تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167136 / ڈاؤنلوڈ: 5029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خدا تعالي:ربوبيت خدا كے مظاہر ۶

قرآن :قرآن كو جھٹلانے والوں كى پشيمانى ۴;قرآن كے جھٹلانے والے اور قيامت ۴

قيامت :قيامت كے دن شرك كا اقرار ۷; قيامت كے دن شرك كا انكار ۷; قيامت كے دن پشيمانى ۴

كفار :كفار اور جہنم ۱، ۲، ۳; كفار اور قيامت ۸;كفار كى اخروى آرزو ۲; كفار كى اخروى پشيمانى ۲; كفار كي

اخروى حسرت ۸; كفار كى اخروى ذلت۱، ۳

كفر :كفر سے پشيمانى ۲، ۳

مؤمنين :مؤمنين كا اخروى مقام و مرتبہ ۸; مؤمنين كے مقامات ۸

مشركين :مشركين اور شرك سے انكار ۷; مشركين اور قيامت ۷

معجزہ :معجزے كا فلسفہ ۶

آیت ۲۸

( بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ )

بلكہ ان كے لئے وہ سب واضح ہو گيا جسغ پہلے سے چھپار ہے تھے اور اگر يہ پلٹا بھى ديئےائيں تو وہى كريں گے جس سے يہ روكے گئے ہيں اور يہ سب جھوٹے ہيں

۱_ جس عذاب كا مشركين انكار كرتے تھے، اس كے ظاہر ہونے پر (وہ) دنيا ميں پلٹنے كى آرزو كرتے ہيں نہ كہ وہ خداوند عالم اور اسكى آيات پر حقيقتاً ايمان لانا چاہتے ہيں _

فقالوا يا ليتنا نرد بل بدالهم ما كانوا يخفون من قبل

۸۱

گذشتہ آيت ميں جملہ''يا ليتنا و نكون من المؤمنين'' دنيا ميں پلٹنے اور ايمان لانے كے ليے، مشركين كى آرزو كو بيان كررہاہے (اس آيت ميں ) حرف ''بَل'' (ادبى اصطلاح كے مطابق) اضراب كے ليے ہے (يعنى ان گذشتہ مطالب سے روگردانى ہے) واپس پلٹنے كى آرزو سے مراد ايمان لانا نہيں ہے بلكہ عذاب سے نجات حاصل كرنے كے خيال سے ہے_

۲_ مشركين دنيا ميں اپنے ضمير كى گہرائيوں سے توحيد او ر معاد كى حقانيت پر گواہ ہيں _بل بدالهم ما كانوا يخفون من قبل

۳_ مشركين، معاد اور توحيد كى حقانيت پر اپنے ضمير كى گواہى كے باوجود اسے چھپاتے ہيں _بل بدالهم ما كانوا يخفون من قبل

گذشتہ آيات كے قرينے كے پيش نظر ''ما يخفون'' سے مراد، توحيد اور معاد جيسے ايمانى حقائق ہيں كہ جنہيں مشركين اپنے ضمير ميں چھپاتے ہيں _

۴_ عذاب قيامت كا مشاہدہ، مشركين كے، اپنے شرك سے آگاہ ہونے كا باعث بنتاہے_

ما كنا مشركين بل بدالهم ما كانوا يخفون من قبل

ہوسكتاہے گذشتہ آيات ( واللہ ربنا ما كنا مشركين) كے قرينے سے جملہ ''ما كانوا يخفون'' سے مراد، قيامت كے بعض مواقف ميں مشركين كى جانب سے شرك اور اس كو پنھان ركھنا ہو ''من قبل'' ان مواقف كى جانب اشارہ ہے_

۵_ بعض كفار كا، قرآن اور آيات الھى كى حقانيت سے علم ركھنے كے باوجود انھيں جھٹلانا_

ان هذا الا اساطير الاولين بل بدالهم ما كانوا يخفون

چونكہ گذشتہ آيات ميں قرآن اور آيات الھى كو جھٹلانے كى بات ہورہى تھي_ ہوسكتاہے ''ما كانوا يخفون'' سے مراد مذكورہ مفہوم ہو_

۶_ قيامت كے دن حشر كے بعد دنيا ميں پلٹنا ممكن نہيں ہوگا_و لوردو العادوا لما نهوا عنه ''لو'' اكثر وہاں استعمال ہوتاہے كہ جہاں شرط ايك غير ممكن امر ہو_ لہذا جملہ ''ردوا'' كہ جو ''لو'' كے ليے شرط ہے ايك غير ممكن امر ہے_

۷_ بعض كفار كا دنيا ميں پلٹنے كى صورت ميں اپنى اصلاح اور آيات الہى كو نہ جھٹلانے كے بارے ميں جھوٹا وعدہ كرنا_

فقالوا يا ليتنا نرد و لا نكذب و انهم لكذبون

۸_ آيات الھى كو جھٹلانے والے كفار دنيا ميں لوٹنے كے بعد بھى ايمان نہيں لائيں گے_

فقالوا يا ليتنا نرد و لو ردوا لعادوا لما نهوا عنه

۸۲

۹_ ہٹ دھرم مشرك، اگر جہنم كو ديكھنے كے بعد بھى دنيا ميں واپس پلٹ آئيں تب بھى اپنى اصلاح نہيں كريں گے_

و لو ترى اذا وقفوا على النار و لو ردوا لعادوا لما نهو عنه

۱۰_ جھوٹ بولنا ہٹ دھرم مشركين كا دائمى شيوہ ہے_فقالوا و انهم لكذبون

۱۱_ مشركين، (دنيا تو كيا) قيامت ميں بھى جھوٹ بوليں گے_فقالوا يا ليتنا نرد و لا نكذب و انهم لكذبون

