تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174420 / ڈاؤنلوڈ: 5183
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

 إِنَّ الشَّيْطانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّما يَدْعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحابِ السَّعیرِ (1)

 "شیطان تمھارا دشمن ہے تم بھی اس سے دشمنی رکھو. شیطان کے ساتھ خوشیاں تو منا نہیں سکتا وگرنہ انسان بھی شیطان بن جائے گا".

پس اولیائے خدا سے دوستی رکھو اور دشمنان خدا سے دشمنی رکھنی چاہئے. اور یہ فطرت انسانی ہے اورتکامل اور سعادت انسانی کا عامل  ہے. اگر دشمنان خدا سے دشمنی نہ رکھے تو آہستہ آہستہ ان کی رفتار کو اپنا نے لگتا ہے اور دوستی پیدا ہوسکتی ہے اور آخر میں ایک شیطان دوسرے لوگ اس شیطان کی مانند ہوجائیں گے دیکھ لو قرآ ن کیا فرما رہا ہے:

واذرایت ْ إِنَّ الل ه جامِعُ الْمُنافِقینَ وَ الْکافِرینَ فی‏ جَهَنَّمَ جَمیعاً (2)

 یعنی جب بھی ایسے افراد سے جو ہمارے  دین کی اہانت ، استھزا اور مسخرہ کرتے ہیں ، نزدیک نہ ہو. ورنہ  آخرت میں انہیں کے ساتھ محشور ہونگے.

دوسرے  لفظوں میں ؛ دشمنوں کے ساتھ دشمنی کرنا  نقصانات کے مقابلے میں دفاعی سسٹم ہے جس طرح بدن انسان مفید مواد کو جذب کرتا ہے دفاعی سسٹم زہر اور جراثیم کو دفع کرتا ہے سفید گلوبل کا کام دفاع کرنا اور جراثیم کو مار دیاا ہے کوئی عاقل انسان یہ نہیں کہتا: اے جراثیمو ! خوش آمدید ، آؤ سر آنکھوں پر اھلاً وسہلاً ہمارے بدن میں وارد ہوجا ، تم ہمارے مامثن ہو، تو کیا ہمارا بدن اس صورت میں سالم رہے گا ؟

--------------

(1):-  فاطر6.

(2):-  انعام 68.

۱۴۱

پس ہر جگہ مسکرانا صحیح نہیں ہے بلکہ اسلام اور دین کے دشمنوں سےصراحتاً  بیزاری کااظہار کرنا قرآن کا حکم ہے چنانچہ ابراہیم  نے فرمایا:

انا بری‏ء منکم

اے بت پرستو ! میں تم سب سے بیزار ہوں اسی لئے امریکا مردہ باد اسرائیل مردہ باد کہنا عین عبادت ہے  کیونکہ تبریٰ فروع دین میں شامل ہے.

اور یہ امریکہ و اسرائیل ہماری موت کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے:

وَ لَنْ تَرْضی‏ عَنْكَ الْيَهُودُ وَ لاَ النَّصاری‏ حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَی الل ه هُوَ الْهُدی‏ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ بَعْدَ الَّذی جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ما لَكَ مِنَ الل ه مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصیرٍ (2)

"اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خو ش نہںد ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پر و نہ بن جائںن، کہدیے ت: یقینا اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پر وی کی تو آپ کے لےے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار"۔

پس پہلے دشمنوں پر لعن کرے بھر حسینؑ  پر سلام بھیجے.یہی دستورقرآن کا بھی ہے : پہلے دشمنوں سے اظہار بیزاری کریں پھر دوستوں سے اظہار محبت اول:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْكُفَّارِ بعدفرمایا: رُحَماءُ بَيْنَهُمْ‏ (1)

اگرا یسا  ہو تو حسینی ہیں و رنہ حسینی ہونے کا صرف دعوا ہے.

--------------

(1):- بقرہ 120.

(2):-  فتح 29.

۱۴۲

سوال: داستان کربلا اسلام کی ترویج اور سعادت کا باعث ؟

جواب: اوپر کے چار سوالوں کے جواب کا ماحصل یہ تھا کہ اگر حادثہ عاشورا ، داستان کربلا تاریخ میں نقش متعین کنندہ ہوجائے تو اس کی نگہداری بھی ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم  ہو گا کہ داستان کربلا اسلامی ترقی اور ترویج کیلئے نقش متعین کنندہ  اور سعادت سازہے؟ !!

جواب: جس چیز پر دوست اور دشمن سب متفق ہیں یہ ہے کہ داستان کربلا اگر ایک بے مثال داستان نہ ہو تو کم نظیر داستان تو ہے یعنی نہ ایسی داستان کبھی واقع ہوئی ہے اورنہ بعد میں واقع ہوگی.  لیکن ہمارا عقیدہ ہے  کہ یہ داستان بے نظیر اور بے مثال داستان ہے کیونکہ معصوم  کا فرمان ہے اور اس کی کیفیت وقوع بھی مصیبت کے اعتبار سے قابل مقایسہ  نہیں ہے اس کی دلیل یہی ہے کہ ہر سال ہم بڑی شان و شوکت کے ساتھ عزاداری کرتے ہیں اور اوقات صرف کرتے ہیں ، پیسے خرچ کرتے ہیں اور یہ مراسم سرف اسلامی ممالک میں منعقد نہیں ہوتا

بلکہ نیویارک جیسے بڑے شہروں میں بھی عاشور کے دن تابوت اور شبیہ نکالتے ہیں  جہاں سازمان ملل (اقوام متحدہ ) کا دفتر موجود ہے .حتی اہل سنت بھی اس مراسم عزاداری میں شرکت کرتے ہیں حتی ہندوستان میں مسلمانان ایران کے دو برابر مسلمان موجود ہیں اور اسی طرح بنگلا دیش میں بعنوان ادای اجر رسالت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہوئے عزاداری میں شرکت کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں حکم آیا ہے :

 قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی. (1)

اور اجر رسالت کو ان کے آل کی خوشیوں اور غم میں شریک ہونے کی شکل میں ادا کرتے ہیں یہاں تک کہ بت پرست بھی عزاداری میں شرکت کرتے ہیں اور نذر ونیاز دیتے ہیں اگر آپ گذرزمان کے لحاظ سے دیکھے تو چودہ صدی گذرنے کے بعد بھی وہی طراوت اور شادابی پائی جاتی ہے اور وہی گریہ وعزاداری ہے

--------------

(1):-  الشوری  23.

۱۴۳

 اور اس کے ساتھ ساتھ شیعیان سید الشہدا ء کی قربانیوں کو نگاہ کریں ،کسی بھی قیمت پر ان کی قبر کی زیارت کیلئے حاضرہوتے ہیں متوکل عباسی کے زمانے میں بہت  ہی سخت گیری کرتے تھے یہی متوکل تھا جس نے سید الشہدا ء (ع)کے قبرپر ہل چلا یا اور پانی گرآثار کو ختم کرنا چاہا لیکن شیعوں نے دور یا نزدیک سے قبر امام   کی زیارت کرنے کی خاطر ہاتھ پیروں اور جان تک کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کئے. یہ سب کیوں ؟ کیا یہ اتفاقی ہے؟ حتی اہل سنت اور بت پرست بھی قربانی دیتے ہیں اور عاشور کے دن علی اصغر  کے نام پر دودہ کی شربت دیتے ہیں. یہ سب اس لئے کہ خود پیغمبر(ص) اور آئمہ طاہرینؑ  نے آپ کی زیارت کے فضائل زیادہ بیان کئے ہیں حتی معصوم سے سوال ہوا : زیارت پیغمبر اور بقیہ آئمہؑ  کا کس قدر ثواب ہے ؟ تو فرمایا : زیارت پیغمبراں الٰہی کی زیارت کا ثواب ہے لیکن زیارت سید الشہداءؑ  کا ثواب مانند زیارت خدا وند در عرش برین !!!

خود آئمہ طاہرین بھی ایام محرم میں ذاکرین اور شاعروں کو دعوت دیتے ہیں اور مراسم عزاداری منعقد کرتے تھے یہاں تک کہ مؤمنوں کے دلوں میں ایام محرم کیلئے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے :انّ للحسین فی قلوب المؤمنین حرارة لم تبرد ابدا.

انسانی زندگی پرعزاداری کا اثر

ہمارا عقیدہ ہے پیغمبر اسلام (ص) سب سے افضل ہیں کیوں آپ کی وفات پر اس طرح عزاداری نہیں کرتے ؟ یا امیر المؤمنین  پر دس دن عزاداری کیوں نہیں کرتے ؟!

جواب : ہر معصومؑ میں ایک خاص خصوصیت پائی جاتی ہے اسی طرح امام حسین (ع) میں بھی فوق العادہ خصوصیات کی وجہ سے آپ کی عزاداری حضرت آدم  نے بھی کی ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا:حسین منیّ وانا من الحسین . اور فرمایا: وانہ لمکتوب علی ساق العرش ان الحسین مصباح الہدی وسفینة النجاة .اگرچہ ہمارے سارے امام چراغ ہدایت اورنجات کی کشتی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین (ع) کی زندگی میں کچھ ایسی حالات واقع ہوئی کہ جو باعث بنی آپ کی شہادت کو اتنی عظمت

۱۴۴

ملی جو تقدیر الٰہی تھی وگرنہ ایسا نہیں کہ دوسرے آئمہ اور آپ میں فرق ہو اگر امام حسن  کو  سنبل صلح کا لقب ملا لیکن آپ امام حسین  (ع)کی جگہ پر ہوتے تو آپ بھی جنگ کرتے ایساہرگز نہیں کہ آپ خشونت آمیز ہو اور دوسرا صلح طلبانہ ، بلکہ ان کے کارناموں میں اختلاف  اجتماعی شرایط میں اختلاف کی وجہ سے ہے. وگرنہ یہ دونوں ایک سکہ کے دو رخ ہیں.

اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح یہ خصوصیات امام حسین  (ع)میں پیدا ہوئیں کہ ان کی عزاداری سے لوگوں کو شفا ملتی ہے. حضرت آیة اللہ بروجردی  مرجع شیعیان جہان درد چشم میں مبتلا تھے عزاداران سید الشہدا  کے پیروں کے نیچے سے مٹی لیکر اپنی آنکھوں میں ملتے ہیں تو اس طرح شفا ملتی ہے کہ آخری دم تک عینک کی ضرورت نہیں پڑی. اور لوگوں کی کتنی حاجتیں اسی عزاداری کے توسط سے پوری ہوتی ہیں ، تو کیا یہ مناسب نہیں کہ اس عزاداری کیلئے اہتمام کرے. 

دوسری بات  جو قابل توجہ ہے و ہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں انبیا ی الٰہی کی شخصیت اور اولیاء خدا کی شخصیات میں  بہت ہی ابہامات لوگوں نے پیدا کئے ہیں. حتی خود پیغمبر اسلام  کے بارے میں کہا کہ یہ مجنون ہے ،کسی نے کہا ساحر ہے حتی کانوں میں انگلیاں ڈال رکھے اسی طرح امام علی  کی ذات اور کردار کو اس طرح تحریف کیا کہ جب شام والوں نے سنا کہ علی  مسجد میں شہید ہوگئے ہیں تو تعجب کیا ، جبکہ علی  کی شخصیت عدالت اور عبادت سے پہچانی جاتی تھی ، لیکن یہ حسین کا کارنامہ ہے جس میں تحریف نہیں ملے گا ہر خاص وعام کہے گا : حسین حق کی حمایت اور اسلام  کی بقا کی خاطر شہید کئے گئے ، حتی شیر خوار بچے کی قربانی بھی دینے سے دریغ نہیں کیا اور ناموس اسیر کئے گئے. ممکن ہے جزئیات میں تحریف ہواہو، یہ تو ایک طبیعی چیز ہے کسی نے نہیں کہا کہ ایسا نہیں ہوا ہے .

