تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167205 / ڈاؤنلوڈ: 5030
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

(هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنَ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُوراً )(١)

''کیا انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے سے نہیں تھا؟''۔

کبھی سوالات کودوسروں کی زبان سے بھی بیان کرتا ہے:

( ٰیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ )(٢)

''(اے پیغمبر!) آپ سے یہ لوگ انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ )(٣)

''(اے پیغمبر!)یہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَةِ )(٤)

''(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے فتویٰ دریافت کرتے ہیں تو آپ ان سے کہدیجئے کہ خداوند کلالہ (بھائی بہن) کے بارے میں حکم بیان کرتا ہے...''۔

پیغمبر اکرم کے بیانات میں بھی سوال وجواب کے طریقے کثرت سے پائے جاتے ہیں:

''آیا تم میں سب سے افضل شخصکے بارے میں خبر نہ دوں... ''؟

''آیا خدا کے نزدیک بہترین اعمال کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں لوگوں میں سب سے بڑے انسان کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں ایسے لوگوں سے باخبر نہ کروں جو اخلاق میں مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں...؟

اخلاقی اقدار کی دعوت کے لئے کلی طور پر آیات وروایات، نصیحت آمیز اشعار اور بزرگوں کے کلمات سے استفادہ کہ جو ''مقبولات عقلی '' شمار ہوتے ہیں، دعوت کی تاثیر میں دوگنا اضافہ کردیتا ہے۔

اخلاقی اقدار کی طرف دعوت کی روش سے استفادہ ''خود تربیتی'' کی صورت میں یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اس دعوت کے معرض میں قرار دیتے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔانسان، آیت١۔ ٢۔ سورہ ٔانفال، آیت١۔ ٣۔ سورہ ٔبقرہ، آیت١٨٩۔ ٤۔ سورہ ٔنسائ، آیت١٧٦۔

۲۰۱

دوسری فصل:

ا سلا م میں ا خلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔ عقلانی قوت کی تربیت

(اقدار اور موعظہ کی دعوت)گذشتہ روش کے برعکس کہ عام طور پر انسان کے عاطفی پہلو پر تاکیدکرتی ہے، اس روش میں بنیادی تاکید انسان کے شناختی، معرفتی اور ادراکی پہلو پر ہے، جس طرح عاطفی محرّک رفتار کے اصول ومبادی میںشمار ہوتا ہے، فائدہ کا تصور وتصدیق بھی شناخت کیاصول ںومبادی میں سے ہے کہ یہ روش اس کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔

قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات وتعلیمات اس روش اور طریقے پرتاکید کرتے ہیں، اور اس کے حدود، موانع اور مقتضیات کو بیان کرتے ہیں۔

قرآن نے تعقل، تفقہ، تدبر، لبّ، حجر، نہیٰ، حکمت، علم وفہم جیسے الفاظ کا استعمال (ان ظریف تفاوت کے لحاظ سے بھی جو ان کے درمیان پائے جاتے ہیں) کا اس روش سے استفادہ کے لئے کیا ہے۔ قرآنی آیات مندرجہ باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کی معرفت اور عقثلانی قوت کی پرورش کرتی ہے:

استفہام تقریری یا تاکیدی کے ذریعہ سے(١) گذشتہ افراد یا اکثریت کی اندھی تقلیداورپیروی کرنے کی ممانعت ہے،(٢) ان لوگوں کی مذمت جوتعقل نہیں رکھتے،(٣) ان لوگوں کی مذمت جوبغیر دلیل کے کسی چیز کو قبول کرلیتے ہیں،(٤) تعقل وتدبرکی دعوت،(٥) موازنہ اور تنظیر،(٦) احسن انتخاب پرترغیب وبشارت(٧) وغیرہ۔

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٤٤۔سورہ ٔقیامت، آیت٢۔

٢۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٢۔٢٣۔٢٤ اور سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔

٣۔ سورہ ٔانفال، آیت٢٢۔

٤۔ سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٠۔

٥۔ سورہ ٔیوسف، آیت ١٠٥۔

٦۔ سورہ ٔزمر، آیت٩، سورہ ٔرعد، آیت ١٦ اور سورہ ٔنحل، آیت٧٦۔

٧۔ سورہ ٔزمر، آیت ١٨۔

۲۰۲

روایات بالخصوص اصول کافی کی کتاب عقل وجہل اور دیگرروائی ماخذمیں بھی عقل وتعقل کو عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیاہے اورانسان کے اخلاقی تربیت سے متعلق خاص طورپر اس کے نقش وکردارکو موردتوجہ قراردیا گیا ہے۔(١)

علمائے اخلاق کی تربیتی روش میں بھی ان کی اصلاحی تدبیروں راہنمائیوں کا ایک قابل توجہ حصہ انسان کی شناختی پہلوسے متعلق ہے ،جیسے انسان کے ذہنی تصورات کی ایجاد یا تصحیح خود عمل یا اخلاقی صفت سے، اعمال کے دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج کی ترسیم، اخلاقی امور کے بُرے یا اچھے لوازم اور ملزومات ان کے اخلاقی نظریہ میں بھی، غضب اور شہوت کی قوتوں پر عقلانی قوت کے غلبہ کواخلاقی رذائل سے انسان کی نجات اور اخلاقی فضائل کی طرف حرکت کا سبب ہے، اس لئے کہ قوۂ عقل کے غلبہ سے تمام قوتوں کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے اور فضیلت کا معیار بھی اعتدال۔ تفکر وتعقل کے وہ موارد جو اخلاقی تربیت میںموثر ہوسکتے ہیں، آیات وروایات میں ان کا تعارف کرایاگیا ہے:

١۔ طبیعت:

''زمین وآسمان میں کتنی زیادہ علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ جن پر سے لوگ گذرتے ہیںاس حال میں کہ اُن سے روگرداں ہوتے ہیں''۔(٢)

٢۔تاریخ:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''حضرت اسماعیل کے فرزندوں، اسحاق کے فرزندوںاور یعقوب کے فرزندوں سے عبرت حاصل کرو، کس قدر ملتوں کے حالات آپس میں مشابہ اور ان کے افعال وصفات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اُن کے پراگندہ اور متفرق ہونے کے بارے میں غور کرو، جس وقت روم وفارس کے بادشاہ اُن کے ارباب بن گئے تھے(٣) میرے بیٹے! یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے گذشتہ افراد کی عمر کے برابر زندگی نہیں پائی ہے، لیکن اُن کے کردار میں غور وفکر کیا ہے، ان کے اخبار کے بارے میں تفکر کیا ہے اور ان کے آثار میں سیر وسیاحت کی ہے کہ ان میں سے ایک کے مانند ہوگیا، بلکہ گویا جو کچھ ان کی تاریخ سے مجھ تک پہنچا ہے ان سب کے ساتھ میں اول سے آخر تک ہمراہ تھا''۔(٤)

____________________

١۔ اصول کافی، ج١، باب جنود عقل وجنود جہل۔٢۔ سورہ ٔیوسف، آیت١٠٥۔٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ، ١٩٢۔ ٤۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۲۰۳

٣۔قرآن:

''آیا قرآنی آیات میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا (یہ کہ) ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں''۔(١)

٤۔انسان:

حضرت امام حسین ـ کی دعائے عرفہ کے پہلے فقرات سے اور توحید مفضل(بحار، ج٣) سے مفید اور کار آمد نکات معلوم ہوتے ہیں: اخلاقی قواعد کا اثبات اور تزکیہ باطن عام طور پر بغیر عقلانی قوت کی تربیت کے ممکن نہیں ہے، یہ روش خود سازی اور دوسروں کی تربیت سے وجود میں آسکتی ہے شناخت و معرفت کے ماہرین نفسیات بالخصوص ''پیاژہ'' اس روش کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی نمونوں تک رسائی کو ''قابل تعمیر'' اور فعّال وخود سازی روش جانتا ہے نیز معتقد ہے کہ اخلاقی تحول وانقلاب شناخت کے رشد وتحول کے بغیرممکن نہیں ہے:یہاں پر ایک قسم کی عجیب وحیرت انگیز ہماہنگی، اخلاقی وعقلانی تربیت میں پائی جاتی ہے جسے یوں ذکر کیاجاتا ہے کہ آیا جو کچھ تربیت خارج سے انسان کو دیتی ہے تاکہ اس کے اکتسابی یا فردی ادراک کو بے نیازاور مکمل کرے، سادہ قواعد اور حاضر آمادہ معراف میں محدود منحصر ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں آیا مراد یہ نہیں ہے کہ (صرف) کچھ تکالیف ایک طرح کی اور حس اطاعت انسان پر لازم کی جائے... یایہ کہ اخلاقی تربیت سے استفادہ کا حق عقلی تربیت حق کے مانند یہ ہے کہ انسان حق رکھتا ہو کہ عقل واخلاق کو اپنے اندر واقعاً جگہ دے یا کم ازکم ان کے فراہم کرنے اور ان کی تعمیر میں شریک اور سہیم ہو، تاکہ اس مشارکت کے نتیجہ میں وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں، ان کی تعمیر پر مجبور ہوجائیں۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کی راہ میں، ''خود رہبری'' کا مسئلہ عقلی خود سازی کے مقابلہ میں ان افراد کے درمیان جو اس کی تلاش میں ہیں ذکرکیا جاتا ہے۔(٢)

جو طریقے اس روش کے تحقق میں استعمال کئے جاسکتے ہیں درج ذیل ہیں:

الف ۔افکار کی عطا اور اصلاح:

اخلاقی اعمال فکر کی دوقسموں سے وجود میں آتے ہیں:

پہلی قسم :

انسان کا اپنی ھستی کے بارے میں آگاہ ہونا، دنیا، نظام عالم، مبدأ اور معادکی نسبت وہ کلی یقین ومعتقدات ہیں کہ انھیں خداشناسی اور فلسفہ حیات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نگاہ اپنے اطراف کے عالم پر اُس کی اخلاقی رفتار میںموثر ہے۔ اعتقادات جیسے خدا کی قدرت کااحاطہ اور حضور عالم کا توحیدی انسجام یا نظام تقدیر، خدا پر توکل، تمام امور کا اس کے حوالہ کرنا، تسلیم ورضا وغیرہ سارے کے سارے ہمارے اخلاقی رفتار میں ظاہر ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ (اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَقْفَالُهَا )(سورہ ٔمحمد، آیت٢٤) ٢۔ پیاژہ: تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٥٣۔

۲۰۴

آج کل سلامتی کے ماہرین نفسیات اس نکتہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہ خدا شناسی اور انسجام عالم کی حس کی نسبت، انسان کی مقاومت کے لئے ایک ایسا مرکز فراہم کرتی ہے کہ جو اخلاقی متانت کہ انسان کی سلامتی کے لئے عالم کو دبائو میں ڈالنے والے حوادث کے مقابل تاثیر گذار ہے۔

انسجام کی حس ایک مقابلہ کا مأخذ ہے، حس انسجام (دنیا کے نظم وضبط میں تنظیم ویگانگی کا احساس کرنا) ایک قسم کی خداشناسی ہے کہ جس سے مراد مندرجہ امور کی نسبت دائمی اور مستمرّ اطمینان کے احساس ہے:

١۔ ایسے محرک جو انسان کی پوری زندگی میں باطنی اور بیرونی ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، تشکیل شدہ منظم، پیشین گوئی کے قابل اور قابل توجیہ ہیں۔

٢۔انسان ان ضرورتوں سے روبرو ہونے کے لئے کہ جن کو ان محرکات نے ایجاد کیا ہے، کچھ وسائل ماخذ رکھتا ہے؟

٣۔یہ ضرورتیں، ایسی کوششیں ہیں جو سرمایہ گذاری اور وقت صرف کے لائق ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو قابل درک اور قابو میں کرنے کے لائق جانتے ہیں اور زندگی کے واقعات وحوادث کو بامعنی محسوس کرتے ہیں۔(١)

دوسری قسم :

ایسے افکار ہیں کہ جو عمل کی اصلاح اورصحت سے متعلق ہیں اور یہ کہ یہ خاص رفتار عمل کرنے والے کے ہدف سے یگانگت رکھتی ہے۔اور حقیقت میں اطلاعات دینے کے ایک طریقہ سے مربوط ہے۔

البرٹ الیس شناخت سے متعلق ماہرنفسیات ہے کہ جو اپنی نجاتی روش کے سلسلہ میں عقلی اور عاطفی علاج سے استفادہ کرتا ہے اُس نے غیر عقلی تفکر کے نمونے پیش کرنے کے شاتھ اُس کا علاج جدید آمادگی اور جدید افکار ومعتقدات کو اُن کا جاگزین کیا جانا ہے کبھی غیر اخلاقی رفتار یانامطلوب صفات غلط نظریہ اور خیال کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جو دھیرے دھیرے انسان کے فکری نمونے بن جاتے ہیں اورایسے نظریوں کا تبدیل ہونا اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے، غیر عقلی (غیر معقول) تفکر کے بعض نمونے ہر طرح کی اخلاقی رفتار کی تبدیلی سے مانع ہوسکتے ہیں، الیس ان موارد کو اس طرح بیان کرتا ہے:

١۔انسان اس طرح فرض کرے کہ اُن افراد کی جانب سے جو اس سے متعلق اور اُس کے لئے اہم ہیں مورد تائید، اور لائق محبت و احترام واقع ہو۔

____________________

١۔ Psyhology Health/.p۳۲۷

۲۰۵

٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔

٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔

٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔

ب۔ ا خلاقی استدلال:

پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔

اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:

''اے صاحبان ایمان !... تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے''۔(١)

____________________

١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔

۲۰۶

کبھی اعمال کے دنیوی یا اخروی نتائج کی منظر کشی کرکے افراد کو ان کے عواقب سے آشنا کرتا ہے:

''ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے : ''کس چیز نے تمہیں سقر (کی آگ) میں جھونک دیا ہے؟ '' وہ کہیں گے : ''ہم نمازگذاروں میں سے نہیں تھے، اور مسکینوں اور بے نوائوں کو ہم کھانا نہیں دیتے تھے...''(١)

ج۔ مطالعہ اور اطلاعات کی تصحیح:

مطالعہ لغت میںان معانی میں استعمال ہوتا ہے: کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے اُس کو دیکھنا ، کسی کتاب یا کسی نوشتہ کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا.......۔

آخری سالوں میں اطلاعات فراہم کرنے والوں کے اقدام نے بہت سے ماہرین نفسیات کی توجہ اپنی طرف جلب کرلی ہے(٢) کیونکہ جو اطلاعات انسان کے ذہنی سسٹم میں وارد ہوتی ہیں، وہ انسانی رفتار کو جہت دینے میں ایک اہم اور قابل تعیین کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اطلاع کی فراہمی کا اندازبھی اہم ہوتا ہے کہ افکار کی عطا کی بحث میں ان کی طرف اشارہ ہواہے۔ بِک ] Beck [منجملہ ان کے ماہریں نفسیات میں سے ہے کہ جو اسی طریقۂ عمل سے افسردگی کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اخلاقی بیماریوں کا علاج کرنے یا کلی طور پر صحیح اخلاقی تربیت یا فضائل اخلاقی کی ر اہ پیدا کرنے میں اسی طرز واسلوب سے مدد لے سکتے ہیں، یعنی اخلاقی مشکلات کے سلسلہ میں علم اخلاق کی مناسب کتابوں کا مطالعہ اور جدید اطلاعات کے حصول سے انسان اپنے عمل کے اسباب وعوامل کو پہچان لیتا ہے اور اس میں تبدیلی یااصلاح انجام دیتا ہے اور بالواسطہ طور پر اخلاقی تربیت کا باعث ہوتاہے۔ کبھی اس کی سابق اطلاعات سے متعارض اطلاعات اُسے غور وفکر اور فیصلہ کرنے نیز تجدید نظر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

د ۔مشورت ومشاورہ:

اس سے مراد مربی اور تربیت دیئے جانے والے یاوالدین اور فرزندوں کے درمیان ایک طرح کا معاملاتی رابطہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کریں اور اخلاقی مسائل میں ایک مشترک راہ حل تک رسائی حاصل کریں۔ یہ طرز تربیت پانے والی شخصیت کے احترام واکرام