۱۲_ جن امور سے خداوند متعال نے منع كيا ہے ان كا ارتكاب حرام ہے_و لو ردوا لعادوا لما نهوا عنه

نواہي خدا كى جانب توجہ نہ كرنے پر سرزنش سے ظاہر ہوتاہے كہ نواہى خداسے اجتناب ضرورى ہے_

آرزو :دنيا ميں واپس پلٹنے كى آرزو ۱

آيات خدا :آيات خدا كو جھٹلانا ۵، ۷; آيات خدا كو جھٹلانے والے ۸

توحيد :توحيد كا فطرى ہونا ۴;توحيد كى حقانيت ۳; توحيد كے گواہ ۲

خدا تعالى :نواہى خدا ۱۲

دروغ گو افراد : ۱۰ ،۱۱

دنيا ميں پلٹنا: ۶

عذاب :عذاب كا مشاہدہ كرنے كے آثار ۱ ،۴

قرآن :قرآن كا جھٹلايا جانا ۵

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۶;قيامت كے دن جھوٹ بولا جانا ۱۱

كفار :كفار اور آيات خدا۵; كفار اور دنيا ميں پلٹنا ۷، ۸; كفار اورقرآن ۵; كفار اور قيامت ۷، ۸; كفار

۸۳

اور كتمان حق ۵; كفار اور وعدہ اصلاح ۷، ۸; كفار كا جھوٹ ۷; كفار كا كفر ۸; كفار كا وعدہ۷

محرمات : ۱۲

مشركين :مشركين اور توحيد ۲، ۳;مشركين اور دنيا ميں پلٹنا ۹; مشركين اور قيامت ۱، ۴، ۹; مشركين اور كتمان حق ۳; مشركين اور معاد ۲، ۳; مشركين كا شرك۴; مشركين كا عذاب ۱; مشركين كا عقيدہ ۱; مشركين كا

وجدان ۲، ۳;مشركين كى اخروى آرزو ۱; مشركين كى اخروى دروغگوئي ۱۱;مشركين كى دروغ گوئي ۱۰ ; مشركين كى ہٹ دھرمى ۹، ۱۰; مشركين كے طور طريقے ۱۰

معاد :حقانيت معاد ۳; حقانيت معاد كے گواہ ۲

نواہي:نواہى كے ارتكاب كى حرمت ۱۲

آیت ۲۹

( وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ )

اور يہ كہتے ہيں كہ يہ صرف زندگانى دنيا ہے اور ہم دوبارہ نہيں اٹھا ئے جائيں گے

۱_ مكہ كے ہٹ دھرم مشركين قيامت اور دنيوى زندگى كے علاوہ ہر دوسرى زندگى كے منكر تھے_

و قالوا ان هيَ الا حياتنا الدنيا

۲_ آخرت كے منكر مادى اور سطحى افكار كے حامل ہيں _و قالوا ان هى الا حياتنا الدنيا و ما نحن بمبعوثين

۳_ بعض كفار، دنيا ميں پلٹ بھى آئيں تب بھى زندگى كو دنيا ميں ہى منحصر سمجھيں گے اور قيامت كا انكار كريں گے_

و لو ردوا لعادوا و قالوا ان هى الا حياتنا الدنيا ہوسكتاہے جملہ ''و قالوا ...'' جملہ ''لعادوا'' پر عطف ہو_ يعنى اگر وہ لوگ دنيا ميں واپس آجائيں تو وہى اپنا باطل طريقہ جارى ركھيں گے

۸۴

اور پھر معاد كا انكار كرنا شروع كرديں گے_

اخروى زندگى :اخروى زندگى كا انكار ۱; اخروى زندگى كو جھٹلانے والے ۱، ۳

قيامت :قيامت كو جھٹلانے والے ۱، ۳

كفار :كفار اور دنيا كى جانب پلٹنا۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ كى دنيا پرستى ۱; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۱

معاد :معاد كو جھٹلانے والوں كى مادہ پرستى ۲;معاد كى تكذيب كرنے والوں كے افكار ۲

۸۵

آیت ۳۰

( وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى رَبِّهِمْ قَالَ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُواْ بَلَى وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُواْ العَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ )

اور اگر آپ اس وقت ديكھتے جب انھيں پروردگا ر كے سامنے كھڑا كيا جائے گا اور ان سے خطاب ہو گا كہ كيا يہ سب حق نہيں ہے تو وہ لوگ كہيں گے كہ بيشك ہمارے پروردگار كى قسم يہ سب حق ہے تو ارشاد ہو گا كہ اب اپنے كفر كے عذاب كا مزہ چكھو

۱_ قيامت كے دن، منكرين معاد كو ذلت آميز طريقے سے پروردگار كے حضور لائے جانے والا عجيب اور دہشتناك منظر_و لو ترى اذ وقفوا على ربهم

۲_ قيامت كے دن خداوند عالم كى كفار سے روبرو گفتگو_قال اليس هذا بالحق قالوا بلى و ربنا

۳_ خداوند عالم كا قيامت كے دن منكرين معاد سے مواخذہ كرنا_

۸۶

و قالوا ان هى الا حياتنا الدنيا و ما نحن بمبعوثين_ و لو ترى اذ اليس هذا بالحق

۴_ قيامت كے دن، منكرين معاد روز حشر كى حقانيت كى قسم كھاكر اقرار كريں گے_

و لو ترى اذ وقفوا على ربهم قال اليس هذا بالحق قالوا بلى و ربنا

۵_ قيامت كے مناظر كى تصوير كشي، تربيت اور ہدايت كے قرآنى طريقوں ميں سے ايك طريقہ ہے_

