تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167119 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آیت ۵۴

( وَإِذَا جَاءكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَن عَمِلَ مِنكُمْ سُوءاً بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور جب آپ كے پاس وہ لوگ آئيں جو ہمارى آيتوں پر ايمان ركھتے ہيں تو ان سے كہئے سلام عليكم _ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قراردے لى ہے كہ تم ميں جو بھى از روئے جہالت برائي كرے گا اور اس كے بعد توبہ كركے اپنى اصلاح كرلے گا تو خدا بہت زيادہ بخشنے والا اور مہربان ہے

۱_ پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ اپنى محفل ميں آنے والوں پر سلام كرنے ميں پہل كريں _

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

۲_ پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ مؤمنين كے سامنے تواضع و انكسارى كريں _اور ان سے مہر و محبت كا اظہار كريں _

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

پيغمبر(ص) كى جانب سے سلام كرنے ميں سبقت لينا فقط ايك خاص اور محدود فريضے كے عنوان سے نہيں ہے بلكہ يہ مطلب بلند اخلاق اور تواضع كے ايك جلوے كے عنوان سے پيش كيا گيا ہے_

۳_ آيات خدا پر ايمان لانا بارگاہ الہى ميں انسان كى قدر و منزلت اور عزت ميں اضافے كا باعث بنتاہے_

پيغمبر(ص) كو مؤمنين پر سلام كرنے كا حكم ديتا ، خدا كى بارگاہ ميں مؤمنين كے بلند اور اعلى مقام كى

۱۶۱

حكايت كرتاہے_

۴_ مؤمنين كے سامنے تواضع اور فروتنى اختيار كرنا اور ان سے ميل جول ركھنا، معاشرے كے دينى راہنماوں كى ضرورى صفات ميں سے ايك ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

اگرچہ آيت، پيغمبر(ص) سے مخاطب ہے ليكن آپ(ص) سب كے ليے نمونہ عمل اور اسوہ ہيں _ لہذا يہ خصوصيت اور صفت سب دينى راہنماؤں كے ليے ضرورى ہے_

۵_ خداوندعالم ، اپنى آيات پر ايمان لانے والے مومنين كو حقيقى سلامتي، اور آسودگى عطا فرماتاہے_

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم خداوند عالم كا سلام، لفظ اور كلام نہيں _ بلكہ اس كے افعال ميں سے ايك فعل ہے كہ جو امن و سلامتى كا نزول ہے_ راغب اصفہانى اس سلسلے ميں كہتے ہيںالسلامة التعرى من الافات الظاهرة والباطنة كل ذلك من الناس بالقول، و من الله تعالى بالفعل''

۶_ پيغمبر (ص) كا فريضہ ہے كہ آپ(ص) ، كفار كے طعنوں اور اذيت كے مقابلے ميں ، فقير و نادار مومنين پر سلام اور رحمت الہى بھيج كر ان كى دلجوئي فرمائيں _اهولاء منّ الله عليهم من بيننا و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا

گذشتہ آيت ميں پيغمبر(ص) كے پاس بيٹھنے والے تہى دست و نادار مؤمنين پر كفار كے طعنوں كى بات كى گئي ہے، اور اس آيت ميں ان مؤمنين كو''الذين يؤمنون ...'' كى صفت سے ياد كيا گيا ہے_ ہوسكتاہے ان دو آيات ميں ارتباط كا محور، مؤمنين كے اس احساس كى تلافى ہو كہ جس كى طرف مندرجہ بالا مفہوم ميں اشارہ كيا گيا ہے_

۷_ مومنين كا سامنا كرنے پر پيغمبر (ص) كى جانب سے ان پر سلام كا طريقہ ''سلام عليكم'' ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

۸_ مسلمانوں كے ايك دوسرے سے ملنے جلنے پر اسلامى تسليمات و آداب كا طريقہ ''سلام عليكم'' ہے_

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

يہ روش پيغمبر(ص) سے ہى مخصوص نہيں ہے بلكہ يہاں تمام مسلمان مراد ہيں _

۹_ مومنين پيغمبر(ص) كى زيارت سے ،آپ(ص) كے سلام اور رحمت خداسے بہرہ مند ہوتے ہيں _

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم

پيغمبر(ص) كے حضور آنا، جو كہ جملہ ''اذا جاء ك''

۱۶۲

كا مطلب ہے ظاہراً آپ كے ظاہرى زمانہ حيات سے مخصوص نہيں ہے_ بلكہ اس بعد كے دور كو بھى شامل ہے_ مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''زيارت'' اسى نكتے كى جانب اشارہ ہے_

۱۰_ پيغمبر(ص) كى زيارت اور آپ كى مجلس ميں حاضري، خير وفضل كا موجب بنتى ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا

۱۱_ پروردگار عالم نے اپنے اوپر واجب كرلياہے كہ وہ آيات الہى پر ايمان لانے والے مومنين كو اپنى رحمت سے نوازے گا_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة

۱۲_ آيات الہى پر ايمان لانے والے مومنين تك، خدا كا سلام اور رحمت پہچانا پيغمبر(ص) كے فرائض ميں سے ہے_

و اذا جاء ك الذين مؤمنون بآيتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة

جملہ ''فقل سلام عليكم'' ميں دو احتمال ہيں _ ايك يہ كہ ''ان كو سلام كرو'' اور دوم يہ كے خدا كا سلام ان تك پہنچاؤ_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۳_ آيات خداپر ايمان لانا اسكى رحمت كے حصول كا موجب بنتا ہے_و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا كتب ربكم على نفسه الرحمة

۱۴_ مؤمنين پر رحمت خدا كا نزول، ربوبيت الہى كا ايك پرتو ہے_يؤمنون بآيتنا كتب ربكم على نفسه الرحمة

۱۵_ جن لوگوں ميں ايمان لانے كا رجحان پايا جاتاہے_ انھيں خدا كى رحمت و نعمت كى اميد دلانى چاہيئے_

و اذا جاء ك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلم عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة

''المؤمنون'' يا 'امنوا' كى جگہ''الذين يؤمنون'' جيسا توصيفى جملہ منتخب كرنا، فعل مضارع كے معنى كو ديكھتے ہوئے، مندرجہ بالا مفہوم كى جانب اشارہ ہوسكتاہے_

۱۶_ آيات خدا پر ايمان لانے والے مومنين كا امن و آسودگى پانا، رحمت خدا كا ايك پرتو ہے_فقل سلم عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة جملہء ''كتب ربكم''''سلام عليكم'' كے ليے علت كى حيثيت ركھتاہے_يعنى رحمت الہي، مؤمنين كى سلامتى و آسودگى كا سبب ہے_

۱۷_ خدا كى ذات نے اپنے اوپر ''فيضان رحمت'' كو واجب كرلياہے_كتب ربكم على نفسه الرحمة اپنے اوپر رحمت واجب كرنے كا معنى يہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى چيز نے اسے اس كام پر نہيں ابھارا بلكہ خود ذات كا تقاضا يہى ہے _

۱۶۳

۱۸_ گناہ اور ناپسنديدہ اعمال كى جڑ جہالت ہے_انه من عمل منكم سؤاً بجهلة

۱۹_ توبہ ميں جلدى كرنا، اور اس كے بعد اپنى رفتار و كردار كى اصلاح كرنا لازمى ہے_

انه من عمل منكم سوء ا بجهلة ثم تاب من بعده و اصلح

گناہ كے بعد توبہ كرنا ايك واضح سى بات ہے_ لہذا قيد ''من بعدہ'' كو ''ثم تاب'' كے علاوہ كوئي اور پيام دينا چاہيئے_ چونكہ ''من'' ابتدائية ہے گويا، خداوند فرمارہاہے كہ وہ توبہ زيادہ مطلوب ہے كہ جو گناہ كے فورا بعد انجام پائے_

۲۰_ توبہ اور كردار كى اصلاح، مغفرت كى شرط ہے_ثم تاب من بعده و اصلح

۲۱_ گناہگاروں كو خداوند متعال كى مغفرت و رحمت كى اميد دلانے اور انھيں نيك و پاكيزہ ماحول كى جانب لانے كى ضرورت ہے_فقل من عمل منكم سوء اً

۲۲_ صدر اسلام ميں بعض لوگ اسلام كى جانب رجحان ركھنے كے باوجود اپنے گذشتہ گناہوں اور غلط اعمال كى وجہ سے، مومنين كى صف ميں داخل ہونے كى اميد نہيں ركھتے تھے_

و اذا جائك الذين يؤمنون بآيتنا فقل سلم عليكم انه من عمل منكم سؤاً بجهلة

''اذا جائك الذين يؤمنون'' سے پتہ چلتاہے كہ بعض لوگ كہ جو اسلام كى طرف مائل تھے_ پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوتے تھے_ ليكن اپنے گذشتہ اعمال سے خوفزدہ تھے_ يہ آيت انھيں رحمت و مغفرت كا وعدہ ديكر، جلد از جلد ايمان لانے پر ابھار رہى ہے_

۲۳_ خطا كاروں سے چشم پوشى اور معاف كرنے كے ليے انكى جہالت ايك قابل قبول عذر ہے_

انه من عمل منكم سوء اً بجهلة ثم تاب

۲۴_ گناہگاروں كى توبہ قبول ہونے كى شرط ''ايمان'' ہے_

و اذ جائك الذين يؤمنون من عمل منكم سوء ا بجهلة ثم تاب من بعده

ہوسكتاہے ''من بعدہ'' كى ضمير كا مرجع ''ايمان'' ہو كہ جو ايك معنوى مرجع ہے اور آيت كے اول سے اخذ كيا گيا ہے_ يعنى جو لوگ ايمان لانا چاہتے ہيں اور اپنے گذشتہ گناہوں اور غلطيوں سے خوفزدہ ہيں ايمان كے بعد توبہ كرنے كى صورت ميں قابل عفو ہونگے_

۲۵_ گناہگار كو خداوند متعال كى مغفرت و رحمت سے

۱۶۴

مايوس نہيں ہونا چاہيئے_من عمل منكم سوء اً فاّنه غفور رحيم

۲۶_ جہالت كى بنا پر گناہ كرنے والا مؤمن، توبہ اور اصلاح كى صورت ميں يقينى طور پر خداوند عالم كى مغفرت و رحمت سے بہرہ مندہوگا_كتب ربكم على نفسه الرحمة انه من عمل منكم سوء اً بجهلة ثم تاب من بعده و اصلح فاّنه غفور رحيم

۲۷_ خدا غفور (بہت مغفرت كرنے والا) اور رحيم (مہربان) ہے_فاّنه غفور رحيم

۲۸_ خداوندعالم كى مغفرت اسكى مہر و محبت سے مركب ہے_فانّه غفور رحيم

ادبى لحاظ سے كلمہ ''رحيم'' ميں دو احتمال ہيں _ ايك يہ كہ ''انّ'' كى دوسرى خبر ہو_ دوسرا يہ كہ ''غفور'' كى صفت ہو_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال سے اخذ كيا گيا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا تواضع ۲;آنحضرت(ص) كا سلام ۱،۹ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱،۲،۶، ۱۲; آنحضرت (ص) كى زيارت كى فضيلت۱۰; آنحضرت(ص) كے ذاكرين كے درجات ۹; آنحضرت(ص) كے سلام كرنے كا طريقہ ۷

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۲۲

اسما صفات :رحيم ۲۷; غفور ۲۷

اصلاح :اصلاح كے آثار ۲۶; اصلاح كے عومل ۲۱

امن:امن كى اہميت ۵

اميدوارى :رحمت خدا كى اميد دلانا ۱۵، ۲۱، ۲۵; مغفرت كى اميد دلانا ۲۱

ايمان :آثار ايمان ۳، ۵، ۱۳، ۲۴; آيات خدا پر ايمان كے آثار ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۶;ايمان كى استعداد ركھنے والے ۱۵ ; متعلق ايمان ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۶

