تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167841 / ڈاؤنلوڈ: 5034
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

متجاوزين : ۹

محرمات :ايام جاہليت كے محرمات ۸

مشركين :ايام جاہليت كے مشركين ۸

نعمات :نعمات سے استفادہ ۷

يہود :يہود اور بھيڑ كى چربى ۲; يہود اور حرام غذائيں ۱، ۲، ۳; يہود اور گائے كى چربى ۲;يہود اور ناخن والے حيوانات ۲; يہود كا تجاوز اور تعدى كرنا، ۹، ۱۱، ۱۲; يہود كى محرمات ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۲; يہود كے تجاوز و تعدى كى سزا ۵، ۱۲; يہوديوں كے غذائي منابع ۴; يہود كے نزديك چربى كى اہميت ۴; يہود ميں حيوانات كى تحريم ۵، ۱۲

آیت ۱۴۷

( فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ )

پھر اگر يہ لوگ آپ كو جھٹلا ئيں تو كہہ ديجئے كہ تمھارا پروردگار بڑى وسيع رحمت والاہے ليكن اس كا عذاب مجرمين سے ٹالا بھى نہيں جاسكتا ہے

۱_ پيغمبر(ص) مامور ہيں كہ آپ(ص) ، وحى كو جھٹلانے والوں كى توجہ خداوندمتعال كى وسيع رحمت كى جانب مبذول كراتے ہوئے انھيں اس كے حتمى (ويقيني) عذاب سے ڈرائيں _فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۲_ پيغمبر(ص) كو مشركين كى جانب سے جھٹلائے جانے كامنتظر اور ان كے روبرو ہونے كے ليے آمادہ رہنا چاہيئے_

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

جملہ ''ان كذبوك'' پيغمبر(ص) سے خطاب ہے_ اور آنحضرت(ص) كے مقابل مشركين كى طرف سے جھٹلائے جانے كى پيش گوئي كى گئي ہے_ اس تكذيب كا مقابلہ كرنے كے ليے، ''قل ربكم'' اور ''و لا يرد ...'' كہہ كر اس كا راہ حل بتايا گيا ہے_

۴۶۱

۳_ پيغمبر (ص) كو جھٹلانا، خدا كو جھٹلانے كے مترادف ہے_و انا لصدقون_ فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

۴_ پيغمبر(ص) كو جھٹلانے والے افراد كو خداوندمتعال كى جانب سے مہلت دى جانا اور انھيں ہلاك نہ كرنا، پروردگار كى وسيع رحمت كا جلوہ ہے_فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

۵_ تحريمات اور ان كى علل كے بارے ميں خداوندمتعال كى خبروں كے سچا ہونے كے باوجود، ممكن ہے كہ مشركين ان كو جھٹلانے لگيں _و انا لصدقون فان كذبوك

۶_ دينى پيغام پہنچانے والے (مبلغين) كو چاہيئے كہ وہ جھٹلائے جانے كے ليے اور اس كا مقابلہ كرنے كے ليے اپنے آپ كو آمادہ ركھيں _فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة

۷_ ربوبيت الہى كا تقاضا ہے كہ سب لوگوں كو اميد دلائي جائے اور مجرمين كو مہلت ديكر ان كو خبر دار كيا جائے_

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۸_ خداوندمتعال كى رحمت، اس كے غضب پر مقدم ہوتى ہے_

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة و سعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۹_ رحمت خدا كا وسيع ہونا، مجرمين كو سزا دينے كے مانع نہيں ہوگا_ذو رحمة و سعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۰_ جس چيز كو خداوند متعال نے حرام نہيں كيا اسے حرام قرار دينا اور وحى كى تكذيب كرنا، جرم ہے_

قل لا اجد فيما اوحى الى محرما فان كذبوك و لا يرد باسه

۱۱_ جرم، عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كى راہ ہموار كرتاہے_و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۲_ ايك مجرم معاشرہ، اپنے آپ كو رحمت خدا سے محروم كركے، اس كے عذاب كا مستحق بن جاتاہے_

و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

''باس'' لغت ميں شدت كے معنى ميں ہے اور اس آيت ميں عذاب سے كنايہ ہے_

۱۳_ وحى الہى كى تكذيب كرنے والوں كا مقابلہ كرنے كا ايك كلى طريقہ يہ ہے كہ انھيں رحمت الہى سے آگاہ كركے، عذاب خدا سے ڈرايا جائے_

۴۶۲

فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۴_ لوگوں كو دين كى جانب دعوت دينے اور تبليغ كرنے ميں ، بشارت اور انذار (ڈرانے) سے استفادہ كرنے كى ضرورت_فان كذبوك فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

۱۵_ مجرم قوموں پر عذاب بھى رحمت خدا كا ايك جلوہ ہے_

فقل ربكم ذو رحمة واسعة و لا يرد باسه عن القوم المجرمين

جملہ ''ذو رحمة واسعة'' كے بعد، جملہ ''و لا يرد باسہ'' آنا، يہ ظاہر كرتاہے كہ مجرم اقوام كو عذاب ديا جانا بھي، خداوند متعال كى وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) او رمشركين ۲; آنحضرت(ص) كو جھٹلانا ۲،۳; آنحضرت كو جھٹلانے والے ۲; آنحضرت(ص) كو جھٹلانے والوں كو مہلت۴; آنحضرت(ص) كو خبردار كيا جانا۲; آنحضرت كى جانب سے انداز ۱

اقوام :مجرم اقوام كا عذاب ۱۵

اميد :اميد كے علل و اسباب ۷

تبليغ :تبليغ ميں بشارت ۱۴; تبليغ ميں ڈرانا ۱۴;روش تبليغ ۱۴

جرم :جرم كے آثار ۱۱; موارد جرم ۱۰

خدا تعالي:اخبار خدا كا سچا ہونا ۵; خدا كا غضب ۸;خدا كو جھٹلانا ۳; خدا كى طرف سے مہلت ۴;ربوبيت خدا كے آثار ۷;رحمت خدا كا ابلاغ ۱۳; رحمت خدا كا مقدم ہونا ۸; رحمت خدا كے آثار ۹;رحمت خدا كے مظاہر ۴، ۱۵

دين :تبليغ دين ۱۴

ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۱، ۱۳

رحمت :رحمت خدا سے محروم لوگ ۱۲

عذاب :اہل عذاب ۱۲; موجبات و اسباب عذاب ۱۱

مباحات :مباحات كو حرام قرار دينے كا جرم ۱۰

۴۶۳

مبلغين :مبلغين كو خبردار كيا جانا ۶; مبلغين كى آمادگى ۶

مجرمين :مجرمين كو خبردار كرنا ۷; مجرمين كو مہلت ۷; مجرمين كى سزا ۹

مشركين :مشركين اور خدائي خبريں ۵; مشركين كى تكذيب ۵

معاشرہ :مجرم معاشرے كا عذاب ۱۲; مجرم معاشرے كى محروميت ۱۲

وحى :وحى كى تكذيب كا جرم ۱۰; وحى كى تكذيب كرنے والوں كو۱نذار ۱، ۱۳، ۱;وحى كى تكذيب كرنے والوں كے خلاف اقدام كرنے كا طريقہ ۱۳

ياد دہاني:رحمت خدا كى ياد دہانى ۱

آیت ۱۴۸

( سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم حَتَّى ذَاقُواْ بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ )

عنقريب يہ مشركين كہيں گے كہ اگر خدا چاہتا تونہ ہم مشرك ہوتى نہ ہمارى باپ دادا اور نہ ہم كسى چيز كو حرام قرار ديتے _اسى طرح ان سى پہلے والوں نے رسولوں كى تكذيب كہ تھى يھاں تك كہ ھمارے عذاب كا مزہ چكھ ليا _ ان سے كہہ دليجے كہ تمہارے پاس كوى دليل ہے تو ہميں بھى بتاو _ تم تو صرف خيالات كا اتباع كرتے ہو اور اندازوں كى باتيں كرتے ہو

۱_ صدر اسلام كے مشركين اپنے اور اپنے آباو اجداد كے كے شرك اور دوسرى بدعتوں كو مشيت الھى اور اسكى

۴۶۴

رضايت سے وابستہ سمجھتے تھے_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا و لا ء اباؤنا

۲_ جبر(كا عقيدہ) مشركين كے ہاتھ ميں ايك ايسا ہتھيار ہے كہ جس سے وہ اپنے اور اپنے آبا و اجداد كے شرك اور حلال خدا كو حرام كرنے كى توجيہ كرتے ہيں _سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا و لا اباؤنا و لا حرمنا من شيئ

۳_ مشركين ''مشيت الہي'' كا غلط مفہوم ليتے تھے_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا

۴_ مشركين كا مستقبل (قريب) ميں اپنے عقائد اور اعمال كى توجيہ كرنے كا ليے (عقيدہ) جبر سے تمسك كرنے كے سلسلے ميں قرآن كا پيشگوئي كرنا_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا

۵_ ''مشيت الہي'' سے غلط مفہوم مراد لينا ہى عقيدہ جبر كو ظاہر كرنے (اور پھيلانے) كا وسيلہ ہے_

لو شاء الله ما اشركنا و لا أ باؤنا

۶_ گذشتہ اقوام بھى صدر اسلام كے مشركين كى طرح، عقيدہ جبر كو وسيلہ بنا كر انبياء الہى كى تكذيب كرتى تھيں _

كذلك كذب الذين من قبلهم

۷_ صدر اسلام كے مشركين اپنے آباؤ و اجداد كے طور طريقوں سے تمسك كرتے ہوئے اپنے عقائد و اعمال كى توجيہ كرتے تھے_ما اشركنا و لا أ اباؤنا

مشركين اپنے آبا و اجداد كا شرك بيان كركے، اپنے عقائد كے ليے ايك تاريخى سند اور توجيہ پيش كرنا چاہتے تھے_

۸_ (عقيدہ) جبر كى طرف رجحان ذمہ دارى سے فرار كا ايك بہانہ ہے_سيقول الذين اشركوا لو شاء الله ما اشركنا

۹_ انبيائعليه‌السلام كو جھٹلانے كے نتيجے ميں عذاب الہى كا ذائقہ چكھنا_كذّ ب الذين من قبلهم حتى ذاقوا باسنا

۱۰_ فقط عذاب الہى ہى سے پہلے والے انبياعليه‌السلام كى تكذيب كا سلسلہ بند ہواہے_

كذلك كذب الذين من قبلهم حتى ذاقوا باسنا

۱۱_ انسان كو عقيدے اور عمل ميں اختيار حاصل ہے اور جبر كى جانب رجحان ايك باطل اور غلط فكر ہے_

كذلك كذب الذين من قبلهم حتى ذاقوا باسنا

۴۶۵

قل

۱۲_پيغمبر (ص) كو ، مشركين كے خلاف احتجاج (دليل و برھان پيش) كرنے اور ان كے غلط نظريات كو ردّ كرنے كا حكم ديا گيا _

قل هل عندكم من علم فتخرجوه لنا

۱۳_ (عقيدہ) جبر كو ثابت كرنے كے ليے ''مشيت الہي'' سے تمسك كرنا، علمى اساس كے فقدان كى علامت ہے_

هل عندكم من علم فتخرجوه لنا

۱۴_ انسانى عقائد كا يقين و علم پر استوار ہونا ضرورى ہے_قل هل عندكم من علم فتخرجوه

۱۵_ مشيت الہى كے بارے ميں مشركين كے عقائد اور اس سے جبرى نظريات اخذ كرنے كى بنياد فقط ان كا ظن و گمان ہے_ان تتبعون الا الظن و ان كنتم الا تخرصون

