صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام42%

صحیفہ امام حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

صحیفہ امام حسین علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9984 / ڈاؤنلوڈ: 4032
سائز سائز سائز

فصل سوم( ۱)

آنحضرت کے اقوال

تقویٰ کی فضیلت میں

عبادت میں لوگوں کی اقسام کے بارے میں

اپنی معرفت کے بارے میں

امام کی معرفت کے بارے میں

امام کی معرفت میں

اپنی ہم نشینی کی ترغیب کیلئے

سیکھنے کے بارے میں

جہاد کی اقسام کے بارے میں

بڑائی اور بے نیازی کے بارے میں

بخشش کے بارے میں

سلام کرنے کے بارے میں

سلام کرنے کے بارے میں

معافی کے بارے میں

نیک کام میں اچھے اور بُرے کے ساتھ شامل ہونا

عملِ خیر کی ترغیب کے بارے میں

اطاعت ، قدرت کے مطابق

قبولیت کی نشانیوں کے بارے میں

صبر کے بارے میں

عقلِ کامل کے بارے میں

بھائیوں کی اقسام کے بارے میں

تقویٰ کی فضیلت میں آپ کا فرمان

اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے کہ جو وہ ناپسند کرتا ہے، اُس کو پسندیدہ چیز کے ساتھ بدل دے اور اُسے وہاں سے رزق دے جہاں کا گمان بھی

نہ ہو۔(تحف العقول: ۲۴۰ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۱)

عبادت میں لوگوں کی اقسام کے بارے میں

ایک قوم رغبت سے اللہ کی عبادت کرتی ہے، یہ تاجرانہ عبادت ہے۔ ایک قوم ڈر کر عبادت کرتی ہے، یہ غلامانہ عبادت ہے۔ ایک قوم اللہ کی عبادت شکر کیلئے کرتی ہے، یہ آزادوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے۔ (تحف العقول: ۲۴۶ ،بحارالانوار ۷۸:۱۱۷)

اپنی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان

ہم اہلِ بیت نبوت ہیں، رسالت کے کان ہیں اور ملائکہ کے آنے جانے کی جگہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے آغاز کیا اور ہم پر ہی اختتام ہو گا۔(کامل ابن اثیر ۳:۲۶۲)

امام کی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے پاس گئے اور فرمایا:

اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت کیلئے خلق کیا۔ جب پہچانا توعبادت کی۔ اس کی عبادت نے ماسوا اللہ کی عبادت سے بے نیاز کیا۔

ایک شخص نے سوال کیا: معرفت خدا کیا ہے؟امام علیہ السلام نے فرمایا:

ہر زمانے کے لوگوں کو وقت کے امام کی معرفت ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اطاعت ان پر

واجب ہے۔(نزہۃ الناظر: ۸۰ ، علل الشرایع: ۹ ،کنزالفوائد: ۱:۱۵۱ ،بحار ۵:۲۱۲)

امام کی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان

امام کیا ہے؟ کتاب اللہ پر عامل ہو، عدل و انصاف اُس کا پیشہ ہو، حق کا پیروکار ہو۔ اپنے آپ کو اللہ کے فرامین کیلئے وقف کرے۔(تاریخ طبری ۷:۲۳۵)

اپنی ہم نشینی کی ترغیب کیلئے آپ کا فرمان

جو ہمارے پاس آئے، وہ چار خصلتوں میں سے ایک خصلت سے خالی نہ ہوگا:محکم آیت، عادلانہ حکم، مفید دوستی اور علماء کی صحبت۔(کشف الغمہ ۲:۳۲)

سیکھنے کے بارے میں آپ کا فرمان

علم کی تدریس معرفت کی آبیاری ہے۔ طویل تجربہ سے عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔ شرافت تقویٰ میں ہے۔ قناعت جسم کیلئے راحت کا سبب ہے۔(نزہۃ الناظر: ۸۸)

