تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167094 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔

میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

۱۲۱

ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوں  نے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی لے لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

۱۲۲

اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:اطاعت،چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر انہوں ے پیغمر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

ہم نے کہا:ایسے نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔

جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔

اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۲۳

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروانسرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میں  آئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں۔ہماری اس کے علاوہ ہمارا اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔

ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

۱۲۴

قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میں  نے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر پر سفید عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوں  نے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میں  نے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

۱۲۵

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

میںنے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

انہوںنے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

انہوںے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکں ان میں سے سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔

میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

انہوں نے فرمایا: انہوں نے اپنے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین جاؤ  اور پھر فرمایا:تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔ میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔ مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟کیونکہ گفتگو کے دوران  میں  نے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟

۱۲۶

میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔

مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔  بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔  میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیںہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا وقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی؟....( 1 )

وہ کچھ مدت تک شیخ محمد حسن کے مہمان رہے اور شیعیت کے حیات بخش عقائد سے آشنا ہوئے۔

جی ہاں!وہ اپنے پورے ذوق و شوق اور رغبت سے حق کی جستجو کے لئے نکلے جس کے لئے انہوں نے بہت تکلیفیں برداشت کیں ،اپنا گھر  اور وطن چھوڑا لیکن انہوں نے اپنی کوشش و جستجو کو جاری رکھا اور آخر کارانہیں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عنایات سے منزل مل گئی۔اب بھی بہت سے افراد حقیقت تشیع اور اس کی حقانیت سے آگاہ ہیں لیکن کچھ دوسرے خیالی امور کی وجہ سے وہ لوگ صادقانہ طور پر پرچم تشیع کے زیر سایہ نہیں آ تے اور اپنے مذہب سے دور رہتے ہیں ۔ہم نے یہ جو واقعہ ذکر کیا ہے یہ ایسے ہی افراد کے لئے ایک نمونہ ہے ۔انہیں یہ بات بھی جان لینی چاہئے:

--------------

[3]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:175 (مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی)

۱۲۷

نابردہ  رنج گنج  میّسر  نمی  شود

مزد آن گرفت جان برادر کہ کار کرد

اگر وہ حقیقت کے متلاشی ہوں  تو انہیں ہر قسم کی زحمتیں اٹھانا ہوں گی اور مشکلات کو برداشت کرنا پڑے گا اور کل کے انتظار اور مستقبل کی  آرزو میں ہی نہ بیٹھے رہیں۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکُمْ وَالْاِیْکٰالُ بِالْمُنٰی فَاِنَّهٰا مِنْ بَضٰائِعِ الْعَجْزَةِ'' ( 1 )

اس کام سے  پرہیز کرو کہ اپنا کام آرزؤں کے سپرد کر دو ۔کیونکہ آرزؤں کی وجہ سے کام کو چھوڑ دینے کا سرمایہ عجز و ناتوانی ہے۔

ھر کہ دانہ نقشاند بہ زمستان درخاک

نا امیدی بود از دخل بہ تابستانش

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے عاشق اپنی امیدوں اور آرزؤں کو چھوڑکر حقیقت تک پہنچنے کے لئے جستجو اور کوشش کریں ۔  کیونکہ سعی وکوشش عظیم لوگوں کا عملی نعرہ اور حقیقی اسلام کی نشانی ہے۔

کام اور کوشش کے ذریعے اپنے ارادہ کو پختہ اور مضبوط کریں ۔ آپ کی کوشش آپ کی شخصیت اور ارادے کو بیان کرتی ہے ۔ کام اورکوشش کریں تا کہ بیکاری کے نتیجہ میں توہمات اور شیاطین کے نفوذ سے بچ سکیں۔

--------------

[1]۔ امالی شیخ طوسی:ج۲ص۱۹۳،بحار الانوار: ج۷۱ ص۱۸۸

۱۲۸

 آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

امامت و ولایت کی پہلی کڑی حضرت امام علی علیہ السلام کام اور فعالیت کو علم و آگاہی کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں اور امت کی ہدایت کے لئے اپنے فرامین میں ارشاد فرماتے ہیں:انسان بصیر اور آگاہ دل کے ذریعہ ابتداء ہی سے یہ جان لیتاہے کہ اس کام کا نتیجہ اس کے نفع میں ہے یا یہ اس کے لئے نقصان کا باعث ہے ۔آنحضرت نے حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:

''فَالنّٰاظِرُ بِالْقَلْبِ اَلْعٰامِلُ بِالْبَصَرِ ،یَکُوْنُ مُبْتَدَئُ عَمَلِهِ أَنْ یَعْلَمَ أَعْمُلُهُ عَلَیْهِ أَمْ لَهُ'' (1)

جو دل کے ذریعے دیکھیں اور بصیرت سے عمل کریں !وہ کام کے آغاز ہی سے جانتے ہیں کہ یہ کام ان نے لئے مضر ہے یا مفید ہے۔

چہ نیکو متاعی است کار آگہی     کزین نقد عالم مبادا تھی

ز عالم کسی سر بر آرد  بلند      کہ در کار عالم بود ھوشمند

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:154

۱۲۹

  کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

اپنی فعالیت کےنتیجہ تک  پہنچنے کے لئے کام کے شرائط و اسباب کو آمادہ کریں اور اس کے لازمی امور کو انجام دیں ۔ پھر اپنی فعالیت کے نتیجہ اور ہدف تک پہنچنے کے لئے ثابت قدم رہیں ۔کیونکہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَمَنْ لاٰ بَدَ الْاُمُوْرَ عَطِبَ'' (1)

جو کوئی بھی کام کے اسباب فراہم کئے بغیر سختیوں کو برداشت کرے ، وہ ہلاک  ہو جائے گا۔

ہر مفید پروگرام کو انجام دینے کے لئے اس کے شرائط و اسباب کو فراہم کرنے کے علاوہ  اس کے موانع سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ موانع ہدف تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔

اس بناء پر کام اور کوشش سے نتیجہ اخذ کرنے  کے لئے ایسے امور کو اپنی راہ سے نکال دیں جو آپ کے کام ،کوشش اور آپ کی فعالیت کے نتیجہ کو نیست و نابود کر دیں ۔ ورنہ ممکن ہے کہ کوئی ایک غلطی آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دے ۔ بہت سے افراد اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے طاقت طلب کام اور اہم ریاضتیں انجام دیتے ہیں

--------------

[1]۔ تحف العقول:88، بحار الانوار:ج۷۷ص۲۳۸

۱۳۰

لیکن اس کے باوجود انہیں اپنے کام میں رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رُبَّ سٰاعٍ فِیْمٰا یَضُرُّهُ'' (2)

بعض اوقات کوئی کسی کام میں کوشش کرتاہے لیکن اسے نقصان پہنچتا ہے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے جو کام انجام دیا ہے وہ نتیجہ مند ہو اور اس کام کو انجام دینے کے لئے ہم نے جو تکالیف برداشت کی ہیں ، وہ بے نتیجہ نہ ہوں تو ہمیں اس کام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور موانع سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ اب ہم بطور نمونہ اہم امور کی راہ میں حائل موانع میں سے دو اہم موانع بیان کرتے ہیں۔

--------------

[2]۔ نہج البلاغہ، مکتوب:31

۱۳۱

 کام اور کوشش کے موانع

1۔ بے ارزش کاموں کی عادت

کام اور کوشش کے موانع  میں سے ایک مورد  گذشتہ کاموں  کی عادت کا غلبہ ہے ۔یہ مؤثر کاموں کے نتیجہ بخش ہونے کی راہ میں بہت بڑی آفت کے طور پر شمار کیا جاتاہے  اور اس کے  بہت زیادہ تخریبی اثرات ہیں۔

اس لئے حضرت علی علیہ ا لسلام اسے ریاضتوں کی آفت اورفعالیت کو نابود کرنے والاسمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں:

''آفَةُ الرِّیٰاضَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

عادت کا غلبہ پا جانا ریاضت کی آفت ہے۔

برے کاموں کی عادت مختلف امور کے لئے کام ا ور کوشش کے اثرات کو نیست ونابود کر دیتی ہے۔ جس طرح مختلف قسم کے بیکٹیریا اور جراثیم انسان کے بدن اور صحت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتے ہیں اسی طرح ناپسندیدہ اور برے کاموں کی عادت اہم امور کے اثرات و نتائج کو نابود کردیتی ہے۔

