تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174421 / ڈاؤنلوڈ: 5183
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

 إِنَّ الشَّيْطانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّما يَدْعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحابِ السَّعیرِ (1)

 "شیطان تمھارا دشمن ہے تم بھی اس سے دشمنی رکھو. شیطان کے ساتھ خوشیاں تو منا نہیں سکتا وگرنہ انسان بھی شیطان بن جائے گا".

پس اولیائے خدا سے دوستی رکھو اور دشمنان خدا سے دشمنی رکھنی چاہئے. اور یہ فطرت انسانی ہے اورتکامل اور سعادت انسانی کا عامل  ہے. اگر دشمنان خدا سے دشمنی نہ رکھے تو آہستہ آہستہ ان کی رفتار کو اپنا نے لگتا ہے اور دوستی پیدا ہوسکتی ہے اور آخر میں ایک شیطان دوسرے لوگ اس شیطان کی مانند ہوجائیں گے دیکھ لو قرآ ن کیا فرما رہا ہے:

واذرایت ْ إِنَّ الل ه جامِعُ الْمُنافِقینَ وَ الْکافِرینَ فی‏ جَهَنَّمَ جَمیعاً (2)

 یعنی جب بھی ایسے افراد سے جو ہمارے  دین کی اہانت ، استھزا اور مسخرہ کرتے ہیں ، نزدیک نہ ہو. ورنہ  آخرت میں انہیں کے ساتھ محشور ہونگے.

دوسرے  لفظوں میں ؛ دشمنوں کے ساتھ دشمنی کرنا  نقصانات کے مقابلے میں دفاعی سسٹم ہے جس طرح بدن انسان مفید مواد کو جذب کرتا ہے دفاعی سسٹم زہر اور جراثیم کو دفع کرتا ہے سفید گلوبل کا کام دفاع کرنا اور جراثیم کو مار دیاا ہے کوئی عاقل انسان یہ نہیں کہتا: اے جراثیمو ! خوش آمدید ، آؤ سر آنکھوں پر اھلاً وسہلاً ہمارے بدن میں وارد ہوجا ، تم ہمارے مامثن ہو، تو کیا ہمارا بدن اس صورت میں سالم رہے گا ؟

--------------

(1):-  فاطر6.

(2):-  انعام 68.

۱۴۱

پس ہر جگہ مسکرانا صحیح نہیں ہے بلکہ اسلام اور دین کے دشمنوں سےصراحتاً  بیزاری کااظہار کرنا قرآن کا حکم ہے چنانچہ ابراہیم  نے فرمایا:

انا بری‏ء منکم

اے بت پرستو ! میں تم سب سے بیزار ہوں اسی لئے امریکا مردہ باد اسرائیل مردہ باد کہنا عین عبادت ہے  کیونکہ تبریٰ فروع دین میں شامل ہے.

اور یہ امریکہ و اسرائیل ہماری موت کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے:

وَ لَنْ تَرْضی‏ عَنْكَ الْيَهُودُ وَ لاَ النَّصاری‏ حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَی الل ه هُوَ الْهُدی‏ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ بَعْدَ الَّذی جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ما لَكَ مِنَ الل ه مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصیرٍ (2)

"اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خو ش نہںد ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پر و نہ بن جائںن، کہدیے ت: یقینا اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پر وی کی تو آپ کے لےے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار"۔

پس پہلے دشمنوں پر لعن کرے بھر حسینؑ  پر سلام بھیجے.یہی دستورقرآن کا بھی ہے : پہلے دشمنوں سے اظہار بیزاری کریں پھر دوستوں سے اظہار محبت اول:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْكُفَّارِ بعدفرمایا: رُحَماءُ بَيْنَهُمْ‏ (1)

اگرا یسا  ہو تو حسینی ہیں و رنہ حسینی ہونے کا صرف دعوا ہے.

--------------

(1):- بقرہ 120.

(2):-  فتح 29.

۱۴۲

سوال: داستان کربلا اسلام کی ترویج اور سعادت کا باعث ؟

جواب: اوپر کے چار سوالوں کے جواب کا ماحصل یہ تھا کہ اگر حادثہ عاشورا ، داستان کربلا تاریخ میں نقش متعین کنندہ ہوجائے تو اس کی نگہداری بھی ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم  ہو گا کہ داستان کربلا اسلامی ترقی اور ترویج کیلئے نقش متعین کنندہ  اور سعادت سازہے؟ !!

جواب: جس چیز پر دوست اور دشمن سب متفق ہیں یہ ہے کہ داستان کربلا اگر ایک بے مثال داستان نہ ہو تو کم نظیر داستان تو ہے یعنی نہ ایسی داستان کبھی واقع ہوئی ہے اورنہ بعد میں واقع ہوگی.  لیکن ہمارا عقیدہ ہے  کہ یہ داستان بے نظیر اور بے مثال داستان ہے کیونکہ معصوم  کا فرمان ہے اور اس کی کیفیت وقوع بھی مصیبت کے اعتبار سے قابل مقایسہ  نہیں ہے اس کی دلیل یہی ہے کہ ہر سال ہم بڑی شان و شوکت کے ساتھ عزاداری کرتے ہیں اور اوقات صرف کرتے ہیں ، پیسے خرچ کرتے ہیں اور یہ مراسم سرف اسلامی ممالک میں منعقد نہیں ہوتا

بلکہ نیویارک جیسے بڑے شہروں میں بھی عاشور کے دن تابوت اور شبیہ نکالتے ہیں  جہاں سازمان ملل (اقوام متحدہ ) کا دفتر موجود ہے .حتی اہل سنت بھی اس مراسم عزاداری میں شرکت کرتے ہیں حتی ہندوستان میں مسلمانان ایران کے دو برابر مسلمان موجود ہیں اور اسی طرح بنگلا دیش میں بعنوان ادای اجر رسالت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہوئے عزاداری میں شرکت کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں حکم آیا ہے :

 قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی. (1)

اور اجر رسالت کو ان کے آل کی خوشیوں اور غم میں شریک ہونے کی شکل میں ادا کرتے ہیں یہاں تک کہ بت پرست بھی عزاداری میں شرکت کرتے ہیں اور نذر ونیاز دیتے ہیں اگر آپ گذرزمان کے لحاظ سے دیکھے تو چودہ صدی گذرنے کے بعد بھی وہی طراوت اور شادابی پائی جاتی ہے اور وہی گریہ وعزاداری ہے

--------------

(1):-  الشوری  23.

۱۴۳

 اور اس کے ساتھ ساتھ شیعیان سید الشہدا ء کی قربانیوں کو نگاہ کریں ،کسی بھی قیمت پر ان کی قبر کی زیارت کیلئے حاضرہوتے ہیں متوکل عباسی کے زمانے میں بہت  ہی سخت گیری کرتے تھے یہی متوکل تھا جس نے سید الشہدا ء (ع)کے قبرپر ہل چلا یا اور پانی گرآثار کو ختم کرنا چاہا لیکن شیعوں نے دور یا نزدیک سے قبر امام   کی زیارت کرنے کی خاطر ہاتھ پیروں اور جان تک کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کئے. یہ سب کیوں ؟ کیا یہ اتفاقی ہے؟ حتی اہل سنت اور بت پرست بھی قربانی دیتے ہیں اور عاشور کے دن علی اصغر  کے نام پر دودہ کی شربت دیتے ہیں. یہ سب اس لئے کہ خود پیغمبر(ص) اور آئمہ طاہرینؑ  نے آپ کی زیارت کے فضائل زیادہ بیان کئے ہیں حتی معصوم سے سوال ہوا : زیارت پیغمبر اور بقیہ آئمہؑ  کا کس قدر ثواب ہے ؟ تو فرمایا : زیارت پیغمبراں الٰہی کی زیارت کا ثواب ہے لیکن زیارت سید الشہداءؑ  کا ثواب مانند زیارت خدا وند در عرش برین !!!

خود آئمہ طاہرین بھی ایام محرم میں ذاکرین اور شاعروں کو دعوت دیتے ہیں اور مراسم عزاداری منعقد کرتے تھے یہاں تک کہ مؤمنوں کے دلوں میں ایام محرم کیلئے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے :انّ للحسین فی قلوب المؤمنین حرارة لم تبرد ابدا.

انسانی زندگی پرعزاداری کا اثر

ہمارا عقیدہ ہے پیغمبر اسلام (ص) سب سے افضل ہیں کیوں آپ کی وفات پر اس طرح عزاداری نہیں کرتے ؟ یا امیر المؤمنین  پر دس دن عزاداری کیوں نہیں کرتے ؟!

جواب : ہر معصومؑ میں ایک خاص خصوصیت پائی جاتی ہے اسی طرح امام حسین (ع) میں بھی فوق العادہ خصوصیات کی وجہ سے آپ کی عزاداری حضرت آدم  نے بھی کی ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا:حسین منیّ وانا من الحسین . اور فرمایا: وانہ لمکتوب علی ساق العرش ان الحسین مصباح الہدی وسفینة النجاة .اگرچہ ہمارے سارے امام چراغ ہدایت اورنجات کی کشتی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین (ع) کی زندگی میں کچھ ایسی حالات واقع ہوئی کہ جو باعث بنی آپ کی شہادت کو اتنی عظمت

۱۴۴

ملی جو تقدیر الٰہی تھی وگرنہ ایسا نہیں کہ دوسرے آئمہ اور آپ میں فرق ہو اگر امام حسن  کو  سنبل صلح کا لقب ملا لیکن آپ امام حسین  (ع)کی جگہ پر ہوتے تو آپ بھی جنگ کرتے ایساہرگز نہیں کہ آپ خشونت آمیز ہو اور دوسرا صلح طلبانہ ، بلکہ ان کے کارناموں میں اختلاف  اجتماعی شرایط میں اختلاف کی وجہ سے ہے. وگرنہ یہ دونوں ایک سکہ کے دو رخ ہیں.

اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح یہ خصوصیات امام حسین  (ع)میں پیدا ہوئیں کہ ان کی عزاداری سے لوگوں کو شفا ملتی ہے. حضرت آیة اللہ بروجردی  مرجع شیعیان جہان درد چشم میں مبتلا تھے عزاداران سید الشہدا  کے پیروں کے نیچے سے مٹی لیکر اپنی آنکھوں میں ملتے ہیں تو اس طرح شفا ملتی ہے کہ آخری دم تک عینک کی ضرورت نہیں پڑی. اور لوگوں کی کتنی حاجتیں اسی عزاداری کے توسط سے پوری ہوتی ہیں ، تو کیا یہ مناسب نہیں کہ اس عزاداری کیلئے اہتمام کرے. 

