صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام0%

صحیفہ امام حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

صحیفہ امام حسین علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مشاہدے: 9308
ڈاؤنلوڈ: 3760

صحیفہ امام حسین علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9308 / ڈاؤنلوڈ: 3760
سائز سائز سائز
صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


امام علیہ السلام کے بارے میں مختلف معلوماتی تقریر کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے

https://www.youtube.com/playlist?list=PLXYLftvtiy7c09a4CUiMXf6MW0gGDZX6u

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام : صحیفہ امام حسین علیہ السلام

تالیف : علی اصغر رضوانی

فصل اوّل

آنحضرت کی دعائیں اور مناجات

اللہ تعالیٰ کی تعریف اور توصیف میں۔

نماز اور خدا کے ساتھ ربط میں۔

دشمنوں کے خلاف جہاد کے بارے میں۔

لوگوں کی مدح یا مذمت میں۔

مشکلات کے رفع ہونے اور حاجات کے بر لانے میں۔

خطرات اور بیماریوں کے دور کرنے میں۔

مبارک ایام میں۔

پہلا باب

اللّٰہ کی تعریف اور توصیف میں

ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو اللہ سبحانہ کی تسبیح و تقدیس

خدائے بزرگ و برتر کے حضور مناجات

حجر اسود کے قریب اللہ تعالیٰ سے رازونیاز

اخلاقِ حسنہ کی طلب میں

آخرت کی رغبت میں

خلافِ معمول کاموں سے بچنے کیلئے

مردوں کے لئے طلبِ رحمت کرتے ہوئے

ہر ماہ کی پانچ تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقد یس

پاک ہے وہ ہستی جواعلیٰ اور رفیع الدرجات ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو بزرگوار اور بلند مرتبہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو اس طرح ہے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی اس کی برابری کی طاقت نہیں رکھتا۔ پاک ہے وہ ذات جس کی ابتداء علم سے ہے ،جو قابلِ توصیف نہیں اور اس کی انتہا ایسی دانائی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگی۔

پاک و منزہ ہے وہ ذات جو اپنی ربوبیت سے تمام موجودات پر برتری رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی آنکھ اس کو پانہیں سکتی اور کوئی عقل اُسے مثال میں نہیں لا سکتی۔ وہم سے اُس کو تصور نہیں کرسکتے ،جس طرح زبان اُس کی توصیف کرنے سے قاصر ہے۔

پاک ہے وہ ہستی جو آسمانوں میں بلند مرتبہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کیلئے موت کومقرر کیا۔پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہی قدرت مند ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کی حکمرانی میں کوئی عیب نہیں۔پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ سے ہے اور رہے گا۔(دعوات: ۹۲ ،بحار ۹۴:۲۰۵)

اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام انس بن مالک کے ہمراہ چل رہے تھے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی قبر کے پاس پہنچے تو روئے۔ پھر فرمایا:

اے انس! مجھ سے دور چلے جاؤ۔ وہ کہتا ہے کہ میں امام علیہ السلام کی نگاہوں سے دور چلا گیا۔ جب انہیں نماز پڑھتے پڑھتے دیر ہوگئی تو میں نے سنا کہ یوں فرمارہے تھے:

پروردگارا! پروردگارا! تو میرا مولا ہے۔

اپنے اس بندے پر رحم فرما جو تیری بارگاہ میں پناہ گزین ہے۔

اے عظیم الشان صفات والے! میرا تجھ ہی پر بھروسہ ہے۔

اُس کے لئے خوشخبری ہے جس کا تو مولا ہے۔

خوشخبری ایسے شخص کیلئے جو خدمت گزار اور شب زندہ دار ہے۔ جو اپنی مشکلات کو اپنے رب کے سامنے رکھتا ہے اور جو چیزیں اپنے رب کے سامنے پیش کرتا ہے۔

کوئی دل میں بیماری نہیں رکھتا بلکہ زیادہ تر اپنے مولا سے محبت کی خاطر ۔بہرحال جو بھی غصہ اور پریشانی بارگاہِ ربوبیت میں رکھی ہے، خدا جل شانہ نے سنی اور قبول فرمایا۔