____________________

١۔ سورہ ٔمدثر، آیت ٤٠تا ٤٤۔

٢۔ روان شناسی رشد بانگرش بہ منابع اسلامی، ج٢، ص٦٢٦۔

۲۰۷

کے علاوہ اخلاقی تربیت کے اعتبار سے رشد عقلی کا باعث ہوتا ہے:

''مَنْ شَاوَرَ ذَوِی الْعُقُوْل اسْتَضَاء بانوار العقول ''(١)

''جو انسان صاحبان عقل وہوش سے مشورہ کرے، وہ ان کے نور عقل وخرد سے استفادہ کرتا ہے''۔

اسلامی روایات، مشورہ کو رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور شایستہ افراد سے مشورہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرتی ہیں:

''دوسروں سے مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور جوکوئی خود کو دوسروں کے مشورہ سے بے نیاز تصور کرے تو اُس نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے''۔(٢)

اس روش میں تربیت پانے والے کا مقصد عقلانی توانائی کا حصول اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کرنا ہے، یعنی مشورت کے ذریعہ اسے آمادہ کریں کہ ''خود رہبری'' اور ''فعّال'' کی روش کو ہدایت کے ساکنین کو اخلاقی تربیت کی راہ میں لے آئے اور اپنی اخلاقی مشکل کو حل کرسکے، مشورہ میں پہلا قدم مراجع (تربیت دیا جانے والا) نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مربی کو اس سے نزدیک ہونا چاہئے اور رابطہ ایجاد کرکے یا کبھی مسائل میں اُس سے راہ حل طلب کرکے، اُسے اپنے آپ سے مشورت سے کرنے کی تشویق کرنی چاہئے۔(٣)

۲-۔ عبرت حاصل کرنے کے طریقے

کلمہ ''عبر'' ایک حال سے دوسرے حال میں گذرنے اور عبور کرنے کو کہتے ہیں اوراعتبار (عبرت آموزی) ایک ایسی حالت ہے کہ مشہور چیز دیکھنے اورجوکچھ اس کے نزدیک حاضر ہونے سے ایک نامشہود پیغام تک رسائی حاصل کرلیں لہٰذا اس روش سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر امور وحوادث کے دقیق مشاہدہ اور اس میں غور وخوض کرنے سے باطنی تبدیلی حاصل ہوجاتی ہے کہ اس انفعال نفسانی کی حالت کے نتیجہ میں، اُس حادثہ کی گہرائی میں موجود پیغام کو قبول کرنے کے لئے آما دہ ہوجائے، عینی مشا ہدہ وہ بھی نزدیک سے انسان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ سننا اوردوسروں کا بیان کرنا اتنا اثر نہیں رکھتا۔

____________________

١۔ غرر الحکم ودرر الکلمج٥ص٣٣٦ش ٨٦٣٤۔

٢۔ الاستشارة عین الہدایة وقد خاطر من استغنی برایہ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٩ص٣١۔

۲۰۸

٣۔ اسلامی تعلیمات مختلف جہات سے مشورت کے مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں؛ مزید معلومات کے لئے سید مہدی حسینی کی کتاب ''مشاورہ وراہنمائی درتعلیم وتربیت '' ملاحظہ ہو۔

اس کی دلیل پہلے مشاہدات کا زیادہ سے زیادہ قابل قبول ہونا ہے؛ سنی سنائی چیزوں کے برعکس کہ اُس میں عام طور پرشکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ برہان عقلی میں یقینیات میں سے ایک مشاہدات یا محسوسات ہیں۔ دوسرے حادثہ کی جانب اس کے جزئیات سمیت توجہ دینا،کے شناختی وعاطفی قالب اور ڈھانچوں کے مطابق دیکھنے والے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ وہ واقعہ بہتر جا گزیں ہو اور انسان کے نفسیاتی قالب میں جگہ پائے۔ البتہ کبھی تاریخی یاداستانی بیانات بیان کرنے والے کی ہنر نمائی کے زیر اثر اس درجہ دقیق ہوتے ہیں کہ گویا سننے والا یاپڑھنے والاخود اس حادثہ کے اندر اپنے موجود محسوس کرتاہے ۔ نمائشی ہنر میں جیسے فیلم وغیرہ میں اس طرح کا امکان پایاجاتا ہے۔ قرآن وروایات میں عبرت آموزی کا طریقہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، عبرت آموزی کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔گذشتگان کے آثار کا مشاہدہ :

تاریخ کے صفحات ایسے لوگوں کے وجود سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے خطا کے بار کو کاندھے پر اٹھایا اور غیر صحیح راہ پر گامزن ہوگئے ہیں، گذشتگان کے باقی ماندہ آثار میں غور وفکر کرنے سے ہمیں تعلیم کرناپڑتا ہے کہ ہر گناہ وخطا سے کنارہ کشی کے لئے لازم نہیں ہے کہ خود تجربہ کریں اور اس کی سزا اور انجام دیکھیں۔ تاریخی عمارتیں، میوزیم، کھنڈر، دفینے وغیرہ ان انسانوں کی علامتیں ہیں جنھوں نے انھیں وجود بخشا ہے۔ قرآن ہمیں ان کی جانب سیر وسفر اور گذشگان سے تجربہ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''آیا ان لوگوں نے زمین میں گردش نہیں کی ہے تاکہ اپنے پہلے والوں کے انجام کا مشاہدہ کریں کہ وہ کس طرح تھا؟ وہ لوگ ان سے زیادہ قوی تھے اور انھوں نے روئے زمین پر زیادہ ثابت اور پائدار آثار چھوڑے ہیں، خدا نے انھیں ان کے گناہوں کے عذاب میں گرفتار کردیا اورخدا کے مقابل ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا''۔(١) عمار ساباطی نقل کرتے ہیں:حضرت امیر المومنین علی ـ مدائن آئے اور ایوان کسریٰ میں نازل ہوئے اور ''دلف بن بحیر'' ان کے ہمراہ تھا، آپ نے وہاں نماز پڑھی اور اٹھ گئے.... حضرت کی کے خدمت میں ساباطیوں کا ایک گروہ تھا، آپ نے منازل کسریٰ میں چکر لگایا اور دلف سے فرمایا: ''کسریٰ اس جگہ مقام ومنزلت کا حامل تھا''دلف نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔمومن آیت٢١۔

۲۰۹

پھر اس گروہ کے ہمراہ اُن تمام جگہوں پر گئے اور دلف کہہ رہے تھے: ''اے میرے سید وسردارآپ اس جگہ کے بارے میں اس طرح آگاہ ہیں گویا آپ ہی نے ان چیزوں کویہاں رکھا ہے۔ جب حضرت مدائن کی طرف سے گذرے اور کسریٰ اور اس کی تباہی کے آثار مشاہدہ کئے تو حضرت کی خدمت میں موجود افراد میں سے ایک نے یہ شعرپڑھا:

جرت الریاح علی رسوم دیارہم

فکأنهم کانوا علی میعاد

ان کے گھروں کے مٹے ہوئے نشانات پر ہوائیں چل رہی ہیںپس گویا وہ اپنی وعدہ گاہ پر ہیں۔

حضرت نے فرمایا: تم نے یہ آیات کیوں نہیں پڑھیں؟

واہ! انھوں نے کیسے کیسے باغات اور بہتے چشمے چھوڑے ہیں، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے ہیں اور وہ نعمتوں میں مزے اڑا رہے ہیں، (ہاں) ایساہی تھا اور ہم نے دیگرلوگوں کو ان کی میراث دے دی پھر تو ان پر آسمان وزمین نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ انھیں مہلت دی گئی ۔(١)

اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ لوگ گذشتگان کے وارث تھے،پس وہ خود بھی آئندہ والوں کے لئے میراث چھوڑکر گئے ، انھوں نے نعمت کا شکر ادا نہیں کیا لہٰذا ناشکری کے زیر اثر اُن سے ساری نعمتیں سلب ہوگئیں، نعمات کی ناشکری سے پرہیز کرو کہ تم پر بلائیں نازل ہوجائیں گی...۔(٢)

نہج البلاغہ میں اس نکتہ کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے:

''تمہارے لئے گذشتہ امتوں کی سرنوشت میں عبرتیں ہیں، عمالقہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں؟ فراعنہ اور ان کے اخلاف کہاں ہیں؟ اصحاب رس جنھوں نے پیغمبروں کو قتل کیا ہے کی سنتوں کو پامال کیاہے اور جبّاروں کی رسومات کو باقی رکھا ، کہاں ہیں؟ ۔''(٣)

خداوند متعال فرماتاہے: ''پھر آج تم ]فرعون[ کوتمھارے بدن کے ساتھ بچالیتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے، عبرت ہو۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔدخان آیات ٢٥، ٢٩۔٢۔ بحارالانوار ج٧٨ص٩٢۔

٣۔ نہج البلاغہ خطبہ١٨٢۔٤۔ (فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیة )(سورہ ٔیونس آیت٩٢ )۔

۲۱۰

قبروں کی زیارت اور ان لوگوں کے حالات کے بارے میں غور وفکرجو روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور آج بغیر حرکت کے اورانتہائی ذلت وخواری کے ساتھ خاک میں دفن ہیں، انسان کو خاضع بلکہ اسے فرمانبردار بنا دیتا ہے، کبرو نخوت کو فروتنی وخاکساری سے تبدیل کردیتا ہے اورآدمی کو یہ فرصت دیتا ہے کہ خود کو درک کرے اور اپنی عاقبت کے بارے میں غور کرے۔

حضرت علی ـ نے آیہ شریفہ: ''کثرت مال واولاد کے باہمی مقابلہ (یا اس پر تفاخر) نے تمہیں غافل بنادیا ہے یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی''(١) کی تلاوت کے بعد فرمایا:

''آیا اپنے آباء واجداد کے مقام نزول پر افتخار کرتے ہیں ؟ یہ لوگ فخر وافتخار سے زیادہ عبرت کے سزاوار ہیں اگرچہ اُن کے آثار بینانہیں ہیں اور ان کی زندگی کی داستان ختم ہوچکی ہے، لیکن عبرت آموز نگاہیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور عقلمندوں کے گوش شنواآوازوں کودرک کرتے ہیںاور بے زبانی سے ہم سے گفتگو کرتے ہیں...۔(٢)

مربی حضرات معمولی توجہ اور بصیرت و عبرت آموزی کی دعوت سے، ان تفریح گاہوں سے جو تاریخی جگہوں پر برپاہوتی ہیں، اخلاقی اور تربیتی ضرورت کااستفادہ کرسکتے ہیں، گروہی یا فردی مسافرت وسعت نظر اور دل ایجاد کرنے کے علاوہ بہت زیادہ مفید اورعبرت آمیز ہے۔

ب ۔ طبیعت اور موجودات کی طرف نظر:

زمین میں سیر وسیاحت کرنے سے انسان کو عجائب خلقت سے بہرہ مند ہوتا ہے ''اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے! زمین میں گردش کرو پھر موجودات کی وجہ تخلیق کے بارے میں غورو فکر کرو۔ '' قرآن کریم نے موجودات طبیعت سے عبرت حاصل کرنے کو مورد توجہ قراردیاہے:

''چوپائوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت کے (اسباق) ہیںکہ ان کے شکم اندر سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیںجو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور کجھور اورانگور کے پھلوں سے اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو، صاحبان عقل وہوش کے لئے اس میں واضح نشانیاں ہے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔتکاثر آیت ١، ٢۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٣٠و٤٣٢۔

٣۔ سورہ، نحل آیت ٦٦تا٦٧۔

۲۱۱

''خدا شب وروز کو دگرگوں کرتا ہے، اس میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(١)

عالم کی حیرت ا نگیز چیزیں، انسان کو خاضع اور خاشع بناتی ہیں، بہت سی گندگیوں کاسرچشمہ اور اخلاقی پستیوں کا منبع ''خود خواہی ''(٢) اور خود بینی وتکبر ہے ، اس وجہ سے اخلاقی تربیت کے اہداف میں ''خود خواہی '' سے دوری اختیار کرنا ہے، پیاژہ کے بقول: ''... اخلاقی تربیت کے دو بنیادی مسئلے یہ ہیں: ''انضباط کا برقرارکرنا'' اور ''خود پسندی سے نکلنا ''(٣) عالم کی عظمت کی اور اس کے عجائب کی طرف ، انسان کو خودی سے باہر نکالتے ہیں اور مکارم اخلاق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ج ۔ موجودہ حوادث اور واقعات کی جانب توجہ:

ہم اپنے زمانے میں زندگی گزارتے ہیں اور قبل اس کے کہ تاریخ کے سینہ میں حوادث اور واقعات دفن ہوجائیں ہم اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: ''میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں، جو شخص بھی زمانے کے ناگوار حوادث سے عبرت حاصل کرے، شبہات میں مبتلا ہونے کے وقت تقویٰ اس کی حفاظت کرے گا''۔(٤)

اپنے بارے میں ایک سرسری نظر اوران مختلف واقعات کا نظارہ کہ کبھی ہم زمان ہونے کا حجاب ہمیں اُس سے غافل کردیتا ہے، شخصیتوں کی پستی وبلندی اور ان کی ظاہری عزت وذلت کا گردش زمانہ میں ہمیں پتہ دیتا ہے، عمل کی جزائیں اور پوشیدہ حکمتیں راہ حوادث کے پس پردہ انتہائی نصیحت آموز ہیں اور یہ عینی تجربے عبرت کے قیمتی ذخیروں میں سے ہیں۔

د۔ گذشتگان کے قصوں میں غور و فکر:

گذشتہ افراد کی داستان زندگی بھی ہمارے لئے عبرت آموز ہوسکتی ہے۔ یہاں پر عبرت حاصل کرنے والا گذشتہ افراد کے آثار کے واقعی میدانوں اور وقت حاضر نہیں ہوتا، لیکن داستان اور اس کے نشیب وفراز میں غور وفکرکے ساتھ ، اس کی خالی فضا میں پرواز کرتا ہے کہ اس کاعبرت آمیز رخ عینی مقامات سے کمتر ہے لیکن اس سے نزدیک ہے۔

____________________

١۔ سورۂ نورآیت ٤٤۔٢۔من رضی عن نفسه ظهرت علیه المعایب، ما اضرّالمحاسن کا لعجب ( غررالحکم ) فصل ٦، ص٣٠٨)۔

٣۔ تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٩٣۔٤۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔

۲۱۲

قرآن حضرت یوسف کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتاہے: ''ان کی داستانوں میں صاحبان عقل کے لئے درس عبرت ہے''۔(١)

یا غزوہ نضیر کے واقعات نقل کرنے کے بعد فرماتاہے: ''پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو''۔(٢)

ایک دوسرے جگہ پر جنگ بدر کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''یقیناً اس ماجرہ میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(٣)

قرآنی آیات اور روایات کے طرز تربیت میں جو کہ عبرت آموز ی کی تاکید کرتی ہیں، دونکتے قابل توجہ ہیں:

١۔ عبرت حاصل کرنا ایک(٤) دور اندیش عقل(٥) اور بیدار دل(٦) رکھنے کا مستلزم ہے۔

اسی لئے یہ روش عقلانی قوت کی روش کی پرورش کے بعد ذکر ہوئی ہے، یعنی عام طور پر عقلانی عمیق نظر کے بغیر عبرت آموزی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئیحضرت امیر المومنین علی ـ نے مکرر فرمایا ہے: ''عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں''۔(٧)

٢۔ دوسرے یہ کہ آیات وروایات کی روشنی میں عبرت کے لئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے:

عصمت وپاکدامنی، دنیا سے کنارہ کشی، لغزش وخطا کی کمی ، اپنی معرفت ، طمع وآرزو کا کم ہونا، فہم ودرک اور تقویٰ۔(٨)

____________________

١۔ سورہ ٔیوسف آیت ١١١۔

٢۔ سورہ ٔحشر آیت٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٤۔(ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار )سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٥۔ (لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب )سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

٦۔(ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی ) سورہ ٔنازعات، آیت ٢٦۔

٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٩٧۔

٨۔ میزان الحکمة ج٦ص٣٨تا ٣٩۔

۲۱۳

۳۔عمل کی پابندی اور مداومت

یہاں تک ان طریقوں کی بحث تھی جو اخلاقی( عاطفی یا شناختی رفتار کے مبادی پر اثر انداز ہوتی ہیں یا وہ روشیں جو ماحول کے عوامل میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ پیاژہ نفسیاتی عوامل کے تحول کے شمار میں رشد داخلی کے علاوہ اجتماعی تعامل وتعویض اور اکتسابی تعادل جوئی، تمرین ومشق اور اکتسابی تجربہ کو ایک مستقل عامل جانتا ہے۔(١)