و لو ترى اذ وقفوا على ربهم قال اليس هذا بالحق قالوا بلى و ربنا

جملہ ''لو ترى '' كے تكرار اور متعدد آيات ميں قيامت كى خصوصيات كے بيان سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ ہوتاہے_

۶_ منكرين معاد اور مشركين كى مخالفتوں اور بدعمليوں كے مقابلے ميں خداوند كا پيغمبر(ص) كو تسلى و تشفى دينا_

و قالوا ان هى الا حياتنا الدنيا و لو ترى اذ وقفوا على ربهم قال اليس هذا بالحق

فعل ''تري'' كا براہ راست مخاطب پيغمبر(ص) ہيں _ اس قسم كا خطاب، كفار كى مخالفتوں اور انكار كے مقابلے ميں ايك طرح كى آنحضرت(ص) كو تسلى و تشفى ہے_

۷_ معاد كے منكرين كا محاكمہ اور سزا ربوبيت خداوندمتعال كا ايك جلوہ ہے_

و لو ترى اذ وقفوا على ربهم قالوا بلى و ربنا قال فذوقوا العذاب

۸_ قيامت كے (مختلف) مواقف پر توحيد، نبوت اور معاد كے منكرين سے مؤاخذہ ہونا_

و يوم نحشرهم جميعا و لو ترى اذ وقفوا على ربهم قال اليس هذا بالحق

(آيت ۲۲ ميں ) ''اين شركاؤكم'' توحيد كے بارے ميں مواخذہ ہے اور (آيت ۲۷) ''لانكذب بآيات ربنا'' ميں نبوت كے بارے ميں مؤاخذہ ہے اور (آيت ۳۰)''اليس هذا بالحق'' ميں قيامت كے بارے ميں مؤاخذہ اور حساب ہے_

۹_ قيامت كا عذاب، كفر پراصراراور دنيا ميں معاد كا انكار كرنے كا نتيجہ ہے_فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون

۱۰_ منكرين معاد (كفار) كو، قيامت كے دن خداوند كے (خصوصي) حكم سے عذاب ديا جائے گا_قال فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون

۱۱_ قيامت كے دن، كفار اپنى باتوں كے اثبات كے ليے، باربارقسميں كھائيں گے_والله ربنا ما كنا مشركين قالوا بلى و ربنا

۱۲_ معاد (آخرت) كا انكار، كفر ہے_

۸۷

اليس هذا بالحق، قالوا بلى و ربنا، قال فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون

آنحضرت-(ص) :آنحضرت(ص) كو تسلى ۶ ، آنحضرت كے مخالفين ۶

اقرار :معاد كا اقرار ۴

تربيت :روش تربيت۵

خدا تعالي:خداوند كا حساب لينا ۳; خدا كے اخروى اوامر ۱۰;ربوبيت خدا كے مظاہر ۷; قيامت كے دن خدا كا تكلم ۲

عذاب :اخروى عذاب كے اسباب ۹

قيامت :قيامت كى حقانيت ۴; قيامت كى منظر كشى كے آثار ۵; قيامت كے دن قسم كھانا ۱۱; قيامت كے دن مؤاخذہ ۳، ۸; مواقف قيامت ۸

كفار :خدا تعالى كا كفار سے گفتگو كرنا ۲; كفار اور قيامت ۱۱ ; كفار كا اخروى عذاب ۱۰ ; كفار كا اخروى محاكمہ ۸ ; كفار كا قسم كھانا ۱۱

كفر :آثار كفر ۹; توحيد سے كفر ۸;كفر كے موارد ۱۲; معاد سے كفر ۸; نبوت سے كفر ۸

مشركين :مشركين كى محمد(ص) سے مخالفت ۶

معاد :معاد كو جھٹلانا كفر ہے ۱۲;معاد كو جھٹلانے كے آثار ۹; معاد كو جھٹلانے والوں كا اقرار ۴;معاد كو جھٹلانے والوں كا عذاب ۱۰;معاد كو جھٹلانے والوں كى ذلت ۱; معاد كو جھٹلانے والوں كى قسم ۴;معاد كے جھٹلانے والوں كا محاكمہ ۳، ۷;معاد كے جھٹلانے والوں كى سزا ۷;معاد كے جھٹلانے والے اور آنحضرت(ص) ۶;معاد كے جھٹلانے والے اور قيامت كا دن ۱، ۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۵

۸۸

آیت ۳۱

( قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّهِ حَتَّى إِذَا جَاءتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُواْ يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ )

بيشك وہ لوگ خسارہ ميں ہيں جنھوں نے الله كى ملاقات كا انكار كيا يہاں تك كہ جب اچانك قيامت آگئي تو كہنے لگے كہ ہائے افسوس ہم نے قيامت كے بارے ميں بہت كوتا ہى كى ہے _ اس وقت وہ اپنے گناہوں كا بوجھ اپنى پشت پر لا دے ہوں گے اور يہ بدترين بوجھ ہو گا

۱_ معاد اور خداوندعالم كے حضورحاضر ہونے كو جھٹلانے والے بلا شك و ترديد خسارے ميں ہيں _

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۲_ قيامت كے دن، سب لوگوں كا خداوند عالم سے ملاقات كرنا_قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله حتى اذا جاء تهم الساعة