کوئی بھی اگر اپنی پریشانیوں کو اندھیری رات میں اُس کی بارگاہ میں رازونیاز کرے، خدا اُس کو عزت بخشتا ہے اور اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔

پھر اُس بندے کو ندا دی جاتی ہے۔

اے میرے بندے! تو میری حمایت میں ہے اور تونے جو کچھ بھی کہا ہے، ہم اُس کو جانتے ہیں۔

میرے فرشتے تیری آواز سننے کے مشتاق ہیں۔ کافی ہے کہ ہم تیری آواز کو سن رہے ہیں۔آپ کی دعا میرے قریب ہے اور پردوں میں گردش میں ہے۔ کافی ہے کہ ہم تیرے لئے حجاب کو ہٹا دیتے ہیں۔

اگر اُس کی جانب سے ہوا چلے تو زمین پر بیہوشی سی طاری ہوجائے۔مجھ سے طمع، ڈر اور حساب کے بغیر مانگ کیونکہ میں تیرا رب ہوں۔(بحار ۴۴:۱۹۳)

حجر اسود کے قریب اپنے رب سے رازو نیاز

اے پروردگارا!تو نے مجھے نعمت سے نوازا لیکن مجھے شکر بجالانے والا نہیں پایا۔ مجھے مصیبت کے ذریعے آزمایا لیکن مجھے صابر و شاکر نہیں پایا۔

اس کے باوجود شکر نہ بجا لانے پر نعمتوں کو سلب نہیں فرمایا اور میرے صبر نہ کرنے پر مصیبت میں اضافہ نہیں فرمایا۔

پروردگارا! تیرے علاوہ کسی کو عزت دار نہیں پایا۔(کشف الغمہ ۱:۴۱۴ ،عددالقویۃ: ۳۵)

اخلاقِ حسنہ کی طلب میں

پروردگارا! ہدایت یافتہ لوگوں کی سی توفیق عطا فرما ،پرہیزگاروں کے سے اعمال عطا فرما، توبہ کرنے والوں کی سی خیرخواہی عطا فرما، ڈرنے والوں کی سی خشیت عطا فرما، اہلِ علم کی سی طلب عطا فرما، متقی اور زاہد لوگوں کی سی زینت عطا فرمااور جزع و فزح کرنے والوں کا سا خوف عطا فرما۔

پروردگارا! ہمیشہ میرے دل میں اپنا خوف قرار دے جو مجھے گناہ کرنے سے روکے اور تیرے فرامین پر عمل پیرا ہو کر تیری کرامت اور بزرگواری کا مستحق ٹھہر سکوں۔تیرے خوف سے تیری بارگاہ میں توبہ بجا لاؤں۔

اورپھر تجھ سے محبت میں اعمال کوخلوص سے بجالاؤں۔ اپنے کاموں میں تجھ پر حسن ظن کرتے ہوئے تیری ذات پر ہی توکل کروں۔نور کے پیدا کرنے والی ذات پاکیزہ ہے اور پاک ہے وہ ذات جو عظیم الشان ہے ۔ تمام حمد و ستائش اُسی کے ساتھ سزاوار ہے۔(مہج الدعوات: ۱۵۷)

آخرت میں رغبت اور توجہ طلب کرتے ہوئے

پروردگارا! مجھے آخرت میں رغبت اور اشتیاق عطا فرما تاکہ اس کے وجودکی صداقت سے امورِ دنیا میں زہد کو اپنے اندر محسوس کروں۔

پروردگارا! مجھے اُمورِ آخرت کی پہچان اوربصیرت عطافرما تاکہ میں نیکیوں میں اشتیاق اور تیرے خوف کی وجہ سے گناہوں سے دورر ہوں۔(کشف الغمہ ۲:۶۳)

استدراج سے امن میں رہنے کیلئے

پروردگارا! مجھے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے غافل نہ فرمانا تاکہ میں تیرے عذاب کی راہ پر چل نکلوں اور مجھے اپنی ناراضگی سے ادب نہ سکھانا۔(درة الباہرہ: ۲۴)

