تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 744
مشاہدے: 157460
ڈاؤنلوڈ: 4543


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157460 / ڈاؤنلوڈ: 4543
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 5

مؤلف:
اردو

متجاوزين : ۹

محرمات :ايام جاہليت كے محرمات ۸

مشركين :ايام جاہليت كے مشركين ۸

نعمات :نعمات سے استفادہ ۷

يہود :يہود اور بھيڑ كى چربى ۲; يہود اور حرام غذائيں ۱، ۲، ۳; يہود اور گائے كى چربى ۲;يہود اور ناخن والے حيوانات ۲; يہود كا تجاوز اور تعدى كرنا، ۹، ۱۱، ۱۲; يہود كى محرمات ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۲; يہود كے تجاوز و تعدى كى سزا ۵، ۱۲; يہوديوں كے غذائي منابع ۴; يہود كے نزديك چربى كى اہميت ۴; يہود ميں حيوانات كى تحريم ۵، ۱۲

آیت ۱۴۷

( فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ )

پھر اگر يہ لوگ آپ كو جھٹلا ئيں تو كہہ ديجئے كہ تمھارا پروردگار بڑى وسيع رحمت والاہے ليكن اس كا عذاب مجرمين سے ٹالا بھى نہيں جاسكتا ہے

۱_ پيغمبر(ص) مامور ہيں كہ آپ(ص) ، وحى كو جھٹلانے والوں كى توجہ خداوندمتعال كى وسيع رحمت كى جانب مبذول كراتے ہوئے انھيں اس كے حتمى (ويقيني) عذاب سے ڈرائيں _فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۲_ پيغمبر(ص) كو مشركين كى جانب سے جھٹلائے جانے كامنتظر اور ان كے روبرو ہونے كے ليے آمادہ رہنا چاہيئے_

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

جملہ ''ان كذبوك'' پيغمبر(ص) سے خطاب ہے_ اور آنحضرت(ص) كے مقابل مشركين كى طرف سے جھٹلائے جانے كى پيش گوئي كى گئي ہے_ اس تكذيب كا مقابلہ كرنے كے ليے، ''قل ربكم'' اور ''و لا يرد ...'' كہہ كر اس كا راہ حل بتايا گيا ہے_

۴۶۱

۳_ پيغمبر (ص) كو جھٹلانا، خدا كو جھٹلانے كے مترادف ہے_و انا لصدقون_ فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

۴_ پيغمبر(ص) كو جھٹلانے والے افراد كو خداوندمتعال كى جانب سے مہلت دى جانا اور انھيں ہلاك نہ كرنا، پروردگار كى وسيع رحمت كا جلوہ ہے_فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

۵_ تحريمات اور ان كى علل كے بارے ميں خداوندمتعال كى خبروں كے سچا ہونے كے باوجود، ممكن ہے كہ مشركين ان كو جھٹلانے لگيں _و انا لصدقون فان كذبوك

۶_ دينى پيغام پہنچانے والے (مبلغين) كو چاہيئے كہ وہ جھٹلائے جانے كے ليے اور اس كا مقابلہ كرنے كے ليے اپنے آپ كو آمادہ ركھيں _فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

۷_ ربوبيت الہى كا تقاضا ہے كہ سب لوگوں كو اميد دلائي جائے اور مجرمين كو مہلت ديكر ان كو خبر دار كيا جائے_

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۸_ خداوندمتعال كى رحمت، اس كے غضب پر مقدم ہوتى ہے_

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة و سعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۹_ رحمت خدا كا وسيع ہونا، مجرمين كو سزا دينے كے مانع نہيں ہوگا_ذو رحمة و سعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۰_ جس چيز كو خداوند متعال نے حرام نہيں كيا اسے حرام قرار دينا اور وحى كى تكذيب كرنا، جرم ہے_

قل لا اجد فيما اوحى الى محرما فان كذبوك و لا يرد باسه

۱۱_ جرم، عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كى راہ ہموار كرتاہے_و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۲_ ايك مجرم معاشرہ، اپنے آپ كو رحمت خدا سے محروم كركے، اس كے عذاب كا مستحق بن جاتاہے_

و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

''باس'' لغت ميں شدت كے معنى ميں ہے اور اس آيت ميں عذاب سے كنايہ ہے_

۱۳_ وحى الہى كى تكذيب كرنے والوں كا مقابلہ كرنے كا ايك كلى طريقہ يہ ہے كہ انھيں رحمت الہى سے آگاہ كركے، عذاب خدا سے ڈرايا جائے_

۴۶۲

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۴_ لوگوں كو دين كى جانب دعوت دينے اور تبليغ كرنے ميں ، بشارت اور انذار (ڈرانے) سے استفادہ كرنے كى ضرورت_فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۵_ مجرم قوموں پر عذاب بھى رحمت خدا كا ايك جلوہ ہے_

فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

جملہ ''ذو رحمة واسعة'' كے بعد، جملہ ''و لا يرد باسہ'' آنا، يہ ظاہر كرتاہے كہ مجرم اقوام كو عذاب ديا جانا بھي، خداوند متعال كى وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) او رمشركين ۲; آنحضرت(ص) كو جھٹلانا ۲،۳; آنحضرت كو جھٹلانے والے ۲; آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والوں كو مہلت۴; آنحضرت(ص) كو خبردار كيا جانا۲; آنحضرت كى جانب سے انداز ۱

اقوام :مجرم اقوام كا عذاب ۱۵

اميد :اميد كے علل و اسباب ۷

تبليغ :تبليغ ميں بشارت ۱۴; تبليغ ميں ڈرانا ۱۴;روش تبليغ ۱۴

جرم :جرم كے آثار ۱۱; موارد جرم ۱۰

خدا تعالي:اخبار خدا كا سچا ہونا ۵; خدا كا غضب ۸;خدا كو جھٹلانا ۳; خدا كى طرف سے مہلت ۴;ربوبيت خدا كے آثار ۷;رحمت خدا كا ابلاغ ۱۳; رحمت خدا كا مقدم ہونا ۸; رحمت خدا كے آثار ۹;رحمت خدا كے مظاہر ۴، ۱۵