ہمیں مختلف کاموں کے نتائج تک پہنچنے  اور اپنے کام اور کوشش کے نتیجہ بخش ہونے کے لئے نہ صرف فعالیت کرنی چاہئے بلکہ اپنی کوششوں کوبے ثمر کرنے والی بری عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔ اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَلْفَضِیْلَةُ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (2) عادت پر غلبہ پانا ،فضیلت ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج3 ص104

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۹۷

۱۳۲

اس بناء پر انسانی فضیلتوں کے حصول کے لئے نہ صرف کام اور کوشش کرنی چاہئے بلکہ بری اور فضول عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔اگر کسی گندے پانی کے حوض میں کوئی صاف پانی ڈالا جائے تو صاف پانی ڈالنے سے گندے پانی کا حوض صاف  پانی میںتبدیل نہیں ہو گامگر یہ کہ اس میں اس قدر پانی ڈالا جائے کہ جو گندے پانی پر غلبہ پاجائے اور گندے پانی کو حوض سے نکال دیاجائے۔اس صورت میں حوض کا پانی صاف ہو جائے گا۔

بری عادتیں بھی اسی گندے پانی کی طرح ہیں جو انسان کے وجود کو گندہ کر دیتی ہیں  اور جب انسان صاحب فضیلت بن جائے تو وہ  اپنے وجود سےبری عادتوں کو پاک کرے اور ان پر غالب آئے ۔لیکن اگر اس پر  ناپسندیدہ عادتیں غالب آجائیں تو پھر نیک کام گندے پانی کے حوض میں  اسی صاف پانی کی طرح ہوں گے  جو اس پانی کی گندگی کو ختم نہیں کر سکتے۔بلکہ اس سے صاف پانی بھی گندہ ہو جائے گا۔پانی کی گندی کو ختم کرنے کے لئے اس میں اتنا صاف پانی ڈالا جائے تا کہ وہ گندے  پانی پر غلبہ پا جائے۔

ناپسندیدہ عادتوں کو برطرف کرنے کے لئے اس قدر اچھے کام انجام دیئے جائیں تا کہ خودسے بری عادتوں کا خاتمہ ہو جائے ورنہ اچھے اور پسندیدہ کاموں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔

اس بناء پر اپنے کام اور فعالیت سے مثبت نتیجہ حاصل کرنے کے لئے اس کے موانع کو برطرف کریں  اور ان کے موانع میں سے ایک بے ارزش اور غلط کاموں کی عادت ہے۔

مذکورہ قصہ میں خیبر کے دو جوان اپنی گذشتہ حالت کی عادت سے دستبردار ہوئے  جس کی وجہ سے انہوں نے فضیلت کی راہ پر قدم رکھا اور وہ سعادت مند ہوئے۔

۱۳۳

2۔ تھکاوٹ اور بے حالی

کاموں کو انجام دینے کی راہ میں دوسرا مانع تھکاوٹ ہے۔ ہمیں تھکاوٹ کی وجہ  سے کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے کیونکہ بہت سے موارد میں تھکاوٹ جھوٹی ہوتی ہے نہ کہ واقعی۔ایسے موارد میں ہوشیاری سے تھکاوٹ کو ختم کرنا چاہئے اور جب حقیقت میں تھک جائیں تو کام میں تبدیلی کر سکتے ہیں لیکن بیکار نہیں بیٹھنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی بن ابیطالب  علیہ السلام اپنی وصیت میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے فرماتے ہیں:

''بُنََّاُوْصِیْکَ.....بِالْعَمَلِ فِی النَّشٰاطِ وَالْکَسْلِ'' (1)

 اے میرے بیٹے! میں تمہیں  نشاط اور کسالت میں کام کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔

اس وصیت سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ اگر انسان کسی کام سے تھک جائے تو اسے تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ اسے اس وقت کوئی دوسراکام کرنا چاہئے کیونکہ کام میں تبدیلی کے   باعث انسان کی تھکن دور ہو جاتی ہے ۔

اس بناء پر تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار بیٹھ جانے کے بجائے کام میں تحوّل ، تبدیلی اور تنوع سے اپنے کام اور فعالیت کو جاری رکھیں اور خود سے تھکاوٹ کو دور کریں۔

--------------

[1]۔ تحف العقول:88، بحار الانوار: ج77 ص238

۱۳۴

پس مولا امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمان سے استفادہ کرتے ہوئے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے۔

بہ رنج اندرست ای خرد مند گنج          نیابد کسی گنج نابردہ رنج

چو کاھل بود مردِ  بُرنا  بہ  کار             از او سیر گردد دل روز گار

حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کے کلام سے ایک اوربہترین نکتہ بھی استفادہ ہوتاہے  اور وہ یہ ہے کہ تھکاوٹ جیسی بھی ہو(چاہے وہ مسلسل ایک ہی کام کی وجہ سے ہو یا کام کی سختی کی وجہ سے ہو یا پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہو) اسے کام کو ترک کرنے کا بہانہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے جو کام منتخب کیا ہے اگر وہ دین کے لحاظ سے صحیح اور پسندیدہ ہو تو اسے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے چھوڑ کر ناامید نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس کے رنگ کو بدل دیں اور اسے ایک نئی  شکل دیں۔

دیکھئے کہ مرحوم محدث نوری نے کس طرح لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور کتابوں کے دو قلمی نسخوں کے لئے اپنی تلاش کو جاری رکھا۔

۱۳۵

 دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

مرحوم سید اسد اللہ اصفہانی کہتے ہیں:ایک دن میں محدث نوری کے ساتھ کربلا کی زیارت سے مشرّف ہوا ۔ راستہ میں محدث نوری نے دو کتابوں کے نام  لئے اور فرمایا:مجھے یہ دونوں کتابیں بہت پسند ہیں لیکن اب تک اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مجھے یہ دونوں کتابیں نہیں ملیں  لیکن اس سفر میںمجھے وہ کتابیں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے مل جائیں گی۔

انہوں نے یہ بات چند مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ ہم کربلا میں داخل ہو گئے ۔ہم حضرت امام حسین علیہ  السلام کے حرم کی زیارت سے مشرّف ہوئے ۔زیارت کے بعد ہم باہر آئے تو عورتوں والی جگہ کے پاس ہم نے ایک عورت کو دیکھا ۔اس کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں ۔

محدث نوری نے کہا :یہ دونوں کتابیں کون سی ہیں؟اس عورت نے کہا:یہ دونوں برائے فروخت ہیں۔ہم نے ان کتابوں کو دیکھا تو وہ وہی دو کتابیں تھیں جن کی ہمیں تلاش تھی۔

محدث نوری نے پوچھا:ان کتابوں کا ہدیہ کتنا ہے؟

اس عورت نے کہا:بائیس قران۔

محدث نوری نے مجھ سے کہا:تمہارے پاس جتنے پیسے ہیں دے دو۔ہمارے پاس ملا کے چھ قران سے زیادہ نہ ہوئے ۔ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دے دئیے ۔

۱۳۶

میں نے خود سے کہا:ہم ابھی آئے اور اب تک کھانا بھی نہیں کھایا اورسارے پیسے ان کتابوں کے لئے دے دیئے ہیںلیکن اب ہم کتابوں کے بقیہ پیسے کہاں سے دیں گے؟

پھر انہوں نے اس عورت سے کہا:ہمارے ساتھ آؤ ۔ہم بازار گئے انہوں نے اپنا عمامہ ،عبا اور قبا بیچ ڈالی !لیکن اسکے باوجود بھی پیسے کم تھے ۔پھر انہوں نے اپنا جوتا بھی بیچ دیا ۔بالآخر بائیس قران پورے ہو گئے اور ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دیئے

اب اس بزرگوار کیپاس قمیض شلوار اور زیر جامہ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا !میں  نے کہا:مولانا آپ نے اپنا یہ کیا حال کر لیا؟ انہوں  نے فرمایا:یہ بہت آسان ہے ہم تو درویش ہیں !ہم اسی حالت میں صحن میں داخل ہوئے اورہماری کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔وہ گئے اور لباس لے کر آئے اور انہوں نے وہ لباس پہنا۔

مرحوم محدث نوری بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں جو بہت صاحب جلال تھے ۔تلاش اور توسل کے ذریعے حاصل ہونے والی ان  دو نایاب کتابوں کے حصول کے لئے  وہ گلیوں اور بازاروں میں عبا  اور عمامہ کے بغیر چلنے کو بھی تیار تھے اور انہوں نے اسے اپنے جاہ و جلال کے منافی نہیں سمجھا۔(1)