دوسری بات  جو قابل توجہ ہے و ہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں انبیا ی الٰہی کی شخصیت اور اولیاء خدا کی شخصیات میں  بہت ہی ابہامات لوگوں نے پیدا کئے ہیں. حتی خود پیغمبر اسلام  کے بارے میں کہا کہ یہ مجنون ہے ،کسی نے کہا ساحر ہے حتی کانوں میں انگلیاں ڈال رکھے اسی طرح امام علی  کی ذات اور کردار کو اس طرح تحریف کیا کہ جب شام والوں نے سنا کہ علی  مسجد میں شہید ہوگئے ہیں تو تعجب کیا ، جبکہ علی  کی شخصیت عدالت اور عبادت سے پہچانی جاتی تھی ، لیکن یہ حسین کا کارنامہ ہے جس میں تحریف نہیں ملے گا ہر خاص وعام کہے گا : حسین حق کی حمایت اور اسلام  کی بقا کی خاطر شہید کئے گئے ، حتی شیر خوار بچے کی قربانی بھی دینے سے دریغ نہیں کیا اور ناموس اسیر کئے گئے. ممکن ہے جزئیات میں تحریف ہواہو، یہ تو ایک طبیعی چیز ہے کسی نے نہیں کہا کہ ایسا نہیں ہوا ہے .

۱۴۵

اگر کوئی اہل مقام ہو اور جب جان کو خطر میں دیکھتا ہے تو کسی صلح یابچنے کا راستہ ڈہونڈتا ہے ، لیکن امام  نے شب عاشور بھی اور روز عاشور بھی اسے بیعت یزید کا پیشنہاد کرتے رہے لیکن قبول نہیں کئے فرمایا: أَلَا وَ إِنَّ الدَّعِيَّ ابْنَ الدَّعِيِّ قَدْ تَرَكَنِی بَيْنَ السَّلَّةِ وَ الذِّلَّةِ وَ هَيْهَاتَ لَهُ ذَلِكَ مِنِّی هَيْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّة . (1) کسی مقام یا دولت حاصل کرنے کے لئے کیا ناموس اور چھوٹے بچے ساتھ لے جاتے ہیں ؟!!

پس کسی بھی صورت میں تحریف نہیں کرسکتا کہ یہ قیام جہاں ن طلبی کیلئے کیا ہے اب کیا کوئی کہہ سکتا  ہے کہ حسین نے اشتباہ کیا ہے ؟!

البتہ بعض ناصبی نے کہا  کہ امام کو یہ نہیں کرنا چاہئے تھا.لیکن اس کے باوجود ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس عزاداری کی حفاظت کرے. ایک طرف امام حسین(ع) کی یاد میں گریہ کرنے ، جان نثاری ، اور نام حسین کے ساتھ عشق لگانا اور ایک زرہ خاک کربلا کو شفا یابی کی خاطر تناول کرنا دوسری طرف اس قدر نام امام حسین(ع) کو مٹانے کی کوشش کرنا کہ قبر پر پانی  ڈالا جائے اور زائرین امام کو شہید کرنا کیوں ؟ آخر انہیں اس دشمنی سے کیا حاصل ہوا؟ اب بھی لوگ جدید اصطلاحات اور مختلف صورتوں  میں عزاداری کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں ، یہ لوگ اپنے آپ کو روشن فکر کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ کہنا مناسب ہوگا :بیدین اور تاریک فکر لوگ. یہ لوگ کہتے ہیں امام حسین (ع) نے خشونت سے کام لیا ، ہم  کہیں گے پیغمبر اسلام (ص)نے بھی جنگ بدر و حنین جیسی جنگوں میں خشونت سے کام لیا ہے اسی طرح بنی امیہ کے ساتھ ، ہم کہیں گے جنگ میں حلوا چپاتی تو تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قتل یا زخمی ہوتا ہے یا دوسروں کو زخمی یا قتل کرتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں حادثہ عاشورا خشونت پیغمبر ہی کا نتیجہ تھا پس اگر کربلا سے درس حاصل کرنا ہے تو اس طرح حاصل کرے کہ ہم کسی سے خشونت نہ کرے تا ہمارے بچوں کے ساتھ کوئی دوسرا خشونت نہ کرے!!!

-------------

(1):-  الاحتجاج علی اہل اللجاج،ج2 ،احتجاجہ ع علی اہل الکوفة بکربلاء ،  ص 300.

۱۴۶

ان لوگوں کی نظر میں جہاد ، دفاع ، امر بہ معروف ، نہی از منکر  سب معطل ہونا چاہئے .تاکہ کوئی ہمارے ساتھ واسطہ نہ رکھے جبکہ خداوند امر کرتا ہے:قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ الل ه بِأَيْدیكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنین‏ (1)

قرآن کی صریح آیت ہے کہ ان مشرکوں کے ساتھ جنگ کرو تاکہ تمھارے ہاتھوں کو لوگ عذاب میں پڑ جائی اور انہیں رسوا کرے اور تمہیں پیروز کرے اور قلوب مؤمنین کو ٹھنڈا کرے اب معلوم ہوجائے گا کہ یہ لوگ حسین(ع) سے کیوں دشمنی کرتے ہیں؟!

اپنے  رسول کے نواسے کو بے دردی سے شہید کیا گیا؟!!

کیوں ایسی وضعیت پیدا ہوئی کہ رحلت پیغمبر کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا ان کے عزیز نواسے کو اس قدر بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ؟!!

اشکال: قرآن میں خشک و تر موجود ہے تو واقعہ کربلا  اس میں کیوں درج نہیں ؟

جواب: قرآن میں ایک آیت ہے :إِنَّ الل ه يُحِبُّ الَّذینَ يُقاتِلُونَ فی‏ سَبیلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْیانٌ مَرْصُوصٌ (2) ایسا لشکر ہے جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے اس کی پیشانی پر شکن نہیں پڑتی اور ان لشکروں کا ذکر کروں گا جن کا تذکرہ قرآن میں ہےجو اس لشکر کا ایک ایک سپاہی میدان سے منہ نہیں موڑتا، تو وہ لشکر کہاں ہے ؟

کیا پہلا لشکر جو حضرت موسیٰ کا ہے بنی اسرائیل بہت بڑی تعداد میں ہے اور جناب موسیٰ ان کو بچانے کیلئے لیکر راتوں رات مصر کو چھوڑ رہے ہیں اور صبح ہونے کے بعد فرعون کو خبر ہوتی ہے بنی اسرائیل نے مجھے چھوڑ دیا ہے:فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدائِنِ حاشِرینَ إِنَّ ه ؤُلاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلیلُونَ وَ إِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ وَ إِنَّا لَجَمیعٌ حاذِرُونَ. شعرا۵۳..۵۶

--------------

(1):-  توبہ14.

(2):-  الصف :4 

۱۴۷

فرعون نے قرب و جوار میں پیام رسان بھیجے جلدی جلدی لشکر بھیجو اگر لشرزمة قلیلون کیلئے اپنی فوج ہی کافی تھا تو کیوں ادھر ادھر سے مدد مانگتے ہو؟ دشمن کبھی اکیلے حملہ نہیں کرتا یہ باطل کی تاریخ ہے کیونکہ جتنا بھی قوی ہو وہ دل کے کمزور ہوتا ہے.اب اتنا لشکر جمع ہوگیا کہ بنی اسرائیل آگے سمندر پیچھے سے لشکروں کا سمندر یہ لوگ گھوڑوں پر سوار موسیٰ کو حکم ہوا عصا کو دریا پر مارو  تو حکم الہی کی اطاعت ہوئی تو دریا پھٹ گیا پہاڑیوں میں تبدیل ہوگیا وسط میں راستہ پالنے والے تو اگر کہہ دیتے دریا سے کہ میرے نبی کو راستہ دیدے تو کیا وہ تیری اطاعت نہ کرتا ؟ موسیٰ نے کہا ہو تاکہ تو آگے بڑھو اور کہو اس سےکہ راستہ دیدے کہ کلیم خدا تھے تو کیا راستہ نہ دیتا؟یہ ڈنڈا مارنے کا حکم کیوں ہوا؟ تاکہ دنیا کو یہ بتا دے کہ ڈنڈے میں بذات خود کوئی قدرت تو نہیں ہے لیکن جب کسی معصوم سے منصوب ہوتی ہے تو صاحب کرامت بن جایا کرتا ہے ، اب بنی اسرائیل سے موسیٰ  نے کہا : اب چلو وہ سب نکل گئے اور پانی کی موجیں اسی طرح کھڑی رہی تو فرعون نے کہا : یہ تو میرا معجزہ ہے ،بڑھو آگے. فرعون آگے آگے اور لشکر اس

کے پیچھے پیچھے جب درمیان میں آگیا تو موجیں مل گئیں اب بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے خدا کی طاقت دیکھ لیا اور یہ دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کر رہا ہے یہاں سے بڑھ کر شام کے باڈر پر پہنچے تو موسیٰ نے اشارہ کیا :یا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتی‏ كَتَبَ الل ه لَكُمْ وَ لا تَرْتَدُّوا عَلی‏ أَدْبارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خاسِرینَ المائدة :  21 یہ سامنے جو زمین دکھائی دے رہی ہے تمھارے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے ، چلو اس کے اندر دیکھ نبی خدا اور اس کے اعجاز ، اللہ کی تائید ، فرعون کا ڈھوبنا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مگر ایمان اتنا کمزور ہے کہ جب موسیٰ نے کہا: اللہ نے اس زمین کو تمھارے لئے لکھ دیا ہے چلو اس کو اپنے قبضے میں لے لو تو قرآن کہتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جواب دیا:

۱۴۸

 قالُوا یا مُوسی‏ إِنَّ فی ه ا قَوْماً جَبَّارینَ وَ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَ ه ا حَتَّی يَخْرُجُوا مِنْ ه ا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْ ه ا فَإِنَّا داخِلُونَ قالَ رَجُلانِ مِنَ الَّذینَ يَخافُونَ أَنْعَمَ الل ه عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبابَ فَإِذا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غالِبُونَ وَ عَلَی الل ه فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنینَ قالُوا یا مُوسی‏ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَ ه ا أَبَداً ما دامُوا فی ه ا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقاتِلا إِنَّا ه اهُنا قاعِدُونَ قالَ رَبِّ إِنِّی لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسی‏ وَ أَخی‏ فَافْرُقْ بَيْنَنا وَ بَيْنَ الْقَوْمِ الْفاسِقینَ (1) اے موسیٰ ہم نے سنا ہے اس سرزمین پر بسنے والی قوم بڑی مضبوط ہے ہم تو اس کے قریب نہیں جائیں گے آپ نے کہا کیا فرعون کے لشکر سے زیادہ مضبوط ہے ان کا غرق ہونا ابھی دیکھا ہے مگر ایمانی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ کہنے لگے : ہم تو اس میں نہیں جائیں گےاور جسارت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ تو اور تیرے پروردگار جائیں ہم  یہیں سے تماشا دیکھتے رہیں گے. اگر اس سرزمین پر قبضہ کرنے کا شوق ہے تو اپنے پروردگار کے ساتھ خود جائیں

امام سجاد کا گریہ کیا صبر کے خلاف نہیں؟

جواب:رونا اور گریہ کرنا صبر کے خلاف نہیں  اور امام کے شان کے خلاف بھی نہیں۔اگرچہ امام زین العابدین نے بین بھی کئے ہیں ، بے تابی بھی کی ہیں۔ در اصل جو اثر مصائب ہے ہوتے ہیں سب ہوئے ہیں۔لیکن یہ بین ،مرثیہ اور رونا نہیں تھےبلکہ یہ اس قربانی کی قیمت کا اظہار تھا اور اس مقصد کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا تھا کہ دیکھو!میرا کیسا بھائی تھا کہ جسے میں نے کس مقصد کے لئے دے دیا۔

سؤال 148: آیا صحیح است اولین کسی کہ در عزاداری، مراسم سینہ زنی بہ راہ انداخت عایشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ بود. آنجا کہ ایشان می گوید: کہ چون احساس کردم پیغمبرـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ رحلت کرد: زنان را جمع کردہ و بر سینہ و صورت می زدم.

