تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167158 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

قال فاهبط منها فما يكون لك ان تتكبر فيها فاخرج قال اهبطوا'' يہ احتمال اس بنياد پر ہے كہ ابليس كے تنزل كے تكرار كے چار مرحلے، اس گناہ كى وجہ سے ہيں كہ جس كا وہ مرتكب ہوا ہے : اول اس نے فرمان الہى سے پہلو تہى كى ہے اور آدم كے سامنے سجدہ نہيں كيا ، اور پھر اس نافرمانى كى توجيہ اپنى برترى كے اظہار كے ذريعے كي، اس كے بعد تمام بنى آدم كو گمراہ كرنے اور بہكانے كے ارادے كا اعلان كيا، اور آخر كار آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو ممنوعہ درخت تك لاكر، جھوٹ اور فريب كے ذريعے انھيں اس درخت كا پھل كھانے كى ترغيب دلائي_

۷_ زمين، وقتى طور پر انسانوں اور شياطين كى جائے سكونت اور اقامت گاہ ہے_و لكم فى الارض مستقر و متع الى حين ''الى حين'' كى قيد ''متاع'' كو مقيد كرنے كے علاوہ كلمہ ''مستقر'' كى تقييد بھى ہے_

۸_ زمين پر بنى آدم اپنى سكونت و اقامت كى مدت سے ناآگاہ اور بے خبر ہيں _و لكم فى الارض مستقر و متع الى حين

كلمہ ''حين'' كا نكرہ آنا يہ ظاہر كرتاہے كہ زمين پر انسانوں كى سكونت كا زمانہ اور مدت نامعلوم ہے_ اور اس سے انسان آگاہ نہيں ہوسكيں گے_

۹_ زمين وقتى اور نامعلوم مدت تك انسانى معيشت اور زندگى كے وسائل كى حامل رہے گي_

و لكن فى الارض مستقر و متع الى حين

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى قصة آدم و حوا) قال الله لهما : اهبطا من سماواتى الى الارض فانه لا يجاورنى فى جنتى عاص و لا فى سماواتى (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے (آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى داستان كے بارے ميں ) منقول ہے كہ : خداوندمتعال نے آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام سے فرمايا : ميرے آسمانوں سے زمين پر چلے جاؤ_ چونكہ گناہگار نہ تو جنت ميں نہ ميرے آسمانوں ميں ميرے جوار ميں رہ سكتا ہے_

آدمعليه‌السلام :آدمعليه‌السلام كا بہشت ميں مقام ۵; آدمعليه‌السلام كا تنزل ۱، ۴، ۱۰;

آدمعليه‌السلام كا عصيان ۱۰; آدمعليه‌السلام كا فريب كھانا ۶;آدمعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۱۰; آدم كو عصيان كى سزا ۴

ابليس :

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۲ ص ۱۱ ح/ ۱۱_ نور الثقلين ج/۲ ص ۱۵ ح ۴۰_

۵۸۱

ابليس كے بہكاوے كے آثار ۶; تكبر ابليس كے آثار ۶; عصيان ابليس كے آثار ۶; ہبوط ابليس كے اسباب ۶; ہبوط ابليس كے مراحل ۶

انسان :انسان كا زمين پر ہونا ۷; انسان كا ہبوط ۲; انسان كى جہالت ۸;انسان كى دنيوى زندگى ۳، ۹; انسان كى معاش ۹; انسانوں كى دشمنى ۲،۳; زمين پر انسان كى سكونت ۸

حوا :حوا كا تنزل ۱، ۴، ۱۰;حوا كا جنت ميں مقام ۵;حوا كا فريب كھانا ۶; حوا كا قصہ ۱، ۱۰; حوا كے عصيان ۱۰;

عصيان حوا كى سزا ۴

خدا تعالى :اوامر خدا ۱

روايت : ۱۰

زمين :زمين كے فوائد ۹

شياطين :زمين پر شياطين كى اقامت ۷

شيطان :شيطان كا ہبوط ۱، ۲، ۴; شيطان كى دشمنى ۲; شيطان كے عصيان كى سزا ۴

عصيان :خدا كا عصيان ۴

مجھولات : ۸

آیت ۲۵

( قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ )

فرمايا كہ دئيں تمہيں جينا ہے اور وئيں مرنا ہے اور پھر اسى زمين سے نكالے جائوگے

۱_ بنى آدم كى موت و حيات كى جگہ، زمين ہے_قال فيها تحيون و فيها تموتون

۲_ زمين، شياطين كى موت و حيات كى جگہ نہيں ہے_قال فيها تحيون و فيها تموتون و منها تخرجون

۵۸۲

كلمہ ''قال'' كا تكرار يعنى (قال اهبطوا قال فيها تحيون ) ہوسكتاہے، دو جملات ''اھبطوا'' اور ''فيھا تحيون'' ميں مخاطب كے تبديل ہونے كى طرف اشارہ ہو_ گذشتہ آيت ميں انسانوں كے علاوہ شياطين بھى مخاطب تھے، اور اس آيت ميں فقط انسان مخاطب ہيں اور شياطين كو مخاطب نہيں كيا گيا، بنابرايں كہہ سكتے ہيں كہ زمين شياطين كى موت و حيات كى جنگ نہيں _

۳_ انسان موت كے بعد اور زمين ميں دفن ہوجانے كے بعد دوبارہ زندہ ہونگے اور مٹى كے اندر سے دوبارہ بساط زمين پر لوٹ آئيں گے_و فيها تموتون و منها تخرجون