۱۶_ عقائدى اور بنيادى مسائل ميں ظن و گمان كى كوئي اہميت اور حيثيت نہيں _

ان تتبعون الا الظن و ان انتم الا تخرصون

۱۷_ مشيت الہى كے بارے ميں مشركين كا قول اوردعوے اور اس سے جبر كا نتيجہ اخذ كرنا، سوائے ظن و گمان اور جھوٹ كے كچھ بھى نہيں _سيقول الذين اشركوا ان تتبعون الا الظن و ان انتم الا تخرصون

۱۸_ خداوندمتعال كسى كو بھى شرك پر مبنى عقيدہ قبول كرنے پر مجبور نہيں كرتا_

لو شاء الله ما اشركنا ان انتم الا تخرصون

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا دليل لانا۱۲; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱۲

احتجاج (دليل و حجت لانا) :مشركين سے اجتجاج ۱۲

امم :گذشتہ امتوں كا جبر كى جانب رجحان ۶

انبياء :تكذيب انبياء كا انجام ۹; تكذيب انبياء كے دلائل ۶; تكذيب انبياء كے موانع ۱۰

انسان :اختيار انسان ۱۱

۴۶۶

جبر :جبر كا بطلان ۱۱; جبر كا بے منطق ہونا ۱۳، ۱۵; جبر كى جانب رجحان كاسبب ۵; جبر كے آثار ۸;جبر و اختيار ۱۱، ۱۸

خدا تعالي:خداوند كے عذاب ۱۰;مشيت خدا ۵، ۱۳، ۱۵

دين :دين كے ليے خطرات كى پہچان۳، ۵، ۸

شرك :شرك كى توجيہ ۲; شرك ميں اختيار ۱۸

ظن :ظن كا غير معتبر ہونا ۱۶

عذاب :عذاب كے علل و اسباب ۹

عقيدہ :عقيدے ميں اختيار ۱۱، ۱۸; عقيدے ميں برہان كى اہميت ۱۴، ۱۶; عقيدے ميں ظن و گمان ۱۶، ۱۷

عمل :عمل ميں اختيار ۱۱

فرائض :فرائض و واجبات ميں بہانہ جوئي ۸

قرآن :قرآن كى پيشگوئي ۴

مباحات :مباحات كو تحريم كرنے كى توجيہ ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كا شرك ۱; صدر اسلام كے مشركين كى بدعت گذارى ۱; صدر اسلام كے مشركين كے افكار ۱; مشركين اور مشيت خدا ۳، ۱۷; مشركين كا جبر كى جانب رجحان ۱۷; مشركين كا جبر كى جانب مائل ہونے كا فلسفہ ۲، ۴; مشركين كى تاويلات ۲،۴; مشركين كے افكار ۳، ۱۲; مشركين كے دعوے۱۷; مشركين كے عقيدے كا خلاف منطق ہونا ۱۵; مشركين كے عقيدے كا منشا ۱۵

۴۶۷

آیت ۱۴۹

( قُلْ فَلِلّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاء لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ )

كہہ دليجے كہ الله كے پاس منزل تك پہنچانے والى دليليں ميں دہ اگر چاہتا تو جبراً تم سب كو ہدايت دے ديتا

۱_ محكم اور مكمل دليل فقط خداوندمتعال كے اختيار ميں ہے_قل فلله الحجة البلغة

۲_ جبر كى طرف مائل مشركين اپنے عقائد پر ہر قسم كى دليل و برھان سے عارى ہيں _

قل هل عندكم من علم ...فلله الحجة البلغة

۳_ جبر كے نظريئے اور شرك پر مبنى عقائد كى نفى پر خداوند متعال كے پاس مكمل دلائل اور حجتيں ہيں _

قل فلله الحجة البلغة

۴_ سنت خدا يہ ہے كہ محكم اور مكمل دلائل كے ساتھ اور خود انسانوں كے اختيار سے ان كى آزادانہ ہدايت كى جائے_

فلله الحجة البلغة فلو شاء لهدكم اجمعين

جملہء امتناعيہ ''لو شائ ...'' كا مفہوم يہ ہے كہ

خداوندمتعال بنى آدم كى آزادانہ ہدايت چاہتاہے نہ كہ ان كى جبرى ہدايت_ اس ہدايت كى كيفيت جملہ ''فللہ ...'' ميں بيان كى گئي ہے_ يعنى يہ كہ خداوندمتعال چاہتاہے كہ وہ بنى آدم كى مكمل اور محكم دلائل و حجتوں كے ساتھ ہدايت كرے_

۵_ انسان، ہدايت اور گمراہى كا راستہ انتخاب كرنے ميں مختار ہے_

قل فلله الحجة البلغة فلو شاء لهدى كم اجمعين

۶_ اگر مشيت خدا يہ ہوتى كہ وہ انسان كى جبراً ہدايت كرے تو بلا استثنا سب كى ہدايت كرديتا_

فلو شاء لهدى كم اجمعين

۷_ دوسروں كے افكار و عقائد كى تصحيح كرنے اور انھيں ہدايت كرنے كے ليے دليل و برھان پيش كرنا ضرورى ہے_

۴۶۸

قل فلله الحجة البلغة فلو شاء لهد كم اجمعين

۸_ خداوندمتعال كى تكوينى مشيّت، ناقابل تخلف ہے_فلو شاء لهدى كم اجمعين

۹_ خداوندمتعال كى سنت اور مشيّت يہ نہيں ہے كہ وہ بنى آدم كو جبراً ہدايت كرے يا گمراہ كرے_

فلو شاء لهد كم اجمعين

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام و قد سئل عن قوله تعالى ''فللّه الحجة البلغة'' فقال: ان الله تعالى يقول للعبد يوم القيامة : عبدى اكنت عالماً ؟ فان قال نعم_ قال له : افلا عملت بما علمت ؟ و ان قال : كنت جاهلا_ قال له : افلا تعلمت حتى تعمل فيخصمه فتلك الحجة البلغة (۱)

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ قيامت كے دن اللہ تعالى اپنے بندے سے سوال كرے گا، اے ميرے بندے، كيا تو ( اپنے شرعى وظائف كے حوالے سے ) عالم تھا يا جاھل ؟ اگر اس نے كہا عالم تو تب كہا جائے گا كہ تو نے اپنے علم كے مطابق عمل كيوں نہيں كيا ؟ اور اگر وہ كہے ميں جاہل تھا تو يہ كہا جائے گا كہ صحيح عمل كرنے كے ليے تو نے علم كيوں حاصل نہيں كيا ؟ غرض دونوں صورتوں ميں حجت قائم ہوجائے گى اور يہى حجت بالغہ ہے_

۱۱_عن ابى الحسن موسى بن جعفر عليه‌السلام فى حديث طويل : جميع امور الاديان اربعة و امر يحتمل الشك والانكار فسبيله استيضاح اهله لمنتحليه بحجة من كتاب الله مجمع على تاويلها و سنة مجمع عليها لا اختلاف فيها، او قياس تعرف العقول عدله و لا يسع خاصة الامة و عامتها الشك فيه و الانكار له ...فمن اورد واحدة من هذه الثلاث فهى الحجة البالغة التى بينها الله فى قوله لنبيه : ''قل فلله الحجة البالغة (۲)

حضرت امام موسى كاظمعليه‌السلام سے ايك طولانى حديث ميں منقول ہے كہ اديان كے امور چار طرح كے ہيں _ ايك وہ امر ہے جس ميں شك و انكار كا احتمال ہے_ اس كى راہ يہ ہے كہ اس كا اعتقاد ركھنے والوں سے اس كى وضاحت طلب كى جائے_ (تا كہ) كتاب خدا كى حجت كے ذريعے (ايك دليل لائيں ) كہ جس كا مفہوم اجماعى ہو_

يا اس سنت كے مطابق ہو جس ميں اختلاف نہ ہو يا اس قياس كے مطابق ہو كہ عقل جس كى صحت كى تائيد كرے اور كسى كےليے بھى قابل انكار اور مورد شك نہ ہو_ جو كوئي بھى ان تين ميں سے ايك حجت لے آئے تو يہى حجت بالغہ ہے كہ جس كے

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ج ۱ ص ۸ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۷۶ ح ۳۳۰_

۲) تحف العقول، ص ۴۰۷ بحار الانوار ج ۲ ص ۲۳۸ ح ۳۱_

۴۶۹

بارے ميں خداوندمتعال نے قرآن ميں اپنے پيغمبر(ص) سے فرمايا ہے:''قل فلله الحجة البلغة''

انسان :اختيار انسان ۴، ۵، ۶، ۹

تربيت :تربيت كا طريقہ ۷

جبر :جبر اور اختيار ۶ ،۹ ; جبر كا خلاف منطق ہونا ۲; جبر كے بطلان كے كے دلائل ۳

خدا تعالى :اتمام حجت خدا ۱۱; خدا كى طرف سے دليل ۳; خدا كى طرف سے ہدايت ۴; سنن خدا ۴، ۹; قدرت خدا ۶; مختصات خدا ۱۱;مشيت خدا ۶، ۹; مشيت خدا كا حتمى ہونا ۸

دين :دين ميں اكراہ كى نفى ۴، ۵، ۶

روايت : ۱۰، ۱۱

شرك :بطلان شرك كے دلائل ۳

عقيدہ :عقيدہ كى تصحيح كرنے كى روش ۷

قيامت :قيامت كے دن مؤاخذہ ۱۰

گمراہى :گمراہى ميں اختيار ۵،۹

مشركين :جبر كى جانب مائل مشركين كا خلاف منطق رويہ۲

ہدايت :ہدايت ميں اختيار ۴، ۵، ۹

۴۷۰

آیت ۱۵۰

( قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللّهَ حَرَّمَ هَـذَا فَإِن شَهِدُواْ فَلاَ تَشْهَدْ مَعَهُمْ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ )

كہہ دليجے كہ ذرا اپنے گواہوں كو تو لاو جو گواہى ديتے ميں كہ خدا نے اس چيز كو حرام قرار دياہے _ اس كے بعد وہ گواہى بھى دے ديں تو آپ ان كے ساتھ گواہى نہ دليجے گا اور ان لوگوں كے خواہشات كا اتباع نہ كجيے گا جنھوں نے ہمارے آيتوں كو جھٹلايا ہے اور وہ آخرت پر ايمان نہيں ركھتے ميں اور اپنے پروردگار كا ہمسر قرار ديتے ہيں

۱_ بيہودہ تحريمات كے مدعى افراد كو حجت و دليل پيش كرنے اور مناظرہ كرنے كى دعوت دينے كے سلسلے ميں خداوندمتعال كا پيغمبر(ص) كى راہنمائي كرنا_قل هلم شهداء كم الذين يشهدون

۲_ صدر اسلام كے مشركين اپنى ناروا تحريمات اور بدعتوں كى نسبت خدا كى طرف ديتے تھے_

هلم شهداء كم الذين يشهدون ان الله حرم هذا

۳_ صدر اسلام كے مشركين كے پاس اپنى تحريمات كي حقانيت پر كسى قسم كا سچا اور معتبر گواہ نہيں تھا_

هلم شهداء كم الذين يشهدون ان الله حرم هذا

۴_ ناحق شھادت اور گواہى دينے والوں كا ساتھ دينا اور ان كى تصديق كرنا، حرام ہے_

فان شهدوا فلا تشهد معهم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا با ى تنا

۵_ مشركين جن تحريمات كے مدعى ہيں اگر وہ ان پر گواہ اور دليل بھى لے آئيں تو وہ جعلى اور بے بنياد ہوں گى _

۴۷۱

قل هلم فان شهدوا فلا تشهد معهم

۶_ اگر بے بنياد تحريمات كے مدعى اپنے دعوے پر جعلى اور بناوٹى گواہ بھى لے آئيں تو بھى ان كى تصديق نہيں ہونى چاہيئے_قل هلم فان شهدوا فلا تشهد معهم

۷_ مشركين كى بے جا تحريمات انكى نفسانى خواہشات كا نتيجہ ہيں اور كسى قسم كى قدر و قيمت اور اعتبار نہيں ركھتيں _

