چوتھا باب
لوگوں کی مذمت اور تعریف میں
حضرت علی بن حسین علیہ السلام کیلئے
جناب زہیر بن قین کیلئے
جناب قیس بن مسہر صیداوی کی تعریف میں
ابو ثمامہ صائدی کیلئے
جنابِ جون ،غلام ابوذر کیلئے
یزید بن زیاد ابو شعثاء کیلئے
یزید بن مسعود نہشلی کیلئے
ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے
اپنے شیعوں کیلئے ایک خطبہ میں
اپنے شیعوں کیلئے ایک خط میں
اپنے شیعوں کیلئے ایک خط میں
روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے
عمر بن سعد پر
عمر بن سعد پر
شمر پر
قبیلہ کندہ کے ایک فرد پر
اپنے قاتلوں پر
زرعہ دارمی پر
عبداللہ ابن حصین ازدی پر
محمد ابن اشعث پر
ابن ابی جویریہ پر
ابن جوزہ تمیمی پر
تمیم ابن حصین پر
محمد بن اشعث پر
جبیرہ کلبی پر
مالک بن حوزہ پر
ابی سفیان پر
اپنے فرزند امام علی زین العابدین علیہ السلام کیلئے آپ کی دعا
خداوندمجھے بیٹے کی طرف سے جزاو خیر دے جو بہترین جزا ہر باپ سے بیٹے کو عطا کرتا ہے۔(لہوف: ۳۰)
حضرت زہیر بن قین کیلئے آپ کی دعا
اے بارِ الٰہا!اسے اپنی رحمت سے دور نہ کرنااور اس کے قاتلوں پر اسی طرح لعنت فرماجس طرح گذشتہ پر لعنت کی تو وہ بندر اور خنزیر کی صورتوں میں بدل گئے۔(ابصارالعین: ۹۹)
جناب قیس بن مسہر صیداوی کیلئے آنحضرت کی دعا
پروردگارا! ہمارے اور ان کیلئے جنت مقدر فرما۔ ہمیں اور ان کو اپنی رحمت اور ذخیرہ شدہ ثواب اور اپنی پسندیدہ جگہ پر جمع فرما۔(طبری در تاریخش ۷:۳۰۴)
ابوثمامہ صائدی کیلئے آپ کی دعا
بارِالٰہا!اسے ان نماز گزاروں سے قرار دے جو ہر وقت اُس کی یاد میں رہتے ہیں۔ (بحار ۴۵:۲۱)
حضرت جون غلام ابوذر کیلئے آنحضرت کی دعا
پروردگارا! اس کے چہرے کو سفیدی عطا فرما، اس کی روح کو پاکیزہ فرما، اس کو نیکوں کے ہمراہ محشور فرما، اس کے اور محمد وآلِ محمد کے درمیان شناخت قرار دے(بحار ۴۵:۲۳)
۴۶ ۔ یزید بن زیاد ابوشعثاء کے لئے آپ کی دعا
پروردگارا! اس کی تیر اندازی کودقیق قرار دے اور اس کیلئے بہشت کو ثواب کے طور پر قرار دے۔(بحار ۴۵:۳۰)
یزید بن مسعود النہشلی کیلئے امام کی دعا
امام علیہ السلام نے بعض اشرافِ بصرہ کو خط لکھا اور انہیں اپنی مدد کرنے کی دعوت اور
اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ ان لوگوں میں سے یزید بن مسعود نہشلی بھی تھا۔ اس نے اس حوالہ سے امام علیہ السلام کی خدمت میں خط تحریر کیا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے اس کا خط پڑھا تو فرمایا:
"قیامت کے دن خدا تجھے اپنی امان میں رکھے اور تجھے عزت بخشے۔ تجھے پیاس والے دن سیراب کرے"۔
ابھی وہ خود کو تیار کرکے امام علیہ السلام کی طرف نکلنے ہی والا تھا کہ امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر اُس کو مل گئی۔(لہوف: ۳۸ ،بحار ۴۴:۳۳۹ ،عوالم ۱۷:۱۸۸)
ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے آپ کی دعا
تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔ خداوند تجھ کو قطع نہ کرے اور تیرے نبی کے اہلِ بیتؑؑ کی طرف سے اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے۔(ابن اثیر در کامل ۲:۵۶۹)
اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا
اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابل میں ہماری اور آپ کی مدد فرمائے۔ اس کے عتاب سے ہمیں اور آپ کو نجات عطافرمائے بلکہ ہمارے اور آپ کیلئے بہت زیادہ اجروثواب لازم قرار دے۔(تحف العقول: ۱۷۰ ،بحار ۷۸:۱۲۰)
اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا
اللہ ہمیں اورآپ کو ہدایت پر جمع فرمائے اور ہمیں اور آپ کو خود سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔(فتوح ۵:۳۵ ،مقتل الحسین ۱:۱۹۵)
اپنے خطوط میں سے ایک خط میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا
ہمارے لئے اور آپ کیلئے خدا بہترین چیز مقدر فرمائے اور اس پر بہترین انداز میں اجر عطا فرمائے۔(اخبار الطوال: ۲۴۵)
روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے
روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام قیامت کے دن اپنی مادرِ گرامی سلام اللہ علیہا کے پاس کچھ اس انداز میں آئیں گے کہ ان کی رگوں سے خون جاری ہوگا۔ آکر فرمائیں گے:
"پروردگارا! آج کے دن مجھ پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لے"۔ (فرات بن ابراہیم: ۱۷۲)
عمر بن سعد کی مذمت میں
اللہ تعالیٰ بہت جلد تیرے بستر پر ہی تیرے بدن سے سر کو جدا کرنے والے کو مسلط کرے اور قیامت میں تجھے اپنی بخشش سے محروم رکھے اور روزِ قیامت تو ہرگز نہ بخشا جائے۔(بحار ۴۴:۳۸۹)
عمر بن سعد کی مذمت میں
خدائے بزرگ و برتر تیری نسل کو، تیرے سلسلہ رحم کو ایسے ہی منقطع کرے جس طرح تو نے میری نسل منقطع کی ہے اور پیغمبر اسلامﷺ سے میری قرابت اور رشتہ داری کی بھی پروا نہیں کی۔خدا تجھ پر کسی ایسے کو مسلط کرے جو سوتے میں ہی تیرے بدن سے سر جدا کردے۔(بحار ۴۵:۴۳ ،کامل ابن اثیر ۳:۲۹۳)
شمر کی مذمت میں
روایت ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے نیزے کے ساتھ خیامِ حسینی پر حملہ کیا۔پھر بولا کہ آگ لے آؤ تاکہ حسین علیہ السلام سمیت سب کو ان خیام میں ہی جلا دیں۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:"اے ذی الجوشن کے بیٹے! تو میرے خاندان والوں کو جلانے کیلئے آگ چاہتا ہے، خداوند تجھے (جیتے جی) آگ میں جلائے"۔ (لہوف: ۵۳)
قبیلہ کندہ کے ایک آدمی کی مذمت میں
روایت ہے کہ جب خولی بن یزید کا چلایا ہوا تیر امام علیہ السلام کے بدن میں پیوست ہوا تو امام حسین علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ پھر وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے تیر کو اپنے بدن سے نکالتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی داڑھی اور سرخون سے رنگین ہوگئے۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: "میں خدا اور اُس کے پیغمبر کے ساتھ اسی حالت میں ملاقات کروں گا"۔ پھر بیہوش ہوکرزمین پرگر گئے۔پھر جب ذرا طبیعت سنبھلی تو اٹھنا چاہتے تھے لیکن نہ اٹھ سکے۔ اتنے میں قبیلہ کندہ کے ایک ملعون شخص نے امام علیہ السلام کے سرِ اقدس پر کسی چیز سے وار کیاجس سے آپ کا عمامہ زمین پر گر گیا۔ امام علیہ السلام نے اس کے بارے میں یوں بدعا کی:
"تو اپنے دائیں ہاتھ سے نہ کھا سکے اور نہ پی سکے ۔ اللہ تعالیٰ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے"۔