زمين سے اخراج (و منھا تخرجون) ہوسكتاہے اس معنى ميں ہو كہ انسان زمين كے اندر سے كہ جہاں عام طور انھيں دفن كيا جاتاہے، دوبارہ زندہ ہونے كے بعد زمين پر لوٹائے جائيں _ اور ہوسكتاہے كہ يہ معنى ہو كہ كرہ زمين سے اخراج كرنے كے بعد كسى اور جگہ منتقل كيئے جائيں _ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۴_ تمام انسان زمين پر اپنا وقت گذارنے اور مرجانے كے بعد ايك دوسرى جگہ منتقل كيئے جائيں گے_

و لكم فى الارض مستقر و متع الى حين و منها تخرجون

مندرجہ بالا مفہوم اس بناپر اخذ كيا گيا ہے كہ جب

''منھا تخرجون'' سے مراد، زمين سے نكال كر كسى دوسرے مقام پر منتقل كرنا ہو_ قابل ذكر ہے كہ آيت كے مخاطبين تمام انسان ہيں لہذا موت كے بعد سب كو زمين سے نكال كر دوسرى جگہ منتقل كرنا اور وہاں ايك مدت گذارنا، وہ زمانہ ہے كہ جس كى طرف ''الى حين'' اشارہ كررہاہے_

۵_ دنيوى زندگى ايك وقتى گذرگاہ ہے نہ كہ انسانى زندگى كا اختتام_متع الى حين و منها تخرجون

انسان :انسان كا انجام ۴، ۵;انسان كى حيات مجدد ۳; انسان كى زمين پر بازگشت ۳; انسان كى زندگى گذارنے كى جگہ ۱; انسانوں كى موت ۱، ۴

حيات :دنيوى حيات كى محدوديت ۴، ۵

زمين :زمين كى خصوصيت ۱، ۲

شيطان :شيطان كى زندگى گذارنے كى جگہ ۲; شيطان كى موت كى جگہ ۲

۵۸۳

آیت ۲۶

( يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاساً يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ )

اے اولادآدم ہم نے تمہارے لئے لباس نازل كيا ہے جس سے اپنے شرمگاہ ہوں كا پردہ كرو اور زينت كا لباس بھى دياہے ليكن تقوا كا لباس سب سے بہتر ہے يہ بات آيات الہيہ ميں كہ شايد وہ لوگ عبرت حاصل كرسكيں

۱_ تمام انسان، آدمعليه‌السلام كى اولاد ہيں اور وہى ان سب كى پيدائش كاتكوينى مبدا ہے_يابنى ادم

چونكہ قرآن كے مخاطب سب انسان ہيں نہ كہ كوئي خاص طبقہ، اس سے معلوم ہوتاہے كہ كلمہ بنى آدم اور لوگوں كے درميان، نسبت تساوى ہے يعنى مصداق اور افراد كے اعتبار سے سب متحد ہيں _

۲_ انسان كے (عيوب اور) شرمگاہ كو چھپانے والا اور اسے زينت بخشنے والا لباس خداوندمتعال كى نعمات ميں سے ہے_قد انزلنا عليكم لباسا ىوارى سو اتكم و ريشا

''ريش'' پرندوں كے پر كو كہتے ہيں _ اور پرندوں كے پَر ان كو چھپاتے ہيں اور ان كے ليے باعث زينت ہيں _ اسى مناسبت سے (يہ كلمہ) انسان كے زينت بخش لباس كے ليے استعمال كيا گيا ہے_

۳_ لباس، انسانى زندگى كى بنيادى ضروريات ميں سے ہے_ىا بنى ادم قد انزلنا عليكم لباسا

خداوندمتعال نے انسان كى خلقت كو بيان كرنے كے بعد لباس جيسى نعمت كى ياد دلائي ہے تا كہ اس كى غير معمولى اہميت كى طرف اشارہ كرے_

۴_بدن كے عيوب اور شرمگاہ كو چھپانا ايك ضرورى اور لازمى امر ہے_ قد انزلنا عليكم لباسا يوارى سوء اتكم و ريشا و لباس التقوى ذلك خير

كلمہ ''لباسا'' كى ''يورى سوء اتكم'' كے ذريعے توصيف كرنا ظاہر كرتاہے كہ لباس كو خلق كرنے كے مقاصد ميں سے ايك، شرمگاہ كا چھپانا ہے_ يہ معنى انتہائي بلاغت كے ساتھ شرمگاہ كو چھپانے كى ضرورت كو بيان كررہاہے_

۵_ خوبصورت لباس كے ذريعے اپنى زينت كرنا، خداوندمتعال كو محبوب ہے_قد انزلنا عليكم و ريشا

۵۸۴

۶_ بنى آدم كى سعى و كوشش اور قدرتى علل و اسباب كى تاثير، سب مشيت اور ارادہ الہى كے ساتھ مربوط ہے_

قد انزلنا

واضح ہے كہ لباس كا مہيا كرنا، اپنے خام مواد كے علاوہ جو كہ قدرتى علل و اسباب كے ذريعے حاصل ہوتا، انسانى سعى و كوشش سے بھى وابستہ ہے_ قرآن نے ان سب اعمال كى نسبت خداوندمتعال كى جانب دى ہے (انزلنا ...) تا كہ اس حقيقت كى تاكيد كى جائے كہ قدرتى علل و اسباب اور انسانى افعال اور كوشش، سب كے سب خداوندمتعال كے اختيار ميں ہيں _

۷_ تقوى كے ذريعے اخلاقى رذائل سے بچنے كاظاہرى عيوب كو لباس كے ذريعے چھپانے سے اہم ہونا_

و لباس التقوى ذلك خير

۸_ انسانوں كى واقعى قدر و منزلت، تقوى اختيار كرنے سے مربوط ہے_و لباس التقوى ذلك خير

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ جب ''خير'' صفت ہو نہ كہ افعل تفصيل اور كلمہ ''ذلك'' ضمير فصل كى مانند، حصر پر دلالت كرے_

۹_ تقوى اور خوف خدا، انسان كو گناہ ميں ملوث ہونے سے بچاتا ہے اور اس كے اخلاقى رذائل ظاہر نہيں ہونے ديتا_