۱۴۵

اگر کوئی اہل مقام ہو اور جب جان کو خطر میں دیکھتا ہے تو کسی صلح یابچنے کا راستہ ڈہونڈتا ہے ، لیکن امام  نے شب عاشور بھی اور روز عاشور بھی اسے بیعت یزید کا پیشنہاد کرتے رہے لیکن قبول نہیں کئے فرمایا: أَلَا وَ إِنَّ الدَّعِيَّ ابْنَ الدَّعِيِّ قَدْ تَرَكَنِی بَيْنَ السَّلَّةِ وَ الذِّلَّةِ وَ هَيْهَاتَ لَهُ ذَلِكَ مِنِّی هَيْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّة . (1) کسی مقام یا دولت حاصل کرنے کے لئے کیا ناموس اور چھوٹے بچے ساتھ لے جاتے ہیں ؟!!

پس کسی بھی صورت میں تحریف نہیں کرسکتا کہ یہ قیام جہاں ن طلبی کیلئے کیا ہے اب کیا کوئی کہہ سکتا  ہے کہ حسین نے اشتباہ کیا ہے ؟!

البتہ بعض ناصبی نے کہا  کہ امام کو یہ نہیں کرنا چاہئے تھا.لیکن اس کے باوجود ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس عزاداری کی حفاظت کرے. ایک طرف امام حسین(ع) کی یاد میں گریہ کرنے ، جان نثاری ، اور نام حسین کے ساتھ عشق لگانا اور ایک زرہ خاک کربلا کو شفا یابی کی خاطر تناول کرنا دوسری طرف اس قدر نام امام حسین(ع) کو مٹانے کی کوشش کرنا کہ قبر پر پانی  ڈالا جائے اور زائرین امام کو شہید کرنا کیوں ؟ آخر انہیں اس دشمنی سے کیا حاصل ہوا؟ اب بھی لوگ جدید اصطلاحات اور مختلف صورتوں  میں عزاداری کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں ، یہ لوگ اپنے آپ کو روشن فکر کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ کہنا مناسب ہوگا :بیدین اور تاریک فکر لوگ. یہ لوگ کہتے ہیں امام حسین (ع) نے خشونت سے کام لیا ، ہم  کہیں گے پیغمبر اسلام (ص)نے بھی جنگ بدر و حنین جیسی جنگوں میں خشونت سے کام لیا ہے اسی طرح بنی امیہ کے ساتھ ، ہم کہیں گے جنگ میں حلوا چپاتی تو تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قتل یا زخمی ہوتا ہے یا دوسروں کو زخمی یا قتل کرتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں حادثہ عاشورا خشونت پیغمبر ہی کا نتیجہ تھا پس اگر کربلا سے درس حاصل کرنا ہے تو اس طرح حاصل کرے کہ ہم کسی سے خشونت نہ کرے تا ہمارے بچوں کے ساتھ کوئی دوسرا خشونت نہ کرے!!!

-------------

(1):-  الاحتجاج علی اہل اللجاج،ج2 ،احتجاجہ ع علی اہل الکوفة بکربلاء ،  ص 300.

۱۴۶

ان لوگوں کی نظر میں جہاد ، دفاع ، امر بہ معروف ، نہی از منکر  سب معطل ہونا چاہئے .تاکہ کوئی ہمارے ساتھ واسطہ نہ رکھے جبکہ خداوند امر کرتا ہے:قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ الل ه بِأَيْدیكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنین‏ (1)

قرآن کی صریح آیت ہے کہ ان مشرکوں کے ساتھ جنگ کرو تاکہ تمھارے ہاتھوں کو لوگ عذاب میں پڑ جائی اور انہیں رسوا کرے اور تمہیں پیروز کرے اور قلوب مؤمنین کو ٹھنڈا کرے اب معلوم ہوجائے گا کہ یہ لوگ حسین(ع) سے کیوں دشمنی کرتے ہیں؟!

اپنے  رسول کے نواسے کو بے دردی سے شہید کیا گیا؟!!

کیوں ایسی وضعیت پیدا ہوئی کہ رحلت پیغمبر کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا ان کے عزیز نواسے کو اس قدر بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ؟!!

اشکال: قرآن میں خشک و تر موجود ہے تو واقعہ کربلا  اس میں کیوں درج نہیں ؟

جواب: قرآن میں ایک آیت ہے :إِنَّ الل ه يُحِبُّ الَّذینَ يُقاتِلُونَ فی‏ سَبیلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْیانٌ مَرْصُوصٌ (2) ایسا لشکر ہے جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے اس کی پیشانی پر شکن نہیں پڑتی اور ان لشکروں کا ذکر کروں گا جن کا تذکرہ قرآن میں ہےجو اس لشکر کا ایک ایک سپاہی میدان سے منہ نہیں موڑتا، تو وہ لشکر کہاں ہے ؟

کیا پہلا لشکر جو حضرت موسیٰ کا ہے بنی اسرائیل بہت بڑی تعداد میں ہے اور جناب موسیٰ ان کو بچانے کیلئے لیکر راتوں رات مصر کو چھوڑ رہے ہیں اور صبح ہونے کے بعد فرعون کو خبر ہوتی ہے بنی اسرائیل نے مجھے چھوڑ دیا ہے:فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدائِنِ حاشِرینَ إِنَّ ه ؤُلاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلیلُونَ وَ إِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ وَ إِنَّا لَجَمیعٌ حاذِرُونَ. شعرا۵۳..۵۶

--------------

(1):-  توبہ14.

(2):-  الصف :4 

۱۴۷

فرعون نے قرب و جوار میں پیام رسان بھیجے جلدی جلدی لشکر بھیجو اگر لشرزمة قلیلون کیلئے اپنی فوج ہی کافی تھا تو کیوں ادھر ادھر سے مدد مانگتے ہو؟ دشمن کبھی اکیلے حملہ نہیں کرتا یہ باطل کی تاریخ ہے کیونکہ جتنا بھی قوی ہو وہ دل کے کمزور ہوتا ہے.اب اتنا لشکر جمع ہوگیا کہ بنی اسرائیل آگے سمندر پیچھے سے لشکروں کا سمندر یہ لوگ گھوڑوں پر سوار موسیٰ کو حکم ہوا عصا کو دریا پر مارو  تو حکم الہی کی اطاعت ہوئی تو دریا پھٹ گیا پہاڑیوں میں تبدیل ہوگیا وسط میں راستہ پالنے والے تو اگر کہہ دیتے دریا سے کہ میرے نبی کو راستہ دیدے تو کیا وہ تیری اطاعت نہ کرتا ؟ موسیٰ نے کہا ہو تاکہ تو آگے بڑھو اور کہو اس سےکہ راستہ دیدے کہ کلیم خدا تھے تو کیا راستہ نہ دیتا؟یہ ڈنڈا مارنے کا حکم کیوں ہوا؟ تاکہ دنیا کو یہ بتا دے کہ ڈنڈے میں بذات خود کوئی قدرت تو نہیں ہے لیکن جب کسی معصوم سے منصوب ہوتی ہے تو صاحب کرامت بن جایا کرتا ہے ، اب بنی اسرائیل سے موسیٰ  نے کہا : اب چلو وہ سب نکل گئے اور پانی کی موجیں اسی طرح کھڑی رہی تو فرعون نے کہا : یہ تو میرا معجزہ ہے ،بڑھو آگے. فرعون آگے آگے اور لشکر اس

کے پیچھے پیچھے جب درمیان میں آگیا تو موجیں مل گئیں اب بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے خدا کی طاقت دیکھ لیا اور یہ دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کر رہا ہے یہاں سے بڑھ کر شام کے باڈر پر پہنچے تو موسیٰ نے اشارہ کیا :یا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتی‏ كَتَبَ الل ه لَكُمْ وَ لا تَرْتَدُّوا عَلی‏ أَدْبارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خاسِرینَ المائدة :  21 یہ سامنے جو زمین دکھائی دے رہی ہے تمھارے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے ، چلو اس کے اندر دیکھ نبی خدا اور اس کے اعجاز ، اللہ کی تائید ، فرعون کا ڈھوبنا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مگر ایمان اتنا کمزور ہے کہ جب موسیٰ نے کہا: اللہ نے اس زمین کو تمھارے لئے لکھ دیا ہے چلو اس کو اپنے قبضے میں لے لو تو قرآن کہتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جواب دیا:

۱۴۸

 قالُوا یا مُوسی‏ إِنَّ فی ه ا قَوْماً جَبَّارینَ وَ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَ ه ا حَتَّی يَخْرُجُوا مِنْ ه ا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْ ه ا فَإِنَّا داخِلُونَ قالَ رَجُلانِ مِنَ الَّذینَ يَخافُونَ أَنْعَمَ الل ه عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبابَ فَإِذا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غالِبُونَ وَ عَلَی الل ه فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنینَ قالُوا یا مُوسی‏ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَ ه ا أَبَداً ما دامُوا فی ه ا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقاتِلا إِنَّا ه اهُنا قاعِدُونَ قالَ رَبِّ إِنِّی لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسی‏ وَ أَخی‏ فَافْرُقْ بَيْنَنا وَ بَيْنَ الْقَوْمِ الْفاسِقینَ (1) اے موسیٰ ہم نے سنا ہے اس سرزمین پر بسنے والی قوم بڑی مضبوط ہے ہم تو اس کے قریب نہیں جائیں گے آپ نے کہا کیا فرعون کے لشکر سے زیادہ مضبوط ہے ان کا غرق ہونا ابھی دیکھا ہے مگر ایمانی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ کہنے لگے : ہم تو اس میں نہیں جائیں گےاور جسارت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ تو اور تیرے پروردگار جائیں ہم  یہیں سے تماشا دیکھتے رہیں گے. اگر اس سرزمین پر قبضہ کرنے کا شوق ہے تو اپنے پروردگار کے ساتھ خود جائیں

امام سجاد کا گریہ کیا صبر کے خلاف نہیں؟

جواب:رونا اور گریہ کرنا صبر کے خلاف نہیں  اور امام کے شان کے خلاف بھی نہیں۔اگرچہ امام زین العابدین نے بین بھی کئے ہیں ، بے تابی بھی کی ہیں۔ در اصل جو اثر مصائب ہے ہوتے ہیں سب ہوئے ہیں۔لیکن یہ بین ،مرثیہ اور رونا نہیں تھےبلکہ یہ اس قربانی کی قیمت کا اظہار تھا اور اس مقصد کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا تھا کہ دیکھو!میرا کیسا بھائی تھا کہ جسے میں نے کس مقصد کے لئے دے دیا۔

سؤال 148: آیا صحیح است اولین کسی کہ در عزاداری، مراسم سینہ زنی بہ راہ انداخت عایشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ بود. آنجا کہ ایشان می گوید: کہ چون احساس کردم پیغمبرـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ رحلت کرد: زنان را جمع کردہ و بر سینہ و صورت می زدم.