فان شهدوا فلا تشهد معهم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا

۸_ منحرف اور گمراہ افراد كى خواہشات كى پيروى كرنے سے پيغمبر(ص) كو بچنا چاہيئے_و لا تتبع اهواء الذين كذبوا با ى تنا

۹_ مؤمنين كے ليے، گمراہوں اور بدعت گذاروں كى خواہشات كى پيروى كرنے كا خطرہ موجود ہونا_

و لا تتبع اهواء الذين كذبوا بآيتنا

اگر چہ ''لا تتبع ...'' ميں خطاب پيغمبر(ص) سے ہے ليكن در حقيقت سب مؤمنين اس كے مخاطب ہيں _

۱۰_ بلا دليل تحريمات (بدعت ايجاد كرنا)، نفسانى خواہشات كے تابع ہوتى ہيں _

الذين يشهدون ان الله حرّ م و لا تتبع اهواء

۱۱_ خواہشات نفسانى كى پيروي، ناحق گواہى دينے كا پيش خيمہ ہے_

فان شهدوا فلا تشهد معهم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا

۱۲_ بے بنياد تحريمات كے مدعى افراد ہى آيات خدا كے جھٹلانے والے اور آخرت كے منكر ہيں _

قل هلم و لا تتبع اهواء الذين كذبوا با ى تنا والذين لا يؤمنون بالاخرة

۱۳_ مؤمنين كو افكار و اعمال اور طور طريقوں ميں مشركين اور معاد (آخرت) كے منكرين كى تقليد نہيں كرنى چاہيئے_

و لا تتبع اهواء الذين و هم بربهم يعدلون

۱۴_ مشركين، خداوندمتعال كے ساتھ ربوبيت ميں شريك كے وجود كا اعتقاد ركھتے ہيں _

والذين لا يؤمنون بالاخرة و هم بربهم يعدلون

۱۵_ خداوندمتعال ايك ايسى حقيقت ہے كہ جس كا نہ كوئي شريك ہے نہ عديل اور نہ ہى نظير_و هم بربهم يعدلون

۴۷۲

آخرت :آخرت كوجھٹلانے والے ۱۲

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) اور بدعت ايجاد كرنے والے لوگ ۱; آنحضرت(ص) اور گمراہ لوگ ۸; آنحضرتعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱،۸

آيات خدا :آيات خدا كے مكذبين ۱۲

احتجاج :بدعت ايجاد كرنے والوں كے خلاف احتجاج (دليل لانا) ۱

احكام : ۴

افترا :خداوندمتعال پر افترا باندھنا ۲

بدعت :بدعت كا بے اعتبار ہونا ۶، ۷; بدعت كا منشاء ۱۰; بدعت كے علل و اسباب ۷

بدعتى افراد:بدعت ايجاد كرنے والوں كى بے منطقى ۶; بدعت ايجاد كرنے والوں كى پيروى كا خطرہ ۹

تقليد :ناپسنديدہ تقليد ۱۳

جاہليت :رسوم جاہليت ۵

خدا تعالى :اوامر خدا ۱; تنزيہ خدا ۱۵; خدا سے مختص امور ۱۵; خدا كا بے نظير ہونا ۱۵; وحدانيت خدا ۱۵

گواہى :احكام كى گواہى ۴; جھوٹى گواہى كا بے اعتبار ہونا ۶; ناحق گواہى كا مقدمہ ۱۱;ناحق گواہى كى تصديق كرنے كى حرمت ۴

مباحات :ايام جاہليت ميں مباحات كى تحريم ۵; مباحات كى تحريم ۱، ۲، ۳، ۶، ۱۲; مباحات كى تحريم كا منشاء ۷،۱۰

محرمات : ۴

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كابے منطق ہونا۵; صدر اسلام كے مشركين كى بدعت گذارى ۲;مشركين بدعتيوں كى بے اعتباري۳; مشركين كاخدا پر افترا۲; مشركين كا بے منطق رويہ ۵; مشركين كا شرك ربوبى ۱۴; مشركين كا عقيدہ ۱۴; مشركين كى بدعت گذارى ۵; مشركين كى خواہش پرستى ۷; مشركين كى رسوم تقليد۳

معاد : معاد كو جھٹلانے والوں كى پيروى ۱۳

۴۷۳

منحرفين :منحرفين كى پيروى ترك كرنا ۸; منحرفين كى پيروى كا خطرہ ۹

مومنين:مومنين كو خبردار كيا جانا۹; مومنين كى ذمہ داري۱۳

نفسانى خواہشات :نفسانى خواہشات كے آثار ۱۰، ۱۱

آیت ۱۵۱

( قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئاً وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ )

كہہ دليجے كہ آو ہم تمہيں بتايں كہ تمھارے پروردگار نے كيا كيا حرام كيا ہے _ خبردار كسى كو اس شريك نہ بنانا اور مال باپ كے ساتھ اچھابرتاو كرنا _ اپنى اولاد غربت كى بنا پر قتل نہ كرنا كہ ہم تمہيں بھى رزق دےرہے ميں اور انہيں بھى _اور بدكاريوں كے قريب نہ جانا وہ ظاہرى ہوں يا چھپى ہوئي اور كسى ايسے نفس كو جسے خدا نے حرام كرديا ہے قتل نہ كرنا مگر يہ كہ تمہارا كوئي حق ہو _ يہ وہ باتيں ميں جن كے خدا نے نصيحت كى ہے تا كہ تمہيں عقل آجاے

۱_ پيغمبر(ص) كو خداوندمتعال كى جانب سے حكم ہوتاہے كہ لوگوں كو بلاؤ اور ان كے ليے محرمات الہى بيان كرو_

قل تعالوا اتل ما حرم ربكم عليكم

''اتل'' كا مصدر ''تلاوت'' ہے جس كا مطلب، پڑھنا ہے_ چونكہ ''اتل'' فعل امر ''تعالوا'' كے جواب ميں آياہے، شرط مقدر كى وجہ سے اس پر جزم ہے اور'' عليكم'' ''اتل''اور ''حرم'' سے متعلق ہے_

۲_ لوگوں كے ليے محرمات الہى بيان كرنا پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے_اتل ما حرم ربكم عليكم

۳_ لوگوں كو دعوت دينا اور ان كے ليے محرمات الہى بيان كرنا، دينى رھبروں كا فريضہ ہے_

قل تعالوا اتل ما حرم ربكم عليكم

۴_ خداوند،متعال انسانوں كا پروردگار ہے اور احكام كا وضع كرنا، انسانوں پر اس كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

قل تعالوا اتل ما حرّ م ربكم عليكم

''حرّ م'' كے ليے فاعل كے عنوان سے ''ربّ'' كے انتخاب سے مندرجہ بالامفہوم اخذ ہوتاہے يعنى چونكہ خدا تمھارا پروردگار اور تمھارے امور كامدبّر ہے لہذا مذكورہ احكام اس نے تمہارے ليے وضع كيے ہيں _

۴۷۴

۵_ احكام كا وضع كرنا، خداوندمتعال كے اختيار ميں ہے اور پيغمبر(ص) (فقط) احكام كو بيان كرنے والے ہيں _

اتل ما حرم ربكم عليكم

۶_ انسانوں پر خداوندمتعال كى ربوبيت كى جانب توجہ، اس كے احكام (قوانين) كو قبول كرنے كا مقدمہ بنتى ہے_

اتل ما حرم ربكم عليكم

شرك كى تحريم كے عنوان سے ربوبيت خدا كو بيان كرنے كے مقاصد ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ انسانوں كو سمجھا ديا جائے كہ محرمات الہى ان كى تربيت كے ليے ہيں تا كہ ان ميں انھيں قبول كرنے كى راہ ہموار ہوجائے_

۷_ خداوندمتعال كے ليے شريك قرار دينا محرمات الہى ميں سے ہے_الا تشركوا به شيئا

''الا تشركوا'' ميں ''ان'' تفسيريہ اور ''لا'' ناھيہ ہے_

۸_ اديان الہى ميں اہم ترين عقائدى اصل، توحيد ہے_اتل ما حرم عليكم الا تشركوا به شيئا

يہاں فعل ماضى ''حرم'' كا استعمال اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ آيات كے اس حصے ميں مذكورہ اصول (توحيد) تمام اديان الہى كا ايك مشتركہ اصول ہے_ اس كے علاوہ يہاں ، اصل توحيد پر اعتقاد اور شرك سے پرہيز كو مذكورہ محرمات اور واجبات و فرائض ميں سر فہرست ركھا گيا ہے_ اس سے بھى اس كى (يعنى اصل توحيد كي) اہميت و برترى ظاہر ہوتى ہے_

۹_ غير خدا كو احكام و محرمات وضع كرنے كے لائق سمجھنا، شرك كرنے كے مترادف ہے_

ما حرم ربكم عليكم الا تشركوا به شيئا

۱۰_ماں باپ سے نيكى كرنا واجبات ميں سے ہے اور اسكا ترك كرنا الہى محرمات ميں سے ہے_

اتل ما حرم ربكم عليكم و بالوالدين احسنا

''احساناً'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور جانشين فعل ہے يعنى ''احسنوا بالوالدين احسانا'' يہ بھى قابل توجہ ہے كہ جملہ ''اتل ما حرم ...'' يہ بيان كررہاہے كہ بعد والے جملات، محرمات كى تبيين كے ليے ہيں جبكہ جملہ ''بالوالدين احسانا'' احسان كے وجوب كى حكايت كررہاہے_ بنابرايں كہنا چاہيئے كہ مذكورہ جملہ ترك احسان كى حرمت پر بھى دلالت كرتاہے اور علمائے اصول فقہ كى اصطلاح كے مطابق يہاں ''امر اپنے عام ضد سے نہى كا تقاضا كرتا ہے''

۴۷۵

۱۱_ الہى فرائض ميں ماں باپ سے نيكى كرنے كو خاص اہميت حاصل ہونا_الا تشركوا به شيئا و بالوالدين احسنا

اہم ترين اعتقادى اصل (توحيد) كو بيان كرنے كے بعد جملہ ''و بالوالدين احسنا'' كا لايا جانا، اس امر كى خصوصى اہميت ظاہر كرتاہے_ يعنى ''ما ں باپ سے نيكى كے لزوم پر دلالت كررہاہے''_

۱۲_ زمانہ بعثت كا جاہلى معاشرہ شرك سے آلودہ اور ماں باپ كى نسبت بے توجہ اور لاپروا ہ معاشرہ تھا_

و بالو لدين احسنا

۱۳_ فقر اور نادارى كے سبب اولاد كا قتل كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے_و لا تقتلوا اولادكم من املق

''املاق'' كا معنى ضرورت مند اور محتاج ہوناہے يہاں ''من'' تعليليہ( علت بيان كرنے كے ليئے)ہے_

۱۴_ فقر و نادارى كا انتہائي درجہ بھي، اولاد كے قتل كا جواز فراہم نہيں كرتا_لا تقتلوا اولادكم من املق

مندرجہ بالا مفہوم، ''املاق'' كے نكرہ ہونے كى وجہ سے اخذ كيا گيا ہے يعنى وہ فقر اور نادارى كہ جو انتہائي شاذ و نادر ہوتى ہے_ اس بناء پر لوگ اس سے آگاہ نہيں ہيں _

۱۵_ سب لوگوں (ماں ، باپ اور انكى اولاد) كو روزى دينے والا خداوندمتعال ہے_نحن نرزقكم و اياهم

۱۶_ اولاد كا قتل، فقر و تنگدستى كو ختم نہيں كرتا_لا تقتلوا اولدكم من املق نحن نرزقكم و اياهم

جملہ''نحن نرزقكم '' كى دو طرح سے تفسير كى جاسكتى ہے

۱_ روزى دينے اور فقر و تنگدستى برطرف كرنے كا وعدہ_ اس كا مقصد، فقر و نادارى كے ختم ہونے تك استقامت و پائيدارى كى دعوت ہے