و لباس التقوى ذلك خير

تقوى كو لباس سے تشبيہ دينے كے بعد اس كو برتر شمار كرنا ہوسكتاہے اس حقيقت كى جانب اشارہ ہو كہ لباس عيوب اور (انسانى بدن ميں موجود) برائي كو چھپاتاہے اور تقوى انسانى روح ميں پليدى و (عيوب) پيدا ہو نے سے مانع بنتاہے_

۱۰_ انسان كى مادى ضروريات كو پورا كرنا اور اس كى معنوى و (روحاني) قدروں كو بيان كرنا، الوہيت خداوندمتعال كى نشانى ہے_يا بنى ادم قد انزلنا ذلك من آيات الله

''ذلك'' كا مشار اليہ، لباس كى خلقت''انزلنا عليكم لباسا'' اور تقوى كى قدر و منزلت بيان كرنا (و لباس التقوى ذلك خير ) ہے، قابل ذكر ہے كہ لباس اور تقوى كى قدر و قيمت كا بيان آيت ہونے كے لحاظ سے كوئي خصوصيت نہيں ركھتا_ لہذا اس ميں تمام مادى ضروريات اور معنوى (و (روحاني) قدروں كى وضاحت كى

۵۸۵

جانب وسعت دى گئي ہے

۱۱_ خداوندمتعال كے نصيحت آموز احكام ميں سے ايك نعمتوں كا شمار كرنا اور تقوى كى جانب رغبت دلانا ہے_

ذلك من آيات الله لعلهم يذكرون

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ جب ''آيات اللہ'' سے مراد، قرآن كے جملات اور اس كے مطالب ہوں _

۱۲_ آيات قرآن اور معارف دين كو بيان كرنے كے مقاصد ميں سے ايك، مادى اور معنوى نعمتوں كے خداداد ہونے كى جانب انسان كى توجہ مبذول كروانا ہے_ذلك من ايات الله لعلهم يذكرون

۱۳_ خداوندمتعال كى بارگاہ سے انسانوں كى دورى كا (بڑا) سبب انكا خداوند متعال سے غافل رہنا ہے_

ذلك من آيات الله لعلهم يذكرون

خطاب ''يا بنى آدم ...'' كے بعد جملہ ''لعلھم يذكرون'' ميں غائب كے ضمائر كا استعمال ہوسكتاہے اس بات كى حكايت ہو كہ انسانوں كو جب تك نصيحت كے مرحلے تك نہ لايا جائے وہ خطاب الہى سے مشرف نہيں ہوسكتے_

۱۴_ مادى اور معنوى نعمتوں كے خداداد ہونے كو فراموش كرنے سے بچنے كى ضرورت_لعلهم يذكرون

۱۵_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله تعالى : ''قد انزلنا عليكم لباسا و ريشا'' و اما الرياش فالمتاع والمال (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے كہ آيت ''قد انزلنا عليكم و ريشا'' ميں ''ريشا'' سے مراد متاع اور مال ہے_

آدمعليه‌السلام :نسل آدمعليه‌السلام ۱

اخلاق :اخلاقى رذائل سے اجتناب ۷; اخلاقى رذائل كے موانع ۹

اقدار :اقدار كامعيار ۸; معنوى اقدار كا بيان ۱۰

انسان :انسان كى قدر و منزلت ۸; انسان كے عيوب كا چھپانا ۲، ۷; انسانى ضروريات كا پورا ہونا ۱۰; خلقت انسان كا مبدا ۱; انسانى ضروريات ۳

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۲۲۶_ نور الثقلين ج/ ۲ ص ۱۵_ ح / ۴۴_

۵۸۶

بدن :بدن كے عيوب كو چھپانا ۴

تقرّ ب :تقرّ ب كے موانع ۱۳

تقوى :تقوى كى اہميت ۸; تقوى كى طرف حوصلہ افزائي كرنا ۱۱; تقوى كے آثار ۷، ۹

خدا تعالى :الوہيت خدا كى نشانياں ۱۰;خدا كى نعمتيں ۱۱; مشيّت خدا ۶; نعمات خدا ۲

خدا كے پسنديدہ امور : ۵

دين :فلسفہ دين ۱۲

ذكر :نعمت ذكر ۱۱

روايت : ۱۵

زينت :زينت كى اہميت ۵

شرمگاہ :شرمگاہ كو چھپانے كى اہميت ۴

غفلت :خدا سے غفلت كے آثار ۱۳

قدرتى علل و اسباب :قدرتى علل و اسباب كا عمل ۶

قرآن :آيات قرآن كى تبيين كا فلسفہ ۱۲

گناہ :گناہ كے موانع ۹

لباس :خوبصورت لباس ۲، ۵; لباس كى اہميت ۳; لباس كى نعمت ۲

نعمت :خدا كى معنوى نعمتوں كى جانب توجہ ۱۲، ۱۴

وسائل:دنياوى وسائل۱۵

۵۸۷

آیت ۲۷

( يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ )

اے اولاد آدم خبردارشيطان تمھيں بھى نہ بہكادے جس طرح تمہارے ماں باپ كو جنتّ سے نكال ليا اس عالم ميں كہ ان كے لباس الگ كرادئے تا كہ شرمگاہ ميں ظاھر ہو جائيں _ وہ اور اس كے قبيلہ دالے تمہيں ديكھ رہے ميں اس طرح كہ تم انھيں نہيں ديكھ رہے ہو بيشك ہم نے شياطين كو بى ايمان انسانوں كا دوست بناديا ہے

۱_ شيطان ہميشہ، اولاد آدمعليه‌السلام (يعنى انسانوں ) كو بہكانے كى كوشش ميں رہتاہے_يابنى ادم لا يفتنكم الشيطن