دين :تبليغ دين ۱۴

ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۱، ۱۳

رحمت :رحمت خدا سے محروم لوگ ۱۲

عذاب :اہل عذاب ۱۲; موجبات و اسباب عذاب ۱۱

مباحات :مباحات كو حرام قرار دينے كا جرم ۱۰

۴۶۳

مبلغين :مبلغين كو خبردار كيا جانا ۶; مبلغين كى آمادگى ۶

مجرمين :مجرمين كو خبردار كرنا ۷; مجرمين كو مہلت ۷; مجرمين كى سزا ۹

مشركين :مشركين اور خدائي خبريں ۵; مشركين كى تكذيب ۵

معاشرہ :مجرم معاشرے كا عذاب ۱۲; مجرم معاشرے كى محروميت ۱۲

وحى :وحى كى تكذيب كا جرم ۱۰; وحى كى تكذيب كرنے والوں كو۱نذار ۱، ۱۳، ۱;وحى كى تكذيب كرنے والوں كے خلاف اقدام كرنے كا طريقہ ۱۳

ياد دہاني:رحمت خدا كى ياد دہانى ۱

آیت ۱۴۸

( سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم حَتَّى ذَاقُواْ بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ )

عنقريب يہ مشركين كہيں گے كہ اگر خدا چاہتا تونہ ہم مشرك ہوتى نہ ہمارى باپ دادا اور نہ ہم كسى چيز كو حرام قرار ديتے _اسى طرح ان سى پہلے والوں نے رسولوں كى تكذيب كہ تھى يھاں تك كہ ھمارے عذاب كا مزہ چكھ ليا _ ان سے كہہ دليجے كہ تمہارے پاس كوى دليل ہے تو ہميں بھى بتاو _ تم تو صرف خيالات كا اتباع كرتے ہو اور اندازوں كى باتيں كرتے ہو

۱_ صدر اسلام كے مشركين اپنے اور اپنے آباو اجداد كے كے شرك اور دوسرى بدعتوں كو مشيت الھى اور اسكى

۴۶۴

رضايت سے وابستہ سمجھتے تھے_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا و لا ء اباؤنا

۲_ جبر(كا عقيدہ) مشركين كے ہاتھ ميں ايك ايسا ہتھيار ہے كہ جس سے وہ اپنے اور اپنے آبا و اجداد كے شرك اور حلال خدا كو حرام كرنے كى توجيہ كرتے ہيں _سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا و لا اباؤنا و لا حرمنا من شيئ

۳_ مشركين ''مشيت الہي'' كا غلط مفہوم ليتے تھے_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا

۴_ مشركين كا مستقبل (قريب) ميں اپنے عقائد اور اعمال كى توجيہ كرنے كا ليے (عقيدہ) جبر سے تمسك كرنے كے سلسلے ميں قرآن كا پيشگوئي كرنا_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا

۵_ ''مشيت الہي'' سے غلط مفہوم مراد لينا ہى عقيدہ جبر كو ظاہر كرنے (اور پھيلانے) كا وسيلہ ہے_

لو شاء الله ما اشركنا و لا أ باؤنا

۶_ گذشتہ اقوام بھى صدر اسلام كے مشركين كى طرح، عقيدہ جبر كو وسيلہ بنا كر انبياء الہى كى تكذيب كرتى تھيں _

كذلك كذب الذين من قبلهم

۷_ صدر اسلام كے مشركين اپنے آباؤ و اجداد كے طور طريقوں سے تمسك كرتے ہوئے اپنے عقائد و اعمال كى توجيہ كرتے تھے_ما اشركنا و لا أ اباؤنا

مشركين اپنے آبا و اجداد كا شرك بيان كركے، اپنے عقائد كے ليے ايك تاريخى سند اور توجيہ پيش كرنا چاہتے تھے_

۸_ (عقيدہ) جبر كى طرف رجحان ذمہ دارى سے فرار كا ايك بہانہ ہے_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا

۹_ انبيائعليه‌السلام كو جھٹلانے كے نتيجے ميں عذاب الہى كا ذائقہ چكھنا_كذّ ب الذين من قبلهم حتى ذاقوا باسنا

۱۰_ فقط عذاب الہى ہى سے پہلے والے انبياعليه‌السلام كى تكذيب كا سلسلہ بند ہواہے_

كذلك كذب الذين من قبلهم حتى ذاقوا باسنا

۱۱_ انسان كو عقيدے اور عمل ميں اختيار حاصل ہے اور جبر كى جانب رجحان ايك باطل اور غلط فكر ہے_

كذلك كذب الذين من قبلهم حتى ذاقوا باسنا

۴۶۵

قل

۱۲_پيغمبر (ص) كو ، مشركين كے خلاف احتجاج (دليل و برھان پيش) كرنے اور ان كے غلط نظريات كو ردّ كرنے كا حكم ديا گيا _

قل هل عندكم من علم فتخرجوه لنا

۱۳_ (عقيدہ) جبر كو ثابت كرنے كے ليے ''مشيت الہي'' سے تمسك كرنا، علمى اساس كے فقدان كى علامت ہے_

هل عندكم من علم فتخرجوه لنا

۱۴_ انسانى عقائد كا يقين و علم پر استوار ہونا ضرورى ہے_قل هل عندكم من علم فتخرجوه

۱۵_ مشيت الہى كے بارے ميں مشركين كے عقائد اور اس سے جبرى نظريات اخذ كرنے كى بنياد فقط ان كا ظن و گمان ہے_ان تتبعون الا الظن و ان كنتم الا تخرصون