اخلاقی تربیت میں ہدف یہ ہے کہ تربیت پانے والا اخلاقی رفتارکے کمال تک پہنچ جائے یعنی عمل کرے۔ جتنا اس عملی تجربہ کی تکرار ہوگی اور اس کی مداومت کی جائے گی''ظاہر سازی ''(٢) کی صورت میں جدید نفسیانی شکلیں تشکیل پاجائیں گی، بعینہ جیسے اخلاق کی اصطلاح میں جنھیں ملکات اخلاقی کہتے ہیں۔

قرآن کریم عمل کو خاص اہمیت دیتا ہے: ''انسان کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کی کوشش ]کانتیجہ[ عنقریب دکھائی دے گا''۔(٣)

بہت سی آیات میں قرآن ایمان کو کافی نہیں جانتابلکہ عمل کو اس کی تکمیل کے لئے لازم وضروری شمار کرتا ہے:

جو لوگ نیک عمل کرتے ہیںخواہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ مومن ہوں، وہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور خرمے کی گٹھلی کے گڑھے کے برابر بھی ان پر ستم نہیں ہوگا''۔(٤)

شایستہ کاموں (عمل صالح) سے مراد غالباً وہی اخلاقی اعمال ہیں۔ افراد کے درجات ومراتب بھی ان کے اعمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی افراد کی درجہ بندی کا ایک معیار ان کا عمل ہے۔

''ان میں سے ہر ایک کے لئے جو عمل انھوں نے انجام دیا ہے، اس کے مطابق مرتبے ہیں اورتمہا را رب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے''۔(٥)

____________________

١۔ دیدگاہ پیاژہ ص ٣٥تا٣٧۔

٢۔ وہ فعالیت جو آدمی کے پہلے والے نفسیاتی تار وپود کو کو تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ خود کو اس ماحول کے حالات کے موافق بنائے جس میں وہ موجود ہے۔ (روانشناسی ژنیتک، ص٢٤٤)۔٣۔ سورہ ٔنجم آیت٣٩، ٤٠۔٤۔ (مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَهُوَ مُؤمِن فَاُوْلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُوْنَ نَقِیْراً )(سورہ ٔنسائ، آیت١٢٤)۔

٥۔ (لِکُلٍّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا، وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ۔)(سورہ ٔانعام، آیت١٣٢)۔

۲۱۴

روایات بھی عمل کی ترغیب وتشویق کے ساتھ اسے ایک فائق مرتبہ دیتی ہیں:

حضرت علی ـ: ''آج عمل کا دن ہے اور کوئی محاسبہ نہیں ہے، اور کل محاسبہ کا وقت ہے اور عمل کی گنجائش نہیں ہے''۔(١)

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : ''کوئی بھی شخص جو کچھ خدا کے نزدیک اُس کے لئے فراہم ہوا ہے اسے نہیں پاسکتا مگر عمل کے ذریعہ ''(٢) حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''انسان کی ہمراہی عمل کے سوا کوئی بھی نہیں کرے گا''۔(٣)

عمل کے استمرار اور اس کی مداومت کے بارے میں درج ذیل آیات و روایات کو بعنوان شاہد پیش کیا جاسکتا ہے:

''اگروہ لوگ راہ راست میں ثبات قدمی اور پائداری کا مظاہرہ کریں تو یقیناً انھیں خوشگوار پانی نوش کرائیں گے''۔(٤)

حضرت علی ـ: '' وہ کم اعمال جس کی پابندی اور مداومت کرو، ایسے زیادہ اعمال سے زیادہ امید بخش ہیں کہ جن سے تھک جاتے ہو۔''(٥) امام محمد باقر ـ : ''خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جس پر مداومت اور پابندی ہو، اگرچہ کم ہی ہو''۔(٦)

سلوکی مکتب کے ماہرین نفسیات پاولف، ثراندایک اور ا سکینر میں سے ہر ایک حصول تعلیم کے متعلق عمل کی مشق اور تکرار کے بارے میں ایک نظر رکھتے ہیں، ثراندایک اپنے قانون تمرین(٧) میں کہتا ہے: ''محرک اور جواب کے درمیان پیوند اور ارتباط استفادہ کے زیر اثر قوی ہوجاتے ہیں''(٨)

____________________

١۔''الیوم عمل ولا حساب وغداً حساب ولا عمل '' ۔(نہج البلاغہ، خ٤٢)۔

٢۔''لا ینال ما عند اللّٰه الّا بالعمل'' (وسائل الشیعہ ج١ص ٦٩)۔

٣۔''المرء لایصبحه الّا العمل'' (غرر الحکم، فصل٤، ص١٥١)۔

٤۔ (وَاَنْ لَواسْتَقَامُوا عَلَی الطَّرِیْقَةِ لَاَسْقَیْنَاهُم مَائً غَدْقاً )(سورہ ٔجن، آیت١٦)۔

٥۔''قلیل تدوم علیه ارجی من کثیر مملول منه ۔''(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج١٩، ص١٦٩)۔

٦۔''احب الاعمال الی اﷲ عزوجل مادام العبد علیه وان قلّ'' (وسائل الشیعہ ج١ ص٧٠ )۔

٧۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف،٢٧٥۔

٨۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف، ص٧٨۔

۲۱۵

گاتری ایک دوسرا سلوکی ماہر نفسیات ہے جو اپنے تعلیم وتربیت کے نظریہ میں اس سلسلہ میں کہ کیوں مشق نتیجۂ عمل کو بہتر بناتی ہے لکھتا ہے: کسی عمل کا سیکھنا یقیناً مشق کا محتاج ہے، ہماری نظر میں اس امر کی دلیل یہ ہے کہ عمل ایسا نتیجہ دیتا ہے کہ جو مختلف موقعیت کے تحت اور مختلف حرکتوں کے ذریعہ کہ جو ان موقعیتوں سے مناسبت رکھتی ہیں حاصل ہوتا ہے، ایک عمل کا سیکھنا ایک حرکت کے (جیسے جسم کے کسی حصہ کاعام طور سے سکڑنل جو کہ تداعی سے حاصل ہوتا ہے) سیکھنے کے برعکس یقیناتمرین ومشق کا محتاج سے۔ اس لئے کہ ضروری ہے کہ مقتضی حرکتیں اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک دوسرے کو وجود بخشیں۔حتی کہ ایسا سادہ عمل جیسے کہ ایک کھلونا ، فاصلہ جہت اور کسی چیز کی موقعیت کی بنیاد پر مختلف حرکتوں کو شامل ہوتا ہے۔ ایک کامیاب تجربہ اس بات کے لئے کہ بچوں کو کسی عمل کے لئے آمادہ کرے، کافی نہیں ہے، کیونکہ جو حرکت ایک حالت میں حاصل ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسری بار کامیاب نہ ہو''۔(١)

پھرمہارت اورتشکیل عادت کے بارے میں کہتاہے:

دلیل اس بات کی کہ کامل مہارت حاصل کرنے کے لئے کیوں زیادہ مشق اور تکرار کی ضرورت ہے؟ یہ ہے کہ یہ مہارتیں محتاج ہیں کہ زیادہ اور خاص حرکتیں بہت سی محرکانہ موقعیتوں کے ساتھ جڑی ہوں، ایک مہارت، ایک عام عادت نہیں ہے، بلکہ عادتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے کہ جو مختلف موقعیتوں میں ایک معین نتیجہ دیتا ہے... خلاصہ یہ کہ ایک مہارت کثرت عمل سے تشکیل پاتی ہے(٢) تھوڑا سا غور کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقی ملکات اور فضائل بھی اس نظریہ میں مہارتوں سے مانند وجود میں آتے ہیں اور انسان میں ثبات پاتے ہیں، اس وجہ سے اگرچہ صرف مکتب سلوکیت کا نظریہ (تعلیم وتعلم میں شناختی یا عاطفی کے عوامل کی جانب توجہ نہ ہونا) ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے(٣) لیکن کسی عمل کی مشق کا اثر ایک اساسی عامل کے عنوان سے قابل انکار نہیں ہے۔ ارسطو'' اخلاق'' نامی کتاب میں کہتا ہے: ''جس طرح ہم گھر بنا کے معمار ہوجاتے ہیں، عادلانہ عمل انجام دینے سے عادل ہوجاتے ہیں اور پرہیزگاری کا عمل انجام دے کر پرہیزگار بن جاتے ہیں اورکوئی بہادری کا کام کرنے سے بہادر ہوجاتے ہیں''(٤) اور یہ بالکل اسی دقیق طور پر مداومت عمل کی روش کو بیان کرتاہے۔

____________________

١۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف ، ص٢٧٥و٢٧٦۔٢۔ ایضاً، ص٢٧٧۔٣۔ مکاتب روانشناسی ونقد آن ج٦ص١٤١۔٤۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ ابو القاسم حسینی، ج١، ص٣٧۔

۲۱۶

اخلاقی کتابوں کے مؤلفین بھی عملی روش پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اخلاقی بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں نظری روش ساتھ یا اس عمل پہلو پر بڑی تاکید کرتے ہیں کہ جس سے مقصود اخلاقی فضائل کے مطابق افعال انجام دینے کا اہتمام وتمرین ہے ایسے اعمال میں مشغول ہونا ہے جو اخلاقی رذائل کے خلاف ہیں ۔

ملا محمد مہدی نراقیاخلاقی بیماریوں کے طریقہ علاج کے بارے میں فرماتے ہیں:

''انحراف اور کج روی (عدم اعتدال)کی علت اگر جسمانی بیماری ہو تو اس کے برطرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد طبی علاج کریں، اور اگر اس کی علت نفسانی ہو تو اس کا علاج وہی بالکل جسمانی علاج کی طرح ہے، جسمانی علاج میں سب سے پہلے ایسی غذا سے جو بیماری کی ضد ہو علاج کرتے ہیں، مثال کے طور پر سرد مزاج بیماری کا علاج گرم مزاج اور تند غذائوں سے کرتے ہیں، اگر فائدہ نہ ہوا تو پھر دوا سے ، اس کے بعد زہر مار کے ذریعہ آخر میں عضو کو جلاکے یاکاٹ کے (جراحی) کے ذریعہ معالجہ کرتے ہیں۔ نفسانی بیماریوں میں بھی قانون ایسا ہی ہے، اس طرح سے کہ انحراف اور کجروی کو جاننے کے بعد اس اخلاقی فضیلت کو حاصل کرنے لئے کہ جو اس انحراف کی ضد ہے، اقدام کرے اور ان افعال سے جو اس فضیلت کے آثار شمار ہوتے ہیں یہ امر غذا کے مانند اس اخلاقی رذیلت کو زائل کرنے میں اثر کرتا ہے۔ پھر اگر مفید واقع نہ ہوتو پھر مختلف صورتوں میں فکری، زبانی اورعملی طور پر اپنے نفس کو مورد توبیخ وسرزنش قرار دے، پھر اگر وہ بھی موثر نہ ہو تو پھر ایک منفی اور متضاد صفت کے آثار کو کہ جو اس اخلاقی صفت سے تضاد رکھتے ہوں حدّاعتدال میں انجام دے گا، جیسے ڈرپوک انسان دلیرانہ عمل انجام دے اورخود کو خطرناک کام میں ڈال دے اور کنجوس انسان اس صفت کے زوال کے لئے جود و بخشش کا سہارا لے ۔ یہ مرحلہ جسمانی مداوا میں تریاق اور زہرمار دواکے مانند ہے۔ اگر اس مرحلہ تک بھی اخلاقی بیماری مستحکم طور پر برطرف نہ ہوئی، تو پھر خود کو طرح طرح کی ان سخت تکلیفوں اور ریاضتوں کے ساتھ رنج وزحمت میں مبتلا کرے جو اس اخلاقی رذیلت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کا باعث ہوں، یہ مرحلہ جسمانی علاج میں عضو کے جلانے اور قطع کرنے کے مشابہ ہے کہ جو آخری مرحلہ ہے''۔(١)

____________________

١۔ جامع السعادات ج١ ص٩٧، ٩٨۔

۲۱۷

جیساکہ معلوم ہے کہ اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں علمائے اخلاق نے عمل اور مشق پر خاص طور سے توجہ دی ہے، اس وجہ سے اس روش کے تحقق کے لئے درج ذیل طریقوں کو بیان کیا جاسکتا ہے:

الف ۔مشق اور عادت ڈالنا:

ہم یہاں پر ''عادت'' کے متعلق اخلاقی فلسفہ کے لحاظ سے بحث نہیں کرنا چاہتے جیسے یہ بحث کہ آیا اخلاقی فعل عادت کی حاکمیت اور اس کے غلبہ کے ساتھ اخلاقی ہونے سے خارج ہوجاتا ہے یا نہیں ؟(١) اور نہ نفس شناسی کے لحاظ سے بحث کرنا چاہتے ہیں مثال کے طور پر عادت کیا ہے، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟(٢) بلکہ اس سے یہاں پر مراد یہ ہے کہ مشق اور تکرار کے ذریعہ ایسے مرتبہ تک پہنچاجاسکتا ہے کہ اخلاقی مسائل ملکات میں تبدیل ہوجائیں، جیساکہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:''اَلْعَادَة طبع ثانٍ'' (٣) ''عادت انسان کی دوسری طبیعت اور شرست ہے''۔

بلند ترین اصول ومبادی اور مکارم اخلاق میں تربیت کی مرکزیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کے لئے کچھ حد تک جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی پسندیدہ عادات حاصل ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ارادہ اور توانائی کا مصرف ان کی جانب توجہ دینے سے آزاد ہوجائے۔اس موضوع میں اسلام کی تربیتی روش سے متعلق دو نکتے قابل توجہ ہیں:

١۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند:

۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند اس حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ترک عمل کے لئے اس کی قضا اور کبھی کفار بھی لازم ہوجاتا ہے، اخلاقی امور میں بھی ''نذر'' اور ''عہد وقسم'' کو اخلاقی فعل کو اپنے لئے ایک فریضہ کی صورت میں اپنا سکتا ہے، اگرچہ ان روشوں سے زیادہ استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اپنی حیثیت اور منزلت کو کھو بیٹھے گایا انسان پر بہت گراں اور شاق گزرے گا، البتہ معمولی انداز میں بھی خود سے تعہد کرسکتا ہے کہ اخلاقی فعل کو پابندی کے ساتھ انجام دے گا، تاکہ اُس کا ملکہ نفس میں راسخ ہوجائے۔

____________________

١۔ استاد مطہری، تعلیم وتربیت دراسلام، ص٧٥ پر ملاحظہ ہو۔

٢۔ احمد صبور اردوبادی: معمائے عادت۔

٣۔ غررالحکم، فصل٢، ص٣٢٢۔

۲۱۸

٢۔کیفیت عمل کی جانب توجہ کرنا:

اسلام میں عمل کی ظاہری شکل وصورت آخری مقصود نہیں ہے، بالخصوص اخلاقی فعل اسلام کی نظر میں خاص اخلاقی اصول و مبادی کا حامل ہونا چاہئے ، جیسے صحیح نیت، عمل کی صحیح شکل وصورت اور لوازم عمل کی جانب توجہ (جیسے یہ کہ عمل کے بعد ریا، منّت گذاری اور اذیت کے ذریعہ اس عمل کو ضائع نہ کرے)۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے خداوندعالم کے ارشاد:(لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) (تاکہ خدا تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے ؟) کے متعلق فرمایا: ''اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ عمل کا مالک ہو، بلکہ خشیت خداوندی اور درست نیت کے لحاظ سے بہتر اعمال مراد ہیں''۔(٢)

ب ۔ اضداد سے استفادہ:

اخلاقی رذائل کو زائل کرنے سے متعلق یہ طریقہ تربیتی طریقوں میں سے سب سے زیادہ مؤثر ہے، اضداد سے سلوکی مکتب کے نظریات میں ''تقابلی ماحول سازی'' کے عنوان سے رفتار بدلنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقابلی ماحول سازی ایسا نتیجہ ہے کہ جس میں ایک ماحول کا جواب ایک دوسرے ماحول کے جواب سے جو اُس سے ناسازگار اور ناموافق ہوتا ہے ،جانشین ہوتا ہے، اور یہ سبب ہوتا ہے کہ اس ماحول کا جواب جو کہ نامطلوب ہے (اورہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوجائے) جدید ماحول کے محرک کے ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، اس کا اہم ترین فن منظم طریقہ سے (خیالی) حساسیت کا ختم کرنا اور واقعی حساسیت اور خود حساسیت کاختم کرنا ہے۔(٣) اخلاقی کتابوں میں بھی اس روش سے کثرت کے ساتھ استفادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرابو حامد غزالی ''کبر'' کے ختم کرنے سے متعلق لکھتا ہے:

''اگر کوئی اپنے دوست ورفیق سے علمی مناظرہ میں کوئی حق بات سنے اور احساس کرتا ہے کہ رقیب کی حقانیت کا اعتراف اُس کے لئے مشکل ودشوار ہے، تو اسے چاہئے کہ اس کبر کے معالجہ کے لئے اپنے اندر کوشش کرے...... عملی طریقہ اس طرح ہے کہ رفیق کی حقانیت کا اعتراف جو کہ اس کے لئے دشوار ہے، اپنے اوپر لازم کرے اور اُسے برداشت کرے اور اس کی تعریف وتوصیف کے لئے اپنی زبان کھولے اور مطلب سمجھنے کے سلسلہ میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا اقرار کرے اور اس کا چونکہ اُس نے اُس سے ایک بات سیکھی ہے، شکریہ ادا کرے.... لہٰذا جب بھی اس امر کی متعدد بار پابندی کرے گا، اُس کے لئے طبیعی اور عادی ہوجائے گا اور حق قبول کرنے کی سنگینی، آسان ہوجائے گی''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔہود آیت ٧۔ ٢۔ کافی ج٢ص ١٦۔٣۔ علی اکبر سیف، تغییر رفتار و درمانیص ٢٥٢۔٤۔ احیاء علوم الدین ، ج٣ ،ص ٣٤٤۔

۲۱۹

مرحوم نراقی نے بھی علاج کے طریقوں میں ایک طریقہ اخلاقی رذائل کے خلاف افعال کا انجام دینا قرار دیا ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ کبھی اخلاق کی ایک منفی صفت کے زائل ہونے کے لئے ایک دیگر منفی صفت (کہ جو اعتدال کی حد میں ہو) کا سہارا لیں، مثال کے طور پرخوف ختم کرنے کے لئے جسارت آمیز اور شجاعانہ عمل انجام دینا چاہئے تاکہ خوف ختم ہوجائے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: '' جب کسی چیز سے ڈر محسوس کرو تو اُس میں کود پڑو، کیونکہ کبھی کسی چیز سے ڈرنا، خود اس چیز سے سخت اور ناگوار ہوجاتا ہے''۔(١) اس روش سے متعلق قرآن کاتربیتی نکتہ یہ ہے کہ بری عادات اور اخلاقی رذائل کا یکبارگی اوراچانک ترک کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اسے مرحلہ وار اور تدریجاً انجام دیا جائے۔ شرابخوری، ربا، جوئے بازی اور بعض دیگر امور کے بارے میں قرآن نے تدریجی مقابلہ پیش کیا ہے۔

ج ۔ ابتلاء اور امتحان:

''ابتلا'' ''بلیٰ'' کے مادہ سے ہے یعنی اس کی اصل ''بلیٰ'' ہے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کے معنی میں اور ابتلا(یعنی آزمائش )کو اس لئے ابتلا کہتے ہیں کہ گویا کثرت آزمائش کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتا ہے۔ ابتلا افراد کے متعلق دو نکتوں کا حامل ہے:

١۔ جو کچھ اس کے لئے مجہول اور نامعلوم ہے اُس سے آگاہی اور شناخت۔

٢۔انسان کی یکی یابرائی کا ظاہر ہونا(٢) ۔ امتحان کی تعبیر بھی ابتلا اور آزمائش کی نوع پر بولی جاتی ہے(٣) امتحان اور آزمائش ہمیشہ عمل کے ذریعہ ہے، کیونکہ ابتلا بغیر عمل کے بے معنی ہے، عمل کے میدان میں انسان کے باطنی صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی صلاحتیں قوت سے فعلیت تک پہنچتی ہیں۔ اسی لئے ابتلا اور امتحان فیزیکل اعتبار سے ایک عملی طرز ہے یاعمل کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں اور تمرین و عادت میں فرق یہ ہے کہ مشق وتمرین ایک اخلاقی فضیلت کی نسبت ملکہ ایجاد کرنے کے لئے معین ہے لیکن طرز ابتلاء میں، کام عمل اور سختیوں اور مشکلوں کی تہ میں واقع ہونا مقصود ہے۔ اس روش اور طرز کی بنیاد پر مربی کو چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کو عمل میں اتار دے تاکہ خود ہی پستیوں اور بلندیوں کو پرکھے اور تلخ وشیرین کا تجربہ کرکے میدان سے سرفراز اور سربلند باہر آئے۔ تربیت پانے والے خود بھی مستقل طور سے ایسے شیوہ پر عمل کرسکتے ہیں۔

____________________

١۔''اذا هبت امراً فقع فیه فانّ شدّة توقیه اعظم ممّاتخاف منه'' ۔(نہج البلاغہ، ح١٧٥)۔

٢۔ المفردات۔

٣۔ ایضاً۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

اشاريے (۱)

آ

آبادكارى :ر_ك مكہ

آبرو :عزت و _كى ہتك كى راہيں ۷/۲۲

آثار قديمہ سے آشنائي :_ كى اہميت ۶/۱۱

آخرت :_ كا خير ہونا ۶/۳۲;_ كو جھٹلانے كے آثار ۶/۱۳ ; _ كو جھٹلانے والوں كى رضايت ۶/۱۱۳; _ كو جھٹلانے والے ۶/۱۵۰; _ كى حقيقت ۶/۳۲;_ كى خصوصيات ۶/۳۲;_ كى قدر و منزلت ۶/۳۲; _ ميں شرور ۶/۳۲

نيز ر_ك ; ايمان ، تعقل، ذكر ، شياطين ، غفلت ، متقين ، مومنين

آخرى الزمان :_كى نشانياں ۶/۱۵۸

آدمعليه‌السلام :_اور ابليس ۷/ ۲۱،۲۲; _ اور ممنوعہ ذر; درخت ۷/۱۹،۲۰،۲۲،۲۳; _ بہشت ميں ۷/۱۹ ;_ كا استغاثہ ۷/۲۳;_ كا اقرار عصيان ۷/۲۳; _ كا تضرع ۷/۲۳; _ كا تقرب ۷/۲۲; _ كا خاكى ہونا ۷/۱۲; _ كا خسارے ميں ہونا ۷/۲۳; _ كا ستر عورت ۷/۲۷; _ كا ظلم ۷/۲۳; _ كا عصيان ۷/۲۱،۲۲،۲۳،۲۴;_ كا فريب كھانا ۷/۲۰ ، ۲۴،۲۷; _ كا ہبوط۷/۲۱،۲۴;_ كو خبردار كيا جانا ۷/۱۹،۲۲;_ كى اميدوارى ۷/۲۳; _ كى برہنگى كے علل و اسباب ۷/۲۲،۲; آ دم كى خطا ۷/۲۳; _ كى خلقت ۷/۱۱;_ كى خلقت كا عنصر ۷/۱۲;_ كى دعا ۷/۲۳; _كى سكونت كا قصہ ۸ /۲۰; _ كى شرمگاہ كا ظاہر ہونا ۷/۲۰،۲۲،۲۷; _ كى شرمگاہ كا مستور ہونا ۷/۲۰،۲۲;_ كى لغزش ۷/۲۳; _ كى ملائكہ پر برترى ۷/۱۱; _ كى نسل ۶/۹۸;،۷/۱۴، ۲۶، ۲۷;_ كے آگے ملائكہ كا سجدہ ۷/۱۱،۱۲ ; _ كے خلاف سازش ۷/۲۰; _ كے درجات و مقامات ۷/۱۱; _ كے سامنے سجدہ نہ كرنا ۷/۱۱; _ كے

۶۴۱

عصيان كى سزا ۷/۲۴;_ كے عصيان كے آثار ۷/۲۷; _ كے عيوب كا ظاہر ہونا ۷/۲۴_ كے مقام كى قدر و منزلت ۷/۱۹; _ كے ہبوط كے اسباب ۷/۲۷;بہشت _ كا مقام ۷/۲۴; بہشت _ كى صفات ۷/۱۹; بہشت ميں _ كى سكونت ۷/۲۰; قصہ _ ۷/۱۱،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۷قصہ آدمعليه‌السلام سے عبرت ۷/۲۷نيزر_ك ابليس اور انسان

آدم كشي:نيز ر_ك اولاد كا قتل _ قتل

آرام و سكون :_سے خالى لوگ ۶/۷۱; _ كى راہيں ۶/۴۸; _ كى نعمت ۶/۱۲۷; _ كى نفسيانى راہ ۶/۴۸ ;_ كے اسباب ۶/۱۲۷،۷/۲نيز ر_ك اطمينان ; بہشت ; رات ،مؤمنين مہتدين ; ميلانات _

آرزو :دنيا ميں واپس پلٹنے كى _۶/۲۷،۲۸نيزر_ك ابليس ، كفار ، مشركين

آرمان :ر_ك انبيا

آزادى :ر_ك عقيدہ

آزر:_كا اجتماعى مقام و مرتبہ ۶/۷۴;_كى بت پرستى ۶/۷۴;_كى شخصيت ۶/۷۴; _كى گمراہى ۶/۷۴; نيز ر_ك ابراہيم

آزمائش :ر_ك امتحان

آسائش :_كے آثار ۶/۴۰نيز ر_ك رفاہ ;غافلين

آسمان :_كا حادث ہونا ۶/۱;_كا حاكم ۶/۳; _كا خالق ۶/۱،۴۲ ،۷۳، ۷۹ ، ۱۰۱ ،۲ ۱۰; _ كى تدبير ۶/۷۳;_ كى جانب صعود ۶/۱۲۵،_وں كا متعدد ہونا ۶/۱،۳،۱۲، ۱۴ ، ۷۳،۷۹;_وں كى خلقت ۶/۱; _وں كى خلقت كا استحكام۶/۷۳ ;_وں كى خلقت كا با مقصد ہونا ۶/۷۳ ;_وں كے دروازے ۷/۴۰;_ى موجودات كا مالك ۶/۱۲;ملكوت _ى ۶/۷۵

آسمانى كتب:آخرى _ ۶/۱۱۵۶، _ سے جہالت كے آثار ۶/۱۵۷; _ كا تقاضا ۶/۱۰; _ كا قرآن سے پہلے ہونا ۶/۱۵۶; _ كا كردار ۶/۹۰،۹۱; _كا نزول ۶/۷;_كا ہدايت كرنا ۶/۹۳; _ كى بے نظيرى ۶/۹۳; _ كى پيشگوئي ۶/۲۰،۹۲; _كى تعليمات ۶/۲۰; _كى تعليمات كى تبليغ ۶/۹۱ ;_ كى حقانيت

۶۴۲

كے گواہ ۶/۹۲ ;_ كى گواہى ۶/۲۰;_ كى مثل لانے كا ادعا ۶/۹۳;_ ميں ہم آہنگى ۶/۹۲;نيز ر_ك آنحضرت(ص) ; انجيل ،تورات ، قرآن ،كفر

آسيب شناسي:ر_ك تبليغ _دين

آفرينش:_ كا تكامل ۶/۷۱;_ كا حاكم ۶/۱۲،۶۲،۸۰;_ كا خالق ۶/۱۰۱ ،۱۰۲ ; _ كا قانون كے مطابق ہونا ۶/۵۹، ۹۶; _ كا مالك ۶/۴۵،۱۶۴;_ كا مدبر ۶/۱۶۴ ; _ كى تدبير ۶/۳۱،۴۵ ،۵۷، ۵۹، ۸۱،۱۶۲،۱۶۴;_ كى خلقت ۶/۱۰۱،۱; _ كے تحولات ۶/۵۹،۷۳;_ كے عوالم ۶/۱۶۲، ۷/۴۰ ; _ كے عوالم كا متعدد ہونا ۶/۴۵ ; _ كے ملكوت كى رؤيت ۶/۶۷;_ ميں رشد و تكامل ۶/۹ ۷; _ ميں عليت ۶/۷۹;خزائن _ كا مالك ۶/۱۶۲; كمال _ ۶/۳۸;نظام _۶/۵۷ ، ۹۷;نظام _ كى خصوصيات ۶/۳۸; نيز ر_ك تعقل

آگ:_كى اہميت ۷/۱۲; نيز ر_ك ابليس _ جہنم

آگاہى :ر_ك بصيرت _شناخت عليم آئين ر_ك دين ،رسوم

آنحضرت(ص) :_ اور آسمانى كتب ۶/۳۰ ، ۹۲; _ اور احساس ذمہ دارى ۶ /۱۰۷ ; _ اور انجيل ۶ /۳۰ ، ۱۱۴; _ اور تورات ۶ /۲۰ ، ۱۱۴; _اور بدعتى افراد ۶ /۱۵۰; _ اور صحابہ ۶ /۵۲; _ اور علم غيب ۶ /۵۰ ; _ اور فقير صحابہ ۶/ ۵۲; _ اور كفار ۶ /۷۴، ۳۳، ۳۵; _ اور گمراہ افراد ۶ / ۱۵۰; _اور مشركين ۶ / ۱۴، ۱۹ ، ۴۲ ، ۴۷، ۵۰، ۵۳، ۱۰۶، ۱۳۷، ۱۴۷; _ اور مشركين صدر اسلام ۵ / ۵۸; _ اور مشركين مكہ ۶ / ۱۱۳ ; _ اور ولايت خدا ۶ / ۱۰۵ ; _ پر خدا كى بخشش ۶ / ۸۹ ; _ پر طعن ۶ /۳۳ ; _ پر وحى نازل ہونا ۶ / ۱۹ ، ۹۱ ; _ سے اعراض ۶ / ۸ ۲۶۹; _ سے اعراض كے اسباب ۶ / ۲۶ ; _ سے بے جا توقعات ۶ / ۳۵ ; _ سے مذاق كرنے والوں كو تنبيہ ۶ / ۱۰; _ كا احتجاج ۶/۱۲، ۱۴، ۱۹ ، ۱۴۶، ۱۴۸ ; _ كا اخلاق ۶ / ۱۲۶; _ كا اسلام ۶ / ۱۴; _ كا انبياء كى پيروى ۶/۹۰ ; _ كا انقياد ۶ / ۱۴ ، ۵ ، ۱۵۳ ; _كا حسن انجام ۶ / ۱۳۵; _ كا خوف ۶/۱۵;_ كا راستہ ۶ /۱۵۳;_كا سلام ۶/۵۴; _ كا سوال ۶/۱۹ ; _ كا عقيدہ ۶/۱۴; _ كا علم غيب ۶/۲۴ ; _ كا عمل ۶ / ۵۲ ; _ كا غم ۶/۳۳; _ كا قرآن پر احاطہ ۶ / ۴۵ ; _ كا كردار ۶ / ۱۴ ، ۴۵، ۱۵۱; _ كا مذاق ۶ / ۱۰ ; _ كا معجزہ -۶/۳۵، ۵۰، ۷۵ ;_كا معلم ۶/ ۱۰۵، ۱۶۱; _ كا يہود سے احتجاج ۶ / ۹۱ ; _ كو اذيت ۶/۳۳; _ كو اضرار ۶ / ۱۷ ; _ كو بشارت ۶/ ۸۹; _ كو تسلى ۶/ ۱۰ ، ۳۰ ، ۳۳، ۳۴، ۹۸ ، ۱۱۲ ، ۷/ ۴۱ ; _ كو جھٹلانے والوں كى پشيمانى - ۶ / ۲۷ ; _ كو خبردار كيا جانا ۶ / ۱۴۷ ; _ كى امداد ۶ / ۴ ; _ كى بصيرت ۶ /۵۰ ; _ كى بعثت كے آثار تاريخ ۶ / ۱۹ ، ۵۲ ، ۵۸ ; _ كى