۲_ انسانوں كو خداوندمتعال كا خبردار اور نصيحت كرنا كہ وہ شيطان كے وسواس سے گمراہ ہونے سے (اپنے آپ) كو بچائيں _يابنى ادم لا يفتننكم الشيطن

۳_ شيطان كا دھوكہ اور فريب، آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو بہشت سےنكالنے كا باعث بنا_

كما اخرج ابويكم من الجنة

۴_ آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى سرگذشت اور ان كا شيطان سے فريب كھانا، تمام انسانوں كے ليے ايك درس عبرت ہے_

لا يفتننكم الشيطن كما اخرج ابويكم من الجنة

۵_ شيطان ايك دھوكہ باز عنصر ہے اور انسان بہكاوے

۵۸۸

ميں آنے والى مخلوق ہے_يابنى ادم لا يفتننكم الشيطن كما اخرج ابويكم من الجنة

۶_ آدمعليه‌السلام اور حواعليه‌السلام ، تمام انسانوں كے ماں باپ ہيں _كما اخرج ابويكم من الجنة

۷_ شيطان، آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے برہنہ ہونے كا باعث ہے اور جنت ميں انكے (بدني) عيوب كو برملا كرنے والا ہے_ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوء تهما

۸_ آدمعليه‌السلام و حوا كى شرمگائيں انكے شيطانى وسواس كا شكار ہونے سے پہلے، پوشيدہ تھيں _ينزع عنهما لباسهما

۹_ آدم و حوا كو برہنہ كرنے اور فريب دينے سے شيطان كا مقصد، انھيں انكى شرمگاہ دكھانا تھا_

ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوء اتهما

۱۰_ شيطان، آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے جنت سے نكالے جانے تك انھيں برہنہ كرنے كى كوشش ميں رہا_

اخرج ابويكم من الجنة ينزع عنهما لباسهما

جملہ ''ينزع'' ''اخرج'' كے فاعل كيلئے حال ہے_ يعنى شيطان آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے جنت سے نكلتے وقت بھى ان كا لباس اتارنے كى كوشش ميں رہا_

۱۱_ شيطان، بنى آدم كے عيوب اور برائياں آشكار كرنے اور ان سے تقوى و پرہيزگارى كا لباس اُتار نے كى كوشش ميں رہتاہے_ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوء اتهما

لباس تقوى كى اہميت و برترى بتانے كے بعد آدم و حوا كے برہنہ ہونے اور شيطان كے دھوكے اور فريب كے بارے ميں تنبيہ كرنا، بنى آدم كو بيدار كرنے اور ہوشيار ركھنے كى ايك كوشش ہے كہ شيطان ان كا لباس تقوى اتارنے تك اور انكے دل و روح اور اعضاء كو تقوى و پرہيزگارى سے برہنہ كرنے تك كوشش كرتا رہے گا_

۱۲_ انسانى معاشروں كى برہنگى اور بے حيائي اس بات كى علامت ہے كہ ان پر شيطان كا تسلط ہے اور وہ ان معاشروں ميں نفوذ كئے ہوئے ہے_لا يفتنئكم الشيطن ينزع عنهما لباسهما ليرهما سوء تهما

۱۳_ انسان، شياطين كى نظروں ميں ہے جبكہ وہ بنى آدم كى آنكھوں سے پنہان ہيں _

انه يركم هو و قبيله من حيث لا ترونهم

۱۴_ بہكاوے ميں آنے والے افراد پر شيطان كے تسلط و حاكميت اور بنى آدم پر اس كے خفيہ طور پر نفوذ پيدا كرنے كى طاقت كى وجہ سے، شيطانى وسواس اور بہكاوے كے مقابلے ميں مكمل طور پرہوشيارہنے كى ضرورت_

۵۸۹

لا يفتننكم انا جعلنا الشيطين اولياء للذين لا يؤمنون

يہ دو جملے ''انہ يراكم ...'' اور ''انا جعلنا ...'' شيطان كے بہكاوے سے بچنے كے بارے ميں خداوندمتعال كى طرف سے تاكيد كى تعليل كى حيثيت ركھتے ہيں _ يعني، ہمارى تاكيد اور نصيحت اس ليے ہے كہ وہ خفيہ طور پر نفوذ حاصل كرنے كا راستہ جانتاہے_ لہذا وہ تمہيں گمراہ كرنے كے بعد، تم پر ولايت تسلط حاصل كرلے گا_

۱۵_ شيطان (بھي) قبيلہ اور گروہ كا حامل ہے_انه يركم هو و قبيله

۱۶_ آيات الہى كے منكرين اور كافرين، شياطين كى ولايت اور سرپرستى كے زير تسلط زندگى گذارتے ہيں _

''ذلك من ايت اللہ انا جعلنا الشى طين اولياء للذين لا يؤمنون'' (گذشتہ آيت ميں جملہ ''ذلك من آيات اللہ'' ہوسكتاہے ''لا يؤمنون'' كے متعلق كا بيان ہو_

۱۷_ آيات الہى كے منكرين پر شياطين كى حاكميت اور تسلط، سنت خدا اور ارادہ الہى كے تحت ہے_

انا جعلنا الشياطين اولياء للذين لا يؤمنون

۱۸_ خداوندمتعال اور اس كى آيات پر ايمان لانا، انسان پر شياطين كى حاكميت و تسلط سے مانع بنتاہے_

انا جعلنا للذين لا يؤمنون

آدمعليه‌السلام :آدم كا قصہ ۸;آدم كا مقام سترچھپانا ۸; آدم كا مقام ستركشف ہونا ۹;آدم كوفريب ۱; ۴;آدمعليه‌السلام كى برہنگى ۱۰;آدم كى برہنگى كے اسباب ۷;آدم كى نسل ۶; آدم كے عيوب كا كشف ہونا ۷; آدمعليه‌السلام كے قصہ سے عبرت ۴; آدم كے ہبوط كے اسباب ۳