''الساعة'' قيامت كے ناموں ميں سے ايك نام ہے اور ملاقات سے مراد جسمانى ملاقات نہيں چونكہ يہ بات محال ہے_ لہذا اس سے مراد خدا كى قدرت اور حاكميت كا شہود ہے_

۳_ قيامت كے دن، خداوند متعال اپنى قدرت اور حاكميت كى تجلى دكھائي گا_

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة ''لقا اللہ'' سے مراد عام ملاقات اور ملاپ نہيں ہوسكتا_ لہذا لقا خدا سے مراد اس كى حاكميت و رضايت اور غضب كا محسوس ہونا ہے_ گويا كہ خود بنى آدم، خداوند عالم سے ملاقات كررہے ہيں _

۴_ قيامت كا برپا ہونا، اچانك بغير كسى اعلان كے اور عالم غفلت ميں ہوگا_حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة

۵_ جو لوگ، موت آنے تك خداوند متعال كى ملاقات

۸۹

اور معاد (آخرت) كے منكر ہيں بلاشك و شبہ خسارے ميں ہيں _قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة

ہوسكتاہے ''الساعة'' سے مراد موت يا قيامت ہو_ مندرجہ بالا مفہوم ميں ''الساعة'' موت كے معنى ميں ہے_

۶_ قيامت، كے وقت، پروردگار كى ملاقات اور معاد (آخرت) كے منكرين كے خسارے كا ظاہر ہونا_

حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة قالوا ياحسرتنا على ما فرّ طنا فيها يہاں حسرت كا منادى ہونا ظاہر كرتاہے كہ قيامت كے دن وہ اس طرح مشہود اور عياں ہوجائے گى كہ اسے ندا دى جا سكے گي_

۷_ قيامت كے دن، پروردگار كى ملاقات كے منكر، دنيا ميں اپنى كوتاہيوں پر بہت زيادہ افسوس اور حسرت كريں گے_

حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة قالوا يحسرتنا على ما فرطنا فيها حسرت كا منادى بننا، ندامت كى شدت كو ظاہر كررہاہے_ علاوہ ازين ''فيھا'' كا مرجع ضمير ''حيات دنيا'' كو بنايا گيا ہے كہ جو ايك معنوى مرجع ہے_

۸_ منكرين معاد، قيامت كے دن، قيامت كے بارے ميں اپنى بے توجہى اور سہل انگارى پر بہت زيادہ حسرت اور افسوس كريں گے_حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة قالوا يحسرتنا على ما فرطنا فيها

''فرطنا فيھا'' ميں ضمير كا مرجع ہوسكتاہے ''الساعة'' ہو اور ''الساعة'' سے مراد ممكن ہے قيامت ہو_ اس صورت ميں جملے كا معنى يہ ہوجائے گا''يا حسرتنا على ما فرطنا فى امر القيامة''

۹_ آخرت كى پشيماني، غم و اندوہ اور حسرت، فرائض كى انجام دہى ميں كوتاہى اور دنيوى فرصت كو ضائع كرنے كا نتيجہ ہے_قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله قالوا ياحسرتنا على ما فرطنا فيها

''على ما فرطنا فيھا'' ميں ''ھائ'' كى ضمير ''ما'' كى جانب پلٹتى ہے اور معنى يہ ہوجاتاہے ''يا حسرتنا على تفريطنا'' چونكہ تفريط كا متعلق محذوف ہے (لہذا) متعلق تفريط كے اطلاق پر دلالت كررہاہے_

۱۰_ دنيا كى مادى زندگى تك حيات كو محدود سمجھنا، قيامت كے دن كى حسرت اور گہرے غم و اندوہ كا موجب بنتاہے_

و قالوا ان هى الا حياتنا الدنيا حتى اذا جاء تهم الساعة بغتة قالوا ياحسرتنا

۹۰

۱۱_ معاد كے انكار اور كفر كے نتائج، انسان كے دوش پر سنگين بوجھ (كى مانند) ہيں _

و هم يحملون اوزارهم على ظهورهم

۱۲_ معاد كے منكرين، قيامت كے دن، اپنے گناہوں كے سنگين بوجھ كے ساتھ حاضر ہونگے_

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله و هم يحملون اوزارهم على ظهورهم

''اوزار'' ''وزر'' كى جمع ہے جس كا معنى (بوجھ) ہے_ اور آيت ميں ''اوزار'' سے مراد گناہوں كابار ہے_

۱۳_ انسان قيامت كے دن، اپنے اعمال كے نتائج و عواقب ميں گرفتار ہوگا_و هم يحملون اوزارهم على ظهورهم

۱۴_ دين اور قيامت كے عقيدہ سے عارى زندگى كا گھاٹے ميں اور انسان كے سرمايہ حيات كے ليے تباہ كن ہونا_

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله ياحسرتنا على ما فرطنا فيها

۱۵_ معاد كا انكار گناہ ہے كہ جو قيامت كے دن منكرين معاد كے كاندھوں پر بدترين بوجھ ہوگا_

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله الا ساء ما يزرون

۱۶_ دينى امور اور فرائض ميں كوتاہى اور تفريط، انسان كے كاندھوں پر ايك بدترين بوجھ اور گناہ ہے_

قالوا يحسرتنا على ما فرطنا فيها و هم يحملون اوزارهم على ظهورهم الا ساء ما يزرون

يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ جب ''ما فرطنا'' ميں ''ما'' موصولہ اور ''فيھا'' كى ضمير كا مرجع ہو_

۱۷_عن النبّي(ص) فى قوله : ''يا حسرتنا'' قال : يرى اهل النار منازلهم من الجنة فيقولون : ''يا حسرتنا'' (۱)