۲ اس چيز كا بيان كہ تمہارى روزى خدا كے ہاتھ ميں ہے اور بعض شرائط اور مصالح كى بنا پر وہ تمہيں فقر و تنگ دست ركھنا چاہتاہے لہذا، اولاد كا ہونا يا نہ ہونا تمھارے فقر اور غنى ہونے پر اثر انداز نہيں ہوتا_ مندرجہ بالا مفہوم، دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_ يہ بھى كہا گيا ہے كہ فقر جوكہ ''من املاق'' سے اخذ ہوتاہے اسى احتمال (دوم) كى تائيد كرتاہے_

۴۷۶

۱۷_ خداوند متعال كى رزاقيت پر اعتقاد ركھنا، فقر و تنگدستى كى وجہ سے اولاد كو قتل كرنے كے مانع بنتاہے_

لا تقتلوا اولدكم من املق نحن نرزقكم و اياهم

۱۸_ زمانہ جاہليت ميں ، فقر و تنگدستى كے سبب اولاد كو قتل كرنے كا رواج ہونا_لا تقتلوا اولدكم من املق

۱۹_ انسانوں كى روزى فراہم ہونے ميں علل و اسباب كى دخالت_نحن نرزقكم و اياهم

مندرجہ بالا مفہوم، اس جملے ميں ''نحن ما'' كے استعمال سے اخذ كيا گياہے_

۲۰_ برے اوربے حيائي كے كام خواہ آشكارا انجام پائيں خواہ مخفيانہ (ہر صورت ميں ) حرام ہيں _

و لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

برے اور برائي كے كاموں كى تقسيم ''ما ظھرمنہ و ما بطن'' ہوسكتابرے كام كى كيفيت اور انجام پانے كے طريقے كى وجہ سے ہو_ يعنى زنا جيسا فحش كا م مخفى بھى انجام پاسكتاہے اور علنى بھى اس كا ارتكاب ہر دو صورت ميں حرام ہے_

۲۱_ برے كردار كى دونوں قسميں (يعنى وہ قسم كہ جو عام طور پر مخفيانہ انجام دى جاتى ہے اور دوسرى جسے لوگ مخفيانہ انجام دينا نہيں چاہتے) دونوں محرمات الہى ميں سے ہيں _لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گياہے ''فواحش'' كى تقسيم ''ما ظھر منھا و ما بطن'' تمام برے كاموں كے مطابق ہو_ يعنى برے كردار دو قسم كے ہيں ايك وہ كہ جو عام طور پر خفيہ انجام پاتے ہيں مثلاً زنا، اور دوسرى قسم وہ ہے جسے لوگ خفيہ ركھنا نہيں چاہتے_ جيسے بعض ظلم و ستم، لہذا يہ دونوں قسميں محرمات ميں شمار ہوتى ہيں _

۲۲_ على الاعلان برے كام كرنے كى برائي اور حرمت مخفيانہ انجام دينے سے زيادہ شديد اور قبيح ہے_

لا تقربوا الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

ہوسكتاہے ''ما ظھر'' كا ''ما بطن'' پر مقدم ہونا، مندرجہ بالا مفہوم كى جانب اشارہ ہو_

۲۳_ انسانوں كو ناحق قتل كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے_و لا تقتلوا النفس التى حرم الله الا بالحق

''بالحق'' مفعول مطلق محذوف يعنى ''قتلا'' كى صفت ہے اور اس كا ''با'' ملا بست كا معنى دے رہاہے يعنى :''لا تقتلوا النفس الا قتلا متلبسا بالحق''

۴۷۷

۲۴_ انسان كے قتل كى حرمت، بارگاہ خداوندمتعال ميں اس كے امتيازات ميں سے ہے_

و لا تقتلوا النفس التى حرم الله الا بالحق

''التى حرم اللہ'' (الا بالحق) كے استثنا ہونے كى وجہ سے ''النفس'' كے ليے توضيحى صفت ہے_ اور اس كا معنى يہ ہے كہ انسان كو قتل كرنے كى حرمت، انسان كى تعريفات ميں سے شمار كى جاتى ہے اور اس كے امتيازات ميں سے سمجھى جاتى ہے_

۲۵_ شرك سے بچنا، ماں باپ سے نيكى و احسان كرنا، اور اولاد كے قتل كرنے سے پرہيز كرنا، انسانوں كے ليے خداوندمتعال كى نصيحتوں ميں سے ہے_الا تشركوا به شيئا ذلك و صى كم به

۲۶_ خداوند متعال كى نصيحتوں ميں سے ايك، برے كاموں سے دورى اختيار كرنا اور بےگناہوں كو قتل كرنے سے پرہيز كرناہے_و لا تقربوا الفواحش ذلك وصى كم به

۲۷_ (شرك و غيرہ سے بچنے كے بارے ميں ) خداوند متعال كى نصيحتيں ، ايسے حقائق ہيں كہ انسانوں كو ان ميں دقت كرنى چاہيئے اور ان سے بچنے كى ضرورت كو اپنى عقل سے درك كرنا چاہيئے_

ذلكم وصى كم به لعلكم تعقلون

''تعقلون'' كا مفعول، مذكورہ محرمات سے پرہيز كرنے كى ضرورت ہے_ ''وصيت'' سے مراد ''تعقلون'' كے قرينے سے ہوسكتاہے مذكورہ احكام ميں غور فكركرنا ہو_ بنابراايں جملہ ''وصى كم بہ ...'' يعنى خداوندمتعال نے وصيت كى ہے كہ تم مذكورہ محرمات ميں غور كرو اور ان سے پرہيز كرنے اور بچنے كى ضرورت كو اپنى عقل سے درك كرو_

۲۸_ (شرك سے اجتناب، والدين سے نيكى و احسان و غيرہ ) پنجگانہ تعليمات عقل كے عين مطابق ہيں _

ذلكم وصى كم به لعلكم تعقلون

۲۹_ (شرك و غيرہ سے پرہيز) جيسى پانچ نصيحتوں پر عمل، عقل و فكر كے پھلنے پھولنے كا مقدمہ فراہم كرتاہے_

ذلكم وصى كم به لعلكم تعقلون

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر مبنى ہے كہ ''تعقلون'' نازل منزلہ فعل لازم ہے اور جسے مفعول كى ضرورت نہيں _ اور وصيت سے مراد مذكورہ احكام پر عمل كرنا ہے_

۴۷۸

۳۰_ (شرك سے پرہيز جيسے) پنجگانہ فرائض ايك دوسرے سے گہرا رابطہ ركھتے ہيں اور ايك ہى فريضہ سمجھے جاتے ہيں _

ذلك وصى كم به

پنچگانہ محرمات كى جانب اشارے كے ليے ''ذلكم'' اسم اشارہ مفرد اور ''بہ'' كى مفرد ضمير لانا ہوسكتاہے اس ليے ہو كہ وہ محرمات ايك دوسرے سے اس طرح مربوط ہيں كہ گويا ايك ہى فريضہ سمجھے جاتے ہيں _

۳۱_عن ابى ولاد الحناط قال : سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل : ''و بالوالدين احسانا'' ما هذا الاحسان ؟ فقال : الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا تكلفهما ان يسالاك شيئا مما يحتاجان اليه و ان كانا مستغنين (۱)

ابو ولاد كہتے ہيں ميں نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے، خداوندمتعال كے اس كلام ''و بالوالدين احسانا'' كے بارے ميں سؤال كيا، آپعليه‌السلام نے فرمايا : احسان يہ ہے كہ ان دونوں سے نيك سلوك كرو اور انھيں اپنى ضروريات كے بارے ميں ، مجبور كركے اس مشكل ميں نہ ڈالو كہ وہ تجھ سے سوال كريں (يعنى تجھ سے مانگنے كى زحمت برداشت كريں ) اگر چہ وہ مالى لحاظ سے غنى ہى كيوں نہ ہوں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا كردار۵; آنحضرت(ص) كى دعوت ۸; آنحضرت-(ص) كى ذمہ دارى ۱،۲

احسان :مفہوم احسان ۳۱

احكام : ۷، ۱۰، ۱۳، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳احكام كا وضع ہونا ۴، ۵، ۹;احكام كى وضاحت ۵

انسان :انسان كى خصوصيت ۲۴;انسان كى ذمہ دارى ۲۷; انسان كے مقامات ۲۳، ۲۴

اولاد كاقتل :اولاد كشى سے اجتناب ۲۵; اولاد كشى كى حرمت ۱۳، ۱۴ ;اولاد كشى كے موانع ۱۷;ايام جاہليت ميں اولاد كشى ۱۸; فقر اور اولاد كشى ۱۶

ايمان :ايمان كے آثار ۱۷; خدا كے رازق ہونے پر ايمان ۱۷

برائي :آشكار برائي ۲۰، ۲۲;برائي سے اجتناب ۲۶; برائي كى حرمت ۲۰، ۲۲; خفيہ برائي ۲۰، ۲۲

توحيد :اديان الہى ميں توحيد ۸;توحيد كى اہميت ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۱۵۷ ح/ ۱ بحار الانوار ج/ ۷۱ ص ۳۹ ح ۳_

۴۷۹

جاہليت :رسوم جاہليت ۱۸

خدا تعالى :خدا كا رازق ہونا ۱۵;خدا كى ربوبيت كے مظاہر۴; خدا كى نصيحتيں ۲۵،۲۶،۲۷; خدا كى نصيحتوں پر عمل ۲۹; خدا كے اوامر ، ۱; خدا كے ساتھ خاص امور۵

دين :دين اور عقل ميں ہم آہنگى ۲۷، ۲۸;دين كو قبول كرنے كا پيش خيمہ۶;دين كى تعليمات كا نظام ۳۰

روايت : ۳۱

روزى :روزى كا منشا ۱۵، ۱۹;روزى كے اسباب ۱۹

رہبرى :رہبرى كى ذمہ دارى ۳

شرك :ايام جاہليت ميں شرك ۱۲; شرك سے اجتناب ۲۵، ۲۸; شرك سے بچنے كے آثار ۲۹;شرك كى حرمت ۷; شرك كے موارد ۹

عقل :عقل كا كردار ۲۷;عقل كى رشد كى راہ ۲۹

عمل :آشكار طور پر ناپسنديدہ عمل انجام دينا ۲۱ ;خفيہ طور پر ناپسنديدہ عمل كرنا ۲۱;ناپسنديدہ عمل ترك كرنا ۲۸; ناپسنديدہ عمل كى حرمت ۲۱

فرائض :فرائض كا باہمى ارتباط ۳۰

فقر :ايام جاہليت ميں فقر ۱۸;فقر كے آثار ۱۳، ۱۴

قتل :حرمت قتل ۲۴;ناحق قتل سے اجتناب ۲۶; ناحق قتل كى حرمت ۲۳

محرمات : ۷، ۱۰، ۱۳، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

محرمات كو بيان كرنا ۱، ۲، ۳

واجبات : ۱۰

والدين :ايام جاہليت ميں والدين كا مقام ۱۲;والدين سے احسان ۱۰، ۲۵، ۲۸، ۳۱; والدين سے احسان كى اہميت ۱۱; والدين سے رويہ اپنا نے كى روش ۳۱

ياد:ربوبيت خدا كو يا د كرنا۶; ياد كے آثار۶

۴۸۰

آیت ۱۵۲

( وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللّهِ أَوْفُواْ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ) .