آيات خدا :آيات خدا كے مكذبين اور شياطين ۱۶

ابليس :ابليس اور آدمعليه‌السلام ۹، ۱۰; ابليس اور حوا ۹، ۱۰; ابليس كا بہكانا ۸; ابليس كا وسوسہ ۸

انسان :انسان كا بہكنا اور گمراہى ۱;انسان كا بہكاوے ميں آنا ۵; انسان كا ضرر پذير ہونا ۵، ۱۴; انسانوں كے والدين ۶; انسانى آنكھوں كى محدوديت ۱۳;

ايمان:آيات خدا پر ايمان ۱۸;ايمان كے آثار ۱۸; خدا

۵۹۰

پر ايمان ۱۸

برہنگى :برہنگى كے علل و اسباب ۱۲

بے حيائي :بے حيائي كے علل و اسباب ۱۲

تاريخ :تاريخ سے عبرت ۴

تقوى :لباس تقوى ۱۱; تقوى كے موانع ۱۱

حوا :حواكا اپنامقام سترچھپانا۸; حوا كامقام ستر ظاہر ہونا ۹; حوا كوبہكانا۴،۸، ۹; حواكيبرہنگي، ۱۰; حوا كى برہنگى كے اسباب ۷; حواكى نسل ۶; حوا كے عيوب كا ظاہر ہونا ۷; حوا كے قصے سے عبرت ۴; حوا كےہبوط كے اسباب ۳

خداتعالى :خدا كا خبردار كرنا ۲;خدا كيسنن ۱۷;خدا كى نصيحتيں ۲

شياطين : ۱۵آيات الہى كے مكذبين اور شياطين ۱۷; شياطين

كى حاكميت ۱۷;شياطين كى حاكميت كے موانع ۱۸; شياطين كى ولايت ۱۶شياطين كى ولايت كے موانع ۱۸

شيطان :شيطان اور انسان ۱، ۱۱; شيطان كا بہكانا ۱، ۴، ۵، ۹، ۱۰، ۱۴;شيطان كا خفيہ پن، ۱۳;شيطان كا كردار ۱، ۵، ۷، ۱۱، ۱۲;شيطان كا گروہ ۱۵; شيطان كى طاقت ۱۴; شيطان كے ديكھنے كى طاقت ۱۳; شيطان كے ديكھنے كى محدوديت ۱۳; شيطانى تسلط كى علائم ۱۲;شيطانى وسوسے كے آثار ۲

عبرت :عبرت كے اسباب ۴

كفار :كفار اور شياطين ۱۶

گمراہى :گمراہى سے بچنا ۲; گمراہى كے اسباب ۲

معاشرہ :معاشرے ميں برہنگى ۱۲

ہوشيارى :شيطان كے مقابلے ميں ہوشيارى ۱۴

۵۹۱

آیت ۲۸

( وَإِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءنَا وَاللّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء أَتَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

اور يہ لوگ جب كوئي برا كام كرتے ميں تو كہتے ميں كہ ہم نے آباد اجداد كو اسى طريقہ پر پاياہے اور الله نے يہى حكم دياہے _ آپ فرما دليجے كہ خدا برى بات كا حكم دے نہيں سكتاہے كيا تم خداكے خلاف وہ كہہ رہے ہو جو جانتے بھى نہيں ہو

۱_ بے ايمان بدكار اپنے (برے) كردار كى توجيہ كرتے ہوئے اسے اپنے آباء اجداد كے طريقے كى پيروى كا نام ديتے ہيں _للذين لا يؤمنون_ و اذا فعلوا فحشة قالوا وجدنا عليها اباء نا

۲_ الہى فكر و بصيرت كے مطابق، گذشتہ لوگوں كى برى رسوم كى تقليد و پيروى كرنا ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت فعل ہے_و اذا فعلوا فحشة قالوا وجدنا عليها اباء نا

۳_ جو معاشرے، احكام الہى كے اجرا كے خيال سے، اپنے آبا و اجداد كى برى رسوم كى پيروى اور تقليد كرتے ہيں وہى شياطين كے زير تسلط معاشرے ہيں _لنا جعلنا الشياطين اولياء للذين لا يؤمنون الله امرنابها

جملہ''اذا فعلوا ...'' ''لا يؤمنون'' پر عطف ہے_ اور در حقيقت ''الذين'' كے ليے صلہ ہے_ يعنى :''انا جعلنا الشياطين اولياء اذا فعلوا فاحشة ...''

۴_ خداوندمتعال كے فرمان كو اجرا كرنے كے خيال سے ناپسنديدہ اور برے كاموں كى توجيہ كرنا، شيطان كى ولايت و سرپرستى كا نتيجہ ہے_انا جعلنا الشياطين اولياء للذين لا يؤمنون الله امرنا بها

۵_ دين ميں بدعت ايجاد كرنے والے لوگ، شيطان

۵۹۲

كے پيروكار اور اسكى سرپرستى كے تحت رہنے والے عناصر ہيں _

انا جعلنا الشياطين اولياء للذين لا يؤمنون الله امرنا بها

۶_ زمانہ جاہليت كے بدكردار كفار جہالت كى بنا پر ناپسنديدہ اور برے كاموں كے ارتكاب كو فرمان خدا كا اجرا كرنا سمجھتے تھے_و اذا فعلوا فحشة قالوا الله امرنا بها

۷_ زمانہ جاہليت كے بدكردار كفار كى نظر ميں ان كے آبا و اجداد كا طريقہ، خداوندمتعال كے حكم سے زيادہ اہم تھا_