رسول خدا(ص) نے خدا كے قول ''يا حسرتنا'' كے بارے ميں فرمايا ہے كہ جب اہل جہنم، بہشت ميں اپنا مقام و جگہ ديكھيں گے تو كہيں گے ''يا حسرتنا'' (يعنى ''اے حسرت'')

انجام :بُرا انجام ۱۶

اہل جہنم :اہل جہنم كى حسرت ۱۷

پشيمانى :اخروى پشيمانى كے عوامل ۹

____________________

۱) تفسير طبرى ج ۵،ص ۱۷۸، الدرالمنثور ج/ ۳ ص ۲۶۲_

۹۱

حسرت :اخروى حسرت كے عوامل ۹، ۱۰

حيات :اخروى حيات كے انكار كے آثار ۱۰; دنيوى حيات كے قيمتى عوامل ۱۴

خدا تعالى :حاكميت خدا كى اخروى تجلى ۳; قدرت خدا كى اخروى تجلى ۳

خسارہ :موارد زيان و خسارہ ۱۴خسارہ اٹھانے والے: ۱، ۵

قيامت كے دن خسارہ اٹھانے والے لوگ ۶

دين :اہميت دين ۱۴ دين ميں تفريط ۱۶; دين ميں سستى ۱۶

دينى فرائض :دينى فرائض ترك كرنے كے آثار ۹; دينى فرائض ميں سستى ۱۶

روايت : ۱۷

عقيدہ :قيامت كا عقيدہ ۱۴

عمر :عمر تباہ كرنے كے آثار ۹; سرمايہ عمر كى تباہى ۱۴

عمل :عمل كے اخروى آثار ۱۳

غم و اندوہ:اخروى غم و اندوہ كے اسباب ۹،۱۰

فرصت :فرصت كو تباہ كرنے كے آثار ۹

قيامت :قيامت سے بے توجہى كرنے كے آثار ۸; قيامت كا برپا ہونا۴; قيامت كا ناگہاں ہونا، ۴; قيامت كى ابتلاء ۱۳;قيامت كى خصوصيات ۲، ۳; قيامت كے دن حسرت ۷، ۸; قيامت كے دن حقائق كا ظاہر ہونا ۶

كفر :كفر كى سنگينى ۱۱; كفر كے آثار ۱۱

گناہ :سنگينى گناہ ۱۲، ۱۶; موارد گناہ ۱۵، ۱۶

لقا اللہ :لقاء اللہ اور قيامت۲;لقا اللہ كو جھٹلانے والوں كا خسارہ ۱، ۵; لقا اللہ كو جھٹلانے والوں كى تفريط ۷; لقا اللہ كو جھٹلانے والوں كى حسرت ۷; لقا اللہ كو جھٹلانے والے اور قيامت ۶، ۷

۹۲

مادہ پرستى :مادہ پرستى كے آثار ۱۰

معاد :تكذيب معاد كاگناہ ۱۵; تكذيب معاد كے آثار

۱۱، ۱۵; مكذبين معاد اور قيامت ۶، ۸، ۱۲;مكذبين معاد كا خسارے ميں ہونا ۱، ۵;مكذبين معاد كا گناہ ۱۲; مكذبين معاد كى تفريط ۸;مكذبين معاد كى حسرت ۸; مكذبين معاد كى عاقبت ۱۵

آیت ۳۲

( وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ )

اور يہ زندگانى دنيا صرف كھيل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقوى كے لئے سب سے بہتر ہے _ كيا تمھارے سمجھ ميں يہ بات نہيں آرہى ہے

۱_ آخرت كے اعتقاد كے بغير دنيوى زندگى كا حقيقت سے دور اور بے قيمت ہونا_و ما الحيوة الدنيا الا لعب و لهو

۲_ دنيا پرستى اور اس سے محبت كرنا ايك بچگانہ اور احمقانہ خيال ہے_و ما الحيوة الدنيا الا لعب و لهو

چونكہ لہو و لعب بچوں اور ان لوگوں كا كام ہے جو فكرى بلوغ سے عارى ہيں _ اس تشبيہ كے مطابق، دنيا پرستوں ميں يہى خصوصيات پائي جاتى ہيں _

۳_ منكرين معاد كے نزديك زندگى كى حقيقت سوائے، كھيل تماشے كے اور كچھ بھى نہيں _

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله و ما الحياة الدنيا الا لعب و لهو

اگر چہ اكثر اوقات دنيا لھو و لھب ہے_ ليكن اس كے باوجود ہم سب جانتے ہيں كہ يہى دنيا مراتب و درجات كے ارتقا اور نيكيوں كے كسب كرنے كا سبب ہے لہذا كہہ سكتے ہيں كہ يہ آيت، گذشتہ آيات سے مربوط ہے كہ جو منكرين معاد كے بارے ميں تھيں _ يعنى دنيوى زندگى ان كے ليے لھو و لعب كے سوا اور كوئي معنى نہيں ركھتي_

۴_ معاد پر ايمان ركھنے اور فرائض كى انجام دہى ميں كوتاہى نہ كرنے والوں كے ليے، آخرت بہترين

۹۳

ٹھكانہ ہے_و للدار الاخرة خير للذين يتقون

اگر ''خير'' صفت مشبھہ ہو تو اس آيت ميں ''يتقون'' گذشتہ آيت كے ساتھ تقابلى قرينے سے(كہ جس ميں لقا اللہ كو جھٹلانے اور دين و فرائض الہى ميں تفريط كرنے كى بحث تھي) معاد كو نہ جھٹلانے اور فرائض الہى كو انجام دينے كے معنى ميں ہے_

