تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172900 / ڈاؤنلوڈ: 5150
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

اعراض كرنے والوں پر عذاب ۱۳; قرآن سے منہ موڑنے والوں كا ظلم ۱۱; قرآن كا آيات خدا ميں سے ہونا ۹; قرآن كا كردار ۲،۴،۶،۸; قرآن كا وحى ہونا ۵; قرآن كا وضاحت كرنا ۵،۷،۸; قرآن كى حقانيت ۷، قرآن كى خصوصيات ۵،۶،۷

گمراہ افراد :گمراہ لوگوں كا اخروى اعتراض ۴

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور انجيل كے پيروكار ۱; مشركين مكہ اور تورات كے پيروكار ۱;مشركين مكہ پر اتمام حجت ۲; مشركين مكہ كا اخروى اعتراض ۴; مشركين مكہ كى سوچ ۳;

ہدايت :ہدايت سے محروميت كے آثار ۱

آیت ۱۵۸

( هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِيهُمُ الْمَلائكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْساً إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خيرا قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ )

يہ صرف اس بات كى منتظر ميں كہ ان كى پاس ملائكہ آجائيں ياخود پروردگار آجاے يااس كى بعض نشانياں آجائيں تو جس دن اس كى بعض نشانياں آجائيں گى اس دن جو نفس پہلى سے ايمان نہيں لا ياہے يااس نے ايمان لا نے كے بعد كوئي بھلائي نہيں كى ہے اس كى ايمان كاكوئي فائدہ نہ ہوگا تو آب كہہ دليجے كہ تم لوگ بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كر رہاہوں

۱_ قرآن كو جھٹلانے والے مشركين كى قرآن پر ايمان لانے كى شرائط ميں سے ايك (يہ شرط) تھى كہ (ان كے پاس) فرشتے آئيں يا خود خداوندمتعال ظاہر ہوكر آئے_

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملكة او ياتى ربك

''ينظرون'' كا مصدر ''نظر'' ہے يہاں اس كا

معنى انتظار اور توقع ہے_ ''الا'' كى وجہ سے استفہام يہاں ، انكارى ہے بنابرايں ''ھل ينظرون'' يعني''ما ينتظرون'' آيہ شريفہ ميں جس انتظار كى بات ہورى ہے ہوسكتا ہے اس سے مراد مشركين كى توقعات ہوں اور يہ بھى ممكن ہے كہ ان كى حالت كا بيان ہو_ يعنى اگر كوئي قرآن كو قبول نہ كرے جوكہ ايك روشن دليل ہے_ مگر يہ كہ اس پر فرشتے نازل ہوں يا (خود خدا اس كے ليے حاضر ہو) تو تب وہ ايمان لائے گا_ مندرجہ بالا مفہوم، پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۵۰۱

۲_ قرآن كو جھٹلانے والے مشركين كى قرآن پر ايمان لانے كى شرائط ميں سے ايك شرط يہ تھى كہ بعض آيات الہى عملى صورت اختيار كرليں _ (يعنى قرآن ميں بيان ہونے والے حقائق مثلاً قيامت كو وہ عملى شكل ميں ديكھتا چاہتے تھے)_

هل ينظرون الا ان ياتى بعض ايت ربّك

''لاينفع نفسا ايمانها'' كى وجہ سے، ''بعض آيات ربك'' سے مراد وہ آيات ہيں جن كو ديكھ كر، منكرين قرآن بھى ايمان لانے پر مجبور ہوجاتے ہيں بنابرايں ، كہہ سكتے ہيں كہ اس سے مراد قيامت و غيرہ ہے، قابل ذكر ہے كہ فعل ''اتيان (تاتيھم، ياتى ربك'' اور ياتى بعض آيات) كا آيت ميں تكرار، ظاہر كررہاہے كہ اس سے مراد ليئے گئے معانى ميں فرق ہے_ ''ياتى بعض آيات'' ميں ''اتيان'' كا معنى ان آيات كا عملى صورت ميں متحقق ہوناہے

۳_ فرشتوں كا بعنوان پيغمبر يا قرآن كى تصديق كے عنوان سے نازل ہونا ناممكن ہے_

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكة

توجہ رہے كہ يہ آيت، گذشتہ آيت كى جانب ناظر ہے اس آيت ميں قرآن اور اس كے منكرين كى بحث تھي_ اس سے ظاہر ہوتاہے اس آيت ميں بيان ہونے والى توقعات اور انتظار سے مراد وہ شرائط ہيں جو كہ قرآن پر ايمان لانےكے ليے ركھى گئي ہيں _ تيسرى شرط كے مقابلے ميں ، نزول ملائكہ كے نتيجے كو بيان نہ كرنا، عام لوگوں پر نزول ملائكہ كے نا ممكن ہونے كى طرف اشارہ ہے_

۴_قرآن كى تصديق اور اپنے پيغامات كے ابلاغ كے ليے خدا كا بلا واسطہ ظاہر ہونا نا ممكن ہے_

هل ينظرون الا ان يا ربك

جملہ ''ياتى ربك'' ميں ''اتيان'' كا معنى ظاہر اور آشكار ہونا ہے_

۵_ بعض آيات الہى كے عملى اور ظاہرى شكل ميں ظاہر ہونے (مثلا قيامت آنے) پر انسانوں كا ايمان لانا، ان كے ليے نفع بخش نہيں ہوگا_

يوم ياتى بعض آيات لا ينفع نفسا ايمنها لم تكن امنت من قبل

۶_ اپنى جانب ملائكہ كے نزول يا خداوندمتعال كے ظہور يا آيات ملجئہ كے تحقق كے بغير جو لوگ قرآن پر ايمان نہيں لاتے وہ پھر كبھى بھى ايمان نہيں لائيں گے_

۵۰۲

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملاء يكه او ياتى ربك او ياتى بعض آيات ربك

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب مذكورہ امور (فرشتوں كا آنا و غيرہ) قرآن كے منكر مشركين كى شرط نہ ہو بلكہ اس حالت كا بيان ہو كہ جو انكار قرآن سے ظاہر ہورہى ہے (وہ قرآن كہ جو سب سے بڑى آيت ہے)_ يعنى اگر تم قرآن پر ايمان نہيں لاتے تو ان امور كے پورا ہونے كے بغير تمہارے ايمان لانے كى كوئي صورت نہيں جبكہ ان امور ميں سے بعض ناممكن ہيں اور بعض دوسرے ايمان كى فرصت ہى ختم كردينے والے ہيں (يعنى انكے پورا ہونے سے پہلے ہى ايمان كى فرصت ختم ہوجائے گي

۷_ عمل صالح انجام ديئے بغير ايمان كا كوئي فائدہ نہيں _لا ينفع نفساًً ايمنها لم تكن او كسبت فى ايمنها خيرا

''كسبت'' ''آمنت'' پر عطف ہے_ يعنى ''لا ينفع نفسا ايمانھا لم تكن كسبت فى ايمانھا خيرا'' (يعنى جو شخص اپنے ايمان كے ذريعے نيكى نہيں كرتا اور اچھے اعمال انجام نہيں ديتا، اس كا ايمان اسے كوئي فائدہ نہيں پہنچا سكتا)

۸_ بغير ايمان كے نيك عمل كا كوئي فائدہ نہيں ہوگا_لا ينفع نفساً ايمنها لم تكن امنت من قبل او كسبت فى ايمنها خيرا

جملہ ''او كسب فى ايمانھا خيراً'' ميں ''فى ايمانھا'' كى قيد سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ ہوتاہے_

۹_ قيامت كے دن انسانوں كى نجات، ايمان اور نيك عمل كى ہم آہنگى سے وابستہ ہے_

لا ينفع نفسا ايمنها لم تكن ء امنت من قبل او كسبت فى ايمنها خيرا

۱۰_ مشركين كو قيامت كے وقوع اور اس كے عذاب سے خبردار كيا جانا_قل انتظروا انا منتظرون

۱۱_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام و الايمان عند رؤية الباس غير مقبول و ذلك حكم الله تعالى ذكره فى السلف والخلف قال الله عزوجل يوم ياتى بعض آيات ربك لا ينفع نفسا ايمانها لم تكن آمنت من قبل او كسبت فى ايمانها خيراً (۱)

حضرت امام رضاعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : عذاب ديكھ كر ايمان لانا، قابل قبول نہيں اور خداوند متعال كا يہ حكم گذشتہ لوگوں اور آئندہ لوگوں كے بارے ميں ہے كہ خداوندمتعال كا فرمان ہے كہ : وہ دن كہ جب خداوندمتعال كى بعض آيات (نشانياں ) آئيں گي، تو جو لوگ، پہلے ايمان نہيں لائے اور جس نے ايمان ميں كوئي نيكى نہيں كمائي اس كا ايمان اسے فائدہ نہ دےگا''

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۲ ص ۷۷ ح ۷_ نور الثقلين ج ۱ ص ۷۸۰ ح ۳۵۱_

۵۰۳

۱۲_عن ابى جعفر و ابى عبدالله عليه‌السلام _ فى قوله : ''يوم ياتى بعض آيات ربك لا ينفع نفساً ايمانها'' قال : طلوع الشمس من المغرب و خروج الدابة والدجال . ..(۱)

امام باقر اور حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : آيت ميں ''بعض آيات ربك'' سے مراد، مغرب كى طرف سے آفتاب كا نكلنا اور دجال اور دابہ كا خروج كرنا ہے

۱۳_عن احدهما_ عليه‌السلام فى قوله : ''او كسبت فى ايمانها خيرا قال : المؤمن العاصى حالت بينه و بين ايمانه كثرة ذنوبه و قلة حسناته فلم يكسب فى ايمانه خيرا (۲)

حضرت امام باقر يا امام صادقعليه‌السلام سے آيہء مجيدہ ''او كسبت فى ايمانھا خيرا'' كے بارے ميں منقول ہے كہ : گناہگار مؤمن كے گناہوں كى فراوانى اور نيكيوں كى كمي، اس كے ايمان اور اس كے درميان جدائي ڈال ديتى ہے_ وہ مؤمن ہونے كے باوجود، كسى قسم كى نيكى اور بھلائي حاصل نہيں كرسكا_

آخر الزمان :آخر الزمان كى نشانياں ۱۲

آيات ملجئہ :۵آيات ملجئہ كا كردار ۶

ايمان :ايمان اور عمل ۷، ۹; ايمان كى اہميت ۸; ايمان كے قبول ہونے كى شرائط ۱۱;بے عمل كا ايمان ۷; غير مفيد ايمان ۵

خدا تعالى :حكم خدا كى عموميت ۱۱;خدا كے ظہور كا محال ہونا ۴; رؤيت خدا كى درخواست ۱; ظہور خدا كى درخواست ۶

دابة الارض :دابة الارض كا خروج ۱۲

دجال :دجال كا خروج ۱۲

روايت : ۱۱، ۱۲، ۱۳

سورج:سورج كا مغرب سے طلوع۱۲

عذاب :اخروى عذاب كى دھمكي۱۰

عمل صالح :

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۱_ ص ۳۸۴ ح ۱۲۸_ نور الثقلين ج ۱ ص ۷۸۱ ح ۳۵۴_

۲) تفسير عياشى ج ۱_ ص ۳۸۵ ح ۱۳۰_ تفسير برھان ج ۱ ص ۵۶۵ ح ۱۰_

۵۰۴

بے ايمان كا عمل صالح ۸; عمل صالح اور ايمان ۸;عمل صالح كى اہميت ۷

قرآن :قرآن جھٹلانے والوں كے ايمان كى شرائط، ۲; قرآن كى تكذيب كرنے والوں كى خواہشات اور تقاضے ۱، ۲; قرآن كى حقانيت پر گواہى ۳، ۴

قيامت :قيامت كے برپا ہونے كا تقاضا اور درخواست ۲

كفار :كفار كے ايمان كى شرائط ۶

گناہ :گناہ پر اصرار كے آثار ۱۳

مشركين :مشركين كو خبردار كيا جانا۱۰; مشركين كے ايمان كى شرائط ۱،۲; مشركين كے تقاضے۱،۲