تبليغ :تبليغ ميں اميد دلانا ۱۵; روش تبليغ ۱۵، ۲۱

توبہ :آثار توبہ ۲۰، ۲۶; توبہ كى فوريت ۱۹;قبول توبہ كى شرائط ۲۴

۱۶۵

جہالت :جہالت كے آثار ۱۸، ۲۳، ۲۶

خدا تعالى :خدا اور فرائض ۱۱، ۱۷; خدا كا سلام ۱۲; خدا كا فضل ۵; خدا كى ربوبيت ۱۴; خدا كى رحمت ۶ ، ۹، ۱۲، ۱۴;خدا كى رحمت كا منشا ۱۷; خدا كى رحمت كے مظاہر ۱۶ ; خدا كى رحمت كے موجبات ۱۳; خدا كى مغفرت ۲۷ ;خدا كى مغفرت كى خصوصيات ۲۸ ;خدا كى مہربانى ۲۷ ، ۲۸; خدا كے افعال ۵

رفتار و كردار :رفتار و كردار كى اصلاح كے آثار ۲۰

رہبرى :رہبرى كى ذمہ داري۴

سلام :آداب سلام ۷، ۸; الفاظ سلام ۷، ۸; سلام كرنے ميں سبقت ۱

عذر :قابل قبول عذر۲۳

عمل :ناپسنديدہ عمل كا منشاء ۱۸ عمل صالح :عمل صالح كى اصلاح ۱۹

فقراء :فقراء سے ملنے جلنے كا طريقہ ۶

قدريں :قدروں كا معيار ۳

كفار :كفار كا طعن ۶

گناہ :جاہلانہ گناہ ۲۶; گناہ كا منشاء ۱۸

گناہگار :صدر اسلام كے گناہگاروں ميں مايوسى ۲۲; گناہگاروں كو اميد دلانا ۲۱; گناہگاروں كو معاف كرنا ۲۳;گناہنگاروں كى اصلاح ۲۱; گناہگاروں كى مايوسى ۲۵

مايوسي:مايوسى سے اجتناب ۲۵

مغفرت :شرائط مغفرت ۲۰

مومنين :فقير مؤمنين پر طعن ۶; فقير مؤمنين كى دلجوئي ۶; مؤمنين پر سلام ۱، ۶، ۷، ۱۲;مؤمنين سے تواضع ۲، ۴; مؤمنين سے محبت ۲; مؤمنين كا امن ميں ہونا۵، ۱۵;مؤمنين كے آرام و آسودگى كا منشاء ۱۶; مؤمنين كے امن ميں ہونے كا منشاء ۱۶;مؤمنين كے مقامات ۲، ۵، ۱۱

ہم نشينى :مؤمنين سے ہم نشينى (ميل جول) ۴

۱۶۶

آیت ۵۵

( وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ )

اور ہم اسى طرح اپنى نشانيوں كو تفصيل كے ساتھ بيان كرتے ہيں تا كہ مجرمين كا راستہ پر واضح ہو جائے

۱_ خداوند عالم كى جانب سے قرآنى آيات كى تشريح اوراسكى كيفيت كا بيان ہونا_و كذلك نفصل الآيات

''تفصيل'' كا معنى تبيين ہے (لسان العرب)

۲_ سورہ انعام كى باعظمت آيات، خداوند عالم كى طرف سے تفصيل و تشريح كا ايك نمونہ ہيں _و كذلك نفصل الآيات

''ذلك'' ظاہرا سورہ انعام كى آيات كى طرف اشارہ ہے_ يعنى ہم ان باعظمت آيات كى مانند اپنى آيات بيان كرتے ہيں _

۳_قرآنى آيات كى تبيين و تفصيل كے مقاصد ميں سے ايك مجرمين كے طور طريقوں كى وضاحت كرنا ہے_

و كذلك نفصل الآيات و لتستبين سبيل المجرمين

۴_قرآنى آيات كى تبيين تشريح كے اہداف ميں سے ايك، صالحين كے طرز زندگى كا نقشہ كھينچنا ہے_

و كذلك نفصل الآيات و لتستبين سبيل المجرمين

مجرمين كے طور طريقوں كے بيان كا نقطہ مقابل، صالحين كے طرز زندگى كا بيان ہے اور ان كے درميان ملازمہ موجود ہے_ دو متضاد چيزوں ميں سے ايك كا بيان كرنا، لا محالہ دوسرى كا بيان بھى ہوگا_ لہذا بعض كے بقول جملہ ''و لتستبين''، جملہ محذوف''لتستبين سبيل المؤمنين'' پر عطف ہے_

۵_ صالحين اور مجرمين كے طرز زندگى كى وضاحت اور تفصيل بيان كرنا، تبليغ كا بنيادى محور ہونا چاہيئے_

و كذلك نفصل الآيات و لتستبين سبيل المجرمين

چونكہ آيت ميں صالحين اور مجرمين كے طور طريقوں كا نقشہ كھينچا گيا ہے اور اسے آيات كى

۱۶۷

تفصيل كا واضح ترين مقصد و ہدف بيان كيا گيا ہے لہذا تبليغ ميں اس پيام طرز كو اپناياجاسكتاہے_

تبليغ :تبليغ كے ركن ۵

خدا تعالى :افعال خدا ،۱ ۲

سورہ انعام :آيات سورہ انعام ۲

صالحين :صالحين كے طرز زندگى كى وضاحت ۴، ۵

قرآن :آيات قرآنى كى تبيين كا فلسفہ ۳، ۴; آيات قرآن كى تشريح ۱، ۲

مجرمين :مجرمين كے طرز زندگى كى وضاحت ۳، ۵

آیت ۵۶

( قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَهْوَاءكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ )

آپ كہہ دليجئے كہ مجھ اس بات سے روكا گيا ہے كہ ميں ان كى عبادت كروں جنھيں تم خدا كو چھوڑ كر پكارتے ہو _ كہہ دليجئے كہ ميں تمھارى خواہشات كا اتباع نہيں كر سكتا كہ اس طرح گمراہ جائوں گا اور ہدايت يافتہ نہ رہ سكوں گا

۱_ صدر اسلام كے مشركين كا پيغمبر(ص) سے، بتوں كى عبادت اور انكے بنيادى عقائد ميں موافقت كا بے جا تقاضا كرنا_قل انى نهيت ان اعبد الذين تدعون من دون الله قل لا اتبع اهواء كم

۲_ توحيد (جيسے) بنيادى اصول ميں (كفار سے)

۱۶۸

درگذر اور موافقت جائز نہيں _قل انى نهيت ان اعبد الذين تدعون من دون الله

اس قسم كے موارد ميں يہ حكم فقط پيغمبر(ص) سے ہى مخصوص نہيں (بلكہ سب كے ليے ہے)_

۳_ خدائے واحد كے سوا كسى دوسرے كى عبادت جائز نہيں _قل انى نهيت ان اعبد الذين تدعون من دون الله

۴_ شرك اور غير خدا كى عبادت فقط ہوا و ہوس اور نفسانى خواہشات پر مبنى خيال ہے_

الذين تدعون من دون الله قل لا اتبع اهواء كم

۵_ مشركين اور منحرفين كى نفسانى خواہشات كے جال ميں پھنسنا، دينى رہبروں اور تمام موحدين كے ليے ايك (بڑا) خطرہ ہے_الذين تدعون من دون الله قل لا اتبع اهواء كم

۶_ مشركين كى نفسانى خواہشات اور ہوا و ہوس كى پيروى كرنا، گمراہى اور ہدايت سے محروم رہ جانے كا باعث بنتاہے_

قل لا اتبع اهؤاكم قد ظللت اذاً و ما انا من المهتدين

۷_ خداوندمتعال كے سوا كسى دوسرے معبود كى عبادت كرنا اور شرك كرنا، گمراہى ہے_

انى نهيت اعبد الذين قد ظللت اذاً

۸_ توحيد اور خداوند يكتا كى عبادت، ہدايت كى علامت ہے_انى نهيت ان اعبد الذين و ما انا من المهتدين

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱

اطاعت :مشركين كى اطاعت كے آثار ۶

توحيد :توحيد عبادى ۳; توحيد عبادى كے آثار ۸; توحيد كى اہميت ۲

خدا تعالى :خدا كے ساتھ خاص۳

رہبرى :دينى قيادت و رہبرى كو ہوشيار كرنا ۵

شرك :عبادت ميں شرك كامنشاء ۴; عبادت ميں شرك كے آثار ۷

عبادت :

۱۶۹

ممنوع عبادت ۳

عقيدہ :باطل عقيدہ ۴; عقيدہ ميں موافقت۱، ۲

گمراہى :گمراہى كے عوامل ۶; گمراہى كے موارد ۷

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كے تقاضے ۱;مشركين اور آنحضرت(ص) ۱; مشركين كى بت پرستي۱; مشركين كى ہواپرستى ۵،۶

موافقت:ممنوع موافقت۲

موحدين :موحدين كو خبردار كيا جانا ۵

ہدايت :ہدايت سے محروميت كے اسباب۶; ہدايت كى علائم ۸

ہواپرستى :ہوا پرستى كا خطرہ ۵;ہوا پرستى كے آثار ۴، ۶

آیت ۵۷

( قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ )

كہہ دليجئے كہ ميں پروردگار كى طرف سے كھلى ہوئي دليل ركھتا ہوں اور تم نے اسے جھٹلايا ہے تو ميرے پاس وہ عذاب نہيں ہے جس كى تمھيں جلدى ہے _ حكم صرف الله كے اختيار ميں ہے وہى حق كو بيان كرتا ہے اور وہى بہترين فيصلہ كرنے والا ہے

۱_ پيغمبر(ص) كى دعوت اور اس كے اصول و اركان اور پروگرام ، روشن دليل اور حجت پر مبنى ہيں _

قل انّى على بينة من ربي

گذشتہ آيات ميں توحيد اور طرز عمل كے بارے ميں بحث ہوئي ہے_ لہذا جملہ ''انى على بينة'' ان تمام موارد كے ليے ايك تائيد كے طور پر ذكر كيا گياہے_

۱۷۰

۲_ پيغمبر (ص) كو روشن دلائل كا عطا ہونا ربوبيت خداوند كا جلوہ ہےقل انى على بينة من ربي

۳_ قرآن، پيغمبر(ص) كى روشن دليل اور آپ كى حقانيت پر گواہ ہے_قل انى على بينة من ربى و كذبتم به

بہت سے مفسرين كے بقول، ''بينہ'' سے مراد اور ''كذبتم بہ'' كى ضمير كا مرجع قرآن ہے_ كلمہ ''بينة'' كا مفردآنا اور ''بہ'' كى ضمير كا مذكر ہونا اس احتمال كے قوى ہونے كى دليل ہے _

۴_ پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن كے تمام مطالب پر كامل احاطہ حاصل ہونا_انى على بينة من ربّي

''علي'' حرف استعلا ہے اور ''على بينة'' ميں اس كا استعمال اس جانب اشارہ ہے كہ پيغمبر(ص) كو اپنے ''بينة'' (قرآن) پر كامل احاطہ و تسلط حاصل ہے_

۵_ روشن دلائل كا نتيجہ قبول كرنا اور اسكى پيروى كرنالازمى ہے_قل انى على بينة من ربى و كذبتم به

۶_ صدر اسلام كے مشركين حقانيت پيغمبر(ص) كى روشن دليل (قرآن) كو جھٹلاتے تھے_قل انى على بينة من ربى و كذبتم به