۱۶_ عقائدى اور بنيادى مسائل ميں ظن و گمان كى كوئي اہميت اور حيثيت نہيں _

ان تتبعون الا الظن و ان انتم الا تخرصون

۱۷_ مشيت الہى كے بارے ميں مشركين كا قول اوردعوے اور اس سے جبر كا نتيجہ اخذ كرنا، سوائے ظن و گمان اور جھوٹ كے كچھ بھى نہيں _سيقول الذين اشركوا ان تتبعون الا الظن و ان انتم الا تخرصون

۱۸_ خداوندمتعال كسى كو بھى شرك پر مبنى عقيدہ قبول كرنے پر مجبور نہيں كرتا_

لو شاء الله ما اشركنا ان انتم الا تخرصون

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا دليل لانا۱۲; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱۲

احتجاج (دليل و حجت لانا) :مشركين سے اجتجاج ۱۲

امم :گذشتہ امتوں كا جبر كى جانب رجحان ۶

انبياء :تكذيب انبياء كا انجام ۹; تكذيب انبياء كے دلائل ۶; تكذيب انبياء كے موانع ۱۰

انسان :اختيار انسان ۱۱

۴۶۶

جبر :جبر كا بطلان ۱۱; جبر كا بے منطق ہونا ۱۳، ۱۵; جبر كى جانب رجحان كاسبب ۵; جبر كے آثار ۸;جبر و اختيار ۱۱، ۱۸

خدا تعالي:خداوند كے عذاب ۱۰;مشيت خدا ۵، ۱۳، ۱۵

دين :دين كے ليے خطرات كى پہچان۳، ۵، ۸

شرك :شرك كى توجيہ ۲; شرك ميں اختيار ۱۸

ظن :ظن كا غير معتبر ہونا ۱۶

عذاب :عذاب كے علل و اسباب ۹

عقيدہ :عقيدے ميں اختيار ۱۱، ۱۸; عقيدے ميں برہان كى اہميت ۱۴، ۱۶; عقيدے ميں ظن و گمان ۱۶، ۱۷

عمل :عمل ميں اختيار ۱۱

فرائض :فرائض و واجبات ميں بہانہ جوئي ۸

قرآن :قرآن كى پيشگوئي ۴

مباحات :مباحات كو تحريم كرنے كى توجيہ ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كا شرك ۱; صدر اسلام كے مشركين كى بدعت گذارى ۱; صدر اسلام كے مشركين كے افكار ۱; مشركين اور مشيت خدا ۳، ۱۷; مشركين كا جبر كى جانب رجحان ۱۷; مشركين كا جبر كى جانب مائل ہونے كا فلسفہ ۲، ۴; مشركين كى تاويلات ۲،۴; مشركين كے افكار ۳، ۱۲; مشركين كے دعوے۱۷; مشركين كے عقيدے كا خلاف منطق ہونا ۱۵; مشركين كے عقيدے كا منشا ۱۵

۴۶۷

آیت ۱۴۹

( قُلْ فَلِلّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاء لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ )

كہہ دليجے كہ الله كے پاس منزل تك پہنچانے والى دليليں ميں دہ اگر چاہتا تو جبراً تم سب كو ہدايت دے ديتا

۱_ محكم اور مكمل دليل فقط خداوندمتعال كے اختيار ميں ہے_قل فلله الحجة البلغة

۲_ جبر كى طرف مائل مشركين اپنے عقائد پر ہر قسم كى دليل و برھان سے عارى ہيں _

قل هل عندكم من علم ...فلله الحجة البلغة

۳_ جبر كے نظريئے اور شرك پر مبنى عقائد كى نفى پر خداوند متعال كے پاس مكمل دلائل اور حجتيں ہيں _

قل فلله الحجة البلغة

۴_ سنت خدا يہ ہے كہ محكم اور مكمل دلائل كے ساتھ اور خود انسانوں كے اختيار سے ان كى آزادانہ ہدايت كى جائے_

فلله الحجة البلغة فلو شاء لهدكم اجمعين

جملہء امتناعيہ ''لو شائ ...'' كا مفہوم يہ ہے كہ

خداوندمتعال بنى آدم كى آزادانہ ہدايت چاہتاہے نہ كہ ان كى جبرى ہدايت_ اس ہدايت كى كيفيت جملہ ''فللہ ...'' ميں بيان كى گئي ہے_ يعنى يہ كہ خداوندمتعال چاہتاہے كہ وہ بنى آدم كى مكمل اور محكم دلائل و حجتوں كے ساتھ ہدايت كرے_

۵_ انسان، ہدايت اور گمراہى كا راستہ انتخاب كرنے ميں مختار ہے_

قل فلله الحجة البلغة فلو شاء لهدى كم اجمعين

۶_ اگر مشيت خدا يہ ہوتى كہ وہ انسان كى جبراً ہدايت كرے تو بلا استثنا سب كى ہدايت كرديتا_

فلو شاء لهدى كم اجمعين

۷_ دوسروں كے افكار و عقائد كى تصحيح كرنے اور انھيں ہدايت كرنے كے ليے دليل و برھان پيش كرنا ضرورى ہے_

۴۶۸

قل فلله الحجة البلغة فلو شاء لهد كم اجمعين

۸_ خداوندمتعال كى تكوينى مشيّت، ناقابل تخلف ہے_فلو شاء لهدى كم اجمعين

۹_ خداوندمتعال كى سنت اور مشيّت يہ نہيں ہے كہ وہ بنى آدم كو جبراً ہدايت كرے يا گمراہ كرے_

فلو شاء لهد كم اجمعين

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام و قد سئل عن قوله تعالى ''فللّه الحجة البلغة'' فقال: ان الله تعالى يقول للعبد يوم القيامة : عبدى اكنت عالماً ؟ فان قال نعم_ قال له : افلا عملت بما علمت ؟ و ان قال : كنت جاهلا_ قال له : افلا تعلمت حتى تعمل فيخصمه فتلك الحجة البلغة (۱)

