تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167046 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 خودشناسی میں ارادہ کا کردار

اگر آپ اپنی ہوا و ہوس کو قوی سمجھتے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ خودسازی کے بارے میں آپ کا ارادہ ضعیف ہے ۔اگر آپ اپنے ارادہ کو مضبوط بنا لیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قدم بڑھائیں تو اس صورت میں آپ کویقین ہو جائے گا کہ آپ کا نفس اور ہوا و ہوس آپ کے زیر تسلط اور مغلوب ہے۔

آپ یقین رکھیں کہ ارادہ کی حقیقت سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے محکم ارادے کے سامنے آپ کے نفس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ولایت و امامت کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''صٰاحِبُ النِّیَّةِ الْخٰالِصَةِ نَفْسُهُ وَ هَوٰاهُ مَقْهُوْرَتٰانِ تَحْتَ سُلْطٰانِ تَعْظِیْمِ اللّٰهِ  وَالْحَیٰائِ مِنْهُ'' (1)

جو کوئی پختہ ارادہ اور خالص نیت کا مالک ہو ،اس کا نفس اور ہوا و ہوس سلطنت الٰہی کی تعظیم  اور خدا سے حیاء کی وجہ سے مقہور و مغلوب ہوتی ہیں۔

یعنی خالص اور پختہ ارادہ رکھنے والا شخص خود کو خدا کی عظمت کے سامنے حاضر سمجھتا ہے اور برے کاموں کو انجام دینے کی راہ میں شرم و حیاء مانع آتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کا نفس، نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس مغلوب ہو جاتی ہیں اور یہ ان پر مسلط ہو جاتاہے۔

اس بناء پر اپنے نفس کے قوی ہونے کا گلہ و شکوہ نہ کریں بلکہ اپنے ارادے کے ضعف اور ناپختگی کا رونا روئیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۱۰ ، مصباح الشریعہ:4

نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

آپ ارادہ کر لیں کہ جب بھی کوئی گناہ یا برا کام انجام دیں تو اس کے برابر اچھا اور نیک کام انجام دیں اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ مشاہدہ کریں گے کہ آپ میںنفسانی خواہشات کمزورہو چکی ہیں۔حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''اِذٰا عَلِمْتَ سَیِّئَةً فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُوْهٰا'' (1)

جب بھی تم نے کوئی برا کام انجام دیا تو پھر نیک کام بھی انجام دو تا کہ برے کام کو نابود کر سکو۔

غلط اور برے کاموں کے جبران کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے سے ناپسندیدہ اور برے کاموں کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔اس کے آثار میں سے ایک نفسانی خواہشات کی قدرت ہے۔اس بناء پر ہمیں  خاندان وحی علیھم السلام کے انسان ساز فرامین سے ابھی یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سے جب بھی کوئی خطا سرزد ہو جائے  تو اس کے جبران کے طور پر نیک اور اچھا عمل انجام دیں تا کہ برے عمل کا اثر ختم ہو جائے۔یہ کامیابی کی ایک اہم کنجی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔آپ کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات کی پیروی کرنے سے آپ کے لئے تاریک راہیں بھی روشن ہو جائیں گی،آپ کے لئے پیچیدگیا ں حل ہو جائیں گی  اور آپ پر غالب نفس مغلوب ہو جائے گا ۔تب آپ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

اب ہم آپ کے لئے اسلام کے درخشاں ستارے مرحوم مرزا قمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۸۹، امالی  طوسی:ج۱  ص۱۸۹

۲۱

مرحوم مرزا قمی کی وفات کے بعد ''شیروان ''کا رہنے والا ایک شخص ہمیشہ آپ کے مرقد پر حاضر ہوتا اور وہ کسی سے کوئی اجرت لئے بغیروہاں ایک خادم کی طرح خدمت کرتا ۔نیز کسی نے اسے اس کام پر معین بھی نہیں کیا تھا۔کیونکہ یہ کام رائج اور مرسوم نہیں تھا اس لئے اس کی خدمت گزاری کی وجہ دریافت کرنے لگے۔

اس نے کہا:میں شیروان کا رہنے والا ہوں اور اس شہر کے امیر ترین افراد میں سے ہوں ۔میں سمجھا کہ میں حج کے لئے مستطیع ہوں  لہذامیں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے ارادہ سے سفر کا لباس پہن کر شہر سے نکلا۔

مکہ معظمہ پہنچنے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد میں دریائی راستہ کے ذریعے واپس روانہ ہوا۔ایک دن میں رفع حاجت کے لئے کشتی کے کنارے پر بیٹھا کہ میرے پیسوں کی تھیلی پھٹ گئی اور سارے پیسے دریا میں گر گئے ۔ میرے د ل سے ایک سرد آہ نکلی  اور اس بارے میں میری امید ٹوٹ گئی ۔ میں پریشانی و حیرانگی کے عالم میںاپنی منزل کی طر ف لوٹا اور اپنا تھوڑا بہت سامان اٹھا کر نجف اشرف  میں داخل ہوا اور کائنات کے مشکل کشاء حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام سے متوسل ہوا۔

ایک رات میں نے آنحضرت علیہ السلام کو عالم خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا:

پریشان نہ ہو،تم قم جاؤ اور اپنے پیسوں کی تھیلی مرزا ابوالقاسم عالم قمی سے مانگو  وہ تمہیں دے دیں گے۔میں خواب سے بیدار ہوا ور میں نے اس خواب کو اس دن کے عجائب میں سے جانااور میں خود سے کہا کہ میرے پیسوں کی تھیلی عمان کے دریا میں گری ہے اور حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے میری قم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے!

میں نے خود سے کہا:عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد حضرت معصومہ علیھا السلام کی زیارت کی غرض سے قم جاؤں گا اور میں یہ واقعہ میرزا قمی سے بیان کروں گاشاید انہیں اس کا کوئی حل معلوم ہو۔

اسی لئے میں قم آیا اور حضرت فاطمۂ معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے بعد مرحوم مرزا قمی کے گھر گیا اتفاقاً وہ قیلولہ کا وقت تھا اور آپ اپنی بیرونی رہائشگاہ پر تشریف فرما نہیں تھے

۲۲

میں نے ان کے ایک خادم سے کہا:میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے علاقہ سے آیا ہوں :مجھے جناب مرزا قمی سے بہت ضروری کام ہے

خادم نے جواب میں فرمایا:وہ ابھی آرام فرما رہے ہیں۔آپ جائیں اور عصر کے وقت تشریف لائیں ۔

میں نے کہا:میری ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔

خادم نے تند لہجہ میں کہاجاؤ! اندر والا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

میںجسارت کرتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر دستک دی ،اندر سے آواز آئی فلاں شخص صبر کرو میں آتا ہوں اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا ۔پھر وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے کپڑوں سے مجھے پیسوں کی وہی تھیلی نکال کر دی جو عمان کے دریا میں گر  گئی تھی اور مجھ سے فرمایا:میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کو اس واقعہ کی خبر ہو ۔یہ تھیلی لو اور اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔

میں نے مرزا قمی کی دست بوسی کی اور ان سے الوداع کہہ کر اس دن کے اگلے روز اپنے وطن روانہ ہو گیا۔کام کاج اور روزگار کی مصروفیت کے باعث کافی عرصہ میں اس واقعہ کو بھول گیا ۔کچھ عرصہ کے بعد جب میں تھک گیا تو ایک روز میں اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گذشتہ سفر کی روداد سنانے لگا ۔مجھے یہ واقعہ بھی یاد آیا اور میں نے اسے اپنی زوجہ سے بیان کر دیا۔

جب میری زوجہ اس واقعہ سے آگاہ ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا  اور اس نے کہا:جب تم ایسے شخص سے آشنا ہو گئے ہو توتم نے اسی پر اکتفاء کیوں کی  اور تم نے ان کی ملازمت کیوں نہیں کی اور  ان کی ہمنشینی و صحبت کیوں اختیار نہیں کی؟

میں نے کہا:پس مجھے کیا کرنا چاہئے؟

۲۳

اس نے کہا:انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے اور مرنے کے بعد انہی کے مرقد کے ساتھ دفن ہونا چاہئے ۔

میں نے کہا:کیونکہ مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اس لئے میں یہ کام انجام نہ دے سکا ۔اب تو وقت گزر گیا اور میں اس عظیم نعمت سے محروم ہو گیا ہوں۔

اس نے کہا:نہیں !واللہ!اب بھی وقت نہیں گزرا اور تم آسانی سے اس کا جبران کر سکتے ہو۔ کیونکہ قم ایک آباد اور معنوی شہر ہے  اور اگر انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہو جائے تو اس سے نیک  کام اور کیا ہو سکتاہے ۔اٹھو !ہمارے پاس جو کچھ ہے اسے اپنے ساتھ قم لے چلتے ہیں  اور اسے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی حضرت معصومہ علیھا السلام کے روضۂ مطہر کی مجاوری اور اس بزرگ ہستی کی خدمت میں بسر کرتے ہیں۔

میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی تمام جائیداد ،گھر اور زمین وغیرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ  کے ساتھ قم چلا گیا۔جب میں قم میں داخل ہوا تو مجھے خبر ملی کہ مرزا قمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں  اس وقت سے میں نے ان کیقبر کی ملازمت اختیار کر لی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گابلکہ یہ میرے لئے باعث فخرہے۔(1)

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں لیکن ہم نے انہیں انجام دینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔اسی لئے ہم اسے ناممکن کہتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ ممکن ہوتے ہیں  اور وہ واقع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں اور آئندہ بھی واقع ہو سکتے ہیں۔جیسے پیسوں کی وہ تھیلی جو عمان کے دریا میں گر گئی تھی اور جو مرحوم مرزا قمی  نے اپنے کپڑوں سے نکال کر اس کے مالک کو دی۔

۔

--------------

[1] ۔ عبقریّ الحسان: ج۲ص۱۰۰

۲۴

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے جس شخص کیطرف رہنمائی کی تو فرمایا:وہ پیسوں کی تھیلی مرزا ابو القاسم عالم قمی سے مانگو۔یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ایسے افراد کو عالم سمجھتے ہیں؛ حالانکہ آپ دوسر ی طرح سے بھی تعبیر فرما سکتے تھے اور ان کی شہرت کی وجہ سے صرف مرزا قمی کہہ کرہی معرفی کروا سکتے تھے

پس ہمیشہ جستجو اور طلب جاری رکھو تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ خودشناسی تک رسائی حاصل کر سکیں اور کچھ غیر ممکن امور آپ کے لئے ممکن بن سکیں۔جیسا کہ نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کوانسان کی لاشعوری طور پر طلب کرتاہے یا پھر انسان ان سے آگاہ ہوتاہے۔نفس کو کنٹرول کرنا بھی ایسے ہی ہے ۔یعنی اگر انسان چاہے تو اپنے نفس پر قابو پا سکتاہے ،جس طرح انسان اسے بالکل آزاد چھوڑ کر حیوانات سے بھی پست  و بدترہو سکتا ہے۔

آدمی زادہ طرفی معجون است     از ملایک سرشتہ و زحیوان

گر کند  میل این، پس از آن     ور کند میل، شود بہ  از  آن

۲۵

2۔ خودشناسی میں خوف خدا کا کردار

خداوند عالم کی معصیت و مخالفت کا خوف انسان کو ہوا و ہوس  ترک کرنے کی طرف مائل کرتا ہے  جس کے نتیجہ میں انسان کو خود شناسی کا راستہ مل جاتاہے  اور ہدایت کا راستہ فراہم ہو جاتاہے ۔

خداوند متعال کا ارشاد ہے:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوٰی (1)

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے اور جنت انہی کا مقام ہے۔

خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف عقل کی قوت سے ایجاد ہوتاہے انسان جتنا زیادہ عقلمند ہو گا اور اپنی تجربی عقل میں جتنا زیادہ اضافہ کرے گا ،اتنا ہی اس میں خدا کے قوانین کی مخالفت کا خوف زیادہ ہو جائے گا اور وہ اتنا ہی زیادہ ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرے گا۔

--------------

[1]۔ سورۂ نازعات، آیہ:40،41

۲۶

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''قٰاتِلْ هَوٰاکَ بِعَقْلِکَ'' (1)

اپنی ہوا و ہوس کو عقل کے ذریعہ نابود کرو۔

اس بناء پر انسان کی عقل جتنی کامل اور زیادہ ہو گی ،اس میں نفس کی مخالفت اور نفسانی خواہشات کو مارنے کی قدرت  بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اسے بہتر طریقے سے خودشناسی حاصل ہو گی۔

آپ عقل کی قوت سے استفادہ اور تجربی عقل میں اضافہ کے ذریعے اپنے امور اور پروگرام میں اچھی طرح غور وفکر کر سکتے ہیں اور اسے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ تطبیق دے سکتے ہیں۔غور و فکر    سے آپ کی عقلی قدرت کو تقویت ملے گی اور آپ میں خودشناسی اور خودسازی کے لئے آمادگی پیدا ہو گی اور خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف بھی زیادہ ہو گا اور آپ زیادہ قوت و طاقت سے نفس کی مخالفت کر پائیں گے۔

--------------

[1] ۔بحار  الانوار:ج۱ص۱۹۵  اور  ج۷۱ص۴۲۸

۲۷

3۔ اپنے باطن اور ضمیر کو پاک کرنا

ہمیں خودسازی کے لئے نہ صرف اپنے ضمیر کو معارف اہلبیت علیھم السلام سے منور کرنا چاہے  بلکہ اپنے وجود کی گہرائیوں کو دشمنان دین کی چاہت سے بھی پاک کرناچاہئے اور اپنے ضمیر کو اہلبیت ولایت و عصمت علیھم السلام  کے تابناک انوار سے روشن کرنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام خدا کو مخلوق سے تشبیہ دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''لَمْ یَعْقَدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهِ عَلٰی مَعْرِفَتِکَ'' (1)

اپنے پوشیدہ ضمیر کو اپنی معرفت کا پیوند نہیں لگایاہے۔

اس بناء پر انسان کو نہ صرف ظاہری شعور و ضمیر سے آگاہ ہونا چاہئے بلکہغائب اور پوشیدہ ضمیر سے بھی آگاہ ہونا چاہئے ۔خود سازی اور خود شناسی کے لئے انسان کو ضمیر اور شعور کے دونوں مرحلوں کو پاک کرنا چاہئے ۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۷ ص۳۲۰

۲۸

 خودشناسی کے موانع

۱۔ ناپسندیدہ کاموں کی عادت خودشناسی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے:

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہم اپنے وجود میں روحانی طاقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اس سے استفادہ نہ کریں اور اسے برے اور بیکار کاموں کا عادی بنا لیں؟!

مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں سب سے بہترین عبادت ناپسندیدہ اور بری عادتوں پر غلبہ پانا ہے؛کیونکہ کسی بھی کام کا عادی ہو جانا انسان پر فطرت ثانوی کے حاکم ہونے کی مانند ہے ۔

اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام عادت کو فطرت ثانویہ کا نام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اَلْعٰادَةُ طَبْعُ ثٰانٍ'' (1)

عادت فطرت ثانوی ہے۔

اسی لئے جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جائے تو وہی چیز انسان پر حاکمہوجاتی ہے ۔اسی وجہ سے کسی برے اور ناپسندیدہ کام کا عادی شخص اگر خود کو برے کاموں سے نجات دے تو گویا اس نے افضل ترین عبادت انجام دی ہے ۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۱۸۵          

۲۹

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اپنے ایک مختصر کلام میں فرماتے ہیں:

''اَفْضَلُ الْعِبٰادَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

سب سے افضل عبادت عادت پر غالب آنا ہے۔

کیونکہ برے اور ناپسندیدہ کاموں پر غالب آنے سے روحانی کمالات تک پہنچنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور عالی ترین معنوی مقامات تک پہنچنے کا وسیلہ فراہم ہو جاتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''بِغَلَبَةِ الْعٰادٰاتِ أَلْوُصُوْلُ اِلٰی أَشْرَفِ الْمَقٰامٰاتِ'' (2)

عادتوں پر غلبہ پانے سے عظیم مقامات حاصل ہوتے ہیں۔

صرف گناہوں کا عادی ہونا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کا بیہودہ اور ناپسندیدہ کام ترقی  اور زندگی کے دوسرے اہم امور تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔انسان کو چاہئے کہ وہ روحانی قوتوں کے  حصول کے لئے ناپسندیدہ عادتوں کی پیروی سے اجتناب کرے تا کہ کمالات کے عالی مراحل تک پہنچ سکے۔مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیْرُ مُدْرِکِ الدَّرَجٰاتِ مَنْ أَطٰاعَ الْعٰادٰاتِ'' (3)

جو کوئی اپنی عادتوں کی اطاعت کرے ، وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۲ص۳۷۵           

[2] ۔ شرح غرر الحکم: ج۳ص۳۸۲

[3] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۲

۳۰

کیونکہ کوئی بھی عادت انسان کو زنجیر کی طرح قید کر لیتی ہے اور پھر ترقی کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتااور  بلند معنوی درجات تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس بناء پر کمال کے مراحل تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کی بری عادتوں اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنا لازم اور ضروری ہے تا کہ انسان آسانی سے روحانی تکامل تک پہنچ سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیِّرُوا الْعٰادٰاتِ تَسْهُلَ عَلَیْکُمُ الطّٰاعٰاتِ'' (1)

عادتوں کو تبدیل کرو (یعنی بری عادتوں کو ترک کر دو)تا کہ اطاعت(خداوندی) تمہارے لئے آسان ہو سکے۔

اس فرمان سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے خدا کے احکامات کی پیروی کو مشکل بنانے کے لئے شیطان اور نفس کا ایک حربہ انسان کو برے کاموں کا عادی بنا دینا ہے۔اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ احکامات الٰہی کی آسانی سے پیروی کے لئے شیطان اور نفس کے اس حربہ سے ہوشیار  اور باز رہے تا کہ آسانی سے خدا کے احکامات کی پیروی کر سکے اور مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی رہنمائی سے انسانیت کے بلند درجوں تک پہنچ سکے۔