اور خبردار مال يتيم كے قريب بھى نہ جانا مگر اس طريقہ سے جو بہترين طريقہ ہو يہاں تك كہ وہ توانائي كى عمر تك پہنچ جائيں اور ناپ تول ميں انصاف سے پورا پورا دينا _ہم كسے نفس كو اس كى وسعت سے زيادہ تكليف نہيں ديتے ميں اور جب بات كرو تو انصاف كے ساتھ چاہے اپنے اقربا ہى كے خلاف كيوں نہ ہو اور عہد خدا كو پورا كرو كہ اس كى پروردگار نے تمہيں وصيت كى ہے كہ شايد تم عبرت حاصل كرسكو

۱_ يتيموں كے مال پر ميں ہر قسم كا ظالمانہ تصرف و تجاوز كرنا حرام ہے_و لا تقربوا مال اليتيم

فعل ''لا تقربوا'' كے ذريعے، يتيموں كے اموال ميں تصرف كى حرمت بيان كرنا گويا چند پہلوؤں كى جانب اشارہ ہے_ من جملہ اس بات كى تاكيد و تصريح ہے كہ يتيم كے مال ميں ہر قسم تصرف ممنوع (اور حرام) ہے_

۲_ يتيموں كا مال (شيطاني) وسوسے كا باعث بنتاہے اور

اس مال كى ذمہ دارى قبول كرنے والے لوگ، ہر لمحے تجاوز اور ظالمانہ تصرف ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہوتے ہيں _و لا تقربوا مال اليتيم

فعل ''لا تقربوا'' كے ذريعے تصرف كى حرمت بيان كرنا ہوسكتاہے اس پہلو كى جانب بھى اشارہ ہو كہ يتيموں كا مال مدافع نہ ہونے كى وجہ سے لغزش اور وسوسے كا سبب بن سكتاہے اور انسان معمولى سى بے احتياطى سے گناہ اور ظالمانہ تصرف ميں مبتلا ہوجاتاہے_

۳_ يتيموں كے اموال ميں ، ان كى مصلحت اور فائدے كى غرض سے تصرف كرنا مجاز اور مشروع ہے_

و لاتقربوا الا بالتى هى احسن

''التي'' ''الخصلة'' جيسے كلمے كے ليے صفت ہے (جس كا مطلب طريقہ اور روش ہے ) بنابرايں ''لا تقربوا الاَّ ...'' يعنى بہترين طريقے سے تصرف كر سكتے ہو تو تصرف كرو ورنہ نہيں _ واضح ہے كہ يہاں تصرف سے مراد وہ تصرف ہے كے جو يتيم كے ليے مفيد ہو_

۴۸۱

۴_ يتيموں كے اموال ميں تصرف كرتے وقت ايسا طريقہ اختيار كرنا چاہيئے جو ان كے ليے زيادہ سے زيادہ نفع بخش ہو_

و لا تقربوا مال اليتيم الا بالتى هى احسن

مندرجہ بالا مفہوم كلمہ ''احسن'' (بہتر اور مفيد تر) سے اخذ كيا گيا ہے_

۵_ يتيموں كا رشيد و بالغ ہونا (اور معاملات ميں تجربہ كار اور اپنے نفع و نقصان سے آگاہ ہوجانا) ان كے اموال ميں دوسروں كے تصرف كرنے كے جواز كو ختم كرديتاہے_و لا تقربوا مال اليتيم الابالتى هى احسن حتى يبلغ اشده

''اشد'' كا معنى تجربہ اور شناخت ہے_ (لسان العرب) اس معنى كى بنا پر اور موضوع كى مناسبت سے ''اشد'' سے مراد (كاروباري) معاملات ميں تجربہ اور نفع و نقصان كى پہچان ہے_

۶_ اجناس كے رّد و بدل ميں پيمانوں كو پر كرنا اور اجناس كو ترازو كے اوزان كے مطابق تولنا، ايك واجب (اور لازمي) امر ہے_و اوفوا الكيل و الميزان

''كيل'' كا معنى ناپنا ہے_ نيز جس چيز سے ناپتے ہيں اسے (پيمانہ) كہتے ہيں يہاں دوسرا معنى مراد ہے ايفاء ( اوفوا كا مصدر ) كا معنى كامل كرنا اور تمام كرنا ہے پيمانے كا مكمل اور پورا كرنا يہ ہے جس پيمانے سے تولا يا ناپنا جائے وہ معمول كے مطابق پر كيا جائے_ اور ترازو كا اكمال و ايفاء يہ ہے كہ وزن كى جانے والى اجناس، ترازو كے باٹوں كے عين مطابق ہوں ، اور ان سے ذرا بھى كم نہ ہوں _

۷_ اجناس كے لين دين ميں ، صحيح، پيمانے، ترازو اور اسكے باٹوں سے استفادہ كرنا چاہيئے_

و اوفوا الكيل والميزان بالقسط

''ميزان'' ترازو اور اسكے باٹوں (اوزان) كو كہتے ہيں ''بالقسط'' ہوسكتاہے ''اوفوا'' كے ليے قيد ہو_ اس صورت ميں يہ قيد توضيح اور تاكيد كے ليے ہوگى اور يہ بھى ممكن ہے كہ ''كيل'' كے ليے قيد ہو يعنى پيمانہ، ترازو اور باٹ متعادل ہونے چائيں _ پيمانہ، معمول سے چھوٹا نہيں ہونا چاہيئے اور ترازو خراب نہ ہو اور باٹ (اوزان) ميں كمى و كاستى نہيں ہونى چاہيئے_

۸_ معاملات (اور لين دين) ميں بے عدالتى اور كم فروشي، محرمات الہى ميں سے ہيں _

۴۸۲

اتل ما حرّ م ربكم و اوفوا الكيل و الميزان بالقسط

جملہ ''اوفوا ...'' ''ما حرّ م ربكم'' كى وجہ سے محرمات الہى كے مصداق بيان كررہاہے_ لہذا، لين دين ميں عدالت كے وجوب كے علاوہ، بے عدالتى اور كم فروشى كى حرمت بھى بيان كى جارى ہے_

۹_ خداوندمتعال، انسانوں كو ان كى وسعت اور طاقت سے زيادہ تكليف نہيں ديتا_لا نكلف نفسا الا وسعها

''وسع'' (توان و طاقت) مصدر ہے اور يہاں اسم مفعول كے معنى ميں ہے يعنى :''لا يكلف الله نفسا الا تكليفا مقدورأى لها''

۱۰_ تكاليف الہى (دينى ذمہ داريوں ) پر انسان كى قدرت، ان تكاليف كے بارے ميں اس كے مكلف ہونے كى شرائط ميں سے ہے_لا نكلف نفسا الا وسعها

۱۱_ لين دين ميں عدالت كا لحاظ ركھنا اور يتيموں كے مال ميں تصرف كرتے وقت بہترين اور نفع بخش طريقہ اختيار كرنا، معمول كے مطابق انسانى طاقت كى حد سے زيادہ واجب نہيں _الا بالتى هى احسن و اوفوا الكيل لا نكلف نفسا الا وسعها

مذكورہ فرامين كے بعد، اس حقيقت كو بيان كرنا كہ ''خدا وندمتعال انسان كو اس كى طاقت سے زيادہ تكليف نہيں ديتا، اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ مكلفين، ان فرامين كى رعايت كرتے ہوئے اپنے آپ كو مشقت ميں نہ ڈاليں _ چونكہ فرائض پر عمل اسى حد تك فرض كيا گيا ہے كہ جتنى طاقت ہے نہ اس سے زيادہ_

۱۲_ يتيموں كے اموال ميں تجاوز (زيادتي) نہ كرنا اور لين دين ميں عدالت كا لحاظ ركھنا ايسے فرائض ہيں كہ جن كو انجام دينے پر تمام انسان قادر ہيںو لا تقربوا مال اليتيم و اوفوا الكيل والميزان بالقسط لا نكلف نفسا الا وسعها

بعض كے نزديك جملہ ''لا نكلف ...'' كا مقصد، اس مطلب كى ياد دہانى كراناہے كہ مذكورہ فرامين، انسانى قدرت اورطاقت كے مطابق ہيں تا كہ ان اوامر كو پر مشقت اور طاقت فرسا خيال كرتے ہوئے، انھيں قبول كرنے سے پہلو تہى نہ كى جائے_

۱۳_ انسان كو ہر بات كہنے ميں (يعنى شھادت، دينے اور كوئي فيصلہ اور انصاف كرنے ميں ) عدالت كا لحاظ ركھنا چاہيئے_

و اذا قلتم فاعدلوا

جملہ ''و لو كان ذا قربي'' ہوسكتاہے يہ بيان كرنے كے ليے ہو كہ يہاں كلام (بات) كرنے سے مراد وہ كلام ہے جس ميں دوسروں كےلے نفع و نقصان كا پہلو موجود ہو_ مثلا شھادت اور گواہى

۴۸۳

دينا اور دوسروں كے درميان فيصلہ اور انصاف كرنا و غيرہ_

۱۴_ اپنے رشتہ داروں كے نفع كى خاطر يا انھيں ضرر و نقصان سے بچانے كے ليے، انسان كوغلط بيانى سے كام نہيں لينا چاہيئے_و اذ قلتم فاعدلوا و لو كان ذا قربى

''كان'' كا اسم ايك ايسى ضمير ہے جو ''المقول لہ'' و غيرہ كى جانب لوٹتى ہے اور يہ (مقول لہ) ''اذا قلتم'' سے اخذ ہوتاہے، يعنى جس كے بارے ميں كوئي بات كى جاتى ہے (يعنى گواہى دى جاتى ہے يا فيصلہ كيا جاتاہے) وہ شخص بات كہنے والے كے رشتہ داروں ميں سے ہى كيوں نہ ہو_

۱۵_ بات كرتے ہوئے بے عدالتى اور ناانصافى كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے_

تعالوا اتل ما حرم ربكم و اذا قلتم فاعدلوا

۱۶_ خاندانى رشتے اور جذباتى تعلقات، عدل و انصاف پر عمل كو خطرے سے دوچار كر سكتے ہيں _

و اذا قلتم فاعدلوا و لو كان ذا قربى

۱۷_ جو عہد و پيمان خداوندمتعال كى جانب سے انسان كے ذمہ ڈالے گئے ہيں ان كى پابندى كرنا واجب ہے_

و بعهد الله اوفوا كلمہ ''عھد'' ہوسكتاہے فاعل كى جانب مضاف ہو تو اس صورت ميں ''عھد اللہ'' وہ پيمان ہے جو خداوندمتعال، انسانوں كے ذمہ ڈالتاہے، اور يہ بھى ممكن ہے كہ ''عھد'' مفعول كى جانب مضاف ہو_ تو اس صورت ميں ''عھد اللہ'' وہ پيمان ہے كہ جو انسانوں كى طرف سے خدا كے سپرد كيا گيا ہو_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۱۸_ جو عہد وپيمان انسان، خداوندمتعال سے كرتاہے انكى پابندى واجب ہے_

''و بعهد الله اوفوا'' يہ مفہوم اس بناپر اخذ كيا گياہے كہ جب كلمہ ''عھد'' اپنے مفعول كى جانب مضاف ہو_

۱۹_ الہى عھد و پيمان كو توڑنا، محرمات الہى ميں سے ہے_اتل ما حرم ربكم و بعهد الله اوفوا

۲۰_ انسانوں كے ليے خداوندمتعال كى ہدايات يہ ہيں كہ وہ يتيموں كا مال ضائع نہ كريں ، لين دين ميں عدالت كا لحاظ ركھيں ، ناحق باتوں سے پرہيز كريں اور الہى عہد و پيمان كى پابندى كريں _و لا تقربوا مال اليتيم ذلك وصكم به

۲۱_ (يتيموں كے اموال كو ضائع نہ كرنے و غيرہ جيسي) چاروں ہدايات، ايسى تعليمات پر مشتمل ہيں كہ انسانوں كو چاہيئے كہ وہ انھيں حاصل كريں ، انھيں

۴۸۴

ياد ركھيں ، اور انہيں كى بنياد پر عمل كريں _ذلك وصى كم به لعلكم تذكرون

''تذكر'' (تتذكرون كا مصدر) اور سيكھنے اور ياد ركھنے كے معنى ميں ہے_ اس كا مفعول وہى حقائق ہيں جنہيں آيت ميں بيان كيا گيا ہے_