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ قيامت كے دن اللہ تعالى اپنے بندے سے سوال كرے گا، اے ميرے بندے، كيا تو ( اپنے شرعى وظائف كے حوالے سے ) عالم تھا يا جاھل ؟ اگر اس نے كہا عالم تو تب كہا جائے گا كہ تو نے اپنے علم كے مطابق عمل كيوں نہيں كيا ؟ اور اگر وہ كہے ميں جاہل تھا تو يہ كہا جائے گا كہ صحيح عمل كرنے كے ليے تو نے علم كيوں حاصل نہيں كيا ؟ غرض دونوں صورتوں ميں حجت قائم ہوجائے گى اور يہى حجت بالغہ ہے_

۱۱_عن ابى الحسن موسى بن جعفر عليه‌السلام فى حديث طويل : جميع امور الاديان اربعة و امر يحتمل الشك والانكار فسبيله استيضاح اهله لمنتحليه بحجة من كتاب الله مجمع على تاويلها و سنة مجمع عليها لا اختلاف فيها، او قياس تعرف العقول عدله و لا يسع خاصة الامة و عامتها الشك فيه و الانكار له ...فمن اورد واحدة من هذه الثلاث فهى الحجة البالغة التى بينها الله فى قوله لنبيه : ''قل فلله الحجة البالغة (۲)

حضرت امام موسى كاظمعليه‌السلام سے ايك طولانى حديث ميں منقول ہے كہ اديان كے امور چار طرح كے ہيں _ ايك وہ امر ہے جس ميں شك و انكار كا احتمال ہے_ اس كى راہ يہ ہے كہ اس كا اعتقاد ركھنے والوں سے اس كى وضاحت طلب كى جائے_ (تا كہ) كتاب خدا كى حجت كے ذريعے (ايك دليل لائيں ) كہ جس كا مفہوم اجماعى ہو_

يا اس سنت كے مطابق ہو جس ميں اختلاف نہ ہو يا اس قياس كے مطابق ہو كہ عقل جس كى صحت كى تائيد كرے اور كسى كےليے بھى قابل انكار اور مورد شك نہ ہو_ جو كوئي بھى ان تين ميں سے ايك حجت لے آئے تو يہى حجت بالغہ ہے كہ جس كے

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ج ۱ ص ۸ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۷۶ ح ۳۳۰_

۲) تحف العقول، ص ۴۰۷ بحار الانوار ج ۲ ص ۲۳۸ ح ۳۱_

۴۶۹

بارے ميں خداوندمتعال نے قرآن ميں اپنے پيغمبر(ص) سے فرمايا ہے:''قل فلله الحجة البلغة''

انسان :اختيار انسان ۴، ۵، ۶، ۹

تربيت :تربيت كا طريقہ ۷

جبر :جبر اور اختيار ۶ ،۹ ; جبر كا خلاف منطق ہونا ۲; جبر كے بطلان كے كے دلائل ۳

خدا تعالى :اتمام حجت خدا ۱۱; خدا كى طرف سے دليل ۳; خدا كى طرف سے ہدايت ۴; سنن خدا ۴، ۹; قدرت خدا ۶; مختصات خدا ۱۱;مشيت خدا ۶، ۹; مشيت خدا كا حتمى ہونا ۸

دين :دين ميں اكراہ كى نفى ۴، ۵، ۶

روايت : ۱۰، ۱۱

شرك :بطلان شرك كے دلائل ۳

عقيدہ :عقيدہ كى تصحيح كرنے كى روش ۷

قيامت :قيامت كے دن مؤاخذہ ۱۰

گمراہى :گمراہى ميں اختيار ۵،۹

مشركين :جبر كى جانب مائل مشركين كا خلاف منطق رويہ۲

ہدايت :ہدايت ميں اختيار ۴، ۵، ۹

۴۷۰

آیت ۱۵۰

( قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللّهَ حَرَّمَ هَـذَا فَإِن شَهِدُواْ فَلاَ تَشْهَدْ مَعَهُمْ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ )

كہہ دليجے كہ ذرا اپنے گواہوں كو تو لاو جو گواہى ديتے ميں كہ خدا نے اس چيز كو حرام قرار دياہے _ اس كے بعد وہ گواہى بھى دے ديں تو آپ ان كے ساتھ گواہى نہ دليجے گا اور ان لوگوں كے خواہشات كا اتباع نہ كجيے گا جنھوں نے ہمارے آيتوں كو جھٹلايا ہے اور وہ آخرت پر ايمان نہيں ركھتے ميں اور اپنے پروردگار كا ہمسر قرار ديتے ہيں

۱_ بيہودہ تحريمات كے مدعى افراد كو حجت و دليل پيش كرنے اور مناظرہ كرنے كى دعوت دينے كے سلسلے ميں خداوندمتعال كا پيغمبر(ص) كى راہنمائي كرنا_قل هلم شهداء كم الذين يشهدون

۲_ صدر اسلام كے مشركين اپنى ناروا تحريمات اور بدعتوں كى نسبت خدا كى طرف ديتے تھے_

هلم شهداء كم الذين يشهدون ان الله حرم هذا

۳_ صدر اسلام كے مشركين كے پاس اپنى تحريمات كي حقانيت پر كسى قسم كا سچا اور معتبر گواہ نہيں تھا_

هلم شهداء كم الذين يشهدون ان الله حرم هذا

۴_ ناحق شھادت اور گواہى دينے والوں كا ساتھ دينا اور ان كى تصديق كرنا، حرام ہے_

فان شهدوا فلا تشهد معهم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا با ى تنا

۵_ مشركين جن تحريمات كے مدعى ہيں اگر وہ ان پر گواہ اور دليل بھى لے آئيں تو وہ جعلى اور بے بنياد ہوں گى _

۴۷۱

قل هلم فان شهدوا فلا تشهد معهم

۶_ اگر بے بنياد تحريمات كے مدعى اپنے دعوے پر جعلى اور بناوٹى گواہ بھى لے آئيں تو بھى ان كى تصديق نہيں ہونى چاہيئے_قل هلم فان شهدوا فلا تشهد معهم