ابو مخنف کہتے ہیں کہ جب قبیلہ کندہ کا یہ ملعون سید الشہداء علیہ السلام کا عمامہ اٹھا کر گھر لے گیا تو اس کی بیوی نے کہا:"وائے ہو تجھ پر! امام حسین علیہ السلام کو قتل کرکے ان کا عمامہ لے آیا ہے۔ خدا کی قسم! اس کے بعد میں تیرے ساتھ زندگی نہیں گزاروں گی"۔
اُس ملعون نے اپنی بیوی کو مارنے کے ارادے سے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ کسی میخ نما چیز سے ہاتھ ٹکرا کر کٹ گیا اور وہ ہمیشہ کیلئے فقیر اور محتاج ہوگیا۔(ینابیع المودة: ۳۴۸)
اپنے قاتلوں میں سے کسی کی مذمت میں
ابی عینیہ سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں میں سے دو آدمیوں کو دیکھا، یہاں تک کہ ان دو آدمیوں میں سے ایک مسلسل پانی کے پیچھے ہے۔ تمام پانی پینے کے باوجود بھی سیر نہیں ہوتا تھا کیونکہ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کو دیکھا تھا جو اپنامنہ پانی کے نزدیک کرکے اس سے پینا چاہتے ہیں۔ اس ظالم نے امام علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا ۔ امام علیہ السلام نے اس کے بارے میں یوں فرمایا:
"اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت میں سیراب نہ فرمائے"۔
وہ آدمی پیاس بجھانے کیلئے دریائے فرات میں کود گیا۔ اتنا پانی پیا کہ اسی تشنگی کی حالت میں موت واقع ہوگئی۔(پانی پی پی کر مر گیا)۔(کفایة الطالب: ۴۳۵)
زرعہ دارمی کی مذمت میں
روایت ہے کہ بنی ابان بن دارم کا زرعہ نامی شخص بھی سید الشہداء علیہ السلام کے قاتلوں میں سے تھا۔ اس نے تیر چلایا جو ابی عبداللہ کے منہ کے نیچے پیوست ہوگیا۔ پھر امام علیہ السلام نے جاری خون کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا۔ اس ملعون کو پتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام پینے کیلئے پانی مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا اُس نے اسی وقت تیر پھینک کر امام حسین علیہ السلام اور پانی کے درمیان فاصلہ ڈال دیا۔امام علیہ السلام نے فرمایا:
"بارِالٰہا! اس کو پیاسا رکھ۔ بارِ الٰہا! اس کو پیاسا رکھ"۔
کہتے ہیں کہ کسی عینی شاہد نے نقل کیا ہے کہ مرتے وقت وہ پیٹ کی گرمی اور پشت میں ٹھنڈک کی وجہ سے چیخیں مار رہا تھا۔ اس کی پشت کی طرف آگ اور اس کے سامنے برف اور ٹھنڈک قرار دی گئی تھی۔ پھر بھی کہہ رہا تھا کہ مجھے پانی پلاؤ، مجھے پیاس نے ہلاک کر دیا ہے۔(کفایة الطالب: ۴۳۴ ،ذخائر العقبی: ۱۴۴)
عبداللہ بن حصین ازدی کی مذمت میں
روایت ہے کہ عبداللہ بن حصین ازدی نے عاشور کے دن بآوازِ بلند کہا تھا:
"اے حسین ! دیکھتے نہیں ہو کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی آسمان سے باتیں کر رہا ہے لیکن خدا کی قسم! آپ مرتے دم تک اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکیں گے"۔
امام علیہ السلام نے یوں جواب میں فرمایا:"پروردگار! اس کو پیاسا ہی موت آئے اور ہرگز اس کے گناہوں سے درگزر نہ فرما"۔
اس کے بارے میں بھی معروف ہے کہ پانی پیتے پیتے اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا، یہاں تکہ کہ سیر ہوتے ہوتے ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔(روضۃ الواعظین: ۱۸۲)
محمد بن اشعث کی مذمت میں
روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ اے حسین ! تھوڑی دیر بعد آتش جہنم میں اترنے کی مبارکباد ہو، خوشخبری ہو۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :"میں خود کو پروردگارِ رحیم، شفاعت کرنے والے اور اطاعت کئے جانے والے کی بشارت دیتا ہوں۔ تو کون ہے؟"اُس شخص نے کہا کہ میں محمد بن اشعث ہوں۔
پھر امام حسین علیہ السلام نے یوں فرمایا:" اے پروردگار! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے تو اس کو جہنم کی آگ میں ڈال۔ آج اس کو اپنے دوستوں کیلئے نشانِ عبرت قرار دے"۔
کچھ ہی دیربعد اس کے ہاتھوں سے گھوڑے کی لگام چھوٹی تو وہ زمین پر گر گیا۔(مثیر الاحزان: ۶۴)
ابن ابی جویریہ مزنی کی مذمت میں
روایت ہے کہ عاشور کے دن سید الشہداء علیہ السلام نے خیامِ حسینی کے اطراف میں خندق کھودنے کا حکم دیا۔ لہٰذا لشکر کے اطراف میں خندق نما گڑھا کھودا گیا۔ پھر حکمِ امام کے تحت اسے لکڑیوں سے بھر دیا گیا۔ پھر آپ کی فرمائش کے مطابق آگ لگا دی گئی تاکہ امام حسین علیہ السلام قومِ اشقیاء سے ایک جانب سے جنگ کریں۔
روایت ہے کہ محمد بن سعد کے لشکر سے ایک آدمی بنام ابن ابی جویریہ مزنی آگے بڑھا اور جیسے شعلے اگلتی آگ پر نظر پڑی تو ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا:"اے حسین اور اصحابِ حسین ! آگ کی بشارت دیتا ہوں۔ دنیا میں آگ کی طرف کس قدر جلدی کی ہے!"
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:"بارِ الٰہا! دنیا میں ہی اس کو عذابِ جہنم کا مزہ چکھا"۔اسی وقت اس کا گھوڑا کودا اور اس کو اسی آگ میں پھینک دیا جس سے وہ جل گیا۔(امالی: ۱۳۴)
ابن جوزہ تمیمی کے بارے میں
روایت ہے کہ جب آگ پورے گڑھے میں پھیل گئی تو ابن جوزہ نے امام علیہ السلام کو یوں مخاطب کیا:"اے حسین ! آخرت سے پہلے ہی دنیا میں آگ کی بشارت ہو"۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:"پروردگار! اگر تیرا یہ بندہ کافر ہے تو اسے آگ میں ڈال"۔
ایک اور روایت میں یوں ذکر ہے:
"خداوندا! اس کو آتش جہنم میں ڈال اور مرنے سے پہلے دنیا میں ہی اس کو آگ میں جلا"۔
تھوڑی دیر بعد وہ گھوڑے سے آگ میں گرا اور جل گیا۔(بحار ۴۵:۱۳)
تمیم بن حصین فزاری کی مذمت میں
روایت ہے کہ عمر بن سعد کے لشکر سے ایک آدمی جسے تمیم بن فزاری کہاجاتا تھا، آگے آیا اور کہنے لگا:"اے حسین اور اصحابِ حسین ! کیا فرات کے پانی کی طرف نہیں دیکھتے گویا مچھلیوں کے پیٹوں سے بھی نظر آرہا ہے ۔ خدا کی قسم! مرتے دم تک اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے"۔امام نے فرمایا:"یہ اور اس کا باپ جہنمی ہیں۔
بارِ الٰہا! آج ہی اس کو شدتِ پیاس سے موت دے"۔
اسی وقت شدتِ پیاس سے گھوڑے پر نہ سنبھل سکا اور زمین پر گر گیا۔(امالی: ۱۳۴)
محمد بن اشعث کی مذمت میں
روایت ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرما رہے تھے:
اے اللہ! ہم تیرے نبی کے اہلِ بیتؑ اور ان کی اولاد اور قرابت دار (رشتہ دار) ہیں۔ ہم پر ظلم کرنے والوں اور ہمارا حق غصب کرنے والوں سے ہمارا انتقام لے۔ بے شک تو سننے والا سب سے قریب ہے"۔
محمد بن اشعث بولا: "آپ کے اور حضرت محمد کے درمیان کیا رشتہ داری ہے؟"امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:
"پروردگار!آج ہی اس کی ذلت و خواری مجھے دکھا"۔
