تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167174 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔(1)

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُهُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد '' (2)

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمد(ص) پر ہے۔

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت (ص) کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:311

[2]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

۲۰۱

 جھوٹی محبتیں

کچھ لوگ خاندان وحی ونبوت علیھم السلام سے محبت و دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بارے میں خود کو اتنا سچا پیش کرتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا شائہ تک نہیں پایا جاتا۔اور ان کا وجود محبت اہلبیت علیھم السلام سے سرشار ہے؛ لیکن جب ہم ان کے رفتار و کردار کے بارے میںسوچتے ہیں اور ان کے کردار کی خاندان  نبوت ورسالت علیھم السلام کے دستورات سیملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اہلبیت علیھم السلام سے دوستی و محبت کا اظہار خالصانہ اور سچانہیں ہے۔

بہت سے لوگ خود کو امام زمانہ عجل  اللہ فرجہ الشریف کا عاشق اور جاںنثار سمجھتے ہیں لیکن عملاً ان کا سہم (یعنی خمس ،جوکہ ان کے اپنے لئے خدا کی نعمتوں  کے نزول کاذریعہ ہے) ان کی آل کو ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں!

جو شخص امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف مقدس اہداف کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرے کیاوہ امام کے ظہور کے زمانے میں آپ پر اپنی جان نثار کرسکتا ہے؟

لیکن کیا حضرت امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی توقیع میں یہ نہیں فرمایا:

''لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلاٰئِکَةِ وَالنّٰاسِ أَجْمَعِیْنَ لِیْ مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ أَمْوٰالِنٰا دِرْهَماً'' (1)

اس شخص پر خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو ہمارے مال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال جانے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۱۸۳، کمال الدین: ج۲ص۲۰۱، الصحیفة المبارکة المہدیة:282

۲۰۲

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں جابر سے فرمایا:

''یٰا جٰابِرُ، أَ یَکْتَفِْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُوْلَ بِحُبِّنٰا أَهْلِ الْبَیْتِ ؟فَوَاللّٰهِ مٰا شِیْعَتُنٰا اِلاّٰ مَنِ اتَّقَی اللّٰهَ وَ أَطٰاعَهُ''(2)

اے جابر!کیا خود کو شیعہ کے طور پر دکھانا کافی ہے اور کہے کہ میں اہلبیت علیھم السلام سے محبت کرتا ہوں ۔خدا کی قسم !ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقویٰ الٰہی رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔

اس فرمان سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ:جو کوئی با تقویٰ نہیں اور خداکا مطیع نہیںاسے صرف محبت کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔

--------------

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۹۷

۲۰۳

 نتیجۂ بحث

 محبت آپ کے دردو غم کے لئے اکسیر ہے ۔محبت کی کشش و جاذبہ انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور اس کے صفات و حالات محب میں ایجاد کرتی ہے اور اسے تقویت دیتی ہے۔محبت جتنی زیادہ ہو ،محب میں محبوب کے روحانی حالات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جس سے اسے  محبوب کا تقرب حاصل ہو جائے۔یہی مودت کا معنی ہیجوہر انسان کو خاندان وحی علیھم ا لسلام سے ہونی چاہئے۔کیونکہ اجر رسالت ، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت  ہے۔

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام سے محبت و مودت کے ذریعے اپنی روح کو پروان چڑھائیں اور اس خاندان کے آستانۂ ولایت سے تقرب حاصل کریں تا کہ آپ کا وجود ولایت کے تابناک انوار سے سرشار ہو جائے اور آپ کے وجود سے برائیاں پاک ہو جائیں۔

 ان ہستیوں کے تقرب کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ان کے دشمنوں سے  برات اور دوری کی جائے۔

 یہ ہے سچی محبت جسے آپ اپنے اور اپنے نزدیکی افراد کے دل کی گہرائیوں میں ایجاد کریں۔

جمعی کہ دم از مھر و ارادت دارند

در بام شرف ،کوس سیادت دارند

چون دست بہ دامان سعادت زدہ اند

پا بر سر نام و ننگِ عادت زدہ اند

۲۰۴

آٹھواں  باب

انتظار

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ  ''

مومن کی سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے (سختی اورغم سے)  نجات کے انتظار میں رہے۔

    انتظار کی اہمیت    انتظار کے عوامل    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

    انتظار کے آثارسے واقفیت

    1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

    2۔ روحانی تکامل

    مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر    کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

    3۔ مقام ولایت کی معرفت    4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

    اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

    ظہور کے زمانے کی معرفت

    1۔ باطنی تطہیر

    2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

    3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

    نتیجۂ بحث

۲۰۵

 انتظار کی اہمیت

انتظار ان با عظمت افراد کا خاصہ ہے جو کامیابی اور کامرانی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہیں۔چونکہ غیبت کے دوران خاندان عصمت علیھم السلام کے دامن اطہر سے جاری عظیم شخصیتوں سے متعلق روایتیں نیز مستحکم اور مظبوط اقوال زریں ہو ئے ہیں ۔آنحضرت  کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہر زمانے کے انسان سے افضل ہیں ۔

اسی لئے ایک گروہ انتظار کی  سختیوں کو دنیا میں کامیابی کی اہم کلید سمجھتا ہے ۔  ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان انتظار کے اسباب اور اس کے کمال کی معرفت اور وسیلہ سے حقیقت کے بحر سے کامیابی کے جواہر حاصل کر سکتا ہے نیز سماجی مشکلوں اور مادی رکاوٹوں سے بھی نجات پا سکتا ہے ۔انتظار صحیح معنی میں دشوار گزار حالت ہوتی ہے گویا کہ اسرار کے بھنور نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے حسب دلخواہ اس کے کمال کی راہ نکالی ہے اور دشمن کی مکاریوں کی مخالفت کی ہے چونکہ انتظار اپنے آخری اور بلند ترین مرحلہ میں امام زمان  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی ملکوتی حکومت میں آسمانی نظام کے رائج کرنے اور اس کی خدمت کرنے میں آمادگی اور مدد کے معنوں میں آتا ہے کہ جسے غیر عادی اور غیر معمولی قدرت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا انتظار امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف کے خاص اصحاب میں موجود ہے ۔[1]

--------------

[1] ۔ ہ لوگ جو امام زمانہ کی یاد اور توسل کے ساتھ انتظار کے مراسم برپا کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس قسم کی مجالس و محافل الحمد للہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہی ہیں اور ہماری مراد اس طرح کی مجالس کی نفی اور اس طرح کے افراد کے اندر حالت انتظار کی عدم موجودگی نہیں ہے ۔ کیونکہ انتظار میں درجات و مراتب پائے جاتے ہیں ۔ اور وہ افراد جو اس کے کمال اور عالی ترین مراتب تک پہنچے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن انھیں افراد میں سے اٹھے ہیں ۔ اور سخت جاں فشانی اور جد و جہد اور سختیوں اور مشکلات کے تحمل کرنے کے ساتھ اس عظیم مقام کہ جس پر وہ فائز ہوئے ہیں کو حاصل کیا ہے ۔

۲۰۶

 انتظار جس مرحلے میں بھی ہو یہ عالم غیب سے غیبی مدد اور خدا سے تقرب کا راستہ  ہے  اور اگراس میں دوام ہو اوراگر یہ تکامل حاصل کرلے تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں نفس اور ضمیر سے نا آگاہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور کھنچائو کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور  انسان کے باطن میںنور اور آشنائی کے دریچے کھول دیتاہے اور اسی طرح سے انسان کے لئے تکامل کی راہ کھول دیتاہے کیونکہ انتظار تمام تر ضروری اور لازم مدارج میں آمادگی کی حالت کو کہتے ہیں ۔

 باطنی توجہ کو دنیا سے خلوص ، حقیقت اور نورانیت کی طرف جذب کرتیہے ۔ وہ جہان جس  سے تمام تر شیطانی اور طاغوتی قوتیں اور طاقتیں نابود ہو جائیں اس دنیائے انسانیت کی جان میں انوار الٰہی کی چمک جگمگا اٹھتی ہے ۔

اس حقیقت کی  طرف غور کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراحل کو طے کر سکتا ہے کہ جو غیر معمولی طاقت اور قوت کا حامل ہو ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف  کی حکومت ایکغیر معمولی حکومت ہوگی جس کا درک کرنا ہماری ہمت ، طاقت اور سوچ سے کہیں بالا تر ہے ۔ اور سب کے لئے ضروری ہے کہ مدد گار افراد حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پہلی صف میں آپ کی مدد کریں تاکہ اللہ کے نیک لوگوں میں شمار ہوں اور آپ کے فرمان اور حکم کی اطاعت کرنے کی طاقت کو حاصل کریں جس کو حاصل کرنے کے لئے غیر عادی قدرت کا ہونا ضروری ہے ۔(1)