۷_ مشركين اور رسالت پيغمبر(ص) كے منكرين اور مخالفين نزول عذاب كے بارے ميں آنحضرت(ص) كے وعدوں كے جلد از جلد پورا ہونے كى خواہش ركھتے تھے_و كذبتم به ما عندى ما تستعجلون به

بہت سى آيات، مثلاً سورہء انعام كى آيت ۶، ۹، ۱۱ ميں كفار كو عذاب كا وعدہ اور دنيوى سزا كى وعيد سنائي گئي ہے_ لہذا ممكن ہے كہ ''ما تستعجلون'' سے مراد نزول عذاب ہو كہ كفار انكار اور تمسخر كى بنا پر جس كے جلد از جلد نزول كا مطالبہ كرتے تھے_

۸_ عذاب كا نزول، پيغمبر(ص) كے اختيار اور آپ(ص) كے ہاتھ ميں نہيں _ما عندى ما تستعجلون به

۹_ نبوت پيغمبر اكرم(ص) كے منكرين كا اصرار تھا كہ آنحضرت(ص) جلد از جلد ان كا دلپسند معجزہ پيش كريں _

ما عندى ما تستعجلون به

جس طرح اس سورہ كى آيات ۸، ۳۷ ميں بتايا گيا ہے كہ منكرين كے مطالبات ميں سے ايك خصوصى معجزات كا نزول تھا_ لہذا ممكن ہے كہ ''ما تستعجلون'' سے مراد اسى قسم كے مطالبات (اور بے جا تقاضے )ہوں _

۱۰_ لوگوں كى خواہش اور انتخاب كے مطابق، معجزہ پيش كرنا، پيغمبر(ص) كے قلمرو اختيار سے باہر ہے_

۱۷۱

ما عندى ما تستعجلون به

۱۱_ معجزات كا نزول اور انكى كيفيت ايك قانون اور معين حدو حساب كى حامل ہے_

ما عندى ما تستعجلون به ان الحكم الا الله يقص الحق

۱۲_ تمام تكوينى و تشريعى امور ميں فقط خداوند عالم كو ''حكم'' كرنے كى صلاحت حاصل ہے_ان الحكم الا لله

۱۳_ نزول عذاب ''حكم'' كے معنى ميں ہے اور فقط خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_

ما عندى ما تستعجلون به ان الحكم الا الله

۱۴_ معجزات كا عطا كرنا ''حكم'' كے معنى ميں ہے اور فقط خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_

ما عندى ما تستعجلون به ان الحكم الا لله

۱۵_ خداوند متعال (تمام) امور كو حق كے معيار پر جارى فرماتاہے_ان الحكم الا لله يقص الحق

''قص'' كا معنى پيچھے چلنا اور پيچھا كرناہے_ ''قاموس المحيط'' ميں آياہے كہ''قص اثره تتبعه''

۱۶_ خداوند عالم كى جانب سے صادر ہونے والے تمام احكام، حق كى بنياد پر ہيں _ان الحكم الا لله يقص الحق

۱۷_ خداوند عالم اپنى ثابت و استوار سنن كے مطابق كائنات كے امور اور نظام ہدايت كوچلاتاہے اور ان سے عدول نہيں كرتا_يقص الحق

حق كے معانى ميں سے ايك معنى ''الامر المقضي'' ہے_ يعنى وہ امر كہ جو خدا كے حكم كے مطابق ہے_ چونكہ آيت ميں نزول عذاب اور معجزہ كى بات ہورہى ہے اور اس كے بعد ''حكم'' كے خدا كے ساتھ مخصوص ہونے كو تاكيد كى گئي ہے اس سے يہ نتيجہ اخذ كيا جا سكتاہے كہ ''يقص الحق'' قوانين اور احكام الہى كے ثابت و استوار ہونے پر تاكيد ہے_

۱۸_ باطل سے حق كو سب سے بہتر جدا كرنے والا خداوند عالم ہے_يقص الحق و هو خير الفصلين

۱۹_ راہ حق پر چلنے كے ليے تمہيدى طور پر حق و باطل كى سرحدوں كى دقيق شناخت ضرورى ہے_يقص الحق و هو خير الفصلين

۲۰_ خداوند متعال، اپنے مناسب وقت پر پيغمبر(ص) اور آپ (ص) كے منكرين (و مخالفين) كے درميان بہترين قضاوت كرے گا_يقص الحق و هو خير الفصلين

۱۷۲

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا قرآن پر تسلط۴ ; آنحضرت(ص) كا معجزہ ۲،۳،۱۰;آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والے ۷، ۲۰; آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والوں كى خواہشات ۹ ; آنحضرت(ص) كى بينات ۱،۲،۳; آنحضرت(ص) كى تاريخ۹;آنحضرت(ص) كى حقانيت پر گواہ ۳; آنحضرت(ص) كى دعوت كى خصوصيات ۱ ;آنحضرت(ص) كے اختيارات كى حدود ۸ ، ۱۰

آفرينش (خلقت) :آفرينش كى تدبير، ۱۷، نظام آفرينش ۱۷

احكام :احكام تكوينى ۱۲، ۱۳، ۱۴ ;احكام كا وضع كرنا ۱۲

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۹

امور :امور كا قانون كے مطابق ہونا ۱۵; امور كے جارى ہونے كى حقانيت ۱۵

باطل :باطل كى پہچان ۱۹

برہان :برہان (و دليل) كى پيروى ۵

حق :حق كى پہچان ۱۹; راہ حق پر چلنے كى شرائط ۱۹; حق و باطل كو بيان كرنے والا ۱۸

خدا تعالى :خدا كا حكم ۱۲ ، ۱۳، ۱۴ ; خدا كى تدبير ۱۷ ; خدا كى ربوبيت كے مظاہر ۲;خدا كى سنن۱۷;خدا كى عطا ۲; خطا كى قضاوت ۲۰ ;خدا كے افعال ۱۵، ۱۸ ; خدا كے حكم كى حقانيت ۱۶; خدا كے ساتھ خاص ۱۲، ۱۳، ۱۴

دليل :دليل كى پيروى ۵

عذاب :عذاب كے جلد نازل ہوے كا تقاضا ۷;نزول عذاب ۸; نزول عذاب كا سرچشمہ ۱۳; وعدہ عذاب ۷

قرآن :اعجاز قرآن ۳; تكذيب قرآن ۶; قرآن كا كردار ۳، ۶; قرآن كى گواہى ۳; مكذبين قرآن ۶

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كے مطالبات ۷; مشركين صدر اسلام ۶

معجزہ :درخواستى معجزہ ۹، ۱۰; معجزہ كا قانون كے مطابق ہونا ۱۱; معجزہ كا مطالبہ ۱۰; منشائے معجزہ ۱۴

۱۷۳

آیت ۵۸

( قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ )

كہہ دليجئے كہ اگر ميرے اختيار ميں وہ عذاب ہوتا جس كى تمھيں جلدى ہے تو اب تك ہمارے تمھارے در ميان فيصلہ ہو چكا ہوتا اور خدا ظالمين كو خوب جانتا ہے

۱_ اگر نزول عذاب پيغمبر(ص) كے اختيار ميں ہوتا تو اپنے وقت كے مشركين كے ساتھ آنحضرت(ص) كے معاملہ كا فيصلہ جلد ہوجاتا_قل لو ان عندى ما تستعجلون به لقضى الامر بينى و بينكم

۲_ كفار و مشركين پر عذاب نازل كرنا، پيغمبر(ص) كے اختيار ميں نہيں _قل لو ان عندى ما تستعجلون

۳_ پيغمبر(ص) نے جس عذاب كا وعدہ ديا تھا مشركين مكہ اس كے جلد از جلد پورا ہونے كى خواہش ركھتے تھے_

قل لو ان عند ما تستعجلون

۴_ پيغمبر(ص) مامور ہيں كہ لوگوں كے ليے، معجزات دكھانے كے سلسلے ميں اپنے اختيارات كى حدود بيان كريں _

قل لو ان عندى ما تستعجلون به لقضى الامر حرف شرط ''لو'' غالباً ''شرط'' كے امتناع كى وجہ سے ''جزا'' كے ممتنع ہونے كا فائدہ دينے كے ليے استعمال ہوتاہے يہاں بھى جملہ ''لو ان ما عندي'' عذاب كے اختيار كى نفى كے ليے ہے اور پيغمبر(ص) كى ذمہ دارى ہے كہ اس (نفي) كا اعلان كريں _

۵_ مشركين كى خواہش كے مطابق، مخصوص معجزات دكھانا، پيغمبر(ص) كے اختيار ميں نہيں تھا_

قل لو ان عندى ما تستعجلون به

۶_ جس معجزے كا لوگ تقاضا كرتے تھے اگر اس كا پيش كرنا، پيغمبر(ص) كے اختيار ميں ہوتا تو آنحضرت(ص) كا اپنے دور كے مشركين سے معاملہ، نزول عذاب كے ساتھ (كب كا) ختم ہوچكا ہوتا_لو ان عندى ما تستعجلون به لقضى

۱۷۴

الامربينى و بينكم

اسى سورہ كى گذشتہ آيات (مثل آيت ۷، ۳۷) كے قرينے كے مطابق، ''ما تستعجلون'' سے مراد ہوسكتاہے كفار كے طلب كيے گئے معجزات كا نزول ہو_ اس قسم كے معجزات كے نازل ہونے كى صورت ميں ، مشركين اور مخالفين كا عذاب عملى صورت اختيار كرے گا_

۷_ خداوند متعال سب سے زيادہ آگاہ ہے كہ مشركين اور منكرين پيغمبر(ص) پر كس وقت اور كن حالات ميں عذاب نازل كرے_لقضى الامر بينى و بينكم والله اعلم بالظلمين

۸_ خداوند، ظالموں كى پہچان ميں سب سے زيادہ عالم ہے_والله اعلم بالظلمين

۹_ آنحضرت(ص) كى رسالت كے منكر اور مشركين ظالم ہيں _والله اعلم بالظلمين

گذشتہ آيات، مشركين كے خلاف احتجاج كررہى ہيں _ لہذا ظالمين كا مصداق بھى وہى ہيں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) اور صدر اسلام كے مشركين ۱،۶; آنحضرت(ص) كى تاريخ ۱; آنحضرت كى ذمہ دارى ۴; آنحضرت(ص) كے اختيارات كى حدود ۱، ۲،۴، ۵، ۶; آنحضرت(ص) كے جھٹلانے والوں كا ظلم ۹; آنحضرت (ص) كے جھٹلانے والوں كا عذاب ۷

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱

خدا تعالي:علم خدا ۷، ۸; مختصات خدا ۷، ۸;

ظالمين ۹ظالمين كو خبردار كيا جانا ۸

عذاب :عذاب كے جلد نازل ہونے كا مطالبہ ۳; نزول عذاب كا منشا ۱، ۲، ۶، ۷

كفار :كفار پر عذاب كا نزول ۲

مشركين :مشركين پر نزول عذاب ۲;مشركين كا ظلم ۹;مشركين كے عذاب كى شرائط ۷; مشركين كے مطالبات ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ كے مطالبات ۳

معجزہ :درخواستى معجزہ ۵; معجزہ كے مقدمات ۴; منشائے معجزہ ۵، ۶

۱۷۵

آیت ۵۹

( وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ )

اور اس كے پاس غيب كے خزانے ہيں جنھيں اس كے علاوہ كوئي نہيں جانتا ہے اور وہ خشك وتر سب كا جاننے والا ہے _ كوئي پتہ بھى گرتا ہے تو اسے اس كا علم ہے _ زمين كا تاريكيوں ميں كوئي دانہ يا كوئي خشك وتر ايسا نہيں ہے جو كتا ب مبين كے اندر محفوظ نہ ہو