مُردوں کیلئے طلبِ رحمت کرتے ہوئے

پروردگارا!اے ان فنا ہونے والی ارواح کے رب! بوسیدہ جسموں کے رب اور نرم شدہ ہڈیوں کے رب!جو تجھ پر ایمان اور اعتقاد کی صورت میں دنیا سے گئے ہیں،اُن پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور میری جانب سے سلام بھیج۔(بحار ۱۰۲:۳۰۰)

دوسرا باب

نماز اور اللّٰہ سے رازونیاز کے بارے میں آنحضرت کی دعائیں

قنوت میں

قنوت کی حالت میں

نمازِ وتر کی قنوت میں

سجدئہ شکر میں

صبح اور شب کی نماز میں

بارانِ رحمت کی طلب میں

بارش کی طلب میں

منافقین کی نمازِ جنازہ میں

قنوت میں آنحضرت کی دعا

پروردگارا! ہر چیز کا آغاز بھی تجھ سے ہے اور انجامِ کار بھی تیرے ارادے کے تحت ہے۔ قوت و قدرت بھی تیرے لئے مخصوص ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ تو نے اپنے اولیاء کے دلوں کو اپنی مشیت اور ارادے کا محل قرار دیا ہے اور ان کے کردار سے امرونہی کی تعلیم فرمائی ہے تاکہ تیری یاد سے ایک لمحہ بھی غافل نہ ہوں۔

جب تو کسی چیز کا ارادہ کرلے تو اپنے اولیاء کو ودیعت شدہ اسرار کو متحرک کردیتا ہے اور ان کی زبانوں سے وہی کچھ جاری کروادیتا ہے جو انہیں سمجھا رکھا ہے اور وہ تیری عطا کردہ عقل سے تجھے پکارتے ہیں۔جو کچھ مجھے تعلیم دیا ہے، میں جانتا ہوں اور جو چیزیں مجھے دکھائی ہیں ، مجھے پناہ دی ہے۔ توہی شکرگزاری کا سزاوار ہے۔

پروردگارا! اس قدرت اور طاقت کے باوجود تیری پناہ کا طلب گار ہوں۔ میں راضی ہوں کہ مجھے اپنی قضا و قدر کے متعلق اپنے علم کی راہ پر قرار دیا اور اس کے راستے پر متحرک کیا۔ جو کچھ تو چاہتا ہے ، میں اس پر سختی سے کاربند ہوں اور جن چیزوں کے متعلق تو مجھ سے راضی ہے، بخیل نہیں ہوں۔جس چیز کی طرف مجھے بلایا ہے، کوتاہی نہیں کروں گا۔

جس چیز کی مجھے تعلیم دی ہے، اس میں جلدی کروں گا۔ جس چیز سے تو نے میری ابتداء کی تھی، میں بھی اسی سے آغاز کروں گا۔ تیری ہی راہِ ہدایت سے ہدایت کا طلب گار ہوں۔ جن امور میں بچنے کا حکم دیا ہے، بچوں گا یا جن امور میں احتیاط برتنے کو کہا ہے، احتیاط کروں گا۔ پس تو بھی مجھے رعایت سے محروم نہ فرما اور اپنی عنایت سے باہر نہ فرما۔ مجھے اپنی تائیداور توفیقات کے فیض سے محروم نہ فرما۔ اپنی خوشی اور خوشنودی والی راہ سے خارج نہ فرما۔

میری حرکت کو میری بصیرت پر قرار دے اور میری راہ کو ہدایت کے ساتھ قرار دے۔ میری زندگی رشدوکمال کے ساتھ قرار دے۔ اگر مجھے ہدایت فرمائی ہے تو میرے وسیلہ سے دوسروں کو بھی اسی راہ کی ہدایت فرما جس کو تو پسند فرماتا ہے،جس کیلئے مجھے خلق کیا ہے، اسی کیلئے مجھے پناہ دے رکھی ہے اور مجھے وہاں پر اتارے گا۔

بارِ الٰہا!اپنے اولیاء کو میرے وسیلہ سے امتحان کرنے سے اپنی پناہ میں رکھ بلکہ ان کو اپنی رحمت اور نعمتوں کے وسیلہ سے امتحان فرما۔اپنے اولیاء کو پلیدیوں سے پاک ہونے کیلئے میرے طریقہ اور میری راہ سے ان کے برگزیدہ ہونے کا سبب قرار دے۔مجھے اپنے آباء و اجداد اور صالح عزیزواقارب سے ملحق فرما۔(مہج الدعوات: ۴۸ ،بحار ۸۵:۲۱۴)