جہاد کی اقسام کے بارے میں آپ کا فرمان

جہاد کی چار اقسام ہیں۔ دو جہاد فرض ہیں، ایک جہاد سنت ہے جو واجب سے پیوستہ ہے اور ایک جہاد مستحب ہے۔

دو واجب میں ایک جہادِ نفس ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے خلاف،یہ سب سے عظیم جہا دہے،نیز جہادجو کفار کے مقابلہ میں ہو، فرض ہے۔

وہ جہاد جو مستحب ہے مگر فرض کے ساتھ پیوستہ ہے، دشمن کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ یہ پوری اُمت پر فرض ہے۔ اگر جہاد ترک کریں تو عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہ عذاب اُمت کی وجہ سے ہے۔ یہ جہاد صرف امام پر مستحب ہے کہ وہ اُمت کے ساتھ دشمن کے مقابل آکر ان سے جہاد کرے۔

وہ جہاد جو مستحب ہے، ہر سنت کا احیاء وزندہ کرنا ہے۔ اس کے قیام کیلئے کوشش کرنا ہے۔ عمل اور کوشش اس راہ میں افضل اعمال ہیں کیونکہ اس سے سنت زندہ ہوتی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کسی نیک عمل کی بنیاد رکھے، اس کو ثواب ہے اور جو اس پر عمل کرتا ہے، قیامت تک اس کے ثواب کے برابراجر ملتا ہے اور عامل کے اجر میں کمی نہیں ہوتی۔(تحف العقول: ۲۴۳)

بڑائی اور بے نیازی کے بارے میں

رشتہ داروں پر احسان اور ان کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا، خواہشات کی قلت ،جو اپنی ذات کیلئے کافی ہے ، اُس پر خوش رہنا بڑائی اور بے نیازی ہے۔(بحارالانوار ۷۸:۱۰۲)

بخشش کے بارے میں آپ کا فرمان

جو تیرا عطیہ قبول کرے، اُس نے تیری بخشش میں تیری مدد کی۔(بحارالانوار ۷۸:۱۲۷)

سلام کرنے کے بارے میں آپ کافرمان

سلام کرنے سے پہلے کسی کو گفتگوکی اجازت مت دو۔(تحف العقول: ۲۴۶)

سلام کرنے کے بارے میں آپ کافرمان

سلام کیلئے ستر( ۷۰) نیکیاں ہیں۔ انہتر( ۶۹) سلام کرنے والے کو اور ایک نیکی جواب دینے والے کو ملتی ہے۔(تحف العقول: ۲۴۸ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۰)

معافی کے بارے میں آپ کا فرمان

بہترین معافی انتقام کی طاقت رکھتے ہوئے معاف کرنا ہے۔(نزہۃ الناظر: ۸۱)

نیک کام میں اچھے اور بُرے کے ساتھ شامل ہونے کے بارے میں

آپ کی خدمت میں ایک شخص نے کہا: نیکی نا اہل سے کی جائے تو ضائع ہوجاتی ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

"ایسا نہیں۔ نیکی کی مثال موسلہ دھار بارش کی سی ہے جو نیک و بد دونوں پر برستی ہے"۔تحف العقول: ۲۴۵)

عملِ خیر کی ترغیب کے بارے میں آپ کا فرمان

اُس شخص کی طرح عمل کرو جویہ جانتا ہو کہ گناہ پر مواخذہ کیا جائے گا تو اس کو نیک کام کے برابر جزا ملے گی۔(کنزالفوائد ۲:۳۲ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۷)

اطاعت، قدرت کے مطابق ہے

خدا نے کسی کی طاقت کم نہیں کی مگر اس سے اطاعت کو کم کیا اور جس کی قدرت کم کی تو اُس کی تکلیف کو اُس سے اٹھا لیا۔(تحف العقول: ۲۲۴۶)

قبولیت کی نشانیوں کے بارے میں آپ کا فرمان

قبولیت کی نشانیاں یہ ہیں کہ عقل مندوں کی ہم نشینی اختیار کرے۔ جہالت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ غیر کافروں سے مناظرہ و جھگڑا کرے۔ انسان کے عالم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے قول کا پاس رکھے اور صحیح راستوں(حقائق) پر غور کرے۔(تحف العقول: ۲۴۷)