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے اوصاف اور خواص کو بیان کرنے   والی روایات ان کے بارے میں روحانی اور غیر عادی طاقتوں کے موجود ہونے کا پتا دیتی ہیں یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں بھی ۔

--------------

[1] ۔ بے شمار روایت میں امام عصر  کی حکومت کے اندر غیر معمولی طاقتوں سے استفادہ کی تصریح کی گئی ہے ۔

۲۰۷

 انتظار کے عوامل

 ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور  اپنے اور دوسروں کے اندر بھییہ حالت پیدا کریں ۔

 حالت انتظار کو حاصل کرنے ، سیکھنے اور اسے دوسروں تک آگے پہنچانے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے ہم معاشرے میں انتظار کی حالت پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں انتظار کے بیچ کوبا ثمر بنا سکتے ہیں اور درج ذیل بعض مہم ترین راہوں کے ذریعہ سے معاشرہ ، مسئلہ انتظار کی طرف مائل ہو سکتا ہے ۔

 1۔ ولایت کے عظیم مقام سے آشنائی اور عظمت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شناخت ۔

2 ۔ انتظار کے حیران کن آثار کے ساتھ اس کے صحیح اور کامل معنی اور اس کے عظیم مراحل سے  آشنائی ۔

3۔ امام عصر کے اصحاب کے اوصاف و خصوصیات سے آشنائی جو انتظار کے عالی ترین مرتبہ تک پہنچے اور عظیم روحانی قوت سے ہمکنار ہوئے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  کے فرمان کو انجام دیتے ہیں ۔

4۔ انسان اور آئندہ زمانے کے لوگوں کی زندگی میںظہور کے زمانے میں واقع ہونے والے عظیم تحولات اور اہم ترین تغیرات سے آشنائی  ۔(1)

--------------

[1] ۔ ان کے علاوہ دوسرے راستے بھی موجود ہیں جو انسان کو انتظار کی طرف بلاتے ہیں ان میں سے بعض کی وضاحت ہم نے کتاب اسرار موفقیت میں ذکر کی ہے جیسے ۔ اخلاص ، معارف سے آشنائی محبت اہل بیت  خود سازی اور .......۔

۲۰۸

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مرتبہ کی معرفت، آپ کے محبین اور ساتھیوں کی شناخت اور عقل    اورفہم و ادراک کی تکمیل ، غیبت اور عالم نا مرئی سے ربطہ ، ناشناختہ موجودات کی شناخت ، دور دراز فضائوں اور آسمانوں کے سفر اور اسی قسم کے دوسرے مسائل لوگوں کو مسئلہ ظہور امام کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

 نیزجو آنحضرت  کی عظیم الشان ار آفاقیحکومت کے لئے آمادگی پیدا کرتے ہیں یہ تمام حقائق ، پاک طینت افراد میں علم و آگہی اور جنون و عشق کا سرور پیدا کرتے ہیں اوراس طرح یہ افراد اس عظیم الشان زمانے کے دلدادہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے اور سماج میں انتظار اور ظہور کی حالت پیدا کریں جو ہر انسان کی مسلم ذمہ داری ہے۔ اب اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

امام کا باعظمت وجود اپنی نورانی خصوصیتوں کے سبب انتظار کی کیفیت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں آپ  کے علاوہ کو ئی بھی رہبری ،امامت اور کائنات کی اصلاح کے لا ئق نہیں ہے یہ اسباب انسان کو آپ کی طرف جذب کرتے ہیں نیز آپ  خداکی آخری نشانی ہیں آپ ہی آخری راہنما اور ہادی ہیں جیسا کہ آپ سے متعلق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فر ماتے ہیں :

 ''عِلْمُ الْاَنْبِیٰاء فِی عِلْمِهِمْ وَسِرُّ الْاَوْصِیٰاء فِیْ سِرِّهِمْ وَ عَزُّالْاَوْلِیٰاءِ فِیْ عِزِّهِمْ ، کَالْقَطْرَةِ فِی الْبَحْرِ وَ الذَّرَّةِ فِی الْقَفْرِ'' (1)

--------------

[1]۔ بحار الانوار ،: ج۲۵ص۱۷۳

۲۰۹

  تمام نبیوں کا علم ،تمام اوصیاء کے راز،تمام اولیاء کی عزتیں آپ کے علم ،راز اور عزت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں ایک قطرہ یا ریگستان میں ایک ذرہ ۔

 چونکہ ہم خاندان عصمت و طہارت  علیھم السلام کے آخری فرد کے دور میںزندگی گزار  رہے ہیں اسی لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے زریں فرامین واقوال کے سائے میں رہتے ہو ئے تباہی اور بربادی کے طوفان سے بچیں اور آنحضرت  کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں نیز آپ  کی حکومت کے   انتظار میں ہرایک لمحہ شمار کرتے رہیں تا کہ آپ پرچم ہدایت وعدالت افلاک عدل و انصاف پر نصب فرما دیں ۔

 اگر کو ئی اس زمانے میں امام علیہ السلام کو پہچان لے اور زمانہ ٔغیبت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اس امداد سے آگاہی رکھتا ہو اور آپ کے ذریعے  زمانہ ٔ  ظہور میں دنیا اور انسانوں میں ایجاد ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہو تو وہ ہمیشہ آپ  کی یاد میں رہے گا اور اس طرح جیسا کہ حکم ہوا ہے(1) آفتاب ولایت کے طلوع کے انتظار میں زندگی بسر کرے گا ۔

 معرفت ؛ایسے انسان کے دل سے غلاظت اور زنگ کو پاک اور صاف کرکے اس کی جگہ پا کیزگی خلوص اور نورانیت کو جایگزین کرے گی۔ اب ایک نہا یت ہی پر کشش روایت کی طرف توجہ کریںجس سے امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔغیبت میں آپ  کی طرف سے غیبی امداد کا پتہ چلتاہے جابر جعفی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ حضور اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فر مایا :

--------------

[1]۔ بحار لانوار:ج52ص145

۲۱۰

 ''....ذٰاکَ الَّذِی یَفْتَحُ اللّٰهُ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ عَلٰی یَدَیْهِ مَشٰارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغٰارِبَهٰا ، ذٰاکَ الَّذِیْ یَغِیْبُ عَنْ شِیْعَتِهِ وَ اَوْلِیٰا ئِهِ غَیْبَةً لاٰ یَثْبُتُ فِیْهٰا عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِهِ اِلاّٰ مَنْ اِمْتَحَنَ اللّٰهُ قَلْبَهُ بِالْاِیْمٰانِ ''''قٰالَ :فَقٰالَ جٰابِرُ :یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَهَلْ یَنْتَفِعُ الشِّیْعَةُ بِهِ فِیْ غَیْبَتِهِ ؟

فَقٰالَ : ای وَالَّذِیْ بَعْثَنِیْ بِالنُّبُوَّةِ أَنَّهُمْ لَیَنْتَفِعُوْنَ بِهِ وَ یَسْتَضِیْئُونَ بِنُوْرِ وِلاٰیَتِهِ فِی غَیْبَتِهِ کَانْتِفٰاعِ النّٰاسِ بِالشَّمْسِ ،وَاِنْ جَلَّلَهَا السِّحٰابُ ، یٰا جٰابِرُ ،هٰذٰا مَکْنُوْنُ سِرِّ اللّٰهِ وَ مَخْزُوْنُ عِلْمِهِ فَاکْتُمْهُ اِلاّٰ عَنْ أَهْلِهِ ''(1)

 وہ (امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف) جن کے ذکر کو خداوند کریم زمین کے تمام گوشہ و کنار میں آپ  ہی کے ذریعہ پہنچائے گا وہ اپنے شیعوں اور محبوں  سے غائب رہیں گے اس طرح کہ بعض آپ  کی امامت کے منکر ہو جا ئیں گے سوائے ان افراد کے جن کے ایمان کا خداوند کریم نے امتحان لے رکھا ہو ۔

 جابر جعفی کہتے ہیں :جابر بن عباللہ انصاری نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسو ل(ص) اللہ! کیا شیعہ ان کی غیبت کے زمانے میں ان سے بہرہ مند ہو سکیں گے ؟

 پیغمبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا :

'' اس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا وہ افراد آپ  کے وسیلہ سے بہرہ مند ہوں گے ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ،جس طرح لوگ سورج سے بہرہ مند ہو تے ہیں اگر چہ بادل اسے ڈھانکے ہوئے ہوں۔اے جابر!وہ خدا کے مخفی رازوں اور اس کے علم کے خزانو ں میں سے ہے ۔لہٰذا اسے مخفی رکھو مگر اس کے اہل سے''.