۱_ غيب كے خزانے فقط خداوند كے پاس ہيں اور وہى ان سے آگاہ ہے_و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

''مفاتيح'' جمع ''مَفتح'' ہے_ جس كا معنى ''خزينہ''ہے، يا جمع ''مفتح'' ہوسكتاہے جس كا مطلب ''كنجي'' (چابي) ہے_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ غيب كى كنجياں اور غيبى امور كے راز سے آگاہى فقط خداكے اختيار ميں ہے اور كسى دوسرے كى اس تك رسائي نہيں _و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

يہاں ''مفاتيح'' جمع ''مفتح'' ہے جس كا مطلب '' كنجي'' ليا گيا ہے_

۳_ پيغمبر(ص) كائنات كے تمام اسرار و رموزسے آگاہ نہيں _قل لو ان عندي و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

گذشتہ آيات ميں پيغمبر(ص) كے اختيارات اور

۱۷۶

قدرت كے بارے ميں مشركين كے غلط تصور كو بيان كيا گيا ہے_ چونكہ ان كا خيال تھا كہ پيغمبر(ص) كو چاہيئے كہ وہ نزول عذاب يا معجزات كے سلسلے ميں ان كے مطالبات كو پورا كريں _ (ليكن) يہ آيت، علم غيب كو خداوند عالم سے مخصوص كرتے ہوئے ان (مشركين) كے خيال كو رد كررہى ہے اور علم پيغمبر(ص) كى محدوديت كو بيان كررہى ہے جس كے نتيجے ميں پيغمبر(ص) كى قدرت بھى محدود ہوجاتى ہے_

۴_ عالم غيب، عالم شھود كے مقابلے ميں ايك انتہائي باعظمت اور پيچيدہ عالم ہے_و عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو

تاكيد و حصر كے بغير جملے ''يعلم ما في ...'' كے مقابلے ميں ، خداوندعالم سے علم غيب كے مخصوص ہونے كى تاكيد كرنا مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ ہے_

۵_ خداوند متعال كے تكوينى و تشريعى احكام، كائنات كے غيب و شہود كے بارے ميں اس كى كامل آگاہى پر مبنى ہيں _

ان الحكم الا لله لو ان عندى ما تستعجلون به و عنده مفاتح الغيب

۶_ مشركين اور كفار كو جلد عذاب نہ ہونا، كائنات كے غيب و شہود اور اسرار خلقت سے خداوند كى على الاطلاق آگاہى سے مربوط ہے_قل لو ان عندى ما تستعجلون و عنده مفاتح الغيب

۷_ خداوندعالم ، بر و بحر كى ہر چيز سے آگاہ ہے_و يعلم ما فى البر و البحر

۸_ درختوں سے كوئي ايسا پتا نہيں گرتا كہ جس سے خداوند عالم آگاہ نہ ہو_و ما تسقط من ورقة الا يعلمها

۹_ زمين كى ظلمتوں اور مٹى كى سياہى ميں گرنے والا كوئي بھى دانہ علم خداكے احاطے سے باہر نہيں _

و ما تسقط من ورقة و لاحبة فى الظلمت الارض

۱۰_ كائنات كى وسعتوں پر كوئي خشكى و ترى ادھر ادھر نہيں ہوتى اور نابود نہيں ہوتى كہ جس سے خداوند آگاہ نہ ہو_

و ما تسقط من ورقة و لا رطب و يابس الا فى كتاب مبين

۱۱_ خداوند عالم كو كائنات كى تمام موجودات كے حالات كے بارے ميں مكمل احاطہ علمى حاصل ہے_

و ما تسقط من ورقة الا يعلمها و لا رطب و لا يابس

۱۷۷

۱۲_ كائنات كے واقعات اور انكى جزئيات، علم خدا كے احاطہ ميں ہيں _و ما تسقط من ورقة الا يعلمها و لا حبة

درخت سے كسى پتے كے گرنے يا زمين ميں كسى دانے كے بارے ميں علم ايك جزئي علم ہے_ لہذا يہ آيت ان لوگوں كے خيال كى نفى كرتى ہے كہ جو علم خدا كو فقط كلى امور ميں محدود كرتے ہيں _

۱۳_ كتاب مبين، كائنات كى تمام موجودات اور انكے تحولات كے بارے ميں اطلاعات كا ايك جامع ذخيرہ (و مركز) ہے_و ما تسقط و لا رطب و لا يابس الا فى كتب مبين

۱۴_ كتاب مبين ميں موجود اطلاعات، روشن واضح اور ہر قسم كے ابہام سے دور ہيں _و لا رطب و لا يابس الا فى كتب مبين ''لسان العرب'' كے مطابق ''بان الشيء بيانا : اتضح و كذلك ابان الشى و ھو مبين'' مبين يعنى روشن، واضح اورابہام و شك سے خالي_

۱۵_ كائنات كا پورا نظام اور تمام امور ايك قانون اور نقشے كے مطابق ہيں _وعنده و لا رطب و لا يابس الا فى كتاب مبين قاعدتاً كتاب مبين ميں موجود اطلاعات، غير مربوط اطلاعات نہيں (ہوسكتيں ) خصوصاً يہ آيت، كائنات كے امور ميں خداوند عالم كى آگاہى و علم كے مطابق ايك نظام كو ظاہر كرنا چاہتى ہيں _ اس كے علاوہ ''يعلمھا'' فقط خارج ميں واقع ہونے والے ايك حادثے پر ہى دلالت نہيں كرتا بلكہ ايك مجھول شئے كے تمام پہلوؤں اور اسكے علل و اسباب كو بھى شامل ہے_

آفرينش (خلقت) :آفرينش كى تدبير ۱۵; آفرينش كے تحولات ۱۲; آفرينش و خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۱۵; موجودات آفرينش ۷

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے علم غيب كى حدود۳

احكام :تشريعى و تكوينى احكام كا منشاء ۵

پودے :پودوں كا دانہ (بيج) ۹

حوادث :حوادث اور واقعات كى اطلاعات كا ذخيرہ ۱۳

خدا تعالى :مختصات خدا ۱، ۲; حكم خدا ۵; خدا كا علم تفصيلى ۷، ۸، ۹، ۱۰ ،۱۱، ۱۲ ;خداوند كا علم غيب ۱، ۲، ۵، ۶;خداوند كا

۱۷۸

علمى احاطہ ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲; مختصات خدا ۱،۲

درخت :درخت كے پتوں كا گرنا ۸

عالم غيب :عالم غيب كى عظمت ۴; عالم غيب كى كنجى ۲;عالم غيب كے خزائن ۱

كتاب مبين :كتاب مبين كا كردار ۱۳;كتاب مبين كى اطلاعات ۱۴

كفار :كفار كے عذاب ميں تاخير ۶

مشركين :مشركين كے عذاب ميں تاخير ۶

موجودات :موجودات كا ذخيرہ ۱۳; دريائي موجودات ۷ ; موجودات ميں تحولات ۹; ۱۰، ۱۱، ۱۳

۱۷۹

آیت ۶۰

( وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

اور وہى خدا ہے جو تمہيں رات ميں گويا كہ ايك طرح كى موت دے ديتا ہے اور دن ميں تمہارے تمام اعمال سے با خبر ہے اور پر دن ميں تمہيں اٹھا ديتا ہے تا كہ مقررہ مذت حيات پورى كى جا سكے _اس كے بعد تم سب كى بازگشت اسى كى بارگاہ ميں ہے اور پھر وہ تمہيں تمہارے اعمال كے بارے ميں با خبر كرے گا

۱_ فقط خداوند عالم ہے كہ جو انسان كى روح قبض كركے اسے رات كے وقت نيند عطا كرتاہے_هو الذى يتوقكم بالليل

آيت ميں ''توفي'' كا معنى قبض روح ہے چونكہ نيند ميں بھى انسان كى روح قبض كرلى جاتى ہے، لہذا اسے ''توفي'' كہا جاتاہے_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

يہاں يہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ برادران يوسف اس كلام كے مضمون پر اطمينان ركھتے تھے_

احكام :۴برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱، ۲، ۷، ۸; برادران يوسف كا اطمينان ۸;برادران يوسف كا اقرار۵; برادران يوسف كا توجيہ كرنا ۳;برادران يوسف كا جھوٹ بولنا ۱، ۲، ۳، ۸;برادران يوسف كا دعوي ۶;برادران يوسف كا عذر لانا ۳;برادران يوسف كى تہمتيں ۷; برادران يوسف كى سازش ۱، ۲، ۵، ۸

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۴

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۶;يعقوب(ع) پر تہمت ۷; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں مقابلے۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا بھيڑيئے كا لقمہ بننا ۳، ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸;يوسف(ع) كى محافظت ميں كمى كرنا۵

آیت ۱۸

( وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ )

اور يوسف كے كرتے پر جھوٹا خون لگا كرلے آئے _يعقوب نے كہا كہ يہ بات صرف تمھارے دل نہ گڑھى ہے لہذا ميرا راستہ صبر جميل كاہے اور اللہ تمھارے بيان كے مقابلہ ميں ميرا مددگار ہے (۱۸)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو كنويں ميں ركھنے سے پہلے اس كے بدن سے قميص كو اتار ليا _

و جاء و على قميصه بدم كذب

۲_ برادران يوسف(ع) نے جھوٹ كے خون ( جو اسكا خون نہيں تھا) سے اسكى قميص كو رنگين كرديا_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۳_ برادران يوسف(ع) ، يعقوب(ع) كو خون والى قميص دكھاكر اپنےمن گھڑت دعوى كو ثابت كرنا چاہتے تھے_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۴_ يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خونى ہونا يہ واضح و روشن دليل تھى كہ يوسفعليه‌السلام بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے _

وجاء و على قميصه بدم كذب

(بدم ) كا لفظ ( جاءو ) كے ليے مفعول ہے اور ( على قميصہ ) لفظ ( دم ) كے ليے حال ہے _ لہذا (جاوء ...) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ جھوٹے خون كو لائے تھے

۴۰۱

حالانكہ وہ خون قميص كے سامنے والے حصہ پر تھا حالانكہ عموماً زخمى ہونے والے كے لباس كا اندر اور استروالا حصہ خونى ہوتا ہے _ ليكن يوسفعليه‌السلام كے لباس كا اوپر والا حصہ خونى تھا اس سے يعقوب عليہ السلام بھانپ گئے كہ انكا بيٹا بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے ہيں _

۵_ برادران يوسف نے يوسف(ع) كى قميص كو جس خون سے رنگين كيا تھا اس خون سے بخوبى معلوم ہوتا تھا كہ يہ جناب يوسف(ع) كا خون نہيں ہے _وجاء و على قميصه بدم كذب

(كذب) مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم فاعل ( كاذب) كے معنى ميں آيا ہے _ جب مصدر كو اسم فاعل كے معنى ميں استعمال كيا جائے تو مبالغہ كا فائدہ ديتا ہے _ تو ( دم كذب) كا معنى يہ ہوگا كہ ايسے جھوٹ كا خون كہ اسكا جھوٹا ہونا واضح اور وشن تھا_

۶_ برادران يوسف نے ان كى قميص جو كہيں سے بھى پھٹيہوئي نہيں تھى كو دكھا ياتو ان كا جھوٹا دعوى ( كہ يوسفعليه‌السلام كوبھيڑيا كھا گيا ہے ) واضح ہوگيا _وجاء و على قميصه بدم كذب

معمولاً جو شخص درندوں كا لقمہ بنتا ہے اسكا لباس صحيح و سالم نہيں رہتا _ اور زيادہ پھٹنے كى وجہ سے وہ لباس كى ماہيت سے خارج ہوجاتا ہے لہذا (قميص) كالفظ آيت ميں ذكر ہوا جسكو برادران يوسف نے يعقوبعليه‌السلام كو دكھا يا يہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يا تو لباس مكمل طور پرصحيح و سالم تھا يا نسبتاً سالم تھا يہ دوسرى دليل ہوئي كہ برادران يوسف اپنے دعوى ميں سچے نہيں ہيں _