«عن عبّاد: سمعت عائشة تقول: مات رسول الله ـ صلی الله علیه و سلّم ـ ثم وضعتُ راسه علی و سادة و قمت أَلتدم ـ ای اضرب صدری ـ مع النساء و اضرب وجهی».[ 356]

--------------

(1):-  مائدہ ۲۲- ۲۵.

۱۴۹

و ہمچنین زنان بنی سفیان در شام در عزای حضرت حسین(رضی اللہ عنہ)سینہ می زدند ابن عبد ربہ اندلسی می گوید:«قالت فاطمة: فدخلت الیهن فما وجدت فیهن سفیانیة الاّ ملتدمة تبکی». [357]

سؤال 149: آیا صحیح است کہ شامیان برای حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)یکسال عزاداری کردہ و برای رحلت او گریستند...اگر ما می گوئیم گریہ و نوحہ برای میت مشروع نیست. چرا در حضور معاویہ در این مدت عزاداری کردہ ولی او نہ تنہا اینکہ مانع نشد بلکہ آنان را حمایت و پشتیبانی می کرد.

ذہبی می گوید:«نصب معاویة القمیص علی منبر دمشق و الاصابع معلقة فیه و آلی رجال من اهل الشام لا یاتون النساء، و لا یمسّون الغُسل الامن حلُم، و لا ینامون علی فراش، حتی یقتلوا قتلة عثمان او تفنی ارواحهم، و بکوه سنة».[ 358]

معاویہ پیراہن عثمان و بعضی از انگشتان قطع شدہ او را بر فراز منبر آویزان کرد، و عدہ ای از شامیان سوگند یاد کردند کہ بہ بستر استراحت و خواب نروند، و با ہمسران خود مقاربت نکنند. تا اینکہ قاتلان عثمان را بہ قتل برسانند یا اینکہ کشتہ شوند، و یکسال برای او گریستند.

[356] .السیرة النبویة 4: 305.

[357] .العقد الفرید 4: 383.

[358] .تاریخ الاسلام (الخلفاء)، 452.

سؤال 150: آیا ارزش و کرامت زن نزد ما در این حد است کہ او را در کنار و ردیف سگ و خوک و خر و شتر قرار دہیم. چنانچہ در کتابہای ما آمدہ: بہ ہنگام نماز حائلی را قرار دہد تا اگر زن یا خر و یا شتر رد شود بہ صحت نماز ضرری نزند.

«قال: و الظُعن یمرُّون بین یدیه: المراة و الحمار و البعیر».[ 359]

یعنی نمازگذار با گذاشتن مانع در مقابل خود، زن، خر و شتر از برابر او را می گذرند و ضرری بہ نماز نمی زند.

۱۵۰

ابوہریرہ می گوید:«یقطع الصلاة المراة و الحمار و الکلب».[ 360]

عبور زن و الاغ و سگ از مقابل نمازگذار نماز را باطل می کند و احمد بن حنبل فرمود:«یقطع الصلاة الکلب الاسود و الحمار و المراة»، یعنی عبور سگ سیاہ و الاغ و زن نماز را باطل می کند .[361]

البتہ این گونہ تعبیرہا بقدری سنگین و با کرامت زن تنافی دارد کہ مورد اعتراض شدید آنان قرار گرفتہ.

جناب عائشہ(رضی اللہ عنہ) می گوید:«جعلتمونا بمنزلة الکلب و الحمار...».[ 362]

یعنی ما زنان را ردیف سگ و الاغ قرار دادید!!

[359] .السنن الکبری 3: 166 و 3554 ـ مصنف ابن ابی شیبہ 1: 315.

[360] .صحیح مسلم 1: 145 ـ المحلی 4: 8.

[361] .المحلی 4: 11.

[362] .ہمان. عن عکرمة یقطع الصلاة الکلب و المراة و الخنزیر و الحمار و الیہودی و النصرانی و المجوسی.

مصنف ابن ابی شیبہ 1: 315.

۱۵۱

آٹھویں فصل:

 امام زمان (ع) سے مربوط اشکالات

عقیدہ مہدویت کے بارے میں شیعہ اور سنی  مکتب میں کچھ مشترکات اور کچھ اختلافات پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

مشترکات : وجود میں آنا، قریشی ہونا، رسول ، علی ، فاطمہ اور امام حسین(ع) کی اولاد میں سے ہونا،اسی طرح کنیت اور نام بھی اہل سنت اور شیعہ دونوں کے نزدیک  ایک جیسے ہیں. آپ کے ظہور کے بارے میں  ۶۵۷ احادیث  موجود ہیں صحیح بخاری اورصحیح مسلم  نے بھی ان احادیث کو صحیح السند مانے ہیں.

افتراقات: معصوم ہونا اور نہ ہونا، علم غیب  رکھنا اور نہ رکھنا، گیارہ اماموں کے بعد امام عسکری کی اولاد میں سے ہونا اور نہ ہونا، ولادت ہوچکی ہے اور بعد میں ہوگی، جبکہ شیعہ کے ہاں صحیح احادیث موجود ہیں ، جن میں سے ایک حدیث کو نمونے کے طور پر یہاں بیان کریں گے :

أَنَّ رَسُولَ الله ص أَوْصَی بِأَمْرِ الله تَعَالَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إِلَی الْحَسَنِ وَ أَوْصَی الْحَسَنُ إِلَی الْحُسَيْنِ وَ أَوْصَی الْحُسَيْنُ إِلَی عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ وَ أَوْصَی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ إِلَی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ وَ أَوْصَی جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ إِلَی مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَ أَوْصَی مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ إِلَی ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ مُوسَی الرِّضَا إِلَی ابْنِهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ أَوْصَی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ إِلَی ابْنِهِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ أَوْصَی الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی ابْنِهِ حُجَّةِ الله الْقَائِمِ بِالْحَقِّ الَّذِی لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ الله ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّی يَخْرُجَ فَيَمْلَأَهَا عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْما .(1)

--------------

(1):-  الکافی    ج1،   باب السعادة و الشقاء ص 152.

۱۵۲

اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اکرم (ص) نے اپنے بھائی علی کو اپنا نانشین بنایا اور علی نے اپنے بیٹے حسن کو انہوں نے حسین کو یہاں تک کہ امام حسن العسکری نےامام  زمان  کو اپنا جانشین بنایا جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریگا اگرچہ اس دنیا کی زندگی ایک دن سے زیادہ نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا طول دیگا  یہاں تک کہ مھدی ظہور فرمائے گا  اور  اس دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پر کریگا جس طرح ظلم و جور سے پر ہوچکی ہے.

ٍ الاحتجاج علی اهل اللجاج ج‏1 69 ذکر تعیین الائمة الطاهرة بعد النبی ص و احتجاج الله تعالی بمکانهم علی کافة الخلق ص : 67

دَعَوْتُهُ وَ إِنْ رَجَعَ إِلَيَّ قَبِلْتُهُ وَ إِنْ قَرَعَ بَابِی فَتَحْتُهُ وَ مَنْ لَمْ يَشْهَدْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدِی وَ رَسُولِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَلِیفَتِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِهِ حُجَجِی فَقَدْ جَحَدَ نِعْمَتِی وَ صَغَّرَ عَظَمَتِی وَ كَفَرَ بِآيَاتِی وَ كُتُبِی إِنْ قَصَدَنِی حَجَبْتُهُ وَ إِنْ سَأَلَنِی حَرَمْتُهُ وَ إِنْ نَادَانِی لَمْ أَسْمَعْ نِدَاءَهُ وَ إِنْ دَعَانِی لَمْ أَسْتَجِبْ دُعَاءَهُ وَ إِنْ رَجَانِی خَيَّبْتُهُ وَ ذَلِكَ جَزَاؤُهُ مِنِّی وَ ما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ فَقَامَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله وَ مَنِ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ؟ فَقَالَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ زَيْنُ الْعَابِدِینَ فِی زَمَانِهِ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ثُمَّ الْبَاقِرُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَ سَتُدْرِكُهُ يَا جَابِرُ فَإِذَا أَدْرَكْتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّی السَّلَامَ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الْكَاظِمُ مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ ثُمَّ الرِّضَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَی ثُمَّ التَّقِيُّ الْجَوَادُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ النَّقِيُّ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الزَّكِيُّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ ابْنُهُ الْقَائِمُ

بِالْحَقِّ مَهْدِيُ‏ أُمَّتِی مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ صَاحِبُ الزَّمَانِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِینَ الَّذِی يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً هَؤُلَاءِ يَا جَابِرُ خُلَفَائِی وَ أَوْصِيَائِی وَ أَوْلَادِی وَ عِتْرَتِی مَنْ أَطَاعَهُمْ فَقَدْ أَطَاعَنِی وَ مَنْ عَصَاهُمْ فَقَدْ عَصَانِی وَ مَنْ أَنْكَرَهُمْ أَوْ أَنْكَرَ وَاحِداً مِنْهُمْ فَقَدْ أَنْكَرَنِی بِهِمْ يُمْسِكُ الله عَزَّ وَ جَلَّ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَیالْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ بِهِمْ يَحْفَظُ الل ه الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا

۱۵۳

ای یودی از ذریت من در آخر الزمان مدی علی السّلام بیرون آید و بعد از خروج آن حضرت عیسی بن مریم از آسمان بحکم قادر سبحان بواسط نصرت و دریافت صحبت لازم المسرت آن خلاص خاندان طیبین و طارین بزمین آید و بجت تصدیق آن امام زمان در وقت ادای فرایض ایزد علام اقتدا بآن امام خاص و عام نماید و نماز دوگان در عقب آن یگان گور ولایت و نبوت بجای آرد و مزید درج ثواب و عزت آن حضرت علی السّلام گردد.

بدانید کہ جمیع ائمة الہدی از من و از علیاند و بدانید کہ این جماعتاند کہ تا قیام قیامت امامت و ولایت آنہا مستقر و ثابت است و مہدی از این طایفہ در آخر زمان خلیفہ ایزد منان است کہ حکم و عدل نماید و نہی از جور و ستم فرماید.