«عن عبّاد: سمعت عائشة تقول: مات رسول الله ـ صلی الله علیه و سلّم ـ ثم وضعتُ راسه علی و سادة و قمت أَلتدم ـ ای اضرب صدری ـ مع النساء و اضرب وجهی».[ 356]

--------------

(1):-  مائدہ ۲۲- ۲۵.

۱۴۹

و ہمچنین زنان بنی سفیان در شام در عزای حضرت حسین(رضی اللہ عنہ)سینہ می زدند ابن عبد ربہ اندلسی می گوید:«قالت فاطمة: فدخلت الیهن فما وجدت فیهن سفیانیة الاّ ملتدمة تبکی». [357]

سؤال 149: آیا صحیح است کہ شامیان برای حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)یکسال عزاداری کردہ و برای رحلت او گریستند...اگر ما می گوئیم گریہ و نوحہ برای میت مشروع نیست. چرا در حضور معاویہ در این مدت عزاداری کردہ ولی او نہ تنہا اینکہ مانع نشد بلکہ آنان را حمایت و پشتیبانی می کرد.

ذہبی می گوید:«نصب معاویة القمیص علی منبر دمشق و الاصابع معلقة فیه و آلی رجال من اهل الشام لا یاتون النساء، و لا یمسّون الغُسل الامن حلُم، و لا ینامون علی فراش، حتی یقتلوا قتلة عثمان او تفنی ارواحهم، و بکوه سنة».[ 358]

معاویہ پیراہن عثمان و بعضی از انگشتان قطع شدہ او را بر فراز منبر آویزان کرد، و عدہ ای از شامیان سوگند یاد کردند کہ بہ بستر استراحت و خواب نروند، و با ہمسران خود مقاربت نکنند. تا اینکہ قاتلان عثمان را بہ قتل برسانند یا اینکہ کشتہ شوند، و یکسال برای او گریستند.

[356] .السیرة النبویة 4: 305.

[357] .العقد الفرید 4: 383.

[358] .تاریخ الاسلام (الخلفاء)، 452.

سؤال 150: آیا ارزش و کرامت زن نزد ما در این حد است کہ او را در کنار و ردیف سگ و خوک و خر و شتر قرار دہیم. چنانچہ در کتابہای ما آمدہ: بہ ہنگام نماز حائلی را قرار دہد تا اگر زن یا خر و یا شتر رد شود بہ صحت نماز ضرری نزند.

«قال: و الظُعن یمرُّون بین یدیه: المراة و الحمار و البعیر».[ 359]

یعنی نمازگذار با گذاشتن مانع در مقابل خود، زن، خر و شتر از برابر او را می گذرند و ضرری بہ نماز نمی زند.

۱۵۰

ابوہریرہ می گوید:«یقطع الصلاة المراة و الحمار و الکلب».[ 360]

عبور زن و الاغ و سگ از مقابل نمازگذار نماز را باطل می کند و احمد بن حنبل فرمود:«یقطع الصلاة الکلب الاسود و الحمار و المراة»، یعنی عبور سگ سیاہ و الاغ و زن نماز را باطل می کند .[361]

البتہ این گونہ تعبیرہا بقدری سنگین و با کرامت زن تنافی دارد کہ مورد اعتراض شدید آنان قرار گرفتہ.

جناب عائشہ(رضی اللہ عنہ) می گوید:«جعلتمونا بمنزلة الکلب و الحمار...».[ 362]

یعنی ما زنان را ردیف سگ و الاغ قرار دادید!!

[359] .السنن الکبری 3: 166 و 3554 ـ مصنف ابن ابی شیبہ 1: 315.

[360] .صحیح مسلم 1: 145 ـ المحلی 4: 8.

[361] .المحلی 4: 11.

[362] .ہمان. عن عکرمة یقطع الصلاة الکلب و المراة و الخنزیر و الحمار و الیہودی و النصرانی و المجوسی.

مصنف ابن ابی شیبہ 1: 315.

۱۵۱

آٹھویں فصل:

 امام زمان (ع) سے مربوط اشکالات

عقیدہ مہدویت کے بارے میں شیعہ اور سنی  مکتب میں کچھ مشترکات اور کچھ اختلافات پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

مشترکات : وجود میں آنا، قریشی ہونا، رسول ، علی ، فاطمہ اور امام حسین(ع) کی اولاد میں سے ہونا،اسی طرح کنیت اور نام بھی اہل سنت اور شیعہ دونوں کے نزدیک  ایک جیسے ہیں. آپ کے ظہور کے بارے میں  ۶۵۷ احادیث  موجود ہیں صحیح بخاری اورصحیح مسلم  نے بھی ان احادیث کو صحیح السند مانے ہیں.

افتراقات: معصوم ہونا اور نہ ہونا، علم غیب  رکھنا اور نہ رکھنا، گیارہ اماموں کے بعد امام عسکری کی اولاد میں سے ہونا اور نہ ہونا، ولادت ہوچکی ہے اور بعد میں ہوگی، جبکہ شیعہ کے ہاں صحیح احادیث موجود ہیں ، جن میں سے ایک حدیث کو نمونے کے طور پر یہاں بیان کریں گے :

أَنَّ رَسُولَ الله ص أَوْصَی بِأَمْرِ الله تَعَالَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إِلَی الْحَسَنِ وَ أَوْصَی الْحَسَنُ إِلَی الْحُسَيْنِ وَ أَوْصَی الْحُسَيْنُ إِلَی عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ وَ أَوْصَی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ إِلَی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ وَ أَوْصَی جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ إِلَی مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَ أَوْصَی مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ إِلَی ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ مُوسَی الرِّضَا إِلَی ابْنِهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ أَوْصَی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ إِلَی ابْنِهِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ أَوْصَی الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی ابْنِهِ حُجَّةِ الله الْقَائِمِ بِالْحَقِّ الَّذِی لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ الله ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّی يَخْرُجَ فَيَمْلَأَهَا عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْما .(1)

--------------

(1):-  الکافی    ج1،   باب السعادة و الشقاء ص 152.

۱۵۲

اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اکرم (ص) نے اپنے بھائی علی کو اپنا نانشین بنایا اور علی نے اپنے بیٹے حسن کو انہوں نے حسین کو یہاں تک کہ امام حسن العسکری نےامام  زمان  کو اپنا جانشین بنایا جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریگا اگرچہ اس دنیا کی زندگی ایک دن سے زیادہ نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا طول دیگا  یہاں تک کہ مھدی ظہور فرمائے گا  اور  اس دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پر کریگا جس طرح ظلم و جور سے پر ہوچکی ہے.

ٍ الاحتجاج علی اهل اللجاج ج‏1 69 ذکر تعیین الائمة الطاهرة بعد النبی ص و احتجاج الله تعالی بمکانهم علی کافة الخلق ص : 67

دَعَوْتُهُ وَ إِنْ رَجَعَ إِلَيَّ قَبِلْتُهُ وَ إِنْ قَرَعَ بَابِی فَتَحْتُهُ وَ مَنْ لَمْ يَشْهَدْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدِی وَ رَسُولِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَلِیفَتِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِهِ حُجَجِی فَقَدْ جَحَدَ نِعْمَتِی وَ صَغَّرَ عَظَمَتِی وَ كَفَرَ بِآيَاتِی وَ كُتُبِی إِنْ قَصَدَنِی حَجَبْتُهُ وَ إِنْ سَأَلَنِی حَرَمْتُهُ وَ إِنْ نَادَانِی لَمْ أَسْمَعْ نِدَاءَهُ وَ إِنْ دَعَانِی لَمْ أَسْتَجِبْ دُعَاءَهُ وَ إِنْ رَجَانِی خَيَّبْتُهُ وَ ذَلِكَ جَزَاؤُهُ مِنِّی وَ ما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ فَقَامَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله وَ مَنِ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ؟ فَقَالَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ زَيْنُ الْعَابِدِینَ فِی زَمَانِهِ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ثُمَّ الْبَاقِرُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَ سَتُدْرِكُهُ يَا جَابِرُ فَإِذَا أَدْرَكْتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّی السَّلَامَ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الْكَاظِمُ مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ ثُمَّ الرِّضَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَی ثُمَّ التَّقِيُّ الْجَوَادُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ النَّقِيُّ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الزَّكِيُّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ ابْنُهُ الْقَائِمُ

بِالْحَقِّ مَهْدِيُ‏ أُمَّتِی مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ صَاحِبُ الزَّمَانِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِینَ الَّذِی يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً هَؤُلَاءِ يَا جَابِرُ خُلَفَائِی وَ أَوْصِيَائِی وَ أَوْلَادِی وَ عِتْرَتِی مَنْ أَطَاعَهُمْ فَقَدْ أَطَاعَنِی وَ مَنْ عَصَاهُمْ فَقَدْ عَصَانِی وَ مَنْ أَنْكَرَهُمْ أَوْ أَنْكَرَ وَاحِداً مِنْهُمْ فَقَدْ أَنْكَرَنِی بِهِمْ يُمْسِكُ الله عَزَّ وَ جَلَّ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَیالْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ بِهِمْ يَحْفَظُ الل ه الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا

۱۵۳

ای یودی از ذریت من در آخر الزمان مدی علی السّلام بیرون آید و بعد از خروج آن حضرت عیسی بن مریم از آسمان بحکم قادر سبحان بواسط نصرت و دریافت صحبت لازم المسرت آن خلاص خاندان طیبین و طارین بزمین آید و بجت تصدیق آن امام زمان در وقت ادای فرایض ایزد علام اقتدا بآن امام خاص و عام نماید و نماز دوگان در عقب آن یگان گور ولایت و نبوت بجای آرد و مزید درج ثواب و عزت آن حضرت علی السّلام گردد.

بدانید کہ جمیع ائمة الہدی از من و از علیاند و بدانید کہ این جماعتاند کہ تا قیام قیامت امامت و ولایت آنہا مستقر و ثابت است و مہدی از این طایفہ در آخر زمان خلیفہ ایزد منان است کہ حکم و عدل نماید و نہی از جور و ستم فرماید.