قالوا و جدنا عليها اباء نا والله امرنا بها

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كيونكہ بدكردار لوگ اپنے كردار كى توجيہ كرتے وقت امر خدا سے پہلے اپنے ابا و اجداد كے طريقے سے تمسك كرتے تھے_

۸_ ہرگز خداوندمتعال نے برے اور پليد كاموں كے ارتكاب كا حكم نہيں ديا اور نہ ہى دے گا_

قل ان الله لا يامر بالفحشاء

فعل ماضى ''امرنا'' كے جواب ميں فعل مضارع ''لا يامر'' كا استعمال يہ مطلب بتانے كے ليے ہے كہ خداوندمتعال كبھى بھى (ماضى حال اور مستقبل ميں ) فحشاء اور برائيوں كا حكم نہيں ديتا_

۹_ پسنديدہ اور ناپسنديدہ اعمال كا خداوند متعال كے امر ونہى كے بغير موجود ہونا_

ان الله لا يامر بالفحشاء

۱۰_ خداوندمتعال كے امر و نہى كے بغير، انسانى عقل، اچھے اور برے كردار اور اعمال كا ادراك كر سكتى ہے_

قل ان الله لا يامر بالفحشاء

۱۱_ خداوندمتعال كى جانب سے كسى حكم كے صادر ہونے كے يقين كے بغير، اسكى جانب كوئي حكم منسوب كرنا ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت فعل ہے_اتقولون على الله ما لا تعلمون

۱۲_ علم اور يقين كى بنا پر ہر چيز (فعل، كلام، صفت و غيرہ) خداوندمتعال كى جانب منسوب كى جانى چاہيئے_

اتقولون على الله ما لا تعلمون

۱۳_محمد بن منصور عن عبد صالح قال : سالته عن قول الله : ''و اذا فعلوافاحشة_ الى قوله_ اتقولون على الله ما لا تعلمون'' فقال فان هذا من اء مة الجور ادعوا ان الله امرهم بالايات مام بهم فرد الله ذلك عليهم فاخبرنا انهم قد قالوا عليه الكذب فسمى ذلك منهم

۵۹۳

فاحشة (۱)

محمد بن منصور كہتے ہيں ميں نے حضرت امام كاظمعليه‌السلام سے آيت''و اذا فعلوا فاحشة'' كے بارے ميں پوچھا_ آپعليه‌السلام نے فرمايا : يہ مطلب آئمہ جور (ظالم رہبروں ) كے بارے ميں ہے_كہ جنكا دعوى تھا كہ خداوند متعال نے لوگوں كو ان كى پيروى و اقتدا كاحكم ديا ہے_ خداوند نے ان كے اس ادعا كو ردّ كيا ہے اور ہميں خبر دى ہے كہ انھوں نے خداوندمتعال پر افترا باندھا ہے_ اور اس جھوٹ اور افتراء كو ''فاحشة'' كا نام ديا ہے_

افترا :خداوندمتعال پر افترا باندھنا ۱۱

بدعت :بدعت پر مذمت و سرزنش ۱۱

بدعت گذار لوگ : ۵

بدكردار :بدكردار كافر ۱

بصيرت :الہى فكر و بصيرت كى قدر و منزلت ۲; باطل اور غلط فكر و بصيرت ۶

تقليد :آباواجدادكى تقليد۱;۳;۷; گذشتہ لوگوں كى تقليد ۲; ناپسنديدہ تقليد۲، ناپسنديدہ رسوم كى تقليد ۲، ۳; حسن عقلى : ۹، ۱۰

خدا تعالى :اوامر خدا، ۸; تنزيہ خدا۸خداكى جانب كسى حكم كى نسبت۱۱،۲۱

روايت : ۱۳

رہبر:ظالم رہبروں كى دروغگوئي ۱۳

شياطين :شياطين كى حاكميت، ۳

شيطان :تسلط شيطان كے آثار۴، شيطان كے پيرو كار۵ ، ولايت شيطان ۵،ولايت شيطان كے آثار۴

عمل :ناپسنديدہ عمل كى توجيہ ۱، ۴، ۱۱

قبح عقلى : ۹، ۱۰

كفار:جاہل كفار ۶،جاہل كفار كى سوچ ۷;كفار اور اوامر

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۲ ص ۱۲ ح ۱۵ كافى ج/۱ ص ۳۷۳، ح ۹_

۵۹۴

خدا ۶; كفار كى سوچ۶;كفار كے برے اعمال ۶

مستقلات عقليہ : ۱۰

معاشرہ :

امر شيطان كے زير تسلط معاشرے ۳

آیت ۲۹

( قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُواْ وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ )

كہہ دليجے كہ ميرے پروردگار نے انصاف كا حكم دياہے اور تم سب ہر نماز كے وقت اپنا رخ سيدھا ركھا كرو اور خدا كو خالص دين كے ساتھ پكارو اس نے جس طرح تمھارى ابتدا كى ہے اسے طرح تم پلٹ كر بھى جائوگے

۱_ خداوندمتعال نے قسط (عدل و انصاف كرنے) كا حكم ديا ہے نہ كہ بدى اور برائي كے ارتكاب كا_

ان الله لا يامر بالفحشاء قل امر ربى بالقسط

۲_ برے اور قبيح كردار عدل و انصاف كے دائرے سے خارج ہيں _

قل ان الله لا يامر بالفحشاء قل امر ربّى بالقسط

۳_ قسط (عدل و انصاف كرنے) كے حكم كاسرچشمہ ربوبيت خداوند ہے_قل امر ربّى بالقسط

۴_ مساجد ميں حاضر ہوتے وقت (يعنى نماز پڑھتے وقت) خداوندمتعال كى جانب مخلصانہ طور پر متوجہ ہونا اور اس كے غير سے مكمل قطع تعلق كر ليناكا ضرورى ہونے_و اقيموا و جوهكم عند كل مسجد