--------------

[1]۔ کمال الدین :146اور 147، بحارالانوار:ج36ص250

۲۱۱

جیسا کہ آپ  نے ملا حظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں تاکید کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ شیعہ امام عصر ارواحناہ فداہ کے زمانہ غیبت میں آپ  کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ۔

کیست بی پردہ بہ خور شید ،نظر باز کند      چشم پوشیدۂ ما،علت پیدائی توست

از لطافت نتوان یافت ،کجا می باشی               جای رحم است بر آن کس کہ تماشایی تست

 اگر چہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس زمانے میں غائب ہیں مگر حقیقت میں پردۂ غیبت ہمارے دلوں پر ہے ور نہ امام اس شخص کے لئے چمکتا ہوا نور ہیں جس کا دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو خواہ ظاہراً نابینا ہو ۔(1)

 اس حقیقت کی طرف توجہ انسان کی منزل ولایت اور آپ  کے علم اور قدرت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوردلوں کو امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریفکی محبت سے سرشار اور آنحضرت  کی آئندہ آنے والی حکومت   کے انتظار کو ایجاد کرتی ہے ۔

--------------

[1] ۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے کتاب اسرار موفقیت ج  2 کے صفحہ نمبر 50سے ابو بصیر کی روایت میں امام باقر  علیہ السلام  کے غائب  ہونے کے واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۱۲

  انتظار کے آثارسے واقفیت

 1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

 ایسے معاشرے میں جہاںدین کا نام و نشان بھینہ ہو اور لوگ بہتر مستقبل کی فکر میں نہ ہوں تو ویاںقتل وغارت ، خوں ریزی ، خود کشی اور اسی طرح کی دوسری برائیاںوجود میں آتی ہیں ۔ چونکہ لوگ '' منفی عوامل '' جیسے فقر ، تنگدستی ، ظلم و ستم ، تجاوز ، قانون شکنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بے اعتنائی جیسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزمائی کے حربوں سے ناواقفیت کی وجہ سے گھر ، سماج اور معاشرے کی تباہی دیکھتے ہی مایوسی و ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

 چونکہ اس کی غیبی طاقت سے مایوس ہو جاتے ہیں لہٰذا ان مشکلوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔ پھر اس ظلم اور بربریت کو اختیار کرکے صرف اپنی دنیا و آخرت ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال نیز رشتہ داروں تک کوبھی اس بھیانک تباہی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

 وہ شخص جس کے دل میں انظار کی کیفیت موجزن ہے اور ہمہ وقت دنیا کے اندر نورولایت کے چمکنے کی امید میں ہے ، کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا جو ا اپنے ساتھ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے ۔

۲۱۳

 چونکہ وہ انتظار کے مسائل سے واقف ہے اور نا امیدی ومایوسی سے کنارہ کش ہے ۔یہ روایت اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے ۔

'' عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قٰالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْفَرَجِ ، فَقٰالَ : اَوَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اِنْتِظٰارِ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ ؟ قُلْتُ لاٰ اَدْرِیْ اِلاّٰ اَنْ تُعَلِّمَنِیْ  فَقٰالَ نَعَمْ ، اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ '' (1)

حسین بن جہم کہتے ہیں :  میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے فرج کے بارے میں دریافت کیا تو امام نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ فرج کا انتظار کشادگی اور وسعت میں ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ نے جتنا مجھے بتایا ہے مجھے اس کے سوا نہیں معلوم ۔ امام نے فرمایا: ہاں! فرج کا انتظار کشادگی اور آسائش سے ہے ۔

2۔ روحانی تکامل

 انسان اپنے اندر انتظار کامل کے ایجاد کرنے کے ساتھ کچھ حد تک ظہور امام  کے زمانے کے لوگوں کے جیسے حالات ( تطہیر قلب) پیدا کر کے ،امید وانتظار کے وسیلہ سے اپنے آپ کو نا امیدی و تباہی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۱۳۰

۲۱۴

 اسی سے متعلق امام صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے اور اسی طرح  حضرت امیر المومنین  علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فر مایا :

 ''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ ''  (1)

''مومن کی سب سے بہترین عبادت یہ ہے کہ وہ خدا سے فرج کا انتظار رکھتا ہو ''

اسی بنا پر انتظار کےذریعہ انسان ظہور امام عجل اللہ فرجہ الشریف  کے بعض آثار تکامل کو اپنے اندر ایجاد کرسکتا ہے ۔ ابوخالد کی اس بات کی وضاحت امام سجاد علیہ السلام کے اس فر مان سے ہو تی ہے :

 ''عَنْ اَبِیْ خٰالِدِ الْکٰابُلِی عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسِیْنِ تَمْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّهِ الثّٰانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیٰائِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدِهِ ،یٰا أَبٰاخٰالِدٍ ،اِنَّ أَهْلِ زَمٰانِ غَیْبَتِهِ ،اَلْقٰائِلُوْنَ بِاِمٰامَتِهِ ،اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُهُوْرِهِ ،أَفْضَلُ أَهْلِ کُلِّ زَمٰانٍ ،لِاَنَّ اللّٰهَ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ أَعْطٰاهُمْ مِنَ الْعُقُوْلِ وَالْاَفْهٰامِ وَالْمَعْرِفَةِ مٰا صٰارَت بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَ هُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشٰاهَدَ ِة ،وَ جَعَلَهُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمٰانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجٰاهِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِالسَّیْفِ ،اُوْلٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً،وَ شِیْعَتُنٰا صِدْقاً ،وَالدُّعٰاةُ اِلٰی دِیْنِ اللّٰهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَٰقالَ  : اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ '' (2)

ابو خالد کابلی حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فرمایا :

ولی خدا جو پیغمبر اکرم (ص) کے اوصیاء میں سے بارہویں (خلیفہ ) اور آپ  کے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے ہیں کی غیبت طولانی ہو گی اے ابو خالد!بے شک ان کے زمانۂ غیبت  کے لوگ ، ان کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے اور ان ظہور کے منتظر لوگ ہر زمانے کے لو گوں سے افضل ہیں ۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج53 ص131

[2]۔ بحار الانوار: ج ۵۲ص۱۲۲

۲۱۵

 کیونکہ خداوند کریم عقلوں کوان کا ذکراس قدر عطا کرے گا کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہد ے کی طرح ہو گی اور ان کو اس زمانے میں ان مجاہدین کی طرح قرار دیا جائے گا کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کے دور میں تلوار سے جہاد کیا ہو حقیقت میں وہی با اخلاص ہیں اور وہ ہمارے سچے شیعہ ہیں اور لوگوں کو ظاہری اور مخفی طور سے بھی دین خدا کی طرف بلاتے ہیں ۔

اس کے بعد امام سجاد  علیہ السلام نے فر مایا : ''ظہور کا  انتظار عظیم ترین فرج میں  سے ہے ۔''

دوست نزدیک تر از من ،بہ من است

وین عجیبتر کہ من از وی دورم

این سخن با کہ توان گفت کہ دوست

در کنار من و من مہجورم

 انتظار کی راہ تکامل تک پہنچنے والیسچے منتظرین اپنے آپ کو حکومت خدا کی غیبی قدرت سے پوری دنیا پر حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے اثر سے غیبت کے زمانے میں بعض زمانۂ ظہور کے فردی خواص اور خصوصیات جیسے تطہیر قلب وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اس حد تک کہ غیبت کا زمانہ ان کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے اگران کے اندر اس طرح کے اثرات نہ ہو ں تو کس طرح فرج اعظم کا انتظار فرج ہے ؟وہ حالت انتظار کے ساتھ غیبت اور زمانۂ ظہور کے در میان رابطہ قائم کرتے ہیںاور اس زمانے کے بعض حالات کوغیبت کے زمانے میں پا لیتے ہیں ۔(1)

--------------

 [1] ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ  مرحوم بحر العلوم اور مرتضی ٰ شیخ انصاری  جیسے بہت کم افراد  ایسے حالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

۲۱۶

 مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر

 دلوں کو منور کرنے والا واقعہ دنیا ئے تشیع کی اس عظیم شخصیت کا ذکر ہے جس نے ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں  پر غیبی امداد اور قوت سے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 شیخ انصار ی کے ایک شاگرد ، آپ کے امام  علیہ السلام سے تعلق اور امام  علیہ السلام کے شریعت کدہ پر شرفیابی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے کربلا پہنچا۔ انہی ایام میں ایک بار میں آدھی رات کے وقت حمام جا نے کے لئے گھر سے باہر آیا ، چونکہ گلیوں میں کیچڑ و غیرہ زیادہ تھا لہذا میں نے اپنے ساتھ ایک شمع بھی لے لی اور میں  اس کی مدہم روشنی میں چلنے لگا ۔ کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا میں نے محسوس کیا جیسے شیخ انصاری ہو ں ۔  راستہ طے کرکے جیسے ہی قریب ہوا تو یقین ہو گیا آپ ہی ہیں ۔میں نے سو چا یہ حضور اس تاریکی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں جب کہ آپ کی بینا ئی بھی کمزور ہے ۔میں نے سو چا کہیں کو ئی آپ کا تعاقب نہ کر رہا ہو کہ جو آپ کو نقصان پہنچا ئے لہٰذا خاموشی سے آپ کے پیچھے چلنے لگا ۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک پرا نی ساخت کے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو ئے اور خلو ص نیت کے ساتھ زیارت جامعہ پڑھنے لگے ۔

