی کے نا خدا (اگر سفر ان کا مشغلہ ہو)۔

٥۔ جس کا سفر حرام ہو، جیسے، وہ سفر جو ماں باپ کے لئے اذیت وآزارکا باعث بنے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٣٢١

(٢)توضیح المسائل م ٩ ١٢٧

(٣)توضیح المسائل ، نمازمسافر.

*(اراکی ۔ خوئی) جہاں کوئی سکونت نہیں کرتا، اگر ایسی جگہ پر پہنچے جہاں اگر سکونت کرنے والے ہوتے تو انھیں نہ دیکھ سکتے.

۱۶۰

آیت ۵۴

( وَإِذَا جَاءكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَن عَمِلَ مِنكُمْ سُوءاً بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور جب آپ كے پاس وہ لوگ آئيں جو ہمارى آيتوں پر ايمان ركھتے ہيں تو ان سے كہئے سلام عليكم _ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قراردے لى ہے كہ تم ميں جو بھى از روئے جہالت برائي كرے گا اور اس كے بعد توبہ كركے اپنى اصلاح كرلے گا تو خدا بہت زيادہ بخشنے والا اور مہربان ہے

۱_ پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ اپنى محفل ميں آنے والوں پر سلام كرنے ميں پہل كريں _

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

۲_ پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ مؤمنين كے سامنے تواضع و انكسارى كريں _اور ان سے مہر و محبت كا اظہار كريں _

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

پيغمبر(ص) كى جانب سے سلام كرنے ميں سبقت لينا فقط ايك خاص اور محدود فريضے كے عنوان سے نہيں ہے بلكہ يہ مطلب بلند اخلاق اور تواضع كے ايك جلوے كے عنوان سے پيش كيا گيا ہے_

۳_ آيات خدا پر ايمان لانا بارگاہ الہى ميں انسان كى قدر و منزلت اور عزت ميں اضافے كا باعث بنتاہے_

پيغمبر(ص) كو مؤمنين پر سلام كرنے كا حكم ديتا ، خدا كى بارگاہ ميں مؤمنين كے بلند اور اعلى مقام كى

۱۶۱

حكايت كرتاہے_

۴_ مؤمنين كے سامنے تواضع اور فروتنى اختيار كرنا اور ان سے ميل جول ركھنا، معاشرے كے دينى راہنماوں كى ضرورى صفات ميں سے ايك ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

اگرچہ آيت، پيغمبر(ص) سے مخاطب ہے ليكن آپ(ص) سب كے ليے نمونہ عمل اور اسوہ ہيں _ لہذا يہ خصوصيت اور صفت سب دينى راہنماؤں كے ليے ضرورى ہے_

۵_ خداوندعالم ، اپنى آيات پر ايمان لانے والے مومنين كو حقيقى سلامتي، اور آسودگى عطا فرماتاہے_

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم خداوند عالم كا سلام، لفظ اور كلام نہيں _ بلكہ اس كے افعال ميں سے ايك فعل ہے كہ جو امن و سلامتى كا نزول ہے_ راغب اصفہانى اس سلسلے ميں كہتے ہيںالسلامة التعرى من الافات الظاهرة والباطنة كل ذلك من الناس بالقول، و من الله تعالى بالفعل''

۶_ پيغمبر (ص) كا فريضہ ہے كہ آپ(ص) ، كفار كے طعنوں اور اذيت كے مقابلے ميں ، فقير و نادار مومنين پر سلام اور رحمت الہى بھيج كر ان كى دلجوئي فرمائيں _اهولاء منّ الله عليهم من بيننا و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا

گذشتہ آيت ميں پيغمبر(ص) كے پاس بيٹھنے والے تہى دست و نادار مؤمنين پر كفار كے طعنوں كى بات كى گئي ہے، اور اس آيت ميں ان مؤمنين كو''الذين يؤمنون ...'' كى صفت سے ياد كيا گيا ہے_ ہوسكتاہے ان دو آيات ميں ارتباط كا محور، مؤمنين كے اس احساس كى تلافى ہو كہ جس كى طرف مندرجہ بالا مفہوم ميں اشارہ كيا گيا ہے_

۷_ مومنين كا سامنا كرنے پر پيغمبر (ص) كى جانب سے ان پر سلام كا طريقہ ''سلام عليكم'' ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

۸_ مسلمانوں كے ايك دوسرے سے ملنے جلنے پر اسلامى تسليمات و آداب كا طريقہ ''سلام عليكم'' ہے_

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

يہ روش پيغمبر(ص) سے ہى مخصوص نہيں ہے بلكہ يہاں تمام مسلمان مراد ہيں _

۹_ مومنين پيغمبر(ص) كى زيارت سے ،آپ(ص) كے سلام اور رحمت خداسے بہرہ مند ہوتے ہيں _

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

پيغمبر(ص) كے حضور آنا، جو كہ جملہ ''اذا جاء ك''

۱۶۲

كا مطلب ہے ظاہراً آپ كے ظاہرى زمانہ حيات سے مخصوص نہيں ہے_ بلكہ اس بعد كے دور كو بھى شامل ہے_ مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''زيارت'' اسى نكتے كى جانب اشارہ ہے_

۱۰_ پيغمبر(ص) كى زيارت اور آپ كى مجلس ميں حاضري، خير وفضل كا موجب بنتى ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا

۱۱_ پروردگار عالم نے اپنے اوپر واجب كرلياہے كہ وہ آيات الہى پر ايمان لانے والے مومنين كو اپنى رحمت سے نوازے گا_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة

۱۲_ آيات الہى پر ايمان لانے والے مومنين تك، خدا كا سلام اور رحمت پہچانا پيغمبر(ص) كے فرائض ميں سے ہے_

و اذا جاء ك الذين مؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة

جملہ ''فقل سلام عليكم'' ميں دو احتمال ہيں _ ايك يہ كہ ''ان كو سلام كرو'' اور دوم يہ كے خدا كا سلام ان تك پہنچاؤ_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۳_ آيات خداپر ايمان لانا اسكى رحمت كے حصول كا موجب بنتا ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا كتب ربكم على نفسه الرحمة

۱۴_ مؤمنين پر رحمت خدا كا نزول، ربوبيت الہى كا ايك پرتو ہے_يؤمنون بآيتنا كتب ربكم على نفسه الرحمة

۱۵_ جن لوگوں ميں ايمان لانے كا رجحان پايا جاتاہے_ انھيں خدا كى رحمت و نعمت كى اميد دلانى چاہيئے_

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلم عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة

''المؤمنون'' يا 'امنوا' كى جگہ''الذين يؤمنون'' جيسا توصيفى جملہ منتخب كرنا، فعل مضارع كے معنى كو ديكھتے ہوئے، مندرجہ بالا مفہوم كى جانب اشارہ ہوسكتاہے_

۱۶_ آيات خدا پر ايمان لانے والے مومنين كا امن و آسودگى پانا، رحمت خدا كا ايك پرتو ہے_فقل سلم عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة جملہء ''كتب ربكم''''سلام عليكم'' كے ليے علت كى حيثيت ركھتاہے_يعنى رحمت الہي، مؤمنين كى سلامتى و آسودگى كا سبب ہے_

۱۷_ خدا كى ذات نے اپنے اوپر ''فيضان رحمت'' كو واجب كرلياہے_كتب ربكم على نفسه الرحمة اپنے اوپر رحمت واجب كرنے كا معنى يہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى چيز نے اسے اس كام پر نہيں ابھارا بلكہ خود ذات كا تقاضا يہى ہے _

۱۶۳

۱۸_ گناہ اور ناپسنديدہ اعمال كى جڑ جہالت ہے_انه من عمل منكم سؤاً بجهلة

۱۹_ توبہ ميں جلدى كرنا، اور اس كے بعد اپنى رفتار و كردار كى اصلاح كرنا لازمى ہے_

انه من عمل منكم سوء ا بجهلة ثم تاب من بعده و اصلح

گناہ كے بعد توبہ كرنا ايك واضح سى بات ہے_ لہذا قيد ''من بعدہ'' كو ''ثم تاب'' كے علاوہ كوئي اور پيام دينا چاہيئے_ چونكہ ''من'' ابتدائية ہے گويا، خداوند فرمارہاہے كہ وہ توبہ زيادہ مطلوب ہے كہ جو گناہ كے فورا بعد انجام پائے_

۲۰_ توبہ اور كردار كى اصلاح، مغفرت كى شرط ہے_ثم تاب من بعده و اصلح

۲۱_ گناہگاروں كو خداوند متعال كى مغفرت و رحمت كى اميد دلانے اور انھيں نيك و پاكيزہ ماحول كى جانب لانے كى ضرورت ہے_فقل من عمل منكم سوء اً

۲۲_ صدر اسلام ميں بعض لوگ اسلام كى جانب رجحان ركھنے كے باوجود اپنے گذشتہ گناہوں اور غلط اعمال كى وجہ سے، مومنين كى صف ميں داخل ہونے كى اميد نہيں ركھتے تھے_

و اذا جائك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلم عليكم انه من عمل منكم سؤاً بجهلة

''اذا جائك الذين يؤمنون'' سے پتہ چلتاہے كہ بعض لوگ كہ جو اسلام كى طرف مائل تھے_ پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوتے تھے_ ليكن اپنے گذشتہ اعمال سے خوفزدہ تھے_ يہ آيت انھيں رحمت و مغفرت كا وعدہ ديكر، جلد از جلد ايمان لانے پر ابھار رہى ہے_

۲۳_ خطا كاروں سے چشم پوشى اور معاف كرنے كے ليے انكى جہالت ايك قابل قبول عذر ہے_

انه من عمل منكم سوء اً بجهلة ثم تاب

۲۴_ گناہگاروں كى توبہ قبول ہونے كى شرط ''ايمان'' ہے_

و اذ جائك الذين يؤمنون من عمل منكم سوء ا بجهلة ثم تاب من بعده

ہوسكتاہے ''من بعدہ'' كى ضمير كا مرجع ''ايمان'' ہو كہ جو ايك معنوى مرجع ہے اور آيت كے اول سے اخذ كيا گيا ہے_ يعنى جو لوگ ايمان لانا چاہتے ہيں اور اپنے گذشتہ گناہوں اور غلطيوں سے خوفزدہ ہيں ايمان كے بعد توبہ كرنے كى صورت ميں قابل عفو ہونگے_

۲۵_ گناہگار كو خداوند متعال كى مغفرت و رحمت سے

۱۶۴

مايوس نہيں ہونا چاہيئے_من عمل منكم سوء اً فاّنه غفور رحيم

۲۶_ جہالت كى بنا پر گناہ كرنے والا مؤمن، توبہ اور اصلاح كى صورت ميں يقينى طور پر خداوند عالم كى مغفرت و رحمت سے بہرہ مندہوگا_كتب ربكم على نفسه الرحمة انه من عمل منكم سوء اً بجهلة ثم تاب من بعده و اصلح فاّنه غفور رحيم