۷_ يعقوب عليہ السلام اپنے بيٹوں كى اس قصّہ بيانى كو قبول نہيں كيا اور اس كے جھوٹے ہونے پر مطمئن ہوگئے _

فأكله الذئب قال بل سؤلت لكم انفسكم امر

(تسويل) ''سوّلت ''كا مصدر ہے جو آسان كرنے كے معنى ميں آتا ہے نيز ناپسند شے كو زينت دينا تا كہ اچھى معلوم ہو يہاں ( امر ) سے مراد يوسفعليه‌السلام كے خلاف مكر وفريب ہے اسى وجہ سے (بل سوّلت ...) كا معنى يوں ہوگا جو بات كہہ رہے ہو وہ درست نہيں ہے _ بلكہ تمہارے نفس نے ناپسند شے كو تمہارے ليےاچھا جلوہ ديا ہے اور اسكا مرتكب ہونا تمہارے ليے آسان ہے _

۸_ يعقوب عليہ السلام كو يوسفعليه‌السلام كے خلاف اپنے بيٹوں كى طرف سے سازش كرنے پر اطمينان تھا _بل سؤلت لكم انفسكم امر

۴۰۲

كلمہ (بل) اس بات كو بتاتا ہے كہ يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كى بات كو قبول نہيں كيا اور (سوّلت لكم ) كا جملہ بتاتا ہے كہ و ہ يوسف عليہ السلام كے خلاف ان كى سازش كو بھانپ گئے تھے_

۹_ يعقوب عليہ السلام حضرت يوسف(ع) كے خلاف اپنے بيٹوں كى سازش كا سبب ان كے نفس كا فريب اور نفسانيمكاريوں كا جلوہ سمجھتے تھے_بل سوّلت لكم انفسكم أمر

۱۰_ انسان كا نفس، بُرے و نامناسب كاموں كو زيبا ديكھانے اور ان كے انجام دلوانے پر قدرت ركھتا ہے _

بل سوّلت لكم انفسكم امر

۱۱_ يعقوب عليہ السلام نے اس بات كا فيصلہ كرليا كہ وہ اپنے بيٹوں كى اس خيانت پر جو يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں تھى پر سكوت اختيار كريں اور اسكى چھان بين نہ كريں _بل سوّلت لكم و الله المستعان على ما تصفون

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام نے يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور اپنے بيٹوں كى غلط رفتار پر صبر و بردبار رہنے كا فيصلہ كرليا _فصبر جميل

ما قبل جملات كے قرينہ كى بناء پر(صبر ) كا متعلق يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور ان كے بيٹوں كا جھوٹے قصّوں كى مناظر كشى اور غلط كام ہيں _

۱۳_ مشكلات اور تلخ ترين واقعات ميں صبر و حوصلہ سے كام لينا اچھى اور قابل تعريف خصلت ہے _ /فصبر جميل

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب لفظ (صبر) مبتدا اور (جميل) اسكى خبر ہے _

۱۴_ يعقوب عليہ السلام كا فراق يوسفعليه‌السلام ميں صبر و حوصلہ كرنا، قابل تعريف و تحسين تھا_فصبر جميل

كيونكہ ( جميل) (صبر) كے ليے صفت ہے تو يہاں مبتدا كو محذوف ليا جائے گا ( صبرى صبر جميل) يا خبر كو محذوف ليا جائے گا ( صبر جميل احسن) مذكورہ معنى اسى احتمال كى صورت ميں ہے _

۱۵_حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے اظہار نظر كى حقيقت كو معلوم كرنے كے ليئے خداوند عالم سے مدد طلب كي_والله المستعان على ما تصفون

(وصف) ''تصفون ''كا مصدر ہے جو بيان كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ لفظ( ما ) سے مراديوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں جھوٹى باتيں ہيں ان كى غلط اور غير حقيقت باتوں كے بارے ميں خداوند متعال سے مدد طلب كرنے كا معنى يہ ہے كہ ان باتوں كى حقيقت ظاہر ہوجائے _

۴۰۳

۱۶_ يعقوبعليه‌السلام بہت زيادہ صابر اور موحد شخصيت تھے جو صرف خداوند وحدہ لاشريك كو مدد دينے پر قادر سمجھتے تھے _

والله المستعان على ما تصفون

۱۷_ اپنے امور ميں ضرورى ہے كہ صرف خداوند متعال پر توكل كيا جائے اور اس سے مددحاصل كى جائے_

والله المستعان على ما تصفون

(والله المستعان ) كى مثل جملات ميں مبتداء معرفہ اور اسكى خبر الف لام كے ساتھ غير عہدى ہے اور وہ حصر پر دلالت كرتى ہے _

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرنے والے بہت زيادہ صبر اور مقاومت كرنے والے انسان ہيں _

فصبر جميل والله المستعان على تصفون

۱۹_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام '' قال لما ا وتى بقميص يوسف الى يعقوب كان به نضح من دم (۱)

ترجمہ : امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ جب يعقوبعليه‌السلام كے ليے يوسف(ع) كى قميص لائي گئي تو اس پر خون كے چھينٹے گرائے گئے تھے_

۲۰_'' عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله '''' و جاؤ وا على قميصه بدم كذب'' قال: انهم ذبحوا جدياً على قميصه _ (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول (جاؤ وا ...) كے بارے ميں روايت ہے : آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے بكرى كے بچے كو انكى قميص پر ذبح كيا تھا_

۲۱_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال (يعقوب لهم ) بل سوّلت لكم ا نفسكم ا مراً و ما كان الله ليطعم لحم يوسف الذئب من قبل ا ن ا رى تا ويل رؤياه الصادقة (۳)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے يعقوبعليه‌السلام نے برادران يوسف(ع) سے كہا '' بل سوّلت لكم انفسكم امراً'' اور ايسا نہيں ہوسكتا كہ خداوند متعال يوسف عليہ السلام كے گوشت كو بھيڑے كى خوراك بنا دےقبل اس كے كہميں اسكى خواب كى صحيح تعبير و تاويل ديكھ نہ لوں _

۲۲_ '' عن الصادق عليه‌السلام فى قوله عزّوجل فى قول يعقوب '' فصبر جميل '' قال : بلا شكوى (۴)

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲، ص۱۷۱، ح۹، نورالثقلين ، ج۲ ص۴۱۷، ج۲۸_۲) تفسير قمى ، ج۱، ص۳۴۱، نورالثقلين ، ج۲، ص۴۱۷، ح۲۷_

۳) تفسير عياشى ، ج۲، ص۱۶۹، ح۵، تفسير برهان ، ج ۲ص ۲۴۷، ح۵_۴) امالى شيخ طوسى ، ج۱، ص۳۰۰، نور الثقلين ، ج۲، ص ۴۵۲، ح۱۴۷_

۴۰۴

امام صادقعليه‌السلام سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے قول كے بارے ميں خداوند عالم كے اس فرمان (فصبر جميل) كے بارے ميں روايت ہے: اس سے مرادايسا صبر جسميں شكوہ نہ ہو _

الله تعالى :الله تعالى كى مختصّات ۱۶; الله تعالى كى امداد ۱۶

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۳;برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى قميص۱، ۳;برادران يوسف(ع) كا جھوٹ بولنا ۷; برادران يوسف كا ناپسند عمل ۱۲; برادران يوسف(ع) كى سازش ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۵، ۲۰، ۲۱ ; برادران يوسف كى سازش كے عوامل ۹; برادران يوسف كى ہوا و ہوس ۹، ۱۲;برادران يوسف كے جھوٹ بولنے كى وجوہات ۴، ۵، ۶;

توكلّ:الله تعالى پر توكل كى اہميت ۱۷

روايت : ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/شدّت :شدّت ميں صبر۱۳

صابرين :۱۶، ۱۸/صبر:صبر كى اہميت ۱۳; صبر جميل۱۳; صبر جميل سے مراد۲۲

عمل :ناپسنديدہ عمل كا سبب ، ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت پيش كرنے كى وجہ ۱۰

متوكلين :متوكلين كا صبر ۱۸; متوكلين كى خصوصيات ۱۸

موحدين : ۱۶/ہوا و ہوس:ہوا و ہوس كے آثار ۹، ۱۰

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف ۷; يعقوب(ع) اور برادرا ن يوسف كى سازش ۸، ۱۱;يعقوبعليه‌السلام اور حقائق كا ظاہر ہونا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كا اطمينان ۷، ۸; يعقوبعليه‌السلام كا صبر ۱۲، ۱۶، ۲۲; يعقوبعليه‌السلام كا عقيدہ ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كا قصّہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا فيصلہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا مدد طلب كرنا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كى توحيد افعالى ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كى سوچ ۹;يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كے صبر كى تعريف ۱۴; يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۶

يوسفعليه‌السلام :

يوسفعليه‌السلام كا بھيڑے كا لقمہ بننا ۴،۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۹، ۲۰، ۲۱; يوسف(ع) كى جدائي ميں صبر ۱۲، ۱۴;يوسف(ع) كى قميص ۶; يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خون ۲، ۴، ۵، ۱۹، ۲۰;يوسفعليه‌السلام خلاف سازش ۸،۹

۴۰۵

آیت ۱۹

( وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَا بُشْرَى هَـذَا غُلاَمٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ )

اور وہاں ايك قافلہ آيا جس كے پانى نكالنے والے نے اپنا ڈول كنويں ميں ڈالا تو آواز دى ارے واہ يہ تو بچہ ہے اور اسے ايك قيمتى سرمايہ سمجھ كر چھپاليا اور اللہ ان كے اعمال سے خوب باخبر ہے (۱۹)

۱_ جس كنويں ميں حضرت يوسفعليه‌السلام تھے اس كے اطراف ميں ايك قافلے نے پڑاؤ ڈالا اور جو پانى لانے پر مامور تھا انہوں نے اسے كنويں كى طرف روانہ كيا_و جاء ت سيّارة فا رسلوا واردهم

'' وارد '' اس شخص كو كہتے ہيں جو كنويں ، نہر اور اس طرح كى جگہوں سے پانيلينےآتا ہے _

۲_ قافلے كا پانى لانے والے نے جب پانى لينے كے ليے كنعان كے كنويں ميں اپنا ڈول ڈالاتو خلاف توقع اس نے ايك بچے كو باہر نكالا_فأدلى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

( أدلا ) ا دلى كا مصدر ہے جو ڈول ڈالنے كے معنى ميں آتا ہے _اور ''غلام '' چھوٹے بچے كو كہا جاتا ہے _( مصباح الميز )

۳_ يوسفعليه‌السلام نے قافلہ كے پانى لانے والے كى رسّى و ڈول سے چمٹكراپنے آپ كو كنويں سے نجات دى _

فأرسلوا و اردهم فأدنى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

۴_ قافلے كاپانى لانے والا، حضرت يوسفعليه‌السلام كوپاكر بہت متعجب اور خوشحال ہوا اور اپنے ساتھيوں كواسكى خوشخبرى دي_قال يا بشرى هذا غلام

۵_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ حضرت يوسف(ع) كو بطور تجارتى سامان اپنے ساتھ لے گيا_و اسرّوه بضعة

(بضاعة) اس مال و اجناس كو كہتے ہيں جو تجارت

۴۰۶

كے ليے ہو تا ہے_

۶_حضرت يوسف(ع) كو پانے والے قافلہ نے ان كو تجارتى سامان قرار دہتے كى وجہ سے چھپانے كى بہرپور كوشش كي_

