تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172950 / ڈاؤنلوڈ: 5154
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

له نورا يمشى به فى الناس'' فقال : ''ميتا'' لا يعرف شيئا ''و نورا يمشى به فى الناس'' اماما يا تم به ''كمن مثله فى الظلمت ليس بخارج منها'' قال : الذى لا يعرف الامام (۱)

امام باقرعليه‌السلام آيت ''او من كان ميتا ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ''ميتا'' سے مراد وہ شخص ہے كہ جسكو كسى شئے كى شناخت حاصل نہيں اور ''نورا يمشى بہ فى الناس'' سے مراد وہ امام ہے جس كى اقتداء كرتے ہيں _ اور ''كمن مثلہ فى الظلمات ليس بخارج منھا'' سے مراد وہ شخص ہے جو امام كو نہيں پہچانتا_

اطاعت :گمراہوں كى اطاعت كے موانع ۷

امامت :امامت سے جاہل افراد ۱۴; امامت كا نور ہونا ۱۴

انسان :انسان كے رجحانات ۱۰

ايمان :ايمان كے آثار ۲، ۳، ۶; حقيقت ايمان ۳; نورانيت ايمان ۳، ۶

بصيرت :بصيرت كے علل و اسباب ۵

تحريك :تحريك كرنے كے علل و اسباب ۱۰

توحيد :توحيد كے آثار ۲

حيات :روحانى حيات سے محروم افراد ،۱; روحانى حيات كى اہميت ۷; روحانى حيات كے علل و اسباب ۲، ۳

رجحانات:زيبائي كى طرف رحجان۱۰

رشد :رشد و ترقى كے علل و اسباب ۲; رشد و ترقى كے موانع ۱۲

روايت : ۱۴

ظلمت :ظلمت و تاريكى سے نكلنے كے موانع ۱۲

عمل :عمل كى تزيين ۱۰; عمل كى تزيين كے آثار ۱۲; ناپسنديدہ عمل كى تزيين ۱۱

كفار :كفار كا ظلمت ميں ہونا ۱۱۴; كفار كا عمل ۱۳; كفار كا

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۱۸۵ح ۱۳، نور الثقلين ج ۱ ، ص ۷۶۳، ح ۲۷۰

۳۸۱

گھمنڈ ۱۳; كفار كى خصوصيت ۱۳; كفار كى سوچ ۱۱; كفار كى گمراہى ۴، ۱۱

كفر :كفر كى حقيقت ۳;كفر كى ظلمت۳;كفر كے آثار ۳; كفر كے متعدد راستے ۹

گمراہى :گمراہى كے راستوں كا متعدد ہونا ۹

مشركين:مشركين كا مردہ ہونا ۱; مشركين كى اطاعت سے موانع ۷

مؤمنين :مؤمنين كى بصيرت ۵، ۶، ۸; مؤمنين كى خصوصيت ۵، ۶، ۸; مؤمنين كى معنوى زندگى ۷; مؤمنين كى نورانيت ۵، ۷; مؤمنين كى ہدايت ۵

آیت ۱۲۳

( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجَرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ )

او راسى طرح ہم نے ہر قريہ ميں بڑے بڑے مجرمين كو موقع ديا ہے كہ وہ مكّارى كريں اوران كى اثر خودان كے علاوہ او ركسى پر نہيں ہوتا ہے ليكن انھيں اى كا بھى شعور نہيں ہے

۱_ ہر معاشرے كے مجرموں ميں سے ان كے سرداروں كا ظاہر ہونا (يعنى ان كى نمائندگى كرنا) سنن الہى ميں سے ہے_

و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها

آيت كا مندرجہ بالا مفہوم اس بناپر اخذ كيا گيا ہے كہ ''اكابر مجرميھا'' مضاف و مضاف اليہ اور ''جعل'' كے ليے مفعول اول ہو اور ''فى كل قرية'' اسكا مفعول دوم ہو_

۲_ مكر و فريب، ہر معاشرے كے مجرموں كے سرداروں كا شيوہ ہے_جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها ليمكروا فيها

۳_ ہر معاشرے كے بڑے اور سردار، اس معاشرے كو فريب دينے اور منحرف كرنے ميں اہم كردار ادا كرتے ہيں _

اكبر مجرميها ليمكروا فيها

۴_ ہر معاشرے كے متجاوز (ظالم) اپنے مذموم مقاصد

۳۸۲

كى تكميل كے ليے بعض (گمراہ) سرداروں اور پيشواؤں كے گرد جمع ہوجاتے ہيں _

و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها ليمكرو

''جرم'' كا معنى تعدى و تجاوز ہے_ (لسان العرب) جب ''اكابر'' ''مجرميھا'' كى جانب مضاف ہو تو مجرمين اور ان كے سرداروں كے درميان ايك قسم كا رابطہ ذہن ميں نقش ہوجاتاہے_ يعنى وہ سب كے سب اپنے سرداروں كے جھنڈے تلے جمع ہوكر، لوگوں كے خلاف مكر و فريب اور جنگ كرتے ہيں _

۵_ طول تاريخ كے دوران، مؤمنين اور مجرمين كے درميان جنگ ہوتى رہى ہے_

و ان الشياطين ليجدلوكم و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها

۶_ تمام انسانى معاشرے (قوميں ) اپنے مجرم سرداروں اور بڑوں كے مكر و فريب كے خطرات سے دوچار ہيں _

و كذلك جعلنا فى كل قرية اكبر مجرميها ليمكروا فيها

۷_ مكہ كے بڑے بڑے سردار مجرم، ايك ساتھ ملكر، صدر اسلام كے مسلمين كے خلاف سازشيں اور منصوبے بناتے تھے_و كذلك جعلنا فى كل قرية

چونكہ يہ سورہء مباركہ مكى ہے، آيت ميں تمام علاقوں كے مجرم سرداروں كي،مذكورہ تشبيہ، مكہ كے مجرم سرداروں سے ہے_ لہذا اس زمانے كے حالات و احوال كو بيان كررہى ہے_

۸_ مجرم سردار اپنے ہى مكرو فريب اور سازشوں كے جال ميں پھنس جاتے ہيں _و ما يمكرون الا بانفسهم

۹_ مجرم سردار اسلام كے سازشيں كرنے سے صرف اپنے آپ كو دھوكا ديتے ہيں _

و كذلك جعلنا فى كل قرية و ما يمكرون الابانفسهم

۱۰_ كفر و شرك كے سردار، اس بات كے ادراك سے قاصر ہيں كہ ان كى سازشوں اور مكر و فريب كے آثار خود انھى كى جانب پلٹتے ہيں _و ما يمكرون الا بانفسهم و ما يشعرون

اسلام :اسلام كے خلاف سازش ۹تاريخ صدر اسلام ۷

اشراف مكہ (مكہ كے سردار) :اشراف مكہ كا مكرو فريب ۷;اشراف مكہ كى سازش ۷

انحراف :اجتماعى انحراف كا منشاء ۳

۳۸۳

خدا تعالى :سنن خدا ،۱

رہبر:ظالم رہبراور اسلام ۹; ظالم رہبراور معاشرہ ۶; ظالم رہبروں كا پيدا ہونا ۱;ظالم رہبروں كا طرز مقابلہ ۲; ظالم رہبروں كا مكرو فريب ۲، ۶، ۸، ۹; ظالم رہبروں كى دھمكياں ۶; ظالم رہبروں كى سازشيں ۸، ۹

رہبرى :رہبرى كا كردار ۳

قريش :قريش كے سرداروں كا مكر و فريب ۷;قريش كےسرداروں كى سازشيں ۷

كفر :كافر رہبروں كا بے شعور ہونا ۱۰; كفر كے رہبروں كا سازش كرنا ۱۰

متجاوزين متجاوزين كا گٹھ جوڑ ۴; متجاوزين كى رہبرى ۴

مجرمين :مجرمين كے خلاف جنگ ۵

مسلمان :مسلمانوں كے خلاف ساز : ۷

مؤمنين :مؤمنين اور مجرمين ۵;مؤمنين كى جنگ ۵

آیت ۱۲۴

( وَإِذَا جَاءتْهُمْ آية قَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللّهِ اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ صَغَارٌ عِندَ اللّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُواْ يَمْكُرُونَ )

اورجب ان كے پاس كوئي نشانى آتى ہے كو دى گئي ہے جب كہ الله جانتا كہ اپنى رسالت كوكہاں ركھے گا اور عنقريب مجرمين كوان كے جرم كى پاداش ميں خدا كے يہاں ذلّت او رشديد ترين عذاب كا سامنا كرنا ہو گا

۱_ مكہ كے مجرم سردار ، رسالت پيغمبر(ص) اور آيات خدا پر ايمان لانے سے مختلف بہانوں كے ذريعے پہلو

۳۸۴

تہى كرتے تھے_اكبر مجرميها قالوا لن نؤمن

۲_ پيغمبر(ص) پر ايمان لانے كے ليے، مجرموں كے سرداروں كى ايك بے جا شرط يہ تھى كہ ان پر بھى وحى نازل ہو اور وہ بھى نبوت و رسالت كے عہدے پر فائز ہوں _و اذا جاء تهم آية قالوا لن نؤمن حتى نؤتى مثل ما اوتى رسل الله

۳_ مجرم سرداروں پر آيات (معجزات) الھى كا اثر نہ كرنا_و اذا جاء تهم ا يه قالوا لن نؤمن حتى نوتى مثل ما اوتى رُ سُل الله

۴_ مشركين مكہ كے سردار، اپنے آپ كو وحى اور آسمانى كتاب كے نزول كا مستحق ہونے ميں خود كہ پيغمبر(ص) كے ہم مرتبہ سمجھتے تھے_اكبر مجرميها لن نؤمن حتى نؤتى مثل ما اوتى رسل الله

۵_ نبوت پيغمبر(ص) كا انكاركرنے كے ليے، مجرم سرداروں كا رسالت انبيائے الھى كا مذاق اڑانا_

و اذا جاء تهم آية قالوا لن نؤمن حتى نؤتى مثل ما اوتى رسل الله

مجرمين كے سرداروں كى جانب سے نزول وحى اور مقام رسالت كا تقاضا ممكن ہے فقط استہزا كرنے كے ليے ہو نہ كہ وہ حقيقى طور پر نبوت و وحى كے خواہان ہيں _

۶_ خداوندعالم انبياكى صلاحيت كے بارے ميں اپنے كامل علم كى بنياد پر رسول كا انتخاب كرتا ہے_

الله اعلم حيث يجعل رسالته

۷_ انبيا اپنى صلاحيت و لياقت كى بنياد پر مقام رسالت پر فائز ہوتے ہيںالله اعلم حيث يجعل رسالته

۸_ مجرمين كے سرداروں كے ليے، بارگاہ الہى ميں ذلت و خوارى اور شديد عذاب آمادہ ہے_

سيصيب الذين اجرموا صغار عند الله و عذاب شديد

۹_ سازشيوں كى ذلت اور شديد عذاب ميں گرفتار ہونے كا اہم ترين سبب ان كا دين كے خلاف مسلسل سازشيں كرنا اور (لوگوں كو) فريب دينا ہے_سيصيب الذين بما كانوا يمكرون

۱۰_ ذلت و خواري، مجرمين كے سرداروں كے تكبر و استكبار كى سزا ہے_اكبر مجرميها و اذا جاء تهم آية

۳۸۵

سيصيب الذين اجرموا صغار عند الله

۱۱_ الہى جزا و سزا كے نظام ميں گناہ اور اسكى سزا كے درميان ايك قسم كا تقابل و تناسب پايا جاتاہے_

و اذا جاء تهم آية قالوا لن نؤمن سيصيب الذين اجرموا صغار عند الله

خداوند عالم نے آيات الہى كے مقابلہ ميں تكبر كرنے والوں كے ليے ذلت و خوارى كى سزا مقرر كى ہے_ جو ايك دوسرے كے متضاد ہيں _