زیارت سے فارغ ہو تے ہی اس مکان میں داخل ہو ئے ۔پھر میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف آپ کی آواز آرہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی سے ہم کلام ہیں ۔میں وہاں سے پلٹا پھر حمام گیا اور اس کے بعد حرم مطہر گیا وہاں میں نے شیخ  کو دیکھا ۔

۲۱۷

 اس سفر سے واپس آکر میں نجف اشرف میں شیخ کی خدمت میں پہنچا اور اس رات والے واقعہ کو دہرایا اور اس کی تفصیل پو چھی ،پہلے تو شیخ نے انکار کیا لیکن مزید اصرار پر آپ  نے فر مایا :

جب امام  سے ملاقات کی خواہش ہوتی ہے تو میں اس گھر کے دروازے پر چلا جاتا ہوں ،جسے تم اب کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ،زیارت جامعہ پڑھنے کے بعد اذن طلب کرتا ہوں ۔اگر اجازت مل جاتی ہے تو آنحضرت  کی خدمت میں فیضیاب ہو تا ہوں ۔جو مسائل میری سمجھ سے بالا ہوتے ہیں آپ  اسے بطور احسن حل فر ماتے ہیں ۔

پھر شیخ  نے فرمایا:اور سنو جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کو چھپا ئے رکھنا ۔ہرگز کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ۔(1)

 اسی طرح اور دوسری بزرگ شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے امام  سے بارہا ملاقات کی ہے اور اپنے آپ کو حضرت  کے ظہور کے لئے ہمہ وقت آمادہ رکھتے تھے ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جو قرآنی آیتوں کی تأ ویل اور توجیہ کریں گے نیز آنحضرت  کے ساتھ جنگ بھی کریں گے ۔

کلید گنج سعادت فتد بہ دست کسی

کہ نخل ہستی اورا بود بَرِ ہنری

چو مستعد نظر نیستی ،وصال مجوی

کہ جام جم ندہد سود ،وقت بی بصری

--------------

[1] ۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری  : 106

۲۱۸

  کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

۲۱۹

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاهَدُوْا فِیْنٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلُنٰا ) (1)

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: 69

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

روش تبليغ ۳

جنات :جنات اور انسان ۶،۸،۹،۱۳; جنات اور انسان كو ورغلانا۱۵;جنات اور قيامت ۵; جنات كا آخرت ميں محشور ہنا ۱; جنات كا اختيار ۴; جنات كا اخروى حشر ۱،۴; جنات كا لفظ ۶; جنات كا ورغلانا ۷; جنات كى اطاعت ۱۱; جنات كى شرعى ذمہ دارى ۴; جنات كى طاقت۶; جنات كے رجحانات ۱۴; جنات كے روابط۱۱; جنات كے لذائذ۱۴،۱۵; ورغلانے والے جنات ۷; ورغلانے والے جنات كا انجام ۲۰; ورغلانے دالے جنات كا عذاب ۲۰; ورغلانے والے جنات كا كردار ۸،۹،۱۳; ورغلانے والے جنات كے پيروكار۱۳

جہنم :جہنم سے نجات ۲۲; جہنم ميں دائمى قيام ۲۰

جہنمى افراد : ۲۰جہنمى افراد كى ابديت ۲۱، ۲۲; جہنميوں كى نجات ۲۲

حكمت :حكمت كى اہميت ۲۶

خدا تعالى :افعال خدا، ۱، ۲۴; حكمت خدا ۲۴، ۲۵; علم خدا ۲۴، ۲۵ ;مشيت خدا ۲۱، ۲۲; مشيت خدا كا منشاء ۲۵

دوستى :جنات سے دوستى ۱۱

ذكر :قيامت كا ذكر ۳

ربوبيت :ربوبيت كى شرائط ۲۶

شياطين :شياطين انسى ۹;شياطين جنى ۱۲;شياطين كا انجام ۲۰;شياطين كا عذاب ۲۰;شياطين كے پيروكار ۱۲; شياطين كے پيروكاروں كا انجام ۲۰; شياطين كے پيروكاروں كا عذاب ۲۰; شياطين كے دوست ۱۲

شيطان :شيطان كى لذتيں ۱۴; شيطان كے ميلانات۱۴

عذاب :اہل عذاب ۲۰

علم :اہميت علم ۲۶

قيامت :قيامت كے دن اپنى گمراہى كا اقرار ۱۸; قيامت كے دن حساب ليا جانا ۲، ۵; قيامت كے دن محشور ہونا ۱

۴۰۱

گمراہ افراد :گمراہ اور قيامت كا دن۱۸;گمراہوں كا اخروى اقرار ۱۸; گمراہوں كا اخروى حشر ۲; گمراہوں كا اخروى مؤاخذہ ۲; گمراہوں كے رجحانات ۱۹; گمراہوں كى ہوا پرستى ۱۸

گمراہي:گمراہى سے لذت حاصل كرنا ۱۵، ۱۶; گمراہى كے علل و اسباب ۱۳، ۱۶

ہوا پرستى :ہوا پرستى كے آثار ۱۸

آیت ۱۲۹

( وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضاً بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ )

او راسى طرح ہم بعض ظالموں كو ان كے اعمال كى بنا پر بعض پر مسلّط كرديتے ہيں

۱_ خداوندمتعال، جس طرح جنّات ميں سے شياطين كو بنى آدم پر مسلط كرتاہے_اسى طرح بعض ظالموں كو بھى بعض دوسرے ظالموں پر مسلط كرديتاہے_يامعشر الجن قد استكثرتم و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا

''كذلك'' جنات كے بنى آدم پر تسلط كے ساتھ، ظالموں كے ظالموں پر تسلط كى تشبيہ ہے يعنى جس طرح ہم جنات كو بنى آدم پر مسلط كرتے ہيں اسى طرح ظالم لوگوں كو دوسرے ظالم گروہ پر مسلط كرديتے ہيں _

۲_ ظالم انسان، دوسرے انسانوں كو گمراہ اور منحرف كرنے كى كوشش كرتے رہتے ہيں _

يامعشر الجن قد استكثرتم و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا

گذشتہ آيات ميں ، جنات كے بنى آدم كو ورغلانے اور بہكانے كى بات تھي_ ''كذلك'' كى تشبيہ كا تقاضا يہ ہے كہ بنى آدم اور جنات كے متقابل روابط كى شباہت ظالموں كے درميان روابط جيسى ہے_ يعنى جس طرح جنات، لوگوں كو درغلاتے اور بہكاتے ہيں ، اسى طرح ظالمين بھى دوسرے ظالموں كو ورغلانے كى كوشش كرتے

۴۰۲

ہيں _

۳_ گمراہ كرنے والے اور گمراہ ہونے والے دونوں ظالم ہيں _و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا

''بعض'' سے مراد گمراہ كرنے والے اور ''بعضا'' سے مراد گمراہ ہونے والے ہيں كہ دونوں كو ظلم سے متصف كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ ''بعضا'' كى تنوين، مضاف اليہ كے بدلے ہے_ يعنى''نولى بعض الظالمين بعضهم''

۴_ ورغلانے اور بہكانے والے جنات اور ان كے بہكاوے اور ورغلانے ميں آنے والے بنى آدم، دونوں ظالم ہيں _

يامعشر الجن قد استكثرتم من الانس و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا

۵_ خود انسانوں كا ظلم، ان پر ظالمانہ حكومتوں كے تسلط كا باعث بنتاہے_و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا

حكم كا وصف پر معلق ہونا، عليت كى جانب اشارہ ہے_ آيہ شريفہ ميں حكم ''نولي'' كا الظالمين جيسى صفت پر معلق ہونا، فعل كے جارى ہونے ميں ، صفت ''ظلم'' كى تاثير كى جانب اشارہ ہے_

۶_ ستم پيشہ لوگوں پر ستمگروں اور ظالموں كا حاكميت و تسلط پانا، انسانى معاشروں ميں جارى سنن الہى ہيں ہے_

و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا

۷_ معاشرے ميں لوگوں كے ظالمانہ كردار كا نتيجہ يہ نكلتاہے كہ ان پر ظالم حكمران مسلط ہوجاتے ہيں _

و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا بما كانوا يكسبون

۸_ معاشرے ميں سنن خدا كا جارى ہونا، معاشرے ميں لوگوں كے اعمال كے نتائج سے مربوط ہے_

و كذلك نولى بعض الظلمين بعضا بما كانوا يكسبون

''نولي'' فعل مضارع ہے كہ جو استمرار پر دلالت كرتاہے اور اس كا مقتضى ايك قانون و سنت كى حيثيت ركھتاہے_ اسى طرح جملہء ''بما كانوا يكسبون'' ''نولي'' كے جارى ہونے كى علت كا بيان ہے_ لہذا، ظالموں كا تسلط و حكومت حاصل كرنا، ايك جانب، سنت خدا ہے تو دوسرى جانب سے بنى آدم كے اعمال سے مربوط ہے_