۵_ تقوى اور معاد كى فكر ميں رہنا ہى آخرت كى برترين اور بہترين زندگى تك پہنچنے كى راہ ہے_

و للدار الاخرة خير للذين يتقون

۶_ آخرت اہل تقوى كے ليے، ہر قسم كى بدى و برائي اور خسارے سے خالى بھلائي اور خير محض ہے_

اگر ''خير'' صفت مشبہہ ہو نہ فعل تفضيل تو اس صورت ميں ''الاخرة خير'' يعنى آخرت، خير محض ہے_

۷_ دنيا ميں مشغوليت اور اس ميں سرگرم رہنا انسان كو آخرت سے غافل كرديتاہے_

و ما الحيوة الدنيا الا لهب و لهو و للدار الآخرة خير للذين يتقون

۸_ اہل تقوى ، لہو لعب اور آخرت كى غفلت سے دور ہيں _و ما الحياة الدنيا الا لعب و لهو و للدار الآخرة خير للذين يتقون

۹_ دنيوى زندگى كى حقيقت ا ور آخرت كے مقام و منزل كے بارے ميں فكر نہ كرنا، خدا كى سرزنش كا باعث بنتاہے_

و ما الحياة الدنيا افلا تعقلون

۱۰_ عقل و فكر سے كام نہ لينا، دنيا كى جانب توجہ اور آخرت سے غفلت برتنے كى راہ ہموار كرتاہے_

و ما الحياة الدنيا الا افلا تعقلون

۱۱_ دنيا و آخرت اور دونوں كے مقام و منزلت اور قدر و قيمت كے بارے ميں غور و فكر كرنا قيامت كے دن خسارے اور حسرت سے محفوظ رہنے كى راہ ہموار كرتاہے_قد خسر الذين كذبوا و ما الحياة الدنيا الا افلا تعقلون

۱۲_ دنيا پر فريفتہ نہ ہونا اور آخرت كى جانب متوجہ رہنا عقل و خرد كا تقاضا ہے_

و ما الحياة الدنيا الا لعب و لهو افلا تعقلون

آخرت :آخرت كا خير ہونا ۴، ۶;آخرت كى حقيقت ۹ ;

۹۴

آخرت كى خصوصيات ۶; آخرت كى قدر و منزلت ۴، ۶، ۹، ۱۱; آخرت ميں شرور ۶

ايمان :آخرت پر ايمان كى اہميت ۱; متعلق ايمان ۱، ۴; معاد پر ايمان كے آثار ۴

تعقل :تعقل كى علامات ۱۲; تعقل نہ كرنے پر سرزنش ۹، ۱۱; تعقل نہ كرنے كے آثار ۱۰; حقيقت آخرت ميں تعقل ۹، ۱۱; حقيقت دنيا كے بارے ميں تعقل ۹، ۱۱

تقوى :آثار تقوى ۵

تكليف (شرعى ذمہ داري):تكليف پر عمل كے آثار ۴

حسرت :اخروى حسرت كے موانع ۱۱

حيات :اخروى زندگى كى برترى كے اسباب ۵;دنيوى زندگى كى اہميت ۹; دنيوى زندگى كى حقيقت ۹; دنياوى زندگى كے بے مقصد ہونے كے عوامل ۱، ا;

خدا تعالى :خداوندمتعال كى جانب سے سرزنش ۹

خسارہ:اخروى خسارے سے بچنا۱۰; خسارے سے بچنے كى راہ ۱۱

دنيا :ارزش دنيا ۱۱; دنيا كا مكرو فريب ۱۲

دنياپرستى :دنيا پرستى پر سرزنش ۲; دنيا پرستى كا غير منطقى ہونا ۲;دنيا پرستى كى راہيں ۱;دنيا پرستى كے آثار ۷; دنياپرستى كے موانع ۱۲

ذكر (ياد) :معاد كو ياد ركھنے كے آثار ۵; ياد آخرت كى راہ ۱۲;

سعادت :اخروى سعادت كے عوامل ۵

عقل :عقل كا كردار ۱۰

عقيدہ :باطل عقيدہ ۲

غفلت :آخرت سے غفلت كى راہ ۱۰; آخرت سے غفلت كے عوامل ۷

لعب :آثار لعب ۷; موارد لعب ۱، ۳

لہو :آثار لھو ۷; موارد لھو ۱، ۳

۹۵

متقين :آخرت اور متقين ۶;متقين اور لھو و لعب ۸; متقين اور آخرت سے غفلت ۸

معاد :معاد كو جھٹلانے والوں كى زندگى ۳

مؤمنين :مؤمنين كى آخرت ۴

نعمت :اخروى نعمت كى خصوصيت ۶، ۷

آیت ۳۳

( قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ )

ہميں معلوم ہے كہ آپ كو ان كے اقوال سے دكھ ہو تا ہے ليكن يہ آپ كى تكذيب نہيں كررہے ہيں بلكہ يہ ظالمين آيات الہى كا انكار كررہے ہيں

۱_ كفار كى مخالفتوں اور بيہودہ گوئي پر پيغمبر اكرم(ص) كا غمگين ہونا_قد نعلم انه ليحزنك الذى يقولون

۲_كفار كى بيہودہ گوئي اور اس پر پيغمبر(ص) كے غم و اندوہ سے خدا كى آگاہى كو ياد دلاكر، خدا كا منكرين كے انكار كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) كو تسلى و تشفى دينا_قد نعلم انه ليحزنك الذى يقولون