۷_ مشركين كى بے جا تحريمات انكى نفسانى خواہشات كا نتيجہ ہيں اور كسى قسم كى قدر و قيمت اور اعتبار نہيں ركھتيں _

فان شهدوا فلا تشهد معهم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا

۸_ منحرف اور گمراہ افراد كى خواہشات كى پيروى كرنے سے پيغمبر(ص) كو بچنا چاہيئے_و لا تتبع اهواء الذين كذبوا با ى تنا

۹_ مؤمنين كے ليے، گمراہوں اور بدعت گذاروں كى خواہشات كى پيروى كرنے كا خطرہ موجود ہونا_

و لا تتبع اهواء الذين كذبوا بآيتنا

اگر چہ ''لا تتبع ...'' ميں خطاب پيغمبر(ص) سے ہے ليكن در حقيقت سب مؤمنين اس كے مخاطب ہيں _

۱۰_ بلا دليل تحريمات (بدعت ايجاد كرنا)، نفسانى خواہشات كے تابع ہوتى ہيں _

الذين يشهدون ان الله حرّ م و لا تتبع اهواء

۱۱_ خواہشات نفسانى كى پيروي، ناحق گواہى دينے كا پيش خيمہ ہے_

فان شهدوا فلا تشهد معهم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا

۱۲_ بے بنياد تحريمات كے مدعى افراد ہى آيات خدا كے جھٹلانے والے اور آخرت كے منكر ہيں _

قل هلم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا با ى تنا والذين لا يؤمنون بالاخرة

۱۳_ مؤمنين كو افكار و اعمال اور طور طريقوں ميں مشركين اور معاد (آخرت) كے منكرين كى تقليد نہيں كرنى چاہيئے_

و لا تتبع اهواء الذين و هم بربهم يعدلون

۱۴_ مشركين، خداوندمتعال كے ساتھ ربوبيت ميں شريك كے وجود كا اعتقاد ركھتے ہيں _

والذين لا يؤمنون بالاخرة و هم بربهم يعدلون

۱۵_ خداوندمتعال ايك ايسى حقيقت ہے كہ جس كا نہ كوئي شريك ہے نہ عديل اور نہ ہى نظير_و هم بربهم يعدلون

۴۷۲

آخرت :آخرت كوجھٹلانے والے ۱۲

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) اور بدعت ايجاد كرنے والے لوگ ۱; آنحضرت(ص) اور گمراہ لوگ ۸; آنحضرتعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱،۸

آيات خدا :آيات خدا كے مكذبين ۱۲

احتجاج :بدعت ايجاد كرنے والوں كے خلاف احتجاج (دليل لانا) ۱

احكام : ۴

افترا :خداوندمتعال پر افترا باندھنا ۲

بدعت :بدعت كا بے اعتبار ہونا ۶، ۷; بدعت كا منشاء ۱۰; بدعت كے علل و اسباب ۷

بدعتى افراد:بدعت ايجاد كرنے والوں كى بے منطقى ۶; بدعت ايجاد كرنے والوں كى پيروى كا خطرہ ۹

تقليد :ناپسنديدہ تقليد ۱۳

جاہليت :رسوم جاہليت ۵

خدا تعالى :اوامر خدا ۱; تنزيہ خدا ۱۵; خدا سے مختص امور ۱۵; خدا كا بے نظير ہونا ۱۵; وحدانيت خدا ۱۵

گواہى :احكام كى گواہى ۴; جھوٹى گواہى كا بے اعتبار ہونا ۶; ناحق گواہى كا مقدمہ ۱۱;ناحق گواہى كى تصديق كرنے كى حرمت ۴

مباحات :ايام جاہليت ميں مباحات كى تحريم ۵; مباحات كى تحريم ۱، ۲، ۳، ۶، ۱۲; مباحات كى تحريم كا منشاء ۷،۱۰

محرمات : ۴

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كابے منطق ہونا۵; صدر اسلام كے مشركين كى بدعت گذارى ۲;مشركين بدعتيوں كى بے اعتباري۳; مشركين كاخدا پر افترا۲; مشركين كا بے منطق رويہ ۵; مشركين كا شرك ربوبى ۱۴; مشركين كا عقيدہ ۱۴; مشركين كى بدعت گذارى ۵; مشركين كى خواہش پرستى ۷; مشركين كى رسوم تقليد۳

معاد : معاد كو جھٹلانے والوں كى پيروى ۱۳

۴۷۳

منحرفين :منحرفين كى پيروى ترك كرنا ۸; منحرفين كى پيروى كا خطرہ ۹

مومنين:مومنين كو خبردار كيا جانا۹; مومنين كى ذمہ داري۱۳

نفسانى خواہشات :نفسانى خواہشات كے آثار ۱۰، ۱۱

آیت ۱۵۱

( قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئاً وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ )

كہہ دليجے كہ آو ہم تمہيں بتايں كہ تمھارے پروردگار نے كيا كيا حرام كيا ہے _ خبردار كسى كو اس شريك نہ بنانا اور مال باپ كے ساتھ اچھابرتاو كرنا _ اپنى اولاد غربت كى بنا پر قتل نہ كرنا كہ ہم تمہيں بھى رزق دےرہے ميں اور انہيں بھى _اور بدكاريوں كے قريب نہ جانا وہ ظاہرى ہوں يا چھپى ہوئي اور كسى ايسے نفس كو جسے خدا نے حرام كرديا ہے قتل نہ كرنا مگر يہ كہ تمہارا كوئي حق ہو _ يہ وہ باتيں ميں جن كے خدا نے نصيحت كى ہے تا كہ تمہيں عقل آجاے

۱_ پيغمبر(ص) كو خداوندمتعال كى جانب سے حكم ہوتاہے كہ لوگوں كو بلاؤ اور ان كے ليے محرمات الہى بيان كرو_