--------------

[1]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:72

۱۳۷

 غور و فکرسے کام کرنا

سعی و کوشش،جستجو اور زیادہ کام کرنا مومنوں کی خصوصیات میں سے ہے۔وہ ایمان اور یقین کامل کی وجہ سے کبھی فارغ نہیں بیٹھتے  بلکہ ہمیشہ کام اور فعالیت کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس حقیقت کو بیان کرنے والے ایک مقام پر فرماتے ہیں:

''اَلْمُؤْمِنُ قَلِیْلُ الزَّلَلِ کَثِیْرُ الْعَمَلِ'' (1)

مومن کم غلطی کرتا ہے لیکن وہ بہت زیادہ کام انجام دیتاہے۔

باایمان شخص زیادہ کام کرنے کے باوجودبھی بہت کم خطاؤں کا مرتکب ہوتاہے اور اس سے بہت کم لغزش سرزد ہوتی ہیں ۔یہ چیز خود اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مومن شخص میںتدبّر کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت امام علی مرتضٰی علیہ السلام اپنے ایک کلام میں فرماتے ہیں:

''اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْفِعْلِ یُؤْمِنُ الْعِثٰارَ'' (2)

کام کو انجام دینے سے پہلیاس کے بارے میں تدبّر انسان کو خطاؤں سے محفوظ رکھتاہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج1ص383

[2]۔ شرح غرر الحکم: ج1ص384

۱۳۸

ایک دوسری روایت میں آنحضرت انسانوں کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکَ وَ أَنْ تَعْمَلْ عَمَلاًبِغَیْرِ تَدْبِیْرٍ وَ عِلْمٍ'' (1)

کسی کام کو تدبیر اور آگاہی کے بغیر انجام دینے سے پرہیز کرو۔

آپ اجتماعی کاموں کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

''اِجْعَلْ لِکُلِّ اِنْسٰانٍ مِنْ خَدَمِکَ عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ،فَاِنَّهُ اَحْریٰ اَلاّٰ یَتَوٰاکَلُوا فِیْ خِدْمَتِکَ'' (2)

اپنے خدمت کرنے والوں میں  سے ہر ایک کے لئے کام معین کرو  اور اس سے وہی کام لو، کیونکہ ایسا کرنا اس لئے مناسب ہے کہ وہ تمہاری خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں۔

اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اجتماعی کاموں میں تدبّر اور غور و فکرکے لئے ہر ایک فرد کے لئے اس کے کام کو معین کر دیا جائے اور اس سے وہی کام لیاجائے تاکہ ان کے پاس اپنا کام دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کا کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔

لیکن انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اگر انسان کو توفیق ملے تو اس میں خودبینی ایجاد نہیں ہونی چاہئے  اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہ جو بھی کام انجام دے رہا ہے وہ اس کی اپنی توانائی ،قدرت اور شخص ارادے کی وجہ سے ہے ۔کیونکہ انسان میں ارادہ ،خدا کی توفیق سے ہی پیدا  ہوتاہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج2ص220

[2]۔ بحار الانوار: ج74ص143، نہج البلاغہ ،مکتوب:31

۱۳۹

اس بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''فَاجْتَهِدُوا فِی طٰاعَةِ اللّٰهِ اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تَکُوْنُوا مُؤْمِنِیْنَ حَقًّا حَقًّا وَ لاٰ قُوَّّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ'' (1)

اگر تم واقعاً چاہتے ہوکہ تمہارا شمار حقیقی مومنوں میں ہو تو خدا کی اطاعت کی کوشش کرو اور اس کام کی  قوت فقط خدا کے وسیلے سے ہی ملتی ہے۔

اگر انسان کو بہت زیادہ توفیق میسر ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ نیک اور مشکل کام انجام دینے چاہئیں اور کبھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہئے  اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے جو عبادات انجام دی ہیں وہ اس کی اپنی توانائی ہی تھی۔کیونکہ جس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ قُوَّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ''

یعنی کاموں کو انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہے مگر خدا کے وسیلہ سے۔

پس یہ خدا کا لطف ہے جو کہ حقیقی مومنوں اور اولیاء خدا کے شامل حال ہے  اور وہ توفیق کی وجہ ہی سے سخت عبادی کاموں کو آسانی سے انجام دیتے ہیں  نہ کہ ان کی شخصی توانائی عبادت کو انجام دینے کی قدرت کا سبب بنی۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:"مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِکَ" (2)

تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔کیونکہ جس طرح تمام خوبیوں کا اصلی منشاء خداوند عالم ہے  اور تمام برائیوں کا سرچشمہ انسان کا نفس ہے جو خواہشات نفس اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرتاہے۔

--------------

 [1]۔ بحار الانوار: ج78ص200

[2]۔ سورۂ نساء، آیت:79

 نتیجۂ بحث

سعی و کوشش بلند اہداف و مقاصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔کامیابی کے حصول کے لئے اپنے نفس کو اپنی عقل کا تابع قرار دے کر  ایسے امور انجام دینے کی جستجو اور کوشش کریں کہ جو آپ کو سعادت و کامیابی تک پہنچانے کا باعث بنیں۔اپنے کام آگاہانہ طور پر شروع کریں اور تدبّر کے ذریعے ان کے مستقبل کی جانچ پڑتال کریں۔

کام کے ضروری مقدمات مہیا کریں اور اس کے موانع کو برطرف کریں۔

اگر آپ نے یہ ارادہ کیاہے کہ آپ کا مستقبل بھی بزرگ شخصیات کی طرح روشن ہو تو یقین کیجئے گذشتہ زندگی کی عادت آپ کے اہداف کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔آپ کو اپنی گذشتہ تمام بری عادتیں ختم کرنی چاہئیں تا کہ آپ اپنے ارادے کے ذریعے بہتر طریقے سے کام انجام دے سکیں۔دوجہد اور کوشش کریں اور اگر خدا نے چاہا تو آپ ضرور اپنی منزل اور اپنے مقصد تک  پہنچ جائیں گے۔

چہ کوشش نباشد  تن  زور مند           نیارد  سر  از  آرزوھا  بلند

کہ اندر جھان سود بی رنج نیست          کسی را کہ کاھل بود گنج نیست

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

آیت ۳۱

( يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ )

اے اولاد آدم ہر نماز كے وقت اور ہر مسجد كے پاس زينت ساتھ ركھو اور كھا و پيو مگر اسراف نہ كرو كہ خدا اسراف كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا ہے

۱_ مساجد ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى آرائش اور زينت كرنا ضرورى ہے_

يابنى ادم خذوا زينتكم عند كل مسجد

۲_ عبادت اور نماز كے وقت ظاہرى زينت اور خوبصورتي، خداوندمتعال كو محبوب ہے_

خذوا زينتكم عند كل مسجد

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا كہ جب كلمہ ''مسجد'' اسم زمان يا اسم مكان ہو نہ رسمى مساجد مراد ہو_ اسى صورت ميں ''سجدہ'' سے مراد، خدا كى پرستش اور اس كے سامنے خضوع ہے كہ جس كا مصداق تام اور جلوہ كامل ''نماز'' اور خاك پر پيشانى ركھنا ہے_

۳_ دنيا اور آخرت (زينت اور عبادت) ميں اسلامى نقطہ نظر سے ہم آہنگي_

يابنى ادم خذوا زينتكم عند كل مسجد

۴_ اسراف سے پرہيز كرتے ہوئے، كھانے پينے كى اشياء سے بہرہ مند ہونے كا جواز_

كلوا واشربوا و لا تسرفوا

۵_ كھانے پينے كى اشياء سے استفادہ كرنے ميں اسراف كرنا سب لوگوں كےلئے حرام ہے_

كلوا واشربوا و لا تسرفوا_

۶_ زينت سے متعلقہ چيزوں سے استفادہ كرتے وقت اسراف كرنے كى حرمت_

خذوا زينتكم و لا تسرفوا

يہ مفہوم اس بات پر مبنى ہے كہ ''و لا تسرفوا'' ''كلوا و اشربوا'' كے علاوہ'' خذوا زينتكم''كى طرف بھى ناظر ہو_ آيت كا ذيل (انہ ...) اس احتمال كى تائيد كررہاہے_

۷_ اسراف كرنے والے، محبت خداسے محروم ہيں _انه لا يحب المسرفين

۶۰۱

۸_ اپنے آپ كو زينت اور آراستہ كرنے ميں افراط كرنا اور كھانے پينے ميں اسراف كرنا، خداوندمتعال كى محبت سے محروم ہونے كا سبب بنتاہے_خذوا زينتكم و لا تسرفوا انه لا يحب المسرفين