ملائكہ :ملائكہ كى نبوت كا محال ہونا ۳; نزول ملائكہ كى درخواست ۱، ۶

نجات :اخروى نجات كے علل و اسباب ۹

۵۰۵

آیت ۱۵۹

( إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ )

جن لوگوں نے اپنے دين ميں تفرقہ پيداكيا اور ٹكرے ٹكرے ہو گئے ان سى آپ كاكوئي تعلق نہيں ہے_ ان كا معاملہ خدا كى حوالى ہے پھر وہ انہيں ان كے اعمال كے بارے ميں باخبر كرے گا

۱_ دين كى كچھ تعليمات اور احكام كو قبول كرنا اور بعض دوسرے احكام سے منہ موڑ لينا، ايك ناپسنديدہ امر اور پورے دين كو قبول نہ كرنے كے مترادف ہے_ان الذين فرقوا دينهم لست منهم فى شيئ

۵۰۶

''دين'' سے مراد دين الہى ہے_ اور دين كو متفرق كرنے اور ٹكڑے ٹكڑے كرنے سے مراد دين كى بعض تعليمات كو قبول كرنا اور بعض دوسرے احكام و تعليمات كو چھوڑ دينا ہے_

۲_ جو لوگ فقط دين كى بعض تعليمات اور احكام كو قبول كرتے ہيں وہ امت پيغمبر(ص) ميں شمار نہيں ہونگے_

ان الذين فرقوا دينهم لست منهم فى شيئ

''منھم'' ''لست'' كے ليے خبر ہے_ ''ليس مني'' اور ''انہ مني'' جيسے جملات ميں ''من'' اتصال اور ارتباط كے معنى ميں ہے_ بنابرايں ''لست منھم'' يعنى آپ كا ان سے كوئي رابطہ نہيں جسكا نتيجہ يہ ہے كہ وہ بھى آپ(ص) سے عنوان پيغمبر(ص) كوئي تعلق نہيں ركھتے_ اور يہى امت محمد(ص) اور دين اسلام سے خارج ہونے كا معنى ہے_

۳_ دين ميں تفرقہ، معاشرے كى وحدت كو توڑنے اور قسم قسم كے مذاھب كى بنا پر مختلف گروہوں كے پيدا ہونے كا سبب بنتاہے_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا

۴_ اہل ايمان معاشرے ميں وحدت كى حفاظت، مومنين كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا

۵_ وہ مذھبى گروہ جو دين كے كچھ حصے كو قبول كرنے كى صورت ميں وجود ميں آئے ہيں ، ان كا امت پيغمبر(ص) ميں شمار نہيں ہوتا_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا لست منهم فى شيئ

۶_ دين كے تمام معارف اور احكام پر ايمان لانے كى ضرورت_ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا لست منهم فى شيئ

۷_ دينى تفرقے كى بنياد پر تشكيل پانے والے مذاھب كے پيروكار وں كو خداوند متعال كا خبردار كرنا_

انما امرهم الى الله

۸_ اختلاف اور تفرقہ ڈالنے والوں كے ليے برے انجام اور عذاب كامعين كرنا خدا كے ہاتھ ميں ہے_

انما امرهم الى الله

۹_ خداوندمتعال، انسانوں كے كردار اور اعمال سے آگاہ ہے_

ينبئهم بما كانوا يفعلون

۱۰_ خداوند، قيامت كے دن مجرمين كو ان كے ناپسنديدہ اعمال سے آگاہ كردے گا_

ثم يبنئهم بما كانوا يفعلون

۵۰۷

۱۱_ خداوند متعال، دين كے كچھ احكام كو قبول كرنے كى بنياد پر تشكيل پانے والے گروہوں كو عذاب ميں مبتلا كرے گا_ان الذين فرقوا دينهم انما امرهم الى الله ثم ينبئهم بما كانوا يفعلون

''ناپسنديدہ اعمال سے آگاہ كرنا'' عذاب ميں مبتلا كرنے سے كنايہ ہے_

۱۲_ اخروى عذاب، انسان كے مسلسل ناپسنديدہ اعمال كا تنيجہ ہے_ثم ينبئهم بما كانوا يفعلون

۱۳_ان رسول الله(ص) قال : ''ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا'' هم''اصحاب البدع و اصحاب الاهواء واصحاب الضلالة من هذه الامة (۱)

رسول خدا(ص) نے آيت ''ان الذين فرقوا ...'' كى تلاوت كرنے كے بعد فرمايا : يہ لوگ اس امت كے بدعت گذار، ہوا پرست اور گمراہ افراد ہيں _

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كے پيروكار ۲

اتحاد :اتحاد كى اہميت ۴

اختلاف :اجتماعى اختلاف كے علل و اسباب ۳

اختلاف ڈالنے والے :اختلاف ڈالنے والوں كا انجام ۸;اختلاف ڈالنے والوں كى سزا ۸

امتيں :غير مسلمان امتيں ۲، ۵

انجام :برا انجام ۸

انسان :عمل انسان ۹

بدعت گذار لوگ : ۱۳

خدا تعالى :خدا كا خبردار كرنا ۷; خدا كا علم ۹; خدا كے اخروى افعال ۱۰; خدا كے افعال ۸; خدا كے عذاب۱۱

دين :دين قبول كرنے ميں تجزى يعنى بعض كو قبول كرنا اور بعض كو چھوڑ دينا ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۱; دين كا كچھ حصہ ردّ كرنا ۱; دين كو رد كرنا ۱; دين كى تعليمات كو قبول كرنا۶

روايت : ۱۳

سزا:سزا كے معين ہونے كا سرچشمہ ۸

____________________

۱) الدرالمنثور، ح/ ۳_ ص ۴۰۲_

۵۰۸

عذاب :اہل عذاب ۱۱; عذاب كے اسباب ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل ۱; ناپسنديدہ عمل كى اخروى سزا ۱۲

قيامت :قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۱۰

گمراہ افراد : ۱۳

گناہگار افراد :گناہ گار اور قيامت كا دن۱۰; گناہ گاروں كا انجام

۸; گناہ گاروں كى اخروى آگاہى ۱۰; گناہ گاروں كى سزا ۸

مذہبى فرقے :مذہبى فرقوں كو خبردار كيا جانا ۷; مذہبى فرقوں كى پيدائش ۳، ۵، ۱۱

مومنين :مومنين كى ذمہ داري۴

نفسانى خواہشات كے تابع لوگ: ۱۳

۵۰۹

آیت ۱۶۰

( مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ )

جو شخص بھى نيكى كرگا اسے دس گنا اجر ملے گا اورجو برائي كرے گا اسے صرف اتنى سى سزا ملے گى اور كوئي ظلم نہ كيا جائي گا

۱_ ہر نيك كام كا دس گنا اجر و ثواب ہے_من جاء بالحسنة فله عشر امثالها

''فلا يجزي ...'' اس كى دليل يہ ہے كہ ''عشر امثالھا'' سے مراد نيك كام كا اجر ہے_

۲_ناپسنديدہ عمل كى سزا اسى كے مطابق ہے نہ اس سے زيادہ _من جاء بالسيئة فلا يجزى الا مثلها

۳_ خداوند متعال كى سزائيں عادلانہ اور اسكى جزائيں اسكے فضل كا جلوہ ہيں _من جاء بالحسنة فله عشر امثالها و من جاءبالسيئة فلا يجزى الا مثلها

۴_ دين كے تمام احكام و معارف كو قبول كرنا نيكى و حسنہ اور اسكے بعض احكام كو چھوڑ كر بعض كو قبول كرنا، برائي و سيئہ ہے_ان الذين فرقوا دينهم من جاء بالحسنة و من جاء بالسيئة

گذشتہ آيت كے پيش نظر، يہ كہہ سكتے ہيں كہ ''الحسنة'' كا مطلوبہ مصداق، دين كے تمام احكام و معارف پر ايمان لاناہے اور ''السيئة'' كا مطلوبہ مصداق دين ميں تفرقہ ڈالناہے_

۵۱۰

۵_ قيامت كے دن گناہگاروں پر ظلم نہيں ہوگا_و هم لا يظلمون

گذشتہ آيت (ثم ينبئھم) كا ذيل ظاہر كررہاہے كہ اس آيت ميں بيان ہونے والى جزا اور پاداش كا وقت، روز قيامت ہے_

۶_ گناہگاروں كو ان كے گناہ كے مطابق سزا ديناا، ان پر ظلم نہيں _و من جاء بالسيئة فلا يجزى الا مثلها و هم لا يظلمون

۷_ نيك عمل اگر قيامت برپا ہونے تك ضائع نہ ہو تو، دس گنا اجر و ثواب ركھتاہے_من جاء بالحسنة فله عشر امثالها

''بالحسنة'' ميں حرف ''بائ'' تعديہ كے ليے بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں ''مجيئ'' كا معنى انجام دينا ہے_ اور ہوسكتا حرف ''با'' مصاحبت كے ليے ہو_ تو اس صورت ميں ''مجيئ'' حاضر ہونے كے معنى ميں ہے_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_ اس بنا پر جملہ ''من جاء بالحسنة'' (جو شخص نيك عمل كے ساتھ قيامت كے دن حاضر ہو) اس معنى كى جانب اشارہ ہے كہ اجر و ثواب اس كے ليے ہے كہ جس كا نيك عمل قيامت تك باقى رہے اور گناہ كے ذريعے ضائع نہ ہوگيا ہو_

۸_ گناہ كى اخروى سزا اس صورت ميں ہوگى كہ جب گناہگار قيامت كے دن تك عفو الہى سے بہرہ مند نہ ہوا ہو_

من جاء بالسَّيئة فلا يجزى الا مثلها

يہ مفہوم، گذشتہ مفہوم كى وضاحت سے اخذ كيا گيا ہے_ (يعنى قيامت آنے سے پہلے، گناہگار كے گنا ہ معا ف ہوجائيں تو پھر اسے سز ا نہيں ملے گي)_

۹_عن علي عليه‌السلام فى قوله تعالى ...''من جاء بالحسنة فله عشر امثالها'' الحسنة حبنا اهل البيت و السيئة بغضنا ... (۱)

امير المؤمنين حضرت امام عليعليه‌السلام سے، آيت مجيدہ ''من جاء بالحسنة''كے بارے ميں منقول ہے كہ ''حسنة'' سے مراد ہم اہل بيتعليه‌السلام كى دوستي

____________________

۱) بحار الانوار ج ۳۶، ص ۱۸۶، ح ۱۸۵

۵۱۱

اور محبت ہے اور ''سيئہ'' سے مراد ہمارى دشمن ہے_

۱۰_سئل ابو عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل : ''من جاء بالحسنة فله عشر امثالها'' يجرى لهؤلاء ممن لا يعرف منهم هذا الامر ؟ فقال : انما هذه للمؤمنين خاصة ... (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كہ آيا آيہ مجيدہ ''من جاء بالحسنة ...'' ان لوگوں كو بھى شامل ہے كہ جو ولايت كى معرفت نہيں ركھتے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا : يہ آيت فقط مؤمنين (شيعوں ) كے ليے ہے_

اجر :دو برابر اجر ۱، ۷

اعداد :دس كا عدد ۱، ۷

اہل بيت :حب اہل بيت ۹; دشمني اہل بيتعليه‌السلام ۹

حسنات :حسنہ سے مراد ۹; حسنات كے موارد ۴

خدا تعالى :اجر خدا ۳; عفو خدا كے آثار ۸;فضل خدا ۳

دين :دين كے بعض حصوں كو قبول كرنا ۴; دينى تعليمات كو قبول كرنا ۴

روايت : ۹، ۱۰

سزا:اخروى سزا كى شرائط ۸; سزا كا گناہ كے ساتھ تناسب۲، ۶; سزا كا نظام ۲، ۳، ۵، ۶، ۸;سزا ميں عدالت ۳،۶

سيئات :سيئہ سے مراد ۹; سيئات كے موارد ۴

شيعيان :شيعوں كا مقام و منزلت ۱۰

عمل :ناپسنديدہ عمل كى سزا ۲

عمل صالح :عمل صالحضائع ہونے كے آثار ۷; عمل صالح كى اخروى پاداش ۷; عمل صالح كى جزا ۱