۲۲_ يہ چار و فرائض (يتيموں كا مال ضائع نہ كرنا اور عہد پيمان كى پابندى و غيرہ) آپس ميں ايسا گہرا ارتباط ركھتے ہيں كہ گويا ايك ہى فريضہ سمجھے جاتے ہيں _ذلكم وصى كم به

مذكورہ فرائض كے ليے مفرد ضمير اور اسم اشارہ استعمال كيا گيا ہے جو مندرجہ بالا مفہوم كى حكايت كررہاہے (يعنى يہ چاروں فرائض، فريضہ واحد تصور كيئے جاتے ہيں )

۲۳_عبدالله بن سنان عن ابى عبد الله عليه‌السلام قال : ساله ابى و انا حاضر عن اليتيم متى يجوز امره ؟ قال : حتى يبلغ اشده قال : و ما اشده ؟ قال : الاحتلام قال، قلت : قد يكون الغلام ابن ثمان عشرة سنة او اقل او اكثر و لا يحتلم ؟ قال : اذا بلغ و كتب عليه الشيء جاز امره الا ان يكون سفيها او ضعيفا (۱)

عبداللہ بن سنان كہتے ہيں : ميرے والد نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے يتيم كے بارے ميں

سؤال كيا كہ كب اس كے تصرفات صحيح اور معتبر ہيں _آپعليه‌السلام نے فرمايا : جب وہ بالغ ہوجائے_ اس نے دوبارہ پوچھا : اس كا بالغ و رشيد ہونا كب ہے ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا : احتلام كا زمانہ_ پھر ميرے والد نے پوچھا، كبھى جوان اٹھارہ سال يا اس سے كم و زيادہ كا ہوجاتاہے، ليكن محتلم نہيں ہوتا ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا : جب بھى وہ بلوغ كى عمر اور فرائض كى ادائيگى كى حد تك پہنچے، اس كے تصرفات صحيح ہيں اور اعتبار ركھتے ہيں _ سوائے اس كے كہ وہ بے وقوف يا كمزور ہو_ اس صورت ميں اس كا تصرف معتبر نہيں _

احكام : ۱، ۶، ۸، : ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹

بات:بات ميں بے عدالتى ۱۵; ناحق بات سے اجتناب ۲۰; نا حق بات كا پيش خيمہ ۱۴; نا حق بات كى حرمت۱۵

بے عدالتي بے عدالتى كى راہ ۱۶

تصرفات :جائز تصرفات ۳; حرام تصرفات ۱

خدا تعالى :خداوندمتعال كى ہدايات ۲۰، ۲۱; عہد خدا ۱۷

____________________

۱) خصال صدوق، ص ۴۹۵، ح/ ۳ ابواب الثلاثة عشرة_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۷۸ ح/ ۳۴۰ _

۴۸۵

دين :تعليمات دين كا نظام ۲۲;تعلميات دين كى اہميت ۲۱

رفتار و كردار :رفتار و كردار كى بنياديں ۲۱

روابطہ :جذباتى روابط كے آثار ۱۶; خاندانى روابطہ كے آثار ۱۶

روايت : ۲۳

عدالت :عدالت كى اہميت ۱۳

عزير اقارب :عزير اقارب كے مفادات كى حفاظت ۱۴

عھد :خدا سے عہد ۱۸; عہد پورا كرنا ۲۰; عھد كو وفا كرنے كا وجوب ۱۷، ۱۸

عہد توڑنا :خدا سے كيا گيا عہد توڑنے كى حرمت ۱۹

غصب :غصب كے احكام ۱

قضاوت :قضاوت كے وقت عدل و انصاف ۱۳

كم فروشى :كم فروشى كى حرمت ۶، ۸

گواہى :گواہى دينے ميں عدل و انصاف سے كام لينا ۱۳

محرمات : ۱، ۸، ۱۵، ۱۹

معاملہ :معاملہ اور ترازو ۷; معاملہ اور عدالت ۱۱، ۱۲، ۲۰; معاملے كے احكام ۶، ۸، ۷; معاملہ ميں بے عدالتى ۸; معاملہ ميں پيمانہ ۶، ۷;ناپ والا معاملہ ۶، ۷; وزن والا معاملہ ۶، ۷

واجبات : ۱۷، ۱۸

وسوسہ :وسوسے كى راہ ۲

يتيم :اقتصادى لحاظ سے يتيم كى سوجھ لوچھ ۵; يتيم كا مال ۲; يتيمى كى مصلحت كا لحاظ ۴،۱۱; يتيم كے احكام ۵،۱۱،۲۳; يتيم كے بلوغ كى علائم۵;يتيم كے تصرفات ۲۳; يتيم كے سرپرستوں كو تنبيہ ۲; يتيم كے مال پر تجاوز ۱; يتيم كے مال كى حفاظت ۱۲، ۲۰،۲۱،۲۲; يتيم كے مال ميں تصرف ۱،۳،۵،۷; يتيم كے مصالح ۳

۴۸۶

آیت ۱۵۳

( وَأَنَّ هَـذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )

اور يہ ہمارا سيدھاراستہ ہے اس كا اتباع كرو اور دوسرے راستوں كے پيچہے نہ جائوكہ راہ خدا سے الگ ہو جائوگے ا سى كى پروردگارنہ ہدايت دى ہے كہ اس طرح شايدمتقى اور پرہيزگاربن جائو

۱_ شرك، اولاد كشي، برے كردار، بے گناہوں كے قتل اور يتيموں كے اموال پر تجاوز سے پرہيز كرنا اور بچنا ہى خداوند متعال كى جانب چلنے كا سيدھا راستہ ہے_الا تشركوا به شيئا و ان هذا صراطى مستقيماً

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''صراطي'' ميں ضمير متكلم سے مراد خداوند متعال ہو، صراط خدا يعنى اس كى جانب جانے والا راستہ_

۲_ ماں باپ سے نيكي، لين دين ميں عدالت و انصاف، الہى عہد و پيمان كى پابندى اور عدل و انصاف كے مطابق بات كرنا ہى خداوند متعال كى جانب لے جانا والا سيدھا راستہ ہے_و بالوالدين احسانا و ان هذا صر طى مستقيماً

۳_ الہى احكام اور قوانين ہى صراط مستقيم ہيں _و ان هذا صراطى مستقيماً

۴_ ان نو احكام (شرك، اولاد كشي، اور بدعہدى و غيرہ سے پرہيز كرنے) كے درميان گہرا رابطہ موجود ہے اور يہ ايك ہى حكم كى حيثيت ركھتے ہيں _و ان هذا صراطى مستقمياً

''ھذا'' ان احكام و فرامين كى جانب اشارہ ہے جو گذشتہ دو آيات ميں گذرے ہيں _ ان نو احكام كے ليے مفرد اسم اشارہ استعمال كرنا، ان كے درميان گہرے تعلق كو ظاہر كرتاہے، گويا كہ يہ ايك ہى حكم كى حيثيت ركھتے ہيں _

۵_ الہى احكام اور قوانين پر عمل كرنا ہى رسول خدا(ص) كا راستہ ہے_و ان هذا صراطى مستقيما

يہ مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''صراطي'' ميں ضمير متكلم سے مراد پيغمبر(ص) ہوں _ بنابرايں ''صراطي'' يعنى وہ راستہ كہ جو ميں (پيغمبر(ص) ) طے كررہاہوں _

۴۸۷

۶_ پيغمبر(ص) اپنے پيام پر اعتقاد و يقين ركھتے تھے اور ہميشہ اسكى پابندى كرتے تھے_و ان هذا صر طى مستقيما

۷_ دينى قوانين كى پيروى اور خداوندمتعال كے صراط مستقيم پر چلنے كا واجب ہوناو ان هذا صر طى مستقيما فاتبعوه

۸_ ان نو قوانين اور محرمات (شك و غيرہ سے پرہيز) كا الہى ہونا، اور ان كا كجى و انحراف سے محفوظ ہونا_ تقاضا كرتا ہے كہ ان فرامين كى پيروى كى جائے اور انہى كى بنياد پر حركت كى جائے_و ان هذا صر طى مستقيما فاتبعوه

''فاتبعوہ'' ميں حرف ''فا'' سببيہ ہے يعنى يہ بيان كررہاہے كہ ''ان ھذا ...'' ميں مذكورہ حقائق (يعنى ان كا الہى ہونا) ہى ان كى پيروى كے لازمى ہونے كى علت ہے_

يہ بھى قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے بقول، ''ان ھذا ...'' پر لام كا مقدر ہونا، علت كے ليے ہے اور اسى معنى كى تائيد كررہاہے_

۹_ غير الہى قوانين و احكام سے بچنے كى ضرورت_و لا تتبعوا السُّبل

''سبل'' چونكہ''صراطى مستقيما'' (قوانين الہي) كے مد مقابل لايا گيا ہے_ لہذا اس سے مراد غير الہى احكام اور مقررات ہيں _

۱۰_ غير الہى قوانين كى پيروى (اور تقليد) انسان كے راہ خدا سے دور ہوجانے اور قرب الہى كے مقام تك نہ پہنچ سكنے كا سبب بنتى ہے_و ان هذا صراطى مستقيما فتتبعوه و لا تتبعوا السُّبل فتفرق بكم عن سبيله

۱۱_ غير الہى قوانين كى پيروي، معاشروں كے تفرقے و پراكندگى كا باعث بنتى ہے اور انكى وحدت كے مانع ہے_

و لا تتبعوا السُّبل فتفرق بكم

''تفرق'' كى ضمير، ''السُّبل'' كى طرف پلٹتى ہے_ اور ''السبل'' كا ''بائ'' تعدى كے ليے ہے_ بنابرايں ''فتفرق بكم'' يعنى وہ راستے تمہيں گروہ، گروہ كركے، متفرق كرديتے ہيں _

۱۲_ معاشروں كا تفرقہ، راہ خدا سے ان كے دور ہونے اور جدائي پيدا كرنے كا موجب بنتاہے_

و لا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله

''عن'' مجاوزت (دور ہونے، گذر جانے) كے ليے ہے_ اور اس جملے ''فتفرق بكم عن سبيلہ'' كا تقاضا يہ ہے كہ فعل ''تفرق'' كى وجہ سے مفعول ''كم'' مجرور ''سبيلہ'' سے دور ہوجائے اور ان كے درميان فاصلہ و جدائي پڑ جائے_

۴۸۸

۱۳_ انسانى معاشروں كے اتحاد كى جانب خداوندمتعال كى ترغيب كے فلسفہ ميں سے ايك، احكام دين پر عمل كرنا ہے_

فتفرق بكم عن سبيله

۱۴_ انسانوں كو خداوندمتعال كى نصيحت يہ ہے كہ وہ صراط مستقيم پر چليں (يعنى دينى قوانين پر عمل كريں ) اور غير الہى راستوں پر چلنے سے پرہيز كريں _ذلك وصكم به

۱۵_ انسان مقام تقوى پر اسى وقت فائز ہوسكتاہے كہ جب احكام دين پر عمل كرے اور غير الہى قوانين پر چلنے سے پرہيز كرے_ذلك وصكم به لعلكم تتقون

۱۶_حمران : سمعت ابا جعفر عليه‌السلام يقول : فى قول الله تعالى : و ان هذا صراطى مستقيما فاتبعوه و لا تتبعوا السبل'' قال : على (بن ابى طالب) و الائمة من ولد فاطمه، هم صراط الله فمن اباهم سلك السبل (۱)

امام باقرعليه‌السلام ، آيت ''و ان ھذا صراطي ...'' ميں صراط كے بارے ميں فرماتے ہيں _ اس سے مراد على بن ابى طالبعليه‌السلام اور اولاد فاطمہعليه‌السلام ميں سے ائمة اطہارعليه‌السلام ہيں _ جو بھى ان سے دورى اختيار كرے، و ہى غير الہى راستوں پر چلنے والا ہے_