 احتجاج-ترجمہ غفاری مازندرانی ج1 245 ذکر بیان معنی قاسطین و مارقین و ناکثین ص : 229

احتجاج-ترجمہ غفاری مازندرانی ج1 169 فضیلت حضرت پیغمبر بر حضرت موسی بن عمران ص : 167

صد و شصت و پنجم: و نیز در ہمان کتاب از سعید بن مسیّب از سعد بن مالک حدیث کند کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ بہ علی علیہ السّلام فرمود: یا علی! مقام و منزلت تو نسبت بہ من منزلت ہارون از موسی است جز اینکہ بعد از من پیغمبری نیست، قرض مرا ادا میکنی؛ و بہ وعدہہای من وفا کنی؛ و پس از من بر تاویل (قرآن) جنگ کنی چنانچہ من بر تنزیل آن جنگ کردم، یا علی دوستی تو (نشانہ) ایمان و دشمنیات (علامت) نفاق است، و خداوند لطیف و خبیر مرا آگاہ فرمودہ کہ از صلب حسین نہ تن امامان معصوم و پاکیزہ بیرون آورد، و از ایشان است مہدی این امّت کہ در

الانصاف فی النص علی الائمة ع با ترجمہ رسولی محلاتی ترجمہفارسی 241 حرف سین ص : 231

از آن جملہ خبری است کہ در احتجاج نقل شدہ از کافری کہ مدعی تناقض قرآن بود امیر المؤمنین ذکر دلائل و کنایاتی کہ در بارہ آنہا در قرآن نازل شدہ مینماید میفرماید: ہم بَقِیَّتُ اللہ یعنی مہدی کہ میآید پس از انقضاء مہلت زمین را پر از عدل و داد میکند چنانچہ پر از جور شدہ و از آن جملہ خبری است کہ

۱۵۴

بخش امامت-ترجمہ جلد ہفتم بحار الانوار ج2 180 بخش پنجاہ و ششم آئمہ علیہم السلام حزب اللہ و بقیة اللہ و کعبہ و قبلہ و افشاندن علم ہمان علم اوصیاء است ص : 180

از آن جملہ خبری است کہ در احتجاج نقل شدہ از کافری کہ مدعی تناقض قرآن بود امیر المؤمنین ذکر دلائل و کنایاتی کہ در بارہ آنہا در قرآن نازل شدہ مینماید میفرماید: ہم بَقِیَّتُ اللہ یعنی مہدی کہ میآید پس از انقضاء مہلت زمین را پر از عدل و داد میکند چنانچہ پر از جور شدہ و از آن جملہ خبری است کہ

مامون گفت: یا ابا الحسن نظر شما در بارہ رجعت چیست فرمود: رجعت یک واقعیت است در امتہای قبل نیز بودہ و قرآن شاہد آن است با اینکہ پیغمبر اکرم نیز فرمودہ ہر چہ در امتہای پیشین اتفاق افتادہ در این امّت نیز ہست کاملا برابر و بدون ذرہای پس و پیش و فرمودہ است وقتی مہدی از فرزندانم ظہور کند عیسی بن مریم فرود میآید و پشت سر او نماز میخواند و فرمودہ است اسلام غریب آغاز شد و در آیندہ نیز بحالت غربت خواہد رسید ای خوشا بحال

مامون گفت: یا ابا الحسن نظر شما در بارہ رجعت چیست فرمود: رجعت یک واقعیت است در امتہای قبل نیز بودہ و قرآن شاہد آن است با اینکہ پیغمبر اکرم نیز فرمودہ ہر چہ در امتہای پیشین اتفاق افتادہ در این امت نیز ہست کاملا برابر و بدون ذرہای پس و پیش و فرمودہ است وقتی مہدی از فرزندانم ظہور کند عیسی بن مریم فرود میآید و پشت سر او نماز میخواند و فرمودہ است اسلام غریب آغاز شد و در آیندہ نیز بحالت غربت خواہد رسید ای خوشا بحال

۱۵۵

اشکال : امام غائب کا کیا فائدہ ؟

 امام کو منصوب کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو دین اور آخرت کی تعلیمات دیں اور  رہنمائی کریں ، اوریہ اس وقت ممکن ہے کہ امام لوگوں کے درمیان موجود ہو.اگر ظاہر ہی نہ ہو تو اسے کیسے قائد مانا جائے ؟!!

جواب:

1.  دوران غیبت میں اگر ہم فائدہ امام کو درک نہیں کرسکتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام غائب بے فائدہ ہے

2.  غیبت کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ  ہمارے امور میں کو ئی بھی تصرف نہیں کرسکتا، بلکہ یہ ممکن ہے کہ غائب رہ کر بھی امّت کے امور میں تصرف کرے.

3.  یہ بھی معلوم ہے کہ سارے لوگوں کا امام تک رسائی ممکن نہیں ہے،لیکن بعض خاص افراد کو اپنا جانشین بنا کر لوگوں کے مسائل ان کے ذریعے حل کراتے ہیں ، انہی افراد کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے مجتہدین تک  آتا ہے

4.  امام غائب کی حکومت  بھی انہی نائبین کے ذریعے  ممکن ہے ، اور خود امام کے حاظر ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے .

فلسفہ غیبت امام زمان کیا ہے ؟

1.  جانی حفاظت کی خاطر غیبت کو چلے گئے ، کیونکہ اگر طبیعی طور پر زندگی کرتے تو مختصر سال زندگی کرنے کے بعد اس دنیا سے رحلت کرجاتے جبکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہونگے اور وہ بھی سب قریشی دوسری طرف قیامت تک کیلئے یہ بارہ  جانشین سے  ہی  کو زندہ رکھنا تھا.

2.  لوگوں کا امتحان لینا مقصود تھا .

3.  اسرار الٰہی میں سے  ایک سرّ الٰہی تھا.

4.  یارا ن اوردوستوں کی کمی تھی.

5.  انبیاء الٰہی کی سنت  کا اجراء کرنا تھا.

۱۵۶

اشکال: اتنی طولانی عمر کیسے ممکن ہے؟

جواب: اس کیلئے عقلی اور نقلی توجیہات موجود ہیں:

عقلی توجیہ: عقلاً  عمرطولانی ناممکن نہیں ہے .اگر ناممکن ہوتا تو شروع سے ہی نہ ہوتا

نقلی توجیہ:جبکہ قرآن کریم میں ایسے کئی نمونے بیان  ہوئے ہیں: جیسے حضرت نوح (ع)نے دو ہزار سال عمر کی ، اصحاب کہف نے تین سو دس سال زندگی کی ، حضرت عزیر (ع)نے ایک سوپچاس سال زندگی کی، حضرت یونس(ع):وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنادی‏ فِی الظُّلُماتِ أَنْ لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ (1) کہ یہ حضرات غیر طبیعی طور پر زندگی کرچکے ہیں. یہ جواب نقضی ہے  لیکن جواب حلّی یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے یا نہیں: بالکل ہے ان اللہ علی کل شیئ قدیر. پس اللہ  تعالیٰ اپنے اہداف کے  حصول کی خاطر کسی کو زیادہ عرصے تک زندہ رکھتا ہے .اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے .

بیالوجی اور تجرباتی توجیہ:  بھی ثابت کرچکا ہے کہ موت کسی نہ کسی بیماری  یا  حادثہ کے عارض ہونے پر واقع ہوتی ہے ، اگر یہ چیزیں نہ ہوتو عمر طولانی ہوسکتی ہے اسی لئے اگر کسی کی موت پر اسرار طریقے سے واقع ہوئی ہو تو اس ڈیڈ باڈی کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہےتاکہ معلوم ہوجا ئے کہ موت کیسے واقع ہوئی ہے ؟

اشکال : غیبت امام قاعدہ لطف کے منافی

یعنی قاعدہ لطف یہ بتاتا کہ اللہ تعالیٰ پر فرض تھا کہ انسان کی ہدایت کیلئے نبی کے بعد بھی رہبر اور امام کا بندوبست کرے ؛ لیکن آخری امام کو پردہ غیبت میں رکھ کر اپنے لطف و کرم سے لوگوں کو محروم کردیا.

جواب: امام کے غیبت میں جانے کا اصل عامل خدا نہیں بلکہ ہم انسان ہیں کہ لوگوں پر اس امام کی تبعیت اور پیروی واجب تھی لیکن نہیں کی.

--------------

(1):- .  الانبیاء ۸۷.

۱۵۷

دوسری بات یہ ہے کہ غیبت میں جانا کالعدم تو نہیں ہے بلکہ غیبت میں رہنے امام کے بعض فیوضات سے ہم محروم ہوجاتے ہیں ، جیسے امام کی بدون واسطہ حکومت،اور مستقیم احکام الہی کا بیان  اور معارف دین کو خود امام کی زبانی سننے سے محروم ہوگئے ہیں لیکن دیگر فوائد ، جیسے باطنی اور روحانی فوائد سے مستفید ہوسکتے ہیں اسی طرح مسلمانوں  کی امداد اور واسطہ فیض الہی حالت غیبت میں بھی ممکن ہے ناممکن نہیں.علامہ حلی کلام خواجہ نصیر الدین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لطف الہی کی تکمیل اور اتمام کیلئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:

1.  اللہ تعالیٰ انجام دے دے کہ ۲۵۵ ؁ میں اللہ تعالیٰ نے امام حسن عسکری کو یہ نور مھدی موعود کی شکل میں عطا کیا.

2.  امام قبول کرے کہ امام نے بھی قبول کیا

3.  امّت ان کی تبعیت کرے ، کہ انہوں نے ان کی تبعیت کرنے سے روگردانی کئے.

مہدویت کے موضوع پر اہم کتابیں:

مجلہ انتظار، درسنامہ مھدویت خدامرادی، نگین آفرینش، امامت و فلسفہ خلقت جمکران، آخرین امید، داود الہامی، مھدی موجود جوادی آملی، مکارم شیرازی،

رجعت سے کیا مراد ہے اور کیا یہ ممکن ہے؟

جواب: رجعت سے مراد امام زمان ع کے دور میں مؤمنین اور کفار کے ایک ایک گروہ کا دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے ، کیونکہ اس کی بہت ساری مثال تاریخ میں ملتی ہے جن میں سے بعض کا ذکر کروں گا:

۱۵۸

1.  قوم موسیٰ میں سے ۷۰ افراد کا رجعت کرنا.

2.  مرنے کے بعد ہزاروں لوگوں کی رجعت :(أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ (1) .). ترجمہ

3. او کالذی مر علی قریة .(2) جو سو سال کے بعد زندہ ہوا تھا ، یہ واقعہ حضرت عزیز اور عزیر کا واقعہ ہے.

4.  سام بن نوح کی دنیا میں رجعت.

5.  فرزندان حضرت ایوب کی رجعت(3)

اسلام میں بھی رجعت کے کئی نمونے موجود ہیں : جیسا کہ اہل سنت کے علماء میں سے  ابن ابی الدنیا (متوفی۲۰۸) نے اس سلسلے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام:من عاش بعد الموت رکھا ہے جسے عربستان میں چھاپی گئی .جس میں کئی نمونے پیش کئے ہیں، جیسے:

1 رجعت زیدبن خارجہ.

2- رجعت جوانی از انصار.

3- رجعت مردی از مقتولین مسیلمہ.

4- رجعت ابن خراش.

5- رجعت یکی از بستگان- دایی- ابن ضحاک.

6- رجعت رؤبہ دختر بیجان.

7- رجعت شخصی از بنیجُہینہ(4)

--------------

(1):-  بقرہ: 243.

(2):- بقرہ: 259.

(3):- الدرّ المنثور، ج 5، ص 316؛ جامع البیان، ج 16، ص 42؛ تفسیر نیشابوری، ص 44؛ الشیعہ و الرجعہ، ج 2، ص 154 .

(4):- ترمذی، ج 5، ص 26.

۱۵۹

نویں فصل : مشروعیت متعہ

قرآن میں متعہ  کا حکم

وَ الْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ  كِتَابَ الل ه عَلَيْكُمْ  وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم محُّْصِنِینَ غَیرَْ مُسَافِحِینَ  فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنهُْنَّ فََاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً  وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِیمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِیضَةِ  إِنَّ الل ه کاَنَ عَلِیمًا حَكِیمًا. (1)

 اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھ سفاح و زنا کے ساتھ نہیں پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے.

اس آیہ شریفہ  کی توضیح:

میں درمیانی جملہ(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً) ازدواج موقت کی طرف اشارہ  ہے جسے اصطلاح میں "متعہ" کہتے ہیں. فرماتے ہیں کہ جن عورتوں سے متعہ کرتے ہو ان کا مہریہ واجب الادا کی نیت سے دیا کرو .اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدواج موقت کی اصل تشریع اس آیہ شریفہ کی نزول سے پہلے لوگوں کوپتہ تھا اسی لئے ان کو ان کا مہریہ دینے کا حکم دیا جا رہا ہے .اور چونکہ یہ بحث ایک فقہی اور اجتماعی بحث ہے لذا اس پردرج ذیل جہات سے  تفصیلی بحث کرنا ضروری ہے :

--------------

(1):-  النساء ۲۴.