 احتجاج-ترجمہ غفاری مازندرانی ج1 245 ذکر بیان معنی قاسطین و مارقین و ناکثین ص : 229

احتجاج-ترجمہ غفاری مازندرانی ج1 169 فضیلت حضرت پیغمبر بر حضرت موسی بن عمران ص : 167

صد و شصت و پنجم: و نیز در ہمان کتاب از سعید بن مسیّب از سعد بن مالک حدیث کند کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ بہ علی علیہ السّلام فرمود: یا علی! مقام و منزلت تو نسبت بہ من منزلت ہارون از موسی است جز اینکہ بعد از من پیغمبری نیست، قرض مرا ادا میکنی؛ و بہ وعدہہای من وفا کنی؛ و پس از من بر تاویل (قرآن) جنگ کنی چنانچہ من بر تنزیل آن جنگ کردم، یا علی دوستی تو (نشانہ) ایمان و دشمنیات (علامت) نفاق است، و خداوند لطیف و خبیر مرا آگاہ فرمودہ کہ از صلب حسین نہ تن امامان معصوم و پاکیزہ بیرون آورد، و از ایشان است مہدی این امّت کہ در

الانصاف فی النص علی الائمة ع با ترجمہ رسولی محلاتی ترجمہفارسی 241 حرف سین ص : 231

از آن جملہ خبری است کہ در احتجاج نقل شدہ از کافری کہ مدعی تناقض قرآن بود امیر المؤمنین ذکر دلائل و کنایاتی کہ در بارہ آنہا در قرآن نازل شدہ مینماید میفرماید: ہم بَقِیَّتُ اللہ یعنی مہدی کہ میآید پس از انقضاء مہلت زمین را پر از عدل و داد میکند چنانچہ پر از جور شدہ و از آن جملہ خبری است کہ

۱۵۴

بخش امامت-ترجمہ جلد ہفتم بحار الانوار ج2 180 بخش پنجاہ و ششم آئمہ علیہم السلام حزب اللہ و بقیة اللہ و کعبہ و قبلہ و افشاندن علم ہمان علم اوصیاء است ص : 180

از آن جملہ خبری است کہ در احتجاج نقل شدہ از کافری کہ مدعی تناقض قرآن بود امیر المؤمنین ذکر دلائل و کنایاتی کہ در بارہ آنہا در قرآن نازل شدہ مینماید میفرماید: ہم بَقِیَّتُ اللہ یعنی مہدی کہ میآید پس از انقضاء مہلت زمین را پر از عدل و داد میکند چنانچہ پر از جور شدہ و از آن جملہ خبری است کہ

مامون گفت: یا ابا الحسن نظر شما در بارہ رجعت چیست فرمود: رجعت یک واقعیت است در امتہای قبل نیز بودہ و قرآن شاہد آن است با اینکہ پیغمبر اکرم نیز فرمودہ ہر چہ در امتہای پیشین اتفاق افتادہ در این امّت نیز ہست کاملا برابر و بدون ذرہای پس و پیش و فرمودہ است وقتی مہدی از فرزندانم ظہور کند عیسی بن مریم فرود میآید و پشت سر او نماز میخواند و فرمودہ است اسلام غریب آغاز شد و در آیندہ نیز بحالت غربت خواہد رسید ای خوشا بحال

مامون گفت: یا ابا الحسن نظر شما در بارہ رجعت چیست فرمود: رجعت یک واقعیت است در امتہای قبل نیز بودہ و قرآن شاہد آن است با اینکہ پیغمبر اکرم نیز فرمودہ ہر چہ در امتہای پیشین اتفاق افتادہ در این امت نیز ہست کاملا برابر و بدون ذرہای پس و پیش و فرمودہ است وقتی مہدی از فرزندانم ظہور کند عیسی بن مریم فرود میآید و پشت سر او نماز میخواند و فرمودہ است اسلام غریب آغاز شد و در آیندہ نیز بحالت غربت خواہد رسید ای خوشا بحال

۱۵۵

اشکال : امام غائب کا کیا فائدہ ؟

 امام کو منصوب کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو دین اور آخرت کی تعلیمات دیں اور  رہنمائی کریں ، اوریہ اس وقت ممکن ہے کہ امام لوگوں کے درمیان موجود ہو.اگر ظاہر ہی نہ ہو تو اسے کیسے قائد مانا جائے ؟!!

جواب:

1.  دوران غیبت میں اگر ہم فائدہ امام کو درک نہیں کرسکتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام غائب بے فائدہ ہے

2.  غیبت کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ  ہمارے امور میں کو ئی بھی تصرف نہیں کرسکتا، بلکہ یہ ممکن ہے کہ غائب رہ کر بھی امّت کے امور میں تصرف کرے.

3.  یہ بھی معلوم ہے کہ سارے لوگوں کا امام تک رسائی ممکن نہیں ہے،لیکن بعض خاص افراد کو اپنا جانشین بنا کر لوگوں کے مسائل ان کے ذریعے حل کراتے ہیں ، انہی افراد کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے مجتہدین تک  آتا ہے

4.  امام غائب کی حکومت  بھی انہی نائبین کے ذریعے  ممکن ہے ، اور خود امام کے حاظر ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے .

فلسفہ غیبت امام زمان کیا ہے ؟

1.  جانی حفاظت کی خاطر غیبت کو چلے گئے ، کیونکہ اگر طبیعی طور پر زندگی کرتے تو مختصر سال زندگی کرنے کے بعد اس دنیا سے رحلت کرجاتے جبکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہونگے اور وہ بھی سب قریشی دوسری طرف قیامت تک کیلئے یہ بارہ  جانشین سے  ہی  کو زندہ رکھنا تھا.

2.  لوگوں کا امتحان لینا مقصود تھا .

3.  اسرار الٰہی میں سے  ایک سرّ الٰہی تھا.

4.  یارا ن اوردوستوں کی کمی تھی.

5.  انبیاء الٰہی کی سنت  کا اجراء کرنا تھا.

۱۵۶

اشکال: اتنی طولانی عمر کیسے ممکن ہے؟

جواب: اس کیلئے عقلی اور نقلی توجیہات موجود ہیں:

عقلی توجیہ: عقلاً  عمرطولانی ناممکن نہیں ہے .اگر ناممکن ہوتا تو شروع سے ہی نہ ہوتا

نقلی توجیہ:جبکہ قرآن کریم میں ایسے کئی نمونے بیان  ہوئے ہیں: جیسے حضرت نوح (ع)نے دو ہزار سال عمر کی ، اصحاب کہف نے تین سو دس سال زندگی کی ، حضرت عزیر (ع)نے ایک سوپچاس سال زندگی کی، حضرت یونس(ع):وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنادی‏ فِی الظُّلُماتِ أَنْ لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ (1) کہ یہ حضرات غیر طبیعی طور پر زندگی کرچکے ہیں. یہ جواب نقضی ہے  لیکن جواب حلّی یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے یا نہیں: بالکل ہے ان اللہ علی کل شیئ قدیر. پس اللہ  تعالیٰ اپنے اہداف کے  حصول کی خاطر کسی کو زیادہ عرصے تک زندہ رکھتا ہے .اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے .

بیالوجی اور تجرباتی توجیہ:  بھی ثابت کرچکا ہے کہ موت کسی نہ کسی بیماری  یا  حادثہ کے عارض ہونے پر واقع ہوتی ہے ، اگر یہ چیزیں نہ ہوتو عمر طولانی ہوسکتی ہے اسی لئے اگر کسی کی موت پر اسرار طریقے سے واقع ہوئی ہو تو اس ڈیڈ باڈی کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہےتاکہ معلوم ہوجا ئے کہ موت کیسے واقع ہوئی ہے ؟

اشکال : غیبت امام قاعدہ لطف کے منافی

یعنی قاعدہ لطف یہ بتاتا کہ اللہ تعالیٰ پر فرض تھا کہ انسان کی ہدایت کیلئے نبی کے بعد بھی رہبر اور امام کا بندوبست کرے ؛ لیکن آخری امام کو پردہ غیبت میں رکھ کر اپنے لطف و کرم سے لوگوں کو محروم کردیا.

جواب: امام کے غیبت میں جانے کا اصل عامل خدا نہیں بلکہ ہم انسان ہیں کہ لوگوں پر اس امام کی تبعیت اور پیروی واجب تھی لیکن نہیں کی.

--------------

(1):- .  الانبیاء ۸۷.

۱۵۷

دوسری بات یہ ہے کہ غیبت میں جانا کالعدم تو نہیں ہے بلکہ غیبت میں رہنے امام کے بعض فیوضات سے ہم محروم ہوجاتے ہیں ، جیسے امام کی بدون واسطہ حکومت،اور مستقیم احکام الہی کا بیان  اور معارف دین کو خود امام کی زبانی سننے سے محروم ہوگئے ہیں لیکن دیگر فوائد ، جیسے باطنی اور روحانی فوائد سے مستفید ہوسکتے ہیں اسی طرح مسلمانوں  کی امداد اور واسطہ فیض الہی حالت غیبت میں بھی ممکن ہے ناممکن نہیں.علامہ حلی کلام خواجہ نصیر الدین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لطف الہی کی تکمیل اور اتمام کیلئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:

1.  اللہ تعالیٰ انجام دے دے کہ ۲۵۵ ؁ میں اللہ تعالیٰ نے امام حسن عسکری کو یہ نور مھدی موعود کی شکل میں عطا کیا.

2.  امام قبول کرے کہ امام نے بھی قبول کیا

3.  امّت ان کی تبعیت کرے ، کہ انہوں نے ان کی تبعیت کرنے سے روگردانی کئے.

مہدویت کے موضوع پر اہم کتابیں:

مجلہ انتظار، درسنامہ مھدویت خدامرادی، نگین آفرینش، امامت و فلسفہ خلقت جمکران، آخرین امید، داود الہامی، مھدی موجود جوادی آملی، مکارم شیرازی،

رجعت سے کیا مراد ہے اور کیا یہ ممکن ہے؟

جواب: رجعت سے مراد امام زمان ع کے دور میں مؤمنین اور کفار کے ایک ایک گروہ کا دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے ، کیونکہ اس کی بہت ساری مثال تاریخ میں ملتی ہے جن میں سے بعض کا ذکر کروں گا:

۱۵۸

1.  قوم موسیٰ میں سے ۷۰ افراد کا رجعت کرنا.

2.  مرنے کے بعد ہزاروں لوگوں کی رجعت :(أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ (1) .). ترجمہ

3. او کالذی مر علی قریة .(2) جو سو سال کے بعد زندہ ہوا تھا ، یہ واقعہ حضرت عزیز اور عزیر کا واقعہ ہے.

4.  سام بن نوح کی دنیا میں رجعت.

5.  فرزندان حضرت ایوب کی رجعت(3)

اسلام میں بھی رجعت کے کئی نمونے موجود ہیں : جیسا کہ اہل سنت کے علماء میں سے  ابن ابی الدنیا (متوفی۲۰۸) نے اس سلسلے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام:من عاش بعد الموت رکھا ہے جسے عربستان میں چھاپی گئی .جس میں کئی نمونے پیش کئے ہیں، جیسے:

1 رجعت زیدبن خارجہ.

2- رجعت جوانی از انصار.

3- رجعت مردی از مقتولین مسیلمہ.

4- رجعت ابن خراش.

5- رجعت یکی از بستگان- دایی- ابن ضحاک.

6- رجعت رؤبہ دختر بیجان.

7- رجعت شخصی از بنیجُہینہ(4)

--------------

(1):-  بقرہ: 243.

(2):- بقرہ: 259.

(3):- الدرّ المنثور، ج 5، ص 316؛ جامع البیان، ج 16، ص 42؛ تفسیر نیشابوری، ص 44؛ الشیعہ و الرجعہ، ج 2، ص 154 .