۲۷_ خدا غفور (بہت مغفرت كرنے والا) اور رحيم (مہربان) ہے_فاّنه غفور رحيم

۲۸_ خداوندعالم كى مغفرت اسكى مہر و محبت سے مركب ہے_فانّه غفور رحيم

ادبى لحاظ سے كلمہ ''رحيم'' ميں دو احتمال ہيں _ ايك يہ كہ ''انّ'' كى دوسرى خبر ہو_ دوسرا يہ كہ ''غفور'' كى صفت ہو_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال سے اخذ كيا گيا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا تواضع ۲;آنحضرت(ص) كا سلام ۱،۹ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱،۲،۶، ۱۲; آنحضرت (ص) كى زيارت كى فضيلت۱۰; آنحضرت(ص) كے ذاكرين كے درجات ۹; آنحضرت(ص) كے سلام كرنے كا طريقہ ۷

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۲۲

اسما صفات :رحيم ۲۷; غفور ۲۷

اصلاح :اصلاح كے آثار ۲۶; اصلاح كے عومل ۲۱

امن:امن كى اہميت ۵

اميدوارى :رحمت خدا كى اميد دلانا ۱۵، ۲۱، ۲۵; مغفرت كى اميد دلانا ۲۱

ايمان :آثار ايمان ۳، ۵، ۱۳، ۲۴; آيات خدا پر ايمان كے آثار ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۶;ايمان كى استعداد ركھنے والے ۱۵ ; متعلق ايمان ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۶

تبليغ :تبليغ ميں اميد دلانا ۱۵; روش تبليغ ۱۵، ۲۱

توبہ :آثار توبہ ۲۰، ۲۶; توبہ كى فوريت ۱۹;قبول توبہ كى شرائط ۲۴

۱۶۵

جہالت :جہالت كے آثار ۱۸، ۲۳، ۲۶

خدا تعالى :خدا اور فرائض ۱۱، ۱۷; خدا كا سلام ۱۲; خدا كا فضل ۵; خدا كى ربوبيت ۱۴; خدا كى رحمت ۶ ، ۹، ۱۲، ۱۴;خدا كى رحمت كا منشا ۱۷; خدا كى رحمت كے مظاہر ۱۶ ; خدا كى رحمت كے موجبات ۱۳; خدا كى مغفرت ۲۷ ;خدا كى مغفرت كى خصوصيات ۲۸ ;خدا كى مہربانى ۲۷ ، ۲۸; خدا كے افعال ۵

رفتار و كردار :رفتار و كردار كى اصلاح كے آثار ۲۰

رہبرى :رہبرى كى ذمہ داري۴

سلام :آداب سلام ۷، ۸; الفاظ سلام ۷، ۸; سلام كرنے ميں سبقت ۱

عذر :قابل قبول عذر۲۳

عمل :ناپسنديدہ عمل كا منشاء ۱۸ عمل صالح :عمل صالح كى اصلاح ۱۹

فقراء :فقراء سے ملنے جلنے كا طريقہ ۶

قدريں :قدروں كا معيار ۳

كفار :كفار كا طعن ۶

گناہ :جاہلانہ گناہ ۲۶; گناہ كا منشاء ۱۸

گناہگار :صدر اسلام كے گناہگاروں ميں مايوسى ۲۲; گناہگاروں كو اميد دلانا ۲۱; گناہگاروں كو معاف كرنا ۲۳;گناہنگاروں كى اصلاح ۲۱; گناہگاروں كى مايوسى ۲۵

مايوسي:مايوسى سے اجتناب ۲۵

مغفرت :شرائط مغفرت ۲۰

مومنين :فقير مؤمنين پر طعن ۶; فقير مؤمنين كى دلجوئي ۶; مؤمنين پر سلام ۱، ۶، ۷، ۱۲;مؤمنين سے تواضع ۲، ۴; مؤمنين سے محبت ۲; مؤمنين كا امن ميں ہونا۵، ۱۵;مؤمنين كے آرام و آسودگى كا منشاء ۱۶; مؤمنين كے امن ميں ہونے كا منشاء ۱۶;مؤمنين كے مقامات ۲، ۵، ۱۱

ہم نشينى :مؤمنين سے ہم نشينى (ميل جول) ۴

۱۶۶

آیت ۵۵

( وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ )

اور ہم اسى طرح اپنى نشانيوں كو تفصيل كے ساتھ بيان كرتے ہيں تا كہ مجرمين كا راستہ پر واضح ہو جائے

۱_ خداوند عالم كى جانب سے قرآنى آيات كى تشريح اوراسكى كيفيت كا بيان ہونا_و كذلك نفصل الآيات

''تفصيل'' كا معنى تبيين ہے (لسان العرب)

۲_ سورہ انعام كى باعظمت آيات، خداوند عالم كى طرف سے تفصيل و تشريح كا ايك نمونہ ہيں _و كذلك نفصل الآيات

''ذلك'' ظاہرا سورہ انعام كى آيات كى طرف اشارہ ہے_ يعنى ہم ان باعظمت آيات كى مانند اپنى آيات بيان كرتے ہيں _

۳_قرآنى آيات كى تبيين و تفصيل كے مقاصد ميں سے ايك مجرمين كے طور طريقوں كى وضاحت كرنا ہے_

و كذلك نفصل الآيات و لتستبين سبيل المجرمين

۴_قرآنى آيات كى تبيين تشريح كے اہداف ميں سے ايك، صالحين كے طرز زندگى كا نقشہ كھينچنا ہے_