حالت قنوت میں پڑھی جانے والی دعا

پروردگارا! لوگ جہاں بھی پناہ لیتے رہیں، میری پناہ گاہ تو ہی ہے اور لوگ جس کو اپنا ملجا ء قرار دیں، میرا ملجاء تو ہی ہے۔ بارِ الٰہا!محمد وآلِ محمد پر درود بھیج۔ میری دعاؤں کو سن اور میری دعاؤں کو قبول فرما۔ اپنے نزدیک ہی مجھے جگہ عطا فرما اور امتحان اور ابتلا کے وقت، شیطان کے ذریعے گمراہی یا کسی بھی جہت سے لڑکھڑانے سے محفوظ فرما۔ اپنی بزرگواری کے صدقے جو انسانی کذب و افترا اور خیال پردازیوں سے محفوظ ہے اور کوئی چیز اس سے خالی نہیں ہے، مجھے اپنے ارادے اور مشیت سے اپنی طرف لوٹا۔البتہ تیرے اور تیری رحمت سے میں شکوک و شبہات سے بالا تر رہوں، اے بہترین رحم کرنے والے۔(مہج الدعوات: ۴۹ ،بحار ۸۵:۲۱۵)

نمازِ وتر کے قنوت میں

بارِ الٰہا! تو دیکھتا ہے لیکن تجھے نہیں دیکھا جا سکتا، تیری جگہ بہت بلند ہے۔ تیری ہی طرف بازگشت ہے۔ دنیا و آخرت تیرے ہی لئے ہے۔بارِ الٰہا! زلت و رسوائی میں تیری پناہ گاہ کا طلب گار ہوں۔(کنزالعمال ۸:۸۲)

سجدئہ شکر میں دعا

شریح سے روایت ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہواتو حسین علیہ السلام کو دیکھا جو مسجد میں تھے۔ سر میں خاک ڈال کر کہہ رہے تھے:

"اے بارِ الٰہا! کیا میرے بدن کے اعضاء کو آگ بگولا گرزوں کیلئے خلق کیا تھا؟ کیا میرے وجودکو جہنم کے کھولتے پانی پینے کیلئے خلق کیا تھا؟ پروردگارا! اگر تو مجھے گناہوں سے روکے تو میں کریم اور بخشنے والے کو ہی پکاروں گا اور اگر مجھے خطاکاروں سے قرار دے تو میں تیری دوستی کے بارے میں اُنہیں بتاؤں گا۔ اے میرے آقا!میری اطاعت تجھے فائدہ نہیں پہنچاتی اور میرے گناہ تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پس وہ چیز جو تیرے لئے فائدہ مند نہیں ہے، مجھے عنایت فرمادے اور جو تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی، اس سے مجھے محفوظ فرما۔پس تو بہترین رحم کر نے والا ہے۔(احقاق الحق ۱۱:۴۲۴)

صبح و شب میں دعا

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ کے نام سے ، اللہ کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سے اور اس کی راہ میں ، اس کے رسول کے مذہب پر اور میں خدا پر توکل کرتا ہوں، قوت و طاقت صرف بزرگ و برتر اللہ کیلئے ہے۔

پروردگارا! میں اپنی جان کو تیرے حوالے کرتا ہوں۔ میں نے تیری طرف رخ کیا ہے اور اپنے امور کو تجھے تفویض کیا ہے۔ دنیا و آخرت میں ہر بدی اور برائی سے بچنے کا سوال کرتا ہوں۔

پروردگارا!تو نے مجھے دوسروں سے بے نیاز کردیا ہے اور کوئی بھی مجھے تجھ سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔پس خوف وہراس میں میری کفایت فرما اور کاموں میں میرے لئے آسانیاں فرما کیونکہ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ تو قدرت والا ہے جبکہ میں قادر نہیں ہوں۔ تو ہر کام پر توانا ہے ، اے بہترین رحمت کرنے والے۔(مہج الدعوات: ۱۵۷)