صبر کے بارے میں آپ کا فرمان

اس چیز پر صبر کر جو تجھے پسند نہیں،جن موارد پر تیرا حق رکھا گیا ہے اور صبر کر ان پر جسے تو پسند کرتا ہے اور جس طرف تیری خواہشات تجھے بلائیں۔(مقصد الراغب: ۱۳۷)

عقلِ کامل کے بارے میں آپ کا فرمان

عقل کامل نہیں ہوتی جب تک حق کی پیروی نہ کرے۔(اعلام الدین: ۲۹۸)

بھائیوں کی اقسام کے بارے میں آپ کا فرمان

بھائیوں کی چار اقسام ہیں:

ایک بھائی وہ جو تیرے لئے اور تو اُس کیلئے۔

ایک بھائی وہ جس کیلئے صرف تم ہو۔

ایک بھائی وہ جو تیرا مخالف ہے

ایک بھائی وہ جس کیلئے نہ تم ہو اور نہ وہ تمہارے لئے ہے۔

وہ بھائی جو تیرے لئے اورتو اُس کیلئے ہو:

وہ ہے جو اخوت کے بھائی کی بقاء کا طالب ہو اور اخوت کے بعد بھائی کی موت کا طالب نہ ہو۔ یہ تیرے لئے اورتو اُس کیلئے ہے۔جب یہ بھائی چارہ مکمل ہو تو دونوں کی زندگی پاکیزہ ہوگی اور جب دونوں کے خیالات تناقض ہوں تو بھائی چارہ ختم ہوجاتا ہے۔

وہ بھائی جو تیرے لئے ہے:

وہ ہے جو لالچ سے خالی ہے۔ تیری نسبت سے اپنے تن من دھن کی طرف سے تیری جانب متوجہ ہے۔ جب بھائی اور دنیا سامنے آجائے تو بھائی کی طرف راغب ہے۔اُس کا وجود تیرے ہاتھ میں ہے۔

وہ بھائی جو تیرے خلاف ہے:

وہ انتظار کرتا ہے کہ کب تومصائب و آلام سے دوچار ہوتا ہے اور دوستوں کے درمیان تجھے جھٹلاتا ہے، تجھے حسد کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اُس پر خدا کی لعنت ہو۔

وہ بھائی نہ تو اُس کا بھائی ہے، نہ وہ تیرا بھائی ہے:

وہ عقل و خرد سے عاری ہے اور نادان ہے۔ وہ اپنے آپ کو تجھ سے برتر سمجھتا ہے اور جو تیرے پاس ہے، اُس پر حریصانہ نظر رکھتا ہے اور اُس کا طلب گار ہے۔(تحف العقول: ۲۴۷)

فصل سوم( ۲)