ایک اور روایت میں آیا ہے:
"پروردگار!آج محمد بن اشعث کو اس طرح ذلیل و رسوا کر کہ کبھی عزت دار نہ بن سکے"۔
محمد بن اشعث رفع حاجت کیلئے گیا کہ ایک بچھو نے آلہ تناسل پر ڈس لیا۔ وہ اس قدر چیخا اور اپنے ہی فضلہ پر لوٹنے لگا۔(بحار ۴۵:۳۰۲)
جبیرہ کلبی کی مذمت میں
روایت ہے کہ جب امام علیہ السلام نے خندق تیار کروالی اور اُسے آگ سے بھر دیا تو ایک ملعون جس کا نام جبیرہ کلبی تھا، نے امام سے کہا:
"اے حسین ! روزِ قیامت کی آگ سے قبل دنیا ہی کی آگ میں مبتلا ہوگئے ہیں"۔
امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آگ سے میرا مذاق اڑاتا ہے حالانکہ میرے والد آتش جہنم کے تقسیم کنندہ ہیں اور میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"بارِ الٰہا: اسے آتش جہنم سے قبل دنیا کی آگ میں فنا فرما"۔
ابھی امام کی دعاختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کے گھوڑے نے حرکت کی اور اسے اس آگ کے درمیان پٹخ دیا اور جل کر خاکستر ہوگیا۔ امام نے تکبیر بلند کی اور ایک منادی نے آسمان سے آواز دی کہ فرزند پیغمبر آپ کی دعا بارگاہِ احدیت میں فوراً قبول ہوتی ہے۔ (ینابیع المودة: ۴۱۰)
مالک بن جوزہ کی مذمت میں
روایت ہے کہ عمر بن سعد کے لشکر میں سے ایک شخص جس کا نام مالک بن جوزہ تھا،
اس حال میں کہ گھوڑے پر سوار تھا، امام کے لشکر کی طرف آیا اور خندق کے کنارے کھڑے ہوکر کہنے لگا:"اے حسین ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ آتش جہنم سے قبل ہی آتش دنیا میں جلائے جائیں گے"۔
امام نے فرمایا:"اے دشمنِ خدا! میں اپنے پروردگار ،مہربان اور اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی جانب جارہا ہوں جو سب کیلئے شفاعت کرنے والے ہیں"۔ اور فرمایا:
"بارِ الٰہا:اسے آگ میں داخل فرما اور آتش جہنم سے قبل اسے آگ میں جلا"۔
راوی کہتا ہے کہ اچانک اس کے گھوڑے نے حرکت کی اور اسے آگ میں گرادیا جس میں وہ جل کر خاکستر ہوگیا۔
راوی کہتا ہے کہ امام نے اپنے چہرے کو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھا اور فرمایا کہ میری دعا کتنی جلد قبول ہوگئی۔
راوی کہتا ہے کہ اسی حالت میں امام نے آواز بلند کی اور فرمایا:
"بارِالٰہا! میں تیرے نبی کی اہلِ بیتؑ ، ذریت اور قرابت دار ہوں۔ جو ہم پر ظلم روا رکھے اور ہمارا حق غصب کرے، بے شک تو سننے والا اور قبول کرنے والا ہے"۔ (فتوح ۵:۱۰۸)
ابی سفیان کی مذمت میں
روایت ہے کہ جب عثمان کی بیعت ہوچکی تو ابوسفیان نے امام حسین علیہ السلام کاہاتھ پکڑا اور کہا:اے میرے بھائی کے بیٹے! میرے ساتھ قبرستان جنت البقیع تک چلو۔ وہ چلے، یہاں تک کہ جب وہ جنت البقیع کے درمیان پہنچے تو سید الشہداء علیہ السلام کے سامنے جرات کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا:"اے اہل قبور! جس چیز کے متعلق(خلافت) ہم سے جنگ کرتے تھے، آج وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے جبکہ تم بوسیدہ ہوچکے ہو"۔
یہاں پر سید الشہداء علیہ السلام نے فرمایا: "خداوندتیرے بالوں کو سفید اور تباہ کرے اور تیرے چہرے کو قبیح کرے"۔
پھر سید الشہداء علیہ السلام نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اس سے علیحدہ ہوگئے۔(احتجاج طبرسی ۱:۲۷۵)