قيامت :قيامت كے دن ظلم كى نفى ۵

____________________

۱) محاسن برقى ج ۱ ص ۱۵۸_ ح ۹۴ ب ۲۶ بحار الانوار ج ۶۹_ ص ۱۶۲ ح ۱۹_

۵۱۲

گناہ :گناہ كى اخروى سزا ۸

گناہگار :گناہگار اور قيامت كا دن ۵;گناہگاروں كى سزا ۶

مؤمنين :مؤمنين كا مقام و مرتبہ ۱۰

نظام جزائي : ۱، ۳، ۷

آیت ۱۶۱

( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيناً قِيَماً مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

آپ كہہ دليجے كہ ميرے پروردگار نے مجھے سيدھے راستے كى ہدايت دے دى ہے جو ايك مضبوط دين اور باطل سے اعراض كرنے والے ابراہيم كا مذہب ہے اور وہ مشركين ميں سے ہرگز نہيں تھے

۱_ پيغمبر(ص) صراط مستقيم كى طرف ہدايت يافتہ ہيں _اننى هدى نى ربى الى صراط مستقيم

۲_ پيغمبر(ص) كا راہنما، خداوند متعال ہے_هدنى ربّى الى صراط مستقيم

۳_ پيغمبر(ص) كا ہدايت يافتہ ہونا ہى آپ(ص) پر ربوبيت خداوند كى جلوہ گرى ہے_هد نى ربّي

۴_ پيغمبر(ص) كے ليے ضرورى ہے كہ آپ(ص) دين اسلام كےبارے ميں اپنا عقيدہ لوگوں پر ظاہر كريں _

قل اننى هدى نى ربّى الى صراط مستقيم دينا قيما

۵_ پيغمبر(ص) كو چاہيئے كہ آپ(ص) دين اسلام پر اپنے عقيدے كا اعلان كرتے وقت خداوند متعال كو (اس عقيدے ميں ) اپنے راہنما كے طور پر متعارف كروائيں _قل اننَّى هد نى ربّي

۶_ دينى رہبروں كو چاہيئے كہ وہ اپنے راستے كى حقانيت

۵۱۳

پر عقيدہ ركھيں اور اپنے پيروكاروں كے سامنے اس كا اعلان كريں _قل اننى هدانى ربى الى صراط مستقيم دينا قيما

اعلان كا لازمى ہونا، كلمہ ''قل'' سے اخذ كيا گيا ہے_

۷_ دين اسلام، بغير كسى كجى اور انحراف كے ايك سيدھا راستہ ہے_هد نى ربّى الى صراط مستقيم دينا قيما

''دينا'' ''الى صراط''كيلئے عطف بيان يا بدل ہے_

۸_ دين اسلام، ايك ثابت اور انتہائي محكم و استوار دين ہے_دينا قيما

كلمہ ''قيم'' كو بعض نے ''قام'' كا مصدر اور بعض نے قيام كا مخفف كہاہے_ البتہ ہر دونوں صورتوں ميں ، وصف كے معنى ميں مصدر ہے (يعنى قائم، كھڑ ہوا)وصف كى جگہ مصدر كا استعمال، تاكيد كے ليے ہوتاہے_

۹_ دين اسلام، دين ابراہيمعليه‌السلام ہے_دينا قيما ملة ابراهيم

''دينا قيماً'' كے ليے ملت ابراھيم بدل ہے_

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، ہر قسم كے انحراف سے مبرا انسان تھے_ملة ابراهيم حنيفا

۱۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، شرك اور مشركين سے الگ ايك موحّد انسان تھے_و ما كان من المشركين

۱۲_عن الحسين بن علي عليه‌السلام : ما احد على ملة ابراهيم الا نحن و شيعتنا ... (۱)

امام حسينعليه‌السلام سے منقول ہے كہ ہمارے اور ہمارے شيعوں كے سوا كوئي بھى دين ابراھيمعليه‌السلام كا پيروكار نہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كا معلم ہونا ۲; آنحضرت كا ہدايت دينا ۱،۲، ۳،۵; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۴،۵

ابراھيمعليه‌السلام :ابراھيمعليه‌السلام كا حنيف ہونا ۱۰، ۱۱;ابراھيمعليه‌السلام كا دين ۹; ابراھيمعليه‌السلام كا منزہ ۱۰، ۱۱; ابراھيمعليه‌السلام كى توحيد۱۱; ابراھيمعليه‌السلام كے دين كے پيروكار ۱۲;ابراھيم كے فضائل۱۰، ۱۱

اسلام :اسلام كا محكم و استوار ہونا ۸; اسلام كى خصوصيت ۷، ۸; دين اسلام ۹

خدا تعالى :ربوبيت خدا كے مظاہر ۳; ہدايت خدا ۲، ۵

____________________

۱) تفسير عياشي، ج/ ۱ ص ۳۸۸ ح ۱۴۶_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۸۶ ج ۳۸۰_

۵۱۴

روايت : ۱۲

رہبرى :دينى رہبرى كى ذمہ دارى ۶; عقيدہ رہبرى ۶

شيعيان :شيعہ اور دين ابراھيمعليه‌السلام ۱۲

صراط مستقيم :صراط مستقيم كے موارد ۷

عقيدہ :اسلام پر عقيدہ كا اظہار ۴، ۵

موحدين : ۱۱

مہتدين (ہدايت يافتہ لوگ) :۱

ہدايت :صراط مستقيم كى جانب ہدايت ۱

آیت ۱۶۲

( قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ )

كہہ دليجے كہ ميرى نماز ، ميرى عبادتيں ، ميرى زندگى ميرى موت سب الله كے لئے ہے جو عالمين كاپالنے والاہے

۱_ پيغمبر(ص) كى نماز، عبادت اور زندگى كے دوسرے امور اور موت فقط خداوند متعال كے ليے تھي_

ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله

''محيا'' اور ''ممات'' مصدر ميمى ہيں اور جنكا معنى زندہ رہنا اور مرنا ہے چونكہ زندہ رہنا اور مرنا، انسان كے اختيار ميں نہيں ہے تا كہ اسے خداوند كے ليے قرار دے_ لھذا يہ كہا جاسكتاہے كہ اس سے مراد، زندگى گذارنے كا طريقہ اور موت كى كيفيت ہے يا زندگى اور موت سے مربوط امور كا انجام دينا ہے_

۲_ پيغمبر(ص) ايك مكمل اور ہمہ پہلو اخلاص سے بہرہ مند تھے_ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله رب العلمين

۳_ نماز، عبادت خداكا واضح ترين مظہر اور جلوہ ہے_ان صلاتى و نسكي لله رب العلمين

''نسك'' كا معنى عبادت ہے نماز كو بھى شامل ہے بنابرايں تمام عبادات ميں سے فقط نماز كا ذكر كرنا، اس كى اہميت كو ظاہر كرتاہے_

۵۱۵

۴_ خداوند كا، پيغمبر(ص) كو مخلصانہ عبادت كرنے اور تمام امور كو خداوندمتعال كے ليے انجام دينے كى نصيحت كرنا_

اننى هد نى ربّي قل ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله

ہوسكتاہے ''محيا و ممات'' تمام امور كى طرف كنايہ ہوں _

۵_ كامل اخلاص (يعنى تمام امور فقط خداوند متعال كے ليے انجام دينا) دين اور آئين پيغمبر(ص) ہے_

دينا قيما قل ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله ربّ العلمين

۶_ پيغمبر(ص) كو چاہيئے كہ آپ(ص) تمام امور ميں اپنے اخلاص كا لوگوں پر اظہار كريں _

قل ان صلاتى و نسكى و محياى و مماتى لله

۷_ تمام جہانوں كا پروردگار اور مالك خداوندمتعال ہے_لله ربّ العلمين

۸_ كائنات، متعدد عوالم سے تشكيل شدہ ہے_ربّ العلمين

۹_ پورى كائنات پر ربوبيت خدا كے بارے ميں پيغمبر(ص) كا ايمان ہى آپ(ص) كے كامل اور ہمہ پہلو اخلاص كا سبب ہے_ان صلاتى و نسكي لله ربّ العلمين

''اللہ'' كى ''رب العلمين'' كے عنوان سے توصيف، مندرجہ بالا مفہوم كى دليل ہے_

۱۰_ خداوندمتعال كى على الاطلاق ربوبيت پر عقيدہ باعث بنتاہے كہ انسان اسكى مخلصانہ عبادت كرے اور تمام كام فقط خداوند متعال كى خاطر انجام دے_ان صلاتى و نسكي لله ربّ العالمين

۱۱_ مخلصانہ عبادت، اور نماز، دين پيغمبر(ص) كى واضح ترين خصوصيت ہے_دينا قيما ان صلاتى و نسكي لله ربّ العلمين

آفرينش :آفرينش و خلقت كى تدبير ۷، ۹; عوالم آفرينش ۸; عوالم آفرينش كا مالك ۷

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كا اخلاص ۱، ۲، ۵، ۶، ۹; آنحضرت(ص) كا ايمان ۹; آنحضرت(ص) كا خدا كے ساتھ تكلم كرنا۴; آنحضرت(ص) كى توحيد عبادى ۱; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۶; آنحضرت(ص) كى عبادت ; آنحضرت(ص) كى نماز ۱

ابھارنا :

۵۱۶

ابھارنے كے اسباب ۱۰

اخلاص :اخلاص كى اہميت ۶; اخلاص كے علل و اسباب ۹، ۱۰

اسلام :اسلام كى اہم ترين تعليمات ۵، ۱۱; اسلام كى خصوصيت ۵، ۱۱

ايمان :ايمان كے آثار ۹، ۱۰; ربوبيت خدا پر ايمان ۹، ۱۰; متعلق ايمان ۹، ۱۰

خدا تعالى :خدا كى تدبير۷; خدا كى مالكيت ۷; خدا كے اوامر۴

عبادت:بہترين عبادت۲; خالصانہ عبادت كى اہميت۴، ۱۱; عبادت خدا كے مظاہر ۳; عبادت ميں اخلاص۱۰; عبادت ميں اخلاص كى اہميت ۵

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئيڈبالوجى ۹،۱۰

نماز :نماز كى اہميت ۳، ۱۱

آیت ۱۶۳

( لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ )

اس كا كوئي شريك نہيں ہے اور اسے كا مجھے حكم ديا گيا ہے اور ميں سب سے پہلا مسلمان ہوں

۱_ عالم كائنات كى ربوبيت ميں خداوند ايسى حقيقت ہے كرجو شريك سے منزہ و پاك ہے_ربّ العلمين_ لا شريك له

۲_ خداوند متعال كى مخلصانہ عبادت و پرستش كى (اہم ترين) دليل ، ا سكا ر بو بيت (عالم) ميں شر يك سے منزہ ہوناہے_

ان صلاتى و نسكي لله ربّ العلمين لا شريك له

كائنات پر ربوبيت كے ذريعے ''اللہ'' كى توصيف كرنا (ربّ العلمين) اور اس كے ليے شريك نہ ہوئے كا بيان (لا شريك لہ)''ان صلاتي لله'' كى علت ہے_

۵۱۷

۳_ پيغبر(ص) كو حكم ديا گيا تھا كہ آپ(ص) توحيد پرست ہوں ، مخلصانہ عبادت كريں اور ربوبيت ميں خداوندمتعال كے يكتا ہونے پر ايمان ركھيں _ان صلاتي لله رب العلمين لا شريك له و بذلك امرت

۴_ عبادت ميں توحيد اور ربوبيت ميں خداوند متعال كى يكتائي پر ايمان ہى دين پيغمبر(ص) ہے_

ان صلاتي لله ربّ العلمين_ لا شريك له و بذلك امرت

آيت ۱۶۱ ميں بيان ہوا ہے كہ خداوند نے پيغمبر(ص) كى ايك سيدھے راستے اور استوار و محكم دين كى جانب ہدايت كى ہے_ مذكورہ آيت بيان كررہى ہے كہ پيغمبر(ص) كو عبادت و ربوبيت ميں توحيد كا حكم ديا گيا تھا بنابرايں ، دين پيغمبر(ص) سے مراد عبادت ميں توحيد اور خداوند كى يكتائي پر ايمان ركھنا ہے_

۵_ پيغمبر(ص) خداوند متعال كے فرامين قبول كرنے اور ان كے سامنے تسليم ہونے كے بلند ترين مقام پر فائز تھے_