(4):- ترمذی، ج 5، ص 26.

۱۵۹

نویں فصل : مشروعیت متعہ

قرآن میں متعہ  کا حکم

وَ الْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ  كِتَابَ الل ه عَلَيْكُمْ  وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم محُّْصِنِینَ غَیرَْ مُسَافِحِینَ  فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنهُْنَّ فََاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً  وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِیمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِیضَةِ  إِنَّ الل ه کاَنَ عَلِیمًا حَكِیمًا. (1)

 اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھ سفاح و زنا کے ساتھ نہیں پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے.

اس آیہ شریفہ  کی توضیح:

میں درمیانی جملہ(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً) ازدواج موقت کی طرف اشارہ  ہے جسے اصطلاح میں "متعہ" کہتے ہیں. فرماتے ہیں کہ جن عورتوں سے متعہ کرتے ہو ان کا مہریہ واجب الادا کی نیت سے دیا کرو .اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدواج موقت کی اصل تشریع اس آیہ شریفہ کی نزول سے پہلے لوگوں کوپتہ تھا اسی لئے ان کو ان کا مہریہ دینے کا حکم دیا جا رہا ہے .اور چونکہ یہ بحث ایک فقہی اور اجتماعی بحث ہے لذا اس پردرج ذیل جہات سے  تفصیلی بحث کرنا ضروری ہے :

--------------

(1):-  النساء ۲۴.

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

اعراض كرنے والوں پر عذاب ۱۳; قرآن سے منہ موڑنے والوں كا ظلم ۱۱; قرآن كا آيات خدا ميں سے ہونا ۹; قرآن كا كردار ۲،۴،۶،۸; قرآن كا وحى ہونا ۵; قرآن كا وضاحت كرنا ۵،۷،۸; قرآن كى حقانيت ۷، قرآن كى خصوصيات ۵،۶،۷

گمراہ افراد :گمراہ لوگوں كا اخروى اعتراض ۴

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور انجيل كے پيروكار ۱; مشركين مكہ اور تورات كے پيروكار ۱;مشركين مكہ پر اتمام حجت ۲; مشركين مكہ كا اخروى اعتراض ۴; مشركين مكہ كى سوچ ۳;

ہدايت :ہدايت سے محروميت كے آثار ۱

آیت ۱۵۸

( هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِيهُمُ الْمَلائكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْساً إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خيرا قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ )

يہ صرف اس بات كى منتظر ميں كہ ان كى پاس ملائكہ آجائيں ياخود پروردگار آجاے يااس كى بعض نشانياں آجائيں تو جس دن اس كى بعض نشانياں آجائيں گى اس دن جو نفس پہلى سے ايمان نہيں لا ياہے يااس نے ايمان لا نے كے بعد كوئي بھلائي نہيں كى ہے اس كى ايمان كاكوئي فائدہ نہ ہوگا تو آب كہہ دليجے كہ تم لوگ بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كر رہاہوں

۱_ قرآن كو جھٹلانے والے مشركين كى قرآن پر ايمان لانے كى شرائط ميں سے ايك (يہ شرط) تھى كہ (ان كے پاس) فرشتے آئيں يا خود خداوندمتعال ظاہر ہوكر آئے_

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملكة او ياتى ربك

''ينظرون'' كا مصدر ''نظر'' ہے يہاں اس كا

معنى انتظار اور توقع ہے_ ''الا'' كى وجہ سے استفہام يہاں ، انكارى ہے بنابرايں ''ھل ينظرون'' يعني''ما ينتظرون'' آيہ شريفہ ميں جس انتظار كى بات ہورى ہے ہوسكتا ہے اس سے مراد مشركين كى توقعات ہوں اور يہ بھى ممكن ہے كہ ان كى حالت كا بيان ہو_ يعنى اگر كوئي قرآن كو قبول نہ كرے جوكہ ايك روشن دليل ہے_ مگر يہ كہ اس پر فرشتے نازل ہوں يا (خود خدا اس كے ليے حاضر ہو) تو تب وہ ايمان لائے گا_ مندرجہ بالا مفہوم، پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۵۰۱

۲_ قرآن كو جھٹلانے والے مشركين كى قرآن پر ايمان لانے كى شرائط ميں سے ايك شرط يہ تھى كہ بعض آيات الہى عملى صورت اختيار كرليں _ (يعنى قرآن ميں بيان ہونے والے حقائق مثلاً قيامت كو وہ عملى شكل ميں ديكھتا چاہتے تھے)_

هل ينظرون الا ان ياتى بعض ايت ربّك

''لاينفع نفسا ايمانها'' كى وجہ سے، ''بعض آيات ربك'' سے مراد وہ آيات ہيں جن كو ديكھ كر، منكرين قرآن بھى ايمان لانے پر مجبور ہوجاتے ہيں بنابرايں ، كہہ سكتے ہيں كہ اس سے مراد قيامت و غيرہ ہے، قابل ذكر ہے كہ فعل ''اتيان (تاتيھم، ياتى ربك'' اور ياتى بعض آيات) كا آيت ميں تكرار، ظاہر كررہاہے كہ اس سے مراد ليئے گئے معانى ميں فرق ہے_ ''ياتى بعض آيات'' ميں ''اتيان'' كا معنى ان آيات كا عملى صورت ميں متحقق ہوناہے

۳_ فرشتوں كا بعنوان پيغمبر يا قرآن كى تصديق كے عنوان سے نازل ہونا ناممكن ہے_

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكة

توجہ رہے كہ يہ آيت، گذشتہ آيت كى جانب ناظر ہے اس آيت ميں قرآن اور اس كے منكرين كى بحث تھي_ اس سے ظاہر ہوتاہے اس آيت ميں بيان ہونے والى توقعات اور انتظار سے مراد وہ شرائط ہيں جو كہ قرآن پر ايمان لانےكے ليے ركھى گئي ہيں _ تيسرى شرط كے مقابلے ميں ، نزول ملائكہ كے نتيجے كو بيان نہ كرنا، عام لوگوں پر نزول ملائكہ كے نا ممكن ہونے كى طرف اشارہ ہے_

۴_قرآن كى تصديق اور اپنے پيغامات كے ابلاغ كے ليے خدا كا بلا واسطہ ظاہر ہونا نا ممكن ہے_

هل ينظرون الا ان يا ربك

جملہ ''ياتى ربك'' ميں ''اتيان'' كا معنى ظاہر اور آشكار ہونا ہے_

۵_ بعض آيات الہى كے عملى اور ظاہرى شكل ميں ظاہر ہونے (مثلا قيامت آنے) پر انسانوں كا ايمان لانا، ان كے ليے نفع بخش نہيں ہوگا_

يوم ياتى بعض آيات لا ينفع نفسا ايمنها لم تكن امنت من قبل

۶_ اپنى جانب ملائكہ كے نزول يا خداوندمتعال كے ظہور يا آيات ملجئہ كے تحقق كے بغير جو لوگ قرآن پر ايمان نہيں لاتے وہ پھر كبھى بھى ايمان نہيں لائيں گے_

۵۰۲

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملاء يكه او ياتى ربك او ياتى بعض آيات ربك

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب مذكورہ امور (فرشتوں كا آنا و غيرہ) قرآن كے منكر مشركين كى شرط نہ ہو بلكہ اس حالت كا بيان ہو كہ جو انكار قرآن سے ظاہر ہورہى ہے (وہ قرآن كہ جو سب سے بڑى آيت ہے)_ يعنى اگر تم قرآن پر ايمان نہيں لاتے تو ان امور كے پورا ہونے كے بغير تمہارے ايمان لانے كى كوئي صورت نہيں جبكہ ان امور ميں سے بعض ناممكن ہيں اور بعض دوسرے ايمان كى فرصت ہى ختم كردينے والے ہيں (يعنى انكے پورا ہونے سے پہلے ہى ايمان كى فرصت ختم ہوجائے گي

۷_ عمل صالح انجام ديئے بغير ايمان كا كوئي فائدہ نہيں _لا ينفع نفساًً ايمنها لم تكن او كسبت فى ايمنها خيرا

''كسبت'' ''آمنت'' پر عطف ہے_ يعنى ''لا ينفع نفسا ايمانھا لم تكن كسبت فى ايمانھا خيرا'' (يعنى جو شخص اپنے ايمان كے ذريعے نيكى نہيں كرتا اور اچھے اعمال انجام نہيں ديتا، اس كا ايمان اسے كوئي فائدہ نہيں پہنچا سكتا)

۸_ بغير ايمان كے نيك عمل كا كوئي فائدہ نہيں ہوگا_لا ينفع نفساً ايمنها لم تكن امنت من قبل او كسبت فى ايمنها خيرا

جملہ ''او كسب فى ايمانھا خيراً'' ميں ''فى ايمانھا'' كى قيد سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ ہوتاہے_

۹_ قيامت كے دن انسانوں كى نجات، ايمان اور نيك عمل كى ہم آہنگى سے وابستہ ہے_

لا ينفع نفسا ايمنها لم تكن ء امنت من قبل او كسبت فى ايمنها خيرا

۱۰_ مشركين كو قيامت كے وقوع اور اس كے عذاب سے خبردار كيا جانا_قل انتظروا انا منتظرون

۱۱_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام و الايمان عند رؤية الباس غير مقبول و ذلك حكم الله تعالى ذكره فى السلف والخلف قال الله عزوجل يوم ياتى بعض آيات ربك لا ينفع نفسا ايمانها لم تكن آمنت من قبل او كسبت فى ايمانها خيراً (۱)

حضرت امام رضاعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : عذاب ديكھ كر ايمان لانا، قابل قبول نہيں اور خداوند متعال كا يہ حكم گذشتہ لوگوں اور آئندہ لوگوں كے بارے ميں ہے كہ خداوندمتعال كا فرمان ہے كہ : وہ دن كہ جب خداوندمتعال كى بعض آيات (نشانياں ) آئيں گي، تو جو لوگ، پہلے ايمان نہيں لائے اور جس نے ايمان ميں كوئي نيكى نہيں كمائي اس كا ايمان اسے فائدہ نہ دےگا''

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۲ ص ۷۷ ح ۷_ نور الثقلين ج ۱ ص ۷۸۰ ح ۳۵۱_

۵۰۳

۱۲_عن ابى جعفر و ابى عبدالله عليه‌السلام _ فى قوله : ''يوم ياتى بعض آيات ربك لا ينفع نفساً ايمانها'' قال : طلوع الشمس من المغرب و خروج الدابة والدجال . ..(۱)

امام باقر اور حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : آيت ميں ''بعض آيات ربك'' سے مراد، مغرب كى طرف سے آفتاب كا نكلنا اور دجال اور دابہ كا خروج كرنا ہے

۱۳_عن احدهما_ عليه‌السلام فى قوله : ''او كسبت فى ايمانها خيرا قال : المؤمن العاصى حالت بينه و بين ايمانه كثرة ذنوبه و قلة حسناته فلم يكسب فى ايمانه خيرا (۲)