۱۷_عن رسول الله(ص) معاشر الناس انا صراط الله المستقيم الذى امركم باتباعه ثم علي عليه‌السلام من بعدى ثم ولدى من صلبه اء مة يهدون الى الحق (۲)

رسول خدا(ص) سے منقول ہے كہ : اے لوگو : ميں ہى خداوندمتعال كا صراط مستقيم ہوں _ جس كى پيروى كرنے كا (خداوند) نے حكم ديا ہے_اور ميرے بعد، علىعليه‌السلام اور انكى نسل سے ميرے فرزند، امام ہيں _ جو كہ لوگوں كو حق كى جانب دعوت ديتے ہيں اور انكى ہدايت كرتے ہيں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا ايمان ۶; آنحضرت(ص) كى پيروى ۶; آنحضرت(ص) كى راہ ۵; آنحضرت (ص) كے مقامات ۱۷

آئمہ :

___________________

۱) تفسير فرات، ص ۱۳۷ ج ۱۶۳، بحار الانوار ح/ ۲۴ ص ۱۵_ ح ۱۷

۲) احتجاج طبرسى ج ۱ ص ۷۸_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۷۹ ح ۳۴۸_

۴۸۹

آئمہ كى پيروى ترك كرنے كے آثار ۱۶; آئمہ كے مقامات ۱۶،۱۷

اتحاد :اتحاد كى اہميت ۱۳; اتحاد كے موانع ۱۱

احكام : ۷احكام كى خصوصيت ۳

اختلاف :اختلاف كے آثار ۱۲; اختلاف كے اسباب ۱۱

اطاعت :اوامر خدا كى اطاعت ۸; غير خدا كى اطاعت ترك كرنا ۹

امام عليعليه‌السلام :امام عليعليه‌السلام كا مقام ۱۶، ۱۷

اولاد كشى :اولاد كشى سے اجتناب ۱

برائي :برائي سے اجتناب ۱

تقرب :تقرب كے علل و اسباب ۱; تقرب كے موانع ۱۰

تقوى :تقوى كا زمينہ ۱۵

خداتعالى :خداوند كى نصيحتيں ۱۴

دين :دينى تعليمات كا نظام ۴;دين كى پيروى ۷

روايت : ۱۶، ۱۷

سبيل اللہ :سبيل اللہ سے دورى كے علل و اسباب ۱۰، ۱۲

شرك :شرك سے اجتناب ۱، ۴، ۸

صراط مستقيم :صراط مستقيم پر چلنا ۷، ۱۴; صراط مستقيم سے مراد ۱۶; صراط مستقيم كے موارد ۱، ۲، ۳، ۱۷

عھد :خدا سے عہد ۲; عہد كا وفا كرنا ۲

فرائض :فرائض پر عمل ۵، ۳، ۱۴;فرائض پر عمل كے آثار ۱۵

قتل :قتل سے اجتناب ۱

قوانين :غير دينى قوانين سے اجتناب ۱۵; غير دينى قوانين كى پيروى ۹، ۱۰، ۱۱

۴۹۰

كلام :كلام كرتے وقت عدالت ۲

محرمات :محرمات كا منشاء ۸

معاملہ :معاملات (لين دين) ميں عدالت ۲

واجبات : ۷

والدين :والدين سے احسان ۲

يتيم :يتيم كے مال كى حفاظت ۱

آیت ۱۵۴

( ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَاماً عَلَى الَّذِيَ أَحْسَنَ وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ )

اس كى بعد ہم نہ موسى كو اچھى باتوں كى تكميل كرنے والى كتاب دى اور اس ميں ہر شى كو تفصيل سى بيان كرديا اور اسے ہدايت اور رحمت قرار دے ديا كہ شايد يہ لوگ لقائے الہہى پر ايمان لے آئيں

۱_ خداوند متعال نے يہ دس ہدايات (شرك سے پرہيز و غيرہ) حضرت موسىعليه‌السلام تك (بھي) پہنچائي تھيں ہيں _

ثم اتينا موسى الكتب

گذشتہ آيات كے ذيل ميں ، فعل ''وصاكم'' كو ماضى كى صورت ميں استعمال كرنا اور مذكورہ آيت اور گذشتہ آيات كے درميان ارتباط قائم كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ يہ دس احكام اور دستورات فقط امت اسلام سے ہى مختص نہيں بلكہ تمام اديان، من جملہ شريعت موسىعليه‌السلام ميں بھى يہى احكام موجود تھے_ بنابرايں ''ثم'' كے معطوف عليہ كے بارے ميں جو مختلف آراء پيش كى گئي ہيں ان ميں سے اس رائے كى تائيد كى جا سكتى ہے كہ اس كا معطوف عليہ ''وصينا موسى بتلك الوصايا ثم ...'' جيسا ايك جملہ ہے_

۲_ خداوندمتعال نے يہ دس احكام (شرك و غيرہ سے پرہيز) ابلاغ كرنے كے بعد، حضرت موسىعليه‌السلام كو

۴۹۱

تورات عطا كي_ثم اتينا موسى الكتب

۳_ موسىعليه‌السلام ، اپنى ذمہ دارى كو بخوبى انجام دينے والے پيغمبر تھےعلى الذى احسن

''الذى احسن'' (وہ جس نے نيكى كى ہے) سے مراد حضرت موسىعليه‌السلام بھى ہوسكتے ہيں اور ہر نيكى كرنے والا شخص بھى مراد ليا جا سكتاہے_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۴_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو تورات عطا كركے، ان پر اپنى نعمت تمام اور مكمل كردي_

تماما على الذى احسن

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''تماما'' كا مفعول ''نعمة'' جيسا كوئي كلمہ ہو_ يعنى ''تماما النعمة على الذين احسن''

۵_ تورات، قوم موسىعليه‌السلام كے نيك افراد كيلے ايك مكمل نعمت تھي_تماما على الذين احسن

۶_ تورات كے ذريعے، حضرت موسىعليه‌السلام كى جانب ابلاغ ہونے والے دس احكام كا كامل ہونا اور اس كے سبب آپعليه‌السلام كى شريعت كا كمال تك پہنچ جانا_ثم اتينا موسى الكتب تماما

يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ جب ''تماما'' كا مفعول وہى ''دس اصول'' ہوں _

۷_ تورات كا، دس اصول (توحيد و غيرہ) اور شريعت موسىعليه‌السلام كے دوسرے معارف بيان كرنا_

اتينا موسى الكتب تماما و تفصيلا لكل شيئ

''تفصيل'' مصدر ہے اور آيت ميں اسم فاعل (مفصل يعنى بيان كرنے والے) كے معنى ميں ہے ''تفصيلا''، ''تماما'' پر عطف اور ''الكتاب '' كے ليے حال ہے_ ''كل شيئ'' سے مراد حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت كے احكام و معارف ہيں كہ ان كے مصاديق ميں سے وہ دس اصول ہيں (جن كا بيان گذر چكا ہے)_

۸_ تورات، ہدايت كرنے والي، اور باعث رحمت كتاب ہے_اتينا موسى الكتب تماما و هدى و رحمة

۹_ قيامت اور خدا كے حضور جانے پر ايمان ركھنے كى ضرورت_لعلهم بلقاء ربهم يؤمنون

۱۰_ قيامت، انسان كى خدا سے ملاقات كا دن_لعلهم بلقاء ربهم يؤمنون

۱۱_ قيامت اور خداوندمتعال سے ملاقات پر ايمان ركھنا، نزول تورات كے مقاصد ميں سے ہے_

۴۹۲

ثم اتينا موسى الكتب لعلهم بلقاء ربهم يؤمنون

۱۲_ بنى اسرائيل كا تورات كے مطالب پر توجہ كرنا، ان كے قيامت اور ملاقات خدا پر ايمان لانے كا مقدمہ تھا_

ثم اتينا موسى الكتب لعلهم بلقاء ربهم يؤمنون

۱۳_ تورات كے نزول سے پہلے، بنى اسرائيل كا قيامت اور ملاقات خدا كا معتقد نہ ہونا_

ثم اتينا موسى الكتب لعلهم بلقاء ربهم

ايمان :قيامت پر ايمان ۱۱، ۱۲; قيامت پر ايمان كى اہميت ۹; لقاء اللہ پر ايمان ۱۱، ۱۲;لقاء اللہ پر ايمان كى اہميت ۹; متعلق ايمان ۹، ۱۱، ۱۲

بنى اسرائيل :بنى اسرائيل اور تورات ۱۲; بنى اسرائيل كا قيامت سے انكار ۱۳; بنى اسرائيل كا لقاء اللہ سے انكار ۱۳;

بنى اسرائيل كى نعمات ۵; بنى اسرائيل كے ايمان كا

پيش خيمہ ۱۲;بنى اسرائيل كے محسنين۵

تورات :تعليمات تورات ۶، ۷; تورات كا رحمت ہونا ۸; تورات كا كردار ۶، ۷، ۸،۱۲، ۱۳; تورات كا ہدايت كرنا ۸;نزول تورات كا فلسفہ ۱۱; نعمت تورات ۵

خدا تعالى :خداوندمتعال كى عطائيں ۲، ۴; خداوندمتعال كى نصيحتيں ۱

شرك :شرك سے اجتناب ۱، ۲

قيامت :قيامت كى خصوصيت ۱۰;قيامت كے دن لقاء اللہ ۱۰

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام پر اتمام حجت ۴; موسىعليه‌السلام كا اپنے فرائض ادا كرنا ۳; موسىعليه‌السلام كو تورات عطا ہونا ۲، ۴; موسىعليه‌السلام كى دس تعليمات ۱، ۲، ۶، ۷; موسىعليه‌السلام كى شريعت كا اكمال ۶; موسىعليه‌السلام كے فضائل۳

۴۹۳

آیت ۱۵۵

( وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ )

اور يہ كتاب جو ہم نے نازل كى ہے يہ بڑى با بركت ہے لہذا اس كا اتباع كرو اور تقوى اختيار كروكہ شايد تم پر رحم كيا جائے

۱_ قرآن، خداوندمتعال كى جانب سے نازل ہونے والى كتاب ہے_هذا كتاب انزلنه

بعد والى آيات كى وجہ سے ''ھذا'' كا مشار اليہ ''قرآن'' ہے_

۲_ قرآن ايك مبارك اوربہت زيادہ خير و بركت والى كتاب ہے_هذا كتب مبارك

''مبارك'' اس چيز كو كہتے ہيں جو زيادہ سے زيادہ خير و بھلائي كا باعث ہو_

۳_ سب لوگوں كو قرآن كى پيروى كرنى چاہيئے اور اسكى مخالفت سے پرہيز كرنا چاہيئے_فاتبعوه واتقوا

متعلق ''اتقوا'' ''قرآن كى مخالفت'' بھى ہوسكتى ہے اور ''غير قرآنى قوانين كى پيروى ''بھى ہوسكتى ہے_

۴_غير قرآنى قوانين اور دستورات سے بچنے كى ضرورت_فاتبعوه و اتقوا

يہ مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''اتقوا'' كا متعلق ''غير قرآن كى پيروي'' ہو_

۵_ قرآن كى پيروى اور اسكى مخالفت سے پرہيز كرنا، رحمت الہى كے حصول كا مقدمہ ہے_

فاتبعوه واتقوا لعلكم ترحمون

۶_ قرآن كا الہى اور پر بركت ہونا ہى اسكى پيروى كے لازمى ہونے كى دليل ہے_هذا كتب انزلنه مبارك فاتبعوه

''فاتبعوہ'' ميں حرف ''فا'' سببيہ ہے بنابرايں دلالت كررہاہے كہ گذشتہ جملے ميں بيان ہونے والے حقائق كى وجہ سے (قرآن) كى پيروى كرنا لازمى ہے_