۶۴۳

تبليغ كا بلا اجرت ہونا ۶ /۹۰ ; _ كى تبليغ كى اجرت ۶ / ۹۰ ; _ كى تبليغى سيرت ۶ / ۱۷ ; _ كى تشويق ۶ / ۳۴; _ كى تعليم ۶ / ۱۲; _ كى تكذيب ۶ / ۲۵ ، ۳۴ ، ۳۷ ، ۸۹ ، ۱۴۷ ; كى تكذيب كى فراموشى ۶ / ۶۸ ; _ كى تواضع ۶ / ۵۴ ; _كى توحيد ۶ / ۱۶۳; _كى توحيد عبادى ۶ / ۱۲۶ ; _كى ثابت قدمى ۶ / ۱۳۵ ; _ كى جنگ ۶ /۱۱۲ ; _ كى حقانيت پر گواہى ۶ / ۱۹ ; _ كى حقانيت كا كتمان ۶ / ۲۰ ، ۲۱; _ كى حقانيت كے دلائل ۶ / ۳۷، ۳۸، ۱۱۵; _ كى حقانيت كے گواہ ۶ / ۱۹ ، ۲۰ ، ۵۷ ; _ كى حمد ۶ / ۱۵۳ ، ۱۶۲ ; _ كى خاتميت ۶ / ۱۹ ، ۱۱۵; _ كى دعوت ۶ / ۳۶ ، ۱۵۱ ; _ كى دعوت سے بے اعتنائي ۶ / ۳۶ ; _ كى دعوت كو قبول ہونا ۶ / ۳۶ ; _ كى دعوت كو قبول كرنے كى راہ ۶ / ۵۳; _ كى دعوت كى خصوصيات ۶ / ۳۶ ، ۱۵۱ ; _ كى ذمہ دارى ۶/۱۱ ، ۱۴، ۱۹، ۲۵، ۵۸، ۱۴۷، ۱۴۸، ۱۵۰ ، ۱۵۱، ۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۳، ۷/۲ ، ۳۲; _ كى ذمہ دارى كا تعين ۶/ ۵۰ ; _ كى ذمہ دارى كى حدود ۶/ ۱۹ ، ۵۰، ۵۲، ۶۶، ۱۴ ، ۱۰۷، ۱۳۷، ۷/۲; _ كى رسالت كا دوام ۶ / ۱۹ ; _ كى رسالت كو جھٹلانے والے ۶/ ۹۱ ; _ كى رسالت كى حدود ۶ / ۹۰; _ كى رسالت كى عا لميت ۶ /۱۹، ۹۰ ; _ كى زيارت كى فضيلت ۶ / ۳۵ ; _ كى قدرت كى حدود ۶/ ۳۵ ، ۵۰ ; _ كى قضاوت۶/۸۹ ; _ كى قوم۶ /۶۶ ; _ كى كتاب ۶ / ۸۹ ; _ كى مشكلات ۶ / ۳۵ ; ;_كى منفى جنگ ۶ / ۱۱۲; _ كى حقانيت كے گواہ ۶ / ۱۹ ، ۲۰ ، ۵۷ ; _كى نبوت ۶ / ۸۹; _ كى نبوت كے گواہ ۶ / ۱۹ ، ۱۱۱; _ كى نبوت ميں مغالطہ ۶ / ۹ ;_ كى نماز ۶ / ۱۶۲; _ كى وحى كى پيروى كرنا ۶ / ۱۰۶; _ كى ہدايت ۶ / ۶۱ ; _ كى ہدايت كرنے كى روش ۶ / ۷۴;_ كى ہدايت گرى ۶ / ۳۵ ، ۶۳، ۱۰۴ ، ۱۰۷، ۱۳۷; _ كے اختيارات ۶ / ۵۰ ; _ كے انذار ۶ / ۱۹، ۵۱ ، ۱۴۷ ، ۲۱۷ ; _ كے پيروان ۶ / ۳۶، ۱۵۹; _ كے دشمن - ۶ / ۲۰ ، ۲۵ ; _ كے دشمنوں سے مقابلہ كا طريقہ ۶ / ۱۱۸; _ كے دشمنوں كا پروپيگنڈا ۶/۱۱۸ ; _ كے دشمنوں كى آزادى ۶ / ۱۲ ; _ كے دشمنوں كى ہٹ دھرمى ۶ / ۱۱۲ ; _ كے زائرين كے مقامات ۶ / ۵۴ ; _ كے ساتھ جنگ ۶ / ۷ ، ۳۲، ۲۵ ، ۲۶ ، ۳۳، ۹۳ ; _ كے ساتھ مجادلہ ۶/ ۵۹ ; _ كے عمل كا حساب ہونا ۶ / ۵۲ ; _ كے غم ۶ / ۳۳ ; _ كے فرا ض ۶ / ۱۵ ; _ كے فضائل ۶ / ۱۰۶ ، ۱۲۶ ، ۱۳۳; _ كے كلام كا سننا ۶ / ۳۶ ; _ كے كلام كو سمجھنا ۶ / ۳۶ ; _ كے مقابلے كى روش ۶ / ۱۱۲ ; _ كے مخالفين سے جنگ كا طريقہ ۶ / ۹۲ ; _ كے معجزہ كى تكذيب ۶ / ۱۰۹ ; _ كے مقامات ۶ / ۱۹ ، ۳۳، ۸۳ ، ۸۹، ۱۵۳، ۱۶۳; _ كے مكذبين ۶ / ۵۷، ۱۴۷; _ خدا كا _ سے تكلم ۶ / ۱۶۲; مكذبين _ اور قيامت كا دن ۶ / ۲۷ ، ۳۶ ; مكذبين _كاانجام ۶ / ۴۱ ; _ مكذبين_ كا ظلم ۶ / ۵۸ ; _ مكذبين _ كا عذاب ۷ / ۵۸ ; _ مكذبين _ كو خبردار كيا جانا ۶ / ۳۳; مكذبين _ كو مہلت ۶ / ۱۴۷ ; _مكذبين _ كى كوردلى ۶ /۵۰ ; مكذبين _ كى گمراہى ۶ / ۵۰ ; مكذبين _ كے تقاضے ۶ / ۵۷ ; نبوت _ كے دلا ل ۶ / ۳۷ ، ۳۸ ، ۱۱۵

۶۴۴

نيز ر_ ك ، انبيائ، اہل كتاب، ايمان ، تعقل ، دشمنى ، ظالمين كفار ، كفر ، مشركين ، معاد، مومنين ، يہود_

آئمہ :_ پر سب و شتم كرنے والوں سے اعراض ۶/۶۸; _ كى پيروى ترك كرنے كے آثار ۶/۱۵۳; _ كى مسئوليت ۶/۱۹; _ كے مخالفين كى عيب جوئي ۶/۱۰۸; _ كے مقامات ۶/۱۵۳; نيز ر_ك امام على _ اہلبيتعليه‌السلام

آيات احكام :ر_ك احكام آيات الہى :۶/۳۳،۳۴،۳۷،۳۸،۹۷،۹۹;آفاقى آيات ۶/۱۴۱; _ پر ايمان لانے والے ۶/۱۱۸;_ سے استفادہ ۶/۶، ۷/۳۲;_ سے اعراض ۶/۴،۵;_ سے اعراض كرنے والوں كا عذاب ۶/۱۵۷; _ سے اعراض كى سزا ۷/۳۶;_ سے بے اعتنائي ۶/۳۶،۶۸;_ كا تمسخر ۶/۵; _ كا تمسخر اڑانے والوں كى سزا ۶/۵;_ كا تنوع ۶/۱۰۵ ; _ كا واضح ہونا ۶/۱۰۴; _ كا ہدايت كرنا ۶/۱۰۵;_ كو جھٹلانا ۶/۵، ۲۱،۲۸ ،۳۳،۷/۱۰،۳۷; جھٹلانے پر سرزنش ۶/۵; آيات خدا كو _ كو جھٹلانے سے اجتناب ۶/۵۱،۷/۳۵;جھٹلانے كا تداوم ۷/۹; _ كو جھٹلانے كا ظلم ۶/۲۱; آيات خدا كو جھٹلانے كا مقدمہ ۶/۲۵،۴۹; _ كو جھٹلانے كے آثار ۶/۱۱، ۲۱،۳۹،۱۱۰،۷/۹،۴۰;_ كو جھٹلانے والوں كا انجام ۶/۲۱،۷/۳۶، ۴۰; _ كو جھٹلانے والوں كا بہرا سونا ۶/۳۹; _ كو جھٹلانے والووں كا خسارہ ۷/۹; _ كو جھٹلانے والوں كا خوف ۶/۴۹; _ كو جھٹلانے والوں كا ظلم ۷/۳۷;_ كو جھٹلانے والوں كا فسق۶/۴۹;_ كو جھٹلانے والوں كا گناہ ۶/۶;_ كو جھٹلانے والوں كا گونگا ہونا ۶/۳۹;_ كوجھٹلانے والوں كا ناقابل ہدايت ہونا ۶/۱۱; _ كو جھٹلانے والوں كى ابتلا ۷/۳۷; _ كو جھٹلانے والوں كى تاريكى ۶/۳۹،۷/۳۷;_ كو جھٹلانے والوں كى تنبيہ ۶/۲۱; _ كو جھٹلانے والوں كى روزى ۷/۳۷; _ كو جھٹلانے والوں كى سرنوشت ۷/۳۷;_ كو جھٹلانے والوں كى سزا ۶/۵;_ كو قبول كرنے كا مقدمہ ۶/۱۰۵;_ كو ;قبول كرنے كے موانع ۶/۳۹; _ كو ياد ركھنے كا مقام و مرتبہ ۶/۱۲۷; _ كى اہميت ۶/۱۲۶; _ كى تبيين ۶/۱۳۶،۱۳۰،۷/۳۲; _ كى تلاوت ۷/۳۵; _ كے جھٹلانے والے ; _ كے جھٹلانے والوں كا عذاب ۶/۴۹; _ كے جھٹلانے والوں كى محروميت ۶/۳۹، ۷/۴۰،۷/۲۷; _ كے جھٹلانے والے ۶/۲۱، ۳۳،۲۸، ۴۵،۰ ۱۵، ۷/۴۱; _ كے جھٹلانے والے اور شياطين ; _ كے جھٹلانے كے علل و اسباب ۶/۳۳،۳۹;_ كے فہم كا مقدمہ ۶/۲۵،۴۹; _ كے فہم ميں موانع ۶/۳۹; _ كے خلاف جنگ ۶/۵; _ كے نزول كا فلسفہ ۶/۲۸; _ كے نزول كے اسباب ۶/۴; نيز ر_ك استكبار ايمان ، تعمل دانشمند ، ذكر ، رہبري، شبہات ،

۶۴۵

ظالمين ، علما، كفار، كفارمكہ ، كفر، مشركين ، مغالطہ آيات ملجئہ:۶/۱۵۸_ كا كردار ۶/۱۵۸

الف

ابتلائ:ر_ك سختى ، كمى ، قيامت

ابداع :ر_ك خدا

ابراہيمعليه‌السلام :_اور آزر ۶/۷۴; _اور چاند پرست لوگ ۶ /۷۷ ، _اور چاند پرستى ۶ / ۸۷; _اور رؤيت عرش ۶/۷۸; _اور ستارہ پرست لوگ ۶/۷۶; _اور سورج پرستى ۶/۷۸; _اورمشركين ۶/۸۳; _پر خدا كى بخشش ۶/۸۴; _كا اجتماعى مقام و مرتبہ ۶/۷۴; _كا اجر ۶/۷۴ ; _كا احتجاج ۶/۷۴ ،۷۶ ،۷۷، ۷۸،۷۹،۸۰; _ كا تبرا۶ ۸۷;_ كا تعجب ۶/۸۰; _كا حق كى طرف رجحان ۶/۷۹; _ كا حنيف ہونا۶/۷۹/۱۶۱; _ كا دين ۶/۱۶۱; _ كا ستارہ پرستى كا اظہار ۶/۷۶; _كا سورج پرستى كا اظہار ۶/۷۸;_ كا سوتيلا باپ ۶/۷۴; _ كا صالحين ميں سے ہونا ۶/۸۵; _ كا عقيدہ ۶/۸۰; _ كا قصہ ۶/۷۴،۷۵ ،۷۶، ۷ ۷، ۷۸،۸۰ ، ۸۱ ، ; _ كا مجادلہ ۶/۷۶; _ كا محسنين ميں سے ہونا ۶/۸۴; _ كو خبردار كرنا ۶/۸۰; _ كو ملكوت كا مشاہدہ كرانا ۶/۷۵،۷۸،_ كى اولاد ۶/۸۴; _ كى بصيرت ۶/۷۵; _ كى تنزيہ ۶/ ۶۱ _ كى توحيد ۶/۷۸، ۷۹ ،۸۰; _ كى تہديد ۶/۸۱; _ كى حجت و براہين ۶/۸۴; _ كى خصوصيات ۶/۷۹; _ كى شجاعت ۷/۸۰; _ كى شرك سے جنگ ۶/۷۶ ،۷۷، ۷۸ ، ۷۹ ، ۸۰; _ كى شہرت ۶/۷۴; _ كى قضاوت ۶/۸۹; _ كى نبوت ۶/۸۹; _ كى نسل كا زيادہ ہونا ۶/۸۴; _ كى ہدايت ۶/ ۸۴; _ كى ہدايت يافتہ نسل ۶/۸۴; _ كے احتجاج كا حكم ہونا ۶/۸۳; _ كے احتجاج كى خصوصيات ۶/۸۳; _ كے پيرو كار ۶/۱۶۱; _كے دور كى تاريخ ۶/۷۶، ۷۷، ۷۸; _ كے عزيز و اقارب ۶/۸۷;_ كے فضائل ۶/۷۹، ۸۴ ، ۸۶،۱۶۱;_ كے مقامات ۶/۷۵ ،۸۳، ۸۴،۸۹; _ كے ميلانات ۶/۷۹

ابليس :_ اور آدم ۷/۱۲،۱۳،۱۸،۲۰،۲۱،۲۲،۲۷; _ اور حوا ۷/۲۰،۲۱،۲۲،۲۷;_ اور صراط مستقيم ۶/۱۶; _ پر بے اعتمادى ۷/۲۱; _ عصيان سے پہلے ۷/۱۳; _ كا آگ سے ہونا ۷/۱۲; _ كا انتقام ۷/۱۶; _ كا انجام ۷/۱۸; _ كا بہكاوے كا اقرار كرنا ۷/۱۶;_ كا تعصب ۷ / ۱۲; _ كا تكبر ۷/۱۱،۱۲،۱۳; _ كا جہنم ميں ہونا ۷/۱۸; _ كا جھوٹ بولنا ۷/۲۰; _ كا حوصلہ ۷/۱۱; _ كا دھتكارا جانا ۷/۱۸; _ كادھو كہ دينا ۷/۱۶ ، ۱۷ ، ۲۰، ۱۱، ۲۲، ۲۷; _ كا صراط مستقيم كا اقرار كرنا ۷/۱۶; _ كا ضعف ۷/۱۷; _ كا عصيان