حضرت امام باقر يا امام صادقعليه‌السلام سے آيہء مجيدہ ''او كسبت فى ايمانھا خيرا'' كے بارے ميں منقول ہے كہ : گناہگار مؤمن كے گناہوں كى فراوانى اور نيكيوں كى كمي، اس كے ايمان اور اس كے درميان جدائي ڈال ديتى ہے_ وہ مؤمن ہونے كے باوجود، كسى قسم كى نيكى اور بھلائي حاصل نہيں كرسكا_

آخر الزمان :آخر الزمان كى نشانياں ۱۲

آيات ملجئہ :۵آيات ملجئہ كا كردار ۶

ايمان :ايمان اور عمل ۷، ۹; ايمان كى اہميت ۸; ايمان كے قبول ہونے كى شرائط ۱۱;بے عمل كا ايمان ۷; غير مفيد ايمان ۵

خدا تعالى :حكم خدا كى عموميت ۱۱;خدا كے ظہور كا محال ہونا ۴; رؤيت خدا كى درخواست ۱; ظہور خدا كى درخواست ۶

دابة الارض :دابة الارض كا خروج ۱۲

دجال :دجال كا خروج ۱۲

روايت : ۱۱، ۱۲، ۱۳

سورج:سورج كا مغرب سے طلوع۱۲

عذاب :اخروى عذاب كى دھمكي۱۰

عمل صالح :

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۱_ ص ۳۸۴ ح ۱۲۸_ نور الثقلين ج ۱ ص ۷۸۱ ح ۳۵۴_

۲) تفسير عياشى ج ۱_ ص ۳۸۵ ح ۱۳۰_ تفسير برھان ج ۱ ص ۵۶۵ ح ۱۰_

۵۰۴

بے ايمان كا عمل صالح ۸; عمل صالح اور ايمان ۸;عمل صالح كى اہميت ۷

قرآن :قرآن جھٹلانے والوں كے ايمان كى شرائط، ۲; قرآن كى تكذيب كرنے والوں كى خواہشات اور تقاضے ۱، ۲; قرآن كى حقانيت پر گواہى ۳، ۴

قيامت :قيامت كے برپا ہونے كا تقاضا اور درخواست ۲

كفار :كفار كے ايمان كى شرائط ۶

گناہ :گناہ پر اصرار كے آثار ۱۳

مشركين :مشركين كو خبردار كيا جانا۱۰; مشركين كے ايمان كى شرائط ۱،۲; مشركين كے تقاضے۱،۲

ملائكہ :ملائكہ كى نبوت كا محال ہونا ۳; نزول ملائكہ كى درخواست ۱، ۶

نجات :اخروى نجات كے علل و اسباب ۹

۵۰۵

آیت ۱۵۹

( إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ )

جن لوگوں نے اپنے دين ميں تفرقہ پيداكيا اور ٹكرے ٹكرے ہو گئے ان سى آپ كاكوئي تعلق نہيں ہے_ ان كا معاملہ خدا كى حوالى ہے پھر وہ انہيں ان كے اعمال كے بارے ميں باخبر كرے گا

۱_ دين كى كچھ تعليمات اور احكام كو قبول كرنا اور بعض دوسرے احكام سے منہ موڑ لينا، ايك ناپسنديدہ امر اور پورے دين كو قبول نہ كرنے كے مترادف ہے_ان الذين فرقوا دينهم لست منهم فى شيئ

۵۰۶

''دين'' سے مراد دين الہى ہے_ اور دين كو متفرق كرنے اور ٹكڑے ٹكڑے كرنے سے مراد دين كى بعض تعليمات كو قبول كرنا اور بعض دوسرے احكام و تعليمات كو چھوڑ دينا ہے_

۲_ جو لوگ فقط دين كى بعض تعليمات اور احكام كو قبول كرتے ہيں وہ امت پيغمبر(ص) ميں شمار نہيں ہونگے_

ان الذين فرقوا دينهم لست منهم فى شيئ

''منھم'' ''لست'' كے ليے خبر ہے_ ''ليس مني'' اور ''انہ مني'' جيسے جملات ميں ''من'' اتصال اور ارتباط كے معنى ميں ہے_ بنابرايں ''لست منھم'' يعنى آپ كا ان سے كوئي رابطہ نہيں جسكا نتيجہ يہ ہے كہ وہ بھى آپ(ص) سے عنوان پيغمبر(ص) كوئي تعلق نہيں ركھتے_ اور يہى امت محمد(ص) اور دين اسلام سے خارج ہونے كا معنى ہے_

۳_ دين ميں تفرقہ، معاشرے كى وحدت كو توڑنے اور قسم قسم كے مذاھب كى بنا پر مختلف گروہوں كے پيدا ہونے كا سبب بنتاہے_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا

۴_ اہل ايمان معاشرے ميں وحدت كى حفاظت، مومنين كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا

۵_ وہ مذھبى گروہ جو دين كے كچھ حصے كو قبول كرنے كى صورت ميں وجود ميں آئے ہيں ، ان كا امت پيغمبر(ص) ميں شمار نہيں ہوتا_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا لست منهم فى شيئ

۶_ دين كے تمام معارف اور احكام پر ايمان لانے كى ضرورت_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا لست منهم فى شيئ

۷_ دينى تفرقے كى بنياد پر تشكيل پانے والے مذاھب كے پيروكار وں كو خداوند متعال كا خبردار كرنا_

انما امرهم الى الله

۸_ اختلاف اور تفرقہ ڈالنے والوں كے ليے برے انجام اور عذاب كامعين كرنا خدا كے ہاتھ ميں ہے_

انما امرهم الى الله

۹_ خداوندمتعال، انسانوں كے كردار اور اعمال سے آگاہ ہے_

ينبئهم بما كانوا يفعلون

۱۰_ خداوند، قيامت كے دن مجرمين كو ان كے ناپسنديدہ اعمال سے آگاہ كردے گا_

ثم يبنئهم بما كانوا يفعلون

۵۰۷

۱۱_ خداوند متعال، دين كے كچھ احكام كو قبول كرنے كى بنياد پر تشكيل پانے والے گروہوں كو عذاب ميں مبتلا كرے گا_ان الذين فرقوا دينهم انما امرهم الى الله ثم ينبئهم بما كانوا يفعلون

''ناپسنديدہ اعمال سے آگاہ كرنا'' عذاب ميں مبتلا كرنے سے كنايہ ہے_

۱۲_ اخروى عذاب، انسان كے مسلسل ناپسنديدہ اعمال كا تنيجہ ہے_ثم ينبئهم بما كانوا يفعلون

۱۳_ان رسول الله(ص) قال : ''ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا'' هم''اصحاب البدع و اصحاب الاهواء واصحاب الضلالة من هذه الامة (۱)

رسول خدا(ص) نے آيت ''ان الذين فرقوا ...'' كى تلاوت كرنے كے بعد فرمايا : يہ لوگ اس امت كے بدعت گذار، ہوا پرست اور گمراہ افراد ہيں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے پيروكار ۲

اتحاد :اتحاد كى اہميت ۴

اختلاف :اجتماعى اختلاف كے علل و اسباب ۳

اختلاف ڈالنے والے :اختلاف ڈالنے والوں كا انجام ۸;اختلاف ڈالنے والوں كى سزا ۸

امتيں :غير مسلمان امتيں ۲، ۵

انجام :برا انجام ۸

انسان :عمل انسان ۹

بدعت گذار لوگ : ۱۳

خدا تعالى :خدا كا خبردار كرنا ۷; خدا كا علم ۹; خدا كے اخروى افعال ۱۰; خدا كے افعال ۸; خدا كے عذاب۱۱

دين :دين قبول كرنے ميں تجزى يعنى بعض كو قبول كرنا اور بعض كو چھوڑ دينا ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۱; دين كا كچھ حصہ ردّ كرنا ۱; دين كو رد كرنا ۱; دين كى تعليمات كو قبول كرنا۶

روايت : ۱۳

سزا:سزا كے معين ہونے كا سرچشمہ ۸

____________________

۱) الدرالمنثور، ح/ ۳_ ص ۴۰۲_

۵۰۸

عذاب :اہل عذاب ۱۱; عذاب كے اسباب ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل ۱; ناپسنديدہ عمل كى اخروى سزا ۱۲

قيامت :قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۱۰

گمراہ افراد : ۱۳

گناہگار افراد :گناہ گار اور قيامت كا دن۱۰; گناہ گاروں كا انجام

۸; گناہ گاروں كى اخروى آگاہى ۱۰; گناہ گاروں كى سزا ۸

مذہبى فرقے :مذہبى فرقوں كو خبردار كيا جانا ۷; مذہبى فرقوں كى پيدائش ۳، ۵، ۱۱

مومنين :مومنين كى ذمہ داري۴

نفسانى خواہشات كے تابع لوگ: ۱۳

۵۰۹

آیت ۱۶۰

( مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ )

جو شخص بھى نيكى كرگا اسے دس گنا اجر ملے گا اورجو برائي كرے گا اسے صرف اتنى سى سزا ملے گى اور كوئي ظلم نہ كيا جائي گا

۱_ ہر نيك كام كا دس گنا اجر و ثواب ہے_من جاء بالحسنة فله عشر امثالها

''فلا يجزي ...'' اس كى دليل يہ ہے كہ ''عشر امثالھا'' سے مراد نيك كام كا اجر ہے_

۲_ناپسنديدہ عمل كى سزا اسى كے مطابق ہے نہ اس سے زيادہ _من جاء بالسيئة فلا يجزى الا مثلها

۳_ خداوند متعال كى سزائيں عادلانہ اور اسكى جزائيں اسكے فضل كا جلوہ ہيں _من جاء بالحسنة فله عشر امثالها و من جاءبالسيئة فلا يجزى الا مثلها

۴_ دين كے تمام احكام و معارف كو قبول كرنا نيكى و حسنہ اور اسكے بعض احكام كو چھوڑ كر بعض كو قبول كرنا، برائي و سيئہ ہے_ان الذين فرقوا دينهم من جاء بالحسنة و من جاء بالسيئة

گذشتہ آيت كے پيش نظر، يہ كہہ سكتے ہيں كہ ''الحسنة'' كا مطلوبہ مصداق، دين كے تمام احكام و معارف پر ايمان لاناہے اور ''السيئة'' كا مطلوبہ مصداق دين ميں تفرقہ ڈالناہے_

۵۱۰

۵_ قيامت كے دن گناہگاروں پر ظلم نہيں ہوگا_و هم لا يظلمون

گذشتہ آيت (ثم ينبئھم) كا ذيل ظاہر كررہاہے كہ اس آيت ميں بيان ہونے والى جزا اور پاداش كا وقت، روز قيامت ہے_

۶_ گناہگاروں كو ان كے گناہ كے مطابق سزا ديناا، ان پر ظلم نہيں _و من جاء بالسيئة فلا يجزى الا مثلها و هم لا يظلمون

۷_ نيك عمل اگر قيامت برپا ہونے تك ضائع نہ ہو تو، دس گنا اجر و ثواب ركھتاہے_من جاء بالحسنة فله عشر امثالها