و اسرّوه بضعة

(اسرّوا) (پوشيدہ و مخفى ركھنا) كے معنى ميں (قرار ينے كا مضى متضمن ہے) اسى وجہ سے لفظ (بضاعة) كو مفعول دوم كے طور پر منصوب كيا گيا ہے_ تو جملے كا معنى يوں ہوگا كہ يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان بنا كر انكو مخفى ركھا گيا_

۷_ يوسفعليه‌السلام كا كنويں سے نجات پانا، ان كى غلامى كا آغاز تھا_و اسّروه بضعة

انسان كو ( بضاعت) تجارتى سامان قرار دينا ،اس كے غلام ہونے يا غلام خيال كرنے كے مترادف ہے_

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كو غلام كے طور پر خريد و فروخت كا رواج تھا_و أسرّوه بضعة

۹_ خداوند متعال، انسانوں كے اعمال و كردار سے آگاہ ہے_و اللّه عليم بما يعملون

۱۰_ اہل قافلہ، يوسفعليه‌السلام كو غلام بنانے كو غير شرعى اور غير قانونى كام سمجھتے تھے_و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بمايعملون

حالانكہ وہ بچہ جو لا وارث ملا ہو اسكو غلامى ميں لانا اور قابل فروخت قرار دينا جائز اور قانونى كام تھا_لہذايوسفعليه‌السلام كو مخفى ركھنا،معقول نہيں تھا _(ا سرّوه بضاعة)

۱۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ، ان كو ( خريد و فروخت كا) سامان قرار دينے پر گنہگار اور عذاب الہى كا مستحق قرار پايا_

و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بما يعملون

اس چيز كى ياد آورى كہخداوند متعال، بندوں كے اعمال سے آگاہ ہے ممكن ہے اس كے عذاب دينے كى طرف اشارہ ہو_

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانہ ميں راستہ سے ملنے والے انسان كى خريد و فروخت، نامناسب اور غير قانونى كام تھا_

و أسرّوه بضاعة

۱۳_ كنعان كے كنويں كے اطراف ميں اہل قافلہ كا كچھ دير كے ليے پڑاؤ ڈالنا اور كنويں سے يوسفعليه‌السلام كو نجات دينا اور اپنے ساتھ لے جانا، مشيت الہى كے مطابق اور اسكى دقيق نظارت ميں انجام پايا _

و جاء ت سيّارة و اللّه عليم بما يعملون

(ما يعملون) ميں ''ما'' سے مراد ممكن ہے يوسف (ع)

۴۰۷

كو خريد و فروخت كا ساما ن قرار دينا ہو (أسرّوه بضاعة ) اور نيز يہ بھى احتمال ہے كہ قافلہ كى تمام داستان جو يوسف(ع) كے بارے ميں ہے وہ مراد ہو_ پہلے احتمال كى بناء پرالله كا علم ان كے اعمال و رفتار كے بارے ميں ( خريد و فروخت كاسامان قرار دينا) انكو سزا دينے كے بارے ميں كنايہ ہے_دوسرے معنى كى صورت ميں علم خدا، اس كى تقدير و تدبير سے كنايہ ہے _ يعنى تمام امور جو يوسفعليه‌السلام كو كنويں سے نجات دينے كاسبب ہوئے ( كنعان كے اطراف ميں قافلے كا گزرنا ، كنويں كے قريب پڑاؤ ڈالنا ...) تمام كے تمام امورالله تعالى كى نظارت و نگرانى ميں واقع ہوئے_

الله تعالى :الله تعالى كا علم غيب ۹; الله تعالى كى تقدير ۱۳; الله تعالى كى نظارت ۱۳

اسماء و صفات :عليم ۹

غلامى كا نظام :غلامى كے نظام كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلامى كا نظام ۸

گمشدہ (انسان ) كى دريافت :گمشدہ انسان كى تجارت كا ناپسنديدہ ہونا ۱۲; يعقوبعليه‌السلام زمانہ ميں گمشدہ انسان كى تجارت ۱۲

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ:يوسفعليه‌السلام كو پالينے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كا پڑاؤ ۱۳; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كاساقى ۱; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كو بشارت۴;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كے ساقى كى بشارت ۴; يوسفعليه‌السلام كو پالينے والے قافلے كى سزا،۱۱;يوسف(ع) كو پالينے والے قافلے كے ساقى كى خوشى ۴; يوسفعليه‌السلام كے پانے والے قافلے كى فكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا چھپانا ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶ ، ۷، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۷، ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى كنويں سے نجات ۲، ۳، ۷، ۱۳;يوسفعليه‌السلام كے كنويں كا قصّہ ۱

۴۰۸

آیت ۲۰

( وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ )

اور ان لوگوں نے يوسف كو معمولى قيمت پر بيچ ڈالا چند درہم كے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بيزار تھے ہي(۲۰)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو اہل قافلہ نے بہت ہى ناچيز اور كم درہموں ميں فروخت كرديا_و شروه بثمن بخس دراهم معدودة

(شرائ) (شروا) كا مصدر ہے فروخت كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ اور (شروہ) ميں فاعل كى ضمير (سيّارة) كى طرف لوٹتى ہے (بخس ) مصدر ہے جو اسم مفعول كے معنى ميں ہے_( مبخوس _ ناقص اور ناچيز)كے معنى ميں ہے ( ثمن بخس) يعنى جس قيمت سے خريدارى كى گئي ہے وہ شے ارزش كے اعتبار سے اس سے زيادہ ہو (معدودة) كا معنى شمار كيا گيا ہےيہاں بہت كم ہونے سے كنايہ ہے_

۲_ تمام اہل قافلہ خود كو يوسفعليه‌السلام كى نسبت صاحب نفع خيال كرتے تھے اور اپنے آپ كو اسكا مالك سمجھتے تھے_

اسرّوه بضاعة و شروه بثمن

يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان قرار دينے اور انہيں فروخت كرنے كى نسبت قافلہ كيطرف دى گئي ہے اس سے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہو تاہے_

۳_ اہل قافلہ جنہوں نے يوسفعليه‌السلام كوپاياتھا ان كو اپنے پاس ركھنے ميں كوئي دلچسپى نہيں ركھتے تھے_

شروه و كانوا فيه من الزاهدين

(زہد) كسى شے كو بے فائدہ سمجھ كر اسكى طرف رغبت نہ ركھنے كو كہتے ہيں _ شايد اہل قافلہ كو خوف تھاكہ لا وارث انسان كو غلام بناناايك نامناسب رويہ ہے اور يہ لوگوں پر فاش نہ ہوجائے_ اس وجہ سے انہوں نے اس كے ليے بہت ہى كم قيمت قراردى تا كہ جلدى ہى فروخت ہوجائے_

۴_ اہل قافلہ كا يوسفعليه‌السلام كى فروخت ميں جلدى كرنا اور ان كى نگہداشت ميں بے توجہى كا اظہار كرنا، انكو كم قيمت فروخت كرنے كا سبب تھا_و شروه بثمن بخس و كانوا فيه من الزاهدين

۴۰۹

(و كانوا ) كا جملہ (شروه بثمن بخس ) كے جملے كى تعليل كے مقام پرہے _ يعنى يوسفعليه‌السلام كو اپنے پاس ركھنے ميں ان كى دلچسپى نہ لينا ، ان كو كم قيمت فروخت كرنے كا موجب تھي_

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو بہت ہى كم درہم اور ناچيز سى قيمت اہل قافلہ كو فروخت كرديا_

و شروه بثمن بخس

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے كہ(شروہ) كے فاعل كى ضمير سے مراد برادران يوسف ہوں اس بناء پر يوسفعليه‌السلام كے بھائي فروخت كرنے والے اور اہل قافلہ اس كے خريدارتھے_ عبارت(الذى اشتراہ من مصر)بعد والى آيت ميں ممكن ہے اس بات كى تائيد كرتى ہوچونكہ مصر ميں يوسفعليه‌السلام كى خريد و فروخت سے پہلے بھى ان كى ايك مرتبہ خريد و فروخت ہوچكى ہے_

۶_ يوسف(ع) ، اپنے بھائيوں كى نظر ميں بے قيمت اور كم ارزش تھے_و كانوا فيه من الزاهدين

(كانوا) كى ضمير مذكورہ معنى كى صورت ميں برادران يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹ رہى ہے _

۷_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كى غلامى كا اور انكى خريد و فروخت كا كام رائج تھا_و شروه بثمن بخس

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم ( چاندى كا سكہ) رائج كرنسى تھي_دراهم معدودة

۹_'' عن على ابن الحسين عليه‌السلام : فلما ا خرجوه ا قبل إليهم إخوة يوسف فقالوا هذا عبدنا ا منكم من يشترى هذا العبد؟ فاشتراه رجل منهم بعشرين درهماً و كان اخوته فيه من الزاهدين (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب قافلے والوں نے يوسفعليه‌السلام كوكنويں سے باہر نكالا تو اس كے بھائي ان كے قريب گئے اور ان سے كہا : كہ يہ ہمارا غلام ہے كيا كوئي تم ميں سے ايسا ہے جو اسكو خريدے؟ تو اس وقت ايك شخص نے ان سے بيس درہم ميں خريد ليا اور حضرتعليه‌السلام كے بھائي ان ميں كوئي دلچسپى نہيں لے رہے تھے_

برادران يوسف(ع) :برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶; برادران يوسف(ع) كى فكر ۶

درہم :يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم كا ہونا ۸

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲، ص ۴۱۳، ح ۱۷_

۴۱۰

روايت : ۹

غلام ركھنا :غلام ركھنے كى تاريخ ۷; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلام كا ركھنا ۷

كرنسى :كرنسى كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج كرنسى ۸

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ :يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلہ كا دعوى ۲

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے بے توجہى ۳، ۴، ۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۹;يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱، ۴، ۵، ۹; يوسفعليه‌السلام كى ملكيت كا دعوى ۲

آیت ۲۱

( وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لاِمْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَداً وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور مصر كے جس شخص نے انھيں ۱_خريد اتھا اس نے اپنى بيوى سے كہا كہ اسے عزت و احترام كے ساتھ ركھو شايد يہ ہميں كوئي فائدہ پہنچائے يا ہم اسے اپنا فرزند بناليں اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اقتدار ديا اور تا كہ اس طرح انھيں خوابوں كى تعبير كا علم سكھائيں اور اللہ اپنے كام پر غلبہ ركھنے والا ہے يہ اور بات ہے كہ اكثر لوگوں كو اس كا علم نہيں ہے (۲۱)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ مصر ميں داخل ہوا اور اسى ہى ديار ميں اسكو فروخت كرديا_

و شروه بثمن و قال الذى اشترىه من مصر

۲_ عزيز مصر نے مصر ميں قافلے والوں سے يوسفعليه‌السلام كو خريدليا _و قال الذى اشترىه من مصر

(من مصر)كے بارے ميں احتمال ہے كہ(اشتراہ ) كے متعلق ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے حال ہو _ ليكن مذكورہ بالا تفسير احتمال اول كى صورت ميں ممكن ہے اور بعد ميں آنے والى آيات اس بات كو بيان كر رہى ہيں كہ (الذى اشتراہ ) سے مراد عزيز مصر ہے_

۴۱۱

۳_ يوسفعليه‌السلام كا خريدار (زليخا كا شوہر) مصرى شہرى تھا_و قال الذى اشترى ه من مصر

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب (من مصر) كا متعلق محذوف ہواورجملہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے صفت ہو يعنى جملہ يوں ہو گا _ (قال الذى اشتراہ و ہو من اہل مصر ) اس نے كہا جس نے اسكو خريدا درحالا نكہ وہ اہل مصر ميں سے تھا_