و بذ لك امرت و انا اول المسلمين ''المسلمين'' كا مصدر ''اسلام'' ہے جسكا معنى ''تسليم ہونا'' ہے اور گذشتہ جملے كے مطابق، ''المسلمين'' كا متعلق فرامين خداوند متعال ہيں _ بنابرايں ''انا اول المسلمين'' يعنى خداوند متعال كے فرامين اور احكامات كے سامنے تسليم ہونے والا پہلا شخص ميں ہوں ''

۶_ ''مقام تسليم'' ميں خداوند متعال كے سامنے تسليم ہونے والے تمام بندوں ميں پيغمبر(ص) كا مقام سب سے بلند ہے_و انا اول المسلمين

اول (مقدم) ہونا كبھى تو زمان كے لحاظ سے ہے اور كبھى رتبہ و مقام كے اعتبار سے_ بظاہر جملہ ''انا اول المسلمين'' ميں دوسرا معنى (يعنى مقام اور رتبے ميں مقدم ہونا) مراد ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى اطاعت ۵،۶; آنحضرت(ص) كى توحيد ۳; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۳; آنحضرت(ص) كے مقامات ۵،۶

اسلام :تعليمات اسلام ۴

ايمان :توحيد ربوبى پر ايمان ۳، ۴; متعلق ايمان ۳، ۴

تسليم :خدا كے سامنے تسليم ہونا ۵، ۶; مقام تسليم ۵، ۶

توحيد :توحيد ربوبى كى اہميت ۳; توحيد عبادى ۲; توحيد عبادى كى اہميت ۳، ۴

خدا تعالى :

۵۱۸

تنزيہ خدا ۱

شرك :شرك ربوبى كى نفى ۱، ۲

عبادت :عبادت ميں اخلاص ۲; عبادت ميں اخلاص كى اہميت ۳

آیت ۱۶۴

( قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبّاً وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَآزرةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ )

كہہ دليجے كہ كيا ميں خدا كے علاوہ كوئي اور رب تلاش كروں جب كہ وہى ہرشے كا پالنے والا ہے اور جو نفس جو كچھ كرے گا اس كا وبال اسى كے ذمہ ہوگااور كوئي نفس دوسرے كا بوجھ نہ اٹھائے گا _ اس كے بعد تم سب كى بازگشت تمھارے پروردگار كى طرف ہے پھر وہ بتائے گا كہ تم كس چيز ميں اختلاف كررہے تھے

۱_ فقط خداوند متعال، انسانوں كا ''رب'' (مالك و مدبّر) ہے_اغير الله ابغى ربّا

''بغي'' ''ابغى '' كا مصدر ہے جسكا معنى ، جستجو اور طلب كرنا ہے_ كلمہ ''ربّا'' ''ابغي'' كے ليے مفعول اور ''غير اللہ ''ربا'' كا حال ہے_

۲_ خداوند متعال پورى كائنات كامالك اورمدبّر ہے_و هو ربّ كل شيئ

۳_ پورى كائنات پر خداوند متعال كى ربوبيت كا عقيدہ، تقاضا كرتا ہے كہ انسان بھى اس كى ربوبيت كا اقرار كرے_

اغير الله ابغى ربّا و هو ربّ كل شيئ

جملہ ''و ھو ربَّ كل شيئ'' غير خدا كى ربوبيت كو قبول نہ كرنے كى علت ہے_

۴_ خدا كے علاوہ كسى اور ربّ (پروردگار) كى تلاش ايك حيرت انگيز بات اور كم عقلى كى علامت ہے_

اغير الله ابغى ربا و هو رب كل شيئ

جملہ ''اغير اللہ ...'' ميں استفہام، انكارتعجب ہے_

۵۱۹

۵_ ہر انسان خداوند متعال كى بارگاہ ميں ، اپنے اعمال و كردار كا جوابدہ ہے_و لا تكسب كل نفس الا عليها

''لا تكسب'' كا مفعول كلمہ ''شيئا'' يا ''عملاً'' ہے اور ''عليھا'' ايك محذوف فعل مثلا ''يحمل'' سے متعلق ہے_ يعنى ''لا تكسب كل نفس عملا الا يحمل عليها ''اور يہ كنايہ ہے كہ ہر شخص اپنے عمل كے سلسلے ميں جوابدہ اورذمہ دار ہے_

۶_ كوئي بھى دوسروں كے گناہوں كا بوجھ اپنے دوش پر نہيں لے گا اور نہ ہى دوسروں كے گناہوں كا اس سے مؤاخذہ كيا جائے گا_و لا تزر و آزرة وزر اخرى

''وزر'' كا معنى اٹھانا ہے اور گناہ كے معنى ميں بھى آياہے_ ''وزر'' سے ''تزر'' اور ''ووازرة'' ماخوذ ہيں يعنى اٹھانا_ اور ''وزر اخرى '' ميں ''وزر'' سے مر اد گناہ ہے_

۷_ گناہ، گناہگار كے دوش پر ايك سنگين بوجھ ہے_و لا تزر وآزرة وزر اخرى

''وزر'' در اصل سنگين بوجھ كو كہتے ہيں اور گناہ كو اس ليے ''وزر'' كہتے ہيں چونكہ گناہگار كے كاندھوں پر اس كا بوجھ سنگين ہوتاہے_

۸_ سب انسان فقط خداوند متعال كى جانب لوٹيں گے_ثم الى ربكم مرجعكم

''الى ربكم'' كو اپنے متعلق (مرجعكم) پر مقدم ركھنا ''حصر'' پر دلالت كرتاہے (يعنى فقط خداوند متعال كى جانب بازگشت ہوگي)

۹_ قيامت كا برپا ہونا اور انسانوں كا خداوندمتعال كى جانب پلٹنا، انسانوں پر ربوبيت خدااور ان كے امور كى تدبير كا ايك جلوہ ہے_ثم الى ربكم مرجعكم

۱۰_ قيامت كے دن خداوندمتعال، لوگوں كو دينى معارف كى حقيقت سے آگاہ كردے گا_

ثم الى ربكم مرجعكم فينبئكم

۱۱_ قيامت كے دن سب لوگ، دينى معارف كى حقيقت سے آگاہ ہوں گے_

فيبئكم بما كنتم فيه تختلفون

واضح ہے كہ خداوند متعال نے دنيا ميں ، اہل ايمان اور اہل شرك كے درميان اختلافى مسائل كى حقانيت بيان كردى ہے_ بنابرايں كہہ سكتے ہيں كہ يہ خبر دينا ''فينبئكم '' سزا دينے ''كى طرف اشارہ ہے_ يا اس سے مراد خصوصى آگاہى ہے يعنى حقيقى اور قابل لمس آگاہى مندرجہ بالا

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

جملہ''قال كذلك '' يعنى ''قال الله إلامر كما وعدتك'' يا پھر''قال الله الامر كما قلت '' ہے پہلى صورت ميں خداوند عالم اپنے گذشتہ وعدہ كى تاكيد كررہاہے كہ'' اى ذكريا جيسا كے ميں نے كہا ہے ہر صورت ميں تيرے ہاں بيٹے كى ولادت ہوكر رہے گى اور دوسرى صورت ميں خدا ند عالم نے حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ولادت كے موانع كى تصديق كى ہے يعنى حقيقت حال اسى طرح ہے جيسا كہ تو نے كہا ہے يعنى يحيى كى ولادت كے عادى اسباب موجود نہيں ليكن تيرے پروردگار نے كہاہے كہ يہ كام ميرے ليے آسا ن ہے_

۲_ بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے بچے كو پيدا كرنا، خداوند كريم كے ليے انتہائي آسان كام ہے_قال ربك هو عليّ هيّن

۳_ طبعى قوانين اور عادى اسباب، خداوند عالم كى قدرت اور ارادہ كو محدود نہيں كرتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۴_ دنياوى حوادث ميں طبعى اسباب ، علت تامہ كى حيثيت نہيں ركھتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۵_ طبعى اسباب اور عوامل كو مدنظر ركھنا،خداوندعالم كے ارادہ و تقاضا كے ليے حجاب ہے_أنى يكون غلام هو على هيّن

۶_حضرت يحيى (ع) كى ولادت ايك معجزانہ اور غير معمولى بات تھي_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۷_حضرت زكريا (ع) كى خداوند عالم كى ربوبيت كى طرف توجہ كرنے سے انہيں يہ اطمينان حاصل ہوگيا كہ خداوند عالم كے ارادہ اور تقاضا سے ان كى بانجھ بيوى كے ہاں بچے كى ولادت ہوسكتى ہے_قال ربك هو على هيّن جملہ'' ہو عى ہين'' قال رب كے بغير بھى مكمل طور پر معنى دے رہاہے ليكن اس جملہ كا مزيد اضافہ ہوجانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ كسى معمولى انسان كا كلام نہيں ہے كہ اس كے بارے ميں غور و فكر كرنا شروع كرديں بلكہ يہ تيرے پروردگار كا فرمان ہے جس سے تجھے اس وقت خلق كيا ہے جس وقت تو كچھ بھى نہ تھا وہ اس وقت تجھے اور مدد عطاكرنے كى بھى صلاحيت ركھتاہے_

۸_حضرت زكريا (ع) كے ساتھ خداوند عالم كى گفتگو واسطہ كے ذريعے تھى اور براہ راست نہيں تھى _قال كذلك قال ربك هو على هيّن بعض نے كہا ہے كہ ''قال كذلك '' كا فاعل فرشتہ الہى ہے اور اسم ظاہر ''ربك'' كے آنے سے يہ نظريہ سامنے آيا ہے_

۹_خداوند عالم نے حضرت زكريا (ع) كو ان كى اپنى پيدائش كى طرف متوجہ كركے انہيں يہ بتاياہے كہ ان كے اور ان كے بانجھ زوجہ كے ہاں يحيى (ع) كى پيدائش كے سلسلہ ميں مطمئن ہوجائيں _

۶۰۱

هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۰_اس بزم ہستى ميں انسان كى پيدائش ، خداوند عالم كے ارادہ سے ہوتى ہے اور وہ پيدائش سے قبل كچھ بھى نہيں ہوتا_

و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۱_ انسان كى پيدائش خداوند عالم كى قدرت كا ايك كرشمہ ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۲_انسان كى پيدائش ميں غور و فكر كرنے سے خداوند عالم كى طبعى اسباب و عوامل پر حاكميت و ارادہ قدرت كے تمام شكوك و شبہات ختم ہوجاتے ہيں _هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۳_ خداوند عالم كى جانب سے معدوم مطلق كو خلقت كوجود عطا كرنا اسبات كى علامت ہے كے اس كى قدرت طبعى عوامل و اسباب ميں ہى منحصر نہيں ہے_هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

'' لم تك شيئاً'' سے مراد، معدوم مطلق ہے اور اس كى حضرت زكريا (ع) پر تطبيق كرنا كہ جن كى پيدائش حضرت آدم (ع) كى پيدائش پر منتہى ہوتى ہے جو خاك سے معرض وجود ميں آتے ہيں يہ زمانہ كے اعتبار سے ہے يعنى پہلى مخلوق عدم سے وجود ميں آئي ہے_

۱۶_جتنے انسان بھى روئے زمين پر پيدا ہوتے ہيں انہيں گذشتہ زمانے ميں پيدا كيا گيا ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تكن شيئ جملہ حاليہ'' و لم تك شيئاً'' ممكن ہے زمانے كى طرف ناظر ہو يعنى انسان پيدا نہيں ہوتے تھے اس صورت ميں جملہ '' خلقتك من قبل'' كا اشارہ عالم زر كى طرف ہوگا يعنى ہم نے آپ كو گذشتہ دور ميں كسى بھى عادى سبب كے خلق كيا ہے_ اب كس طرح حضرت يحيى كى بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے پيدائش ميں شك كررہے ہو_

انسان:_كى خلقت ۱۱; _ كى خلقت كا سرچشمہ ۱۰

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ۱

پيري:_ ميں صاحب اولاد ہونا ۲

تذكر:حضرت زكريا (ع) كى خلقت كا _۹

تفكر:خلقت انسان ميں _ كے آثار ۱۲

خدا:_ كے ارادہ كے آثار ۷; _ كى مشيت كے آثار ۷; _ كا ارادہ مطلق ۳; _ كى بشارتيں ۱; _ كے تذكرات ۹; _ كے ارادہ كى حاكميت ۱۲; _ كى مشيت كى