''بالحسنة'' ميں حرف ''بائ'' تعديہ كے ليے بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں ''مجيئ'' كا معنى انجام دينا ہے_ اور ہوسكتا حرف ''با'' مصاحبت كے ليے ہو_ تو اس صورت ميں ''مجيئ'' حاضر ہونے كے معنى ميں ہے_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_ اس بنا پر جملہ ''من جاء بالحسنة'' (جو شخص نيك عمل كے ساتھ قيامت كے دن حاضر ہو) اس معنى كى جانب اشارہ ہے كہ اجر و ثواب اس كے ليے ہے كہ جس كا نيك عمل قيامت تك باقى رہے اور گناہ كے ذريعے ضائع نہ ہوگيا ہو_

۸_ گناہ كى اخروى سزا اس صورت ميں ہوگى كہ جب گناہگار قيامت كے دن تك عفو الہى سے بہرہ مند نہ ہوا ہو_

من جاء بالسَّيئة فلا يجزى الا مثلها

يہ مفہوم، گذشتہ مفہوم كى وضاحت سے اخذ كيا گيا ہے_ (يعنى قيامت آنے سے پہلے، گناہگار كے گنا ہ معا ف ہوجائيں تو پھر اسے سز ا نہيں ملے گي)_

۹_عن علي عليه‌السلام فى قوله تعالى ...''من جاء بالحسنة فله عشر امثالها'' الحسنة حبنا اهل البيت و السيئة بغضنا ... (۱)

امير المؤمنين حضرت امام عليعليه‌السلام سے، آيت مجيدہ ''من جاء بالحسنة''كے بارے ميں منقول ہے كہ ''حسنة'' سے مراد ہم اہل بيتعليه‌السلام كى دوستي

____________________

۱) بحار الانوار ج ۳۶، ص ۱۸۶، ح ۱۸۵

۵۱۱

اور محبت ہے اور ''سيئہ'' سے مراد ہمارى دشمن ہے_

۱۰_سئل ابو عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل : ''من جاء بالحسنة فله عشر امثالها'' يجرى لهؤلاء ممن لا يعرف منهم هذا الامر ؟ فقال : انما هذه للمؤمنين خاصة ... (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كہ آيا آيہ مجيدہ ''من جاء بالحسنة ...'' ان لوگوں كو بھى شامل ہے كہ جو ولايت كى معرفت نہيں ركھتے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا : يہ آيت فقط مؤمنين (شيعوں ) كے ليے ہے_

اجر :دو برابر اجر ۱، ۷

اعداد :دس كا عدد ۱، ۷

اہل بيت :حب اہل بيت ۹; دشمني اہل بيتعليه‌السلام ۹

حسنات :حسنہ سے مراد ۹; حسنات كے موارد ۴

خدا تعالى :اجر خدا ۳; عفو خدا كے آثار ۸;فضل خدا ۳

دين :دين كے بعض حصوں كو قبول كرنا ۴; دينى تعليمات كو قبول كرنا ۴

روايت : ۹، ۱۰

سزا:اخروى سزا كى شرائط ۸; سزا كا گناہ كے ساتھ تناسب۲، ۶; سزا كا نظام ۲، ۳، ۵، ۶، ۸;سزا ميں عدالت ۳،۶

سيئات :سيئہ سے مراد ۹; سيئات كے موارد ۴

شيعيان :شيعوں كا مقام و منزلت ۱۰

عمل :ناپسنديدہ عمل كى سزا ۲

عمل صالح :عمل صالحضائع ہونے كے آثار ۷; عمل صالح كى اخروى پاداش ۷; عمل صالح كى جزا ۱

قيامت :قيامت كے دن ظلم كى نفى ۵

____________________

۱) محاسن برقى ج ۱ ص ۱۵۸_ ح ۹۴ ب ۲۶ بحار الانوار ج ۶۹_ ص ۱۶۲ ح ۱۹_

۵۱۲

گناہ :گناہ كى اخروى سزا ۸

گناہگار :گناہگار اور قيامت كا دن ۵;گناہگاروں كى سزا ۶

مؤمنين :مؤمنين كا مقام و مرتبہ ۱۰

نظام جزائي : ۱، ۳، ۷

آیت ۱۶۱

( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيناً قِيَماً مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

آپ كہہ دليجے كہ ميرے پروردگار نے مجھے سيدھے راستے كى ہدايت دے دى ہے جو ايك مضبوط دين اور باطل سے اعراض كرنے والے ابراہيم كا مذہب ہے اور وہ مشركين ميں سے ہرگز نہيں تھے

۱_ پيغمبر(ص) صراط مستقيم كى طرف ہدايت يافتہ ہيں _اننى هدى نى ربى الى صراط مستقيم

۲_ پيغمبر(ص) كا راہنما، خداوند متعال ہے_هدنى ربّى الى صراط مستقيم

۳_ پيغمبر(ص) كا ہدايت يافتہ ہونا ہى آپ(ص) پر ربوبيت خداوند كى جلوہ گرى ہے_هد نى ربّي

۴_ پيغمبر(ص) كے ليے ضرورى ہے كہ آپ(ص) دين اسلام كےبارے ميں اپنا عقيدہ لوگوں پر ظاہر كريں _

قل اننى هدى نى ربّى الى صراط مستقيم دينا قيما

۵_ پيغمبر(ص) كو چاہيئے كہ آپ(ص) دين اسلام پر اپنے عقيدے كا اعلان كرتے وقت خداوند متعال كو (اس عقيدے ميں ) اپنے راہنما كے طور پر متعارف كروائيں _قل اننَّى هد نى ربّي

۶_ دينى رہبروں كو چاہيئے كہ وہ اپنے راستے كى حقانيت

۵۱۳

پر عقيدہ ركھيں اور اپنے پيروكاروں كے سامنے اس كا اعلان كريں _قل اننى هدانى ربى الى صراط مستقيم دينا قيما

اعلان كا لازمى ہونا، كلمہ ''قل'' سے اخذ كيا گيا ہے_

۷_ دين اسلام، بغير كسى كجى اور انحراف كے ايك سيدھا راستہ ہے_هد نى ربّى الى صراط مستقيم دينا قيما

''دينا'' ''الى صراط''كيلئے عطف بيان يا بدل ہے_

۸_ دين اسلام، ايك ثابت اور انتہائي محكم و استوار دين ہے_دينا قيما

كلمہ ''قيم'' كو بعض نے ''قام'' كا مصدر اور بعض نے قيام كا مخفف كہاہے_ البتہ ہر دونوں صورتوں ميں ، وصف كے معنى ميں مصدر ہے (يعنى قائم، كھڑ ہوا)وصف كى جگہ مصدر كا استعمال، تاكيد كے ليے ہوتاہے_

۹_ دين اسلام، دين ابراہيمعليه‌السلام ہے_دينا قيما ملة ابراهيم

''دينا قيماً'' كے ليے ملت ابراھيم بدل ہے_

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، ہر قسم كے انحراف سے مبرا انسان تھے_ملة ابراهيم حنيفا

۱۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، شرك اور مشركين سے الگ ايك موحّد انسان تھے_و ما كان من المشركين

۱۲_عن الحسين بن علي عليه‌السلام : ما احد على ملة ابراهيم الا نحن و شيعتنا ... (۱)

امام حسينعليه‌السلام سے منقول ہے كہ ہمارے اور ہمارے شيعوں كے سوا كوئي بھى دين ابراھيمعليه‌السلام كا پيروكار نہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كا معلم ہونا ۲; آنحضرت كا ہدايت دينا ۱،۲، ۳،۵; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۴،۵

ابراھيمعليه‌السلام :ابراھيمعليه‌السلام كا حنيف ہونا ۱۰، ۱۱;ابراھيمعليه‌السلام كا دين ۹; ابراھيمعليه‌السلام كا منزہ ۱۰، ۱۱; ابراھيمعليه‌السلام كى توحيد۱۱; ابراھيمعليه‌السلام كے دين كے پيروكار ۱۲;ابراھيم كے فضائل۱۰، ۱۱

اسلام :اسلام كا محكم و استوار ہونا ۸; اسلام كى خصوصيت ۷، ۸; دين اسلام ۹

خدا تعالى :ربوبيت خدا كے مظاہر ۳; ہدايت خدا ۲، ۵

____________________

۱) تفسير عياشي، ج/ ۱ ص ۳۸۸ ح ۱۴۶_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۸۶ ج ۳۸۰_

۵۱۴

روايت : ۱۲

رہبرى :دينى رہبرى كى ذمہ دارى ۶; عقيدہ رہبرى ۶

شيعيان :شيعہ اور دين ابراھيمعليه‌السلام ۱۲

صراط مستقيم :صراط مستقيم كے موارد ۷

عقيدہ :اسلام پر عقيدہ كا اظہار ۴، ۵

موحدين : ۱۱

مہتدين (ہدايت يافتہ لوگ) :۱

ہدايت :صراط مستقيم كى جانب ہدايت ۱

آیت ۱۶۲

( قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ )

كہہ دليجے كہ ميرى نماز ، ميرى عبادتيں ، ميرى زندگى ميرى موت سب الله كے لئے ہے جو عالمين كاپالنے والاہے

۱_ پيغمبر(ص) كى نماز، عبادت اور زندگى كے دوسرے امور اور موت فقط خداوند متعال كے ليے تھي_

ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله

''محيا'' اور ''ممات'' مصدر ميمى ہيں اور جنكا معنى زندہ رہنا اور مرنا ہے چونكہ زندہ رہنا اور مرنا، انسان كے اختيار ميں نہيں ہے تا كہ اسے خداوند كے ليے قرار دے_ لھذا يہ كہا جاسكتاہے كہ اس سے مراد، زندگى گذارنے كا طريقہ اور موت كى كيفيت ہے يا زندگى اور موت سے مربوط امور كا انجام دينا ہے_

۲_ پيغمبر(ص) ايك مكمل اور ہمہ پہلو اخلاص سے بہرہ مند تھے_ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله رب العلمين

۳_ نماز، عبادت خداكا واضح ترين مظہر اور جلوہ ہے_ان صلاتى و نسكي لله رب العلمين

''نسك'' كا معنى عبادت ہے نماز كو بھى شامل ہے بنابرايں تمام عبادات ميں سے فقط نماز كا ذكر كرنا، اس كى اہميت كو ظاہر كرتاہے_

۵۱۵

۴_ خداوند كا، پيغمبر(ص) كو مخلصانہ عبادت كرنے اور تمام امور كو خداوندمتعال كے ليے انجام دينے كى نصيحت كرنا_

اننى هد نى ربّي قل ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله

ہوسكتاہے ''محيا و ممات'' تمام امور كى طرف كنايہ ہوں _

۵_ كامل اخلاص (يعنى تمام امور فقط خداوند متعال كے ليے انجام دينا) دين اور آئين پيغمبر(ص) ہے_

دينا قيما قل ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله ربّ العلمين

۶_ پيغمبر(ص) كو چاہيئے كہ آپ(ص) تمام امور ميں اپنے اخلاص كا لوگوں پر اظہار كريں _

قل ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله

۷_ تمام جہانوں كا پروردگار اور مالك خداوندمتعال ہے_لله ربّ العلمين

۸_ كائنات، متعدد عوالم سے تشكيل شدہ ہے_ربّ العلمين

۹_ پورى كائنات پر ربوبيت خدا كے بارے ميں پيغمبر(ص) كا ايمان ہى آپ(ص) كے كامل اور ہمہ پہلو اخلاص كا سبب ہے_ان صلاتى و نسكي لله ربّ العلمين