گلی کہ تربیت  ز  دست  باغبان  نگرفت

اگر بہ چشمۂ خورشید سرکشد خود روست

ہر انسان کے پاس بے شمار سرمایہ ہوتاہے کہ جس سے استفادہ کرناچاہئے لیکن بیہودہ اور ناپسندیدہ عادتیں اس سرمایہ کو قید  کر دیتی ہیں جو انسان کی قدرت و توانائی کو مزید قوت و طاقت بخشنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۱

۳۱

بری عادت کا عادی ہو جانے والا انسان ایسے سرمایہ دار شخص کی طرح ہوتاہے کہ جس نے اپنے اموال کو ضائع کر دیا ہو ۔ایسا انسانجب تک اپنے سرمایہ کو آزاد نہ کر الے اسے حسرت و ناامیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جس طرح انسان اپنے سرمایہ اور اموال کو مقید حالت سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح سے اسے خود کو بری عادتوں سے نجات دلانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ۔

لیکن افسوس کہ اب انسانی معاشرے نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی عظیم روحانی توانائیوں کو قید کر رکھا ہے ۔ایک گروہمعاشرے کو صرف مادّی امور میں ہی ترقی دلانے کے لئے کوشاں ہے تو دوسرا گروہ کمزور ممالک کے اموال و وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے ۔حالانکہ یہ سب خود کو انسان دوست اورحقوق بشر کے حامی سمجھتے ہیں!!

۳۲

2۔ خود فراموشی

اگر انسان کے علم کا منبع وحی الٰہی ہوتو اس  کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا اتنی ہی اس کی توجہ پاکسازی اور تہذیب نفس کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ اگر علم کا منبع و سرچشمہ صحیح ہو اور خدا کے لئے علم حاصل کیا جائے تو یہ نفس کی آلودگی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔اسی لئے ہر عالم رباّنی نفس کی مخالفت اور تہذیب  و اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے۔

امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

کُلَّمٰا اَزْدٰادَ عِلْمُ الرِّجٰالِ زٰادَتْ عِنٰایَتُهُ بِنَفْسِهِ وَ بَذَلَ فِْ رِیٰاضَتِهٰا (1)

انسان کا علم جتنا زیادہ ہو  جائے ، اس کی نفس کی طرف توجہ بھی زیادہ ہو جاتی ہے  اور وہ اس کی ریاضت میں زیادہ توجہ کرتا ہے۔

اس بناء پر علم و آگاہی انسان کو خودسازی اور خودشناسی کی دعوت دیتی ہے اور نفس سے مربوط مسائل میں غفلت و فراموشی سے باز رکھتی ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص6۲۱

۳۳

 خودفراموشی کے دو عوامل، جہل اور یاد خدا کو ترک کرنا

خود کو پہچاننے والے افراد کے مقابل میں ایسے بھی افراد ہیں کہ جو نفس کی شگفتگی اور اس کے آثار سے بے خبر ہیں اور انہیں زندگی کے مسائل کی کوئی خبر نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور تہذیب نفس کی کوشش نہیں کرتے۔اسی وجہ سے وہ خود شناسی کی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔

سنگی و گیاہی کہ در اوخاصیتی ھست

زان آدمی بہ ، کہ در او منفعتی نیست

مولائے کائنات حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''مَنْ جَهَلَ نَفْسَهُ أَهْمَلَهٰا'' (1)

جو کوئی اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس بناء پر خود فراموشی کے عوامل میں سے ایک نفس کے حیاتی مسائل سے جہالت اور علم و آگاہی کا نہ ہونا ہے ۔انسان کا علم اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کی روشنی میں جتنا زیادہ ہو گا ،اتنا ہی وہ ان مسائل کی طرف زیادہ متوجہ ہو گا۔

خود فراموشی اور نفس کو بے لگام چھوڑ دینے کی دوسری وجہ گناہ انجام دینا اور خدا  و اولیائے خدا کی یاد کو ترک کرنا ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۷۸

۳۴

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہلبیت  اطہار علیھم السلام کی یاد خدا کی یاد ہے اور ان کو بھلا دینا خدا کو بھلا دینا ہے ۔کیونکہ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''اِذٰا ذُکِرْنٰا ذُکِرَ اللّٰهِ '' (1)

جب ہمیں(خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام ) یاد کیا جائے تو خدا گو یاد کیا گیاہے۔

خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا ،انسان کو زندگی کے اہم مسائل سے غافلکر دیتا ہے اور عظیم معنوی حقائق سے بھی دور کر دیتا ہے  اورا نسان کو خودفراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 اس بارے میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:

(وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ) (2)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں ۔

پس گناہ اور خدا اور خدا کے احکامات کو بھلا دینا انسان کو خود فراموشی میں گرفتار کر دیتاہے۔اس بناء پر خودشناسی کے لئے خودسازی کی کوشش کریں اور خود سازی کے لئے خود فراموشی کو چھوڑیں  اور خودفراموشی کو ترک کرنے کے لئے جہل و نادانی ،خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو  ترک نہ کریں ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج۷۲ ص۲۵۸، اصول  کافی: ج۲ص۱۸6

[2]۔ سورہ  حشر، آیت:۱۹

۳۵

پس علم و دانش اور خدا و اولیائے خدا کی یاد انسان کوخودفراموشی سے  دور رکھتی ہے ۔خود فراموشی کو چھوڑ کر خودسازی تک پہنچ سکتے ہیںاور خودسازی سے خودشناسی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ہی نہ پہچان سکیں تو ہم راہ نجات سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ لَمْ یَعْرِفْ نَفْسَهُ بَعُدَ عَنْ سَبِیْلِ النَّجٰاةِ وَ خَبَطَ فِ الضَّلاٰلِ وَ الْجَهٰالاٰتِ '' (1)

جو کوئی اپنے نفس کو نہ پہچان سکے ،وہ راہ نجات سے دور ہو جائے گا اور گمراہی و جہالت میں مبتلا ہو جائے گا۔

اس وجہ سے خود شناسی اور معرفت نفس کی عظمت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ مَعْرِفَةَ کَمَعْرِفَتِکَ بِنَفْسِک'' (2)

کوئی بھی معرفت تمہارے نفس کی معرفت کی طرح نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۴۲6

[2]۔ بحار الانوار: ج۷۹ص۱6۵، تحف العقول:284

۳۶

 نتیجۂ بحث

روحانی مسائل میں تکامل کے لئے ہمیں خودشناسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔جیسا کہ ہم خاندان وحی علیھم السلام  کی تعلیمات سے سیکھتے ہیں کہ جسے اپنے نفس کی معرفت اور خودشناسی حاصل ہو جائے گویا وہ بلند مقام تک پہنچ کر مفید ترین معارف سے آگاہ ہوا ہے۔

اپنے نفس کو پہچانیں اور اس کی قدرت و طاقت اور توانائیوں سے آگاہی حاصل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ اپنی قوت کو شیاطین کے تسلط سے رہا کریں اور اپنے روحانی سرمایہ کو بیگانوں کے ہاتھوں قید سے نجات دلائیں۔

اپنی روحانی قوت کے حقیقی دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے ساتھ برسر پیکار آنے سے کمالات کے بلند درجوں تک پہنچیں۔ہوا و ہوس اور بے فائدہ زندگی اور بیہودہ کاموں کی عادت روح کے خطرناک ترین دشمن ہیں جو آپ  کی روحانی قوتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔

غور وفکر ، پختہ ارادے ،ہمت،ایمان و یقین اور ایسی ہی دوسری قوتوں کے ذریعے اپنی روح کو ایسے دشمنوں کی قید سے نجات دلائیں اور ان قوتوں کو تقویت دینے سے خودشناسی تک پہنچیں اور روح اور کمال کے بلند درجوں کی طرف پرواز کریں۔

ای نقد اصل و فرع ندانم چہ گوہری؟

کز آسمان بر تر و از خاک کمتری!