۹_ يہ انسان كا عمل اور كردار ہے كہ جس كى وجہ سے يا تو وہ ولايت خدا كے سائے ميں آجاتاہے يا ظالموں كى سرپرستى قبول كرليتاہے_و هو وليهم بما كانوا يعملون نولى بعض الظالمين بعضا بما كانوا يكسبون

۴۰۳

۱۰_ انسان كى تقدير اور قسمت خود اس كے اپنے ہاتھ سے لكھى جاتى ہے_

و كذلك نولي بما كانوا يكسبون

انسان :انسان پر تسلط ۱

تقدير:تقدير پر اثر انداز ہونے والے عوامل۱۰

جبر و اختيار : ۱۰

جنات :جنات كا تسلط ۱; ور غلانے والے جنات كا ظلم ۴

حكومت :ظالم حكومتوں كے تسلط كے علل و اسباب ۵

خدا تعالى :افعال خدا ،۱; سنن خدا ۶;سنن خدا كا جارى ہونا ۸;ولايت خدا سے بہرہ مند ہونا ۹

ظالمين : ۳، ۴

ظالمين پر حاكميت ۶; ظالمين كا تسلط ۱; ظالمين كى حاكميت ۶; ظالمين كى حاكميت كے علل و اسباب ۱۷; ظالمين كى ولايت كا سبب ۹;ظالمين كے تسلط كے عوامل ۵

ظلم :اجتماعى ظلم كے آثار ۷;ظلم كے آثار ۵، ۷

عمل :عمل كے آثار ۹

گمراہ كرنے والے :گمراہ كرنے والوں كا ظلم ۳

گمراہ لوگ :گمراہوں كا ظلم ۳، ۴

گمراہى :گمراہى كے علل و اسباب ۴

معاشرتى طبقات:۲

۴۰۴

آیت ۱۳۰

( يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَـذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ )

اے گروہ جن و انس ننكيا تمھارے پاس تم ميں سے رسول نہيں آئے جو ہمارى آيتوں كو بيان كرتے او رتمھيں آج كے دن كى ملاقات سے ڈراتے _ وہ كہيں گے كہ ہم خود اپنے خلاف گواہ ہيں او ران كو زندگانى دنيا نے دھو كہ ميں ڈال ركھا تھا او رانھوں نے خود اپنے خلاف گواہى دى كہ وہ كافر تھے

۱_ گمراہ جن و انس سے قيامت كے دن، ايك ساتھ پوچھ گچھ كى جائے گى اور وہ ايك ساتھ عذاب و توبيخ سے دوچار ہونگے_يامعشر الجن و الانس الم ياتكم رسل

۲_ انبيائے الہي، جن و انس پر حجت خدا ہيں _يمعشر الجن والانس الم ياتكم رسل منكم

۳_ انبيائے الھى كى اطاعت كرنے اور ان كى ہدايت سے بہرہ مند ہونے ميں جن و انس كا مشترك ہونا_

يامعشر الجن و الانس الم ياتكم رسل منكم

۴_ جنات كے ليے خود انھى كى جنس سے انبيا كا موجود ہونا_يامعشر الجن و الانس الم ياتكم رسل منكم

جملہء ''ياتكم رسل منكم'' سے پتہ چلتاہے كہ جن و انس ميں سے ہر ايك كے ليے ايسے انبيا و رسول ہيں جو خود انہى كى جنس سے ہيں _'' الجن و رسل من الانس''

۵_ جن شعور اور اختيار ركھتا ہے اور انبيائے الہى كى ہدايت كا محتاج ہے_

يامعشر الجن و الانس الم ياتكم رسل منكم

پوچھ گچھ اور توبيخ كے صحيح ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ

۴۰۵

جس سے پوچھ گچھ كى جائے اور جسے توبيخ كى جائے وہ شعور اختيار اور شرعى ذمہ داريوں كا حامل ہو_ اگر ايسا نہ ہو تو يہ مؤاخذہ، توبيخ اور سزا و جزا صحيح نہيں _

۶_ انبياء كے اہم ترين فرائض ميں سے ايك، لوگوں كو آيات الہى سے آگاہ كرنا اور انھيں قيامت كے سلسلے ميں ڈرانا ہے_رسل منكم يقصون عليكم ايتى و ينذرونكم لقاء يومكم هذا

۷_ قيامت پر اعتقاد، تمام اديان الہى ميں ايك مسلمہ اصول ہے_رسل منكم ينذرونكم لقاء يومكم هذا

۸_ دينى مبلغين كے دو بنيادى فرائض يہ ہيں كہ وہ لوگوں كو آيات الہى اور ان كے مطالب سے آگاہ كريں اور انہيں قيامت (كے دن) سے ڈرائيں _يقصون عليكم ايتى و ينذرونكم لقاء يومكم هذا

۹_ قيامت كے دن كافر جن و انس، انبيائے الہى كے مبعوث ہونے كا اعتراف كركے، خود اپنے خلاف گواہى ديں گے_الم ياتكم رسل منكم قالوا شهدنا على انفسنا

۱۰_ دنيوى زندگي، پر فريب اور گمراہ كرنے والى نمود و نمائش كى حامل ہے_و غرتهم الحياة الدنيا

۱۱_ كفار كے انبيائعليه‌السلام كے انذار سے نصيحت حاصل نہ كرنے اور آيات (الھي) كو قبول نہ كرنے كا (سب سے بڑا) سبب انكا دنيوى زندگى كے فريب ميں آناہے_و غرتهم الحياة الدنيا

۱۲_ گمراہى سے بچنے كے ليے، دنيا كے پرفريب نظاروں كے مقابلے ميں ، ہوشيار رہنے كى ضرورت_

و غرتهم الحيوة الدنيا

۱۳_ انبياعليه‌السلام كى نبوت كا انكار اور انكے انذار پر اعتقاد نہ ركھنا، كفر ہے_الم ياتكم رسول ينذرونكم انكم كانوا كفرين

۱۴_ قيامت كے دن شياطين كے پيروكار دنيا ميں اپنے كفر اختيار كرنے كا اعتراف كريں گے_

و شهدوا على انفسهم انهم كانوا كفرين

۱۵_ شياطين كے پيروكار گمراہ افراد، قيامت كے دن، دنيا ميں اپنے كفر اور (گمراہي) سے آگاہ

۴۰۶

ہوجائيں گے_و شهدوا على انفسهم انهم كانوا كفرين

(شاھد) وہ عالم و آگاہ فرد ہے كہ جو كچھ اس نے حاصل كيا ہے اسے بيان كرديتاہے_ (لسان العرب) لہذا اگر''شھدوا'' گواہى دينے كے معنى ميں ہو تو اس كا لازمہ، اس فرد كى آگاہى ہے_

آيات خدا :آيات خدا كو قبول كرنے كے موانع ۱۱; آيات خدا كى وضاحت۶، ۸

اطاعت :انبياعليه‌السلام كى اطاعت ۳

انبيائعليه‌السلام :انبياء كا انذار قبول كرنے كے موانع ۱۱; انبياء كا كردار ۲;انبياء كا ہدايت كرنا ۳، ۵; انبياء كى تكذيب ۱۳; انبياء كى ذمہ دارى ۶; انبياء كے انذار ۶; جنات ميں سے انبيائ

انذار:قيامت سے انذار ۶، ۸

انسان :انسان كى ذمہ دارى ۳

جنّات :جنّات كا اختيار ۵; جنّات كا شعور ۵;جنات كى ذمہ داري۳; جنات كى ضروريات ۵; جنّات كے انبياء ۴; كافر جنّات كا اقرار ۹;گمراہ جنات كا اخروى مؤاخذہ ۱; گمراہ جنات كى اخروى توبيخ ۱

حق :حق كو قبول كرنے كے موانع ۱۱

خدا تعالى :حجت خدا ۲

خود :قيامت كے دن خود اپنے خلاف اقرار كرنا ۹

دنيا :دنيا كا پر فريب ہونا ۱۰، ۱۱، ۱۲

رسل الہى :رسل الھى كا كردار ۲

شياطين :قيامت كے دن شياطين كے پيروكار ۱۴، ۱۵

عبرت :عبرت حاصل كرنے كے موانع ۱۱

عقيدہ :قيامت كا عقيدہ ۷

قيامت :

۴۰۷

قيامت اديان كى نظر ميں ۷; قيامت كے دن اپنے كفر كا اقرار ۱۴; قيامت كے دن اقرار ۱۴; قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۱۵; قيامت كے دن سب كا مؤاخذہ ہونا ۱

كفار :كفار كا اخروى اقرار ۹; كفار كى گمراہى كے عوامل ۱۱

كفر :موارد كفر ۱۳; موجبات كفر ۱۳

گمراہ افراد :گمراہ افراد اور قيامت كا دن ۱۵; گمراہوں كا اخروى مؤاخذہ ۱; گمراہوں كى اخروى آگاہى ۱۵; گمراہوں كى اخروى سرزنش ۱