۶۰۲

حاكميت ۱۲; _ كى قدرت ۲; _ كى قدرت مطلق ۳; _ كى قدرت كى علامات ۱۱; _ كى مطلق قدرت كى علامات ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كے آثار كا _۷; ارادہ خدا كے موانع ۷

زكريا(ع) :_ كا اطمينان ۱،۹; _ كى زوجہ كا حاصلہ ہونا ۷،۹; _ كو بشارت ۱; _ كو تذكر۹;_ كے اطمينان كے اسباب ۷; _ كى خداوند عالم كے ساتھ گفتگو كى خصوصيات ۸

شبہات:رفع شبہات كے اسباب ۱۲

عالم ذرّ:_ ميں خلقت ۱۴

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۳،۴،۵،۱۲،۱۳

نظام عليت:۴،۱۳

يحيى (ع) :_ كى ولادت كا معجزہ۶

آیت ۱۰

( قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً )

انھوں نے كہا كہ پروردگار اس ولادت كى كوئي علامت قرار ديدے ارشاد ہوا كہ تمھارى نشانى يہ ہے كہ تم تين دنوں تك برابر لوگوں سے كلام نہيں كروگے (۱۰)

۱_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند عالم سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہيں تا كہ بچہ دار ہونے كے ليے وہ اور ان كى زوجہ اس وقت ميں مناسب طور پر آمادہ ہوسكيں _قال رب اجعل لى ء اية

حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے جو نشانى طلب كى ہے اس ميں تين احتمالات پائے جاتے ہيں ۱) يا تو خداوند عالم كى بشارت ميں شك ركھتے تھے اور اس كو دور كرنا چاہتے تھے ۲) زوجہ كے ساتھ ہمبسترى كے ليے آداب كو ملحوظ خاطر ركھنا چاہتے تھے۳) خداوند عالم كا شكريہ بجالانا چاہتے تھے آيت ميں احتمال سوم پر كسى قسم كى كوئي دليل موجود نہيں ہے اور بعض علما نے احتمال اول كو بھى رد كيا ہے كيوں كے انبياء كرام (ع) كسى قسم كا شك نہيں ركھتے لہذا انہوں نے دوسرے احتمال كو صحيح جاتاہے_ مندرجہ بالا معنى بھى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۲_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہے تا كہ يقين حاصل كريں كہ حضرت يحيى (ع) كى بشارت خداوند عالم كى جانب سے ہے_قال رب اجعل لى ء اية

۶۰۳

حضرت زكريا (ع) كى جانب سے خداوند متعال سے علامت طلب كرنا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ وہ اطمينان حاصل كرنا چاہتے تھے كہ جو كچھ انہوں نے دريافت كياہے وہ وحى الہى ہے نہ كہ شيطانى وسوسہ ہے اس جيسے امور ميں انبياء كرام (ع) كا شك كرنے كا امكان اس وجہ سے ہے كہ كيوں كے وہ صرف خداوند عالم كى ہے امداد سے شيطان سے محفوظ رہتے ہيں اور خداوند كريم بھى كبھى انہيں علامات و نشانياں دكھا كر اور كبھى كسى دوسرے طريقہ سے مطمئن كرتاہے_

۳_ خداوند عالم سے زيادہ اطمينان كى خاطر علامت يا نشانى طلب كرنا، شان رسالت كے ساتھ متصادم نہيں ہے_

قال رب اجعل ليء اية قال ء ايتك الاتكلم الناس

۴_حضرت زكريا (ع) نے دعا كرتے وقت ربوبيت الہى كو مدنظر ركھاہے_قال رب

۵_ حضرت زكريا (ع) كى جانب سے تين دن تك لوگوں كے ساتھ گفتگو نہ كرنا، خداوند عالم كى طرف سے اولاد كے پيدا ہونے كى بشارت كى علامت تھي_قال اء يتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

كلمہ ''سويّا'' يا تو '' ثلاث ليالي'' كے ليے صفت ہے يا پھر'' ألا تكلم الناس'' كے ليے حال ہے دونوں صورتوں ميں اس سے مراد تين دن اور تين راتيں ہيں اور اس بات كى دليل سورة آل عمران كى آيت نمبر ۴۰ بھى ہے_ فعل '' ألاّ تكلم'' فعل نفى ہے اور اس سے مراد يہ نہيں ہے كہ حضرت زكريا (ع) كى شرعى ذمہ دارى سكوت تھا_ بلكہ يہ اس بات كى خبر دے رہاہے كہ حضرت زكريا (ع) نے تين دن تك سكوت اختيار كيا ہے_

۶_ جس وقت حضرت زكريا (ع) لوگوں كے ساتھ گفتگو پر توانائي نہيں ركھتے تھے اس وقت وہ خداوند متعال كى عبادت و نيايش ميں مشغول رہتے تھے_ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويّا

كلمہ '' الناس'' يہ بتارہاہے كہ حضرت زكريا (ع) صرف لوگوں كے ساتھ گفتگو كرنے ميں توانائي نہيں ركھتے تھے نہ كہ اصلاً گفتگو ہى نہيں كرسكتے تھے (يعنى عبادت و ذكر الہى كرسكتے تھے)

۷_ حضرت زكريا (ع) كى طرف سے لوگوں كے ساتھ گفتگو كى توانائي نہ ركھنا خداوند عالم كى طرف سے معجزہ تھا نہ يہ كہ وہ كوئي زبانى يا جسمانى نقص ركھتے تھے_قال اء يتك الا تكلم الناس ثلاث ليال سويا '' سوّي'' اس شخص كو كہاجاتاہے جو اخلاق اور خلقت كے لحاظ سے حداعتدال ميں ہو يعنى نہ تو اس ميں كسى چيز كى كمى ہو اور نہ ہى كسى چيز كى زيادتى ہو (مفردات راغب)

۶۰۴

اس مبنا كى بنياد پر '' سويّا'' ''تكلم'' فعل كے فاعل جو حضرت زكريا (ع) ہيں كے ليے حال ہے تو پھر آيت مباركہ كا معنى كچھ يوں ہوگا كہ تو در حالانكہ صحيح و سالم ہے پھر بھى لوگوں كے ساتھ تين دن تك گفتگو كرنے پر قادر نہيں ہے_

۸_اولاد كے ليے ا نعقاد نطفہ كرتے وقت باپ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تزكيہ نفس بھى كيے ہوئے ہو اور روحانى و نفسانى لحاظ سے بعى اعلى منزل پر فائز ہو_قال رب اجعل لى ء اية قال ء اتيك ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں اگر وہ انعقاد نطفہ كے زمانہ وقت كو مشخص كرنے كے ليے تھيں تو پھر ان نشانيوں كى خاص اہميت ہے اور آپ(ع) چاہتے تھے كہ خاص مسائل كو ملحوظ خاطر ركھيں اور آداب و احترام كا خيال ركھيں اور انعقاد نطفہ كے ليے نفسانى و روحانى لحاظ سے اعلى مقام پر فائز ہوں _

۹_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال كے ساتھ گفتگو كى ہے_قال رب قال ء ايتك

۱۰_ گذشتہ اديان ميں سكوت كے روزہ كا موجود ہونا_قال ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

'' ألا تكلم الناس'' فعل نفى ہے بعض مفسرين نے احتمال ديا ہے كہ تكلم كى نفي، جزاكے مقام انشاء پر ہے اور تكلم و گفتگو كو ترك كرنے خداوند متعال كى طرف سے حضرت زكريا (ع) كے ليے ايك اختيارى فعل اور شرعى ذمہ دارى تھى جو روزہ ركھناہے سے كنايہ ہے_ اور اس زمانہ ميں روزہ كے صحيح ہونے كى ايك شرط سكوت تھا_

۱۱_ انبياء كرام (ع) كے ليے بھى حقائق كو روشن كرنے كے ليے معجزہ سے كام ليا جانا_ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۲_ لوگوں كے ساتھ گفتگو قطع كرنے سے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت ميں اضافہ ہوتاہے_ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں ان كا حضرت يحيى (ع) كے انعقاد نطفہ كے ساتھ تعلق ہے كيوں كہ حضرت زكريا (ع) كو بڑھاپے كى وجہ سے ايسے كام پر قادر نہ تھے اور تين دن تك سكوت اختيار كرنا ممكن ہے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت كو بڑھانے كى خاطر ہو _ تا كہ انعقاد نطفہ ہوسكے _

۱۳_ خداوند عالم كا ارادہ، طبعى اسباب و عوامل پرحاكم ہے_قال رب اجعل ...اء ايتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۴_ حضرت زكريا (ع) كى داستان ميں ايك معجزہ كو دوسرے معجزہ كے ذريعہ ثابت كيا گيا ہے_

ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۶۰۵

حضرت زكريا (ع) كا تين دن تك سكوت خود معجزہ ہے جو حضرت يحيى (ع) كى ولادت كو ثابت كررہاہے وہ بھى معجزہ ہے_

آيات خدا:_كى درخواست ۱،۲،۳

اطمينان:_ كے اسباب ۳

اعداد:تين كا عدد

الله تعالي:_ كے ارادہ كى حاكميت ۱۳

انسان :_ كى خلقت كے مراحل ۸

باپ:_ كے تزكيہ كے آثار ۸

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كي_ ۲

حقائق:_ كو بيان كرنے كے ا سباب ۱۱

دعا:_كے آداب ۴

ذكر:_ربوبيت خدا كا ۴

روزہ:آسمانى اديان ميں سكوت كا ۱۰

ذكريا (ع) :_ كے قصہ كا معجزہ ہونا ۱۴; _ كى زوجہ كا حاملہ ہونا ۱; _ كو بشارت ۵; _ كے تقاضے ۱،۲; _ كى دعا ۴; _ كا تكلم پر قادر ہونے ميں حيرانگى ۷;_كى عبادات ۶; _ كا گفتگو كرنے سے عاجز ہونا ۵،۶; _ كا قصہ ۱،۵،۶; _كى خداوند متعال كے ساتھ گفتگو ۹; _ كے قصہ كى خصوصيات ۱۴

عزلت:_ كے آثار ۱۲

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۱۳

غريزہ جنسي:_ كے قوى كرنے كى راہ ہموار كرنا ۱۲

فكر:_ كو تمركز كے اسباب ۱۲

معجزہ:_ كا كردار ۱۱،۱۴

نبوت:مقام _ اور خداوند عالم كى نشانياں ۳

۶۰۶

نطفہ:_ كے انعقاد كى اہميت ۸

يحيى (ع) :_ كى ولادت ميں آيات الہى ۵

آیت ۱۱

( فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيّاً )

اس كے بعد زكريا محراب عبادت سے قوم كى طرف نكلے اور انھيں اشارہ كيا كہ صبح و شام اپنے پروردگار كى تسبيح كرتے ہو (۱۱)

۱_ حضرت زكريا(ع) ، اپنے فرزند يحيى كى ولادت كے حوالے سے ديئے گئے وعدہ كے پورے ہونے كے وقت عبادت گاہ ميں تھے _فخر ج على قومه من المحراب

بنى إسرائيل كى محرابيں وہى ان كى مسجد يں تھيں جن ميں وہ نماز كيلئے جمع ہوا كرتے تھے (كتاب العين)

۲_ حضرت زكريا نے جب لوگوں كے ساتھ گفتگو ميں عاجزى كا احساس كيا تو عبادت گا ہ سے نكل كر لوگوں كے پاس آگئے _فخرج على قومه من المحراب

۳_ حضرت زكريا، تين روزہ سكوت كى مدت ميں صبح وشام كى عبادت كا وقت داخل ہونے كا لوگوں كو اشارہ سے اعلان كرتے تھے _فخرج على قومه من المحراب فا وحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشيّا

احتمال ہے كہ لفظ بكرہ ( اور عتيّاَ ) فعل'' خرج'' اور'' اوحي'' كيلئے ظرف ہے اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہوگا چونكہ حضرت ذكريا عبادت كے وقت ہونے كے اعلان كى ذمہ دارى اپنے دوش پر ليئے ہوئے تھے تو ان تين دنوں ميں جبكہ دہ لوگوں سے بات نہيں كرسكتے تھے _ صبح اور عصر ميں ''سَبحُوا'' كے فرمان كو اشارہ كے ذريعے انہيں سمجھاتے تھے _