طلب باران کیلئے دعا

پروردگارا! اے خیرات کو اس کی مخصوص جگہوں سے دینے والے اور رحمتوں کے خزانوں سے رحمتیں برسانے والے، اہل لوگوں پر برکتیں نازل کرنے والے! بارش تیری جانب سے مدد دینے والی ہے اور تو بھی بہترین مددگار اور دوست ہے۔ہم گناہگار اور خطاکار ہیں جبکہ تو وہ ہے کہ جس سے طلب بخشش ہو، تو بخشنے والا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔

بارِ الٰہا!آسمان سے مسلسل بارشیں نازل فرما اور ہمارے لئے زیادہ بارشیں برسا۔ باعث رحمت بارشیں، بہت زیادہ اور وسیع بارشیں نازل فرما۔موسلا دھار تیز بارشیں جو بادلوں کی گرج چمک کے ساتھ ہوں۔ بہت زیادہ بارانِ رحمت کا نزول فرما۔ ایسی بارشیں جو ہر کسی کیلئے مفید ہوں۔ اس طرح کہ اس کے قطرات پے در پے اور اس کا جاری ہونا منقطع نہ ہو۔ البتہ خالی گرج چمک کے ساتھ گزر جانے والے بادلوں سے نہ ہو۔ ایسی بارشیں ضعیف اور کمزور لوگوں کو زندہ کریں اور تیرے غیر آباد دیہاتوں کو زندگی بخش دیں۔شہروں میں موجود گھروں کو روشنی بخش دے ۔ اس بارش کے وسیلہ سے ہمیں اپنے احسانات کے قابل اور لائق قرار دے ، اے جہانوں کے پروردگار۔(قرب الاسناد: ۱۵۷ ،بحار ۹۱:۳۲۱)

طلب باران کیلئے

پروردگارا! وسیع ، ہمہ گیر، مفید اور (ضرر سے پاک) بغیر ضرر کے بارش نازل فرما جو شہروں اور دیہاتوں میں برابر جاری ہو تاکہ ہماری روزی اور ہمارے شکر میں اضافہ ہو۔

بارِ الٰہا! ہمیں ایمان کی اساس پر اپنی روزی اور عطا کا مستحق قرار دے۔بے شک تو دینے کے بعد واپس نہیں لیتا۔بارِ الٰہا! ہماری زمین پر بارش بھیج اور زمین کی رونقیں، ہریالی اور سبزہ جات کو پیدا فرما۔(عیون الاخبار ۲:۲۷۹)

منافقین میں سے کسی ایک کی نمازِ جنازہ کے دوران کی دعا

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمارہے تھے کہ منافقین میں سے کوئی شخص مرگیا۔ امام حسین علیہ السلام اس کی تشیع جنازہ میں شریک ہوئے۔ پھر فرماتے ہیں کہ مردہ شخص کے ولی اور سرپرست نے تکبیر کہی لیکن امام علیہ السلام نے اس طرح تکبیر کہی:

"اللہ سب سے بڑا ہے۔ پروردگارا! فلاں شخص پر ہزار بار لعنت بھیج۔ البتہ ایسی لعنت جو پے در پے اور مسلسل ہو۔بارِ الٰہا! فلاں بندے کو لوگوں اور شہروں میں ذلیل و خوار فرما۔ اس کو آتش جہنم میں اتار اور بہت سخت اور بُرے عذاب میں مبتلا فرما کیونکہ وہ تیرے دشمنوں کو دوست اور تیرے دوستوں سے دشمنی رکھتا تھا۔ خصوصاً اہل بیت اطہار علیہم السلام کا بہت بڑا دشمن تھا"۔

ایک اور روایت میں یوں آیا ہے:

بارِ الٰہا! فلاں آدمی کو لوگوں اور اپنے شہروں میں ذلیل و خوار فرما۔ بارِ الٰہا! اسے جہنم کی آگ نصیب فرما۔ بارِ الٰہا! بہت سخت عذاب اس پر نازل فرما کیونکہ وہ تیرے دشمنوں کو دوست اور دوستوں کو دشمن رکھتا تھا، خصوصاً خاندانِ پیغمبر اسلام کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔(کافی: ۳:۱۸۹)