۶۴۶

۷/۱۱، ۱۲، ۱۴،۱۸; _ كا عقيدہ ۷/۱۲،۱۴،۱۶;_ كا علم ۷/۱۲، ۱۴، ۱۷; _ كا قدريں معين كرنا ۷/۱۲; _ كا قياس ۷/۱۲ ; _ كا كردار ۷/۲۱; _ كا كفران ۷/۱۶; _ كا كينہ ۷/۱۶; _ كا گمراہى كا اقرار كرنا ۷/۱۶; _ كا مكر ۷/۲۰; _ كا مواخذہ ۷/۱۲; _ كا مہلت مانگنا ۷/۱۴; _ كا وسواس ڈالنا ۷/۲۰; _ كا وسوسہ ۷/۲۰،۲۷; _ كى آرزو ۷/۱۷; _ كى اطاعت ۷/۱۷،۱۸; _ كى اميدوارى ۷/۱۴; _ كى تحقير ۷/۱۸; _ كى توحيد ۷/۱۲; _ كى جنس ۷/۱۱; _ كى جھوٹى قسم ۷/۲۲; _ كى خلقت ۷/۱۲; _ كى خلقت كا عنصر ۷/۱۲; _ كى دشمنى ۷/۱۷،۲۰; _ كى زندگى كا سرچشمہ ۷/۴;_ كى سازش كا وسيع ہونا۷/۱۷; _ كى سرزنش ۷/۱۲، ۱۸; _ كى شيطنت ۷/۲۰; _ كى عمر ۷/۱۴،۱۵،۱۶; _ كى قسم ۷/۲۲; _ كى گستاخى ۷/۱۲،۱۶;_ كى گمراہى ۷/۱۶; _ كى گمراہى كا منشا۷/۱۶; _ كى مسئوليت ۷/۱۲; _ كى معادشناسى ۷/۱۴; _ كى مہلت كى درخواست كا قبول ہونا ۷/۱۵; _ كے بہكاوے كا فلسفہ ۷/۱۶; _ كے بہكاوے ميں نہ آنے والے لوگ ۷/۱۷; ا بليس كے پيروكاروں كا انجام ۷/۱۸; _ كے پيروكاروں كا جہنم ميں ہونا ۷/۱۸; _ كے تقاضے ۷/۱۴; _ كے تكبر كے آثار ۷/۱۸، ۲۴; _ كے تكبر كے علل و اسباب ۷/۱۲; _ كے جال ۷/۱۷; _ كے رذائل ۷/۱۲،۱۳; _ كے سابقہ مقامات ۷/۱۱; _ كے ساتھ ہمراہى ۷/۱۸; _ كے عصيان كے آثار ۷/۱۸،۲۴; _ كے عصيان كے اسباب ۷/۱۲; _ كے مقامات ۷/۱۱، ۱۳; _ كے مكر سے نجات ۷/۱۷; _ كے مہلت مانگنے كا فلسفہ ۷/۱۶; _ كے ہبوط كے علل و اسباب ۷/۱۳، ۲۴; _ كے ہبوط كے مراحل ۷/۲۴;خدا كا _ سے تكلم ۷/۱۸; نيز ر_ك آدم ، شيطان _ ملائكہ

اتحاد :_كى اہميت ۶/۱۵۳،۹ ۱۵، _كے موانع ۶/۱۵۳

اتفاق :_كى نفى ۶/۶۷

اتمام حجت ۶/۱۳۱:_ كى اہميت ۶/۱۳۱; _كى كيفيت ۶/۱۵۶; انسانوں پر _۶/۱۵۶، ۱۵۷; اہل كتاب پر _۶/۶۰; كفار پر _۶/۴

اجتماعى مقام :_سے عارى افراد ۶/۵۲،۵۳

اجر :ر_ك جزا

اجرام فلكى :_كى ربوبيت ۶/۷۷،۷۸; _كى ربوبيت كارد۶/۸۰

اجرت :مستجاب ۶/ ۳۱;ر_ك آنحضرت (ص) ، تبليغ _

اجل :

۶۴۷

_كى اقسام ۶/۱۲; _مسمى ۶/۲،۶۰،۱۲۸; _مسمى سے آگاہى ۶/۲; _مسمى كى حتميت ۶/۲ ;_معلق ۶/۲; _معلق سے آگاہى ۶/۲; _معلق كا متغير ہونا ۶/۲

احبار :ر_ك علماء يہود

احتجاج : (دليل و حجت لانا)_جدلى ۶/۷۶; _كا طريقہ ۶/۱۴; _كرنے كا معيار ۶/۸۱; بدعت ايجاد كرنے والوں سے _۶/۰ ۱۵; كفار سے _۶/۱۴; مشركين سے _۶/۱۲،۱۹،۴۰، ۴۶، ۶۳، ۸۳،۱۴۸; يہود سے _نہ كرنا ۶/۹۱; خاص موارد كو اپنے موضوع ميں تلاش كيا جائے_

احتضار :_ كے آثار ۷/۳۷; _كے سخت ہونے كے اسباب ۶/۹۳; _كے وقت پياس ۶/۹۳; _كے وقت كى ضرورت ۷/۳۷; نيز ر_ك خدا پر افترا باندھنے والے ظالمين _وحي

احسان :_ كا مفہوم ۶/۱۵۱;_ كے آثار ۶/۸۶،۸۹; نيز ر_ك آنحضرت (ص) ،خدا، والدين

احكام :۶/۲۸، ۶۳،۱۱۸،۱۱۹،۱۴۰،۱۴۱،۱۴۲،۱۶۳، ۱۴۵ ، ۴۶ ۱،۱۵۰،۵۱ ۱،۱۵۲، ۱۵۳،۷/۳۳ ; _ ثانوى ۶/۱۱۹،۱۴۵; _ كا توقيفى ہونا ۷/۱۱۶; _ كا فلسفہ ۶/۶۹،۱۴۲،۱۴۵; _ كو بيان كرنا ۶/۱۵۱، ۷/۳۲; _ كو وضع كرنا ۶/۵۷،۱۱۹، ۱۴۱، ۱۵۱; _ كى اہميت ۶/۱۱۸; _ كى خصوصيات ۶/۵۳; _ كى عموميت ۶/۱۵; _ كے اثبات كى شرائط ۶/۱۴۴; _ كے اعتبار كا معيار ۶/۱۴۴; _ كے درست ہونے كا معيار ۶/۱۴۳; _ كے منابع ۶/۱۴۵; _ ميں انعطاف پذيرى ۶/۱۴۵; _ وضع كرنے كا سرچشمہ ۶/۱۴۴; _ وضع كرنے ميں علم ۷/۳۳; تشريعى _ كا سرچشمہ ۶/۵۹; خاص موارد اپنے موضوع ميں تلاش كريں

اختلاف :اجتماعى _كے اسباب ۶/۱۵۹; _كا مقدمہ ۶/۶۵; _كے آثار ۶/۶۵ ،۱۵۳; _كے علل و اسباب ۶/۱۵۳; دينى _۶/۶۵

اختلاف كرنے والے :_كا انجام ۶/۱۵۹; _كى سزا ۶/۱۵۹

اختيار :رك انسان ، توحيد ، جبر ، جنات ، دين ، شرك ، عقيدہ ، عمل ، گمراہى ، ہدايت _

اخلاص :_كا مقدمہ ۷/۲۹; _كى اہميت ۶/۱۶۲ ;_ كے آثار ۶/۴۱ ;_كے علل و اسباب ۶/۶۳ ; _كے موانع ۸/۲۹ ;نيز ر_ك آنحضرت (ص) ،انسان ، دعا ،

۶۴۸

عبادت ، مناجات

اخلاق :_رذائل سے اجتناب ۷/۲۶ ;_رذائل كے موانع ۷/۶نيز _ ر_ ك اخلاقى مباحث

ادراك :_ كى سلامتى كى نشانياں ۶/ ۳۹;_كے عطا ہونے كا منشا ۶/۴۶; _كے موانع ۶/۳۹ ;سلب _۶/۴۶ ;عدم _كے آثار ۶/۳۹ ;نعمت _۶/۴۶ ;نعمت _كا سرچشمہ ۶/۴۶ ;نيز ر _ خدا ،فہم

اديان :_كى تعليمات پر عمل ۶/ ۹۰; _كى تعليمات كى حجت ۶/۹۰ ;_كى تعليمات ميں تكامل ۶/ ۹۱; _كے خلاف جنگ ۶/۱۲۱ ;مكمل _۶/۵;۱۱ نيز ر _ك اسلام ، توحيد ، دين ، قيامت

ارتداد :_كے آثار ۶/۷۱; _كے علل و اسباب ۶/۷۱; نيز ر _ك مرتد

ارشاد :ر_ك تبليغ

ازدواج :باپ كى بيوى سے _۷/۳۳ ; حرام _۷/۳۳

استدلال :ر_ك احتجاج و برہان

استغفار :_كے آداب ۷/۲۳

استقامت :ر_ك _توحيد ، سرد جنگ ، رہبر ي

استكبار :آيات خدا كے مقابلہ ميں _ كى سزا ۶/۹۳ ;_كى سزا ۶/۱۲۴ ;_كے آثار ۶/۹۳ ، ۷/ ۳۵ ، ۴۰ نيز ر_ ك تكبر ، شيطان _ مستكبرين

استہزا كرنے والے:_ كا انجام ۶/۱۰; _كى سزا ۶/۱۰

اسحاقعليه‌السلام :_كا صالحين ميں سے ہونا ۶/۸۵; _كا محسنين ميں سے ہونا ۶/۸۴; _كى توحيد۶/۸۴; _ كى حجت و براہين ۶/۸۴ ; _كى قضاوت ۶/۸۹; _كى نبوت ۶/۸۹; _كى ہدايت ۶/۸۴ ;_كے عزيز و اقارب ۶/۸۷; _كے فضائل ۶/۸۴، ۸۶ ; _ كے مقامات ۶/۸۴ ، ۸۶

اسراف :

۶۴۹

_پر سرزنش ۶/۱۴۱ ;_كى حرمت ۶/۱۴۱ ; _كے آثار ۷/۳۱ ; _كے احكام ۶/۴۱ ، ۷/۳۱; _كے موارد ۶/۴۱ ، ۷/۳۱

اسلام :_پر تہمت ۶/۱۱۹ ;_سے استہزا كرنے كا گناہ ۶/۶۹ ;_سے اعراض ۶/۳۵ ;_قبول كرنے كے آثار ۶/۱۲۶; _كا استوار اور محكم ہونا ۶/۱۶۱ ; _كا استہزا كرنے سے اجتناب ۶/۶۹; _كا عالمى ہونا ۶/۱۹ ; _كا وحى پر مبنى ہونا ۶/۱۴ ; _كى تعليمات ۶/۱۶۳; _كى تكذيب ۶/۳۵ ; _كى جامعيت ۶/۱۱۵ ; _كى حفاظت ۶/۱۴ ، ۶۹ ; _كى خصوصيات ۶/۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۶۱،۱۶۲; _كى عقلانيت ۶/۱۴ _كى دعوت ۶/۱۹ ; _كى فتح كى بشارت ۶/۵ ; _كى ہدايت گرى ۶/۱۱۵ ;_كے خلاف سازش ۶/۱۲۳ ; _كے خلاف مبارزے كے طريقے ۶/۹۳ ; خاتميت _۶/۱۱۵; دشمنان _سے مقابلہ كرنے كا طريقہ۶/۱۱۸ صدر _كى تاريخ ۶/۵، ۷;۸،۱۹ ۲۰ ،۲۶ ،۵۲، ۵۳،۵۴، ۵۶،۵۷،۵۸،۷۱،۱۰۵ ،۱۰۹ ،۱۱۴ ،۱۱۸،۱۱۹،۱ ۱۲،۱۲۳ ; قداست _كى حفاظت ۶/۶۹; نعمت _۶/۵۳ نيز ر _ ك رہبرى _ہم نشيني

اسماعيلعليه‌السلام :_كا صالحين ميں سے ہونا ۶/۸۶; _كى قضاوت ۶/۸۶; _كى نبوت ۶/۸۹; _كى ہدايت ۶/۸۶; _ كے آبا و اجداد ۶/۸۶; _كے فضائل ۶/۸۶; _كے مقامات ۶/۸۹

اسماء و صفات :بصير ۶/۱۳ ;حكيم ۶/۱۸ ، ۷۳ ، ۸۳ ، ۱۲۸ ، ۱۳۹ ; خبير ۶/۸۱ ، ۷۳ ، ۱۰۳ ; رحيم ۶/۵۴ ، ۱۴۵ ، ۱۶۵ ; سميع ۶/۱۳ ، ۱۱۵ ; صفات جلال ۶/۱۸ ، ۹۹ ، ۱۰۱ ، ۱۰۳، ۱۳۱ ; عزير ۶/۹۶ ;عليم ۶/۸۳ ، ۹۶ ، ۱۰۱ ، ۱۱۵ ، ۱۲۸ ، ۱۳۹;غفور ۶/۵۴ ، ۱۴۵ ، ۱۶۵ ;لطيف ۶/۱۰۳ ; وكيل ۶/۱۰۲

اصحاب محمد(ص) :ر_ ك صحابہ

اصلاح :_ كے آثار ۶/۴۸ ، ۵۴ ;_ كے علل و اسباب ۶/۵۴

اصل حليت :۶/۱۱۹ ، ۱۴۰ ، ۱۴۳ ، ۱۴۵ ، ۷/۳۲; _كى حد ۶/۱۱۹

اصول پسندي:ر_ ك رہبري

اضطراب :_كے علل و اسباب ۶/۱۲۵

اضطرار :_ كے آثار ۶/۱۱۹ ، ۱۴۵ _ى احكام ۶/۱۴۵ ;_ى حالت ميں باغى سے مراد ۶/۱۴۵; _ى حالت ميں عادى سے مراد ۶/۱۴۵ ;_ى حالت

۶۵۰

ميں محرمات كے آثار كا ختم ہو جانا ۶/۱۴۵

نيز ر_ك _ تكليف ، طغيانگر لوگ _ متجاوزين

اضلال :ر_ ك _ بدعتى لوگ _ جنات _ خدا، شياطين اور گمراہي

اطاعت :_ انبياء كا پيش خيمہ۷/۱۰ ;_ خدا كى اہميت ۶/۱۱۶ ،۱۱۷; _ كى شرائط ۶/۹۰ ; _ كے آثار ۶/۱۳۳; _ كے اسباب ۷/۱۰ ;اكثريت كى _ ۶/۷۶; اوامر الہى كى _ ۶/۱۵۳ ;خدا كى _ ۶/۱۰۶ ، ۱۱۶ ، ۷/۳; شيطان كى _ ۶/۱۲۱ ، ۱۴۲ ;شيطان كى _ پر مذمت ۶/۱۴۲;شيطان كے دوستوں كى _ ۶/۱۲۱ ;علما كى _ ۶/۱۱۶ ;غير خدا كى _ ۶/۱۲۱ ، ۷/۳ ;غير خدا كى _ كا ترك كرنا ۶/۱۵۳ ، ۷/۳ ;قرآن كى _ ۷/۳ ;گمراہوں كى _ كے موانع ۶/۲۲; لوگوں كى _ ۶/۱۱۶; مشركين كى _ كا ترك كرنا ۶/۵۰ ; مشركين كى _ كے آثار ۶/۵۶ ;خاص موارد كو اپنے موضوع ميں تلاش كيا جائے_

اطمينان:_كى راہيں ۶/۱۴۸ ; _كے اسباب ۶/۱۲۵ ، ۷/۲۲

اعتدال :ر_ك قرآن

اعتراف : ر_ك اقرار

اعداد :آٹھ كا عدد ۶/۱۴۳; دس كا عدد ۶/۱۶۰

اعلام : (شخصيات)ر_ك آدمعليه‌السلام _ آذر ، آنحضرت (ص) ، ابراہيمعليه‌السلام ، ابليس ، اسحاقعليه‌السلام ، اسماعيلعليه‌السلام ، الياسعليه‌السلام ، اليسععليه‌السلام ، امام علىعليه‌السلام ، ايوبعليه‌السلام ، حواعليه‌السلام ، داودعليه‌السلام ، زكرياعليه‌السلام ، سليمانعليه‌السلام ، عزرائيلعليه‌السلام ، عمرعليه‌السلام ، عيسى لوطعليه‌السلام ، موسىعليه‌السلام ،نوحعليه‌السلام ، ہاورنعليه‌السلام ، يحيىعليه‌السلام ، يعقوبعليه‌السلام ، يوسفعليه‌السلام ، يونسعليه‌السلام

افترا :خدا پر _ ۶/۹۳، ۱۳۷ ،۱۴۰ ، ۱۴۴ ، ۱۵۰ ، ۷/۲۰ ،۲۸ ، ۳۳ ، ۳۷ ;خدا پر _ كا ظلم ۶/۲۱ ، ۹۳ ، ۷/۳۷ ;خداپر _ كا گناہ ۶/۹۳ ، ۱۳۹ ; خدا پر _ كى حرمت ۷/۳۳ ;خدا پر _ كى راہيں ۶/۹۳ ;خدا پر _ كى سزا ۶/۹۳ ، ۱۳۸ ، ۱۳۹ ;خدا پر _ كے آثار ۶/۲۱ ، ۹۳; زمانہ جاہليت ميں خداپر _ ۶/۳۹ ۶/۱۳۸ ، ۷/۳۳ ;موارد ۶/۱۳۷ ، ۱۴۰ ، ۱۴۴ نيز ر_ ك _ تہمت ، مشركين