۴۹۴

رحمت :رحمت حاصل كرنے كى علل و اسباب ۵

قرآن :قرآن كا خير ہونا۲; قرآن كا نزول ۱; قرآن كا

وحى ہونا ۱،۶; قرآن كى بركت ۲; قرآن كى پيروى ۳; قرآن كى پيروى كے آثار ۵; قرآن كى پيروى كے د لائل ۶; قرآن كى خصوصيات ۱،۲; قرآن كے مخالفت كرنے سے اجتناب كرنا ۳،۵

قوانين :غير دينى قوانين سے اجتناب ۴

آیت ۱۵۶

( أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَاء فَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ )

يہ نہ كہنے لگو كہ كتاب خدا تو ہم سے پہلے دو جماعتون پر نازل ہوئي تھى اور ہم اس كے پڑھنے پڑ ھانے سے بے خبر تھے

۱_ قرآن كا نزول، مشركين مكہ اورتمام انسانوں كے ليے اتمام حجت ہے_

هذا كتب انزلنه ان تقولوا انما انزل الكتب على طاء فتين

''ان تقولوا'' ''لام'' اور ''لا'' نافيہ كے مقدر ہونے كے ساتھ، گذشتہ آيت ميں ''انزلنہ'' كے متعلق ہے_ يعنى ''انزلنا القرآن لئلا تقولوا ...'' آيت كے ،مخاطب تمام انسان ہيں سوائے يہود و نصارى كے گذشتہ آيات كى وجہ سے اور سورہ كے مكى ہونے كے سبب، مشركين مكہ بھى اس كے مصداق ہيں _

۲_ قرآن سے آگاہ ہونے كے باجود، ہدايت نہ پانے والے افراد كے پاس بارگاہ خداوند ميں كوئي عذر نہيں ہوگا_

هذا كتب انزلنه ان تقولوا انما انزل الكتب على طاء فتين

۳_ قيامت كے دن گمراہ افراد رحمت خدا سے محروم ہونگے_

۴۹۵

فاتبعوه واتقوا لعلكم ترحمون_ ان تقولوا انما انزل الكتب على طاء فتين

۴_ نزول قرآن سے پہلے، غير عرب دو قوموں (يہود و نصارى ) پر آسمانى كتاب كا نازل ہونا_

انما انزل الكتب على طاء فتين من قبلنا

۵_ مكہ كے مشركين اور گمراہ افراد، قرآن نازل نہ ہونے كى صورت ميں قيامت كے دن اپنے آپ كو معذور قرار ديتے اور رحمت خدا سے دورى كو بے عدالتى شمار كرتے تھے_ان تقولوا انما انزل الكتب على طاء فتين

۶_ يہود اور نصارى اپنى آسمانى كتاب كى تلاوت، غير عربى زبان ميں كرتے تھے_و ان كنا عن دراستهم لغفلين

جملہ ''ان كنا'' ميں ''ان'' مخففہ ہے_ ''دراست'' مصدر اور تلاوت كے معنى ميں ہے ''ھم'' ''دراست'' كا فاعل ہے_ اور اس كا مفعول ''الكتاب'' ہے_ يعنى ''بتحقيق ہم آسمانى كتاب كو اھل كتاب كے ذريعے پڑھنے سے غافل تھے'' اس كا معنى يہ ہے كہ ہم لوگ، ان كى طرف سے قرات كيئے گئے مطالب كو نہيں سمجھتے تھے_ لہذا اس كے حقائق كو سمجھ نہيں سكتے تھے

۷_ تورات و انجيل كے مطالب سے مشركين كى عدم آگاہى اور غفلت كے سبب ان دو (كتابوں ) كا وجود، ان (مشركين) كے ليے اتمام حجت نہيں ہو سكتا_و ان كنا عن دراستهم لغفلين

۸_ كتب آسمانى كے مطالب تك دسترس نہ ہونے كى صورت ميں ان كى پيروى نہ كرنا، بارگاہ خداوندمتعال ميں ايك قابل قبول عذر ہے_و ان كنا عن دراستهم لغفلين

آسمانى كتابيں :قرآن سے پہلے كى آسمانى كتابيں ۴

اتمام حجت :اتمام حجت كى كيفيت ۷;انسانوں پر اتمام حجت ۱

انجيل :انجيل كا كردار ۷

تورات :تورات كا كردار ۷

جہالت :جہالت كے آثار ۷، ۸

رحمت :رحمت خدا سے محروم افراد ۳

۴۹۶

عذر :قابل قبول عذر ۸;ناقابل قبول عذر ۲

عصيان :آسمانى كتب سے عصيان (نافرماني) ۸

علم :علم كے آثار ۲

قرآن :قرآن كا كردار ۱، ۲، ۵

گمراہ افراد :گمراہيوں كا عذر ۲; گمراہوں كى اخروى محروميت ۳; گمراہيوں كى سوچ،۵

مسيحى :مسيحيوں پر آسمانى كتاب كا نزول ۴;مسيحيوں كا آسمانى كتاب كى تلاوت كرنا ۶

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ پر اتمام حجت ۱; مشركين مكہ كى نظر ۵;

مكہ كے گمراہ :مكہ كے گمراہ اور قرآن ۵

يہود :يہود اور آسمانى كتاب كى تلاوت ۶;يہود پر آسمانى كتاب كا نزول ۴

۴۹۷

آیت ۱۵۷

( أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ )

يا يہ كہو كہ ہمارے اپر بھى كتاب نازل ہوتى تو ہم ان سے زيادہ ہدايت يافتہ ہوتے ثواب تمہارے پروردگار كى طرف سے واضح دليل اور ہدايت ورحمت آچكى ہے پھر اس كے بعد اس سے بڑا ظالم كون ہوگا جو الله كى نشانيوں كو جھٹلا ئے اور ان سے اعراض كرے_ عنقريب ہم اپنے نشانيوں سے اعراض كرنے والوں پر بدترين كريں گے كہ وہ ہمارى آيتوں سے اعراض كرنے والے اور روكنے والے ميں

۱_ مشركين مكہ كا، تورات و انجيل كے پيروكاروں كے ہدايت يافتہ ہونے كا اعتراف كرنا_

لو انا انزل علينا الكتب لكنا اهدى منهَا

۲_ قرآن كا نزول، مشركين مكہ اور دوسرے تمام انسانوں پر خدا كى طرف سے اتمام حجت ہے_

انزلنه او تقولوا لو انا انزل علينا الكتب لكنا اهدى منهم

۳_ مشركين مكہ، اپنے آپ كو دوسروں كى نسبت، حقائق دريافت كرنے كا زيادہ حقدار اور لائق تصور كرتے تھے_

لو انزل علينا الكتب لكنا اهدى منهم

۴_ اگر قرآن نازل نہ ہوتا تو قيامت كے دن گمراہ اور مشرك لوگ، آسمانى كتاب نہ ہونے اور ہدايت الہى سے دور ہونے كے سبب، اعتراض كرنے

۴۹۸

لگتے_او تقولوا لو انا انزل علينا الكتب لكنا اهدى منهم

۵_ قرآن خداوندمتعال كى جانب سے نازل ہونے والي، روشن اور روشنى بخش كتاب ہے_

فقد جاء كم بينة من ربكم

۶_ قرآن، انسانوں پر ربوبيت خداوند كا ايك جلوہ ہے_فقد جاء كم بينة من ربكم

۷_ قرآن، خود اپنى حقانيت بيان كررہاہے اور كسى دوسرى دليل كا محتاج نہيں _فقد جاء كم بينة من ربكم

۸_ قرآن، انسانوں پر ربوبيت خدا كے اثبات كى ايك روشن اور واضح دليل ہے_فقد جاء كم بينة من ربكم

۹_ قرآن، آيات الہى ميں سے ہے_فقد جاء كم بينة من ربكم فمن اظلم ممن كذب بآيات الله

۱۰_ قرآن كو جھٹلانے والے ظالم ترين لوگ ہيں _فمن اظلم ممن كذب بايت الله

۱۱_ جو لوگ قرآن سے روگردانى كرتے ہيں وہى ظالم ترين لوگ ہيں _فمن اظلم ممن صدف عنها

''صدف'' (مصدر صدف) بمعنى اعراض كرنا اور كسى كام سے پھيرنا ہے (قاموس المحيط) مندرجہ بالا مفہوم پہلے معنى كى بنا اخذ كيا گيا_

۱۲_ جو لوگ دوسروں كو قرآن اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روكتے ہيں وہى ظالم ترين لوگ ہيں _

فمن اظلم ممن صدف عنها

مندرجہ بالا مفہوم ميں ''صدف'' ايك فعل متعدى ہے (يعنى منصرف كرنے اور كسى كام سے پھيرنے كے معنى ميں ) يہ بھى قابل ذكر ہے كہ اس بنا پر اس كا مفعول ''الناس'' كى مانند كلمہ ہے ہے جو كہ واضح ہونے كى وجہ سے جملہ ميں ذكر نہيں ہوا_

۱۳_ خداوندمتعال اپنى آيات (قرآن) سے منہ پھيرنے والوں كو سخت عذاب ميں مبتلا كرے گا_

سنجزى الذين يصدفون عن آيتنا سوء العذاب

۱۴_ خداوندمتعال، ايمان كے راستے ميں ركاوٹ بننے والوں كو سخت سزا سے دوچار كرے گا_

سنجزى الذين يصدفون عن ا ى تنا سوء العذاب

۴۹۹

۱۵_ ماضى ميں (آيات الہى كو) جھٹلانے اور ان سے منہ پھيرنے كے باوجود اگر كوئي آيات الہى پر ايمان لے آئے تو يہ عذاب الہى سے نجات كا سبب بن جائے گا_سنجزى الذين يصدفون بما كانوا يصدفون

''بما كانو ...'' ميں ''با'' سببيہ اور ''ما'' مصدريہ ہے_ فعل مضارع سے پہلے ''كان'' و غيرہ كا آنا، اس فعل كے معنى كے استمرار پر دلالت كرتاہے_ لہذا ''سنجزي بما كانوا يصدفون'' يعنى ''انھيں ، اعراض كرنے ميں مداومت كرنے كى وجہ سے برے عذاب ميں گرفتار كريں گے، بنابرايں ، اگر كوئي نافرمانى كرنے كے بعد، پھر سے آيات الہى كى تصديق كردے اور ان پر ايمان لے آئے تو عذاب ميں مبتلا نہيں ہوگا_

آسمانى كتب :آسمانى كتب سے جہل كے آثار ۴

آيات خدا :آيات خدا سے اعراض كرنے والوں كا عذاب۱۳

اتمام حجت :انسانوں پر اتمام حجت ۲

انجيل :انجيل كے پيروكاروں كى ہدايت ۱

انسان :انسانوں پر اتمام حجت ۲

ايمان :آيات خدا پر ايمان ۱۵; ايمان سے روكنے كى سزا ۱۴; ايمان سے منع كرنا ۱۲; ايمان كے آثار ۱۵; متعلق ايمان ۱۵

تورات :تورات كے پيروكاروں كى ہدايت ۱

خدا تعالى :خدا كى حجت كا اتمام ہونا۲; خدا كى ربوبيت كے دلائل ۸; خدا كى ربوبيت كے مظاہر ۶; خدا كى مقرر كردہ سزائيں ۱۴; خدا كى ہدايت ۴; خدا كے مقرر كردہ عذاب ۱۳

سزا:سزا كے درجے۱۴

ظالمين :ظالم ترين لوگ ۱۰، ۱۱، ۱۲

ظلم :موارد ظلم ۱۰، ۱۱، ۱۲

عذاب :عذاب سے نجات پانے كے اسباب ۱۵

قرآن :قرآن جھٹلانے والوں كا ظلم ۱۰; قرآن سے

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744