۹_ محبت خداوندمتعال حاصل كرنے اور اس كے حصول ميں مانع اشياء سے بچنے كى ضرورت_

لا تسرفوا انه لا يحب المسرفين

۱۰_عن خيثمة قال : كان الحسن بن علي عليه‌السلام اذا قام الى الصلوة لبس اجود ثيابه فقيل له : يابن رسول الله لم تلبس اجود ثيابك ؟ قال : ان الله تعالى جميل يحب الجمال فاتجمل لربّى و هو يقول : ''خذوا زينتكم عند كل مسجد '' (۱)

خيثمہ سے منقول ہے كہ امام حسن مجتبىعليه‌السلام نماز كے وقت اپنا بہترين لباس پہنتے تھے_ آپ سے كسى نے پوچھا آپ كيوں اتنا بہترين لباس پہنتے ہيں ؟ انھوں نے فرمايا : خداوندمتعال جميل ہے اور جمال (زيبائي) سے محبت كرتاہے خدا كى خاطر اپنے آپ كو آراستہ كرتاہوں ، چونكہ اسى كا فرمان ہے كہ ''ہر عبادت كے وقت اپنے آپ كو زينت سے آراستہ كيا كرو''

۱۱_سئل ابوالحسن الرضا عليه‌السلام عن قول الله عزوجل: ''خذوا زينتكم عند كل مسجد'' قال: من ذلك التمشط عند كل صلوة (۲)

امام رضاعليه‌السلام نے ''خذوا زينتكم ...'' كے بارے ميں ايك سوال كے جواب ميں فرمايا : اس آيت كے مصاديق ميں سے ايك، ہر نماز كے وقت بالوں ميں كنگھى كرنا ہے_

۱۲_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله تعالى : ''خذوا زينتكم عند كل مسجد'' قال: الغسل عند لقاء كل امام (۳)

امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''خذوا زينتكم ...'' كے بارے ميں منقول ہے كہ اس آيت كے مصاديق ميں سے ايك، ہر امام اور پيشوا كى ملاقات كرتے وقت غسل كرناہے_

۱۳_عن ابى عبد الله عليه‌السلام : انما الاسراف فيما اتلف المال و اضربالبدن (۴)

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۲ ص ۱۴ ح/ ۲۹_ نور الثقلين ج/ ۲ ص ۱۹_ ح/ ۶۷_

۲) من لا يحضرہ الفقہيہ ج/ ۱ ص ۷۵ ح/ ۹۵ ب ۲۲ نور الثقلين ج/ ۲ ص ۱۹ ح /۶۲_

۳) تھذيب، شيخ طوسى ج/ ۶ ص ۱۱۰ ح/ ۱۳ ب ۵۲_ تفسير برھان ج/ ۲ ص ۹ ح / ۵_

۴) كافى ج/ ۶ ص ۴۹۹_ ح ۱۴_ تفسير برھان ج/ ۲ ص ۱۰ ح ۱۶_

۶۰۲

امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ اسراف فقط وہ ہے جو مال كے ضائع ہونے اور بدن كو ضرر پہچانے كا باعث بنے_

۱۴_عن النبي(ص) : ان من الاسراف ان تاكل كل ما اشتهيت (۱)

رسول اكرم(ص) سے منقول ہے كہ اسراف كے موارد ميں سے ايك يہ ہے كہ تمہيں جس چيز كى خواہش ہو_ (خواہ ضرورت ہو يا نہ ہو) اسے كھالو

اسراف :اسراف كى حرمت ۵، ۶; اسراف كى مذمت ۴; اسراف كے آثار ۸; اسراف كے احكام ۶، ۱۳; اسراف كے مواقع، ۱۳، ۱۴اسراف كرنے والے:اسراف كرنے والوں كى محروميت۷_

بدن :بدن كو نقصان پہنچانا ۱۳

پينے كى اشيائ:پينے كى اشياء سے فائدہ اٹھانا ۴; پينے كى اشياء ميں اسراف ۵،۸

خدا تعالى :جمال خدا ۱۰; محبت خدا كى اہميت ۹

دنيا :آخرت اور دنيا ۳

دين :دينى تعليمات كا نظام ۳

روايت : ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴

رہبرى :رہبر سے ملاقات كے آداب ۱۲

زيبائي :زيبائي كى اہميت ۱۰

زينت :زينت كرنے ميں اسراف، ۶، ۸

عبادت :عبادت كے وقت زينت و آرائش ۲، ۱۰

غسل :مستحب غسل ۱۲

كھانے كى اشياء :كھانے كى اشياء سے استفادہ ۴; كھانے كى اشياء كے احكام ۵; كھانے كى اشياء ميں اسراف ۵، ۸

مال :مال كو نقصان پہچانا ۱۳

محبت خدا :

____________________

۱) الدر المنثور ج/ ۳ ص ۴۴۴_

۶۰۳

محبت خدا سے محروميت ۷، ۸ ;محبت خدا كا حصول ۹; محبت خدا كى اہميت ۹

محبوب خدا : ۲

محرمات :۵، ۶

مستحبات :۱۲

مسجد :مسجد كے آداب ۱; مسجد ميں زينت ۱

نماز :نماز كے وقت زينت ۲; نماز كے وقت كنگھى كرنا ۱۱

آیت ۳۲

( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِي لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ )

پيغمبر آپ پوچھے كہ كس نے اس زينت كو جس گو خدا نے اپنے بندوں كے لئے پيدا كيا ہے اور پاكيزہ رزق كو حرام كرديا ہے _اور بتايئےہ يہ چيزيں روز قيامت صرف ان لوگوں كے لئے ميں جو زندگانى دنيا ميں ايمان لائے ميں _ہم اسى طرح صاحبان علم كے لئے مفصل آيات بيان كرتے ہيں

۱_ پاكيزہ رزق و روزى اور زينتيں پيدا كرنے والا خداوندمتعال ہےزينة الله التى اخرج لعباده

۲_ خدا كى دى ہوئي پاكيزہ روزى ، رزق ، زيبائي اور زينت كو حرام قرار دينے والوں كى خداوندمتعال كي طرف سے سرزنش اور مذمت_قل من حرم و الطيّيبت من الرزق

جملہ ''من حرّ م ...'' ميں استفہام، توبيخى انكار كے ليے ہے_ يعنى : خداوندمتعال طيبّات كى تحريم كو صحيح نہ جاننے كے علاوہ، انھيں حرام قرار دينے والے كى مذمت و سرزنش بھى كرتاہے_

۳_ روزى اورزينت والى اشياء كے خلق كرنے كا مقصد، بندگان خدا كا ان سے استفادہ كرناہے_

زينة الله التى اخرج لعباده

۴_ خداوندمتعال اپنے بندوں كو دنيوى نعمتوں سے استفادہ كرنے كى رغبت دلاتاہے_

قل من حرم اخرج لعباده

۶۰۴

زينتوں كى ارجمندى اور اچھائي كو كلمہ ''اللہ'' كے اضافے (زينة اللہ) كے ساتھ بيان كرنا، اور ان كى حليت كو بيان كرنے كے ليے،توبيخى استفہام سے استفادہ ظاہر كرتاہے كہ خداوندمتعال، اپنے بندوں كو زينتوں (دنيوى نعمتوں ) سے فائدہ اور لذت اٹھانے كى ترغيب دلارہاہے_

۵_ زينت اور زيبائي، پاكيزہ غذاؤں كى مانند، بنى آدم كى ضروريات كا ايك حصہ ہے_

قل من حرم زينة الله التى اخرج لعباده و الطيّبت من الرزق

كھانے پينے كى اشياء اور زينتوں كو ايك ساتھ ايك جملے ميں اور مساوى انداز ميں انكى حليت بيان كرنا، ظاہر كرتاہے كہ انسان كو انكى ايك جيسى ضرورت ہے_

۶_ كھانے پينے كى اشياء اور زينتوں سے استفادہ كرنے ميں اصل اور قانون اوّلي، حليت ہے_

قل من حرم زينة الله التى اخرج لعباده''من حرم ...'' ميں استفام انكاري، اس بات پر دلالت كررہاہے كہ اگر مذكورہ اشياء كى حرمت پر كوئي دليل نہ ملے تو انھيں حلال سمجھنا چاہيئے اور كسى خاص دليل كا انتظار نہيں كرنا چاہيئے اور يہى قانون اوّلى اور قاعدہ كلى ہونے كا معنى ہے_

۷_ زمانہ جاہليت كى بعض جعلى تحريمات، صدر اسلام كے مسلمانوں كے ذہنوں ميں باقى تھيں اور انكے درميان انكاعام رواج تھا_قل من حرّ م زينة الله التى اخرج لعباده

۸_ پيغمبر(ص) كو بدعتوں اور انسانى خيالات و اوھام كى پيدا كردہ تحريمات كے خلاف جنگ كرنے كا حكم ديا گيا ہے_