۳۷

دوسراباب

معارف  سے  آشنائی

حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :

'' اَلْمَعْرِفَةُ بُرْهٰانُ الْفَضْلِ ''

معرفت ،فضیلت کی دلیل ہے۔

    اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

    معارف کا ایک گوشہ

    معارف کہاں سے سیکھیں

    عارف نما لوگو ں کی شناخت

    عرفاء کی شناخت

    عرفاء کی صفات

    صاحبان معرفت کی صحبت

    عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

    نتیجۂ بحث

۳۸

اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اعتقادات اور معارف کی بحثوں میں سے ایک اہم بحث امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کی معرفت ہے  جوہم سب پر لازم و واجب ہے ۔جہاںتک ہو سکے ہمیں اپنی توانائی کے مطابق آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام اور امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے۔یہ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے ۔اس کا لزوم مسلّم و ثابت ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے زید نامی شخص سے فرمایا:

''اَتَدْرِ بِمٰا اُمِرُوا؟اُمِرُوا بِمَعْرِفَتِنٰا  وَ الرَّدَّ اِلَیْنٰا وَ التَّسْلِیْمِ لَنٰا'' (1)

کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کس چیز کا حکم دیاگیا ہے ؟انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں پہچانیں اور اپنے عقائد کوہماری طرف منسوب کریں اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جائیں۔

اس بناء پر معارف کے باب میں ایک اہم مسئلہ ا نسان کاآئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔معصومین علیھم السلام کے فرامین اور ارشادات میں غور و فکر کریں تا کہ ان ہستیوں کی عظمت کو سمجھ سکیں ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج 2ص۲۰۴

۳۹

آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت میں اضافہ کے لئے ابو بصیر کی ایک بہترین روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

قٰالَ :دَخَلْتُ فِ الْمَسْجِدَ مَعَ اِبِ جَعْفَرٍ علیه السلام وَ النّٰاسُ یَدْخُلُوْنَ  وَ یَخْرُجُوْنَ فَقٰالَ لِی:سَلِ النّٰاسَ هَلْ یَرَوْنَنِ؟فَکُلُّ مَنْ لَقَیْتُهُ قُلْتُ لَهُ :أَرَأَیْتَ أَبٰا جَعْفَرٍ علیه السلام؟فَیَقُوْلُ :لاٰ وَ هُوَ وٰاقِف حَتّٰی دَخَلَ اَبُوْ هٰارُوْنِ الْمَکْفُوْفُ ،قٰالَ:سَلْ هٰذٰا فَقُلْتُ:هَلْ رَأَیْت اَبَا جَعْفَرٍ؟فَقٰالَ أَلَیْسَ هُوَ قٰائِماً ،قٰالَ:وَمٰا عِلْمُکَ؟قٰالَ :وَ کَیْفَ لاٰ أَعْلَمُ وَهُوَ نُوْر سٰاطِع

قٰالَ:وَ سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْاَفْرِیْقِیَّةِ:مٰا حٰالُ رٰاشِدٍ؟

قٰالَ:خَلَّفْتُهُ حَیًّا صٰالِحًا یُقْرِؤُکَ السَّلاٰمُ قٰالَ:رَحِمَهُ اللّٰهُ  

قٰالَ:مٰاتَ؟قٰالَ:نَعَمْ،قٰالَ:وَ مَتٰی؟قَالَ بَعْدَ خُرُوْجِکَ بِیَوْمَیْنِ :

قٰالَ وَاللّٰهِ مٰا مَرَضٍ وَ لاٰ کٰانَ بِهِ عِلَّة قٰالَ:اِنَّمٰا یَمُوْتُ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ مَرَضٍ اَوْ عِلَّةٍقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟قٰالَ:رَجُل کٰانَ لَنٰا مُوٰالِیًا وَ لَنٰا مُحِبًّا

ثُمَّ قٰالَ:لَئِنْ تَرَوْنَ اَنَّهُ لَیْسَ لَنٰا مَعَکُمْ اَعْیُن نٰاظِرَة اَوْاَسْمٰاع سٰامِعَة، لَبِئْسَ مٰا رَأَیْتُمْ ،وَاللّٰهِ لاٰ یَخْفٰی عَلَیْنٰا شَیْئ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ ،فَاحْضِرُوْنٰا جَمِیْعًا وَ عَوِّدُوا اَنْفُسَکُمْ الْخَیْرَ ، وَ کُوْنُوْا مِنْ اَهْلِهِ تُعْرَفُوْا فَاِنِّ بِهٰذٰا اٰمُرُ وُلْدِ وَ شِیْعَتِ''(1)

ابو بصیر کہتے ہیں :میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا جب کہ وہاں پر لوگوں کی رفت و آمد تھی۔

امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:لوگوں سے پوچھو کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟

میں ہر ایک سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے امام باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں۔یہاںتک کہ وہاں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص آیا ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:46،خرائج:ج۲ص۵۹۵ح 7

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

مفہوم دوسرے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۲_ قيامت كے دن، مشركين ان معارف كى حقانيت سے آگاہ ہوجائيں گے جن كے بارے ميں وہ اہل ايمان سے جھگڑتے تھے_فيبئكم بما كنتم فيه تختلفون

۱۳_ قيامت، سب كے ليے خداوندمتعال كى على الاطلاق ربوبيت كے انكشاف اور ظہور كا دن ہے_

اغير الله ابغى ربا و هو رب كل شيئ فينبئكم بما كنتم فيه تختلفون

''اغير اللہ ابغى ربا'' كى وجہ سے، ''بما كنتم فيہ تختلفون'' كا ايك مطلوبہ مصداق كائنات پر خداوندمتعال كى ربوبيت ہے_

۱۴_ ربوبيت خداوندمتعال كے منكرين كو قيامت كے دن سزا دى جائے گي_فينبئكم بما كنتم فيه تختلفون

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ ''خبر دينا'' (فينبئكم) سزا دينے كى جانب اشارہ ہے_

۱۵_روى انه اتى عمر بحامل قد زنت فامر برجمها فقال له امير المؤمنين علي عليه‌السلام : هب لك سبيل عليها اى سبيل لك على ما فى بطنها والله تعالى يقول : ''و لا تزر وآزرة وزر اخرى ''(۱)

منقول ہے كہ : ايك حاملہ عورت كو عمر كے پاس لايا گيا كہ جو زنا كى مرتكب ہوئي تھي_ اس نے عورت كو سنگسار كرنے كا حكم ديا_

امير المؤمنينعليه‌السلام نے حضرت عمر سے فرمايا بالفرض اگرتمہيں عورت كو سنگسار كرنے كا حق حاصل بھى ليكن اس كے پيٹ ميں جو بچہ ہے اس پر تمہارا كيا حق ہے ؟ خداوندمتعال كا ارشاد ہے كہ كوئي بھى كسى دوسرے كے گناہ كا بوجھ اپنے دوش پرنہيں اٹھاتا_

۱۶_قال رسول الله(ص) : ليس على ولد الزنا من وزر ابوبه شيء ''لا تزر وآزرة وزر اخرى ''(۲)

رسول خدا(ص) سے منقول ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا : ولد الزنا كے ماں باپ كا گناہ اس كے كاندھوں پر نہيں چونكہ ''كوئي بھى دوسروں كے گناہ كا بوجھ اپنے كاندھوں پر نہيں اٹھايا''

آفرينش :تدبير آفرينش ۳; مالك آفرينش ۲; مدبّر آفرينش ۲

امام علىعليه‌السلام :امام عليعليه‌السلام كا فيصلہ ۱۵

____________________

۱) ارشاد مفيد، ج ۱ ص ۲۰۴_ بحار الانوار ج ۷۶_ ص ۴۹، ح ۳۵_

۲) الدر المنثور ج ۳ ص ۴۱۰_

۵۲۱

انسان :انسان كا انجام ۸، ۹;انسانوں كا مالك۱; انسانوں كا مدبر ا; انسان كى ذمہ داري۵

ايمان :ايمان كے آثار ۳; ربوبيت خدا پر ايمان ۳; متعلق ايمان ۳

خدا تعالى :خدا كى ربوبيت۱; خدا كى ربوبيت قبول كرنا۱۳; خدا كى ربوبيت كو جھٹلانے والوں كى سزا۱۴; خدا كى ربوبيت كے مظاہر۹; خدا كى مالكيت ۱،۲; خدا كے اخروى افعال۱۰; خدا كے ساتھ خاص امور قيامت كے دن خدا كى ربوبيت۱۳

خدا كى جانب بازگشت : ۸، ۹

دين :تعليمات دين كى حقانيت ۱۰، ۱۱، ۱۲

ربوبيت :غير خدا كى ربوبيت كو قبول كرنا ۴

روايت : ۱۵، ۱۶

سزا:سزا كا نظام۶

عمر (ابن خطاب) :عمر كا فيصلہ ۱۵

عمل :عمل كا ذمہ دار ۵

قيامت :قيامت كا برپا ہونا ۹; قيامت كى خصوصيت ۱۱، ۱۳; قيامت كے دن آگاہى ۱۰;قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳

گناہ :دوسروں كا گناہ اٹھانا ۶، ۱۵، ۱۶; گناہ كى سنگينى ۷

مشركين :مشركين اور قيامت ۱۲

۵۲۲

آیت ۱۶۵

( وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاء فَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )

وہى وہ خدا ہے جس نے تم كوزمين ميں نائب بنا يا او ربعض كے درجات كو بعض سے بلند كيا تا كہ تمھيں اپنے ديئےوئے سے آزمائے _ تمھارا پروردگار بہت جلد حساب كرنے والا ہے او روہ بيشك بہت بخشنے والا مہربان ہے

۱_ ہر زمانے ميں زمين پر گذشتہ نسلوں كى جانشينى كے ليے (بعد والے) انسانوں كو قائم ركھنا، خداوندمتعال كے اختيار اور اسكے ساتھ ميں ہے_و هو الذى جعلكم خلئف الارض

''خلائف'' خليفہ (جانشين) كى جمع ہے، اگر آيت كے مخاطب، ہر زمانے كے انسان ہيں تو جانشينى سے مراد ''ہر زمانے ميں گذشتہ لوگوں كى جگہ آئندہ آنے والوں كى جانشينى ہے_ اگر مخاطب سب انسان ہوں تو انسانوں كى جانشينى كا مطلب يہ ہے كہ وہ بنى آدم سے پہلے كے ختم ہونے والے انسانوں كے جانشين ہيں _ يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے يہاں جانشينى سے مراد ''انسان كا خدا كا جانشين ہونا ہے''_