آنحضرت کے اقوال

جس سے حاجت طلب کی جائے

سائل کو رد نہ کرنے کے بارے میں

ترکِ سوال کے بارے میں

حُسنِ معذرت کے بارے میں

خدا کی نافرمانی ترک کرنے کے بارے میں

اللہ کی نافرمانی ترک کرنے کے بارے میں

غیروں کے بارے میں اچھی بات کرنے میں

گناہ سے ڈرنے کے بارے میں

ظلم سے ڈراتے ہوئے

دوست اور دشمن کے بارے میں

نرمی کرنے کا حکم

بعض گروہوں کے ساتھ بیٹھنے کے بارے میں

شکر کے بارے میں

دنیا دار بندوں کے بارے میں

مال جمع کرنے کی مذمت میں

بیکار باتوں کی مذمت میں

بیکار مناظرہ کی مذمت میں

استدراج کے بارے میں

روزی تقسیم کرنے کی کیفیت کے بارے میں

غیبت کے بارے میں

آپ کا فرمان، جس سے حاجت طلب کی جائے

اپنی حاجت تین شخصیات سے طلب کر، دیندار سے، مروّت والے سے، جوانمرد سے جو شریف الانسب سے ہو۔ دیندار اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے، صاحب مروّت اپنی مروّت کی وجہ سے حیاء کرتا ہے اور صاحب حسب جانتا ہے کہ تو ناپسند نہیں کرتا۔ اپنی حاجت روائی کیلئے اُس سے طلب کرے، وہ تیری آبرو کی حفاظت کرتا ہے اور تیری حاجت پوری کئے بغیر نہیں لوٹاتا۔(درة الباہرہ: ۲۴ ، مقصد الراغب: ۱۳۶)

سائل کو رد نہ کرنے کے بارے میں

حاجت مند نے تیرے سامنے اپنی آبرو کی حفاظت نہ کرتے ہوئے سوال کیا ہے، پس تو اپنی آبرو کی حفاظت کرتے ہوئے رد نہ کر۔(کشف الغمہ ۲:۳۲)

ترکِ سوال کے بارے میں آپ کا فرمان

اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے دست سوال دراز کرنے سے باز رہ۔(تحف العقول: ۲۴۷)

حُسنِ معذرت کے بارے میں آپ کا فرمان

بہت سے گناہ کرنا عذر خواہی سے بہتر ہے۔(اعلام الدین: ۲۹۸)

خدا کی نافرمانی ترک کرنے کے بارے میں

جو خدا کی رضا لوگوں کی نافرمانی میں طلب کرے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے اُمور میں اُس کی کفایت کرے گا اور لوگوں کی رضا خدا کی نافرمانی کرکے طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے لوگوں کے حوالہ کرے گا۔(اختصاص: ۲۲۵ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۶)

اللہ کی نافرمانی ترک کرنے کے بارے میں

جو اپنا معاملہ خدا کی نافرمانی پر رکھے تو جو اُمید وہ رکھتا ہے، حاصل نہ ہوگا اور جس سے وہ ڈرتا ہے، وہ اُسے جلدی پالے گا۔(کنزالفوائد ۲:۳۲ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۷)

غیروں کے بارے اچھی بات کرنے میں

جب تیرا مومن بھائی غائب ہو تو وہی بات کر جو تو اپنے بارے میں پسند کرتا ہے، جب تو اُس سے غائب ہو۔(تحف العقول: ۲۴۸)

گناہ سے ڈرنے کے بارے میں

تم اُن لوگوں میں ہونے سے ڈرو جو لوگوں کو گناہ سے ڈراتے ہیں اور اپنے گناہوں کے عذاب سے مطمئن ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں کھاتا۔جو اللہ کے پاس ہے، وہ اُس کی اطاعت کے بغیرنہیں ملتا۔(تحف العقول: ۲۴۰)

ظلم سے ڈراتے ہوئے آپ کا فرمان

ظلم سے بچو۔ خدائے بزرگ و برتر کے سوا کوئی تمہارا مددگار نہیں ہے۔(بحار ۷۸:۱۱۸)

دوست اور دشمن کے بارے میں آپ کا فرمان

ہر وہ شخص جو مجھے برائی سے روکتا ہے، مجھ سے محبت کرتاہے اور جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے، مجھے برائی پر اُکساتا ہے۔(نزہۃ الناظر: ۸۸ ،اعلام الدین: ۲۹۸)

نرمی کرنے کے حکم میںآ پ کا فرمان

جس کی رائے کارگر نہ ہو اور چارئہ کار ثمربار نہ ہو تو نرمی اُس کو کھولنے کی چابی ہے۔ (اعلام الدین: ۲۹۸)

بعض گروہوں کے ساتھ بیٹھنے کے بارے میں

پست لوگوں کے ساتھ بیٹھنا شر ہے اور فاسقوں کے ساتھ بیٹھنا خطرہ ہے۔(نزہۃ الناظر: ۸۱)

شکر کے بارے میں آپ کا فرمان

نعمت کے حصول پر شکر کرنا اور شکر کی توفیق پر شکر کرنا مزید نعمتوں کو دعوت دینا ہے۔ (مقصد الراغب: ۱۳۴)