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

له نورا يمشى به فى الناس'' فقال : ''ميتا'' لا يعرف شيئا ''و نورا يمشى به فى الناس'' اماما يا تم به ''كمن مثله فى الظلمت ليس بخارج منها'' قال : الذى لا يعرف الامام (۱)

امام باقرعليه‌السلام آيت ''او من كان ميتا ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ''ميتا'' سے مراد وہ شخص ہے كہ جسكو كسى شئے كى شناخت حاصل نہيں اور ''نورا يمشى بہ فى الناس'' سے مراد وہ امام ہے جس كى اقتداء كرتے ہيں _ اور ''كمن مثلہ فى الظلمات ليس بخارج منھا'' سے مراد وہ شخص ہے جو امام كو نہيں پہچانتا_

اطاعت :گمراہوں كى اطاعت كے موانع ۷

امامت :امامت سے جاہل افراد ۱۴; امامت كا نور ہونا ۱۴

انسان :انسان كے رجحانات ۱۰

ايمان :ايمان كے آثار ۲، ۳، ۶; حقيقت ايمان ۳; نورانيت ايمان ۳، ۶

بصيرت :بصيرت كے علل و اسباب ۵

تحريك :تحريك كرنے كے علل و اسباب ۱۰

توحيد :توحيد كے آثار ۲

حيات :روحانى حيات سے محروم افراد ،۱; روحانى حيات كى اہميت ۷; روحانى حيات كے علل و اسباب ۲، ۳

رجحانات:زيبائي كى طرف رحجان۱۰

رشد :رشد و ترقى كے علل و اسباب ۲; رشد و ترقى كے موانع ۱۲

روايت : ۱۴

ظلمت :ظلمت و تاريكى سے نكلنے كے موانع ۱۲

عمل :عمل كى تزيين ۱۰; عمل كى تزيين كے آثار ۱۲; ناپسنديدہ عمل كى تزيين ۱۱

كفار :كفار كا ظلمت ميں ہونا ۱۱۴; كفار كا عمل ۱۳; كفار كا

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۱۸۵ح ۱۳، نور الثقلين ج ۱ ، ص ۷۶۳، ح ۲۷۰

۳۸۱

گھمنڈ ۱۳; كفار كى خصوصيت ۱۳; كفار كى سوچ ۱۱; كفار كى گمراہى ۴، ۱۱

كفر :كفر كى حقيقت ۳;كفر كى ظلمت۳;كفر كے آثار ۳; كفر كے متعدد راستے ۹

گمراہى :گمراہى كے راستوں كا متعدد ہونا ۹

مشركين:مشركين كا مردہ ہونا ۱; مشركين كى اطاعت سے موانع ۷

مؤمنين :مؤمنين كى بصيرت ۵، ۶، ۸; مؤمنين كى خصوصيت ۵، ۶، ۸; مؤمنين كى معنوى زندگى ۷; مؤمنين كى نورانيت ۵، ۷; مؤمنين كى ہدايت ۵

آیت ۱۲۳

( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجَرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ )

او راسى طرح ہم نے ہر قريہ ميں بڑے بڑے مجرمين كو موقع ديا ہے كہ وہ مكّارى كريں اوران كى اثر خودان كے علاوہ او ركسى پر نہيں ہوتا ہے ليكن انھيں اى كا بھى شعور نہيں ہے

۱_ ہر معاشرے كے مجرموں ميں سے ان كے سرداروں كا ظاہر ہونا (يعنى ان كى نمائندگى كرنا) سنن الہى ميں سے ہے_

و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها

آيت كا مندرجہ بالا مفہوم اس بناپر اخذ كيا گيا ہے كہ ''اكابر مجرميھا'' مضاف و مضاف اليہ اور ''جعل'' كے ليے مفعول اول ہو اور ''فى كل قرية'' اسكا مفعول دوم ہو_

۲_ مكر و فريب، ہر معاشرے كے مجرموں كے سرداروں كا شيوہ ہے_جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها ليمكروا فيها

۳_ ہر معاشرے كے بڑے اور سردار، اس معاشرے كو فريب دينے اور منحرف كرنے ميں اہم كردار ادا كرتے ہيں _

اكبر مجرميها ليمكروا فيها

۴_ ہر معاشرے كے متجاوز (ظالم) اپنے مذموم مقاصد

۳۸۲

كى تكميل كے ليے بعض (گمراہ) سرداروں اور پيشواؤں كے گرد جمع ہوجاتے ہيں _

و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها ليمكرو

''جرم'' كا معنى تعدى و تجاوز ہے_ (لسان العرب) جب ''اكابر'' ''مجرميھا'' كى جانب مضاف ہو تو مجرمين اور ان كے سرداروں كے درميان ايك قسم كا رابطہ ذہن ميں نقش ہوجاتاہے_ يعنى وہ سب كے سب اپنے سرداروں كے جھنڈے تلے جمع ہوكر، لوگوں كے خلاف مكر و فريب اور جنگ كرتے ہيں _

۵_ طول تاريخ كے دوران، مؤمنين اور مجرمين كے درميان جنگ ہوتى رہى ہے_

و ان الشياطين ليجدلوكم و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها

۶_ تمام انسانى معاشرے (قوميں ) اپنے مجرم سرداروں اور بڑوں كے مكر و فريب كے خطرات سے دوچار ہيں _

و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها ليمكروا فيها

۷_ مكہ كے بڑے بڑے سردار مجرم، ايك ساتھ ملكر، صدر اسلام كے مسلمين كے خلاف سازشيں اور منصوبے بناتے تھے_و كذلك جعلنا فى كل قرية

چونكہ يہ سورہء مباركہ مكى ہے، آيت ميں تمام علاقوں كے مجرم سرداروں كي،مذكورہ تشبيہ، مكہ كے مجرم سرداروں سے ہے_ لہذا اس زمانے كے حالات و احوال كو بيان كررہى ہے_

۸_ مجرم سردار اپنے ہى مكرو فريب اور سازشوں كے جال ميں پھنس جاتے ہيں _و ما يمكرون الا بانفسهم

۹_ مجرم سردار اسلام كے سازشيں كرنے سے صرف اپنے آپ كو دھوكا ديتے ہيں _

و كذلك جعلنا فى كل قرية و ما يمكرون الابانفسهم

۱۰_ كفر و شرك كے سردار، اس بات كے ادراك سے قاصر ہيں كہ ان كى سازشوں اور مكر و فريب كے آثار خود انھى كى جانب پلٹتے ہيں _و ما يمكرون الا بانفسهم و ما يشعرون

اسلام :اسلام كے خلاف سازش ۹تاريخ صدر اسلام ۷

اشراف مكہ (مكہ كے سردار) :اشراف مكہ كا مكرو فريب ۷;اشراف مكہ كى سازش ۷

انحراف :اجتماعى انحراف كا منشاء ۳

۳۸۳

خدا تعالى :سنن خدا ،۱

رہبر:ظالم رہبراور اسلام ۹; ظالم رہبراور معاشرہ ۶; ظالم رہبروں كا پيدا ہونا ۱;ظالم رہبروں كا طرز مقابلہ ۲; ظالم رہبروں كا مكرو فريب ۲، ۶، ۸، ۹; ظالم رہبروں كى دھمكياں ۶; ظالم رہبروں كى سازشيں ۸، ۹

رہبرى :رہبرى كا كردار ۳

قريش :قريش كے سرداروں كا مكر و فريب ۷;قريش كےسرداروں كى سازشيں ۷

كفر :كافر رہبروں كا بے شعور ہونا ۱۰; كفر كے رہبروں كا سازش كرنا ۱۰

متجاوزين متجاوزين كا گٹھ جوڑ ۴; متجاوزين كى رہبرى ۴

مجرمين :مجرمين كے خلاف جنگ ۵

مسلمان :مسلمانوں كے خلاف ساز : ۷

مؤمنين :مؤمنين اور مجرمين ۵;مؤمنين كى جنگ ۵

آیت ۱۲۴

( وَإِذَا جَاءتْهُمْ آية قَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللّهِ اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ صَغَارٌ عِندَ اللّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُواْ يَمْكُرُونَ )

اورجب ان كے پاس كوئي نشانى آتى ہے كو دى گئي ہے جب كہ الله جانتا كہ اپنى رسالت كوكہاں ركھے گا اور عنقريب مجرمين كوان كے جرم كى پاداش ميں خدا كے يہاں ذلّت او رشديد ترين عذاب كا سامنا كرنا ہو گا

۱_ مكہ كے مجرم سردار ، رسالت پيغمبر(ص) اور آيات خدا پر ايمان لانے سے مختلف بہانوں كے ذريعے پہلو

۳۸۴

تہى كرتے تھے_اكبر مجرميها قالوا لن نؤمن

۲_ پيغمبر(ص) پر ايمان لانے كے ليے، مجرموں كے سرداروں كى ايك بے جا شرط يہ تھى كہ ان پر بھى وحى نازل ہو اور وہ بھى نبوت و رسالت كے عہدے پر فائز ہوں _و اذا جاء تهم آية قالوا لن نؤمن حتى نؤتى مثل ما اوتى رسل الله

۳_ مجرم سرداروں پر آيات (معجزات) الھى كا اثر نہ كرنا_و اذا جاء تهم ا يه قالوا لن نؤمن حتى نوتى مثل ما اوتى رُ سُل الله

۴_ مشركين مكہ كے سردار، اپنے آپ كو وحى اور آسمانى كتاب كے نزول كا مستحق ہونے ميں خود كہ پيغمبر(ص) كے ہم مرتبہ سمجھتے تھے_اكبر مجرميها لن نؤمن حتى نؤتى مثل ما اوتى رسل الله

۵_ نبوت پيغمبر(ص) كا انكاركرنے كے ليے، مجرم سرداروں كا رسالت انبيائے الھى كا مذاق اڑانا_

و اذا جاء تهم آية قالوا لن نؤمن حتى نؤتى مثل ما اوتى رسل الله

مجرمين كے سرداروں كى جانب سے نزول وحى اور مقام رسالت كا تقاضا ممكن ہے فقط استہزا كرنے كے ليے ہو نہ كہ وہ حقيقى طور پر نبوت و وحى كے خواہان ہيں _

۶_ خداوندعالم انبياكى صلاحيت كے بارے ميں اپنے كامل علم كى بنياد پر رسول كا انتخاب كرتا ہے_

الله اعلم حيث يجعل رسالته

۷_ انبيا اپنى صلاحيت و لياقت كى بنياد پر مقام رسالت پر فائز ہوتے ہيںالله اعلم حيث يجعل رسالته

۸_ مجرمين كے سرداروں كے ليے، بارگاہ الہى ميں ذلت و خوارى اور شديد عذاب آمادہ ہے_

سيصيب الذين اجرموا صغار عند الله و عذاب شديد

۹_ سازشيوں كى ذلت اور شديد عذاب ميں گرفتار ہونے كا اہم ترين سبب ان كا دين كے خلاف مسلسل سازشيں كرنا اور (لوگوں كو) فريب دينا ہے_سيصيب الذين بما كانوا يمكرون