۲_ گذشتہ نسل كى جگہ دوسرى نسل كا آنا، انسانوں پرربوبيت خدا كا جلوہ ہے_

و هو ربّ كل شيئ و هو الذى جعلكم خلئف الارض

۳_ خداوندمتعال نے اپنى نعمتيں عطا كرنے ميں بعض لوگوں كو بعض دوسرے لوگوں پر برترى عطا كى ہے (يہاں مقام اور مال و ثروت كى برترى مراد ہے)_و رفع بعضكم فوق بعض درجات

۴_ انسانى معاشروں پر خدا كى ربوبيت كے سلسلے ميں خداوند متعال كى ايك تدبير يہ ہے كہ اس نے نعمتيں عطا كرنے ميں انسانوں ميں فرق ركھا ہے اور ان ميں سے بعض كو بعض پر برترى بخشى ہے_

۵۲۳

و هو ربّ كل شيئ رفع بعضكم فوق بعض درجات

۵_ انسانوں كو زمين پر مستقر كرنے اور ان ميں سے بعض كو بعض پر برترى دينے كا مقصد، خداوندمتعال كى جانب سے ان كا امتحان لينا ہے_و هو الذى جعلكم خلف الارض و رفع بعضكم فوق بعض درجات ليبلوكم

بظاہر ''ليبلوكم'' ''رفع'' كے متعلق ہونے كے علاوہ ''جعلكم'' كے متعلق بھى ہے_

۶_ ہر شخص كى كے امتيازات اور اس كے دنيوى وسائل اس كے ليے خداداد عطايا ہيں _فى ماء اتى كم

۷_ ہر انسان كے امتيازات اور وسائل، خداوند متعال كى جانب سے اس كا امتحان ہيں _

و حورب كل شيئليبلوكم فى ماء اتى كم

۸_ خداوندمتعال كى جانب سے انسانوں كا امتحان، انكى تربيت ورشد كے ليے ہے_

و هو رب كل شيئ ليبلوكم فى ما اتكم

۹_ الہى سزائيں بغير كسى تاخير كے اور انتہائي سرعت كے ساتھ، سزا كے مستحق افراد كو اپنى لپيٹ ميں لے ليتى ہيں _

ان ربك سريع العقاب

۱۰_ الہى سزائيں ، امتحان الہى ميں ناكام ہونے والوں كے ليے آمادہ كى گئي ہيں _

ليبلوكم فى ما اتكم ان ربك سريع العقاب

۱۱_ خداوند غفور (گناہ بخشنے والا) اور رحيم (بندوں پر مہربان) ہے_لغفور رحيم

۱۲_ جو لوگ امتحان الہى ميں كامياب ہونگے وہى مغفرت الہى اور رحمت خدا سے بہرہ مند ہوں گے_

ليبلوكم فى ما اتكم انه لغفور رحيم

۱۳_ انسان كو ہر حال ميں ، الہى سزاؤں سے ڈرنا اور اسكى رحمت كا اميدوار رہنا چاہيئے_

ان ربك سريع العقاب و انه لغفور رحيم

اسما و صفات :رحيم ۱۱; غفور ۱۱

اقتصاد :اقتصادى عدم مساوات كا منشاء ۳، ۴

امتحان :

۵۲۴

امتحان كے وسائل ۷; امتحان ميں شكست كے آثار ۱۰; امتحان ميں كاميابى كے آثار ۱۲; دنيوى وسائل كے ذريعے امتحان ۷ فلسفہ امتحان ۵، ۸

اميدوارى :رحمت خدا سے اميدوار ہونا ۱۳

انسان :انسان كا امتحان ۵;انسانوں كى جانشينى ۱، ۲; انسانى مراتب و درجات ميں فرق ۳، ۴، ۵; زمين پر انسانوں كا استقرار ۱ ۵

تربيت :تربيت پر اثر انداز ہونے الے عوامل ۸

خدا تعالى :خدا كا امتحان ۵، ۷،۱۲۸; خدا كى ربوبيت۴; خدا كى ربوبيت كے مظاہر ; خدا كى سزاؤں ميں سرعت۹;خدا كى مہربانى ۱۱; خدا كے اختيارات۱;

خدائي سزائيں ۱۰; خدائي نعمات ۳،۶

خلافت:زمين پر خلافت ۱، ۲

خوف :خدا كى سزاؤں كا خوف ۱۳; خوف اور اميد ۱۳

دنيوى وسائل :دنيوى وسائل كا منشاء ۶

رحمت :رحمت خدا سے بہرہ مند لوگ ۱۲

گناہ :گناہ كى مغفرت ۱۱

مغفرت :مغفرت خدا سے بہرہ مند لوگ ۱۲; مغفرت كے علل و اسباب ۱۲

۵۲۵

سورہ انعام

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِِ )

( المص )

۱_عن الصادق عليه‌السلام ''والمص'' فمعناه : انا الله المقتدر الصادق (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : ''المص'' يعنى ميں قدرت مند اور سچا خدا ہوں _

آیت ۲

( كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ )

يہ كتاب آپ كى طرف نازل كى گئي ہے لہذا آپ اس كى طرف سے كسى تنگى كا شكار نہ ہوں او راس كے ذريعہ لوگوں كو ڈرايئں يہ كتاب صاحبان ايمان كے لئے مكمل ياد دہافى ہے

۱_ قرآن، پيغمبر اكرم(ص) پر نازل ہونے والى ايك عظيم آسمانى كتاب ہے_

حروف مقطعہ : ۱

خدا تعالى :

قدرت خدا، ۱

روايت : ۱كتب انزل اليك كلمہ ''كتاب'' نكرہ ہے اور قرآن كى عظمت كى طرف اشارہ كررہاہے ''انزل'' كے ذريعے اسكى توصيف، اس كے آسمانى ہونے كا بيان ہے_

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۲۲ ح۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲ ح۳_

۵۲۶

۲_ خداوندمتعال كا پيغمبر(ص) كے ليے حكم اور نصيحت ہے كہ آپ(ص) قرآن كى تبليغ ميں دل تنگى اور رنج و ملال سے پرہيز كريں _فلا يكن فى صدرك حرج منه

كہہ سكتے ہيں كہ جملہ ''فلا يكن ...'' جوكہ ''انزل اليك'' پرمتفرع ہے_ ''لتنذر'' كے قرينے سے، اس دل تنگى اور ملال سے روك رہاہے كہ جو لوگوں كو ڈرانے اور نصيحت كرنے سے پيدا ہوتاہے_ يعنى اے پيغمبر(ص) قرآن ايك آسمانى كتاب ہے كہيں تبليغ قرآن كے ذريعے لوگوں كو ڈرانے كى مشكلات آپ(ص) كى دل تنگى اور ملال كا باعث نہ بن جائيں _

۳_ قرآن كے آسمانى ہونے كا اعتقاد، لوگوں كى ہدايت كے ليے اس كى نارسائي كے بارے ميں ہر قسم كى پريشانى كو ختم كرديتاہے_فلا يكن فى صدرك حرج منه

''انزل'' كے ذريعے قرآن كى توصيف اور پھر اس كے بارے ميں پريشانى كى ممانعت (منہ) ممكن اس لئے ہو كہ قرآن انذار (ڈرانے) اور نصيحت كے ليے كافى ہے_اس لحاظ سے قرآن كے بارے ميں كسى قسم كى پريشانى كى ضرورت نہيں _

۴_ قرآن كى تبليغ ايك سنگين ذمہ دارى ہے اور اس كے ليے بہت زيادہ صبر و تحمل اور كھلے دل كى ضرورت ہے_

كتب انزل اليك فلا يكن فى صدرك حرج منه

جملہ ''فلا يكن ...'' جوكہ پيغمبر(ص) كے ملال اور پريشانى كو ختم كرنے كے ليے ہے، ظاہر كررہاہے كہ قرآن كى تبليغ كے ہمراہ بہت زيادہ مشكلات ہوں گيں كہ جو كھلے دل اور صبر و تحمل كے بغير انجام نہيں دى جا سكتي_

۵_ نزول قرآن كے مقاصد ميں سے ايك، لوگوں كو احكام خداو اور دين كى تعليمات سے روگردانى كے برے نتائج كے بارے ميں خبردار كرنا ہے_كتب انزل لتنذر به

بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے كہ ''لتنذر'' كا متعلق، خداوندمتعال كا دنيوى اور اخروى عذاب ہے كہ جس سے احكام الہى كے مخالفين دوچار ہونگے_

۶_ نزول قرآن كے مقاصد ميں سے ايك مؤمنين كو متواتر تعليمات دين كى ياد دہانى كراتے رہنا ہے_

كتب انزل اليك ذكرى للمؤمنين

كلمہ ''ذكرى '' نصيحت كرنے كے معنى ميں ہے اور ''تنذر'' پر عطف ہے_ يعني'' كتاب انزل لانذار الناس و تذكير المؤمنين''