قل من حرّ م زينة الله التى اخرج لعباده

۹_ مؤمن اور كافر (دونوں ) كے ليے، دنيا ميں خدا كى عطا كردہ پاكيزہ روزى اور زيبائي سے استفادہ كرنے كا جواز_

قل هى للذين امنوا فى الحياة الدنيا خالصة يوم القيامة

كلمہ ''خالصة'' ھيَ كے ليے حال ہے اور ''يوم القيامة'' اس سے متعلق ہے يہ كلمہ (خالصة) ''الحياة الدنيا'' كے بارے ميں ذكر نہيں ہوا چونكہ دنيوى نعمتيں فقط مؤمنين ہى سے مختص نہيں ہيں _يعنى قل هى للذين امنوا و لغير هم فى الحياة الدنيا و لهم خالصة يوم القيامة''

۱۰_ زينتوں اور نعمتوں كى خلقت كا اصلى مقصد، مؤمنين كا ان سے استفادہ كرنا ہے_

قل هى للذين امنوا فى الحياة الدنيا

۶۰۵

''للذين امنوا'' كے بعد ''لغير ھم'' كے مراد اور مقصود ہونے كے باوجود، اسے ذكر نہ كرنا، اس بات كى حكايت كرتاہے كہ تمام زينتيں اور نعمات، در حقيقت مؤمنين كے ليے خلق كى گئي ہيں _

۱۱_ يہ ايمان ہے كہ جو انسان ميں الہى نعمتوں سے استفادہ كرنے كى صلاحيت (اور استحقاق) پيدا كرتاہے_

قل من حرم اخرج لعباده والطيبت من الرزق قل هى للذين امنوا

۱۲_ دنيا ميں نعمتوں اور زينتوں سے استفادہ ہميشہ اپنے ہمراہ رنج و غم اور كدورت لاتاہے_

قل هى للذين خالصة يوم القيمة

بعض كے نزديك، مذكورہ آيت ميں ''خالصة'' كا معنى ، رنج و غم آزردگى اور دل تنگى سے خالى ہوناہے، بنابرايں چونكہ يہ قيد، قيامت كے ليے ذكر نہيں كى گئي لہذا اس كا مفہوم يہ ہے كہ دنيا ميں نعمات الہى اپنے ہمراہ رنج و غم اور ناگوارى لاتى ہيں _

۱۳_ اخروى زندگى ميں ، پاكيزہ روزى اور زينتوں سے استفادہ فقط اہل ايمان سے مختص ہوگا_

قل هى للذين امنوا خالصة يوم القيامة

۱۴_ كفار، قيامت كے دن خدا كى عطا كردہ زينتوں اور پاكيزہ روزى سے محروم ہونگے_

قل هى للذين ء امنوا خالصة يوم القيامة

۱۵_ خداوند متعال(خود) اپنى آيات اور احكام لوگوں كے ليے بيان كرتاہے_

يابنى ادم كذلك نفصل الآيات

۱۶_ كھانے پينے كى چيزوں اور زينتوں كے احكام بيان كرنا اور ان كى حليت كى حدود كا مقرر كيا جانا، خداوندمتعال كى جانب سے آيات اور احكام الہى كى تبيين كا ايك نمونہ ہے_

خذوا زينتكم عند كل مسجد و كلوا و اشربوا و لا تسرفوا كذلك نفصل الآيات

۱۷_ فقط علما، آيات الہى كى تبيين و تشريح سے بہرہ مند ہوتے ہيں _كذلك نفصل الآيات لقوم يعلمون

ان آيات كے اول ميں ''يا بنى آدم'' جيسا كلى و عام خطاب اس بات پر گواہ ہے كہ قرآنى معارف كى تشريح اور تبيين سب لوگوں كے ليے ہے_ بنابرايں خصوصاً علماء كا نام لينا (لقوم يعلمون) ہوسكتاہے اس ليے ہو كہ فقط وہى اس (تبيين و تشريح) سے بہرہ مند ہونگے_

۱۸_ بارگاہ خداوند ميں علم كو غير معمولى اہميت حاصل ہے_كذلك نفصل الآيات لقوم يعلمون

۶۰۶

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ داري۸

آيات خدا:آيات خدا سے استفادہ ۱۷; آيات خدا كى تبيين ۱۵، ۱۶، ۱۷

احكام :احكام كى تبيين ۱۵، ۱۶

اصل حليت : ۶

انسان :انسان كى مادى ضروريات۵

ايمان :ايمان كے آثار ۱۱

بدعت :بدعت كے خلاف جنگ ۸

بدعت گذار لوگ :بدعت گذار لوگوں كى مذمت ۲

پينے كى اشياء :پينے كى اشياء كى حليت ۶; پينے كى اشياء كے احكام ۱۶

جاہليت :صدر اسلام ميں جاہلى رسوم ۷; محرمات جاہليت ۷

حلال :حلال كى تحريم كرنے پر سرزنش ۲

خدا تعالى :خدا كى خالقيت ۱; خداوندمتعال كى طرف سے حوصلہ افزائي ۴;خداوند متعال كى طرف سے سرزنش ۲

رنج :دنيوى رنج ۱۲

روزى :آخرت كى پاكيزہ روزى ۱۳; اخروى روزى سے محروميت ۱۴; روزى سے استفادہ ۳; روزى كے خلق كرنے كا فلسفہ ۳

زينت :احكام زينت كى تبيين ۱۶;اخروى زينت ۱۳; اخروى زينتوں سے محروميت ۱۴; زينت كو حرام قرار دينا ۲; زينت كى حليت ۶; زينتوں سے استفادہ ۳، ۹، ۱۰، ۱۲; زينتوں كا مبدا ۱;زينتوں كے خلق كرنے كا فلسفہ ۳، ۱۰

ضروريات :پاكيزہ غذا كى ضرورت ۵; زينت كى ضرورت ۵

طيّبات :طيّبات سے استفادہ ۹; طيّبات كا مبدا منشاء ۱;

۶۰۷

طيّبات كو حرام قرار دينا ۲

علم :علم كى اہميت ۱۸علما ئ:علما ء كے فضائل ۱۷

كفار :كفار اور زينتوں سے استفادہ ۹; كفار كى اخروى محروميت ۱۴; كفار اور طيّبات ۹

كھانے كى اشياء :كھانے كى اشياء كى حليت ۶; كھانے كى اشياء كے احكام ۹; كھانے كى اشياء كے احكام كى وضاحت۱۶

مباحات :مباحات كى حدود كى تبيين ۱۶

محرمات :جعلى محرمات كے خلاف جنگ ۸

مؤمنين :مؤمنين اور آخرت ۱۳; مومنين كے فضائل ۱۰

نعمت :نعمتوں سے استفادہ ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲; نعمتوں كى خلقت كا فلسفہ ۱۰

وسائل:دنياوى وسائل سے استفادہ ۴

آیت ۳۳

( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

كہہ دليجے كہ ہمارے پروردگار نے صرف بدكاريوں كو حرام كيا ہے چاہے وہ ظاہرى ہوں يا باطنى _ اور گناہ اور ناحق ظلم اور بلا ذليل كسى چيز كو خدا كا شريك بنانے اور بلا جانے بوجھے كسى بات كو خدا كى طرف منسوب كرنے كو حرام قرار دياہے

۱_خداوندمتعال نے برے اور قبيح كردار، ناپسنديدہ اعمال اور ظلم و ستم كو حرام قرار ديا ہے_

قل انما حرم ربّى الواحش ما ظهر منها و ما بطن والاثم والبغى بغير الحق

''فواحش'' ''فاحشة'' كى جمع ہے جس سے مراد ''برے اور قبيح كام'' (مثلاً زنا اور لواط و غيرہ) ہيں _ اور ''اثم'' ناپسنديدہ كردار (مثل شراب خوارى و غيرہ) كو كہتے ہيں (مجمع البيا ن سے ماخوذ)

۶۰۸

۲_ ہر بُرا كردار خواہ خفيہ طور پر انجام پائے يا آشكار و علانيہ، حرام ہے_

انما حرم ربى الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

برے اور شنيع اعمال كو دو قسموں آشكار اور غير آشكار ميں تقسيم كرنا، ہوسكتا ہے ان كے انجام پانے كى كيفيت كى جانب اشارہ ہو_ يعنى زنا جيسا برا فعل خواہ خفيہ طور پر انجام پائے يا علانيہ طورپر، حرام ہے_ يہ بھى احتمال ہے كہ يہ تقسيم مجموعا تمام برے اور قبيح كرداروں كى جانب اشارہ ہو_ يعنى برے كردار دو طرح كے ہيں _ ايك وہ جوكہ عام طور پر خفيہ انجام پاتے ہيں _ مثل چورى و زنا و غيرہ اور دوسرے وہ كہ جنہيں انجام دينے ميں لوگ ان كے خفيہ ہونے كى پرواہ نہيں كرتے_ مثلا ً بعض ظلم و ستم علانيہ طور پر انجام ديئے جاتے ہيں _