''اللہ'' كى ''رب العلمين'' كے عنوان سے توصيف، مندرجہ بالا مفہوم كى دليل ہے_

۱۰_ خداوندمتعال كى على الاطلاق ربوبيت پر عقيدہ باعث بنتاہے كہ انسان اسكى مخلصانہ عبادت كرے اور تمام كام فقط خداوند متعال كى خاطر انجام دے_ان صلاتى و نسكي لله ربّ العالمين

۱۱_ مخلصانہ عبادت، اور نماز، دين پيغمبر(ص) كى واضح ترين خصوصيت ہے_دينا قيما ان صلاتى و نسكي لله ربّ العلمين

آفرينش :آفرينش و خلقت كى تدبير ۷، ۹; عوالم آفرينش ۸; عوالم آفرينش كا مالك ۷

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا اخلاص ۱، ۲، ۵، ۶، ۹; آنحضرت(ص) كا ايمان ۹; آنحضرت(ص) كا خدا كے ساتھ تكلم كرنا۴; آنحضرت(ص) كى توحيد عبادى ۱; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۶; آنحضرت(ص) كى عبادت ; آنحضرت(ص) كى نماز ۱

ابھارنا :

۵۱۶

ابھارنے كے اسباب ۱۰

اخلاص :اخلاص كى اہميت ۶; اخلاص كے علل و اسباب ۹، ۱۰

اسلام :اسلام كى اہم ترين تعليمات ۵، ۱۱; اسلام كى خصوصيت ۵، ۱۱

ايمان :ايمان كے آثار ۹، ۱۰; ربوبيت خدا پر ايمان ۹، ۱۰; متعلق ايمان ۹، ۱۰

خدا تعالى :خدا كى تدبير۷; خدا كى مالكيت ۷; خدا كے اوامر۴

عبادت:بہترين عبادت۲; خالصانہ عبادت كى اہميت۴، ۱۱; عبادت خدا كے مظاہر ۳; عبادت ميں اخلاص۱۰; عبادت ميں اخلاص كى اہميت ۵

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئيڈبالوجى ۹،۱۰

نماز :نماز كى اہميت ۳، ۱۱

آیت ۱۶۳

( لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ )

اس كا كوئي شريك نہيں ہے اور اسے كا مجھے حكم ديا گيا ہے اور ميں سب سے پہلا مسلمان ہوں

۱_ عالم كائنات كى ربوبيت ميں خداوند ايسى حقيقت ہے كرجو شريك سے منزہ و پاك ہے_ربّ العلمين_ لا شريك له

۲_ خداوند متعال كى مخلصانہ عبادت و پرستش كى (اہم ترين) دليل ، ا سكا ر بو بيت (عالم) ميں شر يك سے منزہ ہوناہے_

ان صلاتى و نسكي لله ربّ العلمين لا شريك له

كائنات پر ربوبيت كے ذريعے ''اللہ'' كى توصيف كرنا (ربّ العلمين) اور اس كے ليے شريك نہ ہوئے كا بيان (لا شريك لہ)''ان صلاتي لله'' كى علت ہے_

۵۱۷

۳_ پيغبر(ص) كو حكم ديا گيا تھا كہ آپ(ص) توحيد پرست ہوں ، مخلصانہ عبادت كريں اور ربوبيت ميں خداوندمتعال كے يكتا ہونے پر ايمان ركھيں _ان صلاتي لله رب العلمين لا شريك له و بذلك امرت

۴_ عبادت ميں توحيد اور ربوبيت ميں خداوند متعال كى يكتائي پر ايمان ہى دين پيغمبر(ص) ہے_

ان صلاتي لله ربّ العلمين_ لا شريك له و بذلك امرت

آيت ۱۶۱ ميں بيان ہوا ہے كہ خداوند نے پيغمبر(ص) كى ايك سيدھے راستے اور استوار و محكم دين كى جانب ہدايت كى ہے_ مذكورہ آيت بيان كررہى ہے كہ پيغمبر(ص) كو عبادت و ربوبيت ميں توحيد كا حكم ديا گيا تھا بنابرايں ، دين پيغمبر(ص) سے مراد عبادت ميں توحيد اور خداوند كى يكتائي پر ايمان ركھنا ہے_

۵_ پيغمبر(ص) خداوند متعال كے فرامين قبول كرنے اور ان كے سامنے تسليم ہونے كے بلند ترين مقام پر فائز تھے_

و بذ لك امرت و انا اول المسلمين ''المسلمين'' كا مصدر ''اسلام'' ہے جسكا معنى ''تسليم ہونا'' ہے اور گذشتہ جملے كے مطابق، ''المسلمين'' كا متعلق فرامين خداوند متعال ہيں _ بنابرايں ''انا اول المسلمين'' يعنى خداوند متعال كے فرامين اور احكامات كے سامنے تسليم ہونے والا پہلا شخص ميں ہوں ''

۶_ ''مقام تسليم'' ميں خداوند متعال كے سامنے تسليم ہونے والے تمام بندوں ميں پيغمبر(ص) كا مقام سب سے بلند ہے_و انا اول المسلمين

اول (مقدم) ہونا كبھى تو زمان كے لحاظ سے ہے اور كبھى رتبہ و مقام كے اعتبار سے_ بظاہر جملہ ''انا اول المسلمين'' ميں دوسرا معنى (يعنى مقام اور رتبے ميں مقدم ہونا) مراد ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى اطاعت ۵،۶; آنحضرت(ص) كى توحيد ۳; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۳; آنحضرت(ص) كے مقامات ۵،۶

اسلام :تعليمات اسلام ۴

ايمان :توحيد ربوبى پر ايمان ۳، ۴; متعلق ايمان ۳، ۴

تسليم :خدا كے سامنے تسليم ہونا ۵، ۶; مقام تسليم ۵، ۶

توحيد :توحيد ربوبى كى اہميت ۳; توحيد عبادى ۲; توحيد عبادى كى اہميت ۳، ۴

خدا تعالى :

۵۱۸

تنزيہ خدا ۱

شرك :شرك ربوبى كى نفى ۱، ۲

عبادت :عبادت ميں اخلاص ۲; عبادت ميں اخلاص كى اہميت ۳

آیت ۱۶۴

( قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبّاً وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَآزرةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ )

كہہ دليجے كہ كيا ميں خدا كے علاوہ كوئي اور رب تلاش كروں جب كہ وہى ہرشے كا پالنے والا ہے اور جو نفس جو كچھ كرے گا اس كا وبال اسى كے ذمہ ہوگااور كوئي نفس دوسرے كا بوجھ نہ اٹھائے گا _ اس كے بعد تم سب كى بازگشت تمھارے پروردگار كى طرف ہے پھر وہ بتائے گا كہ تم كس چيز ميں اختلاف كررہے تھے

۱_ فقط خداوند متعال، انسانوں كا ''رب'' (مالك و مدبّر) ہے_اغير الله ابغى ربّا

''بغي'' ''ابغى '' كا مصدر ہے جسكا معنى ، جستجو اور طلب كرنا ہے_ كلمہ ''ربّا'' ''ابغي'' كے ليے مفعول اور ''غير اللہ ''ربا'' كا حال ہے_

۲_ خداوند متعال پورى كائنات كامالك اورمدبّر ہے_و هو ربّ كل شيئ

۳_ پورى كائنات پر خداوند متعال كى ربوبيت كا عقيدہ، تقاضا كرتا ہے كہ انسان بھى اس كى ربوبيت كا اقرار كرے_

اغير الله ابغى ربّا و هو ربّ كل شيئ

جملہ ''و ھو ربَّ كل شيئ'' غير خدا كى ربوبيت كو قبول نہ كرنے كى علت ہے_

۴_ خدا كے علاوہ كسى اور ربّ (پروردگار) كى تلاش ايك حيرت انگيز بات اور كم عقلى كى علامت ہے_

اغير الله ابغى ربا و هو رب كل شيئ

جملہ ''اغير اللہ ...'' ميں استفہام، انكارتعجب ہے_

۵۱۹

۵_ ہر انسان خداوند متعال كى بارگاہ ميں ، اپنے اعمال و كردار كا جوابدہ ہے_و لا تكسب كل نفس الا عليها

''لا تكسب'' كا مفعول كلمہ ''شيئا'' يا ''عملاً'' ہے اور ''عليھا'' ايك محذوف فعل مثلا ''يحمل'' سے متعلق ہے_ يعنى ''لا تكسب كل نفس عملا الا يحمل عليها ''اور يہ كنايہ ہے كہ ہر شخص اپنے عمل كے سلسلے ميں جوابدہ اورذمہ دار ہے_

۶_ كوئي بھى دوسروں كے گناہوں كا بوجھ اپنے دوش پر نہيں لے گا اور نہ ہى دوسروں كے گناہوں كا اس سے مؤاخذہ كيا جائے گا_و لا تزر و آزرة وزر اخرى

''وزر'' كا معنى اٹھانا ہے اور گناہ كے معنى ميں بھى آياہے_ ''وزر'' سے ''تزر'' اور ''ووازرة'' ماخوذ ہيں يعنى اٹھانا_ اور ''وزر اخرى '' ميں ''وزر'' سے مر اد گناہ ہے_

۷_ گناہ، گناہگار كے دوش پر ايك سنگين بوجھ ہے_و لا تزر وآزرة وزر اخرى

''وزر'' در اصل سنگين بوجھ كو كہتے ہيں اور گناہ كو اس ليے ''وزر'' كہتے ہيں چونكہ گناہگار كے كاندھوں پر اس كا بوجھ سنگين ہوتاہے_

۸_ سب انسان فقط خداوند متعال كى جانب لوٹيں گے_ثم الى ربكم مرجعكم

''الى ربكم'' كو اپنے متعلق (مرجعكم) پر مقدم ركھنا ''حصر'' پر دلالت كرتاہے (يعنى فقط خداوند متعال كى جانب بازگشت ہوگي)

۹_ قيامت كا برپا ہونا اور انسانوں كا خداوندمتعال كى جانب پلٹنا، انسانوں پر ربوبيت خدااور ان كے امور كى تدبير كا ايك جلوہ ہے_ثم الى ربكم مرجعكم

۱۰_ قيامت كے دن خداوندمتعال، لوگوں كو دينى معارف كى حقيقت سے آگاہ كردے گا_

ثم الى ربكم مرجعكم فينبئكم

۱۱_ قيامت كے دن سب لوگ، دينى معارف كى حقيقت سے آگاہ ہوں گے_

فيبئكم بما كنتم فيه تختلفون

واضح ہے كہ خداوند متعال نے دنيا ميں ، اہل ايمان اور اہل شرك كے درميان اختلافى مسائل كى حقانيت بيان كردى ہے_ بنابرايں كہہ سكتے ہيں كہ يہ خبر دينا ''فينبئكم '' سزا دينے ''كى طرف اشارہ ہے_ يا اس سے مراد خصوصى آگاہى ہے يعنى حقيقى اور قابل لمس آگاہى مندرجہ بالا

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744