۷_ قرآن كے سلسلے ميں پيغمبر(ص) كا فريضہ (فقط)

۵۲۷

انذار(ڈرانا) اور تذكر (نصيحت كرنا) ہے نہ كہ لوگوں كى زبردستى ہدايت كرنا_لتنذر به و ذكرى للمؤمنين

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ جب جملہ ''فلا يكن ...'' ''لتنذر ...'' پرمتفرع ہو_ يعنى قرآن فقط انذار (ڈرانے) اور تذكر (نصيحت) كے ليے نازل ہوا ہے_ بنابرايں ، مشركين كى روگردانى سے پريشان ہونے كى ضرورت نہيں ، چونكہ مشركين كى زبردستى ہدايت كرنا، قرآن كے مقاصد ميں سے نہيں ہے_

۸_ انذار (ڈرانا) لوگوں كى ہدايت ميں اہم كردار ادا كرتاہے_لتنذر به و ذكرى للمؤمنين

۹_ قرآن سے نصيحت حاصل كرنے اور بہرہ مند ہونے كاپيش خيمہ ايمان ہے_و ذكرى للمؤمنين

''ذكرى '' تذكير كا اسم مصدر ہے_ اور تذكير كے معانى ميں سے ايك ''ڈرانا اور موعظہ كرنا'' ہے_ (قاموس المحيط)_

آسودگى :آسودگى و آرام كے اسباب ۳

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۲;آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى كى حدود۷; آنحضرت(ص) كے ڈرواے۷

ابھارنا :ابھارنے كے اسباب ۸

ايمان :ايمان كے آثار ۳، ۹; قرآن پر ايمان ۳; متعلق ايمان ۳

تبليغ :روش تبليغ ۲; كھلے دل كے ساتھ تبليغ ۲، ۴

خدا تعالى :اوامر خدا ۲

دين :دين سے اعراض كے آثار ۵;دينى تعليمات كى ياد دہانى ۶

ڈراوے:ڈرواے كى اہميت ۷; ڈرواے كے آثار۷

عبرت :عبرت كے اسباب ۹

عقيدہ :عقيدے كى آزادى ۷

قرآن :قرآن سے عبرت كا پيش خيمہ ۹; قرآن كا آسمانى

كتابوں ميں سے ہونا ۱; قرآن كا نزول ۱; قرآن كا وحى ہونا ۱،۲; قرآن كى تبليغ كا سخت ہونا۴; قرآن كى عظمت۱

لوگ :لوگوں كو خبردار كرنا ۵نصيحت :مؤمنين كو نصيحت ۶; نصيحت كى اہميت ۷

ہدايت :ہدايت كے اسباب ۸; ہدايت ميں اجبار كى نفى ۷

۵۲۸

آیت ۳

( اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ )

لوگوں تم اس كا اتباع كرو جو تمہارے پروردگار كى طرف سے نازل ہوا ہے اور اس كے علاوہ دوسرے سرپرستوں كا اتباع نہ كرو ، تم بہت كم نصيحت مانتے ہو

۱_ قرآن كى پيروى كرنے اور غير خدا كى پيروى چھوڑنے كا لازمى ہونا_

اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم و لا تتبعوا من دونه اولياء

يہ مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''من دونہ'' كى ضمير ''ربكم'' كى طرف پلٹائي جائے_

۲_ قرآن، انسانوں كے ليے نازل ہونے والى كتاب ہے_اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم

۳_ تمام انسان، قرآن (كى تعليمات) كو سيكھنے پر قادر اور اس كے معارف كو سمجھنے كى لياقت ركھتے ہيں _

اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم

قرآن كى پيروي، اسكے مطالب كو سمجھے بغير ممكن نہيں اور يہ بھى تصريح كى گئي ہے كہ قرآن انسانوں كے ليے نازل ہوا ہے_ اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ قرآنى مفاہيم كے ادراك پر قادر ہيں _

۴_ نزول قرآن كے مقاصد ميں سے ايك، زندگى كے تمام مراحل ميں انسانوں كى تربيت اور انكے امور كى تدبير كرنا ہے_

اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم

كلمہ ''ربكم'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن، لوگوں كى تربيت اور ان كے امور

۵۲۹

كى تدبير كےليے نازل ہوا ہے_

۵_ قرآن، انسان كى مادى اور معنوى (روحاني) زندگى كے ليے ايك مكمل ضابطہ حيات ہے_

اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم و لا تتبعوا من دونه اولياء

قرآن كے اجرا اور اس كے غير كى پيروى كو چھوڑ كر، خداوندمتعال كى پيروى كے واجب ہونے كا لازمہ يہ ہے كہ انسان كو اپنى مادى اور معنوى (روحاني) زندگى ميں جس چيز كى حقيقى ضرورت ہے وہ بطور اجمال يا تفصيل، قرآن ميں بيان ہوچكى ہے_

۶_ قرآن كا سرچشمہ،خداوند متعال كا مقام ربوبى ہے_من ربكم

۷_ فقط خداوندمتعال كى ولايت (سرپرستي) ہى قبول كرنے كے لائق اور ضرورى ہے_

و لا تتبعوا من دونه اولياء

۸_ ولايت خداو سے روگردانى كرنے والے لوگ، غير خدا كى متعدد ولايتوں كى وادى ميں سرگردان ہيں _

و لا تتبعوا من دون اولياء

واضح ہے كہ غير خدا كى پيروى كى حرمت، اس چيز سے مشروط نہيں ہے كہ جن كى پيروى كى جائے وہ متعدد ہوں بلكہ، كلمہ''اوليائ'' كو جمع كى صورت ميں لانا ہوسكتاہے اس بات كى جانب اشارہ ہو كہ انسان خدا اور قرآن كى ولايت سے دور ہوجانے كے بعد ہميشہ، متعدد حاكموں كے تسلط ميں رہتاہے_

۹_ دوسروں كى اطاعت اور پيروي، در حقيقت ان كى ولايت و سرپرستى كو قبول كرنا ہے_

اتبعوا و لا تتبعوا من دونه اولياء

كلمہ ''اوليائ'' كى جگہ، كلمہ ''احدا'' بھى مطلوبہ معنى بيان كر سكتاہے_ ليكن اس كے باوجود، كلمہ ''اوليائ'' استعمال كيا گيا ہے تا كہ اس نكتے كى طرف اشارہ ہو كہ جس كى پيروى كى جاتى ہے اس كى يہ اطاعت اور پيروي، اسكى ولايت قبول كرنے كے مترادف ہے_

۱۰_ قرآن كى پيروي، خداتعالى كى ولايت كو قبول كرنے اور اسكى فرمانبردارى كرنے كے مترادف ہے_

اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم و لا تتبعوا من دونه اولياء

۱۱_ انسان، قرآن سے انتہائي كم اور معمولى نصيحت قبول كرتاہے_قليلا ما تذكرون

۵۳۰

''قليلا'' ايك محذوف مفعول مطلق كى صفت ہے_ يعنى ''تذكرا قليلا'' اور كلمہ ''ما'' زائد ہے اور ''نصيحت كى قلت ' ' پر تاكيد ہے_

۱۲_ قرآن، انسانوں كا بہترين ولى اور پيشوا ہے_و لا تتبعوا من دونه اولياء

يہ مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گياہے كہ جب ''من دونہ'' كى ضمير ''ما انزل ...'' كى جانب پلٹائي جائے_

اطاعت :خدا كى اطاعت ۱۰; غير خدا كى اطاعت ۹; غير خدا كى اطاعت چھوڑنا ۱; قرآن كى اطاعت ۱، ۱۰

اقليت :اقليت كا عبرت حاصل كرنا ۱۱

انسان :انسان كى صلاحيتيں ۳; انسانوں كے امور كى تدبير ۴

تربيت :تربيت پر اثر انداز علل و اسباب ۴

توحيد :توحيد عبادى ۱

خدا تعالى :خدا سے خاص امور ۷; خدا كى ربوبيت ۶; خدا كى ولايت۷; خدا كى ولايت كو قبول كرنا ۱۰

سرگردانى :سرگردانى كے علل و اسباب ۱۱

عبرت:عبرت كے اسباب ۱۱

قرآن :قرآن سے عبرت ۱۱; قرآن كا كردار ۴; قرآن كا نزول ۲; قرآن كى تعليمات كى حدود ۵; قرآن كى تعليمات كى فہم۲; قرآن كى جامعيت ۵; قرآن كى خصوصيات ۵; قرآن كى رہبرى ۱۲; قرآن كى ولايت ۱۲; قرآن كے مخاطبين ۲; قرآن كے نزول كا فلسفہ ۴; قرآن كے نزول كا منشائ۶

ولايت :پسنديدہ ولايت ۷; غير خدا كى ولايت ۸; غير خدا كى ولايت قبول كرنا۹; ولايت سے اعراض كرنے والے۸

۵۳۱

آیت ۳

( وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءهَا بَأْسُنَا بَيَاتاً أَوْ هُمْ قَاء لُونَ )

او ركتنے قريئے ہيں جنھيں ہم نے برباد كرديا او ران كے پاس ہمارا عذاب اس وقت آيا جب وہ رات ميں سورہے تھے يا دن ميں قيلوار كر رہے تھ