افسانہ :ر _ ك قرآن

اقتدار :ر_ ك قدرت

۶۵۱

اقتصاد :_ى تفاوت و فرق كا منشا ۶/۱۶۵

اقرار :بے ثمر_۷/۵ ; توحيد كا _۶/۴۰ ;خطاكا _ ۷/۲۳; ظلم كا اقرار ۷/۵; عذاب كے وقت _۷/۵; كفر كا _۶/۶۳; مالكيت خدا كا _۶/۱۲۰ ;معاد كا _۶/۳۰ نيز ر_ك خود ، قيامت

اقليت :_ كا عبرت حاصل كرنا ۷/۳ نيز ر_ك لوگ ، مشركين ، مومنين

اقوام :قوموں كے مقدسات كى حرمت ۶/۱۰۸ ;گذشتہ _كا عذاب ۶/۱۴۶ ;مجرم _كا عذاب ۶/۱۴۷ ;نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، قريش اور قوم ابراہيم

اكثريت :_ كا آسيب پذير ہونا ۷/۱۷ ;_كا بے اعتبار ہونا ۶/۱۱۶ ;_ كى پيروى كرنے كے آثار ۶/۱۱۶ _ كى پيروى كو ترك كرنا ۶/۱۱۶ ;_كى گمراہى ۶/۱۱۶ ; _كى مخالفت ۶/۱۱۶ ;نيز ر_ ك لوگ ، مشركين اور مومنين

القائات:شيطانى _ ۶/۱۱۳ ;شيطانى _قبول كرنے كى راہيں ۶/۱۱۳ ; شيطانى _كى تاثير ۶/۱۱۳ ;نيز ر _ ك _ شياطين

اللہ:_زمانہ جاہليت ميں ۶/۱۰۹ ، ۱۳۶ ;نيز ر _ ك خدا

الوہيت :_كى نشانياں ۶/۴۶ ;زمانہ ابراہيم ميں _ ۶/۷۸; شرائط _۶/۱۰۲ ;قدرت _۶/۴۶

الياس :_كا صالحين ميں سے ہونا ۶/۸۵; _كى قضاوت ۶/۸۹ ;_كى نبوت ۶/۸۹; _ كى ہدايت ۶/۸۵; _ كے آبا و اجداد ۶/۸۵; _كے فضائل ۶/۸۶; _كے مقامات ۶/۸۹

اليسععليه‌السلام :_كا صالحين ميں سے ہونا ۶/۸۶; _كى قضاوت ۶/۸۹; _كى نبوت ۶/۸۹; _كى ہدايت ۶/۸۶ _كے آباو اجداد ۶/۸۶; _كے فضائل ۶/۸۶; _كے مقامات ۶/۸۹

ام القرى :۶/۹۲

امامت:_ كانور ہونا ۶/۱۲۲ ;مقام _سے جاہل افراد ۶/۱۲۲ ;منصب _كا ادعا ۶/۹۳ ;نيز ر_ك رہبري

۶۵۲

امام علىعليه‌السلام :_كى توحيد ۶/۸۲ ; _كى قضاوت ۶/۱۶۴ ; _كے مقامات ۶/۸۲ _ ۱۵۳

امتحان :_ كا فلسفہ ۶/۱۶۵ ;_ كے آثار ۶/۵۳; _ كے وسائل ۶/۵۳ ، ۱۶۵; _ ميں كاميابى كے آثار ۶/۱۶۵ ;_ ميں ناكامى كے آثار ۶/۱۶۵; دنيوى وسائل كے ذريعہ_ ۶/۱۶۵ ;نيز ر _ ك امرا ئ، انسان ، خدا ، اجتماعى گروہ

امتيں :_ كا انقراض ۶/۶ ، ۷/۳۴ ;امتون كا جہنم ميں ہونا ۷/۳۸; امتون كا حساب ليا جانا ۷/۶; _ كى اجل ۷/۳۳ ;_ كى پيدائش كا قانون كے مطابق ہونا ۷/۳۴; _ كى حيات كا قانون كے مطابق ہونا ۷/۳۴ _ كى ہلاكت كے اسباب ۶/۴ ، ۷/۵; _ كے ظلم كے آثار ۷/۵; _ كے عقيدہ كو زينت بخشنا ۶/۱۰۸ _ كے عمل كو زينت دينا ۶/۱۰۸ ;پيغمبر كے بغير امتيں ۷/۳۵ ;ظالم _ كا انجام ۷/۱۴ ;ظالم _ كا انقراض ۶/۴۵ ;ظالم _ كا عذاب ۶/۴۴ ، ۷/۴; ظالم _ كى شقاوت ۶/۱۳۱; ظالم _ كى گمراہى ۶/۱۳۱ ;غير مسلم امت ۶/۱۵۹; كافر _ كى ہلاكت ۶/۶; گذشتہ _ كا عذاب ۶/۴۴ ، ۷/۴; گذشتہ _ كا عقيدہ جبر كى طرف مائل ہونا ۶/۱۴۸;گذشتہ امتيں اور انبياء ۶/۴۲ ;گمراہ _ پر لعنت ۷/۳۸ م;گناہ گار _ كا انجام ۷/۴ م;گناہ گار_ كى ہلاكت ۷/۴; مشرك _ پر لعنت ۷/۳۸ ;منقرض امتيں ۶/۴۵

امداد :_ كى بشارت ۶/۳۴ ;غيبى _ كا كردار ۶/۳۴ ;نيز ر _ ك : انبياء _ خدا ، قيامت ، محمد مومنين

امرائ:_ كا استہزاء كرنا ۶/۵۳; _ كا عجب ۶/ ۵۳، _ كا قدر و قيمت معين كرنا۶/۵۳; مشرك _ كا امتحان ۶/۵۳; نيز ر_ ك

امراء مكہ:_ كا كفر ۶/۱۲۴; _ كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۶/۵۳; _ كا مكر ۶/۱۲۳; _ كى بصيرت۶/۱۲۴; _ كى بہانہ جوئي ۶/۱۲۴; _ كى سازش ۶/۱۲۳

امن :_ ايك نعمت ۶/۱۲۷; _ كى اہميت ۶/۵۴; _ كے علل و اسباب ۶/۸۲ ; نيز ر _ ك بہشت ، دار السلام ، رجحانات ، مشركين ، معاشرہ ، موحدين ، مومنين

امور:_ كا استحكام ۶/۸۳ ;_ كا قانون و ضابطہ كے مطابق ہونا ۶/۵۷ ;_ كے جارى ہونے كى حقانيت ۶/۵۷ ;حيرت انگيز _ ۶/۴۳ ، ۹۵; نا معقول_ ۶/۱۰۱

اميد : ر _ ك انبيائ اميدواري:_كے علل و اسباب ۶/۱۴۷; رحمت خدا كي_۶/۵۴ ، ۱۶۵ ،۷/۲۳ ;مغفرت كى _۶/۵۴ ، ۷/۲۳; نيز ر_ ك خوف _ گناہكار لوگ

۶۵۳

انار :_ كے باغ ۶/۹۹; _كے درخت كى پيدائش ۶/۱۴۱

انبيائعليه‌السلام :آنحضرت (ص) سے پہلے كے _۶/۴۲;ابراہيم سے پہلے كے _۶/۸۴ ;_اور شرك ۶/۸۸; _پر ايمان لانے والے ۶/۸۹ ، ۷/۳۵; _پر خدا كى بخشش ۶/۸۶ ، ۸۹; _پر وحى ۶/۵۰ ;_تاريخ كى نظر ہيں ۶/۳۴; انبيا جنّى ۶/۱۳۰ _سے استہزا كى سزا ۶/۱۰ ; _ كى حساب ليا جانا ۷/۶;_ سے سوال ۷/۶ ; _ قيامت كا دن ۷/۷۷۶; _ كا احتجاج ۶/۷۴; _ كا استہزا ۶/۱۰ ، ۲۴; _ كا انتخاب ۶/۹ ،۸۷; _ كا بشر ہونا ۶/۹ ،۷/۳۵ ;_ كا پيش قدم ہونا ۶/۱۰۶ ;_ كا حكم خدا كى اتباع كرنا ۶/۱۱۶ ;_ كا صبر ۶/۳۴ ;_ كا علم ۶/۲ ;_ كا كردار ۶/۴۸ ، ۹۰ ، ۱۳۰; _ كا مرد ہونا ۶/۹ ;_ كا ہدايت كرنا ۶/۴۲ ، ۹۰ ، ۱۳۰ ;_ كو اذيت دينا ۶/۳۴ ; _ كو جھٹلانے والوں كا انجام ۶/۱۱ ، ۷/۳۵ ;_ كو جھٹلانے والوں كى سزا ۷/۳۵; _ كو خبردار كيا جانا ۶/۸۸; _ كو نمونہ عمل بنانا ۶/۳۴ ،۷۴ ،۹۰ ;_ كى امداد ۶/۱۰ ، ۳۴ ;_ كى اولاد كى قضاوت ۶/۸۹ ;_ كى اولاد كى نبوت ۶/۸۹; _ كى باتيں سننا ۷/۳۵; _ كى برترى ۶/۸۶ ; _ كى برترى كے اسباب ۶/۸۶; _ كى برگزيدگى ۶/۸۷ ، ۷/۳۵; _ كى برگزيدہ اولاد ۶/۸۷; _ كى بشارتيں ۶/۴۸ _ كى بعثت كا فلسفہ ۶/۴۲ ، ۱۳۱ ، ۱۳۳ ;_ كى پشت پناہى ۶/۳۴ ;_ كى تاريخ ۶/۳۴ ،۱۱۲ ; _ كى تبليغ ۶/۴۸ ،۹۰ ،۷/۶،۷;_ كى تبليغ كا طريقہ ۶/۴۶ ، ۹۰; _ كى تبليغ كى حدود ۶/۴۸; _ كى تعليمات كو پہجاننے كى اہميت ۶/۹۰;_ كى تكذيب ۶/۳۴ ، ۴۹ ،۱۳۰ ۷/۶ ;_ كى تكذيب كا انجام ۶/۱۴۸; _ كى تكذيب كرنے والوں كو خبردار كيا جانا ۶/۱۱ ; _ كى تكذيب كے آثار ۶/۱۱ ;_ كى تكذيب كے موانع ۷/۱۴۸ ;_ كى تنزيہ ۶/۸۸ ;_ كى توحيد ۶/۸۸; _ كى جنس ۶/۹ ، ۷/۳۵;_ كى حجت ۶/۸۳; _ كى حكومت ۶/۸۹; _ كى خدمات ۶/ ۴۸; _ كى خصوصيات ۶/۹ ;_ كى خواہش ۷/۳۵ ; _ كى دعوت كو قبول كرنے كا مقدمہ ۶/۵۱; _ كى دعوت كى حدود ۶/۴۸ ;_ كى ذمہ دارى ۱۰۶، ۱۳۰، ۷/۳۵; _ كى ذمہ دارى كى حدود ۶/۴۸، ۵۰، ۸۹، ۷/۳۸; _ كى رسالت كى حدود ۶/۱۱; _ كى رسالت كے درميان فترت ۷/۳۵; _ كى رشتہ دارى ۶/۸۷ _ كى سيرت سے عبرت۶/۷۴; _ كى صلاحيت ۶/۱۲۴; _ كى قدرت ۶/۵۰ ;_ كى قضاوت ۶/۸۹ _ كى كاميابى ۶/۳۴; _ كى كاميابى كے علل و اسباب ۶/۳۴ ; _ كى كتاب ۶/۸۹ ;_ كى مخالفت كرنے كے آثار ۶/۴۲ ;_ كى نبوت ۶/۳۸ ;_ كى نيّات ۷/۷ _ كے آباء و اجداد كى قضاوت ۶/۸۹ ;_ كے آبا و اجداد كى نبوت ۶/۸۹;_ كے آباء و اجداد كے مقامات ۶/۸۹; _ كے اختيارات ۶/۸۹; _ كے اختيارات كى حدود ۶/۸۹; _ كے انتخاب كا معيار ۶/۸۹ ، ۱۲۴ ; _ كے انذار ۶/۴۸ ، ۱۳۰; _ كے انذار كو قبول كرنے كے مقدمات ۶/۵۱; _ كے انذا ركو قبول كرنے كے موانع ۶/۱۳۰; _

۶۵۴

كے اوصيا ء كو جھٹلانے والے ۶/۳۹; _ كے اہداف ۶/۴۲ ، ۷/۳۵ ;_ كے اہداف پورے ہونے كا مقدمہ ۶/۳۴; _ كے اہداف كے محافظ ۶/۸۹; _ كے برتر عزيز و اقارب ۶/۸۷; _ كے برگزيدہ باپ ۶/۸۷; _ كے برگزيدہ بھائي ۶/۸۷ _ كے برگزيدہ عزيز و اقارب ۶/۸۷ ;_ كے بھائيوں كى قضاوت ۶/۸۹; _ كے بھائيوں كى نبوت ۶/۸۹; _ كے بھائيوں كے مقامات ۶/۸۹; _ كے درجات كى بلندى ۶/۸۳ ;_ كے دشمن ۶/۱۱۲ ، ۱۱۳; _ كے دشمنوں كا افترا ۶/۱۱۲ ;_ كے دشمنوں كا پروپيگنڈہ ۶/۱۱۳; _ كے دشمنوں كا جھوٹ ۶/۱۱۲ ;_ كے دشمنوں كے اہداف ۶/۱۱۳ ;_ كے ساتھ طرز عمل اختيار كرنے كے آثار ۷/۶ ;_ كے ساتھ جنگ۶/۱۰ ، ۳۴ ، ۱۱۲ ;_ كے عزيز و اقارب كى قضاوت ۶/۸۹; _ كے عزيز و اقارب كى نبوت ۶/۸۹ ; _ كے عزيز و اقارب كى ہدايت ۶/۸۷; _ كے عزيز و اقارب كے مقامات ۶/۸۹ ;_ كے فرائض ۶/۱۵; _ كے فضائل ۶/۵۰ ،۸۶; _ كے مخالفين ۶/۱۱; _ كے مقامات ۶/۳۴ ، ۸۷ ،۸۹; _ ميں ہم آہنگى ۶/۹۰; خاتم ال_ ۶/۱۹، ۱۱۵; صاحب كتاب _ ۶/۸۹ ; نيز ر _ ك اطاعت ، ايمان ، جنات ، دشمن ، رہبرى ، كفار ، كفر اور تمام انبيائ

انتخاب :حق انتخاب ۶/۱۰۴

انتقام :ر _ ك ابليس

انجام :برا _ ۶/۵ ،۱۰ ، ۱۵ ، ۲۱ ، ۳۱ ،۴۵ ، ۴۷ ، ۱۵۹ ;حسن _كى اہميت ۶/۱۳۵ ; خاص موارد اپنے موضوع كے تحت تلاش كئے جائيں

انجيل:_كا كردار ۶/۱۵۶; _كے پيرو كاروں كى ہدايت ۶/۱۵۷ ; نيز ر _ ك مشركين مكہ

انحراف :اجتماعى _كى علت ۶/۱۲۳; _كے علل و اسباب ۶/۳۵ ، ۱۴۰ ;_كے موانع ۶/۳ ،۱۱۶ ;فكرى _ميں موثر عوامل ۶/۷ ، ۱۱۳

انحطاط :_كے علل و اسباب ۷/۳۱۳; روحانى _كا مقدمہ ۷/۱۳ ;نيز ر _ ك تمدن _ معاشرہ

انذار (ڈرانا):_ كا طريقہ ۶/۵۲ ۱۲۸ ; _ كا فلسفہ ۶/۵۱; _ كى اہميت ۶/۱۹ ، ۵۱ ، ۹۲ ، ۷/۲; _ كے آثار ۷/۲; _ كے قبول كرنے كا مقدمہ ۶/۵۱; _ كے وسائل ۶/۵۱; _ ميں اولويت ۶/۹۲; عذاب سے _ ۶/۱۴۷ قرآن كے ذريعہ _ ۶/۵۱; قيامت سے _ ۶/۱۳۰;; لوگوں كو _ ۶/۱۹;; مومنين كو _ ۶/۲ ۵; وحى كے ذريعہ_۶/۵۱; نيز ر_ ك آنحضرت (ص) ، انبياء _ تبليغ _ تربيت قرآن _ مكہ اوروحي