۱۰_ ذلت و خواري، مجرمين كے سرداروں كے تكبر و استكبار كى سزا ہے_اكبر مجرميها و اذا جاء تهم آية

۳۸۵

سيصيب الذين اجرموا صغار عند الله

۱۱_ الہى جزا و سزا كے نظام ميں گناہ اور اسكى سزا كے درميان ايك قسم كا تقابل و تناسب پايا جاتاہے_

و اذا جاء تهم آية قالوا لن نؤمن سيصيب الذين اجرموا صغار عند الله

خداوند عالم نے آيات الہى كے مقابلہ ميں تكبر كرنے والوں كے ليے ذلت و خوارى كى سزا مقرر كى ہے_ جو ايك دوسرے كے متضاد ہيں _

۱۲_ مجرمين كے سرداروں كے مكر و فريب ميں سے ايك، انبياعليه‌السلام اور آيات الھى كے مقابلے ميں بہانہ جوئي اختيار كرنا اور شبھات پيدا كرنا تھا_اكبر مجرميها ليمكروا لن نؤمن حتى نؤتى بما كانوا يمكرون

كفر و شرك كے سرداروں كے مكر و فريب كا تذكرہ كرنے كے بعد ان كے شبھات و اعتراضات كى ياد دہانى كرانا، ممكن ہے ان كے مكر و فريب كا ايك واضح مصداق بيا ن كرنے كے ليے ہو_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كو جھٹلانا۵

اشراف مكہ :اشراف مكہ كى بصيرت ۴; اشرف مكہ كى بہانہ جوئي ۱; اشراف مكہ كا كفر ۱

انبيا :انبياعليه‌السلام كا مذاق اڑانا ۵; انبياعليه‌السلام كى صلاحيت ۶، ۷; انبياعليه‌السلام كے انتخاب كا معيار ۶،۷

ايمان :آيات خدا پر ايمان ۱; حضرت محمد(ص) پر ايمان ۱، ۲; متعلق ايمان ۱، ۲

تكبر:تكبر كى سزا ۱۰

خدا تعالى :خدا كى طرف سے عذاب ۸; علم خدا ،۶

دين :دين كے خلاف سازش كى سزا ۹

ذلت :ذلت كے اسباب ۹، ۱۰

رہبر:ظالم رہبر اور آيات خدا، ۳،۱۲; ظالم رہبر اور انبياء ۱۲; ظالم رہبروں پر معجزے كا اثر نہ كرنا ۳; ظالم رہبروں كا شبہات پيدا كرنا ۱۲; ظالم رہبروں كا عذاب ۸; ظالم رہبروں كا مذاق اڑانا ۵; ظالم رہبروں كا كفر۱۲;ظالم رہبروں كى بہانہ جوئي ۱۲; ظالم رہبروں كى ذلت ۸،۱۰; ظالم رہبروں كى سزا،۱۰; ظالم رہبروں كى شرائط ۲; ظالم رہبروں كے تقاضے ۲; مغرور رہبر۱۰

۳۸۶

عذاب :اہل عذاب ۸، ۹; مراتب عذاب ۸; موجبات عذاب ۹

قريش :قريش كے سرداروں كا كفر ۱

نظام جزا و سزا : ۱۱

آیت ۱۲۵

( فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاء كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ )

پس خدا جسے ہدايت دينا چاہتاہے ا س كے سينے كو اسلام كے لئے كشادہ كرديتا ہے اروجس كو گمراہى ميں چھوڑنا چاہتا ہے اس كے سينے كو ايسا تنگ او ردشوار گذار ديتا ہے جيسے آسمان كى طرف بلند ہو رہاہو ، وہ اسى طرح بے ايمانوں پر كى كثافت كو مسلّط كرديتا ہے

۱_ شرح صدر، انسان كے ہدايت قبول كرنا كا مقدمہ ہے_فمن يرد الله ان يهديه بشرح صدره

شرح صدر كا معنى انسان كے دل و دماغ اور فكر كا وسيع و كھلا ہونا ہے اس كے مقابلے ميں ضيق صدر (سينے و دل كا تنگ ہونا) ہے_

۲_ شرح صدر ايك عطيہ الہى ہے_يشرح صدره

۳_ انسان كا حق كے سامنے تسليم ہونا اور حق كو قبول كرنے كا حوصلہ و ہمت ركھنا، ہدايت اور توفيق الہى سے بہرہ مند ہونے كى علامت ہے_

فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام

اس آيت ميں ہوسكتاہے اسلام اپنے لغوى معنى ميں ہو جوكہ ''تسليم'' ہے_

۴_ اسلام كے آسمانى معارف كے مقابلے ميں انفعالى حالت، شرح صدر كى علامت ہے_

فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام

مندرجہ بالا مفہوم ميں اسلام كو اس كے اصطلاحى معنى ميں ليا گيا ہے جو كہ ''دين اسلام'' ہے_

۳۸۷

۵_ شرح صدر، مؤمنين كے دل ميں ايك نور الھى ہےو جعلنا له نورا يمشي فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره

''فمن يرد ...'' ميں ''فائ'' گذشتہ آيات پر عطف اور تفريع ہے آيت ۱۲۲ (اومن كا ميتا ...) ميں لوگوں كو دو گروہوں ميں تقسيم كيا گيا ہے: حيات ركھنے والے جو نور كے حامل ہيں اور تاريكى و ظلمت ميں پڑے رہنے والے ،اس آيت ميں ، تمام آيات كا نتيحہ اخذ كرتے ہوئے، ہدايت يافتہ افراد شرح صدر كے حامل اور گمراہ افراد ضيق صدر (تنگى قلب) ميں مبتلا شمار كيئے گئے ہيں _ احتمال ہے كہ شرح صدر سے مراد وہى نور ہو جس كا ذكر آيت ۱۲۲ ميں كيا گيا ہے_

۶_ ضيق صدر اور دل كا شديد تنگ ہونا (حق و ہدايت كو قبول نہ كرنا) انسان كى گمراہى و ضلالت كا مقدمہ ہے_

و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا

حرج كامعنى شديد تنگ و سخت ہونا ہے_ مجمع البيان ميں ہے كہ ''الحرج اضيق الضيق''

۷_ حق كو قبول كرنے ميں ضيق صدر اور دل كى سختي، حق كو قبول نہ كرنے والوں كےليے، خداوند كى جانب سے ايك قسم كى سزا ہے_يجعل صدره ضيقا

۸_ انسان كى ہدايت و گمراہى ارادہ خداوند عالم كے تابع ہے_فمن يرد الله ان يهديه و من يرد ان يضله يجعل

۹_ آسمان كى جانب صعود كرنے (چڑھنے) كے وقت، انسان كا دل اور سينہ تنگ و سخت كرديا جاتاہے_

يجعل صدره ضيقا حرجا كانما يصعد فى السماء

۱۰_ حق (اسلام) كا راستہ، حق قبول نہ كرنے والے دل كے ساتھ تلاش كرنا آسمان كى بلنديوں پر چڑھنے كى طرح دشواريا نا ممكن ہے _و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا كانما يصعد فى السماء

۱۱_ ضيق صدر (سينے اور دل كا تنگ ہونا) انسان كى گمراہى كا مقدمہ ہے اور انسان كو گمراہى كے انتہائي قريب كرديتاہے_و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا

۱۲_ ضيق صدر (تنگ دلى اور حق ناپذيري)، انسان پر پليدى كے مسلط ہونے كى علامت ہے_

و من يرد ان يضله كذلك يجعل الله الرجس

۳۸۸

۱۳_ ايمان كا انكار كرنے والوں كا ضيق صدر (تنگى دل) ميں مبتلا ہونا سنت خداوندى ہے_

و من يرد ان يضله كذلك يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون

۱۴_ ضيق صدر (تنگى دل) اور قلب كا ايمان سے خالى ہونا، اس پر پليدى كے غلبے كى علامت ہے_

كذلك يجعل الله الرجس على الذين لايؤمنون

۱۵_ كفار پر پليدى مسلط ہے_يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون

۱۶_لما نزلت هذه الاية سئل رسول الله(ص) عن شرح الصدر ما هو ؟ فقال : نور يقذفه الله فى قلب المؤمن فينشرح له صدره و ينفسح (۱)

جب آيت ''فمن يرد اللہ ...'' نازل ہوئي تو رسول خدا(ص) سے پوچھا گيا كہ شرح صدر سے كيا مراد ہے ؟ تو آپ(ص) نے فرمايا : يہ ايك نور ہے كہ جو خدا مؤمن كے دل ميں ڈال ديتاہے، اور اس سے اس كا سينہ كھل جاتاہے_

۱۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ان القلب ينقلب من لدن موضعه الى حنجرته ما لم يصب الحق فاذا اصاب الحق قرّ و قرء هذه الآية ''فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : انسان كا دل جب تك حق كو پا نہ لے اس وقت تك اس طرح مضطرب رہتاہے كہ گويا ابھى اچھل كر حلق ميں آجائے گا، پس جب وہ حق كو پاليتاہے تو اسے اطمينان حاصل ہوجاتاہے، اس كے بعد آپعليه‌السلام نے آيت ''فمن يرد اللہ ...'' كى تلاوت كي

۱۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : ان الله عزوجل اذا اراد بعبد خيرا نكت فى قلبه نكتة من نور و فتح مسامع قلبه و وكل به ملكا يسدده و اذا اراد بعبد سوء ا نكت فى قلبه نكتة سوداء وسد مسامع قلبه ووكل به شيطانا يضله ثم تلا هذه الاية ''فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا (۳)

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۴ ص ۵۶۱_ نور الثقلين ج ۱، ص ۷۶۷ ح ۲۸۴_

۲) محاسن برقى ج/ ۱ ص ۲۰۲ ح ۴۱_ ب ۳، تفسير برھان ج ۱ ص ۵۵۳ ح ۴_

۳) كافى ج/ ۱ ص ۱۶۶ ح ۲_ تفسير برھان ج/ ۱ ص ۵۵۲ ح ۱_

۳۸۹

امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں _ جب بھى خداوند كسى بندے كى بھلائي چاہتا ہے تو اس كے دل ميں نور كا ايك نكتہ پيدا كرديتاہے اور اس كے دل كے كان كھول ديتاہے اور ايك فرشتہ اس پرمامور كرديتاہے جو كاموں ميں اس كى مدد كرتاہے اور جب بھى خداوند كسى بندے كى بدى چاہتاہے تو اس كے دل ميں ايك سياہ نكتہ پيدا كرديتاہے اور اس كے دل كا كان بند كرديتاہے اور ايك شيطان اس پر مسلط كرديتاہے تا كہ اسے گمراہ كرے اس كے بعد امام صادقعليه‌السلام نے يہ آيت (فمن يرد اللہ ...) تلاوت فرمائي_

۱۹_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام فى قوله تعالى : ''فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام، قال : من يرد الله ان يهديه بايمانه يشرح صدره للتسليم لله و الثقة به و السكون الى ما وعده من ثوابه و من يرد ان يضله لكفره به و عصيانه له فى الدنيا يجعل صدره ضيقاحرجا حتى يشك فى كفره و يضطرب من اعتقاد قلبه ... (۱)