۴_ حضرت زكريا كے زمانہ ميں لوگوں نے عبادت كيلئے ايك معين جگہ قراردى تھى _فخرج على قومه من المحراب

۵_ خاص جگہ كا عبادت كيلئے انتخاب، ايك پسنديدہ بات ہے كہ جسكے آثار گذشتہ اديان ميں بھى موجود ہيں _

فخرج على قومه من المحراب

۶_ حضرت زكريا، كے ہم مذہب لوگوں كے معبد كا نام''محراب'' تھا _فخرج على قومه من المحراب

۷_عبادت اور الله تعالى سے رازو نياز، شيطان اور الله تعالى كى راہ ميں دوسرى ركاوٹوں سے نبرد آزما ہونے كا ميدان ہے _

۶۰۷

المحراب ( محراب)كى وجہ تسميّہ يہ بيان كى گئي ہے كہ انسان وہاں شيطان سے جنگ كرتا ہے اسى طرح اپنے اند ر حضور قلب پيدا كرنے كيلئے اپنے نفس سے لڑتا ہے ( مصباح)

۸_حضرت زكريا(ع) نے عبادت گاہ سے نكلنے كے بعد اپنى قوم كو يحيى (ع) كى ولادت كى خوشخبرى كے متحقق ہونے كے وقت كو سمجھا يا _أن سبّحو ظاہر يہ ہے كہ جو كچھ حضرت زكريا(ع) اپنى قوم سے چاہا تھا وہ ہونے والے واقعات سے مربوط ہے يعنى حضرت زكريا نے مسئلہ كو انہيں سمجھا ديا اور اسے مواقع پر الله كى تسبيح اور تنزيہ كى ياد دلائي_

۹_ حضرت زكريا(ع) ،سكوت كے روزوں كے شروع ہونے كے بعد اپنى قوم كو عبادت كے متعلقہ احكام، اشارہ اور رمز كے ذريعے واضح كرتے تھے _فأوحى إليهم أن سبّحو ( ا وحى ) كا فاعل زكريا او ر( إليہم ) كى ضمير، قوم كى طرف لوٹ رہى ہے ہر وہ چيز جو سيكھنے كے قصد كے ساتھ كسى بھى صورت ميں دو سرے كيلئے القاء ہو، اسے وحى كہتے ہيں ( مصباح) اور اس آيت ميں مراد اشارہ ہے_ سورہ آل عمران كى (اكتا سويں ) آيت اسى معنى پر شاہد ہے _

۱۰_حضرت زكريا كى قوم، عبادت كيلئے انكى كى طرف سے پيش كيے جانے والے احكام پر عمل پيرا ہوتى تھى _

فأوحى إليهم أن سبّحوا

۱۱_ حضرت زكريا(ع) ، كى قوم ان سے عبادت كے متعلقہ احكام دريافت كرنے كے ليئے عبادت گاہ كے باہران كے انتظار ميں رہتى تھي_خرج على قومه أن سبّحوا

( خرج عليہ ) اور ( دخل عليہ ) اس وقت كہا جاتا ہے كہ جب كوئي شخص داخل ہوتے يانكلتے وقت كسى اور كاسامنا كرتا ہے حضر ت زكريا سے تسبيح كرنے كا فرمان صادر ہونا بتاتا ہے كہ انكى قوم، عبادت گاہ كے باہر انكے احكام سننے كيلئے آكٹھا ہوتى تھى _

۱۲_ حضرت زكريا نے اشارہ كے ساتھ اپنى قوم سے چاہا كہ وہ صبح و شام الله تعالى كى تسبيح كيا كريں _فأوحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشي ( بكرة ) صبح كى نماز اور سورج طلوع ہونے كے درميان كے فاصلہ كو كہا جاتا ہے ( لسان العرب) ''عشيا ''سے مراد يا تو ظہر سے غروب تك كا وقت ہے يا دن كاآخرى حصہ ہے اور بعض اہل لغت سے دوسرے معانى بھى نقل ہوئے ہيں (لسان العرب)

۱۳_ حضرت زكريا (ع) كى قوم تسبيح و عبادت كرنے والے اورالہى لوگ تھے _فخرج على قومه أن سبّحوا

۱۴_ الله تعالى كے وجود پر عقيدہ اور اسكى عبادت و تسبيح

۶۰۸

بشركى قديم تاريخ ميں گذشتہ زمانے ميں بھى تھى _قومه أن سبحوا بكرة و عشيا

۱۵_ صبح اور آخر روز الله تعالى كى تسبيح كيلئے مناسب وقت ہيں _ان سجوا بكرة وعشيا

۱۶_ الله تعالى بوڑھے والد اور بانجھ والدہ كو فرزند عطا كرنے كے حوالے سے ہر قسم كى ناتوانى سے پاك و منزہ ہے _

أن سبحوا

۱۷_حضرت زكريا (ع) كا بڑھاپے ميں بچےّ والا ہونا بتاتا ہے كہ الله تعالى ہر قسم كے نقص و عجز سے منزہ ہے _

أن سبحوا

اسماو صفات :صفات جلال ۱۶

الله تعالى :الله تعالى اور عجز ۷; الله تعالى اور نقص ۱۷;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۶; الله تعالى كى پرسش كى تاريخ ۱۳;۱۴; الله تعالى كے منزہ ہونے كى علامات ۱۷

بانجھ:بانجھ كا بچے والا ہونا ۱۶

بڑھاپا:بڑھاپے ميں بچے والا ہونا ۱۶

تربيت:حضرت يحيى كى ولادت كى بشادت ۸

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۱۴; الله تعالى كى تسبيح كا وقت ۱۵; الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۵;صيح ميں تسبيح ۱۲; ۱۵; عصر ميں تسبيح ۱۲;۱۵

زكريا :زكريا حضرت يحيى كى ولادت كے وقت ۱،۲; ۸;زكريا كا اشارہ ۳،۹;زكريا كا خاموشى كا روزہ ۲، ۳، ۹;زكريا كا قصہ ۱،۲،۸،۹، ۱۱، ۱۲; زكريا كا كلام كرنے سے عجز ۲; زكريا كا محراب ۶ ;زكريا كى تعليمات۱۱; زكريا كى تعليمات ۱۰ ; ۱۲; زكريا كى عبادت گاہ ۱، ۱۱;زكريا كى عبادت گاہ كانام ۶;زكريا كے بچے والے ہونے كے آثار ۱۷

زكريا كى قوم :زكريا كى قوم كى تسبيحات ۱۲; زكريا كى قوم كى خدا پرستي۱۳; زكريا كى قوم كى عبادات ۱۱، ۱۳; زكريا كى قوم كى عبادت گاہ ۴، ۶; زكريا كى قوم كى عبادت كى كيفيت ۱۰/شيطان :شيطان سے جنگ كرنے كا مقام ۷

عبادت :الله تعالى كى عبادت ۱۴; صبح ميں عبادت ۳ ; عبادت كے وقت كا اعلان ۳;عصر ميں عبادت ۳

عبادت گاہ :آسمانى اديان ميں عبادت ۵; عبادت كا كردار ۷;عبادت گاہ كى اہميت ۵; عبادت گاہ كى تاريخ ۵

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۱۴;عقيدہ كى تاريخ ۱۳;۱۴

۶۰۹

آیت ۱۲

( يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً )

يحيى كتاب كو مضبوطى سے پكڑ لو اور ہم نے انھيں بچپنے ہى ميں نبوت عطا كردى (۱۲)

۱_ حضرت زكريا (ع) كيلئے خداوند عالم كى بشارت اور وعدہ جناب يحيى كى معجزہ نما ولادت كے ذريعہ وقوع پذير ہوا_

نبشرك بغلام اسمه يحيى يا يحيى خذالكتب

۲_ حضرت يحيى وحى دريافت كرنے اور الله تعالى كے نزديك ايك ممتاز شخصيت كے مالك تھے _يا يحيى خذالكتب بقوة

يہ كہ ( يا يحيى ) كى پكار كس جانب سے تھى دو احتمال ہيں ۱_ الله تعالى كى جانب سے فرشتہ وحى كے وسيلہ سے تھى ۲_ حضرت زكريا كى اپنے بيٹے يحيى كو نصيحت _آيت كا ظاہر پہلے احتمال كى تائيد كررہا ہے لہذا مندرجہ بالا مطلب اسى بنا ء پر ہے _

۳_ الله تعالى نے حضرت يحيى كو آسمانى كتاب (تورات) كى ہر طرح سے مكمل سمجھ بوجھ ركھنے اور اس پرحتمى طور پرعمل كا فرمان ديا تھا _يحيى خذالكتب بقوة

( الكتاب) پر (الف و لام ) عہدكا ہے ذور يہاں پر ممكن ہے كہ مرا د وہى توارت ہواسيلے كہ يحيى پر كوئي اور كتاب نازل ہوئي يہ معلوم نہيں ہے الله تعالى كافر مان ( خذ ) سمجھ بوجھ اور مكمل تدبر سے كنايہ ہے اور لفظ ( بقوة ) ''خذ ''كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد مقام تحصيل علم اور مقام عمل ميں ہر توانائي سے كام لينا ہے _

۴_ معارف اور الہى شريعت كى حفاظت اور اس كے احكام كا اجرا ئ، سختى اورطاقت كى كا محتاج ہے _

خذالكتب بقوة

۵_ معاشرہ كى ہدايت اور شرعى احكام كے اجراء كيلئے الہى رہبروں كى سختى اور قاطعيت كا ضروى ہونا _

يايحيى خذالكتاب بقوة

۶_ علماء اور دينى رہبروں كى آسمانى كتابوں ميں عميق فكر كرنا اور اسكے مطابق اپنے كردار كو محكم كرنے كى ضرورت ہے_يايحيى خذالكتات بقوة

۷_ حضرت يحيى كے زمانہ ميں تورات ايسى كتاب تھى جسميں تحريف نہيں ہوئي تھى بلكہ الله تعالى كى طرف سے تائيد شدہ تھى _يايحيى خذالكتب

۶۱۰

چونكہ امكان ہے كہ يہاں ( الكتاب ) سے مراد تورات ہو تو اس صورت ميں اسكے حصول كيلئے الہى فرمان اس كے مطالب پر صحت كى مہر لگانے كے مترادف ہے

۸_ درست فكر اور حق كى شناخت كى قدرت، الله تعالى كى طرف سے يحيى كو بچپن ميں حاصل ہوئي تھى _

وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) كے ليئے مختلف معانى ذكر ہوئے ہيں بس ايك اسكا معنى ( علم وفہم ) ہے( لسان العرب) مندرجہ بالا مطلب اسى معنى كى بنياد پرہے

۹_اللہ تعالى نے حضرت يحيي(ع) كوبچپن ميں الہى احكام كو اجراء كرنے كى قدرت عطا كى تھى _وأتيناه الحكم صبي

مندرجہ بالا مطلب ميں ( حكم ) سے مراد حاكميت اور قضاوت كا منصب ہے ( قاموس ) ميں آيا ہے كہ حاكم وہ ہے جو حكم جارى كرے _

۱۰_حضرت يحيي(ع) بچپن ميں منصب قضاوت پر فائز تھے _وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) اپنے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كے مطابق مصدر اور قضاوت كرنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

۱۱_ حضرت يحيى بچپن ميں فوق العادہ استعداد كے حامل تھے _وأتيناه الحكم صبيا

۱۲_ الله تعالى كى طرف سے انسان كو حكمت اور معنوى ومعا شرتى مقام كى عطا، عمر كے كسى خاص حصے سے مشروط نہيں ہے _وأتيناه الحكم صبي

۱۳_ آسمانى كتابوں ميں غورو فكر، حكمت و علم كے حصول كيلئے ايك ضرورى شرط ہے _يا يحيى خذ الكتب بقوة وأتيناه الحكم صبي جملہ '' أتيناہ'' جملہ''خذالكتاب بقوة ''كے ساتھ مرتبط ہے بعيدمعلوم نہيں ہوتا كہ جملہ ''خذالكتاب'' كا جملہ(اتيناه الحكم) كے ليے پيش خيمہ ہو