۵_ مسجد ميں عبادت كرنے اور نماز پڑھنے كى اہميت_و اقيموا وجوهكم عند كل مسجد

۶_ انسانوں كا فريضہ ہے كہ وہ بارگاہ خداوند ميں عبادت

۵۹۵

اور دعا كريں _وادعوه مخلصين له الدين

۷_ دعا اور عبادت ميں اخلاص كى ضرورت_و ادعوه مخلصين له الدين

۸_ بارگاہ خداوند ميں دعا اور مناجات كرنے كى شرائط ميں سے ايك، شرك سے پرہيز كرنا اور كامل اخلاص كے ساتھ دين پر كاربند رہنا ہے_و ادعوه مخلصين له الدين

۹_ عبادت اور پرستش ميں قسط (عدل و انصاف) كے مصاديق ميں سے ايك دين كى مخلصانہ پابندى كرنا اور غير خداسے مكمل قطع تعلق كرنا ہے_قل امر ربّى بالقسط و اقيموا وجوهكم عند كل مسجد و ادعوه مخلصين له الدين

۱۰_ قدريں متعين كرنے ميں گذشتہ لوگوں كے طور طريقوں سے تمسك كرنا، عبوديت خدا ميں اخلاص كے مخالف ہے_قالوا وجدنا عليها اباء نا و ادعوه مخلصين له الدين

۱۱_دين ميں قانون گزارى خدا سے مخصوص ہے_و ادعوه مخلصين له الدين

۱۲_ معاد اور اخروى زندگي، تمام انسانوں كے ليے ايك ضرورى امر ہے_كما بداكم تعودون

۱۳_ انسانوں كے معاد (آخرت كى طرف پلٹنے) كا ان كے آغاز خلقت كے مانند اور مشابہ ہونا_

كما بداكم تعودون

۱۴_ انسان كى اولين خلقت ، معاد كے ممكن ہونے كى ايك دليل ہے_كما بداكم تعودون

۱۵_ معاد (عالم آخرت) كى جانب توجہ، دين ميں اخلاص اور قسط (عدل و انصاف) كى بنياد ہے_

امر ربّى بالقسط مخلصين له الدين كما بداكم تعودون

۱۶_ دين، اجتماعي، عبادى اور اعتقادى پہلوؤں كا حامل ہے_

امر ربّى بالقسط و اقيموا و ادعوه مخلصين له الدين كما بداكم تعودون

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله تعالى : و اقيموا و جوهكم عند كل مسجد'' قال : مساجد محدثة فامروا ان يقيموا وجوههم شطر المسجد الحرام (۱)

____________________

۱) تہذيب شيخ طوسى ج/ ۲ ص ۴۳ ح/ ۴ ب ۵ نورالثقلين ج/ ۲ص ۱۸ ح ۵۷_

۵۹۶

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : آيت ''و اقيموا وجوھكم ...''سے مراد نو بنياد مساجد ہيں _ لوگوں كا فريضہ ہے كہ ان ميں (عبادت كرتے وقت) مسجد الحرام كى جانب رخ كركے كھڑے ہوں _

اخلاص :اخلاص كے مقدمات ۱۵; اخلاص كے موانع ۱۰

اقدار :اقدار كا معيار ۱۰

التقاط :التقاط سے اجتناب

انسان :انسان كيخلقت ۱۴; ذمہ دارى انسان ۶

انصاف :انصاف كى اہميت ۱

تشبيہات :خلقت انسان كے آغاز سے تشبيہ ۱۳

تقليد :آبا و اجداد كى تقليد ۱۰

حضور قلب :حضور قلب كى اہميت ۴

حيات :موت كے بعد كى حيات ۱۲

خدا تعالى :اوامر خدا ۱; تنزيہ خدا ۱; ا خدا سے مختص امور ۱۱;ربوبيت خدا ۳

دعا :دعا كى اہميت ۶; دعا كى شرائط ۸; دعا ميں اخلاص ۷

دين :دين كا اجتماعى پہلو ۱۶; دين كا عبادى پہلو ۱۶; دين كا عقيدتى پہلو ۱۶; دين كو وضع كرنا ۱۱;دين كى پابندى ۸، ۹; تعليمات دين كى حدود ۱۶

روايت : ۱۷

رسوم :گذشتہ لوگوں كى رسوم كى قدر و منزلت ۱۰

شرك :شرك سے اجتناب ۸

عبادت :عبادت ميں اخلاص ۷; عبادت ميں عدل و انصاف ۶; مسجد ميں عبادت ۵

۵۹۷

عبوديت :عبوديت ميں اخلاص ۱۰

عدالت :عدالت كا لحاظ ركھنے كى راہ ۱۵;عدالت كى اہميت ۱، ۲، ۳; عدالت كے مواقع ۹

عمل :ناپسنديدہ عمل ۲

فحشاء :فحشاء سے نہى و ممانعت ۱

قانون وضع كرنا :قانون وضع كرنے كا معيار ۱

قرآن :قرآن كى تشبيہات ۱۳

مسجد :مسجد كے آداب ۴

مسجد الحرام :مسجد الحرام كى فضيلت ۱۷

معاد :معاد كا حتمى ہونا ۱۲; معاد كى جانب توجہ كے آثار ۱۵; معاد كے دلائل ۱۳، ۱۴

مناجات :مناجات كى اہميت ۶; مناجات كى شرائط;۸

نماز :مسجد ميں نماز ۵; نماز اور قبلہ ۱۷

آیت ۳۰

( فَرِيقاً هَدَى وَفَرِيقاً حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ )

اس نے ايك گروہ كو ہدايت دى ہے اور ايك پر گمراہى مسلط ہو گئي ہے كہ انہوں نے شياطين كو اپنا ولى بناليا ہے اور خدكو نظر انداز كردياہے اور پھر ان كا خيال ہے كہ وہ ہدايت يافتہ بھى ميں