دنیا دار بندوں کے بارے میں آپ کا فرمان

بے شک انسان دنیا کا بندہ ہے اور دین صرف زبان کا ذائقہ ہے۔ جہاں معیشت کی ریل پیل ہے، وہاں لوگوں کا ہجوم ہے۔ جب آزمائش میں ڈالاجائے تو دیندار بہت کم ہوجاتے ہیں۔(تحف العقول: ۲۴۵ ،کشف الغمہ ۲:۳۲ ،نزہۃ الناظر: ۷۸)

مال جمع کرنے کی مذمت میں

جب تیرا مال تیرا نہ رہا تو تو بھی اُس کیلئے باقی نہ رہ کیونکہ وہ تیرے لئے باقی نہ رہے گا۔ اسے کھا قبل اس کے کہ وہ تجھے کھاجائے۔(نزہۃ الناظر: ۸۵ ،مقصد الراغب: ۱۳۷)

بیکار باتوں کی مذمت میں

جو تجھ سے متعلق نہیں، وہ بات مت کرکیونکہ میں اس کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔جہاں تجھ سے تعلق ہو، وہاں بھی گفتگو سے پرہیز کریہاں تک کہ مناسب موقع ہو۔

کتنے ہی گفتگو کرنے والے ہیں جنہوں نے حق کی بات کی مگر اُن کے مذاق اُڑائے گئے۔(کنزالفوائد ۲:۳۲ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۷)

بیکار مناظرہ کی مذمت میں

بُردبار اور بیوقوف سے مناظرہ مت کر۔ بُردبار تجھے معاف کرے گا اور بیوقوف تجھے اذیت دے گا۔(کنزالفوائد ۲:۳۲ ،بحارالانوار ۷۸:۱۲۷)

استدراج کے بارے میں

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھوکہ دینے والے کیلئے استدراج یہ ہے کہ وہ اسے فراوانی سے دیتا ہے اور اس سے شکر کی توفیق سلب کرتا ہے۔(تحف العقول: ۲۴۶)

روزی تقسیم کرنے کی کیفیت کے بارے میں

لوگوں کا رزق چوتھے آسمان پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اندازہ سے نازل فرماتا ہے اور اندازہ سے پھیلاتا ہے۔(تحف العقول: ۲۴۲)

غیبت کے بارے میں آپ کا فرمان

غیبت نہ کرو۔ یہ دوزخ کے کتوں کی خوراک ہے۔(تحف العقول: ۲۴۵ ،بحار ۷۸:۱۱۷)