۱۴_على بن اسباط قال : را يت أباجعفر (ع) فقال يا علّى إن الله إحتج فى الا مامة بمثل ما احتج به فى النبوة فقال : وأتيناه الحكم صبياً ...'' فقد يجوزان يؤتى الحكمة و هوصبى (۱) على بن اسباط كہتے ہيں : ميں نے امام جوادعليہ السلام كو ديكھا انہوں نے

____________________

۱) كافى ج۱ ص۳۸۴ح۷، نوراالثقلين ج۲ ص۳۲۵،ح۳۲_

۶۱۱

...مجھے فرمايا: اے على ابے شك الله تعالى نے امامت كےمقام پر ايسے ہى استدلال كيا ہے جيسے نبوت كے مسئلہ ميں استدلال فرما يا ہے : ''وأتيناه الحكم صبياً '' لہذا يہ ممكن ہے كہ حكمت ايك بچے كو بھى دى جائے _

۱۵_عن النبى (ص) فى قوله ''وأتيناه الحكم صبياً'' قال : اعطى الفهم والعبادة وهو ابن سبع سنين (۱) پيغمبر اكرم (ص) سے الله تعالى كى اس كلام'' وأتيناہ الحكم صبياً'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ آپ نے فرما يا انہيں سات سال كى عمر ميں فہم و عبادت عطا كى گئي _

۱۶_قال رسول الله (ص) قال الله تعالى : ''و أتيناه الحكم صبياً يعنى الزهد فى الدنيا (۲) رسول اكرم(ص) سے روايت ہوئي كہ : الله تعالى نے فرمايا ہے''وأتيناه الحكم صبياً'' يعنى دنيا ميں انہيں زہد ديا _

آسمانى كتب :آسمانى كتب كا كردار ۶; آسمانى كتب ميں تدبر كے آثار ۱۳; آسمانى كتب ميں فكر كى اہميت ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بشارت كا محقق ہونا ۱; الله تعالى كى عطا ۸;۹; الله تعالى كے اوامر ۳

امامت :بچپن ميں امامت ۱۴

توريت :توريت كى تاريخ ۷;توريت كى تعليمات پر عمل ۳; توريت كى فہم ۳; توريت ميں تحريف ۷; يحيى كے زمانے ميں تورات ۷

حكمت :بچپن ميں حكمت ۱۴; حكمت كے عطا ء ہونے كى شرائط ۱۲;۱۳

دين :دين پر عمل ۴; دين كى حفاظت ۴

دينى رہبر :دينى رہبروں كا ہدايت دنيا ۵;دينى رہبر وں كى قاطعيت ۵; دينى رہبروں كے عمل كا معيار ۶

روايت :۱۴; ۱۵; ۱۶

زكريا :زكريا كو بشارت ۱/علم :علم كى شرائط ۳

علماء :علماء كے عمل كا معيار ۶/قدرت :قدرت كے آثار ۴

قضاوت :

____________________

۱) الدراالمنشور ج۵ص۴۸۴_

۲) مكارم الاخلاق ص۴۴۷ بحارالانوار ج۷۴ص۹۴ ح۱_

۶۱۲

بچپن ميں قضاوت ۱۰

معنوى مقامات :معنوى مقامات كى شرائط ۱۲

نبوت :بچپن ميں نبوت ۱۴

يحيى :يحيى اور احكام كا اجرا ء ۹;يحيى كا بچپن ۸ ، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۵ ،۱۶; يحيى كا زہد ۱۶; يحيى كے علم كا سرچشمہ ۸;يحيى كو وحى ۲;يحيى كى استعداد ۱۱; يحيى كى خصوصيات ۱۱;يحيى كى شرعى ذمہ دارى ۳ ; يحيى كى عبادات ۱۵;يحيى كى فہم ۱۵; يحيى كى فہم كا سرچشمہ ۸; يحيى كى قاطعيت ۳; يحيى كى قدرت ۹; يحيى كى قضاوت ۱۰; يحيى كى نبوت ۲ ; يحيى كى ولادت كا معجزہ ۱; يحيى كے فضائل ۸; يحيى كے مقامات ۲، ۹،۱۰،۱۵

آیت ۱۳

( وَحَنَاناً مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيّاً )

اور اپنى طرف سے مہربانى اور پاكيزگى بھى عطا كردى اور وہ خوف خدا ركھنے والے تھے (۱۳)

۱_ الله تعالى نے يحيى كو رحمت ومحبت كى نعمت سے نوازا_ء اتيناه و حنا ناً من لدنا

( حنان ) مصدر ہے اور اسكا مطلب شفقت اور مہربانى ہے ( مصباح) اسكى تنوين تفخيم كيلئے ہے يہ كلمہ گذشتہ آيت ميں ( الحكم ) پر عطف ہے _

۲_ الله تعالي،محبت و شفقت كا منبع ہے اور اسے بعض منتخب بندوں كو عطا كرنے والا ہے _وحناناًمن لدنا

( من لدّنا ) يہ بيان كررہا ہے كہ يحيى كوعطا ہونے والى عطوفت ذات اقدس كى رحمت و عطوفت كے چشمہ سے ہوئي تھى _

۳_ انسان كا دردمند و شفقت كے احساسا ت سے مالامال ہونا اسكى عظمت كا موجب ہے _وحناناً من لدنا

۴_ حضرت يحيى (ع) اللہ تعالى كى بارگاہ ميں مقرب اور اسكے محبوب بندوں ميں سے تھے _وحناناً من لدنّا

حضرت يحيي(ع) كومحبت كے عطا ہونے ميں چار قسم كے تصور ہيں كہ (حناناً من لدنا ) كى صفت ان تمام كے ساتھ سازگا ہے _ الله تعالى يا لوگوں كى يحيى سے محبت اور حضرت يحيي(ع) كى الله تعالى يا لوگوں سے محبت _ مندرجہ بالا مطلب ميں الله تعالى كى ان سے محبت كا ذكر ہے _

۶۱۳

۵_ حضرت يحيى الله تعالى كے ارادہ كے زير سايہ لوگوں كى اپنى نسبت گہرى محبت كے حامل تھے _

وحناناً من لدنا

اس مطلب ميں ( حنانا) سے مراد، لوگوں كى يحيي(ع) كى نسبت محبت ہے _

۶_دوسرے كى نسبت گہرى محبت اور شفقت ايك ضرورى اور پسنديدہ ترين الہى رہبروں كى صفت ہے _

و حنا ناً من لدنا

يہ كہ (أتيناه الحكم ) كے بعد سب سے پہلى صفت(حنانا) آئي ہے مندجہ بالا مطلب اس سے ليا گيا ہے _

۷_ حضرت يحيى (ع) الله تعالى كى عنايات كے زير سايہ اسكے عاشق اور اسكے اشتياق سے سرشار تھے_حناناً من لدن

اس مطلب ميں ( حنانا ) كى صفت اس محبت كو بيان كررہى ہے جو الله تعالى نے يحيى كو اپنى نسبت عطا كى ہے_

۸_حضرت يحيي(ع) ، الله تعالى كى خاص عنايات كے زير سايہ خصوصى صلاحيت ، رشد اور كمال كے حامل تھے_

ئاتينه و زكوة

لفظ'' زكاة'' '' صلاحيت'' '' پاكيزگى '' ''رشد كرنا'' مبارك اور تمجيد و تعريف كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _( لسان العرب) ہر مقام پر اسكا مناسب معنى مراد لياجائے گا _

۹_ حضرت يحيي(ع) ، ہميشہ سے باتقوى تھے _وكان تقي ( تقياً) مادہ ( وقى ) سے صفت مشبہ ہے_ يہ راسخ اور ثابت ہونے پر دلالت كرتى ہے _اور لفظ ( كان ) بھى بہت سے مقامات پر اپنے اسم كى حالت كے ثابت ہونے پر دلالت كرتا ہے لہذا ( وكان تقياً) يعنى يحيى ہميشہ پرہيز گا ر تھے_

۱۰_ حضرت يحيي(ع) كا تقوى اور پرہيزگار ى انكى حكمت ،الہى محبت اور معنوى كمال سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ تھى _وحناناً من لدنا و زكوة وكان تقيا يہ كہ ( وكان تقيا ً) كا سياق آيت (واتينا ه الحكم ) كى پہلى تعبير سے مختلف ہے كہ يہاں تقوى كو خود يحيى كى طرف نسبت دى گئي ہے حنان اورزكات كو الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے يہ چيز واضح كررہى ہے كہ يحيى كا تقوى بعنوان عمل نفسى انكے الہى عطيا ت كے حامل ہونے كا پيش خيمہ تھا _

۱۱_حضرت يحيي(ع) ( اپنى الہى كتاب پر عمل اور الہى احكام كے اجرا ء كى ذمہ دارى ميں معمولى سى كوتاہى برداشت نہيں كرتے تھے _وكان تقيا گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناپر ( تقياً) كا متعلق وہ ذمہ دارياں ہيں جو يحيى پرعائد تھيں اور انہوں نے اپنى ذمہ دارى كو اس طرح ادا كيا كہ اپنے ليے اسے الہى عذاب سے حفاظت اور بچاؤ كا ذريعہ قرار ديا _

۶۱۴

۱۲_ الہى تقوى كى رعايت، انسان كے رشد و كمال كا پيش خيمہ ہے _زكوة و كان تقي

۱۳_ عن أبى عبدالله (ع) فى قوله تعالى : (وحناناً من لدنا ) قال :إنّه كان يحيى إذا دعاقال فى دعائة: ''يارب يا الله '' ناداه الله من السماء لبيك يا يحيى سل حاجتك (۱) امام صادق (ع) سے الله تعالى كے كلام (حنانا ً من لدنا ) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ بے شك يحيي(ع) جب دعا كيا كرتے تو اپنى دعا ميں كہتے تھے _ اے پروردگار اے خدا تو خداوند عالم آسمان سے انہيں ندا ديتا تھا لبيك اے يحيى اپنى حاجت طلب كرو _

الله تعالي:الله تعالى كے اراد كے آثار ۵; الله تعالى كے عطيات ۱;۲;۸

الله تعالى كے برگزيدہ بندے :الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كى مہربانى ۲

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال افراد۷

الله تعالى كے محب:۷الله تعالى كے محبوب :۴

اہميتں :اہميتوں كا معيار ۳

تقوى :تقوى كے آثار ۱۳

دينى رہبر :دينى رہبروں كى مہربانى ۶; دينى رہبروں كے صفات---۶

روايت :۱۳

كمال :كمال كاپيش خيمہ ۱۲

مہربانى :مہربانى كى عظمت ۳; مہربانى كاسرچشمہ۲

يحيى :يحيى سے محبت كاسرچشمہ ۵; يحيى كا اپنى ذمہ دارى پر عمل ۱۱;ييحيى كا تقرب ۴; يحيى كا كمال ۸;يحيى كى حكمت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى دعا ۱۳;يحيى كى محبت ۷; يحيى كى محبوبيت ۴ ; يحيى كى محبوبيت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى مہربانى ۱; يحيى كے احساسات ۱;يحيى كے تقوى كے آثار ۱۰;يحيى كے تقوى ميں دوام ۹;يحيى كے فضائل ۵;۸;۹

____________________

۱)محاسن برقى ج۱ص۳۵ح۳۰نورالثقلين ج۳ ص ۳۲۶ح۳۶_

۶۱۵

آیت ۱۴

( وَبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً )

اور اپنے ماں باپ كے حق ميں نيك برتاؤ كرنے والے تھے اور سركش اور نافرمان نہيں تھے (۱۴)

۱_ حضرت يحيي(ع) ، اپنے ماں باپ كى نسبت بہت زيادہ نيكى كرنے والے تھے _وبراًبوالديه

لفظ (برا) گذشتہ آيت ميں ( تقيا ً)پرعطف ہے اور كلمہ ( بار ) كا معنى ديتا ہے البتہ چو نكہ ( برّ) ميں مبالغہ ہے لہذا ( برّالوالدين ) سے مراد انكى نسبت بہت زياد ہ نيكى اور احسان كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۲_ ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان، الله تعالى كے نزديك انتہائي عظمت كا حامل ہے _و برّاًبوالديه