۱_ قيامت كے دن، انسانوں كا اپنى اولين خلقت كي طرح، دو ہدايت يافتہ اور گمراہ شدہ گروہوں كى

۵۹۸

صورت ميں حاضر ہونا_فريقا هدى

جملہ ''فريقاً ھدى ...'' ''بدا كم'' كے فاعل كے ليے حال اور جملہ ''كما بداكم تعودون'' ميں بيان ہونے والى وجہ مشابہت كو ظاہر كررہا ہے_ اور اس كا خلاصہ يہ ہے كہ خداوندمتعال نے تمہيں خلق كيا جبكہ ہدايت كے لائق افراد كى ہدايت كى اور گمراہى كے مستحق لوگوں كو گمراہ كيا اور تم اس طرح (دو گروہوں كى صورت ميں ) اس كى جانب لوٹ جاؤگے_

۲_ ہدايت يافتہ افراد كا ہدايت پانا اورگمراہوں كا گمراہ ہونا، خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_فريقا هدى و فريقاً حق عليهم الضللة

كلمہ ''فريقا حق ...'' ميں ''فريقاً'' ايك محذوف عامل كے ليے مفعول بہ ہے_ اور جملہ ''حق عليھم الضلالة'' دلالت كررہاہے كہ وہ محذوف عامل، فعل ''اضل'' ہے_

۳_ انسانوں كے ايك گروہ كى عاقبت گمراہى اور ضلالت ہے_و فريقا حق عليهم الضللة

۴_ انسانوں كى خلقت كے وقت، وہ نہ تو گمراہ ہيں اور نہ ہى انكا ہدايت يافتہ ہونا ثابت ہے_

كما بداكم تعودون فريقا هدى و فريقا حق عليهم الضللة

قرآن نے جملہ''انهم اتخذوا الشياطين اولياء من دون الله'' كے ذريعے انسانوں كى گمراہى اور ہدايت يافتہ ہونے كى توفيق كو خود ان كى جانب نسبت دى ہے_واضح ہے كہ انسان، اپنى پيدائش كے وقت نہ تو انتخاب كرنےكى طاقت ركھتاہے اور نہ ہى اس كى جانب ايسے فعل كى نسبت دى جاسكتى ہے كہ جس پر مواخذہ كرنا صحيح ہو_ بنابراين، ہدايت پانے يا گمراہ ہونے كا ثابت ہونا اس مرحلے كے بعد ہے يعنى انتخاب كرنے كے مرحلے كے بعد ہى انسان كى گمراہى يا ہدايت يافتہ ہونا ثابت ہوسكتاہے_

۵_ خداوندمتعال كى بجائے، شياطين كى سرپرستى كو قبول كرنا ہى گمراہى اور ہدايت الہى سے دورى كے ثابت ہونے كا باعث بنتاہے_فريقا حق عليهم الضللة انهم اتخذوا الشياطين اولياء من دون الله

۶_ شياطين كو اپنا دوست سمجھنا، ہدايت كے تمام راستے بند كرديتاہے_

و فريقا حق عليهم الضللة انهم اتخذوا الشياطين اولياء

كلمہ ''ولي'' كے دو معنى ہوسكتے ہيں ايك ''دوست'' اور دوسرا ''سرپرست'' مندرجہ بالا مفہوم پہلے معنى كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۷_ شياطين ہميشہ، بنى آدم پر ہدايت كا راستہ بند كرنے

۵۹۹

كى كوشش ميں لگے رہتے ہيں _انهم اتخذوا الشياطين اولياء

۸_ ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كى شرط، ولايت خداوند متعال كو قبول كرنا ہے_

و فريقا حق عليهم الضللة انهم اتخذوا الشياطين اولياء من دون الله

جملہء ''انھم ...'' كے مفہوم سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ ہوتاہے_

۹_ انسان (خود اپنے ليے) ''ہدايت'' يا ''گمراہي'' كا راستہ منتخب كر سكتا ہے_

حق عليهم الضللة انهم اتخذوا الشياطين اولياء

۱۰_ شياطين كى ولايت (سرپرستي) قبول كرنے والے اپنى گمراہى سے بے خبر ہيں اور خيال كرتے ہيں كہ توفيق ہدايت ان كے شامل حال ہے_و يحسبون انهم مهتدون

۱۱_ گمراہوں كا اپنى ضلالت سے بے خبر ہونا، انكى ہدايت كے راستے كو ختم كرڈالتاہے_

فريقاً حق عليهم الضللة انهم اتخذوا و يحسبون انهم مهتدون

انسان :انسان خلقت كے وقت ۴; انسان قيامت كے دن ۱;انسان كا اختيار ۹;انسان كا انجام ۳; گمراہ انسان ۳

خدا تعالى :اختيارات خدا ۲; اضلال خدا ۲; ولايت خدا كو قبول كرنا ۸; ہدايت خدا ۲

دوستى :شيطان سے دوستى كے آثار ۶

شياطين :شياطين كا اضلال ۷; شياطين كا كردار ۷; شياطين كى ولايت قبول كرنا ۵، ۱۰; شياطين كے پيروكاروں كى سوچ ۱۰; شياطين كے پيروكاروں كى گمراہى ۱۰

گمراہ :گمراہ افراد اور قيامت كا دن ۱; گمراہوں كى گمراہى ۲، ۱۱; گمراہ افراد كى جہالت ۱۱

گمراہى :گمراہى كا انتخاب ۹; گمراہى كے ثابت ہونے كے اسباب ۵

ہدايت :ہدايت كا انتخاب ۹; ہدايت كى شرائط ۸; ہدايت كے موانع ۵، ۶، ۷، ۱۱

ہدايت يافتہ:ہدايت يافتہ افراداور قيامت ۱; ہدايت يافتہ كى ہدايت ۲

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744