۱۲_ مجرمين كے سرداروں كے مكر و فريب ميں سے ايك، انبياعليه‌السلام اور آيات الھى كے مقابلے ميں بہانہ جوئي اختيار كرنا اور شبھات پيدا كرنا تھا_اكبر مجرميها ليمكروا لن نؤمن حتى نؤتى بما كانوا يمكرون

كفر و شرك كے سرداروں كے مكر و فريب كا تذكرہ كرنے كے بعد ان كے شبھات و اعتراضات كى ياد دہانى كرانا، ممكن ہے ان كے مكر و فريب كا ايك واضح مصداق بيا ن كرنے كے ليے ہو_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كو جھٹلانا۵

اشراف مكہ :اشراف مكہ كى بصيرت ۴; اشرف مكہ كى بہانہ جوئي ۱; اشراف مكہ كا كفر ۱

انبيا :انبياعليه‌السلام كا مذاق اڑانا ۵; انبياعليه‌السلام كى صلاحيت ۶، ۷; انبياعليه‌السلام كے انتخاب كا معيار ۶،۷

ايمان :آيات خدا پر ايمان ۱; حضرت محمد(ص) پر ايمان ۱، ۲; متعلق ايمان ۱، ۲

تكبر:تكبر كى سزا ۱۰

خدا تعالى :خدا كى طرف سے عذاب ۸; علم خدا ،۶

دين :دين كے خلاف سازش كى سزا ۹

ذلت :ذلت كے اسباب ۹، ۱۰

رہبر:ظالم رہبر اور آيات خدا، ۳،۱۲; ظالم رہبر اور انبياء ۱۲; ظالم رہبروں پر معجزے كا اثر نہ كرنا ۳; ظالم رہبروں كا شبہات پيدا كرنا ۱۲; ظالم رہبروں كا عذاب ۸; ظالم رہبروں كا مذاق اڑانا ۵; ظالم رہبروں كا كفر۱۲;ظالم رہبروں كى بہانہ جوئي ۱۲; ظالم رہبروں كى ذلت ۸،۱۰; ظالم رہبروں كى سزا،۱۰; ظالم رہبروں كى شرائط ۲; ظالم رہبروں كے تقاضے ۲; مغرور رہبر۱۰

۳۸۶

عذاب :اہل عذاب ۸، ۹; مراتب عذاب ۸; موجبات عذاب ۹

قريش :قريش كے سرداروں كا كفر ۱

نظام جزا و سزا : ۱۱

آیت ۱۲۵

( فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاء كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ )

پس خدا جسے ہدايت دينا چاہتاہے ا س كے سينے كو اسلام كے لئے كشادہ كرديتا ہے اروجس كو گمراہى ميں چھوڑنا چاہتا ہے اس كے سينے كو ايسا تنگ او ردشوار گذار ديتا ہے جيسے آسمان كى طرف بلند ہو رہاہو ، وہ اسى طرح بے ايمانوں پر كى كثافت كو مسلّط كرديتا ہے

۱_ شرح صدر، انسان كے ہدايت قبول كرنا كا مقدمہ ہے_فمن يرد الله ان يهديه بشرح صدره

شرح صدر كا معنى انسان كے دل و دماغ اور فكر كا وسيع و كھلا ہونا ہے اس كے مقابلے ميں ضيق صدر (سينے و دل كا تنگ ہونا) ہے_

۲_ شرح صدر ايك عطيہ الہى ہے_يشرح صدره

۳_ انسان كا حق كے سامنے تسليم ہونا اور حق كو قبول كرنے كا حوصلہ و ہمت ركھنا، ہدايت اور توفيق الہى سے بہرہ مند ہونے كى علامت ہے_

فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام

اس آيت ميں ہوسكتاہے اسلام اپنے لغوى معنى ميں ہو جوكہ ''تسليم'' ہے_

۴_ اسلام كے آسمانى معارف كے مقابلے ميں انفعالى حالت، شرح صدر كى علامت ہے_

فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام

مندرجہ بالا مفہوم ميں اسلام كو اس كے اصطلاحى معنى ميں ليا گيا ہے جو كہ ''دين اسلام'' ہے_

۳۸۷

۵_ شرح صدر، مؤمنين كے دل ميں ايك نور الھى ہےو جعلنا له نورا يمشي فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره

''فمن يرد ...'' ميں ''فائ'' گذشتہ آيات پر عطف اور تفريع ہے آيت ۱۲۲ (اومن كا ميتا ...) ميں لوگوں كو دو گروہوں ميں تقسيم كيا گيا ہے: حيات ركھنے والے جو نور كے حامل ہيں اور تاريكى و ظلمت ميں پڑے رہنے والے ،اس آيت ميں ، تمام آيات كا نتيحہ اخذ كرتے ہوئے، ہدايت يافتہ افراد شرح صدر كے حامل اور گمراہ افراد ضيق صدر (تنگى قلب) ميں مبتلا شمار كيئے گئے ہيں _ احتمال ہے كہ شرح صدر سے مراد وہى نور ہو جس كا ذكر آيت ۱۲۲ ميں كيا گيا ہے_

۶_ ضيق صدر اور دل كا شديد تنگ ہونا (حق و ہدايت كو قبول نہ كرنا) انسان كى گمراہى و ضلالت كا مقدمہ ہے_

و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا

حرج كامعنى شديد تنگ و سخت ہونا ہے_ مجمع البيان ميں ہے كہ ''الحرج اضيق الضيق''

۷_ حق كو قبول كرنے ميں ضيق صدر اور دل كى سختي، حق كو قبول نہ كرنے والوں كےليے، خداوند كى جانب سے ايك قسم كى سزا ہے_يجعل صدره ضيقا

۸_ انسان كى ہدايت و گمراہى ارادہ خداوند عالم كے تابع ہے_فمن يرد الله ان يهديه و من يرد ان يضله يجعل

۹_ آسمان كى جانب صعود كرنے (چڑھنے) كے وقت، انسان كا دل اور سينہ تنگ و سخت كرديا جاتاہے_

يجعل صدره ضيقا حرجا كانما يصعد فى السماء

۱۰_ حق (اسلام) كا راستہ، حق قبول نہ كرنے والے دل كے ساتھ تلاش كرنا آسمان كى بلنديوں پر چڑھنے كى طرح دشواريا نا ممكن ہے _و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا كانما يصعد فى السماء

۱۱_ ضيق صدر (سينے اور دل كا تنگ ہونا) انسان كى گمراہى كا مقدمہ ہے اور انسان كو گمراہى كے انتہائي قريب كرديتاہے_و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا

۱۲_ ضيق صدر (تنگ دلى اور حق ناپذيري)، انسان پر پليدى كے مسلط ہونے كى علامت ہے_

و من يرد ان يضله كذلك يجعل الله الرجس

۳۸۸

۱۳_ ايمان كا انكار كرنے والوں كا ضيق صدر (تنگى دل) ميں مبتلا ہونا سنت خداوندى ہے_

و من يرد ان يضله كذلك يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون

۱۴_ ضيق صدر (تنگى دل) اور قلب كا ايمان سے خالى ہونا، اس پر پليدى كے غلبے كى علامت ہے_

كذلك يجعل الله الرجس على الذين لايؤمنون

۱۵_ كفار پر پليدى مسلط ہے_يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون

۱۶_لما نزلت هذه الاية سئل رسول الله(ص) عن شرح الصدر ما هو ؟ فقال : نور يقذفه الله فى قلب المؤمن فينشرح له صدره و ينفسح (۱)

جب آيت ''فمن يرد اللہ ...'' نازل ہوئي تو رسول خدا(ص) سے پوچھا گيا كہ شرح صدر سے كيا مراد ہے ؟ تو آپ(ص) نے فرمايا : يہ ايك نور ہے كہ جو خدا مؤمن كے دل ميں ڈال ديتاہے، اور اس سے اس كا سينہ كھل جاتاہے_

۱۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ان القلب ينقلب من لدن موضعه الى حنجرته ما لم يصب الحق فاذا اصاب الحق قرّ و قرء هذه الآية ''فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : انسان كا دل جب تك حق كو پا نہ لے اس وقت تك اس طرح مضطرب رہتاہے كہ گويا ابھى اچھل كر حلق ميں آجائے گا، پس جب وہ حق كو پاليتاہے تو اسے اطمينان حاصل ہوجاتاہے، اس كے بعد آپعليه‌السلام نے آيت ''فمن يرد اللہ ...'' كى تلاوت كي

۱۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : ان الله عزوجل اذا اراد بعبد خيرا نكت فى قلبه نكتة من نور و فتح مسامع قلبه و وكل به ملكا يسدده و اذا اراد بعبد سوء ا نكت فى قلبه نكتة سوداء وسد مسامع قلبه ووكل به شيطانا يضله ثم تلا هذه الاية ''فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا (۳)

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۴ ص ۵۶۱_ نور الثقلين ج ۱، ص ۷۶۷ ح ۲۸۴_

۲) محاسن برقى ج/ ۱ ص ۲۰۲ ح ۴۱_ ب ۳، تفسير برھان ج ۱ ص ۵۵۳ ح ۴_

۳) كافى ج/ ۱ ص ۱۶۶ ح ۲_ تفسير برھان ج/ ۱ ص ۵۵۲ ح ۱_

۳۸۹

امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں _ جب بھى خداوند كسى بندے كى بھلائي چاہتا ہے تو اس كے دل ميں نور كا ايك نكتہ پيدا كرديتاہے اور اس كے دل كے كان كھول ديتاہے اور ايك فرشتہ اس پرمامور كرديتاہے جو كاموں ميں اس كى مدد كرتاہے اور جب بھى خداوند كسى بندے كى بدى چاہتاہے تو اس كے دل ميں ايك سياہ نكتہ پيدا كرديتاہے اور اس كے دل كا كان بند كرديتاہے اور ايك شيطان اس پر مسلط كرديتاہے تا كہ اسے گمراہ كرے اس كے بعد امام صادقعليه‌السلام نے يہ آيت (فمن يرد اللہ ...) تلاوت فرمائي_

۱۹_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام فى قوله تعالى : ''فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام، قال : من يرد الله ان يهديه بايمانه يشرح صدره للتسليم لله و الثقة به و السكون الى ما وعده من ثوابه و من يرد ان يضله لكفره به و عصيانه له فى الدنيا يجعل صدره ضيقاحرجا حتى يشك فى كفره و يضطرب من اعتقاد قلبه ... (۱)

امام رضاعليه‌السلام آيہ مجيد ''فمن يرد اللہ ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں : خداوندعالم جس شخص كى اس كے ايمان كى خاطر ہدايت كرنا چاہيئے تو اس كے سينے كو، خداوندعالم كے سامنے تسليم ہونے، اس پر اعتماد كرنے اور اجر الہى كے وعوں كے ذريعے آرام و قرار پانے كے ليے كھول ديتاہے اور اگر خدا كسى شخص كو اس كے كفر و نافرمانى كى وجہ سے دنيا ميں گمراہ كرنا چاہے تو اس كے سينے كو تنگ اور سخت كر ديتاہے يہاں تك كہ وہ اپنے كفر ميں شك كرنے لگتاہے اور اپنے قلبى اعتقادات سے مضطرب و پريشان رہتاہے

۲۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل : ''و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجا'' فقال : قد يكون ضيقا و له منفذ يسمع منها و يبصر و ''الحرج ''الملتئم الذى لا منفذ له يسمع له و لا يبصر به (۲)

امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''و من يرد ان يضلہ ...'' كے بارے ميں منقول ہے كہ : كبھى انسان كا سينہ (دل) تنگ ہوجاتاہے_ ليكن اس كے سننے اور ديكھنے كا راستہ باقى رہتاہے_ اور ''حرج'' سے مراد وہ سينہ ہے كہ جو بالكل بند اور وٹھوس ہوتاہے اور اس ميں نفوذ كرنے كا كوئي راستہ نہيں ہوتا كہ جس سے وہ سن سكے يا ديكھ سكے_

آسمان :آسمان كى جانب صعود كرنا ۹

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۱ ص ۱۳۱ ح ۲۷ ب ۱۱_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۶۵ ح ۲۷۷_