فہرست

فصل اوّل ۴

آنحضرت کی دعائیں اور مناجات ۴

پہلا باب ۵

اللّٰہ کی تعریف اور توصیف میں ۵

ہر ماہ کی پانچ تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقد یس ۵

اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے ۶

حجر اسود کے قریب اپنے رب سے رازو نیاز ۷

اخلاقِ حسنہ کی طلب میں ۷

آخرت میں رغبت اور توجہ طلب کرتے ہوئے ۸

استدراج سے امن میں رہنے کیلئے ۸

مُردوں کیلئے طلبِ رحمت کرتے ہوئے ۸

دوسرا باب ۹

نماز اور اللّٰہ سے رازونیاز کے بارے میں آنحضرت کی دعائیں ۹

قنوت میں آنحضرت کی دعا ۱۰

حالت قنوت میں پڑھی جانے والی دعا ۱۱

نمازِ وتر کے قنوت میں ۱۱

سجدئہ شکر میں دعا ۱۱

صبح و شب میں دعا ۱۲

طلب باران کیلئے دعا ۱۲

طلب باران کیلئے ۱۳

منافقین میں سے کسی ایک کی نمازِ جنازہ کے دوران کی دعا ۱۳

تیسرا باب ۱۴

دشمن کے ساتھ جہاد کے وقت آپ کی دعائیں ۱۴

مدینہ سے روانگی سے قبل ۱۵

مکہ پہنچنے پر آپ کی دعا ۱۶

جب قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی خبر پہنچی ۱۶

کربلا میں داخل ہونے سے پہلے ۱۶

کربلا میں داخل ہوتے وقت ۱۷

جب دشمن کے لشکر کی تعداد زیادہ ہوگئی ۱۷

شب عاشورا کو آنحضرت کی دعا ۱۷

عاشورا کے دن آپ کی دعا ۱۷

عاشور کے دن اپنے لشکر کی صف بندی کرنے سے پہلے دعا ۱۸

عاشورا کے دن آپ کی دعا ۱۸

حضرت علی اکبرعلیہ السلام کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت دعا ۱۹

حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ کی دعا ۱۹

حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ کی دعا ۱۹

حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا ۱۹

حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا ۱۹

حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا ۲۰

شہزادہ قاسم بن حسن مجتبیٰ علیہم السلام کی شہادت کے بعد دعا ۲۰

حضرت قاسم بن حسن مجتبیٰ علیہم السلام کی شہادت کے بعد دعا ۲۱

عبداللہ بن حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہاد ت کے بعد دعا ۲۱

آنحضرت کی پیشانی پر تیر لگنے کے بعد دعا ۲۱

امام کی دعا اُس وقت جب آپ کی طرف تیر اندازی کی گئی ۲۱

چہرے اور منہ پر تیر لگنے کے بعد آنحضرت کی دعا ۲۲

عاشورا کے آخری لمحات میں آپ کی دعا ۲۳

شہادت سے کچھ دیر قبل آپ کی دعا ۲۳

چوتھا باب ۲۵

لوگوں کی مذمت اور تعریف میں ۲۵

اپنے فرزند امام علی زین العابدین علیہ السلام کیلئے آپ کی دعا ۲۶

حضرت زہیر بن قین کیلئے آپ کی دعا ۲۶

جناب قیس بن مسہر صیداوی کیلئے آنحضرت کی دعا ۲۷

ابوثمامہ صائدی کیلئے آپ کی دعا ۲۷

حضرت جون غلام ابوذر کیلئے آنحضرت کی دعا ۲۷

۴۶ ۔ یزید بن زیاد ابوشعثاء کے لئے آپ کی دعا ۲۷

یزید بن مسعود النہشلی کیلئے امام کی دعا ۲۷

ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے آپ کی دعا ۲۸

اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا ۲۸

اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا ۲۸

اپنے خطوط میں سے ایک خط میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا ۲۸

روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے ۲۸

عمر بن سعد کی مذمت میں ۲۹

عمر بن سعد کی مذمت میں ۲۹

شمر کی مذمت میں ۲۹

قبیلہ کندہ کے ایک آدمی کی مذمت میں ۲۹

اپنے قاتلوں میں سے کسی کی مذمت میں ۳۰

زرعہ دارمی کی مذمت میں ۳۱

عبداللہ بن حصین ازدی کی مذمت میں ۳۱

محمد بن اشعث کی مذمت میں ۳۱

ابن ابی جویریہ مزنی کی مذمت میں ۳۲

ابن جوزہ تمیمی کے بارے میں ۳۲

تمیم بن حصین فزاری کی مذمت میں ۳۳

محمد بن اشعث کی مذمت میں ۳۳

جبیرہ کلبی کی مذمت میں ۳۴

مالک بن جوزہ کی مذمت میں ۳۴

ابی سفیان کی مذمت میں ۳۵

پانچواں باب ۳۶

مصائب سے نجات اور حاجت روائی کیلئے آپ کی دعائیں ۳۶

مصائب اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے آپ کی دعا ۳۶

غموں اور پریشانیوں سے نجات کیلئے آپ کی دعا ۳۶

نماز کے بعد اپنی حاجات کیلئے آپ کی دعا ۳۷

نمازِ حاجت میں آنحضرت کی دعا ۳۹

چھٹا باب ۴۰

خطرات اور بیماریوں سے نجات کیلئے آپ کی دعائیں ۴۰

دشمن سے مخفی رہنے کیلئے آپ کی دعا ۴۰

دفعِ خطرات کیلئے آپ کی دعا ۴۱

جن و انس کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے آپ کی دعا ۴۱

دانتوں میں درد کی دعا ۴۱

پاؤں کا درد دور کرنے کیلئے ۴۲

پاؤں کا درد دور کرنے کیلئے ۴۲

ساتواں باب ۴۴

ایامِ مبارک میں آنحضرت کی دعائیں ۴۴

عرفہ کے روز آپ کی دعا ۴۴

فصل دوم ۶۱

آنحضرت کے خطبات ۶۱

توحید کے بارے میں آنحضرت کا خطبہ ۶۲

موعظہ میں آپ کا خطبہ ۶۳

بعض مواعظ حسنہ میں آپ کا خطبہ ۶۴

بعض مواعظ حسنہ میں آپ کا خطبہ ۶۵

معاویہ کے سامنے اپنی توصیف میں آپ کا خطبہ ۶۶

مقامِ منیٰ میں اہلِ بیت کے حق کو بتاتے ہوئے آپ کا خطبہ ۶۷

ظلم کے خلاف لوگوں کو آمادہ کرتے ہوئے آپ کا خطبہ ۷۱

عراق جاتے ہوئے آنحضرت کا خطبہ ۷۴

راستے کی منازل میں سے ایک پر آپ کا خطبہ ۷۵

نمازِ ظہر سے پہلے جنابِ حُر کے لشکر سے ملاقات کرتے وقت آنحضرت کا خطبہ ۷۵

جنابِ حُر کے لشکر سے عصر کی نماز سے پہلے آپ کا خطبہ ۷۶

منزلِ بیضہ پر آپ کا خطبہ ۷۶

کربلا میں داخل ہوتے وقت آپ کا خطبہ ۷۷

شبِ عاشور میں اپنے اصحاب کے سامنے آپ کا خطبہ ۷۸

عاشور کے دن اپنے اصحاب سے آپ کا خطاب ۷۸

صبح عاشور آنحضرت کا خطبہ ۷۹

عاشور کے دن آپ کا خطبہ جب ہر طرف سے محاصرہ میں تھے ۸۱

آپ کا خطبہ عاشورا کے دن ۸۳

عاشورا کی صبح کوامام علیہ السلام کا خطبہ ۸۴

عاشورا کے دن اصحابِ باوفا سے آپ کا خطبہ ۸۵

اصحابِ باوفا سے عاشورا کی نماز کے بعد آپ کا خطبہ ۸۵

فصل سوم( ۱) ۸۷

آنحضرت کے اقوال ۸۷

تقویٰ کی فضیلت میں آپ کا فرمان ۸۸

عبادت میں لوگوں کی اقسام کے بارے میں ۸۸

اپنی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان ۸۸

امام کی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان ۸۹

امام کی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان ۸۹

اپنی ہم نشینی کی ترغیب کیلئے آپ کا فرمان ۸۹

سیکھنے کے بارے میں آپ کا فرمان ۸۹

جہاد کی اقسام کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۰

بڑائی اور بے نیازی کے بارے میں ۹۰

بخشش کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۰

سلام کرنے کے بارے میں آپ کافرمان ۹۰

سلام کرنے کے بارے میں آپ کافرمان ۹۱

معافی کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۱

نیک کام میں اچھے اور بُرے کے ساتھ شامل ہونے کے بارے میں ۹۱

عملِ خیر کی ترغیب کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۱

اطاعت، قدرت کے مطابق ہے ۹۱

قبولیت کی نشانیوں کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۲

صبر کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۲

عقلِ کامل کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۲

بھائیوں کی اقسام کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۲

فصل سوم( ۲) ۹۴

آنحضرت کے اقوال ۹۴

آپ کا فرمان، جس سے حاجت طلب کی جائے ۹۵

سائل کو رد نہ کرنے کے بارے میں ۹۵

ترکِ سوال کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۵

حُسنِ معذرت کے بارے میں آپ کا فرمان ۹۵

خدا کی نافرمانی ترک کرنے کے بارے میں ۹۶

اللہ کی نافرمانی ترک کرنے کے بارے میں ۹۶

حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ

آیۂ مباہلہ:

( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )

سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:

اول:

نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔

دوم:

یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔

حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔

پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔

اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔

واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔

روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!