و كذلك نفصل الآيات و لتستبين سبيل المجرمين

مجرمين كے طور طريقوں كے بيان كا نقطہ مقابل، صالحين كے طرز زندگى كا بيان ہے اور ان كے درميان ملازمہ موجود ہے_ دو متضاد چيزوں ميں سے ايك كا بيان كرنا، لا محالہ دوسرى كا بيان بھى ہوگا_ لہذا بعض كے بقول جملہ ''و لتستبين''، جملہ محذوف''لتستبين سبيل المؤمنين'' پر عطف ہے_

۵_ صالحين اور مجرمين كے طرز زندگى كى وضاحت اور تفصيل بيان كرنا، تبليغ كا بنيادى محور ہونا چاہيئے_

و كذلك نفصل الآيات و لتستبين سبيل المجرمين

چونكہ آيت ميں صالحين اور مجرمين كے طور طريقوں كا نقشہ كھينچا گيا ہے اور اسے آيات كى

۱۶۷

تفصيل كا واضح ترين مقصد و ہدف بيان كيا گيا ہے لہذا تبليغ ميں اس پيام طرز كو اپناياجاسكتاہے_

تبليغ :تبليغ كے ركن ۵

خدا تعالى :افعال خدا ،۱ ۲

سورہ انعام :آيات سورہ انعام ۲

صالحين :صالحين كے طرز زندگى كى وضاحت ۴، ۵

قرآن :آيات قرآنى كى تبيين كا فلسفہ ۳، ۴; آيات قرآن كى تشريح ۱، ۲

مجرمين :مجرمين كے طرز زندگى كى وضاحت ۳، ۵

آیت ۵۶

( قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَهْوَاءكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ )

آپ كہہ دليجئے كہ مجھ اس بات سے روكا گيا ہے كہ ميں ان كى عبادت كروں جنھيں تم خدا كو چھوڑ كر پكارتے ہو _ كہہ دليجئے كہ ميں تمھارى خواہشات كا اتباع نہيں كر سكتا كہ اس طرح گمراہ جائوں گا اور ہدايت يافتہ نہ رہ سكوں گا

۱_ صدر اسلام كے مشركين كا پيغمبر(ص) سے، بتوں كى عبادت اور انكے بنيادى عقائد ميں موافقت كا بے جا تقاضا كرنا_قل انى نهيت ان اعبد الذين تدعون من دون الله قل لا اتبع اهواء كم

۲_ توحيد (جيسے) بنيادى اصول ميں (كفار سے)

۱۶۸

درگذر اور موافقت جائز نہيں _قل انى نهيت ان اعبد الذين تدعون من دون الله

اس قسم كے موارد ميں يہ حكم فقط پيغمبر(ص) سے ہى مخصوص نہيں (بلكہ سب كے ليے ہے)_

۳_ خدائے واحد كے سوا كسى دوسرے كى عبادت جائز نہيں _قل انى نهيت ان اعبد الذين تدعون من دون الله

۴_ شرك اور غير خدا كى عبادت فقط ہوا و ہوس اور نفسانى خواہشات پر مبنى خيال ہے_

الذين تدعون من دون الله قل لا اتبع اهواء كم

۵_ مشركين اور منحرفين كى نفسانى خواہشات كے جال ميں پھنسنا، دينى رہبروں اور تمام موحدين كے ليے ايك (بڑا) خطرہ ہے_الذين تدعون من دون الله قل لا اتبع اهواء كم

۶_ مشركين كى نفسانى خواہشات اور ہوا و ہوس كى پيروى كرنا، گمراہى اور ہدايت سے محروم رہ جانے كا باعث بنتاہے_

قل لا اتبع اهؤاكم قد ظللت اذاً و ما انا من المهتدين

۷_ خداوندمتعال كے سوا كسى دوسرے معبود كى عبادت كرنا اور شرك كرنا، گمراہى ہے_

انى نهيت اعبد الذين قد ظللت اذاً

۸_ توحيد اور خداوند يكتا كى عبادت، ہدايت كى علامت ہے_انى نهيت ان اعبد الذين و ما انا من المهتدين

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱

اطاعت :مشركين كى اطاعت كے آثار ۶

توحيد :توحيد عبادى ۳; توحيد عبادى كے آثار ۸; توحيد كى اہميت ۲

خدا تعالى :خدا كے ساتھ خاص۳

رہبرى :دينى قيادت و رہبرى كو ہوشيار كرنا ۵

شرك :عبادت ميں شرك كامنشاء ۴; عبادت ميں شرك كے آثار ۷

عبادت :

۱۶۹

ممنوع عبادت ۳

عقيدہ :باطل عقيدہ ۴; عقيدہ ميں موافقت۱، ۲

گمراہى :گمراہى كے عوامل ۶; گمراہى كے موارد ۷

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كے تقاضے ۱;مشركين اور آنحضرت(ص) ۱; مشركين كى بت پرستي۱; مشركين كى ہواپرستى ۵،۶

موافقت:ممنوع موافقت۲

موحدين :موحدين كو خبردار كيا جانا ۵

ہدايت :ہدايت سے محروميت كے اسباب۶; ہدايت كى علائم ۸

ہواپرستى :ہوا پرستى كا خطرہ ۵;ہوا پرستى كے آثار ۴، ۶

آیت ۵۷

( قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ )

كہہ دليجئے كہ ميں پروردگار كى طرف سے كھلى ہوئي دليل ركھتا ہوں اور تم نے اسے جھٹلايا ہے تو ميرے پاس وہ عذاب نہيں ہے جس كى تمھيں جلدى ہے _ حكم صرف الله كے اختيار ميں ہے وہى حق كو بيان كرتا ہے اور وہى بہترين فيصلہ كرنے والا ہے

۱_ پيغمبر(ص) كى دعوت اور اس كے اصول و اركان اور پروگرام ، روشن دليل اور حجت پر مبنى ہيں _

قل انّى على بينة من ربي

گذشتہ آيات ميں توحيد اور طرز عمل كے بارے ميں بحث ہوئي ہے_ لہذا جملہ ''انى على بينة'' ان تمام موارد كے ليے ايك تائيد كے طور پر ذكر كيا گياہے_

۱۷۰

۲_ پيغمبر (ص) كو روشن دلائل كا عطا ہونا ربوبيت خداوند كا جلوہ ہےقل انى على بينة من ربي

۳_ قرآن، پيغمبر(ص) كى روشن دليل اور آپ كى حقانيت پر گواہ ہے_قل انى على بينة من ربى و كذبتم به

بہت سے مفسرين كے بقول، ''بينہ'' سے مراد اور ''كذبتم بہ'' كى ضمير كا مرجع قرآن ہے_ كلمہ ''بينة'' كا مفردآنا اور ''بہ'' كى ضمير كا مذكر ہونا اس احتمال كے قوى ہونے كى دليل ہے _

۴_ پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن كے تمام مطالب پر كامل احاطہ حاصل ہونا_انى على بينة من ربّي

''علي'' حرف استعلا ہے اور ''على بينة'' ميں اس كا استعمال اس جانب اشارہ ہے كہ پيغمبر(ص) كو اپنے ''بينة'' (قرآن) پر كامل احاطہ و تسلط حاصل ہے_

۵_ روشن دلائل كا نتيجہ قبول كرنا اور اسكى پيروى كرنالازمى ہے_قل انى على بينة من ربى و كذبتم به

۶_ صدر اسلام كے مشركين حقانيت پيغمبر(ص) كى روشن دليل (قرآن) كو جھٹلاتے تھے_قل انى على بينة من ربى و كذبتم به

۷_ مشركين اور رسالت پيغمبر(ص) كے منكرين اور مخالفين نزول عذاب كے بارے ميں آنحضرت(ص) كے وعدوں كے جلد از جلد پورا ہونے كى خواہش ركھتے تھے_و كذبتم به ما عندى ما تستعجلون به

بہت سى آيات، مثلاً سورہء انعام كى آيت ۶، ۹، ۱۱ ميں كفار كو عذاب كا وعدہ اور دنيوى سزا كى وعيد سنائي گئي ہے_ لہذا ممكن ہے كہ ''ما تستعجلون'' سے مراد نزول عذاب ہو كہ كفار انكار اور تمسخر كى بنا پر جس كے جلد از جلد نزول كا مطالبہ كرتے تھے_

۸_ عذاب كا نزول، پيغمبر(ص) كے اختيار اور آپ(ص) كے ہاتھ ميں نہيں _ما عندى ما تستعجلون به

۹_ نبوت پيغمبر اكرم(ص) كے منكرين كا اصرار تھا كہ آنحضرت(ص) جلد از جلد ان كا دلپسند معجزہ پيش كريں _

ما عندى ما تستعجلون به

جس طرح اس سورہ كى آيات ۸، ۳۷ ميں بتايا گيا ہے كہ منكرين كے مطالبات ميں سے ايك خصوصى معجزات كا نزول تھا_ لہذا ممكن ہے كہ ''ما تستعجلون'' سے مراد اسى قسم كے مطالبات (اور بے جا تقاضے )ہوں _

۱۰_ لوگوں كى خواہش اور انتخاب كے مطابق، معجزہ پيش كرنا، پيغمبر(ص) كے قلمرو اختيار سے باہر ہے_

۱۷۱

ما عندى ما تستعجلون به

۱۱_ معجزات كا نزول اور انكى كيفيت ايك قانون اور معين حدو حساب كى حامل ہے_

ما عندى ما تستعجلون به ان الحكم الا الله يقص الحق

۱۲_ تمام تكوينى و تشريعى امور ميں فقط خداوند عالم كو ''حكم'' كرنے كى صلاحت حاصل ہے_ان الحكم الا لله

۱۳_ نزول عذاب ''حكم'' كے معنى ميں ہے اور فقط خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_

ما عندى ما تستعجلون به ان الحكم الا الله

۱۴_ معجزات كا عطا كرنا ''حكم'' كے معنى ميں ہے اور فقط خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_

ما عندى ما تستعجلون به ان الحكم الا لله

۱۵_ خداوند متعال (تمام) امور كو حق كے معيار پر جارى فرماتاہے_ان الحكم الا لله يقص الحق

''قص'' كا معنى پيچھے چلنا اور پيچھا كرناہے_ ''قاموس المحيط'' ميں آياہے كہ''قص اثره تتبعه''

۱۶_ خداوند عالم كى جانب سے صادر ہونے والے تمام احكام، حق كى بنياد پر ہيں _ان الحكم الا لله يقص الحق

۱۷_ خداوند عالم اپنى ثابت و استوار سنن كے مطابق كائنات كے امور اور نظام ہدايت كوچلاتاہے اور ان سے عدول نہيں كرتا_يقص الحق