۲) معانى الاخبار ص ۱۴۵ ح/ ۱ تفسير برھان ج ۱ ص ۵۵۳ ح ۶_

۳۹۰

اضطراب :اضطراب كے علل و اسباب ۱۹

ايمان :ايمان كے موانع ۱۴

تسليم :حق كے سامنے تسليم ہونے كے آثار ۳

تشبيہات :آسمان كى جانب صعود كرنے سے تشبيہ ۱۰

تنگى دل:تنگى دل كے آثار ۶،۱۱،۱۲; تنگى دل كے اسباب ۹،۱۳،۱۴،۲۰

ثابت قدمى :ثابت قدمى كے علل و اسباب ۱۸

جبر و اختيار ۸

حق :حق قبول كرنے والوں كا حوصلہ ۳،۴; حق قبول نہ كرنے كے آثار ۶،۱۲;حق قبول نہ كرنے والوں كا ايمان ۱۰; حق قبول نہ كرنے والوں كا تنگ سينہ ۷; حق قبول نہ كرنے والون كا ناقابل ہدايت ہونا۱۰; حق قبول نہ كرنے والوں كى سزا۷

خباثت :خباثت كے آثار ۱۴; خباثت كى علائم ۱۲

خداتعالى :ارادہ خدا ۸; توفيقات خدا ۳; سنن خدا ۱۳; نعمات خدا ۲; ہدايت خدا ۳

روايت :۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰سزا:سزا كے اسباب۷

شرح صدر : ۲شرح صدر كے آثار ۱، ۱۹، ۲۰;شرح صدر كے اسباب ۱۹، ۲۰; شرح صدر كى اہميت ۵; شرح صدر كى حقيقت ۱۶; شرح صدر كى علائم ۴

قرآن :تشبيہات قرآن ۱۰

قلب :قلب كا سياہ ہونا ۱۸; قلب كے اطمينان كے اسباب ۱۷; مضطرب قلب ۱۷

كفار :كفار كا ضيق صدر ۱۳;كفار كى خباثت ۱۵

كفر :

۳۹۱

كفر كے آثار ۱۹

گمراہ افراد :گمراہوں كا قلب ۱۷

گمراہى :گمراہى كا مقدمہ ۶، ۱۱;گمراہى كا منشا۸;گمراہى كے اسباب ۱۸

مؤمنين :مؤمنين كا شرح صدر ۵; مؤمنين كے فضائل ۵; مؤمنين كے قلب كى نورانيت ۵، ۱۶، ۱۸

ہدايت :ہدايت كا مقدمہ ۱;ہدايت كا منشا ۸; ہدايت كى علائم ۳; ہدايت كے اسباب ۱۸; ہدايت كے موانع ۲۰

آیت ۱۲۶

( وَهَـذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيماً قَدْ فَصَّلْنَا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ )

اور يہى تمھارے پروردگار كاسيدھا راستہ ہے _ ہم نے نصيحت حاصل كرنے والوں كے لئے آيات كو مفصل طور سے بيان كرديا ہے

۱_ اسلام اور خدا كے سامنے تسليم ہونے كا جذبہ ہى صراط مستقيم ہے_هذا صراط ربك مستقيما قد فصلنا الآيات

''ھذا'' ہوسكتاہے ''للاسلام'' كى جانب اشارہ ہو جو گذشتہ آيت ميں گزارا ہے_

۲_ حق سے فرار كرنے والوں كوتنگى دل كے ذريعے گمراہ كرنا اور حق كا راستہ طے كرنے والوں كو شرح صدر كے ذريعے ہدايت كرنا، پروردگار كا صراط مستقيم اور اسكى قائم و ثابت سنت ہے_

فمن يرد الله ان يهديه هذا صراط ربك مستقيما

بظاہر ''ھذا'' كا مشار اليہ، گذشتہ آيت كا مطلب ہے جو كہ گذشتہ آيات كے نتيجے كى حيثيت ركھتاہے_ بنابرايں ''ھذا'' شرح صدر اور ضيق صدر كى جانب اشارہ ہے_

۳_ پيغمبر(ص) خدا كى خصوصى عنايت اور ربوبيت كے زير سايہ ہيں _

۳۹۲

و هذا صراط ربك مستقيما

۴_ ہدايت اور گمراہى ربوبيت خدا كے مظاہر ميں سے ہے_و هذا صراط ربك مستقيما

خداوندعالم كے ہدايت كرنے (ان يھديہ) اور اضلال الھى (يضلہ) كى طرف اشارہ كرنے كے بعد ''ربّ'' جيسا مبارك نام ذكر كرنا ظاہر كرتاہے كہ اس نام اور اس كے ذريعے گمراہى و ہدايت كى تجلى كے درميان (ايك قسم كا) رابطہ برقرار ہے_

۵_ جو لوگ خداندعالم كى نصيحتيں قبول كرتے ہيں اور ان سے غفلت نہيں كرتے وہى آيات الہى سے بہرہ مند ہوتے ہيں _قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۶_ جن لوگوں نے آيات الہى اور اسكے معارف حاصل كرنے كے بعد، انھيں فراموش نہيں كيا اور ان سے غفلت نہيں برتي، وہى خدا كے نزديك قدر و منزلت ركھتے ہيں _قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۷_ خدا نے كائنات ميں اپنى آيات اور سنن كھول كر بيان كردى ہيں _فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۸_ آيات خدا اور سنن الہى كى جانب توجہ اور انھيں مسلسل ياد ركھنا، صراط مستقيم تك رسائي حاصل كرنے كا مقدمہ ہے_و هذا صراط ربك مستقيما قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

۹_ انسان ہميشہ نصيحت اور تنبيہ كا محتاج ہے_قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون

''يذكرون'' صيغہ مضارع ہے جو تجدد ، تداوم اور استمرار كا معنى ديتا ہے ''متذكرين'' (نصيحت حاصل كرنے والوں ) كى اس طرح توصيف كرنا، اس نكتے كى جانب ايك ظريف اشارہ ہے كہ انسان ہميشہ نصيحت و ياد دہانى كا محتاج ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے فضائل ۳

آيات خدا :آيات خدا سے استفادہ ۵; آيات خدا كى اہميت ۶; آيات خدا كى وضاحت ۷

احتياجات :تنبيہ و خبردار كرنے كى احتياج ۹;نصيحت كى احتياج ۹

اسلام :قبول اسلام كے آثار ۱

۳۹۳

اقدار :اقدار كا معيار ۶

انسان :انسان كى ضروريات ۹

تسليم :خدا كے آگے تسليم ہونے كے آثار ۱

حق :حق قبول كرنے والوں كا شرح صدر ۲; حق قبول كرنے والوں كى ہدايت ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كا ضيق صدر ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كى گمراہى ۲

خدا تعالى :خدا كى تنبيہات كو قبول كرنا ۵;خدا كى خاص

عنايت ۳; خدا كى ربوبيت ۳،۴; خدا كى سنن۲; خدا كى سنن كى وضاحت۷ ; تعليمات دين كو قبول كرنا ۶

ذكر :آيات خدا كا ذكر ۸;ذكر كے آثار ۸; سنن خدا كا ذكر ۸

صراط مستقيم ۱، ۲

گمراہى :گمراہى كا منشاء ۴

مقربين : ۴

ہدايت :صراط مستقيم كى جانب ہدايت ۸;منشائے ہدايت ۴

آیت ۱۲۷

( لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

ان لوگوں كے لئے پروردگار كے نزديك دارالسّلام ہے او ر وہ ان كے اعمال كى بناپر ان كا سرپرست ہے

۱_ ہدايت يافتہ اور آيات و معارف الھى كو ياد كرنے والے افراد كے ليے خدا كے حضور سلامتى والا ٹھكانہ ہے_

۳۹۴

فمن يرد الله قد فصلنا الآيات لقوم يذكرون لهم دار السلام عند ربهم

۲_ بہشت مكمل امن و سلامتى كا گھر ہے_لهم دار السلام

جيسا كہ مفسرين كا كہنا ہے كہ دار السلام سے مراد بہشت ہے كہ سلامتى اور پرامن ہونا اسكى خصوصيات ميں سے ہے_

۳_ سلامتى اور پرامن ہونا دو قيمتى نعمتيں ہيں _فمن يرد الله لهم دار السلام عند ربهم

''متذكرين'' (نصيحت قبول كرنے والوں )كے ليے خصوصى اجر و ثواب كے عنوان سے ''دار السلام'' (سلامتى و امن كا گھر) كى ياد دلانا، ظاہر كرتاہے كہ يہ ايك خاص، قيمتى اور غير معمولى نعمت ہے_

۴_ ہوشيار اور نصيحت حاصل كرنے والے ہدايت يافتہ افراد بارگاہ پرودرگار ميں مقرب اور اسكى ولايت كے زير سايہ ہوتے ہيں _فمن يرد الله ان يهديه لقوم يذكرون لهم دار السلم عند ربهم و هو وليهم

۵_ دار السلام (امن و سلامتى كے گھر) تك پہنچنے والوں كے امور كى سرپرستى خود خداوند متعال كرے گا_

لهم دار السلم عند ربهم و هو وليهم

۶_ ہدايت يافتہ لوگوں كا اجر و ثواب ان كے پروردگار كے حضور محفوظ ہے_و من يرد الله لهم دار السلم عند ربهم

۷_ ہوشيار اور نصيحت حاصل كرنے والے ہدايت يافتہ افراد كو اجر و ثواب دينا، خدا كى ربوبيت كے خواص ميں سے ہيں _لهم دار السلم عند ربهم

۸_ دار السلام (بہشت اور امن و سلامتى كا گھر)، ہدايت يافتہ افراد كے مسلسل اعمال كا اجر ہے_

لهم دار السلام بما كانوا يعملون

۹_ ايمان كے زير سايہ (نيك) عمل (ہي) بہشت اور ولايت الھى سے بہرہ مند ہونے كى قيمت ہے_

لهم دار السلم بما كانوا يعملون

آرام و اطمينان :آرام و اطمينان كے اسباب ۱;نعمت اطمينان و آرام ۳

آيات خدا :آيات خدا كو ياد ركھنے والوں كے مقامات ۱

اجر و ثواب :اجر و ثواب كا محفوظ ہونا۶

۳۹۵

امن:امن و سلامتى كى نعمت ۳

ايمان :ايمان اور عمل ۹;ايمان كے آثار ۹

بہشت :بہشت ميں آرام و اطمينان ۲; بہشت ميں امن و سلامتى ۲، ۸; بہشت ميں جانے كے اسباب ۹

خداتعالى :افعال خدا ۵;خداوند كى طرف سے اجر و ثواب ۶; ربوبيت خدا ۷; ولايت خدا ۵; ولايت خدا سے بہرہ مند ہونا ۹

دار السلام :دار السلام ميں امن ۸

عمل :عمل كے آثار ۹

مقربين : ۱، ۴

مہتدين :مہتدين اور بہشت ۸; مہتدين اور دار السلام ۵، ۸; مہتدين (ہدايت يافتہ افراد) كا آرام و سكون ۱; مہتدين كا اجر ۶،۷،۸;مہتدين كا تقرب ۴;مہتدين كى ہوشيارى ۴، ۷; مہتدين كے مقامات ۱، ۴

ولايت :ولايت خدا سے بہرہ مند افراد ۴

ياد:آيات خدا كو ياد كرنے كى اہميت ۱

۳۹۶

آیت ۱۲۸

( وَيَوْمَ يِحْشُرُهُمْ جَمِيعاً يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الإِنسِ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ الإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِيَ أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَليمٌ )

اور جس دن وہ سب كو محشور كرے گا تو كہے گا كہ اے گروہ جنّات تم نے اپنے كو انسانوں سے زيادہ بنا ليا تھا اور انسانوں ميں ان كے دوست كہيں گے كہ پروردگار ہم ميں سب نے ايك دوسرے سے فائدہ اٹھايا ہے او راب ہم اس مدّت كو پہنچ گئے ہيں جو تو نے ہمارى مہلت كے واسطے معين كى تھى _ ارشاد ہو گا تواب تمھارا ٹھكانہ جہنّم ہے جہاں ہميشہ ہميشہ رہنا ہے مگر يہ كہ خدا ہى آزادى چاہ لے _ بيشك تمھارا پروردگار صاحب حكمت بھى ہے او رجاننے والا بھى ہے

۱_ خدا قيامت كے دن تمام جن و انس كو محشور كرے گا_و يوم يحشرهم جميعا يمعشر الجن قد استكثر تم من الانس

۲_ گمراہ لوگ، قيامت كے دن اپنے اعمال كا حساب دينے كے ليے اور ان كى جزاء پانے كے ليے اٹھائے جائيں گے_و من يرد ان يضله و يوم يحشرهم جميعا يامعشر الجن

۳_ قرآن كى تبليغ و انذار كے طريقوں ميں سے ايك، قيامت كى ياد دلانا ہے_

كذلك يجعل الله الرجس على الذين لايؤمنون و يوم يحشر هم جميعا

''يوم'' ظرف ہے اور ''اذكر'' جيسے ايك محذوف فعل سے متعلق ہے_ يعنى اس دن (قيامت) كى لوگوں كو ياد دلاؤ_

۴_ جنات بھى ارادہ، اختيار اور شرعى ذمہ داريوں كى حامل مخلوق ہيں _يامعشر الجن قد استكثر تم من الانس

قيامت كے دن جنات كے پوچھ گچھ كرنے سے ظاہر ہوتاہے كہ وہ ايك مكلف (شرعى ذمہ داريوں كى حامل) اور صاحب اختيار مخلوق ہے_

۳۹۷

۵_ جنات اور انسانوں سے قيامت كے دن ايك ساتھ پوچھ گچھ كى جائے گي_يمعشر الجن و قال اولياؤ هم من الانس

۶_ جنات كو بنى آدم ميں نفوذ كرنے اور ان پر مسلط ہونے كى قدرت حاصل ہے_

يمعشر الجن قد استكثرتم من الانس

۷_ گمراہ كرنے والے جنات جب خداوندمتعال كى جانب سے مواخذہ اور پوچھ گچھ كا سامنا كريں گے تو بنى آدم كو گمراہ كرنے كے بارے ميں ان كے پاس كوئي عذر اور جواب نہيں ہوگا_

يامعشر الجن قد استكثرتم من الانس و قال اولياؤهم من الانس

جنات سے سوال كرنے پر جنات كے جواب كو نقل كرنے كے بجائے، بنى آدم كا جواب نقل كرنا، ہوسكتاہے انكے جواب دينے سے عاجز ہونے اور عذر خواہى نہ كر سكنے كى جانب اشارہ ہو_

۸_ جنات كوشش كرتے ہيں كہ بنى آدم پر اپنا نفوذ و تسلط بڑھا كر ان كى زيادہ سے زيادہ تعداد كو گمراہ كريں _

يمعشر الجن قد استكثرتم من الانس

(لسان العرب) ميں ہے كہ''استكثر من الشيئ'' رغب فى الكثير منه _ يعنى ان كى كثرت ميں اس نے ميل و رغبت كي_ لہذا ''استكثرتم من الانس'' كہ جو جنات سے خطاب ہے_ يعنى تم (جنات) بہت سے آدميوں ميں رغبت و ميلان ركھتے ہوتا كہ انھيں گمراہ كرسكو_

۹_ بہكانے والے جنات، بنى آدم ميں سے زيادہ سے زيادہ افراد كو اپنے جيسے گمراہ شيطانوں ميں تبديل كرنے كى سعى كرتے ہيںيامعشر الجن قد استكثرتم من الانس

''استكثار'' كا معنى ''بہت زيادہ طلب كرنا'' ہے لہذا ''استكثرتم من الانس'' كے محتمل معانى ميں سے ايك يہ ہے كہ استكثار اس لحاظ سے كہ شياطين اپنے علاوہ انسانوں ميں بھى شيطانوں كى كثرت كے طالب ہيں _ يعنى وہ چاہتے ہيں زيادہ سے زيادہ شيطان انسان پيدا ہوں _

۳۹۸

۱۰_ بنى آدم كو چاہيئے كہ وہ ورغلانے اور بہكانے والے جنات (شياطين) كے وسوسے كے مقابلے ميں ہوشيار رہيں اور اپنى حفاظت كريں _يمعشر الجن قد استكثرتم من الانس

خداوند متعال كا جنات كے تسلط اور اعمال كى خبر دينا، بنى آدم كے ليے ايك تنبيہ ہے كہ وہ اپنے دشمن كو پہچانيں اور اس كے مقابلے كے ليے ضرورى تدابير اختيار كريں _

۱۱_ بعض گمراہ انسانوں اور جن (شياطين) كے درميان ايك قسم كى دوستى اور پيروى كا رابطہ برقرار ہوتاہے_

و قال اولياؤ هم من الانس

۱۲_ جن شياطين كے پيروكار، ان كے دوست ہيں _يامعشر الجن قد استكثرتم من الانس و قال اولياؤ هم من الانس _

۱۳_ ور غلانے والے جنات اور انكے پيروكار انسان، انحراف اور گمراہى كے ليے ايك دوسرے سے استفادہ كرتے ہيں _و قال اولياؤ هم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض

''استمتع'' سے مراد، فائدہ و لذت اٹھاناہے_ ادر ''بعض'' سے مراد بعض جنات اور انسان ہيں _ چونكہ ان دونوں گروہوں كے دنيا ميں باہمى رابطہ كے بارے ميں سؤال كى بات ہورہى ہے (لہذا دونوں گروہ مراد ہيں )

۱۵_ جنات انسانوں كو ورغلا اور بہكا كر لطف اٹھاتے ہيں _و قال اولياؤهم من الانس ربنا استمنع بعضنا ببعض

۱۶_ انسان بھى جنات كے ذريعے گمراہ ہوكر لذت و لطف حاصل كرتے ہيں _

و قال اولياؤهم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض

۱۷_ انسان اور جن خداوندمتعال كى جانب سے ايك مقرر شدہ اجل (عمر) ليكر آتے ہيں _

و بلغنا اجلنا الذى اجلت لنا

۱۸_ گمراہ لوگوں كا قيامت كے دن عمر كے آخرى لحظے تك اپنى خواہشات نفسانى كى پيروى كرنے كا اعتراف كرنا_

ربنا استمتع بعضنا ببعض و بلغنا اجلنا الذى اجلت لنا

''ربنا استمتع ...'' كے بعد، جملہء ''و بلغنا'' عمر كے آخر لحظے تك، گمراہوں كى دنيوى لذات سے بہرہ مندى كے جارى رہنے كا بيان ہے_ بنابرايں ان كى پورى عمر اسى مقصد كے حصول ميں گذر گئي ہے_

۱۹_ گمراہوں كى توانائيوں كا، خواہشات نفسانى كے راستے ميں صرف ہونا_

۳۹۹

و بلغنا اجلنا الذى اجلت لنا

''اجل'' سے مراد ''وقت اور فرصت كا ختم ہونا ہے_ جملہ ''و بلغنا اجلنا ...'' ممكن ہے، مرتبے اور درجے كے بارے ميں كنايہ ہو_ بنابراين ''و بلغنا اجلنا'' كا معنى يہ ہوگا كہ ''ہم اس مرتبے اور مقام تك پہنچ گئے ہيں كہ جو ہمارے ليے مقرر كيا گيا ہے_

۲۰_ ور غلانے اور بہكانے والے جنّات (شياطين) اور ان كے پيروكار انسانوں كا ابدى ٹھكانہ جہنم كى آگ ہے_

قال النار مثو كم خلدين فيها

''مثوى '' اسم مكان ہے جسكا معنى ٹھكانہ اور جائے قرار ہے (راغب)

۲۱_ دوزخيوں كا خلود اور عدم خلود (جہنم ميں ہميشہ رہنا يا نہ رہنا) مشيت خداوند سے مربوط ہے_

خلدين فيها الا ما شاء الله

۲۲_ جہنم ميں ابدى سزا يافتہ افراد، ممكن ہے مشيت خدا كے زير سايہ اس سے نجات پاليں _

خلدين فيها الا ما شاء الله

۲۳_ خداوند متعال حكيم (استوارى اور پائيدارى بخشنے والا) اور عليم (بہت زيادہ جاننے والا) ہے_

ان ربّك حكيم عليم

۲۴_ خداوندمتعال كے افعال علم و حكمت كى بنياد پر (قائم) ہيںقال النار مثو كم ان ربك حكيم عليم

۲۵_ مشيت الھي، خداوند متعال كے علم و حكمت سے مربوط ہے_الا ما شاء الله ان ربك حكيم عليم

۲۶_ ربوبيت كى لازمى شرط، علم و حكمت ہے_ان ربك حكيم عليم

اجل :اجل مسمى ۱۷

اسما و صفات :حكيم ۲۳; عليم ۲۳

انذار :انذار (ڈرانے) كا طريقہ ۳

انسان :انسان اور جنات ۱۱; انسان اور قيامت كادن۵; انسانوں كا اخروى حشر۱; انسانوں كا اخروى مواخذہ ۵; انسانوں كا خبردار كيا جانا۱۰; انسانوں كى اجل ۱۷; انسانوں كى ذمہ دارى ۱۰; انسانوں كى لذائذ ۱۶

تبليغ :

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

:''فوكزه العالم ، فقتله_ فقال له موسى (ع) : ا قتلت نفساً زكية بغير نفس لقد جئت شيئاً نكراً؟ ''قال :'' فا دخل العالم يده فاقتلع كتفه فا إذا عليه مكتوب : كافر مطبوع'' (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...اس وقت كہ عالم ( خضر (ع) ) موسى (ع) كے ہمراہ جارہے تھے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو كھيل رہا تھا_ امام(ع) فرماتے ہيں كہ اس عالم نے اسے گھونسا ما را اور اسے قتل كرديا موسى (ع) نے اسے كہا :ا قتلت نفساً ذكية بغير نفس ...؟ امام فرماتے ہيں : اسكے بعد عالم نے ہاتھ بڑھا يا اور لڑكے كا كندھا نكالا كہ جس پر لكھا ہوا تھا كافر مطبوع ( يعنى وہ كافر كہ جس پر كفر كى مہرلگى ہو )

۱۲_عن أبى عبداللّه(ع) : ...وخرجا (موسي(ع) وخضر(ع) ) على ساحل البحر فإذا غلام يلعب مع غلمان ...فتورّ كه العالم فذبحه (۲)

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...وہ دونوں (موسي(ع) اورخضر(ع) ) دريا كے ساحل پر كشتى سے نكلے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو دوسرے چندلڑكوں سے كھيل رہاتھا ...پس اس عالم (خضر(ع) ) نے اسے ۱پنے زانو پر ڈالا اور ذبح كرديا //اوليا ء الله :اوليا ء الله كا عفو كرنا۳;اوليا ء الله كى صفات۳/بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كے قتل كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰//خضر (ع) :خضر(ع) پر اعتراض ۵،۱۱; خضر(ع) كا سفر ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵،۱۱،۱۲;خضر(ع) كى نوجوان سے ملاقات ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كاقتل ۴،۱۱،۱۲;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱۱;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوانوں كى بے گناہى ۵

خطاكار لوگ:خطاكارلوگوں كومعاف كرنا۳;خطاكار لوگوں كى معذرت قبول كرنا۳

روايت :۱۱،۱۲//عمل :ناپسنديدہ عمل۱۰

قانون برائت :۶قصاص:قصاص كے احكام۹;يہوديت ميں قصاص۹

موسي(ع):موسي(ع) كا اعتراض ۵،۱۱; موسى (ع) كادينى تعصّب۸ ; موسي(ع) كاسفر۱ ; موسي(ع) كاعلم غيب ۷; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴ ،۵،۱۱ ،۱۲;موسي(ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہى ۱;موسي(ع) كى فكر ۵; موسي(ع) كى معذرت قبول ہونا۱;موسي(ع) كى نوجوان كے ساتھ ملاقات ۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۳۵ج۵۳ ، نورالثقلين ج۳ص۲۸۶،ح۱۶۷_

۲) تفسير عياشى ج۲ ص۳۳۳ح۴۷ ،نورالثقلين ج۳ص۱۵۱۶_

۵۰۱

آیت ۷۵

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ ميں نے كہا تھا كہ آپ ميرے ساتھ صبر نہيں كرسكتے ہيں (۷۵)

۱_حضرت خضر(ع) نے دوسرى بار اور بڑے واضح انداز ميں حضرت موسى كى بے صبرى او ر بلاوجہ سوالات پر انہيں تنبيہ اور خبر دار كيا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم أقل لك

حضرت خضر(ع) كى دوسرى تنبيہ ميں كلمہ '' لك '' آيا ہے اس كلمہ كے اضافہ ہونا اور يہ وضاحت كہ حضرت موسي(ع) كے بارے ميں يہ كلام آيا ہے، انكے سوال كے صحيح نہ ہونے پر تاكيد ہے _

۲_ حضرت خضر(ع) نے يہ كہ موسي(ع) انكے كاموں پر صبر نہيں كر سكتے تيسرى بار تاكيد كى ہے _

قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضرت خضر(ع) نے ايك دفعہ حضرت موسى (ع) كے ساتھ ملاقات كى ابتداء ميں اور دوسرى دفعہ كشتى والے واقعہ كے بعد ايسااور تيسرى مرتبہ نوجوان كے قتل كے بعد جملہ بيان كيا كہ جس ميں عربى عبارت كے حوالے سے چند مرتبہ تاكيد موجود ہے''إنّك لن تستيطع معى ...''

