تیسرا باب
دشمن کے ساتھ جہاد کے وقت آپ کی دعائیں
مدینہ سے روانگی سے قبل
مکہ پہنچنے پر
قیس بن مسہر کی شہادت کی خبر پہنچنے پر
کربلا داخل ہونے سے قبل
کربلا داخل ہوتے وقت
اس وقت جب کربلا میں دشمن کا لشکر زیادہ ہو گیا
شب عاشورمیں
روزِ عاشور
روزِ عاشور اپنے لشکرکی صف بندی سے قبل
روزِ عاشور
جب حضرت علی اکبر علیہ السلام میدان میں گئے
حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کے بعد
حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کے بعد
اپنے چھوٹے فرزند حضرت عبداللہ کی شہادت پر
اپنے چھوٹے فرزند حضرت عبداللہ کی شہادت پر
اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت عبداللہ کی شہادت پر
حضرت قاسم کی شہادت پر
حضرت قاسم کی شہادت کے وقت
حضرت عبداللہ بن حسن کی شہادت پر
جب آپ کی پیشانی پر تیر آکر لگا
جب آپ کی طرف تیر اندازی کی گئی
جب آپ کی طرف تیر اندازی کی گئی
جب گھوڑے سے دائیں سمت گرے
روزِ عاشور کے آخری وقت
اپنی شہادت سے قبل مناجات
مدینہ سے روانگی سے قبل
روایت ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام ایک رات میں گھر سے نکلے اور اپنے جد کی قبر اور مزار کی طرف چل دئیے۔ وہاں پر چند رکعت نماز بجا لائے۔ پھر یوں گویاہوئے:
"پروردگارا! یہ تیرے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر ہے۔ میں ان کی بیٹی کا لخت جگر ہوں۔ ایک مشکل درپیش ہے جسے تو جانتا ہے۔ بارِ الٰہا!میں ہر اچھے کام کو پسند کرتا ہوں اور بُرے کاموں سے نفرت کرتا ہوں۔ اے صاحب جلال و اکرام! تجھ سے اس قبر اطہر کے صدقہ میں اور جو اس میں محو خواب ہیں، سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اور جس جس پر تو راضی اور خوش ہے، میرے لئے وہی قرار دے۔(بحار ۴۴:۳۲۸)
مکہ پہنچنے پر آپ کی دعا
روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نکلے ، یہاں تک کہ مکہ پہنچے۔ جب دور سے مکہ کے پہاڑوں پر نظر پڑی تو اس آیہ مجیدہ کی تلاوت فرمائی:
"جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین آئے تو کہا :شاید میرا پروردگار مجھے راہِ راست کی ہدایت فرمائے"۔
پھر جب مکہ پہنچے تو فرمایا:
"پروردگارا! میرے لئے خیروبرکت قرار دے اور میری راہِ راست کی طرف رہنمائی فرما"۔(طریحی در منتخب: ۴۲۲)
جب قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی خبر پہنچی
روایت ہے کہ جب قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ روئے اور فرمایا:
"بارِ الٰہا!ہمارے اور ہمارے شیعوں کیلئے اپنے نزدیک جگہ مقدر فرما اور ہمیں اور ہمارے شیعوں کو اپنی رحمت کی جگہ پر جمع فرما"۔
ایک روایت میں ہے:
بارِ الٰہا! ہمارے اورہمارے شیعوں کیلئے جنت کو بہترین مکان قرار دے۔ بے شک تو ہر کام پر قادر ہے۔(لہوف: ۴۴ ،مثیر الاحزان: ۴۴ ،بحار ۴۴:۳۷۴)
کربلا میں داخل ہونے سے پہلے
خداوندا! ہم تیرے پیغمبر حضرت محمد کا خاندان ہیں۔ ہمیں اپنے جد کے حرم سے نکالا گیا
ہے اور چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بنو اُمیہ نے ہم پر ظلم کیااور تجاوز کیا۔ بارِ الٰہا! ہمارا بدلہ، ہمارا انتقام ان سے لے لے اور قومِ ظالمین کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔(بحار ۴۴:۳۸۲)
کربلا میں داخل ہوتے وقت
بارِ الٰہا! میں کرب و بلا سے تجھ سے پناہ کا طلب گار ہوں۔(لہوف: ۳۵)