حق كے معانى ميں سے ايك معنى ''الامر المقضي'' ہے_ يعنى وہ امر كہ جو خدا كے حكم كے مطابق ہے_ چونكہ آيت ميں نزول عذاب اور معجزہ كى بات ہورہى ہے اور اس كے بعد ''حكم'' كے خدا كے ساتھ مخصوص ہونے كو تاكيد كى گئي ہے اس سے يہ نتيجہ اخذ كيا جا سكتاہے كہ ''يقص الحق'' قوانين اور احكام الہى كے ثابت و استوار ہونے پر تاكيد ہے_

۱۸_ باطل سے حق كو سب سے بہتر جدا كرنے والا خداوند عالم ہے_يقص الحق و هو خير الفصلين

۱۹_ راہ حق پر چلنے كے ليے تمہيدى طور پر حق و باطل كى سرحدوں كى دقيق شناخت ضرورى ہے_يقص الحق و هو خير الفصلين

۲۰_ خداوند متعال، اپنے مناسب وقت پر پيغمبر(ص) اور آپ (ص) كے منكرين (و مخالفين) كے درميان بہترين قضاوت كرے گا_يقص الحق و هو خير الفصلين

۱۷۲

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا قرآن پر تسلط۴ ; آنحضرت(ص) كا معجزہ ۲،۳،۱۰;آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والے ۷، ۲۰; آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والوں كى خواہشات ۹ ; آنحضرت(ص) كى بينات ۱،۲،۳; آنحضرت(ص) كى تاريخ۹;آنحضرت(ص) كى حقانيت پر گواہ ۳; آنحضرت(ص) كى دعوت كى خصوصيات ۱ ;آنحضرت(ص) كے اختيارات كى حدود ۸ ، ۱۰

آفرينش (خلقت) :آفرينش كى تدبير، ۱۷، نظام آفرينش ۱۷

احكام :احكام تكوينى ۱۲، ۱۳، ۱۴ ;احكام كا وضع كرنا ۱۲

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۹

امور :امور كا قانون كے مطابق ہونا ۱۵; امور كے جارى ہونے كى حقانيت ۱۵

باطل :باطل كى پہچان ۱۹

برہان :برہان (و دليل) كى پيروى ۵

حق :حق كى پہچان ۱۹; راہ حق پر چلنے كى شرائط ۱۹; حق و باطل كو بيان كرنے والا ۱۸

خدا تعالى :خدا كا حكم ۱۲ ، ۱۳، ۱۴ ; خدا كى تدبير ۱۷ ; خدا كى ربوبيت كے مظاہر ۲;خدا كى سنن۱۷;خدا كى عطا ۲; خطا كى قضاوت ۲۰ ;خدا كے افعال ۱۵، ۱۸ ; خدا كے حكم كى حقانيت ۱۶; خدا كے ساتھ خاص ۱۲، ۱۳، ۱۴

دليل :دليل كى پيروى ۵

عذاب :عذاب كے جلد نازل ہوے كا تقاضا ۷;نزول عذاب ۸; نزول عذاب كا سرچشمہ ۱۳; وعدہ عذاب ۷

قرآن :اعجاز قرآن ۳; تكذيب قرآن ۶; قرآن كا كردار ۳، ۶; قرآن كى گواہى ۳; مكذبين قرآن ۶

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كے مطالبات ۷; مشركين صدر اسلام ۶

معجزہ :درخواستى معجزہ ۹، ۱۰; معجزہ كا قانون كے مطابق ہونا ۱۱; معجزہ كا مطالبہ ۱۰; منشائے معجزہ ۱۴

۱۷۳

آیت ۵۸

( قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ )

كہہ دليجئے كہ اگر ميرے اختيار ميں وہ عذاب ہوتا جس كى تمھيں جلدى ہے تو اب تك ہمارے تمھارے در ميان فيصلہ ہو چكا ہوتا اور خدا ظالمين كو خوب جانتا ہے

۱_ اگر نزول عذاب پيغمبر(ص) كے اختيار ميں ہوتا تو اپنے وقت كے مشركين كے ساتھ آنحضرت(ص) كے معاملہ كا فيصلہ جلد ہوجاتا_قل لو ان عندى ما تستعجلون به لقضى الامر بينى و بينكم

۲_ كفار و مشركين پر عذاب نازل كرنا، پيغمبر(ص) كے اختيار ميں نہيں _قل لو ان عندى ما تستعجلون

۳_ پيغمبر(ص) نے جس عذاب كا وعدہ ديا تھا مشركين مكہ اس كے جلد از جلد پورا ہونے كى خواہش ركھتے تھے_

قل لو ان عند ما تستعجلون

۴_ پيغمبر(ص) مامور ہيں كہ لوگوں كے ليے، معجزات دكھانے كے سلسلے ميں اپنے اختيارات كى حدود بيان كريں _

قل لو ان عندى ما تستعجلون به لقضى الامر حرف شرط ''لو'' غالباً ''شرط'' كے امتناع كى وجہ سے ''جزا'' كے ممتنع ہونے كا فائدہ دينے كے ليے استعمال ہوتاہے يہاں بھى جملہ ''لو ان ما عندي'' عذاب كے اختيار كى نفى كے ليے ہے اور پيغمبر(ص) كى ذمہ دارى ہے كہ اس (نفي) كا اعلان كريں _

۵_ مشركين كى خواہش كے مطابق، مخصوص معجزات دكھانا، پيغمبر(ص) كے اختيار ميں نہيں تھا_