قل تعالوا اتل ما حرم ربكم عليكم

''اتل'' كا مصدر ''تلاوت'' ہے جس كا مطلب، پڑھنا ہے_ چونكہ ''اتل'' فعل امر ''تعالوا'' كے جواب ميں آياہے، شرط مقدر كى وجہ سے اس پر جزم ہے اور'' عليكم'' ''اتل''اور ''حرم'' سے متعلق ہے_

۲_ لوگوں كے ليے محرمات الہى بيان كرنا پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے_اتل ما حرم ربكم عليكم

۳_ لوگوں كو دعوت دينا اور ان كے ليے محرمات الہى بيان كرنا، دينى رھبروں كا فريضہ ہے_

قل تعالوا اتل ما حرم ربكم عليكم

۴_ خداوند،متعال انسانوں كا پروردگار ہے اور احكام كا وضع كرنا، انسانوں پر اس كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

قل تعالوا اتل ما حرّ م ربكم عليكم

''حرّ م'' كے ليے فاعل كے عنوان سے ''ربّ'' كے انتخاب سے مندرجہ بالامفہوم اخذ ہوتاہے يعنى چونكہ خدا تمھارا پروردگار اور تمھارے امور كامدبّر ہے لہذا مذكورہ احكام اس نے تمہارے ليے وضع كيے ہيں _

۴۷۴

۵_ احكام كا وضع كرنا، خداوندمتعال كے اختيار ميں ہے اور پيغمبر(ص) (فقط) احكام كو بيان كرنے والے ہيں _

اتل ما حرم ربكم عليكم

۶_ انسانوں پر خداوندمتعال كى ربوبيت كى جانب توجہ، اس كے احكام (قوانين) كو قبول كرنے كا مقدمہ بنتى ہے_

اتل ما حرم ربكم عليكم

شرك كى تحريم كے عنوان سے ربوبيت خدا كو بيان كرنے كے مقاصد ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ انسانوں كو سمجھا ديا جائے كہ محرمات الہى ان كى تربيت كے ليے ہيں تا كہ ان ميں انھيں قبول كرنے كى راہ ہموار ہوجائے_

۷_ خداوندمتعال كے ليے شريك قرار دينا محرمات الہى ميں سے ہے_الا تشركوا به شيئا

''الا تشركوا'' ميں ''ان'' تفسيريہ اور ''لا'' ناھيہ ہے_

۸_ اديان الہى ميں اہم ترين عقائدى اصل، توحيد ہے_اتل ما حرم عليكم الا تشركوا به شيئا

يہاں فعل ماضى ''حرم'' كا استعمال اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ آيات كے اس حصے ميں مذكورہ اصول (توحيد) تمام اديان الہى كا ايك مشتركہ اصول ہے_ اس كے علاوہ يہاں ، اصل توحيد پر اعتقاد اور شرك سے پرہيز كو مذكورہ محرمات اور واجبات و فرائض ميں سر فہرست ركھا گيا ہے_ اس سے بھى اس كى (يعنى اصل توحيد كي) اہميت و برترى ظاہر ہوتى ہے_

۹_ غير خدا كو احكام و محرمات وضع كرنے كے لائق سمجھنا، شرك كرنے كے مترادف ہے_

ما حرم ربكم عليكم الا تشركوا به شيئا

۱۰_ماں باپ سے نيكى كرنا واجبات ميں سے ہے اور اسكا ترك كرنا الہى محرمات ميں سے ہے_

اتل ما حرم ربكم عليكم و بالوالدين احسنا

''احساناً'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور جانشين فعل ہے يعنى ''احسنوا بالوالدين احسانا'' يہ بھى قابل توجہ ہے كہ جملہ ''اتل ما حرم ...'' يہ بيان كررہاہے كہ بعد والے جملات، محرمات كى تبيين كے ليے ہيں جبكہ جملہ ''بالوالدين احسانا'' احسان كے وجوب كى حكايت كررہاہے_ بنابرايں كہنا چاہيئے كہ مذكورہ جملہ ترك احسان كى حرمت پر بھى دلالت كرتاہے اور علمائے اصول فقہ كى اصطلاح كے مطابق يہاں ''امر اپنے عام ضد سے نہى كا تقاضا كرتا ہے''

۴۷۵

۱۱_ الہى فرائض ميں ماں باپ سے نيكى كرنے كو خاص اہميت حاصل ہونا_الا تشركوا به شيئا و بالوالدين احسنا

اہم ترين اعتقادى اصل (توحيد) كو بيان كرنے كے بعد جملہ ''و بالوالدين احسنا'' كا لايا جانا، اس امر كى خصوصى اہميت ظاہر كرتاہے_ يعنى ''ما ں باپ سے نيكى كے لزوم پر دلالت كررہاہے''_

۱۲_ زمانہ بعثت كا جاہلى معاشرہ شرك سے آلودہ اور ماں باپ كى نسبت بے توجہ اور لاپروا ہ معاشرہ تھا_

و بالو لدين احسنا

۱۳_ فقر اور نادارى كے سبب اولاد كا قتل كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے_و لا تقتلوا اولادكم من املق

''املاق'' كا معنى ضرورت مند اور محتاج ہوناہے يہاں ''من'' تعليليہ( علت بيان كرنے كے ليئے)ہے_

۱۴_ فقر و نادارى كا انتہائي درجہ بھي، اولاد كے قتل كا جواز فراہم نہيں كرتا_لا تقتلوا اولادكم من املق

مندرجہ بالا مفہوم، ''املاق'' كے نكرہ ہونے كى وجہ سے اخذ كيا گيا ہے يعنى وہ فقر اور نادارى كہ جو انتہائي شاذ و نادر ہوتى ہے_ اس بناء پر لوگ اس سے آگاہ نہيں ہيں _

۱۵_ سب لوگوں (ماں ، باپ اور انكى اولاد) كو روزى دينے والا خداوندمتعال ہے_نحن نرزقكم و اياهم