امام رضاعليه‌السلام آيہ مجيد ''فمن يرد اللہ ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں : خداوندعالم جس شخص كى اس كے ايمان كى خاطر ہدايت كرنا چاہيئے تو اس كے سينے كو، خداوندعالم كے سامنے تسليم ہونے، اس پر اعتماد كرنے اور اجر الہى كے وعوں كے ذريعے آرام و قرار پانے كے ليے كھول ديتاہے اور اگر خدا كسى شخص كو اس كے كفر و نافرمانى كى وجہ سے دنيا ميں گمراہ كرنا چاہے تو اس كے سينے كو تنگ اور سخت كر ديتاہے يہاں تك كہ وہ اپنے كفر ميں شك كرنے لگتاہے اور اپنے قلبى اعتقادات سے مضطرب و پريشان رہتاہے

۲۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل : ''و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا'' فقال : قد يكون ضيقا و له منفذ يسمع منها و يبصر و ''الحرج ''الملتئم الذى لا منفذ له يسمع له و لا يبصر به (۲)

امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''و من يرد ان يضلہ ...'' كے بارے ميں منقول ہے كہ : كبھى انسان كا سينہ (دل) تنگ ہوجاتاہے_ ليكن اس كے سننے اور ديكھنے كا راستہ باقى رہتاہے_ اور ''حرج'' سے مراد وہ سينہ ہے كہ جو بالكل بند اور وٹھوس ہوتاہے اور اس ميں نفوذ كرنے كا كوئي راستہ نہيں ہوتا كہ جس سے وہ سن سكے يا ديكھ سكے_

آسمان :آسمان كى جانب صعود كرنا ۹

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۱ ص ۱۳۱ ح ۲۷ ب ۱۱_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۶۵ ح ۲۷۷_

۲) معانى الاخبار ص ۱۴۵ ح/ ۱ تفسير برھان ج ۱ ص ۵۵۳ ح ۶_

۳۹۰

اضطراب :اضطراب كے علل و اسباب ۱۹

ايمان :ايمان كے موانع ۱۴

تسليم :حق كے سامنے تسليم ہونے كے آثار ۳

تشبيہات :آسمان كى جانب صعود كرنے سے تشبيہ ۱۰

تنگى دل:تنگى دل كے آثار ۶،۱۱،۱۲; تنگى دل كے اسباب ۹،۱۳،۱۴،۲۰

ثابت قدمى :ثابت قدمى كے علل و اسباب ۱۸

جبر و اختيار ۸

حق :حق قبول كرنے والوں كا حوصلہ ۳،۴; حق قبول نہ كرنے كے آثار ۶،۱۲;حق قبول نہ كرنے والوں كا ايمان ۱۰; حق قبول نہ كرنے والوں كا تنگ سينہ ۷; حق قبول نہ كرنے والون كا ناقابل ہدايت ہونا۱۰; حق قبول نہ كرنے والوں كى سزا۷

خباثت :خباثت كے آثار ۱۴; خباثت كى علائم ۱۲

خداتعالى :ارادہ خدا ۸; توفيقات خدا ۳; سنن خدا ۱۳; نعمات خدا ۲; ہدايت خدا ۳

روايت :۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰سزا:سزا كے اسباب۷

شرح صدر : ۲شرح صدر كے آثار ۱، ۱۹، ۲۰;شرح صدر كے اسباب ۱۹، ۲۰; شرح صدر كى اہميت ۵; شرح صدر كى حقيقت ۱۶; شرح صدر كى علائم ۴

قرآن :تشبيہات قرآن ۱۰

قلب :قلب كا سياہ ہونا ۱۸; قلب كے اطمينان كے اسباب ۱۷; مضطرب قلب ۱۷

كفار :كفار كا ضيق صدر ۱۳;كفار كى خباثت ۱۵

كفر :

۳۹۱

كفر كے آثار ۱۹

گمراہ افراد :گمراہوں كا قلب ۱۷

گمراہى :گمراہى كا مقدمہ ۶، ۱۱;گمراہى كا منشا۸;گمراہى كے اسباب ۱۸

مؤمنين :مؤمنين كا شرح صدر ۵; مؤمنين كے فضائل ۵; مؤمنين كے قلب كى نورانيت ۵، ۱۶، ۱۸

ہدايت :ہدايت كا مقدمہ ۱;ہدايت كا منشا ۸; ہدايت كى علائم ۳; ہدايت كے اسباب ۱۸; ہدايت كے موانع ۲۰

آیت ۱۲۶

( وَهَـذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيماً قَدْ فَصَّلْنَا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ )

اور يہى تمھارے پروردگار كاسيدھا راستہ ہے _ ہم نے نصيحت حاصل كرنے والوں كے لئے آيات كو مفصل طور سے بيان كرديا ہے

۱_ اسلام اور خدا كے سامنے تسليم ہونے كا جذبہ ہى صراط مستقيم ہے_هذا صراط ربك مستقيما قد فصلنا الآيات

''ھذا'' ہوسكتاہے ''للاسلام'' كى جانب اشارہ ہو جو گذشتہ آيت ميں گزارا ہے_

۲_ حق سے فرار كرنے والوں كوتنگى دل كے ذريعے گمراہ كرنا اور حق كا راستہ طے كرنے والوں كو شرح صدر كے ذريعے ہدايت كرنا، پروردگار كا صراط مستقيم اور اسكى قائم و ثابت سنت ہے_

فمن يرد الله ان يهديه هذا صراط ربك مستقيما

بظاہر ''ھذا'' كا مشار اليہ، گذشتہ آيت كا مطلب ہے جو كہ گذشتہ آيات كے نتيجے كى حيثيت ركھتاہے_ بنابرايں ''ھذا'' شرح صدر اور ضيق صدر كى جانب اشارہ ہے_

۳_ پيغمبر(ص) خدا كى خصوصى عنايت اور ربوبيت كے زير سايہ ہيں _

۳۹۲

و هذا صراط ربك مستقيما

۴_ ہدايت اور گمراہى ربوبيت خدا كے مظاہر ميں سے ہے_و هذا صراط ربك مستقيما

خداوندعالم كے ہدايت كرنے (ان يھديہ) اور اضلال الھى (يضلہ) كى طرف اشارہ كرنے كے بعد ''ربّ'' جيسا مبارك نام ذكر كرنا ظاہر كرتاہے كہ اس نام اور اس كے ذريعے گمراہى و ہدايت كى تجلى كے درميان (ايك قسم كا) رابطہ برقرار ہے_

۵_ جو لوگ خداندعالم كى نصيحتيں قبول كرتے ہيں اور ان سے غفلت نہيں كرتے وہى آيات الہى سے بہرہ مند ہوتے ہيں _قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۶_ جن لوگوں نے آيات الہى اور اسكے معارف حاصل كرنے كے بعد، انھيں فراموش نہيں كيا اور ان سے غفلت نہيں برتي، وہى خدا كے نزديك قدر و منزلت ركھتے ہيں _قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۷_ خدا نے كائنات ميں اپنى آيات اور سنن كھول كر بيان كردى ہيں _فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۸_ آيات خدا اور سنن الہى كى جانب توجہ اور انھيں مسلسل ياد ركھنا، صراط مستقيم تك رسائي حاصل كرنے كا مقدمہ ہے_و هذا صراط ربك مستقيما قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۹_ انسان ہميشہ نصيحت اور تنبيہ كا محتاج ہے_قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

''يذكرون'' صيغہ مضارع ہے جو تجدد ، تداوم اور استمرار كا معنى ديتا ہے ''متذكرين'' (نصيحت حاصل كرنے والوں ) كى اس طرح توصيف كرنا، اس نكتے كى جانب ايك ظريف اشارہ ہے كہ انسان ہميشہ نصيحت و ياد دہانى كا محتاج ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے فضائل ۳

آيات خدا :آيات خدا سے استفادہ ۵; آيات خدا كى اہميت ۶; آيات خدا كى وضاحت ۷

احتياجات :تنبيہ و خبردار كرنے كى احتياج ۹;نصيحت كى احتياج ۹

اسلام :قبول اسلام كے آثار ۱

۳۹۳

اقدار :اقدار كا معيار ۶

انسان :انسان كى ضروريات ۹

تسليم :خدا كے آگے تسليم ہونے كے آثار ۱

حق :حق قبول كرنے والوں كا شرح صدر ۲; حق قبول كرنے والوں كى ہدايت ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كا ضيق صدر ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كى گمراہى ۲

خدا تعالى :خدا كى تنبيہات كو قبول كرنا ۵;خدا كى خاص

عنايت ۳; خدا كى ربوبيت ۳،۴; خدا كى سنن۲; خدا كى سنن كى وضاحت۷ ; تعليمات دين كو قبول كرنا ۶

ذكر :آيات خدا كا ذكر ۸;ذكر كے آثار ۸; سنن خدا كا ذكر ۸

صراط مستقيم ۱، ۲

گمراہى :گمراہى كا منشاء ۴

مقربين : ۴

ہدايت :صراط مستقيم كى جانب ہدايت ۸;منشائے ہدايت ۴

آیت ۱۲۷

( لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

ان لوگوں كے لئے پروردگار كے نزديك دارالسّلام ہے او ر وہ ان كے اعمال كى بناپر ان كا سرپرست ہے

۱_ ہدايت يافتہ اور آيات و معارف الھى كو ياد كرنے والے افراد كے ليے خدا كے حضور سلامتى والا ٹھكانہ ہے_

۳۹۴

فمن يرد الله قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون لهم دار السلام عند ربهم

۲_ بہشت مكمل امن و سلامتى كا گھر ہے_لهم دار السلام

جيسا كہ مفسرين كا كہنا ہے كہ دار السلام سے مراد بہشت ہے كہ سلامتى اور پرامن ہونا اسكى خصوصيات ميں سے ہے_

۳_ سلامتى اور پرامن ہونا دو قيمتى نعمتيں ہيں _فمن يرد الله لهم دار السلام عند ربهم

''متذكرين'' (نصيحت قبول كرنے والوں )كے ليے خصوصى اجر و ثواب كے عنوان سے ''دار السلام'' (سلامتى و امن كا گھر) كى ياد دلانا، ظاہر كرتاہے كہ يہ ايك خاص، قيمتى اور غير معمولى نعمت ہے_

۴_ ہوشيار اور نصيحت حاصل كرنے والے ہدايت يافتہ افراد بارگاہ پرودرگار ميں مقرب اور اسكى ولايت كے زير سايہ ہوتے ہيں _فمن يرد الله ان يهديه لقوم يذكرون لهم دار السلم عند ربهم و هو وليهم

۵_ دار السلام (امن و سلامتى كے گھر) تك پہنچنے والوں كے امور كى سرپرستى خود خداوند متعال كرے گا_

لهم دار السلم عند ربهم و هو وليهم

۶_ ہدايت يافتہ لوگوں كا اجر و ثواب ان كے پروردگار كے حضور محفوظ ہے_و من يرد الله لهم دار السلم عند ربهم

۷_ ہوشيار اور نصيحت حاصل كرنے والے ہدايت يافتہ افراد كو اجر و ثواب دينا، خدا كى ربوبيت كے خواص ميں سے ہيں _لهم دار السلم عند ربهم

۸_ دار السلام (بہشت اور امن و سلامتى كا گھر)، ہدايت يافتہ افراد كے مسلسل اعمال كا اجر ہے_

لهم دار السلام بما كانوا يعملون

۹_ ايمان كے زير سايہ (نيك) عمل (ہي) بہشت اور ولايت الھى سے بہرہ مند ہونے كى قيمت ہے_