قل لو ان عندى ما تستعجلون به

۶_ جس معجزے كا لوگ تقاضا كرتے تھے اگر اس كا پيش كرنا، پيغمبر(ص) كے اختيار ميں ہوتا تو آنحضرت(ص) كا اپنے دور كے مشركين سے معاملہ، نزول عذاب كے ساتھ (كب كا) ختم ہوچكا ہوتا_لو ان عندى ما تستعجلون به لقضى

۱۷۴

الامربينى و بينكم

اسى سورہ كى گذشتہ آيات (مثل آيت ۷، ۳۷) كے قرينے كے مطابق، ''ما تستعجلون'' سے مراد ہوسكتاہے كفار كے طلب كيے گئے معجزات كا نزول ہو_ اس قسم كے معجزات كے نازل ہونے كى صورت ميں ، مشركين اور مخالفين كا عذاب عملى صورت اختيار كرے گا_

۷_ خداوند متعال سب سے زيادہ آگاہ ہے كہ مشركين اور منكرين پيغمبر(ص) پر كس وقت اور كن حالات ميں عذاب نازل كرے_لقضى الامر بينى و بينكم والله اعلم بالظلمين

۸_ خداوند، ظالموں كى پہچان ميں سب سے زيادہ عالم ہے_والله اعلم بالظلمين

۹_ آنحضرت(ص) كى رسالت كے منكر اور مشركين ظالم ہيں _والله اعلم بالظلمين

گذشتہ آيات، مشركين كے خلاف احتجاج كررہى ہيں _ لہذا ظالمين كا مصداق بھى وہى ہيں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) اور صدر اسلام كے مشركين ۱،۶; آنحضرت(ص) كى تاريخ ۱; آنحضرت كى ذمہ دارى ۴; آنحضرت(ص) كے اختيارات كى حدود ۱، ۲،۴، ۵، ۶; آنحضرت(ص) كے جھٹلانے والوں كا ظلم ۹; آنحضرت (ص) كے جھٹلانے والوں كا عذاب ۷

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱

خدا تعالي:علم خدا ۷، ۸; مختصات خدا ۷، ۸;

ظالمين ۹ظالمين كو خبردار كيا جانا ۸

عذاب :عذاب كے جلد نازل ہونے كا مطالبہ ۳; نزول عذاب كا منشا ۱، ۲، ۶، ۷

كفار :كفار پر عذاب كا نزول ۲

مشركين :مشركين پر نزول عذاب ۲;مشركين كا ظلم ۹;مشركين كے عذاب كى شرائط ۷; مشركين كے مطالبات ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ كے مطالبات ۳

معجزہ :درخواستى معجزہ ۵; معجزہ كے مقدمات ۴; منشائے معجزہ ۵، ۶

۱۷۵

آیت ۵۹

( وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ )

اور اس كے پاس غيب كے خزانے ہيں جنھيں اس كے علاوہ كوئي نہيں جانتا ہے اور وہ خشك وتر سب كا جاننے والا ہے _ كوئي پتہ بھى گرتا ہے تو اسے اس كا علم ہے _ زمين كا تاريكيوں ميں كوئي دانہ يا كوئي خشك وتر ايسا نہيں ہے جو كتا ب مبين كے اندر محفوظ نہ ہو

۱_ غيب كے خزانے فقط خداوند كے پاس ہيں اور وہى ان سے آگاہ ہے_و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

''مفاتيح'' جمع ''مَفتح'' ہے_ جس كا معنى ''خزينہ''ہے، يا جمع ''مفتح'' ہوسكتاہے جس كا مطلب ''كنجي'' (چابي) ہے_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ غيب كى كنجياں اور غيبى امور كے راز سے آگاہى فقط خداكے اختيار ميں ہے اور كسى دوسرے كى اس تك رسائي نہيں _و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

يہاں ''مفاتيح'' جمع ''مفتح'' ہے جس كا مطلب '' كنجي'' ليا گيا ہے_

۳_ پيغمبر(ص) كائنات كے تمام اسرار و رموزسے آگاہ نہيں _قل لو ان عندي و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

گذشتہ آيات ميں پيغمبر(ص) كے اختيارات اور

۱۷۶

قدرت كے بارے ميں مشركين كے غلط تصور كو بيان كيا گيا ہے_ چونكہ ان كا خيال تھا كہ پيغمبر(ص) كو چاہيئے كہ وہ نزول عذاب يا معجزات كے سلسلے ميں ان كے مطالبات كو پورا كريں _ (ليكن) يہ آيت، علم غيب كو خداوند عالم سے مخصوص كرتے ہوئے ان (مشركين) كے خيال كو رد كررہى ہے اور علم پيغمبر(ص) كى محدوديت كو بيان كررہى ہے جس كے نتيجے ميں پيغمبر(ص) كى قدرت بھى محدود ہوجاتى ہے_

۴_ عالم غيب، عالم شھود كے مقابلے ميں ايك انتہائي باعظمت اور پيچيدہ عالم ہے_و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

تاكيد و حصر كے بغير جملے ''يعلم ما في ...'' كے مقابلے ميں ، خداوندعالم سے علم غيب كے مخصوص ہونے كى تاكيد كرنا مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ ہے_

۵_ خداوند متعال كے تكوينى و تشريعى احكام، كائنات كے غيب و شہود كے بارے ميں اس كى كامل آگاہى پر مبنى ہيں _

ان الحكم الا لله لو ان عندى ما تستعجلون به و عنده مفاتح الغيب

۶_ مشركين اور كفار كو جلد عذاب نہ ہونا، كائنات كے غيب و شہود اور اسرار خلقت سے خداوند كى على الاطلاق آگاہى سے مربوط ہے_قل لو ان عندى ما تستعجلون و عنده مفاتح الغيب