جب دشمن کے لشکر کی تعداد زیادہ ہوگئی
روایت ہے کہ جب سید الشہداء علیہ السلام کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا یا اضافہ ہونا شروع ہوا تو امام علیہ السلام کو یقین ہوگیا کہ اب کوئی راہِ نجات نہیں ہے تو فرمایا:
"پروردگارا!ہمارے اور اس گروہ کے درمیان جنہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں، لیکن اب ہمارے قتل کے ارادے کرچکے ہیں، تو ہی فیصلہ فرما"۔ (مروج الذہب ۳:۷۰)
شب عاشورا کو آنحضرت کی دعا
بارِ الٰہا! بہت اچھے انداز میں حمدوثناءِ الٰہی کرنے والا ہوں اور مشکل اور آسانی میں تیرا ثنا گو ہوں۔ بارِ الٰہا! تیری حمدوثنا کرتا ہوں کہ تو نے نبوت سے ہمیں عزت بخشی اور ہمیں قرآن کی تعلیم دی۔ ہمیں دین میں فصاحت نصیب فرمائی اور ہمارے لئے کان، آنکھیں اور دل بنایا۔ پس ہمیں توفیق عطا فرما کہ تیری نعمتوں پر شکر گزار ہوں۔(اعلام الوری: ۲۳۸)
عاشورا کے دن آپ کی دعا
امامِ سجاد علیہ السلام سے روایت ہے جو فرما رہے تھے کہ جب عاشورا کے دن دشمنوں کے لشکر امام حسین علیہ السلام کے قتل کرنے پر جمع ہوگئے تو سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا:
"پروردگارا! ہر سختی میں تو ہی میری پناہ ہے اور ہر مصیبت میں میری اُمیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں۔ ہر آنے والی مشکل گھڑی میں تو ہی میرا موردِ وثوق اور سرمایہ ہے۔کتنی ایسی سختیاں ہیں جو دلوں کو لرزادیتی ہیں ۔ تمام کوششیں اور طریقے بے فائدہ ہوجاتے ہیں، جہاں پر دوست بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جب دشمن جری ہو کر کھلی دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ میں ایسے کاموں کو تیرے حضور میں پیش کرتاہوں اور تیری بارگاہ میں ہی شکایت کرتاہوں کیونکہ میری اُمیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں۔ پس تو نے ہی میرے کاموں کے انجام پانے کیلئے کوئی راہ مقرر فرمائی اور میری مشکلات کو حل فرمایا؛ پس تو ہی ہر نعمت کے دینے والا اور ہر ایک اچھائی اور نیکی کا مالک ہے۔ ہر ایک کیلئے تو ہی آخری اُمید ہے۔(بحار ۴۵:۴ ،مستدرک الوسائل ۱۱:۱۱۲)
عاشور کے دن اپنے لشکر کی صف بندی کرنے سے پہلے دعا
روایت ہے کہ جب عمر بن سعد نے اپنے لشکر کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے آمادہ کرلیا اور اس کی صف بندی کرلی تو امام حسین علیہ السلام ان کی طرف آئے اور تھوڑی دیر کیلئے خاموشی اختیار کرنے کو کہا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار نہ کی۔سیدالشہداء علیہ السلام نے اسی دوران میں اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
"پروردگارا! ان پر بارانِ رحمت کا نزول نہ فرما۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح قحط نازل فرما۔ ثقفی خاندان کے جوان کو ان پر مسلط فرما تاکہ وہ ان پر بہت زیادہ سختی روا رکھے اور ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکے۔ مگر وہ لوگ جنہیں کسی صورت میں قتل کرنا ہے یا موردِ ضرب و شتم واقع ہونا ہے۔ میرا، میرے دوستوں اور عزیزواقارب اور مددگاروں کا انتقام ان سے لے۔ بے شک اس جماعت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ، ہمیں جھٹلایا ہے اور ذلیل و خوار کرنے کی کوشش کی ہے۔تو ہی ہمارا پروردگار ہے۔ تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی بارگاہ میں آہ و بکا کرتے ہیں۔ہم سب کی بازگشت تیری ہی طرف ہے۔(بحار ۴۵:۱۰)