۱۶_ اولاد كا قتل، فقر و تنگدستى كو ختم نہيں كرتا_لا تقتلوا اولدكم من املق نحن نرزقكم و اياهم

جملہ''نحن نرزقكم '' كى دو طرح سے تفسير كى جاسكتى ہے

۱_ روزى دينے اور فقر و تنگدستى برطرف كرنے كا وعدہ_ اس كا مقصد، فقر و نادارى كے ختم ہونے تك استقامت و پائيدارى كى دعوت ہے

۲ اس چيز كا بيان كہ تمہارى روزى خدا كے ہاتھ ميں ہے اور بعض شرائط اور مصالح كى بنا پر وہ تمہيں فقر و تنگ دست ركھنا چاہتاہے لہذا، اولاد كا ہونا يا نہ ہونا تمھارے فقر اور غنى ہونے پر اثر انداز نہيں ہوتا_ مندرجہ بالا مفہوم، دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_ يہ بھى كہا گيا ہے كہ فقر جوكہ ''من املاق'' سے اخذ ہوتاہے اسى احتمال (دوم) كى تائيد كرتاہے_

۴۷۶

۱۷_ خداوند متعال كى رزاقيت پر اعتقاد ركھنا، فقر و تنگدستى كى وجہ سے اولاد كو قتل كرنے كے مانع بنتاہے_

لا تقتلوا اولدكم من املق نحن نرزقكم و اياهم

۱۸_ زمانہ جاہليت ميں ، فقر و تنگدستى كے سبب اولاد كو قتل كرنے كا رواج ہونا_لا تقتلوا اولدكم من املق

۱۹_ انسانوں كى روزى فراہم ہونے ميں علل و اسباب كى دخالت_نحن نرزقكم و اياهم

مندرجہ بالا مفہوم، اس جملے ميں ''نحن ما'' كے استعمال سے اخذ كيا گياہے_

۲۰_ برے اوربے حيائي كے كام خواہ آشكارا انجام پائيں خواہ مخفيانہ (ہر صورت ميں ) حرام ہيں _

و لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

برے اور برائي كے كاموں كى تقسيم ''ما ظھرمنہ و ما بطن'' ہوسكتابرے كام كى كيفيت اور انجام پانے كے طريقے كى وجہ سے ہو_ يعنى زنا جيسا فحش كا م مخفى بھى انجام پاسكتاہے اور علنى بھى اس كا ارتكاب ہر دو صورت ميں حرام ہے_

۲۱_ برے كردار كى دونوں قسميں (يعنى وہ قسم كہ جو عام طور پر مخفيانہ انجام دى جاتى ہے اور دوسرى جسے لوگ مخفيانہ انجام دينا نہيں چاہتے) دونوں محرمات الہى ميں سے ہيں _لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گياہے ''فواحش'' كى تقسيم ''ما ظھر منھا و ما بطن'' تمام برے كاموں كے مطابق ہو_ يعنى برے كردار دو قسم كے ہيں ايك وہ كہ جو عام طور پر خفيہ انجام پاتے ہيں مثلاً زنا، اور دوسرى قسم وہ ہے جسے لوگ خفيہ ركھنا نہيں چاہتے_ جيسے بعض ظلم و ستم، لہذا يہ دونوں قسميں محرمات ميں شمار ہوتى ہيں _

۲۲_ على الاعلان برے كام كرنے كى برائي اور حرمت مخفيانہ انجام دينے سے زيادہ شديد اور قبيح ہے_

لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

ہوسكتاہے ''ما ظھر'' كا ''ما بطن'' پر مقدم ہونا، مندرجہ بالا مفہوم كى جانب اشارہ ہو_

۲۳_ انسانوں كو ناحق قتل كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے_و لا تقتلوا النفس التى حرم الله الا بالحق

''بالحق'' مفعول مطلق محذوف يعنى ''قتلا'' كى صفت ہے اور اس كا ''با'' ملا بست كا معنى دے رہاہے يعنى :''لا تقتلوا النفس الا قتلا متلبسا بالحق''

۴۷۷

۲۴_ انسان كے قتل كى حرمت، بارگاہ خداوندمتعال ميں اس كے امتيازات ميں سے ہے_

و لا تقتلوا النفس التى حرم الله الا بالحق

''التى حرم اللہ'' (الا بالحق) كے استثنا ہونے كى وجہ سے ''النفس'' كے ليے توضيحى صفت ہے_ اور اس كا معنى يہ ہے كہ انسان كو قتل كرنے كى حرمت، انسان كى تعريفات ميں سے شمار كى جاتى ہے اور اس كے امتيازات ميں سے سمجھى جاتى ہے_

۲۵_ شرك سے بچنا، ماں باپ سے نيكى و احسان كرنا، اور اولاد كے قتل كرنے سے پرہيز كرنا، انسانوں كے ليے خداوندمتعال كى نصيحتوں ميں سے ہے_الا تشركوا به شيئا ذلك و صى كم به

۲۶_ خداوند متعال كى نصيحتوں ميں سے ايك، برے كاموں سے دورى اختيار كرنا اور بےگناہوں كو قتل كرنے سے پرہيز كرناہے_و لا تقربوا الفواحش ذلك وصى كم به

۲۷_ (شرك و غيرہ سے بچنے كے بارے ميں ) خداوند متعال كى نصيحتيں ، ايسے حقائق ہيں كہ انسانوں كو ان ميں دقت كرنى چاہيئے اور ان سے بچنے كى ضرورت كو اپنى عقل سے درك كرنا چاہيئے_

ذلكم وصى كم به لعلكم تعقلون

''تعقلون'' كا مفعول، مذكورہ محرمات سے پرہيز كرنے كى ضرورت ہے_ ''وصيت'' سے مراد ''تعقلون'' كے قرينے سے ہوسكتاہے مذكورہ احكام ميں غور فكركرنا ہو_ بنابراايں جملہ ''وصى كم بہ ...'' يعنى خداوندمتعال نے وصيت كى ہے كہ تم مذكورہ محرمات ميں غور كرو اور ان سے پرہيز كرنے اور بچنے كى ضرورت كو اپنى عقل سے درك كرو_