۷_ خداوندعالم ، بر و بحر كى ہر چيز سے آگاہ ہے_و يعلم ما فى البر و البحر

۸_ درختوں سے كوئي ايسا پتا نہيں گرتا كہ جس سے خداوند عالم آگاہ نہ ہو_و ما تسقط من ورقة الا يعلمها

۹_ زمين كى ظلمتوں اور مٹى كى سياہى ميں گرنے والا كوئي بھى دانہ علم خداكے احاطے سے باہر نہيں _

و ما تسقط من ورقة و لاحبة فى الظلمت الارض

۱۰_ كائنات كى وسعتوں پر كوئي خشكى و ترى ادھر ادھر نہيں ہوتى اور نابود نہيں ہوتى كہ جس سے خداوند آگاہ نہ ہو_

و ما تسقط من ورقة و لا رطب و يابس الا فى كتاب مبين

۱۱_ خداوند عالم كو كائنات كى تمام موجودات كے حالات كے بارے ميں مكمل احاطہ علمى حاصل ہے_

و ما تسقط من ورقة الا يعلمها و لا رطب و لا يابس

۱۷۷

۱۲_ كائنات كے واقعات اور انكى جزئيات، علم خدا كے احاطہ ميں ہيں _و ما تسقط من ورقة الا يعلمها و لا حبة

درخت سے كسى پتے كے گرنے يا زمين ميں كسى دانے كے بارے ميں علم ايك جزئي علم ہے_ لہذا يہ آيت ان لوگوں كے خيال كى نفى كرتى ہے كہ جو علم خدا كو فقط كلى امور ميں محدود كرتے ہيں _

۱۳_ كتاب مبين، كائنات كى تمام موجودات اور انكے تحولات كے بارے ميں اطلاعات كا ايك جامع ذخيرہ (و مركز) ہے_و ما تسقط و لا رطب و لا يابس الا فى كتب مبين

۱۴_ كتاب مبين ميں موجود اطلاعات، روشن واضح اور ہر قسم كے ابہام سے دور ہيں _و لا رطب و لا يابس الا فى كتب مبين ''لسان العرب'' كے مطابق ''بان الشيء بيانا : اتضح و كذلك ابان الشى و ھو مبين'' مبين يعنى روشن، واضح اورابہام و شك سے خالي_

۱۵_ كائنات كا پورا نظام اور تمام امور ايك قانون اور نقشے كے مطابق ہيں _وعنده و لا رطب و لا يابس الا فى كتاب مبين قاعدتاً كتاب مبين ميں موجود اطلاعات، غير مربوط اطلاعات نہيں (ہوسكتيں ) خصوصاً يہ آيت، كائنات كے امور ميں خداوند عالم كى آگاہى و علم كے مطابق ايك نظام كو ظاہر كرنا چاہتى ہيں _ اس كے علاوہ ''يعلمھا'' فقط خارج ميں واقع ہونے والے ايك حادثے پر ہى دلالت نہيں كرتا بلكہ ايك مجھول شئے كے تمام پہلوؤں اور اسكے علل و اسباب كو بھى شامل ہے_

آفرينش (خلقت) :آفرينش كى تدبير ۱۵; آفرينش كے تحولات ۱۲; آفرينش و خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۱۵; موجودات آفرينش ۷

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے علم غيب كى حدود۳

احكام :تشريعى و تكوينى احكام كا منشاء ۵

پودے :پودوں كا دانہ (بيج) ۹

حوادث :حوادث اور واقعات كى اطلاعات كا ذخيرہ ۱۳

خدا تعالى :مختصات خدا ۱، ۲; حكم خدا ۵; خدا كا علم تفصيلى ۷، ۸، ۹، ۱۰ ،۱۱، ۱۲ ;خداوند كا علم غيب ۱، ۲، ۵، ۶;خداوند كا

۱۷۸

علمى احاطہ ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲; مختصات خدا ۱،۲

درخت :درخت كے پتوں كا گرنا ۸

عالم غيب :عالم غيب كى عظمت ۴; عالم غيب كى كنجى ۲;عالم غيب كے خزائن ۱

كتاب مبين :كتاب مبين كا كردار ۱۳;كتاب مبين كى اطلاعات ۱۴

كفار :كفار كے عذاب ميں تاخير ۶

مشركين :مشركين كے عذاب ميں تاخير ۶

موجودات :موجودات كا ذخيرہ ۱۳; دريائي موجودات ۷ ; موجودات ميں تحولات ۹; ۱۰، ۱۱، ۱۳

۱۷۹

آیت ۶۰

( وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

اور وہى خدا ہے جو تمہيں رات ميں گويا كہ ايك طرح كى موت دے ديتا ہے اور دن ميں تمہارے تمام اعمال سے با خبر ہے اور پر دن ميں تمہيں اٹھا ديتا ہے تا كہ مقررہ مذت حيات پورى كى جا سكے _اس كے بعد تم سب كى بازگشت اسى كى بارگاہ ميں ہے اور پھر وہ تمہيں تمہارے اعمال كے بارے ميں با خبر كرے گا

۱_ فقط خداوند عالم ہے كہ جو انسان كى روح قبض كركے اسے رات كے وقت نيند عطا كرتاہے_هو الذى يتوقكم بالليل

آيت ميں ''توفي'' كا معنى قبض روح ہے چونكہ نيند ميں بھى انسان كى روح قبض كرلى جاتى ہے، لہذا اسے ''توفي'' كہا جاتاہے_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744