۳_حضرت خضر(ع) كى اپنے كاموں كے مقابل حضرت موسى كى بے صبرى كے حوالے سے پيشگوئي حقيقت كے مطابق تھى _لقد جئت شيئاً نكراً_ قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

۴_نوجوان كے قتل كرنے كى غرض كے حوالے سے حضرت موسي(ع) كى لا علمى كى طرف حضرت خضر (ع) نے اشارہ كرتے ہوئے انكے اعتراض كو غلط جانا اوراس كوان ميں تحمل و صبر كے كم ہونے كے سلسلہ ميں اپنى شناخت كے درست ہونے پر علامت كے قرار ديا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

۵_ الله تعالى كے خاص اولياء اور علوم الہى كے حامل لوگوں كى صحبت سے فيض اٹھانے كيلئے صبراور تحمل، ضرورى شرط ہے _

۵۰۲

قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

اولياء الله :اولياء الله سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵;اولياء الله ہم نشينى كے آداب۵; اولياء الله كى ہم نشينى ميں صبر ۵

خضر (ع) :خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;خضر(ع) كى پشيكوئي كا پور ا ہونا ۳; خضر(ع) كى تشبہات ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا قتل ۴

علماء :علماء سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵; علماء كے ساتھ ہم نشينى كے آداب ۵;علماء كے ساتھ ہم نشينى ميں صبر ۵

موسى (ع) :موسي(ع) كا اعتراض رد ہونا ۴; موسي(ع) كا عجز ۲;موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;موسي(ع) كو خبردار كيا جانا ۱;موسى (ع) كى بے صبرى ۱،۲،۳،۴

آیت ۷۵

( قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْراً )

موسى نے كہا كہ اس كے بعد ميں كسى بات كا سوال كروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ ركھيں كہ آپ ميرى طرف سے منزل عذ رتك پہنچ چكے ہيں (۷۶)

۱_حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے انكے غير معمولى كا موں كے مقابلہ ميں اپنے صبر كرنے كے حوالے سے آخرى مہلت مانگى _قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى

۲_ حضرت موسى (ع) نے اپنے آپ كو دوبارہ سوال كرنے (تيسرى دفعہ خلاف ورزى كرنے ) كى صورت ميں حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے محروميت كا لائق سمجھا_قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبني

۳_ خطا كرنے والوں اور بھول جانے والوں كو تين بار، مہلت دينا مناسب ہے _

قال إن سا لتك عن شى بعد فلا تصاحبني

حضرت موسى (ع) نے تيسرى دفعہ اپنى بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور حضرت خضر(ع) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے كى صورت ميں اپنے آپ كو حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے جدائي اور محروميت كا لائق

۵۰۳

سمجھا لہذا كہہ سكتے ہيں كہ لوگوں كو تين مرتبہ مہلت دينا ،قابل قبول ہے _

۴_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كے كردار كو تحمل كرنے اور ان كى ہمراہى سے عاجزى كا اعتراف كرليا_

قال قد بلغت من لدنى عذرا

۵_ حضرت موسى (ع) نے يہ اعتراف كرليا كہ حضرت خضر كے كاموں كے مقابلہ ميں ان كے خاموش رہنے كى خلاف و رزى كے نتيجہ ميں ميں ان سے جدائيكے سلسلہ ہيں حضرت خضر(ع) معذور ہيں _

قال ان سألتك قد بلغت من لدنى عذرا

جملہ''قد بلغت من لدنى عذراً'' يعنى ميرى نظر ميں آپكے پاس مصاحبت چھوڑنے پر قابل قبول عذرہے يہ جملہ '' قد '' كے قرينہ كے مطابق ''إن سا لتك '' سے مربوط نہيں ہے بلكہ حضرت موسي(ع) كا اعتراف ہے كہ آپ ہمراہى چھوڑ نے كا حق ركھتے ہيں ليكن ميں ايك اور مہلت چاہتا ہوں _

۶_اپنے اوپر تنقيد اور اپنے حوالے سے فيصلہ كرنے ميں انصاف كرنا اور اپنے اعمال كى ذمہ دارى قبول كرنا، بلند اور شائستہ صفات ہيں _إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى قد بلغت من لدنى عذرا

اسكے باوجود كہ حضرت موسى (ع) نے پہلے مرحلہ ميں بھول جانے كے عذر كو بيان كيا ليكن اس مرحلہ ميں سب سے پہلے اپنے عمل كى ذمہ دارى كو قبول

كيا اور دوسرايہ كہ اپنے حوالے سے انصاف سے فيصلہ صادر كيا اور حضرت خضر(ع) كو اپنے سے جدا ہونےكے سلسلہ ميں بر حق جانا_بھول جانے والے :بھول جانے والوں كو مہلت ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كى ہمراہى سے محروميت كے اسباب ۲; خضر(ع) كا عذر ۵; خضر (ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;خضر(ع) كى طرف سے مہلت طلب كرنا ۱//خطا كا ر لوگ :خطا كاڑ لوگوں كو مہلت ۳

خود :خود پر تنقيد ۶//ذمہ دارى لينا :۶

صفات :اچھى صفات ۶

فيصلہ كرنا :فيصلہ كرنے ميں عدالت ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا اقرار ۴،۵; موسي(ع) كا عجز ۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;موسي(ع) كا مہلت لينا ۱;موسي(ع) كى بے صبرى ۵; موسي(ع) كى رائے ۲; موسي(ع) كى عہد شكنى ۵;موسي(ع) كے سوالوں كے آثار ۲

۵۰۴

آیت ۷۷

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَاراً يُرِيدُ أَنْ يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً )

پھر دونوں آگے چلتے رہے يہاں تك كہ ايك قريہ والوں تك پہنچے اور ان سے كھانا طلب كيا ان لوگوں نے مہمان بنانے سے انكار كرديا پھر دونوں نے ايك ديوار ديكھى جو قريب تھا كہ گر پڑتى بندہ صالح نے اسے سيدھا كرديا تو موسى نے كہا كہ آپ چاہتے تو اس كى اجرت لے سكتے تھے (۷۷)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كى مہلت كى درخواست قبول كى اور انہيں تيسرى بار اپنى ہمراہى كا موقع ديا _

إن سا لتك عن شيئ: بعد ها فلا تصاحبني فا نطلقا

۲_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) اپنے سفر اور حركت كرنے كى راہ ميں ايك آبادى تك پہنچے اور وہاں كے لوگوں سے ملاقات كى _فانطلقا حتّى إذا ا تيا أهل قرية

يہ كہ كون سى آبادى انكى راہ ميں آئي بہت سے احتمالات ہيں ان ميں ايك احتمال يہ ہے كہ وہ شہرناصرہ ہے جو كہ ساحل دريا پر واقع تھا اس كو مجمع البيان نے امام صادق عليہ السلام سے روايت كيا ہے _

۳_حضرت موسى (ع) اورخضر(ع) نے بھوك محسوس كرتے ہوئے شہروالوں ، سے غذا اور خوراك كا تقاضا كيا _

استطعما أهله''يضيّفوهما '' كے قرنيہ كى بناء پر '' استطعام '' سے مرادسفر كو جارى ركھنے كيلئے غذامہيا نہيں چاہى تھى بلكہ حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) اس وقت بھوكے تھے _

۴_شہر والوں ميں سے كوئي بھي، حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى ميزبانى اورانہيں كھانا كھلانے كيلئے تيار نہيں ہوا_

استطعمإهلها فا بوا أن يضيّفوهم

''ابائ'' سے مراد'' انكا ر كرنا اور نہ كرنا'' ہے _

۵_ جس شہر ميں حضرت موسي(ع) اور حضرت خضر(ع) داخل ہوئے تھے وہاں كے لوگ مہمان كى خدمت اور غريب نوازى جيسى صفات سے عارى تھے _فا بوا ا ن يضيّفوهم

۵۰۵

۶_ مسافروں كى ميزبانى اور راستے كى مشكلات كا شكار ہونے والوں كو كھانا كھلانا، ايك پسنديدہ كام ہے _

استطعما أهلها فا بو ا ا ن يضيّفوهم

حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے صرف كھانا مانگا ليكن قرآن شہروالوں كى يہ توصيف كررہا ہے كہ انہوں نے مہمان كى خدمت كرنے سے انكار كيا يعنى چاہيے يہ تھا كہ لوگ ان دونوں كو اپنا مہمان بناتے اور غذاكے علاوہ كو ئي بھى چيز دينے سے دريغ نہ كرتے_

۷_پيغمبرى كے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھى لوگوں سے اپنى مادى احتياج كا تقاضا،غير مناسب نہيں ہے _

استطعما ا هله حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نبى تھے پھر بھى انہوں نے لوگوں كے سامنے اپنى احتياج كا اظہار كيا پس معلوم ہوا كہ اس قسم كى درخواست، پيغمبر وں اور اولياء كيلئے نامناسب نہيں ہے _

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے اس آبادى ميں ايك ايسى ديوار كو ديكھا جوگرنے اور خراب ہونے والى تھى _

فوجدا فيها جداراً يريد ان ينقض ''انقضاض'' مادہ'' قضض'' سے ہے اسكا معنى ''بكھر نا'' ہے (قاموس ) فعل ''يريد'' كا استعمال كہ جو عام طور پر با اختيار موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے يہاں بطور استعارہ ہے يعنى ديوار اس حدتك گرنے كے خطرہ ميں تھى كہ گويا خودگرنے اورخراب ہو كر بكھرنے كا عزم كر چكى ہو_

۹_حضرت خضر(ع) نے گر نے والى ديوار كو درست اور تعمير كيا _يريد ا ن ينقضّ فا قامه

۱۰_گرنے والى ديوار كى حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں تعمير، شہر كے لوگوں كى نگاہوں كے سامنے انجام پائي _

حتى إذا ا تيا ا هل قرية ...فا قامه

شہر ميں داخل ہو نا اور شہر ميں ديوار كا پايا جانا، جيسا كہ آيت ميں ''فوجدا فيھا جداراً'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے ممكن ہے اس طرف اشارہ ہو كہ لو گ حضرت خضر(ع) كے افعال كى طرف متوجہ تھے _

۱۱_ حضر ت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير اور اسكے كھڑا كرنے ميں حضرت موسي(ع) سے مدد نہيں مانگى _