۳_ برے كردار كى ہر دو نوں قسميں (يعنى خفيہ طور پر انجام پانے والے برے كردار يا سرعام انجام پائے جانے والے برے اعمال) حرام ہيں _انما حرم ربّى الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

۴_ خير اور ثواب (كے كاموں ) سے روكنے والے كردار اور اعمال، محرمات الہى ميں سے ہيں _

انما حرّ م ربّي الاثم

كلمہ ''الاثم'' كا معنى وہ كام ہيں جو ثواب و نيكى تك پہنچنے ميں تاخير كا باعث بنتے ہيں _ (مفردات راغب)

۵_ لوگوں پرناجائز تسلط و حاكميت حاصل كرنے كى كوشش كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے_

انما حرم ربي و البغى بغير الحق

''بغي'' كے معانى ميں سے ايك تسلط طلبى ہے اس صورت ميں ''بغير الحق'' احترازى ہوگا_

۶_ خداوندمتعال كے ليے كسى شريك كے وجود كا تصور كرنا، اور خدا پر افتراء باندھنا محرمات الہى ميں سے ہے_

ان تشركوا بالله ما لم ينزل به سلطنا و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۷_ تمام گذشتہ اديان ميں برے اعمال، ناپسنديدہ كردار، ظلم و ستم اور خداوندمتعال پر جھوٹ و افترا باندھنا، محرمات الہى ميں سے سمجھے جاتے تھا_قل انما حرّ م

فعل ماضى ''حرم'' مندرجہ مفہوم كى طرف اشارہ ہے_

۸_ ايام جاہليت ميں لوگوں كے درميان، برے كردار،

۶۰۹

ناپسنديدہ اعمال، ظلم و ستم، شرك اور خداوند متعال پر افترا كا عام رواج ہونا_

قل من حرّ م زينة الله انما حرم ربى الفواحش و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

جملہ ''انما حرم ...'' ميں حصر ہوسكتاہے حصر حقيقى ہو_ يعنى محرمات الہى كى بنياد انہى مذكورہ پانچ امور ميں منحصر ہے اور دوسرے محرمات كى بازگشت انہى كى جانب ہوتى ہے اور يہ بھى ہوسكتاہے كہ ان سے مراد حصر قلب ہو جو كہحصر اضافى كى اقسام ميں سے ہے، اس قسم كا حصر، مخاطب كے اعتقاد اور طور طريقے نظر ركھنے ليے ہوتاہے ،اور اس كا مقصد، اس كے تصورات و اعتقادات اور طور طريقوں كا ردّ كرنا اور اس كے برعكس امور كا اثبات كرنا ہے_ يعنى جس زينت و زيبائي اور روزى و رزق كو تم نے حرام قرار دياہے اور جن سے تم پرہيز كرتے ہو وہى حلال ہيں اور اس كے برعكس فواحش و غيرہ حرام ہيں _

۹_ برے و قبيح كردار اور دوسرے محرمات كى تحريم كا منشائ، ربوبيت خداوندمتعال ہے_

انما حرم ربى الفواحش ما لا تعلمون

۱۰_ خداوند متعال كى جانب سے حرام كردہ چيزوں كى تعداد محدود ہے اور ان ميں سے ہر ايك (حرمت) كے اثبات كے ليے دليل و برھان كى ضرورت ہے_قل انما حرم ربّي ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۱۱_ پاكيزہ رزق و روزى اور زينتيں ، محرمات الہى (بُرے كردار و اعمال و غيرہ) كے دائرے سے خارج ہيں _

قل من حرم زينة الله قل انما حرم ربّى الفواحش

۱۲_ شرك پر كسى قسم كى دليل و برھان قائم نہيں كى جاسكتي_و ان تشركوا بالله ما لم ينزل به سلطنا

۱۳_ خداوند متعال كى جانب سے انسانون كے قلب و افكار پر استدلالات اور براہين فيض ہونا_

ما لم ينزل به سلطانا

ہوسكتاہے ''تنزيل'' سے مراد ''ايجاد كرنا'' ہو_ يعنى خداوند متعال نے شرك كے ليے كوئي بھى دليل و برھان خلق نہيں كي_ اس صورت ميں ''سلطانا'' سے عقلى و نقلى براہين مراد ہيں اور يہ بھى احتمال ہے كہ ''تنزيل'' سے مراد، معارف و احكام الہى كا نازل كرنا ہو اس صورت ميں ''سلطانا'' كا معنى نقل برھان ہوگا_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۴_ خدا نے گذشتہ كسى بھى مذہب و آئين ميں اپنے سوا كسى دوسرے معبود كى عبادت و پرستش كا حكم نہيں

۶۱۰

ديا_و ان تشركوا بالله ما لم ينزل به سلطنا

۱۵_ كسى حكم كے خداوند متعال كى جانب سے صادر ہونے كا علم ركھے بغير، اس حكم كو خدا كى جانب منسوب كرنا يا فتوى حرام ہے_انما حرم ...و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۱۶_ خداوندمتعال كى جانب منسوب كى گئي ہر بات كو علم و يقين پر مبنى ہونا چاہيئے_و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۱۷_ پاكيزہ رزق و روزى اور زينت و زيبائش كو حرام قرار دينا، خداوند متعال پر افترا ہے_

قل من حرم زينة الله ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

گذشتہ آيت كے قرينے كے مطابق، افترا كے مطلوبہ مصاديق ميں سے ايك، پاكيزہ رزق اور زينت كا حرام كرنا ہے_

۱۸_عن ابى الحسن عليه‌السلام : قول الله تبارك و تعالى : ''قل انما حرم ربى الفواحش ما ظهر منها و ما بطن والاثم والبغى بغير الحق ...''اما قوله : ''و ما بطن'' يعني، ما نكح من الاباء فان الناس كانوا قبل ان يبعث النبي(ص) اذا كان للرجل زوجة و مات عنها تزوجها ابنه من بعده اذا لم تكن امه فحرم الله ذلك و اما ''الاثم'' فانها الخمرة بعينها و اما قوله : ''البغي'' فهو الزنا سرا (۱)

آيت ''قل انما حرم ربى الفواحش ...'' ميں ''ما بطن'' كے بارے ميں امام كاظمعليه‌السلام سے منقول ہے كہ :''و ما بطن'' يعني، باپ كى بيوى سے شادى كرنا_ چونكہ رسول خدا(ص) كے مبعوث ہونے سے پہلے، اگر كوئي شخص مرجاتا اور اسكى كوئي بيوى باقى رہ جاتى تو متوفى كا بيٹا، اسے، اپنى ماں نہ ہونے كى صورت ميں اپنى بيوى بنا ليتا تھا_ خداوند متعال نے اس قسم كى ازدواج كو حرام قرار ديا ہے اور ''الاثم'' سے مراد شراب ہے اور ''بغي'' كا معنى خفيہ طور پر زنا كرنا ہے_

۱۹_سئل على بن الحسين عليه‌السلام عن الفواحش ما ظهر منها و ما بطن قال : ما ظهر نكاح امراة الاب و ما بطن الزنا (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے ظاہرى اور باطنى فواحش كے بارے ميں پوچھا گيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا : ظاہرى فاحشہ سے مراد باپ كى بيوى سے شادى كرنا اور باطنى فاحشہ سے مراد ''زنا'' ہے_

۲۰_عن محمد بن منصور قال : سالت عبدا

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۲ ص ۱۷ ح/ ۳۸_ تفسير برھان ج/ ۲ ص ۱۴ ح ۶_

۲) كافي، ج/ ۵ ص ۵۶۸ ح ۴۷_ تفسير برھان ج/ ۲ ص ۱۳_ ح/ ۱_

۶۱۱

صالحا عن قول الله عزوجل :''قل انما حرم ربّى الفواحش ما ظهر منها و ما بطن، قال: ان القرآن له ظهر و بطن فجميع ما حرم الله فى القرآن هو الظاهر و باطن من ذلك اء مة الجور (۱)