گمراہى :گمراہى سے بچنے كے علل و اسباب ۱۲

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى ۸

ہوشياري:ہوشيارى كى اہميت ۱۲

آیت ۱۳۱

( ذَلِكَ أَن لَّمْ يَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ )

يہ اس لئے كہ تمھارا پروردگار كسى قريہ كو ظلم و زيادى سے اس طرح تباہ و برباد نہيں كرنا چاہتاكہ اس كے رہنے والے بالكل غافل او ربے خبر ہوں

۱_ خداوندمتعال كسى معاشرے كو تباہ و نابود كرنے اور كسى قوم كو سزا دينے ميں كبھى بھى ظلم نہيں كرتا اور نہ ہى كرے گا_ذلك ان لم يكن مهلك القرى بظلم و اهلها غافلون

۲_ ہدايت بھيجے بغير انسانى معاشروں كو ہلاك كرنا، ايك ظالمانہ كام ہے، جس سے ذات اقدس الہي، پاك و منزہ ہے_

ذلك ان لم يكن مهلك القرى بظلم

ہوسكتاہے ''بظلم'' ''ربك'' كے لئے حال ہو_ اس صورت ميں جملے كا معنى اسطرح ہوگا كہ

۴۰۸

خدا كسى لا علم معاشرے كو ظلم كى بنا پر ہلاك نہيں كرتا_ بنابرايں ، عدم ابلاغ كى صورت ميں ہلاكت ايك ظالمانہ كام ہے_

۳_ انسانى معاشروں پر اتمام حجت كرنا، انبياء الہى كى بعثت كے اہداف ميں سے ہے_

الم ياتكم رسل منكم ذلك ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم

۴_ جس معاشرے كے لوگ غفلت و لاعلمى كى بنا پر ظلم و ستم كريں خداوند متعال انھيں دنيوى عذاب كے ذريعے ہلاك نہيں كرتا_ذلك ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم و اهلها غفلون

''بظلم''كے جار و مجرور كے ليے مختلف متعلق قرار ديئے جا سكتے ہيں من جملہ ''بظلم'' كے جار و مجرور كا متعلق، ''مھلك'' بھى ہے_ يعنى '' مھلك القرى بسبب ظلم'' مندرجہ بالا مفہوم اسى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۵_ جان بوجھ كر اور آگاہى كى بنا پر گناہ و ظلم كا ارتكاب معاشرے كى ہلاكت كا باعث بنتاہے_

ذلك ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم و اهلها غفلون

جملہ ''و اھلھا غافلون'' سے مراد يہ ہے كہ خداوندمتعال اس ظالم معاشرے كو ہلاك نہيں كرتا جس كے لوگ تعليمات انبياء سے غافل تھے اور ان كا پيغام ان تك نہيں پہنچا تھا_

۶_ انسانى معاشروں كا علم ركھنے ہوئے ظلم و ستم، تاريخى تحولات ميں اہم كردار ادا كرتاہے_

ذلك ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم و اهلها غفلون

معاشروں كى ہلاكت و نابودي، تاريخى تحولات كا سب سے بڑا نمونہ ہے_ خداوند متعال اس آيت ميں آگاہانہ ظلم كو اس كا باعث قرار ديتاہے_ لہذا ان دو حوادث (آگاہانہ ظلم اور معاشرے كى ہلاكت) كے درميان انتہائي گہرا رابطہ ہے_

۷_ اقوام و امم پر اتمام حجت ہوجانے كے بعد، ان كى شقاوت و ضلالت كے بارے ميں مشيّت الہي، صادر ہوتى ہے_و من يرد ان يضله يجعل الله الرجس ذلك ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم

آيت ميں ہلاكت سے مراد وہ شقاوت و ضلالت ہے جس كا تذكرہ گذشتہ آيات ميں كيا گيا ہے_

۸_ اتمام حجت اور انبياءعليه‌السلام بھيجنے سے پہلے ظالم معاشروں كوہلاك و نابود كرنا، سنت خدا نہيں _

الم ياتكم رسل منكم ذلك ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم و اهلها غفلون

۹_ جو ظلم اور گناہ، غفلت و ناآگاہى كى بنا پر ہو اس پر

۴۰۹

خدوند عذاب اور سزا نہيں ديتا_ان لم يكن ربك مهلك القرى بظلم و اهلها غفلون

اتمام حجت :۷،۸اتمام حجت كى اہميت ۳

اسماء و صفات :صفات جلال ۱

امم :ظالم امتوں كى شقاوت و بدبختى ۷; ظالم امتوں كى گمراہى ۷

انبياءعليه‌السلام :بعثت انبياء كا فلسفہ ۳

تاريخ :تاريخى تحولات كا منشا ئ۶; محرك تاريخ ۶

جہالت :جہالت كے آثار ۴، ۹

خدا تعالى :تنزيہ خدا ۳; خدا اور ظلم ۱; خداكى سزائيں ۹; سنن خدا ۸;مشيت خدا ۷

ظلم :آگاہانہ ظلم كے آثار ۵، ۶; اجتماعى ظلم كے آثار ۶; جاہلانہ ظلم كى سزا ۹;جاہلانہ ظلم كے آثار ۴

عذاب :دنيوى عذاب ۴

غفلت :غفلت كے آثار ۴، ۹

كيفر و سزا:بغير بيان و اعلان كے كيفر و سزا ۲; ظالمانہ كيفر و سزا ۲; كيفر و سزا كا نظام ۱، ۲ ۴، ۷، ۸، ۹

گناہ :آگاہانہ گناہ كے آثار ۵; جاہلانہ گناہ كى سزا،۹

معاشرہ :ظالم معاشروں كى ہلاكت ۸;معاشروں كى ہلاكت ۲، ۴; معاشروں كى ہلاكت كے علل و اسباب ۵

۴۱۰

آیت ۱۳۲

( وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُواْ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ )

او رہرايك كے لئے اس كے اعمال كے مطابق درجات ہيں او رتمھارا پروردگار ان كے اعمال سے غافل نہيں ہے

۱_ جن و انس كے افراد ميں سے ہر ايك فرد، قيامت كے دن، اپنے خاص درجے اور مرتبے ميں ہوگا_

و لكل درجات مما عملوا

''و لكل'' كى تنوين، محذوف كے عوض ہے_ اور آيت ۱۲۸، ۱۳۰ كے قرينے سے وہ محذوف ''جن و انس'' ہے يعنى : ''لكل من الجن والانس ...'' چونكہ گذشتہ آيات ميں قيامت كا نقشہ كھينچا كيا گيا تھا، ظاہر يہى ہوتاہے كہ آيت ميں مذكور درجات، بھى اسى دن سے مربوط ہيں _

۲_ انسان اور جنّات كے اخروى درجات، ان كے دنيوى اعمال كا انعكاس ہيں _لكل درجات مما عملوا

۳_ قيامت، درجات عطا ہونے يا طبقات دوزخ ميں گرنے كا دن ہے_و لكل درجات مما عملوا

اگر چہ آيت ميں فقط درجات كا ذكر كيا گيا ہے_

ليكن دركات (طبقات دوزخ) كو بھى شامل ہے_ چونكہ درجات اور دركات، ايك دوسرے سے ملے ہوئے ہيں _

۴_ پرودگار (عالم) كبھى بھى جنّات اور انسانوں كے اعمال و كردار سے غافل نہيں ہوتا_و ما ربك بغفل عما يعملون

۵_ آخرت كے درجات و مراتب، جن و انس كے اعمال سے خداوندمتعال كى آگاہى اور دقيق محاسبے كى بنياد پر عطا كيے جاتے ہيں _و لكل درجات مما عملوا و ما ربك بغفل عما يعملون

۶_ (اپنے) اعمال پر نظر ركھنے اور درجات و دركات (طبقات جہنم) كے تعين ميں انكے اہم كردار كى جانب توجہ كا ضرورى ہونا_و لكل درجات مما عملوا و ما ربك بغفل عما

۴۱۱

يعملون

اخروى نعمتيں :اخروى نعمتوں كا قانون و ضابطے كے مطابق ہونا ۵

انسان :انسان اور قيامت كا دن ۱; انسان كا عمل ۴، ۵; انسانوں كے اخروى درجات ۱، ۲، ۵

جنات :جنات اور قيامت ۱; جنات كا عمل ۴، ۵;جنات كے اخروى درجات ۱،۲، ۵

خدا :تنزيہ خدا ۴; خدا اور غفلت ۴; علم خدا ۴، ۵

عمل :عمل كى جانب توجہ ركھنے كى اہميت ۶;عمل كے آثار ۶; عمل كے اخروى آثار ۳

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۳;قيامت كے درجات ۳; قيامت كے درجات پر انداز ہونے والے عوامل ۶; قيامت كے دركات۳; قيامت كے دركات دركات پر موثر عوامل ۶