فأقامه

''أقامه '' كا مفرد آنا ممكن ہے اس حوالے سے ہو كہ ديوار كى تعمير صرف حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں انجام پائي اگر چہ اس سے پہلے '' استطعما'' تثنيہ كى صورت ميں آيا ہے يعنى دونوں كے غذا مانگنے كو بيان كيا گيا ہے _

۵۰۶

۱۲_ حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى اجرت دريافت كرنے كے امكان كے باوجود كوئي چيز دريافت نہيں كى _

قال لو شئت لتخذت عليه أجرا

حضرت موسي(ع) كى طرف سے اجرت دريافت كرنے كى بات اسى صورت ميں درست ہے جب اسكے لينے كا امكان موجود ہو _

۱۳_ با جود اسكے كہ غذا كے حصول كيلئے اجرت كى احتياج تھي، حضر ت خضر (ع) كے اپنے كا م كے مقابلہ اجرت نہ چاہنے پر حضرت موسي(ع) ناراض اور شاكى تھے _استطعما ا هلها ...قالو شئت لتّخذت عليه أجرا

حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے لوگوں سے مفت غذاكا مطالبہ كيا چونكہ خريدنے كيلئے انكے پاس رقم نہ تھى لہذا حضرت موسى (ع) نے ديوار كا كام مكمل ہونے پر اجرت كى بات كى تا كہ اس ذريعہ سے غذا خريدى جائے _

۱۴_ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں كام كى اجرت دينے كے نظام كا موجود ہونا_قال لو شئت لتّخذت عليه أجرا

۱۵_ كام كے انجام دينے كے بعد اجرت كى مقدار كا معين كرنا، صحيحاور قابل اجرائہے _لو شئت لتخذت عليه أجرا

۱۶_ كام لينے والے كى در خواست كے بغير انجام ديتے گئے كاموں كے مقابلہ ميں اجرت لينا جائز ہے _لو شئت لتّخذت عليه أجر لوگوں كى بد فطرتى اور پستي، انسان كو كا ر خير اور ذمہ دارى ادا كرنے سے نہ روكے _استطعما ا هلها فا بوا ...فا قامه اگر چہ شہر والے،بد فطرت اور برے تھے ليكن اسى حالت ميں حضرت خضر(ع) نے بغير كسى ناگوار ى كے اپنى ذمہ دارى ادا كى _لوگوں كا سرد رويہ آپكے كام ميں سستى اور دير كا باعث نہ بنا _

۱۸_اجرت حاصل نہ كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر(ع) سے شكايت آميز بات اپنے عہد سے تيسرى مخالفت تھى _قال لوشئت لتّخذت عليه أجرا

۱۹_عن جعفر بن محمد (ع) ...''فانطلقا حتّى إذا ا تيإ هل قرية '' وهى الناصرة (۱) امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آيت شريفہ ميں قرية سے مراد قريہ ناصرہ ہے _

۲۰_عن جعفر بن محمد (ع)''فوجدا فيها جداراً يريد أن ينقضّ'' فوضع الخضر يده عليه فا قامه (۲)

____________________

۱) علل الشرايع ص۶۱،ب۵۴، بحارالانوار ،ج ۱۳ ،ص۲۸۷،ح۴_

۲)علل الشرايع ص۶۱ ،ب۵۴،ح۱،بحارالا نوار جلد۱۳،ص۲۸۷،ح۴_

۵۰۷

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے ايك ديوار كو پايا جو گرنے والى تھى حضرت خضر(ع) نے اس پراپنا ہاتھ ركھا اور اسے سيدھا كرديا _

۲۱_عن ا بى عبدالله (ع) : ...فوجدافيها جداراً يريد ا ن ينقضّ فا قامه قال : لوشئت لتّخذت عليه ا جراً خبزاً نا كله فقد جُعنا (۱) امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ...حضرت خضر(ع) اور موسي(ع) نے اس آبادى ميں ايك ديوار ديكھى كہ جوگرنے والى تھى تو حضرت خضر(ع) نے اسے سيدھا كيا موسي(ع) نے كہا: اگر آپ چاہتے تو اس كام كى اجرت لے ليتے يعنى روٹى لے ليتے تاكہ ہم كھاليں كيونكہ ہم بھوكے ہيں _

ابن سبيل :ابن سبيل كو كھانا كھلانا۶//اجرت :اجرت كے احكام ۱۵،۱۶

انبياء :انبياء كى مادى ضروريات ۷//پستى :پستى كے آثار ۱۷

خضر (ع) :خضر(ع) سے شكوہ ۱۳;خضر(ع) كا سفر ۲; خضر(ع) كا قصہ۱،۲، ۳، ۴ ،۵،۸،۹،۱۰،۱،۲ ۱،۱۳،۱۸،۱۹،۲۰، ۲۱; خضر(ع) كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲خضر(ع) كى بھوك ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴;خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱۸; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۹،۱۰،۱۱،۲۰;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كى اجرت ۱۲،۱۳،۲۱;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى خرابى ۸;خضر(ع) كے قصہ ميں شہر ۲،۵; خضر(ع) كے قصہ ميں شہر والے ۴; ناصرہ ميں خضر(ع) ۱۹

ذمہ دارى :ذمہ دارى كوپورا كرنے كى اہميت ۱۷

روايت :۱۹،۲۰،۲۱//عمل:پسنديدہ عمل ۶

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۷//كام :كام كى اجرت ۱۵،۱۶

كام لينے والے :كام لينے والوں كا كردار ۱۶//مسافرين :مسافرين كى پذيرائي ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا سفر ۲; موسى (ع) كا شكوہ ۱۳،۱۸;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸،۹،۱۰ ،۱۱،۱۲، ۱۳ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰،۲۱;موسى كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲۰; مو سى (ع)

____________________

۱) تفسير عياشيج۲ص،۳۳۳،ح۴۷،نوارالثقلين ، ج ۳،ص۲۷۸،ح۱۵۱_

۵۰۸

كى بھوك ۳; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱۸; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كرنا ۳; موسى (ع) كى طرف سے مہلت مانگے جانے كا قبول كيا جانا ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كام كى اجرت ۱۴; موسى (ع) ناصرہ ميں ۱۹

ناصرہ :ناصرہ كے رہنے والوں كى خصلتيں ۵

آیت ۷۸

( قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ يہ ميرے اور تمھارے درميان جدائي كا موقع ہے عنقريب ميں تمھيں ان تمام باتوں كى تاويل بتادوں گا جن پر صبر تم نہيں كرسكے (۷۸)

۱_ حضرت موسي(ع) كى حضرت خضر(ع) سے كيئے ہوئے عہد كى تيسرى با رمخالفت ( اجرت لينے كى بات كرنا )، دونوں كى آپس ميں جدائي شروع ہونے كا باعث بنى _قال لو شئت لتخذت ...قال هذا فراق بينى و بينك

يہ كہ'' ہذا ''كس چيزطرف اشارہ ہے بہت سے احتمالات ہيں ان ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہے كہ يہ حضرت موسى (ع) كى بات كى طرف اشارہ ہو يعني''هذا القول سبب فراق بيننا''

۲_ حضرت خضر(ع) كے كاموں كو تحمل كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى عاجزي، انكے تيسرے سوال اور اعتراض پر ثابت ہوگئي _قال هذا فراق بينى وبينك سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۳_ حضرت خضر(ع) حضرت موسى (ع) كى آخرى غلطى پر ان سے جدا ہونے كيلئے محكم دليل اور قابل قبول عذر ركھتے تھے _قد بلغت من لدنّى عذراً ...قال لوشئت لتخذت عليه أجراً_ قال هذا فراق بينى و بينك

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ پچھلى آيت ميں ''قد بلغت '' كى عبارت''ان سا لتك '' كا نتيجہ ہو _

۴_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلا يا كہ جدا ہونے سے پہلے انہيں اپنے عجيب وغريب كاموں كے اسرار سے آگاہ كريں گے_سا نبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۵_ انبياء اور اولياء كے تحمل اور افعال كى نوعيت آپس ميں مختلف ہوتى ہے _سا لنبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۶_ حضرت خضر كے ظاہر ى طور پر ناقابلقبول كام ، باطن اور صحيح حقيقت پر مشتمل تھے _

۵۰۹

سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

''تا ويل '' كى بناء ''ا ول ''يعنى '' پلٹا نا'' ہے آيت ميں '' مآل '' كے معنى ميں ہے يعنى وہ حقائق اور مصلحتيں جن كى بناء پر حضرت خضر(ع) كے كام انجام پائيں تو ضرورى ہے كہ ظاہرى طور پر حضرت خضر كے نا گوار كاموں كو انہى مصلحتوں كى طرف لوٹا يا جائے _

۷_ وہ علم جو حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) سے سيكھنا چاہتے تھے وہ واقعات كى تاويل اورتحليل كا علم اور واقعات كے پس پردہ حقائق كى پہچان، كا علم تھا _هل ا تّبعك على أن تعلّمن ممّا علمت سا نبّئك بتاويل ما لم تسطيع عليه صبرا

۸_ حوادث كے رموز كو جاننے كے علم اوركائنات ميں پيدا ہونے والے مسائل كے حقيقى اسباب كو جاننے كى روش، ايك تجرباتى اور عملى روش ہے_سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۹_ حضرت موسى (ع) حواد ث كى تاويل كے علم كو سيكھنے كى روش پر صبر نہيں كر سكتے تھے _

سا نبّئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا

۱۰_ حوادث كى تاويل او رتحليل كے علم كو حاصل كرنے اور خضر(ع) جيسے علما ء كيصحبت اختيار كرنے كيلئے حضرت موسى (ع) كے صبر سے زيادہ صبر اور ان سے بڑھ كر قوت وتحمل كى ضرورت ہے _سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

انبياء :انبياء كا صبر۵;انبياء كے درجات ۵//اولياء الله :اولياء الله كا صبر ۵;اوليا ء الله كے درجات ۵

حوادث:حوادث كى تحليل كے علم كا حصول ۷، حوادث كى تحليلكے علم كوحاصل كرنے كى روش ۸، حوادث كى تحليل كے علم كو حاصل كرنے كى شرائط ۱۰//خضر :خضر(ع) پر اعتراض ۲; خضر(ع) سے سيكھنا ۷;خضر(ع) كا عذر ۳; خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴; خضر(ع) كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; خضر(ع) كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰; خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱;خضر(ع) كے عمل كا راز۴،۶//علماء :علماء كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; علماء كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰

موسى (ع) :موسى (ع) اور حوادثكى تحليل كا علم ۹;موسى (ع) اور خضر كى جدائي ۱،۳;موسى (ع) كا اعتراض ۲;موسى (ع) كا عجز ۲; موسى (ع) كا علم غيب ۷ ; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲، ۳، ۴; موسى (ع) كى بے صبر ى ۲،۹; موسى (ع) كى خواہشات ۷; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱

۵۱۰

آیت ۷۹

( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً )

يہ كشتى چند مساكين كى تھى جو سمندر ميں باربرداردى كا كام كرتے تھے ميں نے چاہا كہ اسے عيب دار بنادوں كہ ان كے پيچھے ايك بادشاہ تھا جو ہر كشتى كو غصب كرليا كرتا تھا (۷۹)

۱_ كشتى كو عيب دار بنانے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ اسے غاصب بادشاہ كے لوٹنے سے نجات دلائي جائے_

أما السفينة ...فا ردت ا ن أعيبها ...يأخذ كلّ سفينة غصبا

اگر چہ يہ كافى تھا كہ حضرت خضر(ع) كہتے كہ ميں نے اسے عيب دار بنايا ليكن انہوں نے كہا ہے كہ ميں نے پختہ ارادہ كيا كہ اسے عيب دار بناؤں تا كہ يہ نكتہ بيان كريں كہ جو كچھ كيا توجہ كے ساتھ اور اسكو غصب سے بچانے كيلئے كيا _