لهم دار السلم بما كانوا يعملون

آرام و اطمينان :آرام و اطمينان كے اسباب ۱;نعمت اطمينان و آرام ۳

آيات خدا :آيات خدا كو ياد ركھنے والوں كے مقامات ۱

اجر و ثواب :اجر و ثواب كا محفوظ ہونا۶

۳۹۵

امن:امن و سلامتى كى نعمت ۳

ايمان :ايمان اور عمل ۹;ايمان كے آثار ۹

بہشت :بہشت ميں آرام و اطمينان ۲; بہشت ميں امن و سلامتى ۲، ۸; بہشت ميں جانے كے اسباب ۹

خداتعالى :افعال خدا ۵;خداوند كى طرف سے اجر و ثواب ۶; ربوبيت خدا ۷; ولايت خدا ۵; ولايت خدا سے بہرہ مند ہونا ۹

دار السلام :دار السلام ميں امن ۸

عمل :عمل كے آثار ۹

مقربين : ۱، ۴

مہتدين :مہتدين اور بہشت ۸; مہتدين اور دار السلام ۵، ۸; مہتدين (ہدايت يافتہ افراد) كا آرام و سكون ۱; مہتدين كا اجر ۶،۷،۸;مہتدين كا تقرب ۴;مہتدين كى ہوشيارى ۴، ۷; مہتدين كے مقامات ۱، ۴

ولايت :ولايت خدا سے بہرہ مند افراد ۴

ياد:آيات خدا كو ياد كرنے كى اہميت ۱

۳۹۶

آیت ۱۲۸

( وَيَوْمَ يِحْشُرُهُمْ جَمِيعاً يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الإِنسِ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ الإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِيَ أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَليمٌ )

اور جس دن وہ سب كو محشور كرے گا تو كہے گا كہ اے گروہ جنّات تم نے اپنے كو انسانوں سے زيادہ بنا ليا تھا اور انسانوں ميں ان كے دوست كہيں گے كہ پروردگار ہم ميں سب نے ايك دوسرے سے فائدہ اٹھايا ہے او راب ہم اس مدّت كو پہنچ گئے ہيں جو تو نے ہمارى مہلت كے واسطے معين كى تھى _ ارشاد ہو گا تواب تمھارا ٹھكانہ جہنّم ہے جہاں ہميشہ ہميشہ رہنا ہے مگر يہ كہ خدا ہى آزادى چاہ لے _ بيشك تمھارا پروردگار صاحب حكمت بھى ہے او رجاننے والا بھى ہے

۱_ خدا قيامت كے دن تمام جن و انس كو محشور كرے گا_و يوم يحشرهم جميعا يمعشر الجن قد استكثر تم من الانس

۲_ گمراہ لوگ، قيامت كے دن اپنے اعمال كا حساب دينے كے ليے اور ان كى جزاء پانے كے ليے اٹھائے جائيں گے_و من يرد ان يضله و يوم يحشرهم جميعا يامعشر الجن

۳_ قرآن كى تبليغ و انذار كے طريقوں ميں سے ايك، قيامت كى ياد دلانا ہے_

كذلك يجعل الله الرجس على الذين لايؤمنون و يوم يحشر هم جميعا

''يوم'' ظرف ہے اور ''اذكر'' جيسے ايك محذوف فعل سے متعلق ہے_ يعنى اس دن (قيامت) كى لوگوں كو ياد دلاؤ_

۴_ جنات بھى ارادہ، اختيار اور شرعى ذمہ داريوں كى حامل مخلوق ہيں _يامعشر الجن قد استكثر تم من الانس

قيامت كے دن جنات كے پوچھ گچھ كرنے سے ظاہر ہوتاہے كہ وہ ايك مكلف (شرعى ذمہ داريوں كى حامل) اور صاحب اختيار مخلوق ہے_

۳۹۷

۵_ جنات اور انسانوں سے قيامت كے دن ايك ساتھ پوچھ گچھ كى جائے گي_يمعشر الجن و قال اولياؤ هم من الانس

۶_ جنات كو بنى آدم ميں نفوذ كرنے اور ان پر مسلط ہونے كى قدرت حاصل ہے_

يمعشر الجن قد استكثرتم من الانس

۷_ گمراہ كرنے والے جنات جب خداوندمتعال كى جانب سے مواخذہ اور پوچھ گچھ كا سامنا كريں گے تو بنى آدم كو گمراہ كرنے كے بارے ميں ان كے پاس كوئي عذر اور جواب نہيں ہوگا_

يامعشر الجن قد استكثرتم من الانس و قال اولياؤهم من الانس

جنات سے سوال كرنے پر جنات كے جواب كو نقل كرنے كے بجائے، بنى آدم كا جواب نقل كرنا، ہوسكتاہے انكے جواب دينے سے عاجز ہونے اور عذر خواہى نہ كر سكنے كى جانب اشارہ ہو_

۸_ جنات كوشش كرتے ہيں كہ بنى آدم پر اپنا نفوذ و تسلط بڑھا كر ان كى زيادہ سے زيادہ تعداد كو گمراہ كريں _

يمعشر الجن قد استكثرتم من الانس

(لسان العرب) ميں ہے كہ''استكثر من الشيئ'' رغب فى الكثير منه _ يعنى ان كى كثرت ميں اس نے ميل و رغبت كي_ لہذا ''استكثرتم من الانس'' كہ جو جنات سے خطاب ہے_ يعنى تم (جنات) بہت سے آدميوں ميں رغبت و ميلان ركھتے ہوتا كہ انھيں گمراہ كرسكو_

۹_ بہكانے والے جنات، بنى آدم ميں سے زيادہ سے زيادہ افراد كو اپنے جيسے گمراہ شيطانوں ميں تبديل كرنے كى سعى كرتے ہيںيامعشر الجن قد استكثرتم من الانس

''استكثار'' كا معنى ''بہت زيادہ طلب كرنا'' ہے لہذا ''استكثرتم من الانس'' كے محتمل معانى ميں سے ايك يہ ہے كہ استكثار اس لحاظ سے كہ شياطين اپنے علاوہ انسانوں ميں بھى شيطانوں كى كثرت كے طالب ہيں _ يعنى وہ چاہتے ہيں زيادہ سے زيادہ شيطان انسان پيدا ہوں _

۳۹۸

۱۰_ بنى آدم كو چاہيئے كہ وہ ورغلانے اور بہكانے والے جنات (شياطين) كے وسوسے كے مقابلے ميں ہوشيار رہيں اور اپنى حفاظت كريں _يمعشر الجن قد استكثرتم من الانس

خداوند متعال كا جنات كے تسلط اور اعمال كى خبر دينا، بنى آدم كے ليے ايك تنبيہ ہے كہ وہ اپنے دشمن كو پہچانيں اور اس كے مقابلے كے ليے ضرورى تدابير اختيار كريں _

۱۱_ بعض گمراہ انسانوں اور جن (شياطين) كے درميان ايك قسم كى دوستى اور پيروى كا رابطہ برقرار ہوتاہے_

و قال اولياؤ هم من الانس

۱۲_ جن شياطين كے پيروكار، ان كے دوست ہيں _يامعشر الجن قد استكثرتم من الانس و قال اولياؤ هم من الانس _

۱۳_ ور غلانے والے جنات اور انكے پيروكار انسان، انحراف اور گمراہى كے ليے ايك دوسرے سے استفادہ كرتے ہيں _و قال اولياؤ هم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض

''استمتع'' سے مراد، فائدہ و لذت اٹھاناہے_ ادر ''بعض'' سے مراد بعض جنات اور انسان ہيں _ چونكہ ان دونوں گروہوں كے دنيا ميں باہمى رابطہ كے بارے ميں سؤال كى بات ہورہى ہے (لہذا دونوں گروہ مراد ہيں )

۱۵_ جنات انسانوں كو ورغلا اور بہكا كر لطف اٹھاتے ہيں _و قال اولياؤهم من الانس ربنا استمنع بعضنا ببعض

۱۶_ انسان بھى جنات كے ذريعے گمراہ ہوكر لذت و لطف حاصل كرتے ہيں _

و قال اولياؤهم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض

۱۷_ انسان اور جن خداوندمتعال كى جانب سے ايك مقرر شدہ اجل (عمر) ليكر آتے ہيں _

و بلغنا اجلنا الذى اجلت لنا

۱۸_ گمراہ لوگوں كا قيامت كے دن عمر كے آخرى لحظے تك اپنى خواہشات نفسانى كى پيروى كرنے كا اعتراف كرنا_

ربنا استمتع بعضنا ببعض و بلغنا اجلنا الذى اجلت لنا

''ربنا استمتع ...'' كے بعد، جملہء ''و بلغنا'' عمر كے آخر لحظے تك، گمراہوں كى دنيوى لذات سے بہرہ مندى كے جارى رہنے كا بيان ہے_ بنابرايں ان كى پورى عمر اسى مقصد كے حصول ميں گذر گئي ہے_

۱۹_ گمراہوں كى توانائيوں كا، خواہشات نفسانى كے راستے ميں صرف ہونا_

۳۹۹

و بلغنا اجلنا الذى اجلت لنا

''اجل'' سے مراد ''وقت اور فرصت كا ختم ہونا ہے_ جملہ ''و بلغنا اجلنا ...'' ممكن ہے، مرتبے اور درجے كے بارے ميں كنايہ ہو_ بنابراين ''و بلغنا اجلنا'' كا معنى يہ ہوگا كہ ''ہم اس مرتبے اور مقام تك پہنچ گئے ہيں كہ جو ہمارے ليے مقرر كيا گيا ہے_

۲۰_ ور غلانے اور بہكانے والے جنّات (شياطين) اور ان كے پيروكار انسانوں كا ابدى ٹھكانہ جہنم كى آگ ہے_

قال النار مثو كم خلدين فيها

''مثوى '' اسم مكان ہے جسكا معنى ٹھكانہ اور جائے قرار ہے (راغب)

۲۱_ دوزخيوں كا خلود اور عدم خلود (جہنم ميں ہميشہ رہنا يا نہ رہنا) مشيت خداوند سے مربوط ہے_

خلدين فيها الا ما شاء الله

۲۲_ جہنم ميں ابدى سزا يافتہ افراد، ممكن ہے مشيت خدا كے زير سايہ اس سے نجات پاليں _

خلدين فيها الا ما شاء الله

۲۳_ خداوند متعال حكيم (استوارى اور پائيدارى بخشنے والا) اور عليم (بہت زيادہ جاننے والا) ہے_

ان ربّك حكيم عليم

۲۴_ خداوندمتعال كے افعال علم و حكمت كى بنياد پر (قائم) ہيںقال النار مثو كم ان ربك حكيم عليم

۲۵_ مشيت الھي، خداوند متعال كے علم و حكمت سے مربوط ہے_الا ما شاء الله ان ربك حكيم عليم

۲۶_ ربوبيت كى لازمى شرط، علم و حكمت ہے_ان ربك حكيم عليم

اجل :اجل مسمى ۱۷

اسما و صفات :حكيم ۲۳; عليم ۲۳

انذار :انذار (ڈرانے) كا طريقہ ۳

انسان :انسان اور جنات ۱۱; انسان اور قيامت كادن۵; انسانوں كا اخروى حشر۱; انسانوں كا اخروى مواخذہ ۵; انسانوں كا خبردار كيا جانا۱۰; انسانوں كى اجل ۱۷; انسانوں كى ذمہ دارى ۱۰; انسانوں كى لذائذ ۱۶

تبليغ :

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744