۱_ خدانے نے بہت سى گذشتہ نافرمان قوموں كو شديد اور ناگہانى عذاب سے ہلاك كيا ہے_

و كم من قرية اهلكنها فجاء ها

ہو سكتا ہے جملہ '' فجاء ہا ...'' ميں ''فائ'' تفسير يہ ہو _ اس بنا پر جملہ '' جاء ہا ...'' جملہ ''اہلكناہا'' كى تفسير و وضاحت ہے_ ہلاكت كو ''قريہ'' كى جانب نسبت دينا ، عذاب كى شدت كو بيان كرنے كے ليے ہے_

۲_ دينى قوانين كا خلاف وزرى كرنے اور غير خدا كى ولايت و سرپرستى قبول كرنے والے معاشروں كے ليے خداوند متعال كا خوفناك عذاب آمادہ ہے_و لا تنبعوا من دونه و كم من قرية اهلكناها

دينى قوانين كى جانب توجہ كرنے اور غير خدا كى ولايت كو رد كرنے كے فرمان كے بعد گذشتہ معاشروں ہلاكت كو بيان كرنا، ظاہر كرتاہے كہ گذشتہ قوموں پر عذاب، اس فرمان الہى كيخلاف ورزى كرنے كى وجہ سے تھا_

۳_ گذشتہ زمانے كى نافرمان قوموں ميں سے بعض پر رات كے وقت اور بعض پر (دوپہر كے) قيلولے كے وقت عذاب الہى نازل ہوا_فجاء ها باسنا بى تا او هم قاء لون

جملہ ''اوھم قائلون'' ميں ''او'' تنويع كے ليے ہے_ ''قائلة'' كا معنى نصف روز (دوپہر) ہے ''قائل'' اس شخص كو كہتے ہيں جو دوپہر كے وقت استراحت كے ليے سوئے اور قيلولہ كرے_

۴_ دين سے بے اعتنائي كرنے والى قوموں كو ہلاك كرنا، سنن الہى ميں سے ہے_و كم من قرية اهلكنها

۵_ تاريخى تحولات ميں ، الہى ارادے كا اہم كردار_و كم من قرية اهلكنها

۵۳۲

۶_ الہى عذاب، نافرمانوں كے گناہوں كے مطابق نازل ہوتاہے_قليلا ما تذكرون، و كم من قرية اهلكنها فجاء ها باسنا بى تا او هم قاء لون

الہى نصائح سے لوگوں كى غفلت (قليلا ما تذكرون) كے بيان كے بعد، لوگوں كے عذاب كا وقت (يعنى رات كے وقت يا دوپہر كے قيلولے كے وقت كہ جب لوگ غفلت ميں ہوتے ہيں ) بيان كرنا، عذاب اور گناہ ميں مطابقت كى جانب اشارہ ہے_

۷_ فرامين خدا سے معاشروں كى نافرمانى اور تخلف، ان معاشروں كے معنوى (روحاني) زوال كا باعث بنتاہے اور انكے دنيوى عذاب (عذاب استيصال) ميں مبتلا ہونے كى راہ ہموار كرتاہے_و لا تتبعوا كم من قرية اهلكنها

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گياہے كہ جب ''فجاء ھا'' ميں ''فائ'' ترتيب كو ظاہر كررہاہو_ ہلاكت سے مراد معنوى (اور روحاني) ہلاكت ہے_ يعنى گذشتہ زمانے ميں منحرف اور گمراہ ہونے والے معاشروں كا عذاب الہى ميں مبتلا ہونا_

امم :گذشتہ امتوں پر عذاب ۱، ۳; متخلف امتوں كا انجام ۱، ۳; نافرمان امتوں كى ہلاكت ۱، ۴

تاريخ :تاريخى تحولات كا منشاء ۵; محرك تاريخ ۵

خدا تعالى :ارادہ خدا ۵; سنن خدا ۴; عذاب خدا ۱، ۲، ۳; عذاب خدا كا قانون و ضابطے كے مطابق ہونا ۶

دين :دين سے اعراض كرنے كى سزا ۴

سزا:سزا كا گناہ سے تناسب۶

عذاب :اہل عذاب ۲; دنيوى عذاب ۲، ۳; دنيوى عذاب كے موجبات ۷; رات كے وقت عذاب ۳; مراتب عذاب ۱، ۲، ۷; موجبات عذاب ۲; نيند كى حالت ميں عذاب ۳

عصيان :اجتماعى عصيان و نافرمانى كے آثار ۷; خدا سے عصيان و نافرمانى ۷

معاشرہ :گناہگار معاشرے كا عذاب ۲;معاشرے كا معنوى زوال ۷; معاشرے كے زوال كے علل و اسباب ۷

ولايت :غير خدا كى ولايت قبول كرنا ۲

۵۳۳

آیت ۵

( فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءهُمْ بَأْسُنَا إِلاَّ أَن قَالُواْ إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

پھر ہمارا عذاب آنے كے بعد ان كى پكار صرف يہ تھى كہ يقيناً ہم لوگ ظالم تھے

۱_ ظلم و ستم كرنے والے لوگوں پر جب دنيوى عذاب (عذاب استيصال) آيا تو وہ (ظالم) اپنے گذشتہ ظلم كا اعتراف كرنے لگے_فما كان دعوهم انَّا كنا ظلمين

۲_ دينى قوانين سے لا پروائي كرنے والے اور ولايت خداوندسے روگردانى كرنے والے معاشروں كا شمار ظالموں ميں ہوتاہے_اتبعوا قالوا انا كنا ظلمين

دينى قوانين كى پيروى كا حكم دينے اور لوگوں كو غير خدا كى ولايت قبول كرنے سے منع كرنے كے بعد، گذشتہ زمانے ميں ہلاك ہونے والى اقوام كو ظالم كہنا، ظاہر كرتاہے كہ غير خدا كى ولايت قبول كرنا اور دين كے قوانين و احكام كى اطاعت نہ كرنا ظلم ہے_

۳_ گذشتہ قوموں كى دنيوى سزاؤں (عذاب استيصال) كے ذريعے ہلاكت كا (بڑا) سبب، ان

كا ظلم و ستم تھا_كم من قرية اهلكنها قالوا انا كنا ظلمين

۴_ عذاب استيصال (جڑسے اكھاڑ پھينكنے والے عذاب) كے ذريعے موت كى علائم كے ظاہر ہونے كے سبب بنى آدم كا اپنے اعمال كى حقيقت سے آگاہ ہوجانا_فما كان دعو هم ان كنا ظلمين

۵_ عذاب الہى كے آتے ہى مشركين كے ليے، غير خدا كى ولايت و سرپرستى كا باطل ثابت ہوجانا_

و لا تتبعوا فما كان دعوى هم اذ جاء هم باسنا الا ان قالوا انا كنا ظلمين

جملہ ''و لا تتبعوا من دونہ اوليائ'' پر غور كرنے سے پتہ چلتاہے كہ مشركين نے عذاب استيصال كے نزول سے حقيقت كو پاليا ہے لہذا غير خدا كى سرپرستى اور ولايت قبول كرنے كى وجہ سے اپنے آپ كو ظالم كہنے لگيں _

۵۳۴

۶_ نزول عذاب استيصال (جڑسے اكھاڑنے والے عذاب) اور اس ميں مبتلا ہونے والے لوگوں كى ہلاكت كے درميان ايك زمانى فاصلہ كا موجود ہونا_فما كان دعوى هم اذ جاء هم باسنا الا ان قالوا انا كنا ظلمين

۷_ عذاب الہى آنے كے بعد، ظالموں كا اپنے ظلم كے بارے ميں اعتراف كرنا بے فائدہ ہے_

كم من قرية اهلكنها_ قالوا انا كنا ظلمين

اقرار :بے فائدہ اقرار ۷; ظلم كا اقرار ۱، ۷; عذاب كے وقت اقرار ۷

امم :امتوں كى ہلاك كے اسباب ۳;امتوں كے ظلم كے آثار ۳

حقائق :حقائق ظاہر ہونے كے اسباب ۵

خدا تعالى :عذاب خدا ۷

دين :دين سے اعراض ۲

سزا:دنيوى سزا۳

ظالمين : ۲ظالموں كا اقرار ۱، ۷;ظالموں كا عذاب ۷; عذاب كے وقت ظالموں كى حالت ۱

ظلم :موارد ظلم ۲

عذاب :اہل عذاب ۶; دنيوى عذاب ۱;عذاب استيصال ۱، ۳، ۴; عذاب استيصال كا نزول ۶; عذاب كے مراتب ۱، ۳

عمل :حقيقت عمل كا علم ۴

مشركين :مشركين اور عذاب كا وقت ۵

موت :موت كى نشانياں ۴

ولايت :غير خدا كى ولايت كا بطلان۵;ولايت سے اعراض كرنے والے ۲

۵۳۵

آیت ۶

( فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ )

پس اب ہم ان لوگوں سے بھى سوال كريں گے اور ان كے رسولوں سے بھى سوال كريں گے

۱_ قيامت كے دن تمام انبيائعليه‌السلام اور امتوں سے خداوندمتعال پوچھ گچھ كرے گا_

فلنسئلن الذين ارسل اليهم و لنسئلن المرسلين

۲_ امتوں سے خداوندمتعال كے مواخذہ اور پوچھ گچھ كا موضوع و محور، رسالت انبياءعليه‌السلام كى قبوليت و عدم قبوليت اور احكام دين پر عمل ہوگا_فنسئلن الذين ارسل اليهم

لوگوں كى ''ارسل اليھم'' كے عنوان سے توصيف كرنا، دلالت كررہاہے كہ رسل الہى كے بارے ميں امتوں كے طرز عمل اور رويے كے بارے ميں پوچھ گچھ كى جائے گي_

۳_ قيامت كے دن، انبياءعليه‌السلام سے، دينى و آسمانى تعليمات كى تبليغ كے بارے ميں پوچھ گچھ كى جائے گي_

فلنسئلن الذين ارسل اليهم و لنسئلن المرسلين

جملہ''ولنسئلن المرسلين ''ميں ''مرسلين ''

كا عنوان ظاہر كررہاہے كہ انبياءعليه‌السلام سے، رسالت كى تبليغ كے بارے ميں سؤال كيا جائے گا_

۴_ قيامت كے دن، خداوندمتعال اپنے انبياءعليه‌السلام سے، رسالت انبيائعليه‌السلام كے سلسلے ميں ان كى امتوں كے طرز عمل اور رويے كے بارے ميں سؤال كرے گافلنسئلن الذين ارسل اليهم و لنسئلن المرسلين

يہ احتمال كہ انبياءعليه‌السلام سے انكى امتوں كے طرز عمل اور رويّے كے بارے ميں سؤال ہوگا_ چونكہ گذشتہ آيات ميں ، آيات الھى كو قبول كرنے كے حكم كے علاوہ مخالفين انبياء كے ليے تہديد آميز آيات تھيں _

۵_ خداوندمتعال كى طرف سے نصيحت قبول نہ كرنے والے ظالموں كو خبردار كيا جانا اور انھيں عذاب دوزخ كى دھمكي_

انا كنا ظلمين فلنسئلن الذين ارسل اليهم

۵۳۶

دينى قوانين سے روگردانى كرنے والے اور ظالمين، دنيوى عذاب كے علاوہ عذاب آخرت ميں بھى گرفتار ہونگے_

و كم من قرية اهلكنها ...انا كن ظلمين فلنسئلن الذين ارسل اليهم

قيامت كے دن پوچھ كچھ اور مؤاخذہ كے بيان كرنے كا مقصد، ظالموں كو عذاب اخروى كى دھمكى دينا ہے_ كلمہ ''فلنسئلن'' ميں ''فائ'' ظاہر كرتاہے كہ دنيوى عذاب ہى ان كى آخرى سزا نہيں (بلكہ آخرت ميں بھى انھيں عذاب ديكھنا پڑے گا)_

امم :امتوں كا محاسبہ ۱

انبيائعليه‌السلام :انبياء اور قيامت ۳; انبياء سے مؤاخذہ ۴;انبياء كا حساب ہونا ۱، ۳; انبياء كے ساتھ طرز عمل كے آثار ۴; تبليغ انبياء ۳; تكذيب انبياء ۲;

ايمان :انبياء پر ايمان ۲;متعلق ايمان ۲

خدا تعالى :خدامتعال كا حساب لينا ۲; خداوند كا خبردار كرنا ۵; خداوندمتعال كى جانب سے دھمكياں ۵

دين :تعليمات دين پر عمل ۲; دين سے اعراض كرنے كا عذاب ۶

ظالمين :ظالموں كا اخروى عذاب۶; ظالموں كا خبردار كيا جانا ۵; ظالموں كا دنيوى عذاب ۵; ظالموں كى دھمكي۵

ظلم :ظلم كى سزا ، ۶

قيامت :قيامت كے دن پوچھ گچھ كى حدود ۴; قيامت كے دن حساب كتاب كا محور ۲، ۳، ۴;قيامت كے دن سؤال ۲ ;قيامت كے دن عام حساب كتاب ہونا ۱

۵۳۷

آیت ۷

( فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائبِينَ )

پھران سے سارى داستان علم و اطلاع كے ساتھ بيان كرے گے اور ہم خود بھى غائب تو تھے نہيں

۱_ قيامت كے دن خداوندمتعال بنى آدم كے عقائد و اعمال (كردار) كو ان كے سامنے انتہائي دقيق اور عالمانہ انداز ميں بيان كرے گا_فلنقصن عليهم بعلم و ما كنا غَائبِينَ

يہاں حرف ''با'' مصاحبت اور ملابست كے معنى ميں ہے_ يعني''فلنقصن عليهم مصاحبين و متلبسين بعلم '' اور ''علم'' كا نكرہ ہونا، اس علم كى عظمت بيان كررہاہے كہ جسے ''دقيق'' ہونے سے تعبير كيا گيا ہے_

۲_ خداوندمتعال قيامت كے دن، ابلاغ رسالت كے سلسلے ميں انبيائ(ص) كى سرگذشت كو ان كے ليے انتہائي دقت كے ساتھ بيان كرے گا_و لنسئلن المرسلين_ فلنقصن عليهم بعلم

۳_ خداوندمتعال، انبيائعليه‌السلام اور انكى امتوں كے تمام افكار و اعمال سے آگاہ ہے_

فلنقصن عليهم بعلم و ما كنا غَائبِينَ

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ جب ''عليھم'' كى ضمير كا مرجع ''مرسلين'' ہو

۴_ خداوند بنى آدم كے اعمال و افكار پر ہميشہ حاضر و ناظر ہے_و ما كنا غَائبِينَ

۵۳۸

۵_ بنى آدم كے افكار اور كردار پر بلا واسطہ حاضر و ناظر ہونے كى وجہ سے خداوندمتعال كا ان كے افكار و كردار سے آگاہ و عالم ہونا_فلنقصن عليهم بعلم و ما كنا غَائبِينَ

جملہ ''و ما كنا غائبين'' در اصل ''بعلم'' كى وضاحت ہے اور بندوں كے اعمال كے بارے ميں علم الہى كى كيفيت كى طرف اشارہ ہے يعنى علم الہي، اس كے حاضر و ناظر ہونے كى وجہ سے ہے_ نہ كہ كوئي چيز يا كوئي شخص اس علم كا واسطہ اور وسيلہ ہے_

۶_ كوئي بھى زمان و مكان، خداوندمتعال كے حضور (اور نظارت) سے خالى نہيں (يعنى خداوندمتعال ہر وقت اور ہر جگہ حاضر ہے)_و ما كنا غَائبِينَ

۷_ خداوندمتعال اعمال و افكار كے بارے ميں اپنے علم و آگاہى ميں ، انسانوں سے پوچھ گچھ اور ان كے جواب كا محتاج نہيں ہے_فلنسئلن فلنقصن عليهم بعلم و ما كنا غَائبِينَ

انبيائعليه‌السلام :انبياء اور قيامت كا دن ۲; انبياء كى تبليغ ۲; انبياء كى نيتيں ۳

انسان :اعمال انسان ۵، ۷; نيّات انسان ۳، ۴، ۵، ۶

خداتعالى :خدا سے خاص امور ۷; خدا كا علم ۱، ۲ ; خدا كا علم غيب ۳، ۴، ۵; خدا كا علمى احاطہ۷; خدا كا حاضر ہونا ۴،۵،۶; خدا كى نگہبانى ۴،۵;خدا كے علم كى حدود۳

عقيدہ :عقيدے كے بارے ميں اخروى حساب ۱

عمل :عمل كے بارے ميں اخروى حساب ۱

قيامت :قيامت كے دن نامہ اعمال ۱، ۲

۵۳۹

آیت ۸

( وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ )

آج كے دن جن اعمال كا وزن ايك بر حق شے ہے پھر جس كے نيك اعمال كا پلّہ بھارى ہوگا وہى لوگ نجات پانے والے ہيں

۱_ قيامت، بنى آدم كے اعمال اور عقائد كى جانچ پڑتال اور انكے ترازو ميں ڈالے جانے كا دن ہے_

والوزن يومئذ الحق

۲_ حق( پروردگار كے حضور ايك صحيح اور درست كردار اور افكار كا نمونہ ) قيامت كے دن اعمال اور عقايد كو جانچنے كا وسيلہ ہے _و الوزن يومئذ الحق

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر مبنى ہے كہ جب ''الحق'' ''الوزن'' كى خبر ہو_ اور كلمہ ''الوزن'' كا معنى ميزان ( اعمال كے تولے جانے كا وسيلہ) ہو_ مثلاً مثقال اور كيلو و غيرہ جوكہ اشياء كے وزنى اور ہلكا ہونے كا معيار ہے_

۳_ قيامت كے دن انسان كى فلاح اور سعادت، اعمال اور عقائد كے وزنى اور سنگين ہونے سے مربوط ہے_

فمن ثقلت موازينه فاولئك هم المفلحون

مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''موازين'' كو موزون كى جمع كے طور پر لايا گيا ہے_ بنابرايں ''موازين'' سے مراد وہ اعمال اور عقائد ہيں جو قيامت كے دن تولے جائيں گے_

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744