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ايكمسكين گروہ كى ملكيت ميں تھى اور انكے حصول رزق كا فقط يہى وسيلہ تھا _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۳_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى اور دريائي حمل ونقل در آمد كے ذارئع تھے _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۴_ قرار دا د كے ساتھ باہم شراكت جائز ہے اور گذشتہ اديان ميں بھى يہ چيز موجود تھى _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۵_ محروم لوگوں كى آخرى حد تك پشت پناہى اور انكے فائدہ كيلئے مخفيانہ كوشش، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھى _فا ردت ا ن اعيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۶_كام اور در آمد كا ہونا، محروم لوگوں پر'' مسكين ''كا عنوان ،صادق آنے سے مانع نہيں ہے _وامَّا السفينةفكانت لمساكين

اگرچہ كشتى والوں كے پاس كشتى اور در آمد تھى ليكن ان پر لفظ ''مسكين '' كا اطلاق ہوا ہے لہذا كسى طرح كا كام اور در آمدكانہ ہونا، عنوان ''مسكين '' كے صادق آنے سے تعلق نہيں ركھتا ہے _

۷_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك ظالم اور غاصب حكومت موجود تھي_وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا ''ورائ'' ہر پوشيدہ جگہ كو كہتے ميں خواہ وہ سامنے ہى كيوں نہ ہو ( قاموس )اس بناء پر غاصب سلطان، مساكين اور كشتى والوں كے پيچھے لگا ہوا تھا يا ان كے آگے تھا اورانہوں نے دوران سفراس كاسامنا كرنا تھا_

۵۱۱

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك بادشاہ، تمام صحيح وسالم كشتيوں كو اس علاقہ ميں قبضہ ميں لے ليتا تھا _وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

''ا ن اعيبہا '' كے قرينہ سے يہاں '' كل سفينة'' سے مراد ''كل سفينة صالحة'' ( پر صحيح و سالم كشتى )ہے _

۹_ لوگوں كے مال و متاع پر قبضہ كرنا، چاہے حاكموں كى طرف سے ہى كيوں نہ ہو ايك غلط چيز ہے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۰_ حضرت خضر(ع) اورموسى (ع) كو سوار كرنے والى كشتى كا معيوب ہونا موجب بنا كہ بادشاہ اسے قبضہ ميں لينے سے باز رہا _فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۱_ ايك بڑے اور يقينى نقصان سے بچانے كيلئے كسى كے مال كو ضرر پہنچانا جائز ہے _

فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۲_ الله تعالى كے خاص اوليائ، غاصب حاكموں كو ناكام بنانے اور محروم لوگوں كے حقوق كى حفاظت ميں كو شان ہوتے ہيں _فا دت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذكل سفينة غصبا

۱۳_ كشتى كے حوالے سے حضرت خضر(ع) كا عمل، اس قانون كا ايك مصداق اورنمونہ ہے كہ جس ميں مہم چيز كے ساتھ ٹكراؤ ميں اہم چيز كو ترجيح دى جاتى ہے_وامَّا السفينة فكانت لمساكين ...يا خذ كل سفينة غصبا

۱۴_ حضرت خضر(ع) بعض پيش آنے والے حادثات سے آگاہ تھے اور انكے مقابلہ ميں احساس ذمہ دارى ركھتے تھے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

احكام :۴اولياء الله :

۵۱۲

اولياء الله كى ذمہ دارى ۱۲; اولياء الله كى ظلم سے جنگ ۱۲

حمل و نقل :حمل ونقل كى تاريخ ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كا ذمہ دارى قبول كرنا۱۴; خضر(ع) كا علم غيب ۱۴; خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵;خضر(ع) كا قصہ ۱، ۸،۱۳;خضر(ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷;خضر(ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا قبضہ ميں ليا جانا ۸; خضر (ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا ظلم ۷،۸;خضر(ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا لوٹ مار كرنا ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا فقير ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا محروم ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے قبضہ ميں ليے جانے سے مانع ۱۰;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كا فلسفہ ۱،۱۳;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كرنے كے آثار ۱۰

شراكت :شراكت كے معاملہ كا جائز ہونا ۴; اديان ميں شراكت كا معاملہ ۴; شراكت كے معاملہ كى تاريخ ۴; شراكت كے معاملہ كے احكام ۴

غصب :غصب كا ناپسنديدہ ہونا ۹

مساكين :مساكين سے مراد ۶;مساكين كا كام ۶; مساكين كى حمايت ۵; مساكين كى در آمد ۶; مساكين كے مال و متاع كى حفاظت ۱۲

معيار :معيار ميں مقابلہ ۱۳

موسى (ع) :موسى (ع) كا قصہ ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷; موسى (ع) كے زمانہ ميں حمل ونقل كے ذارئع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كسب كے زرائع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا غصب ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى رانى ۳

آیت ۸۰

( وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً )

اور يہ بچّہ _ اس كے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا كہ بہ بڑا ہوكر اپنى سركشى اور كفر كى بناپر ان پر سختياں كرے گا (۸۰)

۱_ حضرت خضر(ع) كا لڑكے كو قتل كرنے كا مقصد، اسكے والدين كو كفر و طغيان سے بچانا تھا _

۵۱۳

وا مَّا الغلام ...فخشينا أن يرهقهما طغياناً وكفرا

''إرہاق'' سے مراد كسى كو ايسے كام پرآمادہ كرنا كہ جو اسكے ليے انجام دينا انتہائي مشكل و سخت ہو (قاموس )

۲_حضرت خضر (ع) كے ہاتھوں ، قتل ہونے والے نوجوان كے والدين، مؤمن و سر كشى اور نافرمانى سے دور لوگ تھے _فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

''طغيان '' بہت زيادہ نافرمانى كى راہ ميں آگے نكل جانا ( مفرادت راغب )

۳_ وہ نوجوان كہ جسے حضرت خضر(ع) نے قتل كيا وہ كا فر تھا_وا مَّا الغلام فكان ا بواه مؤمنين

نوجوان كے والدين كے ساتھ فقط مؤمن كا لفظ آنا بتاتا ہے كہ وہ كا فر تھا اوريہ كہ وہ والدين كو كفر كى طرف مائل كرنے ميں اثر انداز ہو سكتا تھا يہ بھى اسكے كفر كى تائيد كر رہا ہے _

۴_ مقتول نوجوان كے والدين ،اپنے بيٹے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ہاتھوں متاثر ہو كر نہ چاہتے ہوئے بھى سركشى اوركفر كى طرف چلے جاتے _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۵_ مؤمنين كے ايما ن كى حفاظت اور انہيں كمزورى اورنابودى سے محفوظ ركھنے كى كوشش كرنا، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھا _فخشينا ا ن يرهقهماطغياناً و كفرا

۶_ ايمان، انتہائي قيمتى گوہر ہے كہ كوئي چيز اسكا مقابلہ نہيں كرسكتى _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفر الله تعالى نے والدين كے ايمان كى حفاظت كيلئے انكے عزيز فرزند كوان سے جدا كردياتاكہ انكاايمان محفوظ رہے ايسا ايمان ايك قيمتى متاع ہے كہ جس پر بيٹے كى قربانى آسان ہے _

۷_ الله تعالى كى پوشيدہ حماتيوں كے حامل مؤمنين، كفر اور معصيت سے دور ہيں _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۸_ حضرت خضر، الہى احكام پر عمل كرنے والے تھے نہ كہ اپنى ذاتى خواہشات كو پورا كرتے تھے _فخشينا ا ن يرهقهم

''خشينا '' ميں ضمير ''نا '' مندرجہ بالا مطلب پر اشارہ ہوسكتى ہے _ بعد والى آيات ميں جملہ ''وما فعلتہ عن ا مرى '' بھى اسى نكتہ كى وضاحت كررہا ہے _

۹_ اولاد كا صالح نہ ہونا، والدين كے كفر اور سركشى كى طرف ميلان كا باعث ہو سكتا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۰_ انسان كے جبلى احساسات، اسكے معنوى اور ايمانى ميلانات ميں اہم اثر ركھتے ہيں _

۵۱۴

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

حضرت خضر(ع) بيٹے كو والدين سے لے ليتے ہيں تا كہ وہ اپنے فطرى تعلقات اور احساسات كى وجہ سے كفر اور سركشى كى طرف مائل نہ ہوں _ يہ نكتہ بتارہاہے كر ميلانان_ احساسات سے متاثر ہوتے ہيں _

۱۱_كفر اور سر كشيميں اضافہ كے اسباب سے مقابلہ كرنا اور انہيں آگے بڑ ھنےسے رو كنا ضرورى ہے_فخشينا ا ن ير هقهما طغياناً و كفرا اگر چہ حضرت خضر(ع) كا كام غيب اور اسرار سے آگاہ ہونے كى بناء پر تھا ليكن يہ كفر كو بڑھنے سے روكنے اور اسكے سبب كو ختم كرنے كى ضرورت كوبتا رہا ہے _

۱۲_ سر كشى اور الہى حدود سے تجاوز، انسان كے كفر كى طرف مائل ہونے كا باعث ہے _ير هقهما طغياناً و كفرا

احتمال يہ ہے كہ طغيان كو كفر پر مقدم كرنے كى وجہ يہ ہوكہ طغيان ميں مبتلا ء ہونا، كفر كى طرف جانے كى وجہ ہے_

۱۳_ الله تعالى كا والدين كے ايما ن كى حفاظت كرنا ، انكے بچوں كيلئے بعض ناگوار حادثات پيدا ہونے كا باعث ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۴_ مؤمن كا بعض مشكلات اورنقائص ميں مبتلا ہونا اسكے ايمان كے محفو ظ رہنے كا فلسفہ ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

احساسات :احساسات كے آثار ۱۰

الله تعالى كى حدود :الله تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے كے آثار ۱۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتوں كے شامل حال لوگ ۷الله تعالى كے كام كرنے والے :۸

اقدار:۶

ايمان :ايمان كا باعث ۱۰;ايمان كى قدرو قيمت ۶

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۸; خضر(ع) كا كفر سے مقابلہ كرنا ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۴;خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كفر ۳; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كردار ۴;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا ايمان ۲;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱،۴; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا مطيع ہونا ۲

سركشى :سر كشى سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; سركشى كا پيش خيمہ ۹ ;سر كشى كے آثار ۱۲

۵۱۵

فرزند :خراب فرزند كا كردار ۹;فرزند كى مشكلات كا باعث ۱۳

كفر :كفر سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; كفر كا پيش خيمہ ۹،۱۲

مؤمنين :مؤمنين اور كفر ۷; مؤمنين اورگناہ ۷; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۷،۱۴;مؤمنين كى حمايت۵; مؤمنين كے امتحان كا فلسفہ ۱۴; مؤمنين كے فضائل۷

ميلانات :معنوى ميلانات كا باعث ۱۰

والدين :والدين كے ايمان كى حفاظت ۱۳

آیت ۸۱

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْراً مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْماً )

تو ميں نے چاہا كہ ان كا پرورگار انھيں اس كے بدلے ايسا فرزند ديدے جو پاكيزگى ميں اس سے بہتر ہو اور صلہ رحم ميں بھى (۸۱)

۱_ نوجوان كو قتل كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد اسكے والدين كيلئے پرہيز گار اور مہربان بيٹے كو حاصل كرنے كى فضاتيار كرنا تھا _فا ردنا ا ن يبدلهما ربّهما خيراً منه ذكوة وا قرب رحما

آيت ميں ''زكاة'' سے مراد طہارت اور گناہوں سے پاكيزگى ہے ''رحم'' اور ''رحمت'' كا ايك معنى ہے_ اگر چہ حضرت خضر نے اپنى اس كلام ميں مقتول نوجوان كيلئے پاكيزگى اور مہربان ہونے كا انكار نہيں كيا ليكن ممكن ہے حضرت موسى (ع) كى بات سے متناسب كہ انہوں نے مقتول نوجوان كو ''نفس ذكيہ '' كا عنوان ديا اپنى كلام كو انہوں نے اسم تفضيل كے قالب مين بيان كيا تھے ليكن حقيقت ميں مقتول نوجوان رحمت و پاكيزگى سے عارى تھا يااس كا انجام آخر گناہ اور بے رحمى تھا_