آیت ۱۳۳

( وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ )

او ر آپ كا پروردگار بے نياز او رصاحب رحمت ہے _ وہ چاہے تو تم سب دنيا سے اٹھالے او رتمھارى جگہ پر جس قوم كو چاہے لے آئے جس طرح تم كو دوسرى قوم كى اولاد ميں ركھا ہے

۱_ فقط پروردگار (عالم) ہى بے نياز مطلق اور وسيع رحمت والا ہے_و ربّك الغنى ذو الرحمة

مبتدا و خبر كا معرفہ ہونا اور ''الغني'' پر ''ال'' ہونا، حصر كا معنى ديتاہے_

۲_ بندوں كى نسبت، خداوندمتعال كى بے نيازى كے

۴۱۲

عروج پر ہونے كے باوجود اس كى وسيع رحمت، ان كے شامل حال ہوتى ہے_و ربّك الغنى ذو الرحمة

۳_ پيغمبر(ص) پر خداوندمتعال كى خاص ربوبيت و عنايت (كا سايہ) ہونا_لم يكن ربك و ما ربك ربك الغني

۴_ خداوندمتعال كى بے نيازى كے باوجود، انبيائے الہى كا مبعوث ہونا اور عمل و جزا كا نظام قائم كيا جانا، اس كى وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_لكل درجات مما عملوا و ربك الغنى ذو الرحمة

۵_ انسانوں كے ہونے اور نہ ہونے سے خداوندمتعال كو كوئي نفع و نقصان نہيں پہنچتا_و ربك الغنى ذو الرحمة ان يشا يذهبكم

جملہ ''و ربك ذو الرحمة ...'' جملہ شرطيہ ''ان يشا ...'' كے ليے ايك تمھيد كى مانند ہے يعنى خداوند متعادل محتاج نہ ہونے كى وجہ سے، اگر چاہے تو بنى آدم كو اس زمين سے اٹھالے_

۶_ اگر جن و انس، اطاعت يا نافرمانى كا راستہ اپنائيں تو خداوندمتعال كوكسى قسم كا نفع و نقصان نہيں پہنچا سكتے_

و ربك الغنى ذو الرحمة

۷_ عدل كا لحاظ نہ كرنے اور ظلم كى طرف رجحان ركھنے كے دو بڑے سبب سنگ دلى اور محتاجى ہے_

لكل درجات مما عملوا و ربك الغنى ذو الرحمة

بندوں كو اجر و ثواب عطا كرنے ميں خداوند متعال كے عدم ظلم كو بيان كرنے كے بعدبے نيازى اور رحمت جيسى دو صفات كا ذكر، كرنا بتاتاہے كہ ظلم، ضرورت يا شقاوت كى وجہ سے پيدا ہوتاہے جبكہ خداوندمتعال كے بارے ميں يہ دونوں باتيں محال ہيں _

۸_ اگر خداوندمتعال چاہتا تو، ظالم و كافر لوگوں كو ہلاك و نابود كرديتا اور ان كى جگہ دوسرى نسلوں (اور قوموں ) كو لے آتا_ان يشا يذهبكم و يستخلف من بعدكم ما يشاء

۹_ اگر خداوند چاہے تو بنى آدم كى ايك نسل كو اپنے وقت سے پہلے ہلاك و نابود كر دے اور دوسرى نسلوں (اور قوموں ) كو ان جگہ پرلے آئے_ان يشا يذهبكم و يستخلف من بعدكم ما يشاء

چونكہ نسلوں و قوموں كا آنا و جانا ايك قدرتى و معمولى امر ہے_ جملہ ''ان يشا ...'' كو ايك خلاف معمول اور غير قدرتى امر ہونا چاہيئے_ اس كا احتمالى مفہوم يہى ہے كہ ايك نسل اپنے معمولى توقف سے پہلے، منظر تاريخ سے ہٹ جائے اور ہلاك كردى جائے_

۴۱۳

۱۰_ نسلوں كے تحولات اور ان كا ايك دوسرے كى جگہ لينا، مشيت الھى كے مطابق ہے_

ان يشا يذهبكم كما انشاكم من ذرية قوم اخرين

۱۱_ خداوندمتعال كى رحمت اور بے نيازى كے باعث، كافر اور ظلم پيشہ معاشروں كو مہلت دى جاتى ہے اور انھيں ہلاك و نابود كيا جاتاہے_و ربك الغنى ذو الرحمة ان يشا يذهبكم و يستخلف من بعدكم

۱۲_ ايك معاشرے كو اپنى نسل كے نابود ہونے كا خطرہ در پيش ہونا (در حقيقت) خداوندمتعال كى جانب سے كافر و ظالم معاشروں كے ليے (ايك قسم) كى تنبيہ ہے_ان يشا يذهبكم كما انشاكم من ذرية قوم اخرين

۱۳_ صدر اسلام كے دوران مكہ كے لوگ، اس سرزمين كے اصلى ساكنين كى نسل سے نہيں تھے_

كما انشاكم من ذرية قوم اخرين

بظاہر ''انشاكم'' كے مخاطب مكہ كے لوگ ہيں _ چونكہ ان آيات كے نزول كى جگہ مكہ تھي_ بنابرايں ، مكہ اور اس كے اردگرد كى سرزمين كے لوگ، اس كے اصلى ساكنين كے علاوہ دوسرے لوگوں كى نسل سے تھے_

۱۴_ گذشتہ اقوام كى جگہ موجودہ نسلوں اور معاشروں كو وجود ميں لانا، ظالم معاشروں كو ہلاك اور نابود كرنے پر قدرت خدا كى علامت ہے_و ان يشا يذهبكم كما انشاكم من ذرية قوم اخرين

۱۵_ حضرت آدمعليه‌السلام اور انكى اولاد سے پہلے، زمين پر انسان جيسى مخلوق كى سكونت_كما انشاكم من ذرية قوم اخرين

اگر ''انشاكم'' زمين كے تمام لوگوں كى جانب خطاب ہو تو مفاد آيت يہ ہے كہ زمين كے موجودہ ساكنين، پہلے ساكنين كى نسل سے نہيں تھے_ چونكہ ''كما انشاكم ...'' كى تشبيہ كا تقاضا يہ ہے كہ پہلے تمام ساكنين ہلاك ہوچكے ہيں اور موجودہ انسانى نسل ايك دوسرى قوم (قوم اخرين) كى ذريت سے ہے نہ كہ اس كے پہلے ساكنين كى نسل سے_

۱۶_ اگر خداوند متعادل چاہے تو وہ بنى آدم كو ہلاك كركے دوسرى مخلوق (موجودات ) كو انكى جگہ لے آئے گا_

ان يشا يذهبكم و يستخلف من بعدكم ما يشاء

فعل ''يذھبكم'' تمام بنى آدم سے خطاب ہے اور جملہ '' ما يشا'' (وہ جو كچھ چاہے) عموميت ركھتاہے اور فقط انسان ميں ہى منحصر نہيں _

۴۱۴

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے فضائل ۳

اطاعت :اطاعت كے آثار ۶

انبيائعليه‌السلام :بعثت انبياء كا فلسفہ ۴

انسان :آدمعليه‌السلام سے پہلے كے انسان ۱۵; انسان كا عصيان و نافرمانى ۶; انسانوں كى ہلاكت ۱۶;تاريخ انسان ۱۵

تاريخ :تاريخى تحولات كا منشاء ۱۰

جنات :جنات كا عصيان ۶

خدا تعالى :خدا سے خاص امور ،۱; خدا كى بے نيازى ۱، ۲، ۴، ۵، ۶;خدا كى بے نيازى آثار ۱۱;خدا كى رحمت ۲،۲،۴; خدا كى رحمت كے اثار ۱۱; خدا كى طرف سے تنبيہ ۱۲; خدا كى قدرت ۸،۹،۱۰،۱۶; خدا كى قدرت كى نشانياں ۱۴; خدا كى مخصوص ربوبيت ۳; خدا كى مشيت ۸،۹،۱۰،۱۶; خدا كيلئے مضر ثابت ہونا ۶

شقاوت:شقاوت كے آثار۷

ظالمين :ظالموں كو تنبيہ ۱۲; ظالمين كو مہلت ; ظالمين كى جانشينى ۸ ; ظالمين كى ہلاكت ۸ ; ظالمين كى ہلاكت ۸ ،۱۴

ظلم :ظلم كے علل و اسباب ۷

عدالت :عدالت كے موانع ۷

عصيان :عصيان و نافرمانى كے آثار ۶

كفار :كفار كو تنبيہ ۱۲;كفا ركو مہلت ۱۱; كفار كى ہلاكت ۸

گذشتہ اقوام :گذشتہ اقوام كى جانشينى ۹، ۱۴

معاشرہ :معاشروں كى نابودى كا خطرہ ۱۲; معاشروں كى ہلاكت ۸، ۹، ۱۴

مكہ :تاريخ مكہ، ۱۳;صدر اسلام كے دوران اہل مكہ ۱۳;

موت :