۳_ والدين كے ساتھ احسان كرنا، تقوى كا واضح نمونہ اور اس كا لازمہ ہے _وكان تقياً _ و برًا بوالديه

۴_ والدين كے ساتھ نيكى كرنا، انسان كے رشد اور معنوى كمال كيلئے پيش خيمہ ہے _وزكوة وبرًاً بوالديه

جس طرح جملہ (وكان تقيّاَ)جملہ (حنا ناً من لدنا ) كيلئے علت تھا جملہ (''برًا بوالديه'' بھى كان ) پر عطف ہے اور يہى مقام ركھتا ہے _

۵_ حضرت يحيي(ع) لوگوں كے ساتھ اكڑنے، بڑائي كا اظہار كرنے ، بلا وجہ رعب جمانے اور لوگوں كى حاجات سے منہ پھير نے جيسى خصلتوں سے پاك تھے_و لم يكن جباراً عصيا

''جبار''مبالغہ كا صيغہ ہے جس كے معنى اكٹر نے كے ہے كہ جس ميں انسان دوسرے كے حق كا لحاظ نہيں كرتا (لسان العرب )اور اسى طرح ماحول پر مسلّط ہونے اور جھوٹى بڑائي كا دعوى كرنے والے كے معنى ميں بھى آيا ہے_ (مفردات راغب ) ( عصي) بھى صيغہ مبالغہ ہے تو لوگوں سے مربوط'' برًا'' اور'' جبا راً'' كے قرينہ كى بناء پر عصى سے مراد لوگوں كى حاجات كو پورانہ كرنے والااور انكے مقابل ميں انكسارى سے كام نہ لينے والاہے، كلام منفى ميں صيغہ مبالغہ كا استعمال گويا نفى ميں مبالغہ كا معنى دے رہا ہے _

۶_ حضرت يحيي، اپنے والدين سے نيكى كرنے كے علاوہ كبھى انكے ساتھ زبردستى سے كام نہيں ليتے تھے اور نہ ہى انكے فرمان كے خلاف سراٹھا تے تھے _وبرابوالديه ولم يكن جباراً عصيا

چونكہ گذشتہ جملات، حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں محبت اور شفقت كوبيان كررہے تھے اور انكے واضح صفات ميں

۶۱۶

سے انكى والدين كے ساتھ نيكى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے لہذا احتمال ہے كہ يہاں جباريت اور عصيان كى نفى كا تعلق بھى انكے والدين كے ساتھ مربوط ہو لہذا كہا جاسكتا ہے كہ حضرت يحيى اپنے والدين كے سامنے نہايت خاضع اور ان كے فرمان كے مطيع تھے_

۷_ حضرت يحيى ، الله تعالى كے سامنے گناہ سے پاك تھے_

يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ جملہ''و لم يكن عصيا'' مطلق سركشى اور گناہ ( لوگوں كى حاجات كو رد كرنايا الله كے حضور معصيت ہو ) كى نفى پر دلالت كررہا ہے _

۸_ حضرت يحيى الله تعالى ، والدين اور معاشرہ كے مقابلے ميں ايك وظيفہ شناس اور ذمہ دار انسان تھے _

و كان تقياً وبرًا بوالديه ولم يكن جباراً عصيا

''تقياً'' حضرت يحيى كا خدا سے رابطہ كى نشانى ، ''براًبوالديہ'' والدين كے ساتھ اور لم يكن جباراً لوگوں اور معاشرہ كے ساتھ رابطہ كى نشانى ہے _

۹_تكبر، تسلّط كى خواہش اور سركشى جيسى صفات ، انسان كے رشد اور كمال كيلئے ركاوٹيں ہيں _

و ء اتينه ...زكوة وكان ...و لم يكن جباراً عصيا

جملہ ''لم يكن ''گذشتہ آيت ميں جملہ كان پرعطف ہے اور جملہ''أتيناه الحكم وزكاة ''كيلئے ايك اور علت بيان كررہا ہے _

۱۰_غرور اور سلطہ طلبى عصيان اور گناہ كا پيش خيمہ ہے _ولم يكن جبّاراً عصيّا

۱۱_ حضرت يحيى (ع) ، حضرت زكريا (ع) كى آرزو كے مطابق فرزند تھے كہ جنكا اخلاق و كردا ر انكى رضايت كے عين مطابق تھا _و كان تقيّا وبرًا بوالديه و لم يكن جبّاراً عصيّا

حضرت زكريا (ع) كى دعا (واجعله ربّ رضيّاً ) كے بعد حضرت يحيي(ع) كے اوصاف كا بيان ہونا حضرت يحيى كے اوصاف كى حضرت زكريا كے دعا سے مطابقت واضح كررہا ہے _

بڑائي كا اظہار :بڑائي كے اظہار كے اسباب ۹//تقوى :تقوى كى علامات ۳

تكبر :تكبر كے آثار ۱۰//زكريا (ع) :زكريا (ع) كى تمنائيں ۱۱; زكريا كے بيٹے ۱۱

۶۱۷

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى كے آثار ۹;۱۰

عصيان:عصيان كا پيش خيمہ ۱۰; عصيان كے آثار ۹

عظمتيں :۲

كمال:كمال كا باعث ۴; كمال كيلئے ركاوئيں ۹

گناہ :گناہ كا باعث ۱۰

والدين :والدين سے نيكى ۱،۳،۶;والدين سے نيكى كى اہميت ۲; والدين سے نيكى كے آثار ۴

يحيى :يحيى كے فضائل ۵،۶،۸،۱۱;يحيى اور سلطہ طلبى ۵; يحيى اور گناہ ۷; يحيى اور والدين كے ساتھ زبردستى ۶; يحيى سے رضايت ۱۱;يحيى كا اپنى شرعى ذمہ دارى پر عمل ۸;يحيى كا ذمہ دارى لينا ۸;يحيى كى پاكيزكي۵،۷; يحيى كى عصمت ۷; يحيى كى نيكى ۱،۷;يحيى كے اخلاق ۱۱;يحيى كے مقامات ۷

آیت ۱۵

( وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً )

ان پر ہمارا سلام جس دن پيدا ہوئے اور جس دن انھيں موت آئي اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائيں گے (۱۵)

۱_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولادت ، وفات اور حشر پر الله تعالى كے خصوصى سلام ميں شامل ہيں _

وسلم عليه بوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۲_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولاد ت كے موقع پر ہر قسم كے گزند اور نقص سے امان ميں تھے اور رشد و كمال كيلئے تمام ضرورى اسباب و شرائط ان ميں مہيا تھيں _وسلم عليه يوم ولد

سلام كے چند معانى ہيں ايك معنى ہرقسم كے گزند اور آفت سے سلامتى ہے _ البتہ الله تعالى كى طرف سے سلام ،تكوينى حيثيت كا ہے اورحوادث كے حوالے سے ايك خبر ہے پس (سلام عليہ ) يعنى الله تعالى كى طرف سے حضرت يحيى (ع) ہر قسم كے جسمى ضرراور عقيدہ كے حوالے سے انحراف سے ضمانت شدہ ہيں _

۳_حضرت يحيى (ع) ، اپنى موت اور روز قيامت ہر قسم كے رنج اور عذاب سے محفوظ ہيں _

وسلم عليه يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( ولد ) فعل ماضى ہے اور'' يموت '' فعل مضارع ہے تو سياق ميں يہ تبديلى بتاتى ہے كہ آيت كا مطلب حضرت يحيى كى

۶۱۸

زندگى كا زمانہ منعكس كررہا ہے كہ الله تعالى نے اس زمانہ ميں انكى ولادت كى عافيت كى خبردى اور انكى موت اور روز قيامت كے حشر كى بھى ضمانت اور خوشخبر ى دى ہے _

۴_حضرت يحيى (ع) ، الله تعالى كے حضور خصوصى كرامت و عظمت كے حامل تھے _وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۵_ انسان كے لي ے ولادت كا زمانہ ، موت كے لمحات، اور روزقيامتتين حساس اور تقدير ساز مرحلے ہيں _

وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

۶_ انسان، موت كے لمحات ميں بھى ( ولادت اور قيامت كے زمانوں كى مانند ) الله تعالى كى جانب سے خصوصى سلامتى اور امان كا محتاج ہے_و سلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

( سلام )كا نكرہ ہونا ان كے ممتاز ہونے كو بيان كررہا ہے، موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت اضطراب اور نااميدى جيسے رنج دينے والے اسباب كا سامنا كرنے كى صورت ميں امان ميں ہونا ہے_

۷_ تقوى ،والدين كے ساتھ احسان ، تسلطّ كى خواہش اور عصيان سے پرہيز، مكمل سلامتى اور امان سے سرشار انجام كا باعث ہيں _و كان تقياً _ وبراًبوالديه و لم يكن جباراً عصياً و سلم عليه يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث حيا

۸_ انسان، روز قيامت دوبارہ زندہ ہونگے _يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( حياً) حال ہے ( يوم يموت ) ميں انسان كى موت كے بعد اسكى بعث سے مقصود يہ ہے كہ حشر كے روز تمام انسان دوبارہ زندہ ہونگے _

۹_ حضرت يحيى كى آخرت ميں خصوصى زندگى ہوگى _و يوم يبعث حي فعل (يبعث )زندہ ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے_ بعد ميں (حياً) كى تصريح ممكن ہے اس ليے ہو كہ ذوسرے انسانوں كے مقابلے ميں حضرت يحيى كى ايك خصوصى زندگى ہے _

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) : إن أوحش ما يكون هذا الخلق فى ثلاثه مواطن يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث وقد سلّم الله عزوجل على يحيى فى هذه الثلاثه المواطن وآمن روعته فقال : وسلام عليه يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً (۱) امام رضا(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ مخلوق كيلئے تين وحشتناك ترين مقام ہيں

____________________

۱)عيون اخبار الرضا ج۱ص۲۵۷ب۲۶ح۱۱، نورالثقلين ج۳ص۳۲۷ح۳۸_

۶۱۹

:جس دن وہ پيداہواور جس دن وہ فوت ہو اور جس دن وہ اٹھا يا جائے گا اور الله تعالى نے حضرت يحيى ان تينوں مقامات كے لحاظ سے سلام بھيجا اور ان مقامات كى وحشت سے انہيں امان دى اور فرمايا :وسلام عليہ يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً _

الله تعالي:الله تعالى كا سلام ۱

امان :امان كا باعث ۷; امان كا سرچشمہ ۶; ولادت كے وقت امان ۶

انجام :اچھے انجام كا پيش خيمہ ۷/انسان :انسان كى احتياج ۶

تقدير :تقدير ميں تاثير ركھتے والے اسباب ۵

تقوى :تقوى كے آثار ۷

روايت :۱۰

سلامتى :سلامتى كا پيش خيمہ ۷; سلامتى كا سرچشمہ ۶;/ولادت كے وقت سلامتى ۶

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى سے بچنے كے آثار ۷/ضرورتيں :امان كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عصيان :عصيان سے بچنے كے آثار ۷

قيامت :قيامت كے وقت امان ۶; قيامت كى اہميت ۵; قيامت كا خوف ۱۰ ; قيامت كے وقت سلامتى ۶

مردے :مردوں كاآخرت ميں زندہ ہونا ۸

موت :موت كے وقت كى اہميت ۵; موت كا خوف ۱۰

والدين :والدين سے نيكى كے آثار ۷

ولادت :ولادت كے وقت كى اہميت ۵; ولادت كا خوف ۱۰

يحيى (ع) :قيامت ميں يحيى (ع) ۱;۳;۱۰;يحيى (ع) پر سلام ۱; ۱۰ ; يحيى (ع) پر سلامتى ۱;۲;۳;يحيي(ع) كى اخروى زندگى كى خصوصيات ۹ ;يحيى (ع) كى موت ۱;۳;۱۰; يحيى (ع) كى ولادت ۱; ۲;۱۰; يحيى (ع) كے فضائل ۲;۳; ۹ ; يحيى (ع) كے كمال كا باعث ۲;يحيى (ع) كے ليے امان ۲; ۳

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744