انہوں نے کہا:

اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!

جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟

اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)

جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!

ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔

حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!

کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔

سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!

پس پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔

پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔

قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا

سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟

جواب:

آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔

ورنہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:

''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''

مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔

شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔

(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)

واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:

''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''

(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)

''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی

آیۂ مودّت:

( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )

(سوره شوریٰ آیه ٢٣)

امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔

احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟

سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔

(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)

شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:

رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ

(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)

شافعی کہتے ہیں:

یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ

(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)

''اے اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''

امام حسیؑن مصداق اولی الامر

آیہ اولی الامر:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )

(سورئہ نساء، ٥٩)

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''

اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ

اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔

ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:

جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟

فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔

(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)

امام حسیؑن مصداق شہداء

( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )

(نساء، آيه٦٩)

اور جو بھی اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔

جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔

(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)

امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں

( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

(سوره زخرف ، آيه٢٨)

اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔

ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔

پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت﷩ ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)

سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام

سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔

ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔

اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔

اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔

بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔

علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:

''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے

( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )

نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔

(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)

نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم

اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔

زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:

( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔

(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)

یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔

نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔

شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ

جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟

متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔

فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ

تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔

فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔

آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔

ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔

تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔

بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)

(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )

دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔

اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔

الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔

ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)

(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)

ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔

امام حسین علیہ السلام مظلوم

جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :

السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “

(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)

بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً

١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )

(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)

عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔

٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )

(سورہ اسراء، آيه٣٣)

جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے

کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:

''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن‏''

اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔

(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)

حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ

آیۂ مباہلہ:

( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )

سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:

اول:

نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔

دوم:

یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔

حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔

پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔

اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔

واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔

روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!

انہوں نے کہا:

اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!

جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟

اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)

جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!

ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔

حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!

کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔

سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!

پس پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔

پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔

قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا

سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟

جواب:

آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔

ورنہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:

''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''

مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔

شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔

(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)

واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:

''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''

(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)

''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی

آیۂ مودّت:

( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )

(سوره شوریٰ آیه ٢٣)

امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔

احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟

سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔

(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)

شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:

رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ

(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)

شافعی کہتے ہیں:

یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ

(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)

''اے اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''

امام حسیؑن مصداق اولی الامر

آیہ اولی الامر:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )

(سورئہ نساء، ٥٩)

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''

اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ

اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔

ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:

جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟

فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔

(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)

امام حسیؑن مصداق شہداء

( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )

(نساء، آيه٦٩)

اور جو بھی اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔

جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔

(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)

امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں

( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

(سوره زخرف ، آيه٢٨)

اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔

ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔

پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت﷩ ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)

سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام

سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔

ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔

اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔

اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔

بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔

علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:

''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے

( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )

نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔

(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)

نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم

اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔

زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:

( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔

(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)

یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔

نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔

شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ

جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟

متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔

فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ

تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔

فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔

آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔

ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔

تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔

بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)

(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )

دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔

اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔

الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔

ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)

(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)

ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔

امام حسین علیہ السلام مظلوم

جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :

السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “

(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)

بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً

١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )

(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)

عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔

٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )

(سورہ اسراء، آيه٣٣)

جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے

کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:

''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن‏''

اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔

(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)


4

5

6

7