۲_ حضرت خضر (ع) اور انكے مانند دوسرے لوگ، الله تعالى كے ارادہ كو عملى جامہ پہنانے والے ہيں _

فا ردنا أن يبد لهما ربّهم ''أردنا '' والى كلام ميں اگر چہ كہنے والے صرف حضرت خضر(ع) تھے _ ليكن ضمير، جمع كى لائي گئي ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) چاہتے تھے يہ نكتہ سمجھا ئيں كہ وہ اس عزم ميں تنہا نہيں تھے بلكہ انكے كام كے پيچھے الہى ارادہ كا ر فرما تھا دو سرے طرف ''ربّ'' كو ''يبدل '' كيلئے فاعل ذكر كيا تا كہ اس واقعہ كے حقيقى كردار كو واضح كريں اور اپنے ارادہ كو الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہونے كو بيان كريں _

۵۱۶

۳_ غير صالح فرزند كواٹھا كر اسكى جگہ صالح فرزند عطا كرنا ،مؤمن والدين كيلئے الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه

۴_ صالح اور مہربان فرزند كى عطا، ايك الہى نعمت ہے _يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۵_ بعض مصيبتوں اورناگوار حادثات ميں مؤمن كيلئے مصلحت اور خير ہوتى ہے _

وا مّا الغلام ...فا ردنا ا ن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۶_ ايك شائستہ فرزند كى خصوصيات ميں سے اسكا پاك و صالح اور والدين كى نسبت بہت محبت كرنے والاہونا ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۷_ الله تعالي، مؤمن كا پشت پناہ اور اسكى خيرو مصلحت كافيصلہ كرنے والا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين ...فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة

۸_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله :''فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه ...''قال ا نه ولدت لهما جاريةفولدت غلاماً فكان نبياً (۱) امام صادق (ع) ، الله تعالى كى اس كلام ''فا ردنا أن يبدلہما ربّہما خيراً منہ ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ بے شك مقتول كے والدين كے ہاں ايك بيٹى پيدا ہوئي اور اس بيٹى سے ايك بيٹا پيدا ہوا كہ جو مقام نبوت پر فائز ہوا _

۹_عن ا بى عبدالله (ع): ...''فى قول الله عزوجل : فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكاة وا قرب رحماً '': ا بدلهما الله به جارية ولدت سبعين نبيا ...'' (۲)

امام صادق عليہ السلام سے الله تعالى كى اس كلام''فأردنا أن يبد لهما ربّهما خيرا ً منه زكوة'' كے بار ے ميں روايت ہوئي كہ الله تعالى نے مقتول كے والدين كو اسكى جگہ ايك بيٹى عطا كى جس كى نسل سے ستر انبياء پيدا ہوئے ...''

الله تعالى :الله تعالى كى خير خواہى ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى نعمات ۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے تحت چلنے والے ۲//الله تعالى كى پشتى پناہى :الله تعالى كى پشت پناہى كے شامل حال لوگ ۷

انبياء :انبياء كا كردار ۲

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۲;خضر(ع) كا قصہ ۱،۸،۹; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كى نسل ۸،۹

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ، ص۳۳۶، ح۵۹، نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح۱۷۰_۲) كافى ج۶ ،ص۷ ،ح۱۱،نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح ۱۷۴_

۵۱۷

روايت :۸،۹

فرزند :صالح فرزند كا پاك ہونا ۶; صالح فرزند كا جگہ لينا ۳; صالح فرزند كى صفات۶; صالح فرزند كي

مہربانى ۶; فاسد فرزند كى ہلاكت ۳

مصيبتں :مصيبتوں كا خير ہونا ۵; مصيبتوں كا فلسفہ ۵

مؤمنين :مؤمنين كا پشت پناہ ۷;مؤمنين كى مصلحتيں ۵، ۷; مؤمنين كيلئے خيرخواہ ہونا ۷

نعمت :صالح فرزند كى نعمت ۴; مہربان فرزند كى نعمت ۴

والدين :والدين كے ساتھ مہربانى ۶

آیت ۸۲

( وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

اور يہ ديوار شہر كے در يتيم بچّوں كى تھى اور اس كے نيچے ان كا خزانہ دفن تھا اور ان كا باپ ايك نيك بندہ تھا تو آپ كے پروردگار نے چاہا كہ يہ دونوں طاقت و توانائي كى عمر تك پہنچ جائيں اوراپنے خزانے كو نكال ليں _ يہ سب آپ كے پروردگار كى رحمت ہے اور ميں نے اپنى طرف س كچھ نہيں كيا ہے اور يہ ان باتوں كى تاويل ہے جن پر آپ صبر نہيں كرسكے ہيں (۸۲)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كيلئے پرانى ديوار كو تعمير كرنے كى وجہ بيان كى _وا مَّا الجدار ...ما فعلته عن أمري

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں ، تعمير ہونے والى ديوار دو يتيم لڑكو ں كى ملكيت ميں تھى _وا مَّإلجدار فكان لغلمين يتيمين

۳_ باوجود اسكے كہ ديوار كے مالك اس آبادى ميں نہيں تھے حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى _

فكان لغلمين يتيمين فى المدينة

يہ احتمال بے كہ اس آيت ميں پچھلى آيات كى مانند ''القرى ة '' آنے كى بجائے ''المدينہ '' آنا شايد اس جہت كيلئے ہو كہ وہ دونوں يتيم لڑكے اس آبادى ميں نہيں تھے بلكہ كسى اور شہر ميں تھے اور وہ شہر جيسا كہ '' المدينہ '' الف و لام سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) اور موسى (ع) كيلئے جانا پہچانا تھا _

۵۱۸

۴_ديوار كو تعمير كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ شہرميں رہنے والے دونوں لڑكوں كا خزانہ اسكے نيچے محفوظ رہے _وا مَّا الجدار فكان لغلمين يتيمين فى المدينه وكان تحته كنزلهم

۵_ حضرت خضر(ع) ديوار كے مالكوں كے والد كے بارے ميں جانتے تھے اوراسكى زندگى كى اچھائيوں اوراعمال صالح سے با خبر تھے _وكان ا بوهما صلح

۶_ باپ كا صالح ہونا، حضرت خضر كے ان يتيم بچوں كےمفادات كى حمايت كرنے كا سبب بنا _وا مَّا الجدار فكان لغلامين يتيمين ...وكان أبوهماصالح جملہ '' وكان أبوہما صالحاً'' ديواركو تعمير كرنے كى علت ہے_

۷_ يتيموں كے باپ كا نيك اور صالح ہونا،ان دونوں كا بڑ ے ہوكر اپنے پوشيدہ خزانے كو پانے كے الہى ارادے كا سرچشمہ تھا_و كان أبوهما صالحا ً فا راد ربّك أن يبلغاً أشدّ هما و يستخرجا كنزهم

كلمہ ''اشد'' جمع كے ہم وزن مفرد ہے يا ايسى جمع ہے كہ جسكا مفرد نہيں ہے اسميں اہل لغت كا اختلاف ہے بعض اسے ''شدة'' كى جمع سمجھتے ہيں (لسان العرب) بہر صورت اس سے مراد ، جسمانى اور عقلى بلوغ اور استحكام ہے _

۸_ صالح افرادكے بچوں كے ساتھ انكے والدين كى اچھائي كى بناء پر مناسب رويہ ضرورى ہے _

و كان ا بوهماصالحاً فا رادربّك

۹_ باپ كا صالح اور شائستہ ہونا، بچوں كے سعادت مند اور نيك بخت ہونے ميں مو ثر ہے _

كان ا بوهما صالحاً فا راد ربّك أن يبلغاً ا شدهما ويستخرجا كنزهم

۱۰_صالح افراداور انكے بچوں كے مفادات كى حفاظت ميں اللہ تعالى كے غيبى اسباب، دخالت ركھتے ہيں _

فا راد ربّك أن يبلغا أ شدّ هما ويستخرجا كنزهمارحمةمن ربّك

ديوار كى تعمير اور يتيموں كے مفادات كى حفاظت اگرچہ ايك خاص واقعہ ہے ليكن آيت ميں عمومى پيغام ہے اوروہ يہ كہ والدين كے اعمال صالحہ كى بناء پر بچوں كے مفادات كى بھى حفاظت ہوگى _

۱۱_ضرورت مند بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال و متاع، بچا كر ركھنا ايك شائستہ كام ہے _

وكان تحته كنزلهماوكان أبوهماصالحا

اس مطلب ميں فرض يہ ہوا ہے كہ يتيموں كے باپ نے اپنے بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال ديوار كے نيچے چھپا ياہے اسكے صالح ہونے كے اعتبار سے تعريف، يہ نكتہ دے رہى ہے كہ اسكى دور انديشى بھى بہت مناسب تھى اور حضرت

۵۱۹

خضر(ع) كا اس پوشيدہ خزانے كى حفاظت كرنا اوراس واقعہ كى خصوصيات كا قران ميں آنا اس شخص كى اچھى تدبير سے حكايت كررہاہے _

۱۲_استحكام اور عقلى بلوغ، اموال ميں تصرف كے جائز ہونے كى شرط ہے _فا راد ربّك ا ن يبلغا ا شدّهما ويستخرجا كنزهم

۱۳_اللہ تعالى كى طرف سے صالح باپ كے يتيم بچوں كى پشت پناہى اور انكے اموال كى حفاظت، اسكى رحمت وربوبيت كا ايك جلوہ تھى _فا رادربّك رحمة من ربّك '' رحمة''فعل ''ا راد'' كيلئے مفعول لہ ہے يعنى يتيم بچوں كے خزانے كے باقى رہنے كے سلسلہ الله تعالى كا ارادہ، اسكى رحمت كى بناء پر تھا_

۱۴_يتيموں اورصالح افراد كے لواحقين كى مددكرنا اور انكے اموال كى حفاظت، الله تعالى كے نزديك پسنديدہ كام ہے _

فا رادربّك ...رحمة من ربّك

۱۵_ الله تعالى كى رحمت، اسكى ربوبيت كا جلوہ ہے _رحمة من ربّك

۱۶_ حضرت خضر(ع) نے حضر ت موسى (ع) كو وسيع الہى تدبير كى طرف توجہ كرتے ہوئے، يتيموں كے اموال كى حفاظت كا سرچشمہ الله تعالى كى وسيع ربوبيت كوقرار ديا_فا راد ربّك

حضر ت خضر(ع) نے '' ربّ'' كوضمير خطاب كى طرف (ربّك) مضاف كرتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ليے يہ نكتہ بيان كيا كہ اگرچہ ديوار كى تعمير نے آپكوغذا فراہم كرنے اور جسمانى تربيت ميں كوئي مدد نہيں كى ليكن آپكا مالك ومدبر ، يتيموں كا مالك و مدبر بھى ہے _

۱۷_حضرت خضر(ع) نے سب عجيب وغريب كام، الله تعالى كے حكم كى بناء پر انجام ديئےن ميں انكى كوئي ذاتى رائے شامل نہيں تھى _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري

''مافعلتہ'' ميں مفعول كى ضمير ،آيت كے ذيل كے قرينہ كى مددسے ان تمام كا موں كے جامع كى طرف لوٹ جاتى ہے مثلاً'' جوكچھ تونے ديكھا'' ''ياوہ جوميں نے انجام ديا''_

۱۸_حضرت خضر(ع) ، الله تعالى كے فرمان كے سامنے سرتسليم خم كيے ہوئے تھے _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري حضرت خضر(ع) نے موسي(ع) كوقانع كرنے كيلئے اپنے تمام كاموں كواللہ تعالى كے فرمان كى طرف نسبت دى _

۱۹_اللہ تعالى اپنے ارادہ كو پايہ تكميل تك پہنچا نے اور اس كودائر ہ عمل ميں لانے كيلئے اسباب وعلل سے كام ليتاہے

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744