۳_ كفار كا پيغمبر اكرم(ص) كو جھٹلانا اور انہيں طعن و تشنيع اور آزار كا نشانہ بنانا_قد نعلم انه ليحزنك الذى يقولون

۴_ خداوندعالم انسان كے پوشيدہ و باطنى حالات سے آگاہ ہے_قد نعلم انه ليحزنك الذى يقولون

۵_ پيغمبر اكرم(ص) كو جھٹلانے سے كفار كا اصلى مقصد، آيات الہى كا انكار كرنا تھا_

فانهم لا يكذبونك و لكن الظلمين بآيات الله يجحدون

۶_ ظالم ہى آيات الہى كا انكار كرتے ہيں _و لكن الظالمين بآيات الله يجحدون

۹۶

۷_ آيات الھى كا انكار ظلم ہے_فانهم لا يكذبونك و لكن الظالمين بآيات الله يجحدون

ممكن ہے منكرين كو ظالم كہنے كا مطلب يہ ہوكہ وہ اپنے انكار سے ظالموں كى صف ميں شامل ہوگئے ہيں _ نہ يہ كہ وہ انكار كرنے سے پہلے ظالم تھے_

۸_ پيغمبر اكرم(ص) آيت الہى ہيں اور آپ(ص) كى رسالت كو جھٹلانا، آيات خداكا انكار اور ظلم ہے_

فانهم لا يكذبونك و لكن الظلمين بايت الله يجحدون

۹_ آنحضرت(ص) كى حقانيت سے آگاہ ہونے كے با وجود، كفار كا ہٹ دھرمى سے كام لينا اور پيغمبر اكرم(ص) سے مقابلہ كرنا_فانهم لا يكذبونك و لكن الظالمين بآيات الله يجحدون

۱۰_ آيات الھى كا انكار، كفار كے ظالم و سركش نفس كى وجہ سے ہے نہ كہ ان كى جہالت و نادانى كا نتيجہ ہے_

فانهم لا يكذبونك و لكن الظلمين بآيات الله يجحدون ''حجد''اس انكار كو كہتے ہيں كہ جو قلبى عقيدہ كے خلاف ہو، احتمال ہے كہ كفار و منكرين كو، پيغمبر(ص) سے دانستہ مخالفت كى وجہ سے ظالم كہا گيا ہو_

۱۱_ پيغمبر اكرم(ص) سے كفار كى جنگ، (در حقيقت) خداوندمتعال كے مقام الوہيت سے مقابلہ ہے_

قد نعلم انه ليحزنك و لكن الظلمين بآيات الله يجحدون

۱۲_ خداوند عالم كا پيغمبر اكرم(ص) كو يہ كہہ كر تسلى دينا كہ كفار كا مقصد آيات الہى كو جھٹلاناہے نہ كہ خود پيغمبر اكرم(ص) كو_فانهم لا يكذبونك و لكن الظلمين بآيات الله يجحدون

۱۳_ خداوند عالم كا، پيغمبر(ص) كو جھٹلانے والوں كو خبردار كرنا_فانهم لا يكذبونك و لكن الظالمين بآيات الله يجحدون پيغمبر(ص) كو جھٹلانے كى نفى كے بعد جملہ ''لكن الظلمين'' كفار كى جانب سے آيات خدا كو جھٹلانے جانے كو بيان كررہاہے_ اس سياق و سباق سے جو نكتہ اخذ كيا جا سكتاہے وہ يہ ہے كہ يہاں جھٹلانے والوں كو تنبيہ كى جارہى ہے_

۱۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله :فانهم لا يكذبونك ''قال : لا يستطيعون ابطال قولك (۱)

امام صادق(ص) ، خدا كے فرمان''فانهم لا يكذبونك'' كے بارے ميں فرماتے ہيں : (اے ہمارے رسول(ص) ) مشركين تمھارے قول كو باطل (ثابت) كرنے كى توانائي نہيں ركھتے_

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص۳۵۹، ح ۲۱_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۱۲ ح ۵۷_

۹۷

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) اور كفار ۹، ۱۱; آنحضرت(ص) سے مقابلہ۱; آنحضرت(ص) كا غم و اندوہ ۳; آنحضرت(ص) كو اذيت و آزار ۳; آنحضرت(ص) كو تسلى ۲، ۱۲; آنحضرت(ص) كو جھٹلايا جانا ۳، ۵، ۸;آنحضرت(ص) كو زخم زبان ۳; آنحضرت(ص) كى تكذيب كرنے والوں كو خبردار كيا جانا ۱۳; آنحضرت(ص) كى حقانيت۹;آنحضرت(ص) كے غم و اندوہ كے عوامل ۱;آنحضرت(ص) كے مقامات ۸، ۱۱

آيات خدا : ۸آيات خدا كى تكذيب ۵، ۷، ۸، ۱۲; آيات خدا كى تكذيب كے عوامل ۱۰;آيات خدا كے مكذّ بين ۶

انسان :اسرار انسان ۴

خدا تعالى :الوہيت خدا كے خلاف مقابلہ ۱۱ ;خدا كا علم۲; خدا كا علم غيب ۴;خدا كى تنبيہات ۱۳

روايت : ۱۴

ظالمين:ظالمين اور الہى آيات۶

ظلم :ظلم كے آثار ۱۰; ظلم كے موارد ۷، ۸

كفار :كفار اور آيات خدا ۵، ۱۲; كفار اور محمد(ص) ۳، ۵، ۹; كفار كا ظلم۱۰; كفار كا مقابلہ۹، ۱۱;كفار كى اذيتيں ۳; كفار كى جہالت۱۰; كفار كى طرف سے طعن و تشنيع ۳;كفار كى ہٹ دھرمى ۹