محمد بن منصور كہتے ہيں : ميں نے امام كاظمعليه‌السلام سے آيت ''قل انما حرم ...'' كے بارے ميں پوچھا_ آپعليه‌السلام نے فرمايا : قرآن كا ظاہر اور باطن ہے_ قرآن مجيد ميں جس كو خداوندمتعال نے حرام قرار ديا ہے وہ آشكار اور علانيہ برائي ہے اور اسكا باطن، ظالم پيشواؤں كى پيروى كرنا ہے_

اجر :اجر و پاداش كے موانع ۴

احكام : ۱،۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۱۵احكام كا توفيقى ہونا ۱۵; احكام كے وضع كرنے ميں علم كا كردار ۱۶

افترا :جاہليت كے زمانہ ميں خدا پر افترا ۸; خدا پر افترا ۱۵، ۱۷;خدا پر افترا كى حرمت ۶، ۷

بدعت :بدعت كى حرمت۱۵; بدعت كے مواقع ۱۷

برہان :برہان كى اہميت ۱۳

توحيد :اديان ميں توحيد عبادى ۱۴; توحيد عبادى كى اہميت ۱۴

جاہليت :ايام جاہليت ميں ظلم ۸; ايام جاہليت ميں ناپسنديدہ عمل ۸; جاہلى ثقافت ۸

حاكميت :حرام حاكميت ۵

حلال :حلال كو حرام كرنا ۱۷

خدا تعالى :خدا كى جانب حكم منسوب كرنا ۱۵، ۱۶; ربوبيت خدا ۹; عطائے خدا ۱۳

خمر :حرمت خمر ۱۸

خير :خير و نيكى كے موانع ۴

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۳۷۴ ح ۱۰ نور الثقلين ج/ ۲ ص ۲۵_ ح ۸۹_

۶۱۲

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰

روزى :پاكيزى روزى ۱۱; پاكيزہ روزى كو حرام كرنا ۱۷

رہبر:ظالم رہبروں كى اطاعت ۲۰

زنا :خفيہ زنا ۱۸; زنا كى برائي ۱۹

زينت :دنيوى زينت كو حرام كرنا ۱۷; زينت و زيبائش كى حليت ۶

شادي:حرام شادى ۱۸; والد كى بيوى سے شادى ۱۸، ۱۹

شرك :شرك كا خلاف منطق و عقل ہونا ۱۲; شرك كى حرمت ۶

ظلم :ظلم كا حرام ہونا ۱; ظلم كى حرمت، ۷

عبادت :گذشتہ اديان ميں عبادت ۱۴

عمل :حرام عمل ۴، ۵; ناپسنديدہ عمل كو خفيہ طور پر انجام دينا ۲، ۳; ناپسنديدہ عمل كى تحريم ۱، ۹; ناپسنديدہ عمل كى حرمت ۲، ۳، ۷

فحشا:آشكار فحشا ۱۹، ۲۰ خفيہ فحشاء ۱۹، ۲۰; فحشا كى تحريم ۱; فحشاء كى حرمت ۲، ۳

قرآن :قرآن كا باطن ۲۰; قرآن كا ظاہر ۲۰

محرمات : ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۱۵، ۱۸، ۲۰

گذشتہ اديان ميں محرمات ۷; محرمات كا توقيفى ہونا ۱۰; محرمات كو وضع كرنا ۹;محرمات كى حدود ۱۱; محرمات كى محدوديت ۱۰

۶۱۳

آیت ۳۴

( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاء أَجَلُهُمْ لاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ )

ہر قوم كے لئے ايك وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو ايك گھڑى كے لئے نہ پيچھے ٹل سكتا ہے اور نہ آگے بڑھ سكتا ہے

۱_ ہر قوم اور امت كى پيدائش اور زوال كا وقت ايك دقيق نظام كے مطابق، معين ہوچكاہے_

و لكل امة اجل فاذا جاء اجلهم و لا يستقدمون

۲_ اپنے مقررہ وقت اور زمانے كے دوران قوموں اور امتوں كا پيدا ہونا ناقابل تخلف ہے اور اس ميں ذرا بھر تاخير اور دير نہيں ہوگي_فاذا جاء اجلهم لا يستاخرون ساعة

۳_ انسانى معاشرے اور قوميں ، اپنى تاريخ حيات كو جلد از جلد طے كرنے سے عاجز اور ناتوان ہيں

فاذا جاء اجلهم لا يستاخرون ساعة و لا يستقدمون

۴_ امتوں اور قوموں كى پيدائش اور ان كى نابودى (زوال) ان كے اختيار سے باہر ہے_

فاذا جاء اجلهم لا يستقدمون

۵_ زندگى اور اس كى وسعتوں كے محدود ہونے كى جانب توجہ كرنا، محرمات الہى سے بچنے كا باعث بنتاہے_

حرم ربّى الفواحش ؤ لكل امة اجل فاذا جاء اجلهم لا يستاخرون ساعة

۶_ منحرف اور بدكار معاشروں كو خداوند متعال كى جانب سے تہديد اور تنبيہ_

قل انما حرم ربى الفواحش و لكل امة اجل

اجتماعى نظم:اجتماعى نظم كے اسباب ۵

امم :امتوں كى كا زوال ۱، ۴;امتوں كى اجل (مدت) ۱، ۳، ۴; امتوں كى پيدائش كا قانون و ضابطے كے مطابق ہونا ۱، ۲، ۴; امتوں كى حيات كا قانون كے

۶۱۴

مطابق ہونا ۳

حيات :دنيوى حيات كى محدوديت ۵

خدا تعالى :خداوند متعال كى طرف سے خبردار كيا جانا ۶; سنن خدا ۱، ۲

محرمات :محرمات سے اجتناب كے علل و اسباب ۵

معاشرہ :معاشروں كا ضابطے و قانون كے مطابق ہونا ۳; منحرف و گمراہ معاشرے ۶

منحرفين :منحرفين (گمراہوں ) كو خبردار كيا جانا ۶

آیت ۳۵

( يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ )

اے اولاد آدم جب بھى تم ميں سے ہمارے پيغمبر تمہارے پاس آئيں گے اور ہمارے آيتوں كو بيان كريں گے تو جو بھى تقوى اختيار كرلے گا اس كے لئے نہ كوئي خوف ہے اور نہ وہ رنجيدہ ہوگا

۱_ خود انسانوں ميں سے، منتخب شدہ انبيا اور رسل الہى كا ان كى جانب مبعوث ہونا_

ييبنى آدم اما ياتينكم رسل منكم

۲_ انبيا اور رسل الہى كے اصلى فرائض ميں سے ايك ان كا بنى آدم كے ليے آيات الہى بيان كرنا اور ان كى تلاوت كرنا ہے_اما ياتينكم رسل منكم يقصون عليكم ء اياتي

۳_ خداوندمتعال كا پيام پہنچانے كے حوالے سے رسالت انبيائعليه‌السلام كے مقاصد ميں سے ايك انسانوں كو تقوى اور اچھے كردار كى جانب رغبت دلانا ہے_يقصون عليكم اياتي فمن اتقى و اصلح

۶۱۵

۴_ آيات الہى كى تكذيب سے بچنے اور انبياء الہى كى باتوں پر كان دھرنے كى ضرورت_

رسل منكم يقصون عليكم اياتى فمن اتقى

بعد والى آيت كے قرينے سے، جملہ ''فمن اتقى '' ميں تقوى سے مراد انبياء اور ايات الہى كى تكذيب سے بچنا ہے_

۵_ كردار و اعمال كى اصلاح كى جانب حركت كرنے كا مقدمہ تقوى اختيار كرنا ہے_فمن اتقى و اصلح

''اصلح'' پر ''اتقي'' كو مقدم كرنا، ہوسكتاہے رتبے كے تقدم كى طرف اشارہ ہو_

۶_ بعض قوميں اور امتيں ، خداوندمتعال كى جانب سے رسول اور پيامبر كى بعثت سے محروم تھيں _

اما ياتينكم رسل منكم

''ان'' شرطيہ اور ''مائے زائدہ سے مركب، كلمہ ''امّا'' تاكيد كے ليے ہے_ مائے زائدہ اور نون ثقيلہ كے ساتھ جملے كى تاكيد كا تقاضا يہ ہے كہ انبيائعليه‌السلام كى بعث قطعى اور يقينى ہے_ ''ان'' شرطيہ كے ذريعے جملے كے شروع ہونے كا مطلب يہ ہے كہ ممكن ہے بعض امتيں اور قوميں ، پيغمبر اور رسول (جيسى نعمت) سے محروم ہوں _

۷_ انبياء الہى كى تصديق كرنے والے اور تقوى اختيار كرنے والے نيك كردار لوگ، قيامت كے دن، عذاب الہى سے محفوظ اور ہر قسم كے غم و رنج سے دور ہونگے_فمن اتقى و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