۶۵۵

انسان :آدم سے پہلے كے _ ۶/۱۳۳; _ ابتدائے خلقت ميں ۶/۹۴ ۷/۳۰ ; _ اور جنات ۶/۱۲۸; _ پر تسلط ۶/۱۲۹ ;_ قيامت كے دن ۶/۱۲ ، ۳۶ ،۵۱ ، ۶۰ ، ۲۸ ، ۱۳۳ ، ۱۷ ، ۳۰ ;_ كا اختيار ۶/۳۵ ، ۱۰۴ ،۱۰۷ ، ۱۳۷،۱۴۸ ،۱۴۹، ۷/۱۳۰; _ كا اخروى اجتماعى ۶/۵۱; _ كا اخروى حشر ۶/۲ ، ۲۲ ،۳۶ ، ۳۸ ، ۵۱ ۷۲،۷۳ ،۱۲۸; _ كا اخلاص ۶/۶۳; _ كا انجام ۶/۳۶ ،۷۲ ، ۱۰۸ ، ۱۶۴ ، ۷/۲۵; _ كا بہكاوے ميں آنا ۷/۱۶ ،۲۲ ،۲۷; _ كا بہكايا جانا ۷/۲۷ ; _ كا حقيقى مولا ۶/۶۲ ; _ كا خالق ۶/۲ ، ۹۸ ، ۷/۱۱ ; _ كا خدا سے عہد ۶/۶۳ ، ۶۴ ; _ كا خطرات ميں گھرنا ۷/۱۶، ۷/۳۷۷;_ كا خود سے بے خبر ضمير۶/۶۳ ; _ كا خواب ۶/۶۰; _ كا دنيوى حصہ ۷/۳۷; _ كا زيبائي پسند ہونا ۶/۱۰۸; _ كا زمين پر مستقر ہونا ۶/۹۸ ، ۱۶۵; _ كا زوال ۷/۲۴ ;_ كا سختى ميں ہونا ۶/۶۳; _ كا عجز ۶/۶ ، ۹ ، ۱۸ ، ۱۳۴; _ كا عصيان ۶/۱۳۳; _ كا قابل ہدايت ہونا ۶/۱۰۴ ;_ كا كمال طلب ہونا ۷/۲۱ ;_ كا مبدا ۶/۱۰۸ ; _ كا مٹى سے ہونا ۶/۲; _ كا ناپسنديدہ عمل ۶/۶۰;_ كو خبردار كيا جانا ۶/۶۰، ۱۲۸، ۷/۴۱; _ كى آگاہى ۶/۱۰۴ _ كى اجل ۶/۲ ،۱۲۸ ;_ كى استعداديں ۶/۱۰۴ ۷/۳ ;_ كى انعطاف پذيرى ۷/۲۲; _ كى بقاء ۶/۱۲; _ كى پناہ گا ۶/۷۲; _ كى تاريخ ۶/۱۳۳;_ كى توحيدى فطرت ۶/۴۰ ،۴۱ ، ۴۲ ، ۶۳; _ كى جہالت ۷/۲۴ ;_ كى حقيقت ۶/۶۰ ، ۹۳ ، ۷/۳۷ ;_ كى حيات ۶/۶۲ ، ۹۴ ، ۹۸ ;_ كى حياء ۷/۲۲ _ كى خصوصيات ۶/۱۰۴ ، ۱۵۱ ، ۷/۳ ;_ كى خلقت ۶/۲ ، ۷/۲۸; _ كى خلقت كا عنصر ۷/۱۱; _ كى دنيوى حيات ۷/۲۴; _ كى دنيوى غفلت ۶/۶۰; _ كى دوسرى حيات ۷/۲۵; _ كى ذمہ دارى ، ۶، ۷۱، ۷۲، ۱۲۸، ۱۳۰، ۱۳۵، ۱۵۱، ۱۶۴، ۷/۱۷، ۲۹; _ كى روح ۶/۶۰ ، ۷ ،۳۷; _ كى روح كا قبض ہونا ۶/۹۳; _ كى روحانى ضروريات ۶/۶۳; _ كى روزى ۶/۱۴۲; _ كى زمين پر سكونت ۷/۲۴ ;_ كى زمين كى طرف بازگشت ۷/۲۵; _ كى زندگى كى حفاظت ۶/۶۱; _ كى سرنوشت ۷/۳۰; _ كى سعادت طلبى ۶/۱۳۵; _ كى شخصيت ۷/۱۱ ;_ كى شكل بندى ۷/۱۱; _ كى صفات ۷/۶۳; _ كى ضرورت مندى ۶/۶۳; _ كى ضروريات ۶/۱۴ ، ۱۶ ، ۳۸ ، ۱۲۶ ، ۷/۲۶ ،۳۷ ;_ كى عارضى حيات ۶/۹۸;_ كى عمر ۶/۲;_ كى عہد شكنى ۶/۶۴;_ كى فطرت ۶/۴۳، ۴۸،۶۳ ،۸۶، ۷/۱۶، ۳۰; _ كى قدرت ۶/۱۰; _ كى قدر و قيمت ۷/۲۶;_ كى مادى ضروريات ۷/۱۰،۳۲; _ كى معاش كا پورا ہونا ۷/۲۴;_ كى معنوى ضروريات ۶/۳۸; _ كى منفعت طلبى ۶/۷۱،۷/۲۱; _ كى موت ۶/۲،۶۲،۹۴،۷/۳۵; _ كے آباد و اجداد ۶/۹۸; _ كے ابعاد۶/۴۳; _ كے اسرار ۶/۳ ،۳۳; _ كے امتيازات ۶/۸۴; _ كے حالات ۶/۶۳; _ كے حقوق ۶/۱۰۴; _ كے دشمن ۶/۱۴۲،۷/۲۲; _ كے علم كا منشا۶/۹۸، ۷/۱۱

۶۵۶

،۲۶; _ كے علم كى محدوديت ۶/۱۰۳; _ كے علم كى قدر و قيمت كا معين ہونا ۷/۸; _ كے عيوب كا چھپايا جانا۷/۲۶; _ كے فضائل ۶/۲۷; _وں كا اخروى حشر ۶/۲،۲۲،۳۶، ۳۸، ۵۱، ۷۲، ۷۳، ۱۲۸ ; _وں كا اخروى مواخذہ ۶/۱۲۸; _وں كا امتحان ۶/۶۵; _وں كا تضرع ۶/۶۳; _وں كا حاكم ۶/۶۱; _وں كا دينوى حشر ۶/۷۲; _وں كا زمين پر مستقر ہونا ۶/۹۸،۱۶۵; _وں كا كفر ۷/۱۷،۶۳; _وں كا مالك۶/۱۶۴; _وں كا مساوى ہونا ۶/۱۵،۹۸; _وں كى دشمنى ۷/۲۴; _وں كى شكل و صورت ۷/۱۱; _وں كى طبقہ بندى كا معيار ۶/۷۹; _وں كى نسليں ۶/۱۳۳; _وں كے اخروى درجات ۶/۱۳۲; _وں كے امور كى تدبير ۶/۱۰۲، ۷/۳; _وں كے حشر كا حتمى ہونا ۶/۱۲; _وں كے رتبوں ميں فرق۶/۱۶۵;_وں ميں جانشينى كا تصور ۶/۱۶۵ ;_وں ميں اداركات كى محدوديت ۶/۱۰۳;_ى بينائي كى محدوديت ۷/۱۰۸ ; _ى تكامل كى راہ ۷/۱۱; _ى رجحانات كو ابھارنا۶/۱۳۵; _ى زندگى كا امكان ۷/۲۵; _ى ضروريات كا پورا ہونا ۷/۲۶; _ى غرائز ۶/۷; _ى قوتوں كى محدوديت ۶/۱۰۳; _ى لذائذ ۶/۱۲۸;_ى منابع ۶/۱۰۴; قيامت كے دن _ى خصلتيں ۶/۲۳; گمراہ _ ۷/۳۰;متولد نہ ہونے والے _ ۶/۹۸;متولد ہونے والے _ ۶/۹۸; ملائكہ كا _ كے آگے سجدہ كرنا۷/۱۱; ناقابل ہدايت _۶/۴۲،۱۳۷; نيز ر_ك تعقل _جنات

انصاف :اہميت _۷/۲۹

انفاق :_ميں اسراف ۶/۱۴۱; زرعى پيداوار ميں _۶/۱۴۱

انگور :_كے باغ ۶/۹۹; _كے باغ كى پيدائش ۶/۱۴۱

اولياء الله :ر_ك گالي

اونٹ:_ اور سوئي كا ناكہ ۷/۴۰;_ كا گوشت ۶/۱۴۲;_ كا نرو مادہ ہونا ۶/۱۴۳;_ كو خلق كرنے كا فلسفہ ۶/۱۴۴; _ كى پيدائش كا سبب ۶/۱۴۳; _ كے جنين كى حليت ۶/۱۴۴; _ كے فوائد ۶/۱۴۴; _ كے گوشت كى تحريم ۶/۱۴۴;اونٹ كے گوشت كى حليت ۶/۱۴۲;نيز ر_ك تشبيہات

اہانت :خدا كى _۶/۱۰۸;نيز ر_ك اقوام

اہلبيت (ص) :حبّ _ ۶/۱۶۰;نيزآئمہ _دشمني

اہل عذاب :ر_ك عذاب

اہل كتاب :

۶۵۷

_ اور آنحضرت (ص) ۶/۲۰، ۱۱۴;_ اور اسلام ۶/۲۰; _ اور حقانيت قرآن ۶/۲۰،۱۱۴;_ اور كتمان حق ۶/۲۰;_ اور نزول قرآن ۶/۱۱۴;_ قيامت كے دن ۶/۲۲; _ كا آنحضرتعليه‌السلام كے بارے ميں كفر ۶/۱۱۴;_ كا اخروى حشر ۶/۲۲;_ كا كفر ۶/۲۰; _ كى آگاہى ۶/۱۱۴;_ كى دشمنى ۶/۲۰ ; _ كى سرزنش ۶/۲۰;_ كى ہٹ دھرمى ۶/۲۰;_ كے ايمان كے موانع ۶/۲۰;_ كے علماء كاظلم ۶/۲۱;نيز ر_ك اتمام حجت _علماء _

ايمان :آخرت پر _ كے آثار ۶/۵۴;آخرت پر _ كى اہميت ۶/۳۲،۹۲;آنحضرت (ص) پر _ ۶/۸، ۹، ۵۳، ۱۱۰;آيات خدا پر _ ۶/۳۹،۵۴، ۱۰۴ ،۱۱۰ ،۱۱۸ ، ۱۲۴،۱۵۷، ۷/۱۰، ۲۷; آيات خدا پر _ كے آثار ۶/۵۴; اسلام پر _ ۶/۴۸،۷/۲; _ اور عمل ۶/۴۸ ، ۱۲۷، ۱۵۸;_ زيادہ ہونے كے اسباب ۶/۹۲;_ سے روكنا ۶/۱۵۷;_ سے روكنے كى سزا ۶/۱۵۷; _ كى اہميت ۶/۳۵،۱۵۸; _ كى اہميت كم ہونے كے اسباب ۶/۸۲;_ كى حقيقت ۶/۱۲۲;_ كى راہيں ۶/۳۹، ۴۸، ۵۳ ،۹۹، ۱۱۱، ۷/۱۰; _ كى نشانياں ۶/۱۱۸; _ كے آثار ۶/۴۸،۵۳، ۵۴، ۷۲،۸۲ ،۱۱۸ ،۱۲۲ ،۱۲۷ ،۱۵۱، ۱۵۷; _ كے شرائط۶/۱۱۰; _ كے علل و اسباب ۶/۱۱۳ ،۱۱۱; _ كے قبول ہونے كے شرائط ۶/۱۵۸ ; _ كے مراتب ۶/۸۲; _ كے مستعدين ۶/۵۴ ; _ كے موانع ،۶/۲۰ ،۱۱۱،۱۲۵;بے عمل كا _ ۶/۱۵۸; توحيد ربوبى پر _ ۶/۱۶۳;خالصانہ _ ۶/۸۲; خدا پر _ ۶/۸۲ ،۷/۲۷ ; خدا كى خالقيت پر _ ۷/۱۲;دين پر _ ۶/۵۳; ربوبيت خدا پر _ ۶/۱۶۲،۱۶۴; رزاقت خدا پر _ ۶/۱۵۸; غير مفيد _ ۶/۱۵۸;فرصت _ ۶/۲۷; قرآن پر _ ۶/۹۲، ۷/۲; قيامت پر _ ۶/ ۳۱ ،۴ ۱۵; قيامت پر _ كى اہميت ۶/۱۵۴;كمال _ ۶/۸۲;لقاء الله پر _ ۶/۱۵۴; لقاء الله پر _ كى اہميت ۶/۱۵۴; متعلق _ ۶/۸،۹،۳۱، ۳۲، ۳۹ ،۴۸ ،۵۴ ،۸۲، ۹۲، ۱۰۴، ۱۱۰، ۱۱۳ ،۱۱۸،۱۲۴ ، ۱۵۴ ، ۱۵۷،۱۶۲، ۱۶۳،۱۶۴ ،۷/۲ ،۶،۱۰،۱۲; معاد پر _ كے آثار ۶/۳۲; نعمات خدا پر _ ۷/۱۰ ;نعمت _ ۶/۵۳;نورانيت _ ۶/۱۲۲; خاص موارد اپنے موضوع كے تحت تلاش كريں

ايوبعليه‌السلام :_كا صالحين ميں سے ہونا ۶/۸۵، _كا محسنين ميں سے ہونا ۶/۸۴;_ كى ہدايت ۶/۸۴;كے فضائل ۶/۸۶

۶۵۸

اشاريے (۲)

ب

بابل :اہل _كا عقيدہ ۶/۷۸، اہل _كى بت پرستى ۶/۷۴ ،۷۷; اہل_كى سورج پرستى ۶/۸۷، اہل _كى گمراہى ۶/۷۷

بادشاہ :بارش كے فوائد /۶،۹۹;ظالم _۶/۹۹

۶۵۹

بازگشت :خدا كى جانب _ ۶/۳۶،۳۸،۶۰ ،۶۱،۶۲، ۷۲، ۷۳، ۹۴،۱۰۸،۱۶۴;دنيا كى طرف _ ۶/۲۸;نيز ر_ك آرزو

باطل :_كو شكست دينے كا طريقہ ۶/۳۴;_ كى پہچان ۶/۵۷;نيز ر_ك التقاط ،حق

باغات :_ كى پيدائش كے اسباب ۶/۱۴۱;نيز ر_ك انار _انگور _زيتون

باغى :ر_ك اضطرار

بت :_وں كا عجز۶/۷۱;نيز ر_ك _قرباني، گالى _مشركين _وقف

بت پرستى :_ كا بطلان۶/۸۰;_ كا خلاف منطق ہونا ۶/۷۱; _كا گمراہى ہونا ۶/۷۴،۷۵; _كى تبليغ ۶/۷۱; _ كے آثار ۶/۱۳۷; _ كے خلاف مبارزہ ۶/۸۴; زمانہ ابراہيم ميں _۶/۷۸; زمانہ بعثت ميں _۶/۷۸; نيز ر_ك _آزر _عقيدہ ،قوم ابراہيم اور مشركين

بخل :_كاسبب ۷/۱۷

بدعت :_ كا بے اعتبار ہونا ۶/۱۵۰;_ كا سبب ۶/۱۵۰; _ كا ظلم ۶/۲۱، ۱۴۴، ۷/۳۷; _ كا گناہ ۶/۱۳۸; _كى حرمت ۷/۳۳; _ كى سزا ۶/۱۳۹; _ كى مذمت ۷/۲۸; _ كے آثار ۶/۲۱،۱۴۴; _ كے اسباب ۶/۱۲۱،۱۵۰;_ كے خلاف مبارزہ ۷/۳۲; _ كے موارد ۷/۳۳; نيز ر_ك _ گذار لوگ _دين اور مشركين بدعت گذار لوگ :۶/۱۵۹،۷/۲۸_سے آگاہى ۶/۱۱۹;_ كا اضلال ۶/۱۴۴; _كا تجاوز ۶/۱۱۹;_كا ظلم ۶/۴۴; _كو خبر دار كيا جانا ۶/۱۱۹; _ كى بے منطقى ۶/۱۵۰; _كى تشخيص ۶/۱۹۹; _كى مذمت ۷/۳۲ ; _كے جھوٹے معبود ۷/۳۷ ;نيز ر_ك آنحضرت (ص)

بدكار :كافر _۷/۲۸

بدگوئي :_ كا عذاب ۶/۶۵

بدن :_ كو ضرر پہنچانا ۷/۳۱; _كے عيوب كا چھپانا۷/۲۶

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744