مشركين :مشركين اور محمد(ص) ۱۴

آیت ۳۴

( وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَى مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلاَ مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ وَلَقدْ جَاءكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَ )

اور آپ سے پہلے والے رسولوں كو بھى جھٹلا يا گيا ہے تو انھوں نے اس تكذيب اور اذيت پر صبر كيا ہے يہاں تك كہ ہمارى مدد آگئي اور الله كى باتوں كاكوئي بدلنے والا نہيں ہے اور آپ كے پاس تو مرسلين كى خبريں آچكى ہيں

۱_ گذشتہ انبيا ميں سے كچھ، پيغمبر اكرم(ص) كى طرح، مخالفين كى طرف سے جھٹلائے گئے ہيں _

۹۸

و لقد كذبت رسل من قبلك

۲_ پيغمبر اكرم(ص) كى تكذيب، انبيائے الہى كے ساتھ جنگ كى تاريخ كا تكرار ہے_و لقد كذبت رسل من قبلك

۳_ انبيا(ص) آيات الہى ہيں _فانهم لا يكذبونك و لكن الظّلمين بآيات الله يجحدون و لقد كذبت رسل من قبلك

۴_ گذشتہ انبياعليه‌السلام اپنے مخالفين كى تكذيب اور دشمنى كے مقابلے ميں استقامت و پائيدارى دكھاتے تھے_

فصبروا على ما كذبوا و اوذوا

۵_ خداوندعالم كى جانب سے، پيغمبر اكرم(ص) اور مؤمنين كو مخالفين كے مقابلے ميں صبر و استقامت كى ترغيب و دعوت_و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا

۶_ مخالفين كى طرف سے تكذيب اور تكليف و آزار كے مقابلے ميں انبياء كے صبرو استقامت كے نتيجے ميں انھيں فتح و نصرت كى شيرينى كا عطا ہونا_فصبروا على ما كذبوا و اوذوا حتى اتى هم نصرنا

۷_ استقامت و پائيدارى كى صورت ميں خداوندعالم كى جانب سے پيغمبر اكرم(ص) كو نصرت و مدد كى خوشخبرى ملنا_

و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا

۸_ گذشتہ انبياعليه‌السلام كى تاريخ اور ان كى استقامت و پائيدارى كا تذكرہ، سبق آموز اور تعميرى ہے_

و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا

۹_ حوادث كى شناخت اور عبرت حاصل كرنے كے ليے ايك قيمتى و بہترين منبع تاريخ ہے_

و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا

۱۰_ صبر و استقامت كے سائے ميں مؤمنين كو نصرت و مدد كى الہى خوشخبري_

و لقد كذبت فصبروا على ما كذبوا و اوذوا حتى اتى هم نصرنا

۱۱_ خداوندعالم كى نصرت اور غيبى امداد، انبيائے الہى كى رسالت و نبوت كى پشت پناہ ہے_

و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا

۹۹

۱۲_ مشكلات و مصائب برداشت كرنا، انبياعليه‌السلام كى رسالت اور اہداف كى تكميل اور راہ حق كو طے كرنے كا لازمہ ہے_

قد نعلم انه ليحزنك الذى يقولون لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا

۱۳_ سنن الہى اور كلمات خداكو كوئي بھى تبديل نہيں كرسكتا_و لا مبدل لكلمت الله

۱۴_ خدا كے وعدے ناقابل تخلف ہيں _و لقد كذبت حتى اتى هم نصرنا و لا مبدل لكلمت الله

۱۵_ تاريخى حوادث اور واقعات پر ان ناقابل تغيير سنن الہى كى مكمل حاكميت ہونا كہ جن كا كوئي حريف نہيں ہے_

و لقد كذبت رسل من قبلك حتى اتى هم نصرنا و لا مبدل لكلمت الله

جملہ ''لا مبدل ...'' نظام كائنات ميں ايك كلى قانون كا بيان ہے ليكن آيت كا موضوع، تاريخى ابحاث اور انكے حوادث ہيں (لھذا) اس حصے ميں آيت كا مصداق بھى مذكورہ سنن الہى ہيں _

۱۶_ صبر و استقامت كے سائے ميں فتح و نصرت حاصل ہونا، خدا كى ناقابل تغيير سنت ہے_

فصبروا على ما كذبوا و اوذوا حتى اتى هم نصرنا و لا مبدل لكلمت الله

۱۷_ الہى رسالت (اور سنن) سے جنگ اور حق كے مقابلے ميں محاذ آرائي كاحتمى شكست و ناكامى سے ووچار ہونا_

و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا حتى اتى هم نصرنا و لا مبدل لكلمت الله

۱۸_ سورہ انعام سے پہلے بھى پيغمبر خدا(ص) پر گذشتہ انبيا كى سرگذشت ان كے صبر و استقامت اور ان كى فتح و نصرت كے بارے ميں قرآن كى چند آيات كا نازل ہونا_فصبروا على ما كذبوا و لقد جاء ك من نباى المرسلين

۱۹_ قرآن ميں پيغمبر(ص) كو گذشتہ انبيا كى پيروى كرنے اور آنحضرت(ص) كى تسلى كے ليے(ص) ان (انبياعليه‌السلام ) كے قصوں اور داستانوں كا بيان كيا جانا_و لقد كذبت و لقد جاء ك من نبا ى المرسلين

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كو ترغيب ۵; آنحضرت(ص) كو تسلى و تشفى

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744