بعد والى آيت كے مطابق، (لاخوف) ''خوف نہ ہونے'' سے مراد ''دوزخ كى آگ ميں گرفتار ہونے سے محفوظ ہونا'' ہے_

۸_ قيامت كے دن، غير متقى اور بدكردار لوگوں پر غم و اور خوف كے بادل چھائے ہوئے ہوں گے_

فمن اتقى و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

آيات خدا :آيات خدا كى تكذيب سے اجتناب ۴; آيات خدا كى تلاوت ۲

اطاعت :انبياء كى اطاعت كى اہميت ۴

امم :پيغمبر سے محروم امتيں ۶

انبياعليه‌السلام ء :انبياء پر ايمان لانے والے ۷; انبياء كا مبدائ۱; انبيا ء كا منتخب ہونا ۱; انبيا كى باتيں غور سے سننا ۴; انبياء كى جنس ۱;انبياء كى ذمہ دارى ۲; انبياء كى رسالت كے درميان وقفہ۶; انبيا ء كے اھداف ۳

۶۱۶

بے تقوى لوگ :بے تقوى افراد كا اخروى خوف ۸; بے تقوى افراد كا اخروى غم ۸

تقوى :تقوى كى اہميت ۳; تقوى كے آثار ۱۵

خدا تعالى :عذاب خدا ۷

رسل الہى : ۱

رفتار و كردار :رفتار و كردار كى اصلاح كے اسباب ۵

عمل :نيك و پسنديدہ عمل كى اہميت ۳

فاسد لوگ :فاسدوں كا اخروى خوف ۸; فاسد لوگوں كا اخروى غم ۸

قيامت :قيامت كے دن كا غم ۷; قيامت كے دن كى امنيت ۷

متقين :متقين كا اخرت ميں پر امن ہونا۷; متقين كے فضائل ۷

مؤمنين :مؤمنين كا آخرت ميں پر امن ہونا۷; مؤمنين كے فضائل ۷

آیت ۳۶

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا أُوْلَـَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ )

اور جن لوگوں نے ہمارے آيات كى تكذيب كى اور اكڑ گئے وہ سب جہنّى ميں اور اسى ميں ہميشہ رہنے والے ہيں

۱_ آيات الہى (انبياء پر نازل ہونے والے احكام و معارف) كى تكذيب كرنے والے اور رسالت انبياء كا انكار كرنے والے لوگوں كا انجام دوزخ كى آگ ميں گرفتار ہونا ہے_والذين كذبوا هم فيها خلدون

۲_ تكبر و غرور اور اپنے آپ كو برتر سمجھنے كے نتيجے ميں آيات الہى كو قبول نہ كرنے اور ان سے دور ہونے كا انجام، آتش جہنم ہے_

۶۱۷

والذين كذبوا بآيتنا واستكبروا عنها اولئك اصحب النار

استكبار كا معنى اپنے آپ كو بڑا و برتر جاننا اور تكبر كرنا ہے_ چونكہ يہ كلمہ حرف ''عن'' كے ساتھ متعدى ہوا ہے لہذا اعراض و امتناع كا معنى ديتاہے_ بنابرايں''استكبروا عنها'' يعنى''اعرضوا عنها متكبرين''

۳_ دوزخ كى آگ، دائمى اور ابدى ہے_ (لہذا) آيات الہى كو جھٹلانے والے ہميشہ اس ميں رہيں گے_

اولئك اصحاب النار هم فيها خلدون

آيات خدا :آيات خدا سے اعراض كرنے كى سزا ۲; آيات

خدا كو جھٹلانے والوں كا انجام ۱،۳

استكبار :استكبار كے آثار۲

انبيائعليه‌السلام :انبياء كو جھٹلانے والوں كا انجام ۱; انبياء كو جھٹلانے والوں كى سزا ۱

تكبر :تكبر كے آثار ۲

جہنم :آتش جہنم ۲، ۳; جہنم كا ابدى ہونا ۳;جہنم كے علل و اسباب ۲; جہنم ميں ہميشہ رہنا ۳

جہنمى لوگ : ۱، ۳

۶۱۸

آیت ۳۷

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِباً أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ أُوْلَـئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ حَتَّى إِذَا جَاءتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُواْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ قَالُواْ ضَلُّواْ عَنَّا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ )

اس سے بڑا ظالم كون ہے جو خدا پر چھوٹا الزام لگائے يا اس كى آيات كى تكذيب كرے _ ان لوگوں كو ان كى قسمت كا لكھا ملتارہے گا يہاں تك كہ جب ہمارے نمائندے فرشتے مّدت حيات پورى كرنے كے لئے آئيں گے تو پوچھيں گے كہ وہ سب كہاں ميں جن كو تم خدا كو چھوڑكر پكارا كرتے تھے _ وہ لوگ كہيں گے كہ وہ سب تم گم ہوگئے اور اس طرح اپنے خلاف خود بھى گواہى ديں گے كہ وہ لوگ كافر تھے

۱_ خداوندمتعال پر افترا باندھنے والے اور آيات الہى كو جھٹلانے والے افراد ہى ظالم ترين لوگ ہيں _

فمن اظلم ممن افترى على الله كذبا او كذب بآياته

۲_ آيات الہى كى تكذيب كى طرح، دين الہى ميں بدعت ايجاد كرنا بھى سب سے بڑا ظلم ہے_

فمن اظلم ممن افترى على الله كذبا او كذب بآياته

۳_ دنيا ميں ہر انسان كا حتمى طور پر حصہ اور نصيب لكھا ہوا ہے_اولئك ينالهم نصيبهم من الكتب

۴_ تمام لوگ، حتى كہ خداوند متعال پر افترا باندھنے

۶۱۹

والے اور اسكى آيات كو جھٹلانے والے بھي، اپنى موت كے آنے تك، اس دنيا ميں سے اپنا تعيين شدہ حصہ اور نصيب حاصل كريں گے_فمن اظلم اولئك ينالهم نصيبهم من الكتب حتى اذا جاء تهم رسلنا

''الكتاب'' مصدر اور اسم مفعول كے معنى ميں ہے_ يعنى مكتوب اور مقدر جبكہ ''من'' ابتدائے غايت كے ليے ہے يعنى مقدرات الہى ميں سے جو حصہ كافروں كا ہے وہ ان تك پہنچے گا

۵_ مشركين كى جان ليتے وقت موت كے فرشتوں كا ان سے گفتگو كرنا_قالو اين ما كنتم قالوا ضلوا عنا

۶_ بعض فرشتے خداوندمتعال كى جانب سے بہت سى ذمہ داريوں اور فرائض كے حامل ہيں _

اذا جاء تهم رسلنا يتوفونهم

۷_ خداوند متعال كى جانب سے بعض فرشتے بنى آدم كى جان لينے پر مامور ہيں _حتى اذا جاء تهم رسلنا يتوفونهم

۸_ انسانوں كى روح قبض كرنے كيلئے خدا نے كئي فرشتوں كو مامور كر ركھا ہےاذا جاء تهم رسلنا يتوفونهم

۹_ موت فنا اور نابودى نہيں ہے بلكہ اپنى جان فرشتوں كے سپرد كرناہے_اذا جاء تهم رسلنا يتوفونهم

مارنے كے ليے كلمہ ''توفي'' كا استعمال كرنا ( كہ جو كامل طور پر لے لينے'' كے معنى ميں ہے) نہ كہ كلمہ ہلاكت و غيرہ سے استفادہ كرنا، اس حقيقت كو ظاہر كررہاہے كہ انسان مرنے كے ساتھ ختم نہيں ہوجانا يعنى موت اسكى فنا نہيں ہے_

۱۰_ انسان كى تمام تر حقيقت، روح ہے_اذا جاء تهم رسلنا يتوفونهم

قرآن نے موت كو ''كامل لے لينے'' (توفي) سے تعبير كيا ہے_ جبكہ انسان كا جسم نہيں ليا جاتا_ بنابرايں ، انسان كى روح اور جان ہى اسكى تمام تر حقيقت ہے_

۱۱_ مشركين، مشكلات سے نجات اور رہائي دلوانے ميں اپنے معبودوں كے توانا اور كارساز ہونے پر عقيدہ ركھتے تھے_

اين ما كنتم تدعون من دون الله

۱۲_ موت كے وقت، اپنے جھوٹے معبودوں تك مشركين كى رسائي نہ ہونا_

قالوا اين ما كنتم تدعون من دون الله قالوا ضلوا عنا

۱۳_ اپنے معبودوں كے توانا اور كارساز ہوئے پر اعتقاد ركھنے كى وجہ سے مشركين كو موت كے وقت، ملائيكہ

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744