عاشورا کے دن آپ کی دعا
پروردگارا! مجھے اپنے حق سے محروم کیا ہے، پس اس کو مجھے عطا فرما۔بارِ الٰہا!تحقیق میں نے ان کو غضبناک کیا ہے ، انہوں نے مجھے غضبناک کیا ہے۔ میں نے انہیں پریشان کیا ہے، انہوں نے مجھے رنجیدہ کیا ہے۔ انہوں نے مجھے ایسا رویہ اور اخلاق اپنانے پر مجبور کیا ہے جو میرے شایانِ شان نہیں ہے۔
پروردگارا! میرے لئے ان سے بہترگروہ اور جماعت کو مقدر فرما۔ میرے علاوہ کوئی بہت بُرا انسان ان پر مسلط فرما۔ پروردگار! جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے، ان کے دلوں میں ایسے ہی ایمان گھول دے۔(مستدرک ۴:۳۹۲)
حضرت علی اکبرعلیہ السلام کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت دعا
روایت ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت علی اکبرعلیہ السلام کو قومِ اشقیاء کے مقابل روانہ کیا تو امام علیہ السلام سر جھکائے گریہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"پروردگارا! تو ان پر گواہ رہنا، اب ایسے جوان کو ان کی جانب روانہ کر رہا ہوں جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ تیرے رسول کے مشابہ ہے"۔(مقاتل الطالبین: ۸۵)
حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ کی دعا
پروردگارا! زمینی برکتوں کو ان سے روک لے اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ فرما۔ ان کی صفوں کو پراگندہ فرما۔ ان کیلئے مختلف راہیں قرار دے۔حکمرانوں کو ان سے راضی نہ فرما۔ انہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں لیکن وہ ہم پر حملہ آور ہوئے اور ہمارے قتل کے درپے ہوئے۔(بحار ۴۵:۴۲)
حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ کی دعا
اے اللہ! اس قوم کو قتل کرجس نے تجھے قتل کیا ہے۔(لہوف: ۴۹)
حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا
پروردگار! اگر آسمان سے ہماری مدد کو روک رکھا ہے تو اس چیز کو ہمارے لئے اُس سے بہتر قرار دے اور اس قومِ ستم گار سے انتقا م لے۔(اعلام الوری: ۲۴۷)
حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا
روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام خیموں کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ معصوم پیاس کی شدت سے گریہ کناں ہے۔
اس کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور فرمایا:"اے قوم! اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے تو کم از کم اس بچے پر رحم کرو"۔ اتنے میں لشکر میں سے ایک آدمی نے ایسا ظلم کا تیر پھینکا کہ حضرت علی اصغر ذبح ہو گئے۔ امام حسین علیہ السلام دیکھ کر روئے اور فرمایا:
"پروردگارا! میرے اور اس قومِ اشقیاء کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہماری مدد کریں لیکن ہمارے قتل کے درپے ہیں"۔
اتنے میں ہاتف غیبی سے آواز آئی: "اے حسین ! اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ جنت میں اس کو دودھ پلانے والی موجود ہے۔(تذکرة الخواص: ۲۵۲)
حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا
روایت ہے کہ جب تیر حضرت علی اصغر کے گلے میں پیوست ہوا تو امام علیہ السلام روئے اور اپنے دونوں ہاتھ جنابِ علی اصغر کے گلے کے نیچے رکھ دئیے اور فرمایا:
"اے نفس! صبر سے کام لو اور وارد شدہ مصائب کو خدا کا امتحان شمار کرو"۔بارِ الٰہا! حالِ حاضر میں جو کچھ ہم پر مصائب آئے، تو خود شاہد ہے۔ پس ان کو قیامت کے دن کیلئے ہمارا توشہ اور مددگار قرار دینا۔(معالی السبطین ۱:۴۲۳)
شہزادہ قاسم بن حسن مجتبیٰ علیہم السلام کی شہادت کے بعد دعا
پروردگارا!تو جانتا ہے کہ ان لوگوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد حاصل کریں لیکن ہمیں ذلیل و خوار کرکے ہمارے دشمنوں کے مددگار بنے بیٹھے ہیں۔ خداوندا! بارانِ رحمت کے نزول سے انہیں محروم فرما اور بارش کی رحمتوں سے محروم فرما۔ ہر گز ان سے راضی نہ ہونا۔
بارِ الٰہا! اگر دنیا میں ہماری مدد کرنے سے گریز کیا ہے تو اس کو ہماری آخرت کیلئے ذخیرہ قرار دے اور اس گروہِ ستم گار سے ہمارا بدلہ اور انتقام لے۔(ینابیع المودة: ۳۴۵)
حضرت قاسم بن حسن مجتبیٰ علیہم السلام کی شہادت کے بعد دعا
خداوندا! ان تمام کو نابود فرما۔ ان کو منتشر اور پراگندہ فرما اور انہیں قتل فرما۔ ان میں کوئی بھی زندہ نہ رہے اور ان سے ہرگز درگزر نہ فرما۔(بحار ۴۵:۳۶)
عبداللہ بن حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہاد ت کے بعد دعا
پروردگارا! اگر انہیں ایک عرصہ تک زندہ رکھنا ہے تو انہیں پراگندہ فرما اور ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم فرما۔ ہرگز ان سے راضی نہ ہونا۔
ایک اور روایت میں یوں ہے:
بارِ الٰہا! بارانِ رحمت سے انہیں محروم فرما۔ ان سے زمین کی برکتیں روک دے۔ پروردگارا! اگر انہیں کچھ عرصہ تک زندہ رکھنا ہے تو ان کی صفوں کو اتحاد کی دولت سے محروم فرما۔ انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم فرما۔ کبھی بھی ان کے رہبروں کو ان سے راضی نہ فرما۔انہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں لیکن ہم پر حملہ آور بن کر ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔(اعلام الوری: ۲۴۹ ،بحار ۴۵:۵۳)
آنحضرت کی پیشانی پر تیر لگنے کے بعد دعا
روایت ہے کہ جب تیر امام حسین علیہ السلام کی پیشانی میں پیوست ہوا تو اس کو نکالتے ہوئے چونکہ خون پورے چہرے اور داڑھی پر جاری ہوگیا تو فرمانے لگے:
خداوندا! جو کچھ میں اس گناہ گار گروہ سے مصائب اٹھا رہا ہوں، تحقیق تو دیکھ رہا ہے۔ خداوندا! انہیں تباہ و برباد فرما اور پراگندہ صورت میں قتل فرما۔روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہے۔ انہیں ہرگز معاف نہ فرما۔(بحار ۴۵:۵۲)
امام کی دعا اُس وقت جب آپ کی طرف تیر اندازی کی گئی
روایت ہے کہ جب پیاس کی شدت میں اضافہ ہوا تو گھوڑے پر سوار ہوئے تاکہ دریائے فرات سے شریعہ پر پہنچیں۔ حضرت عباس علیہ السلام ان کے سامنے اور ان سے آگے آگے تھے۔عمر سعد کی فوجوں نے ان کا راستہ روکا۔ اتنے میں قبیلہ بنی دارم میں سے کسی آدمی نے امام حسین علیہ السلام کی طرف تیر چلادیا جو ان کے چہرے کے نچلے حصہ میں پیوست ہوگیا۔ امام علیہ السلام اپنا ہاتھ چہرے کے نیچے لائے، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ خون سے بھر گئے۔ سید الشہداء علیہ السلام خون پھینک کر یوں گویا ہوئے:
"خداوندا! جو کچھ تیرے نبی کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ کر رہے ہیں، تجھ سے شکایت کرتا ہوں"۔
ایک اور روایت میں آیا ہے:
جب امام حسین علیہ السلام پر پیاس کی شدت میں اضافہ ہوا تو آپ فرات کے کنارے آئے تاکہ پانی پی سکیں لیکن حصین بن نمیر نے امام علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا جو دہن اقدس میں پیوست ہوگیا۔
لہٰذا سیدالشہداء علیہ السلام کے منہ سے خون جاری ہوگیا۔ خون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف بلند کر دیا۔ پھر حمدوثنائے باری تعالیٰ کی اور فرمایا:
"خداوندا! جو کچھ تیرے نبی کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ کر رہے ہیں، تجھ سے شکایت کرتا ہوں۔ خداوندا! ایک دم ان کو نابود فرما اور انہیں پراگندہ صورت میں قتل فرما۔ ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ رکھ۔(لہوف: ۵۱ ،بحار ۴۵:۵۰)
چہرے اور منہ پر تیر لگنے کے بعد آنحضرت کی دعا
مسلم بن ریاح سے نقل ہے جو علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے موالیوں میں سے تھے، کہتے ہیں کہ روزِ عاشور میں مَیں امام علیہ السلام کی خدمت میں تھا۔ ایک تیر ان کے چہرے پر آکر لگاتو امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:"اے مسلم! اپنا ہاتھ میرے نزدیک کرو"۔ ہاتھ خون سے بھرا ہوا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ جیسے ہی وہ خون میرے ہاتھ پر ڈالنے لگے، انہوں نے خون کو آسمان کی طرف بلند کردیا اور فرمایا:
"خداوندا! اپنے نبی کی بیٹی کے فرزند کے خون کا مطالبہ کر"۔
مسلم کہتے ہیں کہ اس خون میں سے ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ آیا۔ (کفایۃ الطالب: ۴۳۱)
گھوڑے سے دائیں سمت گرنے کے بعد آپ نے فرمایا
"خدا کے نام ،اس کی یاد میں اور پیغمبر اسلام کی راہ میں"۔(لہوف: ۵۴)
عاشورا کے آخری لمحات میں آپ کی دعا
پروردگارا! تیری جگہ بلند، تو عظیم الشان قدرت والا، سخت قہر و غضب والا، مخلوقات سے بے نیاز، وسیع قدرت والا، جس پر چاہتا ہے قدرت رکھتا ہے۔ بہت نزدیک رحمت والا، سچے وعدے والا، زیادہ نعمتوں والا اور اچھی آزمائش والا ہے۔
جب پکارا جائے تو تو بہت نزدیک ہے۔ اپنی مخلوقات پر محیط ہے۔ جو تیری طرف آئے، تو اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اپنے ارادے پر قادر ہے۔ جسے چاہے پالیتا ہے۔ جب تیرا شکرادا کیا جائے تو شکر قبول کرتا ہے اور جب تجھے یاد کیا جائے تو یاد آتا ہے۔
تیری طرف نیاز مند ہوکر تجھے پکار رہا ہوں۔ایک فقیر اور خالی ہاتھ تیری طرف آیا ہوں۔ خوف اور ڈر سے تیری بارگاہ میں آ یا ہوں۔ دکھوں سے تیرے حضور میں گریہ کناں ہوں۔ ضعیف ناتوانی کی صورت میں تجھ سے مدد کا طلبگار ہوں۔ تجھے اپنے لئے کافی سمجھتے ہوئے توکل کرتا ہوں۔
پروردگارا! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرما۔ تحقیق انہوں نے ہمیں فریب دیا، دھوکہ دے کر ہمیں قتل کر رہے ہیں جبکہ ہم تیرے نبی کی بیٹی کی اولاد ہیں کہ جنہیں رسالت جیسے عظیم منصب کیلئے منتخب فرمایا ہے۔
انہیں اپنی وحی پر امین قرار دیا ہے۔ پروردگارا! ہمارے لئے کوئی راہ نکال دے، اے بہترین رحمت کرنے والے۔(اقبال الاعمال: ۶۹۰ ،بحار ۱۰۱:۳۴۸)
شہادت سے کچھ دیر قبل آپ کی دعا
روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام شہادت سے پہلے تھوڑی دیر تک زمین پر خون میں لت پت پڑے رہے۔ منہ آسمان کی طرف تھا اور فرمارہے تھے:
"خداوندا! قضا و قدر پر صبر کرتا ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اے فریاد گروں کی فریاد رسی کرنے والے!"(ینابیع المودة: ۳۴۸)