۴_ زليخا كا شوہر، يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ( عزيزى ) كے مرتبے پر نہيں تھا_و قال الذى اشترىه من مصر

خريدار يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے( قرآن مجيد) عنوان سے ياد نہ كرنا،ممكن ہے مذكورہ تفسير كى طرف اشارہ ہو_

۵_ عزيز مصر ،نے يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ان كى بلند شخصيت اور مقام والاسے اطمينان حاصل كرليا _

لا مرأته أكرمى مثوىه عسى أن ينفعن

۶_ عزيز مصر چاہتا تھا كہ يوسفعليه‌السلام سے اپنے كاموں كے ليے استفادہ كرے يا اسكو اپنے اور اپنى بيوى كى فرزندى ميں لے آئے_قال الذى أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى مدد اور اسكو اپنى فرزندى ميں لانے كا سبب اپنى اور اپنى بيوى زليخا كى اس سے محبت كو قرارديا_أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

جملہ ( عسى ) جملہ ( اكرمى مثواہ) كے ليے علت ہے _ تو جملے كا معنى يوں ہوگا _ كہ ميں تم سے يہ چاہتا ہوں كہ تم اسكا احترام كرو تا كہ وہ ہم سے محبت كرنے لگے تا كہ اسكى مدد سے ہم اپنے دل كو بہلائيں يا يہ كہ اسكو منہ بولا بيٹا بنا نے ميں كامياب ہوجائيں _

۸_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كے كاموں كو اپنى بيوى زليخا كے سپرد كيا اور اس سے كہا كہ انكا احترام كرے اور ان كے مقام و مرتبے كا خيال ركھے_لا مرأته أكرمى مثوىه

(مثوى ) اسم مكان ہے جو گھر يا رہائش گاہ كے معنى ميں آتا ہے _( اكرمى مثواہ ) يعنى اس كى منزل ومقام كا احترام كرو_ گھر اور رہائش گاہ كے مناسب و اچھے ہونے پر تاكيد بتاتى ہے كہ اصل ميں اس شخص كى تعظيم ہے جو اس جگہ رہائش پذير ہے_

۹_ عزيز مصر اور اسكى بيوى زليخااولاد كى نعمت سے محروم تھے_أو نتخذه ولد

معمولاً وہ لوگ جو اولاد نہيں ركھتے، وہى كسى كو اپنى اولاد قرار ديتے ہيں اوراسوجہ سے جملہ ( نتخذہ ولداً) مذكورہ بالا معنى كى

۴۱۲

طرف ممكن ہے اشارہ ہو اور يوسفعليه‌السلام كو اپنى فرزندى ميں لانے كا بيان كلمہ (عسى ) سے ظاہر ہوتا ہے جو اس احتمال پر تاكيد كررہا ہے_

۱۰_ كسى شخص كو فرزند (منہ بولا بيٹے) كے طور پر انتخاب كرنا، يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں متداول امر تھا اور قديم مصر ميں اسكى قانونى حيثيت تھى _أو نتخذه ولد

۱۱_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھرانے ميں داخل كر كے يوسفعليه‌السلام كے ليے اس سرزمين مصر ميں بانفوذ اور قدرتمند ہونے كے راستہ كو ہموار كيا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

(الأرض) سے مراد مصر كى سرزمين ہے_ ''تمكين '' ''مكنّا ''كا مصدر ہے جو مكان و جگہ دينے كے معنى ميں آتا ہے _ نيز قدرت اور سلطنت عطا كرنے كے معنى ميں آتا ہے (فى الأرض)كى قيد اس بات كو بتاتى ہے كہ آيت شريفہ ميں (مكنّا) سے دوسرا معنى مراد ہے_

۱۲_ عزيز مصر كے گھر، يوسفعليه‌السلام آرام و آسائش ميں تھے_كذّلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں داخل ہونا، خداوند متعال كے انكے بارے ميں وعدوں كے پورا ہونے كا پيش خيمہ تھا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الاحاديث

(لنعلّمہ) كا ايك مقدر كلام پر عطف ہے يعنى''مكنّاليوسف لنفعل كذا و لنعلّمه '' لنفعل كذا سے مراد وہ امور تھے جنكو حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كے شروع ميں خداوند عالم نے بيان فرمايا تھا مثلا (رأيتهم لى ساجدين ) و(كذلك يجتبيك ربك ...)

۱۵_ خداوند متعال، يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير اور واقعات كى تفسير و تحليل كا سكھانے والا ہے_

و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۶_ خوابوں كيتعبير اور واقعات كى تفسير وتحليل كى تعليم ، يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھر ميں لے جانے كى تقدير الہى كى خاطر تھا_كذلك مكنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الأحاديث

(لام)'' لنعلمہ'' ميں غايت كے ليے ہے اور متعلق كى غرض و ہدف كو بيان كرتا تھا_

۱۷_ تعبير خواب كا علم اور آنے والے واقعات كى تحليل كرنے پرقدرت، خداوند متعال كى نعمتوں ميں سے ہے_

۴۱۳

كذلك و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۸_آنے والے واقعات كى تاريخ اور انكا انجام پذير ہونا ، تقدير الہى اور اس كے قدرت اور اختيار ميں ہے_

و قال الذى اشترىه و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

۱۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير و تا ويل خواب اور آنے والے حالات كى تحليل كا علم ،مطلق و لا محدود علم تھا_و لنعلّمه من تأويل الاحاديث/ مذكورہ بالا تفسير كا حرف (من) جو كہ تبعيض كے ليے ہے سے استفادہ ہوتا ہے _ لہذا( ولنعلّمہ ...) كا معنى يوں ہوگا _ كچھ آنے والے حوادث و واقعات كى تحليل اور تاويل يا كچھ خوابوں كى تعبير كو ان كو سكھا ئيں _

۲۰_ آنے والے حالات اور آئندہ كے ماجروں كى تحليل و تاويل اور خوابوں كى تعبير كا علم ،بہت اہميت والا اور قيمتى ہے_و كذلك مكنا ليوسف فى الارض و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۲۱_ خداوند متعال اپنى مشيت اور ارادوں كو انجام دينے پر قادر ہے _والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹنى ہے _ امر الہى سے مراد وہ كام ہيں كہ جن سے ارادہ الہى اور مشيت خداوند ى اس كے تحقق اور انجام دينے كے ساتھ تعلق ركھتى ہے _

۲۲_ كوئي شے اور كوئي ذات،ارادہ الہى كو روكنے كى طاقت نہيں ركھتى _والله غالب على أمره

۲۳_ يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے حوادث و واقعات فرمان و تدبر الہى سے وجود ميں آئے ہيں _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الا رض والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كے مصاديق ( كذلك مكنّا ليوسف) كے جملے كے قرينے سے يوسفعليه‌السلام كے امور كى تدبير ہے _ بعض مفسّرين نے (أمرہ ) كى ضمير كو يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹايا ہے اس صورت ميں جملہ ( والله غالب على امرہ) كا معنى يہ ہوگا ( كہ خداوند متعال يوسفعليه‌السلام كے امور پر غالب ہے اور اس كے امور كے نظم و ترتيب ميں اسى كا اختيار ہے ) _ مذكورہ بالاتفسير ميں كچھ زيادہ ہى وضاحت ہے_

۲۴_ لوگوں كى اكثريت اس بات سے ناگاہ ہے كہ تمام امور، خداوند عالم كى تدبير كے مطابق انجام پاتے ہيں اور وہ اپنى مشيت كے تحقق پر قادر ہے نيز تمام افراد اس كے مقابلہ ميں عاجز و ناتواں ہيں _

والله غالب على ا مره و لكنّ ا كثر النّاس لا يعلمون

۴۱۴

اكثريت:اكثريت كا جہل ۲۴

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى تعليمات ۱۵، ۱۶;الله تعالى كى تقدير و مقدرات ۱۶ ، ۱۸; الله تعالى كى ربوبيت ۲۳، ۲۴;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۸;الله تعالى كى قدرت ۲۱، ۲۴ ; الله تعالى كى مشيت ۲۱، ۲۴;الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى نعمتيں ۱۳، ۱۷ ; الله تعالى كے ارادے كے تحقق كا پيش خيمہ ۱۴;الله تعالى كے افعال ۱۱، الله تعالى كے اوامر ۲۳

انسان :انسانوں كا عجز ۲۴//تاريخ :تاريخ ميں تبديلى كا سبب ۱۸//زليخا:زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۷، ۸ ; زليخا كالاولد ہونا ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۲، ۶،۸;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كے درجات ۵; عزيز مصر كا بے اولاد ہونا ۹;عزيز مصر كى خواہشات ۸;عزيز مصركى قوميت ۳;عزيز مصر يوسفعليه‌السلام كى خريدارى كے وقت ۴

علم و دانش :آئندہ واقعات كى تحليل كے علم و دانش كى اہميت ۲۰;خوابوں كى تعبيركے علم و دانش كى اہميت ۲۰; علم و دانش كى قيمتى ہونا۲۰

قديمى و تاريخى مصر :قديمى و تاريخى مصر ميں منہ بولا بيٹا۱۰

منہ بولا بيٹا:منہ بولا بيٹا بنانے كى تاريخ ۱۰; منہ بولا بيٹا يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۱۰

موجودات:موجودات كا عاجز ہونا ۲۲

نعمت :آسائش كى نعمت ۱۳;آئندہ كے واقعات كى تحليل كے علم كى نعمت ۱۷; تعبير خواب كے علم كى نعمت ۱۷; قدرت كى نعمت ۱۳

يوسفعليه‌السلام :يوسف(ع) ، عزيز مصر كے گھر ميں ۱۲، ۱۴، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا احترام ۸;يوسفعليه‌السلام كا خريدار ۲; يوسفعليه‌السلام كا علم محدود ہونا ۱۹;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۴ ;يوسفعليه‌السلام كا مدبّر ۲۳; يوسفعليه‌السلام كا معلّم ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كو آئندہ كے واقعات كى تحليل كا علم ۱۵، ۱۶ ، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير كا علم ۱۵، ۱۶، ۱۹; يوسفعليه‌السلام كو منہ بولابيٹا بنانا ۶،۷;يوسفعليه‌السلام كى آسائش ۱۲; يوسفعليه‌السلام كى حكومت كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱;يوسفعليه‌السلام كے اقتدار كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے چناؤ كا سبب ۱۴;يوسف(ع) كے خريدار كى قوميت ۳;يوسفعليه‌السلام مصر ميں ۱، ۲، ۱۱

۴۱۵

آیت ۲۲

( وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْماً وَعِلْماً وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ )

اور جب يوسف اپنى جوانى كى عمر كو پہنچے تو ہم نے انھيں حكم اور علم عطا كرديا كہ ہم اسى طرح نيك عمل كرنے والوں كو جزا ديا كرتے ہيں (۲۲)

۱_ يوسفعليه‌السلام نے اپنے بچپن اور نوجوانى كے ايّام، عزيز مصر كے گھر ميں گذارے يہاں تك كہ جوان ہوئے اور جسمانى اور عقلى بلوغ تك پہنچے_

كلمہ (اشدّ) جسطرح لسان العرب نے سبويہ سے نقلكيا ہے (شدّة)كى جمع ہے جو (طاقت و قدرت ) كے معنى ميں ہےلہذا (أشدّ) سے مراد مختلف طاقتيں ہيں جو مقام كى مناسبت سے جسمانى و عقلى طاقت كو شامل ہيں _

۲_ يوسفعليه‌السلام جب جوانى كى عمر ميں پہنچے تو جسمانى و ذہنى ترقى كے ساتھ ساتھ بلند حكمت اور وسيع علم كے حامل ہوگئے_

ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

(حكماً) اور (علماً ) كے الفاظ كا نكرہ استعمال كرنا، اس حكمت و علم كى عظمت كو بتاتا ہے جو خداوند عالم نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو عطاكى تھي_ اور (اتي) فعلكو (نا ) كى ضمير متكلم كى طرف اسناد دينا، اس حقيقت كى تائيد كرتى ہے اور يہ جو خداوند متعال نے زليخا كى يوسف(ع) كے ساتھ مكارى كى داستان كو بيان كرنے سے پہلے ان كے علم و حكمت كو بيان كياہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يوسفعليه‌السلام زمانہ جوانى ميں علم و حكمت كے مالك تھے_اسى وجہ سے يہ احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ زليخا كى يوسف(ع) سے داستان جوانى كے گزرنے كے بعد ہوئي ہو يعنى حضرت اسوقت مثلا تئيس يا چاليس سال كے ہوں _

۳_ خداوند متعال ہى يوسفعليه‌السلام كوحكمت و علم كا عطا كرنے والا ہے _أتيناه حكماً و علما

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى ہى ميں لوگوں كے درميان فيصلہ اور قضاوت كرنے كى قدرت ركھتے تھے _

ولّما بلغ أشدّه أتيناه حكماً و علم

۴۱۶

بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد معارف الہى كا علم، احكام شريعت،حكمت،اور لوگوں كے درميان قضاوت كا معنى بيان كيا ہے اور (علم ) سے مراد تعبير خواب سے آگاہى ، آئندہ حوادث و واقعات كى تحليل اورمصالح و مفاسد كى شناخت قرار دياہے _

۵_ يوسفعليه‌السلام كا سن رشد ميں پہنچنا، علم و حكمت كے حامل ہونے كا سبب تھا_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

۶_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى عمراور رشدكے مقام پر پہنچنے كے بعد مقام نبوت پر فائز ہوئے_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد مقام نبوت اور (علم ) سے مراد شريعت كا علم بيانكيا ہے _

۷_ مقام نبوت تك پہنچنے كے ليے اسكى صلاحيت اور سبب كى ضرورت ہوتى ہے _ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علم

۸_ يوسفعليه‌السلام نيك لوگوں كا واضح و روشن نمونہ تھے _و كذلك نجزى المحسنين

۹_ يوسف(ع) كا حكمت اور علم سے بہرہ مند ہونا، خداوند متعال كى طرف سے انكے نيك كاموں كى جزاء تھي_

(جزاء) (نجزى ) كا مصدر ہے _ جسكا معنى جزاء و سزا ہے _

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے نيك كام، ان كے مقام نبوت پر فائز ہونے كا سبب بنے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۱_ احسان او ر نيكى كرنا، علم و حكمت سے بہرمند ہونے كاسبب ہے_أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۲_ نيك لوگوں كوجزاء عطا كرنا اور ان كو علم و حكمت سے بہرہ مند كرنا، سنت الہى ہے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

( كذلك نجزى المحسنين) ميں (نجزي)فعل مضارع ہے جواستمرار سے حكايت كرتا ہے _ اور تفسير ميں اس سے سنت كا معنى كيا گيا ہے _

۱۳_ نيك لوگوں كو الله تعالى دنيا ميں بھى جزاء ديتا ہے _أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

احسان :احسان كے آثار ۱۱; احسان كى اہميت ۱۰، ۱۱، ۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى جزاء ۹، ۱۳; الله تعالى كى سنت ۱۲; الله تعالى كى عطا ۳

۴۱۷

الله تعالى كى سنتيں :جزاء دينے كى سنت ۱۲; سزا دينے كى سنت ۱۲

حكمت :حكمت كا سبب ۱۱//صلاحيتيں :صلاحيتوكا فائدہ ۷//علم :علم كا سبب۱۱

محسنين :محسنين كا علم ۱۲; محسنين كى جزاء ۹، ۱۲; محسنين كى حكمت ۱۲;محسنين كى دنيا ميں جزاء ۱۳

نبوت :نبوت كا جوانى ميں عطا ہونا ۶;نبوت كے شرائط ۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر احسان كے آثار ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بچپنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا رشد ۱، ۲، ۶; يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں ہونا ۱;يوسفعليه‌السلام كا علم ۲،۹ ; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴;يوسفعليه‌السلام كا محسنين سے ہونا ۸;يوسفعليه‌السلام كواحسان كى جزاء ۹;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۲، ۴، ۶; يوسفعليه‌السلام كى حكمت ۲، ۹;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۵ ; يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۳;يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے مراحل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۴;يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۶;يوسفعليه‌السلام كى نبوت كے اسباب ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى نوجوانى ۱;يوسفعليه‌السلام كے علم كا سبب ۱ ;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲، ۴ ;يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۶; يوسفعليه‌السلام ميں رشد كے آثار ۵; يوسفعليه‌السلام ميں علم كا سبب ۵

آیت ۲۳

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )

اور اس نے ان سے اظہار محبت كيا جس كے گھر ميں يوسف رہتے تھے اور دروازے بند كردئے ۱_اور كہنے لگى لوآئو يوسف نے كہا كہ معاذ اللہ وہ ميرا مالك ہے اس نے مجھے اچھى طرح ركھا ہے اور ظلم كرنے والے كبھى كامياب نہيں ہوتے (۲۳)

۱_ زليخا ،حضرت يوسف(ع) كى عاشق ہوگئي _و راودته التى هو فى بيتها و غلّقت الابواب

۲_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنے عشق و محبت كا اظہار كر كے انہيں اپنے ساتھ وصال كى دعوت ديتى تھي_و راودته التى هو فى بيتهاعن نفسه

(مراودة ) (راودت) كا مصدر ہے _ جسكا معنى نرم لہجے ميں درخواست كرنا ہے (عن نفسہ) درخواست كے موردكو بتاتا ہےاسى وجہ سے (راودتہ ...) كا معنى يوں ہوا كہ زليخا نے بہت ہى نرم لہجے ميں يوسفعليه‌السلام سے اپنى محبت و عشق كا اظہار كركے اس سے خواہش كى كہ اپنے آپ كو ميرے اختيار ميں دے دے_ يہ ملنے اور وصال كرنے كے تقاضا سے كنايہ ہے

۴۱۸

۳_ زليخا اپنے مقصد كے حصول كے ليے حضرت يوسف(ع) كو ہميشہ اپنا ہم فكربنانےكے ليے مسلسل كوشش و سعيكرتى رہى _وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (راد يرود) ( كہ مراود بھى اسى سے ہے) كے ساتھ جيسا كہ بعض اہل لضت نے كہا ہے اپنے مطلوب تك پہنچے كے ليے مسلسل كوشش و سعى كرنے كى قيد بھى ہو_

۴_ حضر ت يوسف(ع) مسلسل زليخا كى اس خواہش (وصال اور ہمبسترى كرنے) سے اجتناب كرتے رہے _

وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

بعض اہل لغت نے (مراودة) كے معنى ميں دو طرف كى كشمكش اور جھگڑے كو قيد قرارد ديا ہے_ اور انہوں نے كہا ہے كہ ( مراودة) كا معنى يہ ہے كہ دوميں سے ايك كسى شے كو چاہتا ہو اوردوسرا كسى اور شے كو چاہتا ہو _مذكورہ معنى بھى اسى صورت ميں كيا گيا ہے _

۵_ زليخا ،حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظاہرى تسلط كواپنى خواہشات پورے كرنے كے ليے انہيں آمادہ كرنے كے ليے كارآمد سمجھتى تھى _

قرآن مجيد نے زليخا كو اس طرح بيان كيا ہے (التى ہو فى بيتہا ) وہ عورت كہ جس كے گھر ميں يوسفعليه‌السلام رہتے تھے) اس طرح سے زليخا كى صفت بيان كرنا يوسفعليه‌السلام پر زليخا كے تسلط كو بتا رہا ہے_

۶_ زليخا، نے حضرت يوسف(ع) سے كام لينے اور اس كے ساتھ وصال كرنے كے ليے اپنے محل كے دروازوں كو تالہ لگاديا اور انہيں اپنے پاس بلايا _راودته وغلّقت الا بواب و قالت هيت لك

(تغليق) ''غلّقت'' كا مصدر ہے _ تالہ لگانے كے معنى ميں آتا ہے (ہيت لك ) اسم فعل امر ہے _ جو (تم آؤ) كے معنى ميں آتا ہے _

۷_ زليخا كا محل ، مجلل اور شأن والا تھا اور اسميں بہت زيادہ دروازے تھے_و غلّقت الا بواب

(غلّقت الابواب ) باب تفعيل ہے دروازوں كے بند كرنے كے لئے بات تفعيل كو ذكر كرنا ممكن ہے شدّت مبالغہ كو بتاتا ہو _ يعنى دروازوں كو تالہ لگايا ور ان كے اندر والے حصوں كو محكم طريقے

۴۱۹

سے بند كيا اور يہ بات ممكن ہے دروازوں كى كثرت پر دلالت كرے_ مذكورہ بالا تفسير اسى دوسرے معنى كى صورت ميں ہے _

۸_ زليخا، نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنا كام حاصل كرنے كے ليے سہولتيں اور تمام شرائط كوفراہم كيا تھا_

روادته و غلّقت الابواب وقالت هيت لك

۹_ حضرت يوسف(ع) ، نے زليخا كے ظاہرى تسلط اور تمام شرائط مہيا ہونے كے باوجود بھى اسكى خواہش كو قبول نہيں كيا اور اس كے سامنے تسليم نہيں ہوئے_راودته وقالت هيت لك قال معاذ الله

(معاذ) مصدر اور مفعول مطلق ہے فعلمقدر كے ليے جو ''اعوذ'' ہے يعنى (أعوذ بالله معاذ)_

۱۰_ يوسف عليہ السلام شہوت رانى كے تمام وسائل فراہم ہونے كے باوجود ( يعنى زليخا كى خواہش اور اسكا اپنى مرضى كا اظہار كرنا ،محل كا خالى اوردروازوں كا بند ہونا ) بھى خدا كى پناہ مانگى _قال معاذا لله

۱۱_ خداوند متعال كى طرف توجہ اور اسكى پناہ طلب كرنا ، شہوت رانى كے برے انجام سے محفوظ رہنے كا راستہ ہے _

قال معاذا لله

۱۲_ گناہ كے گرداب اور لغزش سے نجات كے ليے ضرورى ہے كہ خداوند متعال كى پناہ لى جائے_قال معاذا لله

۱۳_ شادى شدہ عورتوں سے دوستى اور جنسى روابط ركھنا حرام ہے _قالت هيت لك قال معاذالله

( استعاذہ) اور خدا كى پناہ ميں جانا، گناہ اور شر پھيلانے والے مسئلہ ميں ہوتا ہے _

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى تعجب آوراور انكى عصمت شگفت انگيز تھي_

و روادته التى و غلّقت الا بواب و قالت هيت لك قال معاذالله

۱۵_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى اوج ميں ہى انسان موحد اور خداوند متعال كا فرمانبرداراور پرہيزو تقوى كى معراج پر تھے_

معاذا لله انه ربّى احسن مثواي

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كا حقيقى توحيد پرست، اطاعت الہى ميں مخلص ہونا اور ان كا تقوى و پرہيزگارى ،اس علم و حكمت كا جلوہ تھا جو خداوند متعال ان كو عطا فرما ئي تھي_أتيناه حكاً و علماً قال معاذالله انه ربّى أحسن مثواي

۱۷_ خداوند متعال كى طرف توجہ ، انسان كو گناہ سے روكتى ہے _قال معاذا لله

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744