۴۱۵

وقت سے پہلے كى موت ۹

نظام جزائي : ۴نيازمندى (احتياج) :نيازمندى و احتياج كے آثار ۷

آیت ۱۳۴

( إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لآتٍ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ )

يقينا جوتم سے كيا گيا ہے وہ سامنے آنے والا ہے او رتم خدا كو عاجز بنانے والے نہيں ہو

۱_ خداوند متعال كے وعدے ناقابل تخلف ہيں _ان ما توعدون لات :

۲_ قيامت كے دن ظالموں كو حاضر كيا جانا، ان سے پوچھ گچھ ہونا اور انھيں سزا ملنا، خداوندمتعال كے ناقابل تخلف وعدوں ميں سے ہے_و ينذرونكم لقاء يومكم هذا ان ما توعدون لات

۳_ خدا كے ارادوں اور وعدوں كو روكنا اور ان سے فرار كرنا، انسان كے بس كى بات نہيں _

ان ما توعدون لات و ما انتم بمعجزين

''لسان العرب'' ميں ہے كہ : ''معنى الاعجاز الغوث والسبق'' يعنى اعجاز، جھكا لينا اور پيچھے چھوڑنا ہے_ معجزہ اسكا اسم فاعل ہے_ جسكا معنى پيچھے چھوڑنے والا اور سبقت لے جانے والا ہے_ يعنى آپ لوگ، قيامت آنے اور خدا

كے وعدوں كے پورا ہونے كو نہيں روك سكتے اور اس پر سبقت حاصل نہيں كر سكتے اور اس كے دائرہ قدرت سے خارج نہيں ہوسكتے (بالفاظ ديگر خدا كو عاجز نہيں كرسكتے)_

انسان :عجز انسان ۳

خدتعالى ا :خدا كے وعدوں كا حتمى ہونا ۱، ۲، ۳

ظالمين :قيامت كا دن اور ظالمين ۲; ظالموں كا اخروى مؤاخذہ ۲;ظالموں كى سزا، ۲

قيامت :قيامت كے دن مؤاخذہ ۲

۴۱۶

آیت ۱۳۵

( قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدِّارِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )

پيغمبر آپ كہہ ديجئے كہ تم بھى اپنى جگہ پر عمل كرو او رميں بھى رہاہوں _ عنقريب تم كو معلوم ہو جائے گا كہ انجام كا ر كس كے حق ميں بہتر ہے _بيشك ظالم كامياب ہونے والے نہيں ہيں

۱_ كفار كو ان كے برے انجام كے بارے ميں خبردار كرنا، پيغمبر(ص) كے فرائض ميں سے ہے_

قل يا قوم اعملوا على مكانتكم

۲_ پيغمبر(ص) مامور ہيں كہ آپ(ص) كفار كے مقابلے ميں اپنے دين پر قاطعيت كے ساتھ عمل پيرا ہونے اور ثابت قدم رہنے كا اعلان كريں _قل يا قوم اعملوا على مكانتكم انى عامل فسوف تعملون

۳_ انسان اپنے اعمال كے سلسلے ميں جوابدہ ہے_اعملوا على مكانتكم انى عامل فسوف تعلمون

۴_ كفار، قيامت كے دن مؤمنين كا نيك انجام ديكھ ليں گے_فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار

۵_ انسان كى اخروى سعادت مندى يا بدبختي، اس كے دنيوى كردار سے مربوط ہے_

اعملوا على مكانتكم انى عامل فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار

۶_ ہر انسان نيك انجام كى تلاش ميں ہے اور ہر اس راستہ كو طے كرتاہے جسے وہ سعادت سمجھتاہے_

اعملوا فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار

۷_ نيك انجام اور حسن عاقبت كى جانب انسان كے رجحان سے استفادہ كرنا لوگوں كو دين كى طرف دعوت دينے اور تبليغ كرنے كا ايك طريقہ ہے_

۴۱۷

فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار

۸_ اعمال كى قدر و قيمت معين كرنے كا معيار عمل كا انجام اور نتيجہ ہے_فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار

چونكہ خدا نے اعمال كى قدر و منزلت كو بيان كرنے كے ليے، ان كے انجام اور نتيجے كو تشخيص كا ايك معيار قرار ديا ہے_ لہذا ہوسكتاہے كہ يہى اعمال كى قدر و منزلت معين كرنے كے ليے ايك معيار اور نمونے كى حيثيت ركھتا ہو_

۹_ نيك انجام فقط پيغمبر(ص) اور مؤمنين كے ليے ہے اور ظالم لوگ اس سے محروم ہيں _

فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار انه لا يفلح الظلمون

۱۰_ نيك انجام، سعادت و رستگارى ہے_فسوف تعلمون من تكون له عقبة الدار انه لا يفلح الظلمون

۱۱_ راہ انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كرنا اور اس سے كفر كرنا ظلم ہے اور سعادت و رستگارى كے مانع ہے_

اعملوا على مكانتكم انه لا يفلح الظلمون

۱۲_ جو لوگ كفر اختيار كركے اپنے آپ كو ظالمين كے زمرے ميں قرار ديتے ہيں _خداوندمتعال انھيں رستگار و سعادت مند نہيں بناتا_انه لا يفلح الظلمون

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا حسن انجام ۹; آنحضرت(ص) كى ثابت قدى ۲; آنحضرت(ص) كى ذمہ داري۱،۲

انبياء :انبياء كى مخالفت ۱۱

انجام :حسن انجام كى اہميت ۹، ۱۰

انسان :انسان كى ذمہ داري۳; انسان كى سعادت طلبى ۶،۷; انسانى رحجانات ۶; انسانى رحجانات كا ابھرنا۷

تبليغ :روش تبليغ ۷

خدا تعالى :افعال خدا ۱۲

دين :تبليغ دين ۷; دين ميں ثابت قدمى ۲

رستگارى :رستگارى كے موارد ۱۰;رستگارى كے موانع ۱۱، ۱۲

۴۱۸

سعادت :اخروى سعادت كى راہ ہموار ہونا ۵

شقاوت :اخروى شقاوت كى راہيں ۵

ظالمين : ۱۲ظالمين كا برا انجام ;۹

ظلم :موارد ظلم ۱۱

عمل :آثار عمل ۵; عمل كا جوابدہ ۳;عمل كى قدر و منزلت معين كرنا ۸

قدر و قيمت معين كرنا :قدر و قيمت معين كرنے كا معيار ۸

قيامت :قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۴

كفار :كفار اور قيامت كا دن ۴; كفار كا برا انجام ۱، كفار كو تنبيہ۱

كفر :كفر كے آثار ۱۱، ۱۲

مؤمنين :مؤمنين كا نيك انجام ۴، ۹

۴۱۹

آیت ۱۳۶

( وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرأى مِنَ الْحَرْثِ وَالأَنْعَامِ نَصِيباً فَقَالُواْ هَـذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَاء نَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَاء هِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَاء هِمْ سَاء مَا يَحْكُمُونَ )

او ران لوگوں نے خدا كى پيدا كى ہوئي كھيتى ميں او رجانوروں ميں اس كا حصّہ بھى لگايا ہے او ريہ ان كے خيال كے مطابق خدا كے لئے ہے او ريہ ہمارے شريكوں كے لئے ہے _ اس كے بعد جو شركاء كا حصّہ ہے وہ خدا نك نہيں جاسكتا ہے او رجو خدا كاحصّہ ہے وہ ان كے شريكوں تك پہنچ سكتا ہے _كس قدر بدترين فيصلہ ہے جو يہ لوگ كررہے ہيں (۱۳۶)

۱_ عصر جاہليت ميں ،مشركين كے رسم و رواج ميں سے ايك يہ تھا كہ وہ زراعت اور مويشيوں ميں سے ايك حصہ خدا كے ليے اور ايك حصہ اپنے خيالى شريكوں ( جنّات ، بتوں و غيرہ) كے ليے مقرر كرديتے تھے_

و جعلوا الله مما ذرأى فقالوا هذالله

اسى سورہ كى آيت ۱۰۰ و جعلوا اللہ شركاء الجن كے قرينے سے مشركين كے عقائد ميں سے ايك جنات كو خداوندمتعال كا ساتھ شريك ٹھرانے كا عقيدہ ہے_

۲_ مشركين كى يہ جاہلانہ سنت اور رسم كہ جس كے مطابق وہ زراعت اور مويشيوں ميں سے ايك حصہ خداوند متعال كے ليے اور ايك حصہ اپنے خيالى شريكوں كے ليے قرار ديتے تھے، ايك بے بنياد اور ظن و گمان پر قائم سنت و رسم ہے_

و جعلوا لله هذا لله بزعمهم

''زعم'' گمان اور بے بنياد بات كو كہتے ہيں (مصباح اللغة)

۳_ جس چيز كو خداوند متعال نے خود خلق كيا ہے اس ميں سے اس كے ليے حصہ مقرر كرنا، مشركين كا بيہودہ

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744