۲۸_ (شرك سے اجتناب، والدين سے نيكى و احسان و غيرہ ) پنجگانہ تعليمات عقل كے عين مطابق ہيں _

ذلكم وصى كم به لعلكم تعقلون

۲۹_ (شرك و غيرہ سے پرہيز) جيسى پانچ نصيحتوں پر عمل، عقل و فكر كے پھلنے پھولنے كا مقدمہ فراہم كرتاہے_

ذلكم وصى كم به لعلكم تعقلون

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر مبنى ہے كہ ''تعقلون'' نازل منزلہ فعل لازم ہے اور جسے مفعول كى ضرورت نہيں _ اور وصيت سے مراد مذكورہ احكام پر عمل كرنا ہے_

۴۷۸

۳۰_ (شرك سے پرہيز جيسے) پنجگانہ فرائض ايك دوسرے سے گہرا رابطہ ركھتے ہيں اور ايك ہى فريضہ سمجھے جاتے ہيں _

ذلك وصى كم به

پنچگانہ محرمات كى جانب اشارے كے ليے ''ذلكم'' اسم اشارہ مفرد اور ''بہ'' كى مفرد ضمير لانا ہوسكتاہے اس ليے ہو كہ وہ محرمات ايك دوسرے سے اس طرح مربوط ہيں كہ گويا ايك ہى فريضہ سمجھے جاتے ہيں _

۳۱_عن ابى ولاد الحناط قال : سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل : ''و بالوالدين احسانا'' ما هذا الاحسان ؟ فقال : الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا تكلفهما ان يسالاك شيئا مما يحتاجان اليه و ان كانا مستغنين (۱)

ابو ولاد كہتے ہيں ميں نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے، خداوندمتعال كے اس كلام ''و بالوالدين احسانا'' كے بارے ميں سؤال كيا، آپعليه‌السلام نے فرمايا : احسان يہ ہے كہ ان دونوں سے نيك سلوك كرو اور انھيں اپنى ضروريات كے بارے ميں ، مجبور كركے اس مشكل ميں نہ ڈالو كہ وہ تجھ سے سوال كريں (يعنى تجھ سے مانگنے كى زحمت برداشت كريں ) اگر چہ وہ مالى لحاظ سے غنى ہى كيوں نہ ہوں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا كردار۵; آنحضرت(ص) كى دعوت ۸; آنحضرت-(ص) كى ذمہ دارى ۱،۲

احسان :مفہوم احسان ۳۱

احكام : ۷، ۱۰، ۱۳، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳احكام كا وضع ہونا ۴، ۵، ۹;احكام كى وضاحت ۵

انسان :انسان كى خصوصيت ۲۴;انسان كى ذمہ دارى ۲۷; انسان كے مقامات ۲۳، ۲۴

اولاد كاقتل :اولاد كشى سے اجتناب ۲۵; اولاد كشى كى حرمت ۱۳، ۱۴ ;اولاد كشى كے موانع ۱۷;ايام جاہليت ميں اولاد كشى ۱۸; فقر اور اولاد كشى ۱۶

ايمان :ايمان كے آثار ۱۷; خدا كے رازق ہونے پر ايمان ۱۷

برائي :آشكار برائي ۲۰، ۲۲;برائي سے اجتناب ۲۶; برائي كى حرمت ۲۰، ۲۲; خفيہ برائي ۲۰، ۲۲

توحيد :اديان الہى ميں توحيد ۸;توحيد كى اہميت ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۱۵۷ ح/ ۱ بحار الانوار ج/ ۷۱ ص ۳۹ ح ۳_

۴۷۹

جاہليت :رسوم جاہليت ۱۸

خدا تعالى :خدا كا رازق ہونا ۱۵;خدا كى ربوبيت كے مظاہر۴; خدا كى نصيحتيں ۲۵،۲۶،۲۷; خدا كى نصيحتوں پر عمل ۲۹; خدا كے اوامر ، ۱; خدا كے ساتھ خاص امور۵

دين :دين اور عقل ميں ہم آہنگى ۲۷، ۲۸;دين كو قبول كرنے كا پيش خيمہ۶;دين كى تعليمات كا نظام ۳۰

روايت : ۳۱

روزى :روزى كا منشا ۱۵، ۱۹;روزى كے اسباب ۱۹

رہبرى :رہبرى كى ذمہ دارى ۳

شرك :ايام جاہليت ميں شرك ۱۲; شرك سے اجتناب ۲۵، ۲۸; شرك سے بچنے كے آثار ۲۹;شرك كى حرمت ۷; شرك كے موارد ۹

عقل :عقل كا كردار ۲۷;عقل كى رشد كى راہ ۲۹

عمل :آشكار طور پر ناپسنديدہ عمل انجام دينا ۲۱ ;خفيہ طور پر ناپسنديدہ عمل كرنا ۲۱;ناپسنديدہ عمل ترك كرنا ۲۸; ناپسنديدہ عمل كى حرمت ۲۱

فرائض :فرائض كا باہمى ارتباط ۳۰

فقر :ايام جاہليت ميں فقر ۱۸;فقر كے آثار ۱۳، ۱۴

قتل :حرمت قتل ۲۴;ناحق قتل سے اجتناب ۲۶; ناحق قتل كى حرمت ۲۳

محرمات : ۷، ۱۰، ۱۳، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

محرمات كو بيان كرنا ۱، ۲، ۳

واجبات : ۱۰

والدين :ايام جاہليت ميں والدين كا مقام ۱۲;والدين سے احسان ۱۰، ۲۵، ۲۸، ۳۱; والدين سے احسان كى اہميت ۱۱; والدين سے رويہ اپنا نے كى روش ۳۱

ياد:ربوبيت خدا كو يا د كرنا۶; ياد كے آثار۶

۴۸۰