خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 114115
ڈاؤنلوڈ: 4660

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114115 / ڈاؤنلوڈ: 4660
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

خودسازی

ابراہیم امینی

ناشر: انتشارات شفق

نوبت چاپ: دہم ۱۳۸۰

تیراژ:۴۰۰۰

چاپ: قدس

شابک: ۰-۰۲۰-۴۸۵-۹۶۴

۳

تقدیم

اس ناچیز تحریر کو جہاد اور شہادت کے راہ پیماؤں اور عرفاء کہ جنہوں نے سو سالہ راستے کو ایک شب میں طے کیا ہے اور محبوب کے عشق میں ایک لحظہ جلے ہیں اور بلند مقام (جو اپنے رب سے رزق حاصل کرتے ہیں) تک صعود کیا ہے کی خدمت میں اس امید پر تقدیم کرتا ہوں کہ وہ ایک نگاہ لطف ہماری طرف بھی مبذول کریں_

مؤلف

اس کتاب کا ترجمہ اس امید میں کر رہا ہوں کہ یہ میرے لئے صدقہ جاریہ قرار پاتے ہوئے پڑھنے والے اس پر عمل کر کے اس حقیر کے لئے دعاء مغفرت کریں اور دعا کریں میرا انجام محبت آل محمد(ص) پر قرار پائے_ اور خداوند عالم مجھے مرنے کے بعد اپنی جوار رحمت میں قرار دے_ آمین

مترجم

۴

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین و الصلوة و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین حبیب اله العالمین ابی القاسم محمد صلی الله علیه و آله وسلم الذی بعثه رحمة للعالمین لیزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و السلام علی عترته و ابل بیته الطیبین الطاهرین

خدایا ہمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ہدایت فرما اور ہمارے تاریک دلوں کو معرفت اور یقین کے نور سے روشن کر_ خود پسندی، خودبینی خواہشات و تمینات نفسانی کے پردوں کو ہمارے دلوں سے ہٹا دے اور ہماری باطنی آنکھکو بے مثال جمال کے دیکھنے کی بینائی عطا کردے_ اور ہمیں اپنے آپ کو سنوار نے اور روح کو پاک و پاکیزہ کرنے کے راستوں کی طرف مدد فرما_ اپنے غیر کی طرف توجہہ اور محبت کو ہمارے دلوں سے نکال دے اور غفلت کے پردوں کو ہمارے دلوں سے دور کردے اور اپنی محبت اور انس کے شفاف چشمہ سے سیراب فرما_ تاکہ ہم اپنی طرف متوجہ ہوں اور باقی ماندہ گرانقدر عمر کو گذری ہوئی زندگی کی طرح سستی اور غفلت میں بسر نہ کردیں_

اس ناچیز بندہ جو خواہشات اور تمینات نفسانی میں گرفتار اور حیران و پریشان اور مقامات معنوی اور درجات کمال سے بے خبر اور مراتب سیر و سلوک سے نا واقف نے اس کا ارادہ کیا ہے کہ خود سازی تہذیب اور تزکیہ نفس کی بحث کے میدان میں وارد ہو اور قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے فرامین اور تزکیہ اور

۵

تہذیب نفس اور سیر اور سلوک الی اللہ کے قواعد کلیہ سے استفادہ کر کے پڑھنے والوں اور طالبین راہ معرفت کی خدمت میں پیش کرے اس امید پر کہ شاید سالکین راہ ہدایت کے لئے مددگار ثابت ہو اور خداوند عالم اس حقیر اور محروم پر احسان کرے اور میرا ہاتھ پکڑ کر نادانی خودخواہی غفلت کی تاریکیوں سے خارج کردے اور ذکر و انس و محبت و بقاء کی وادی کی طرف رہنمائی فرمائے شاید باقیماندہ عمر میں اگر ہو بعض گذرے ہوئے نقصانات کا جبران کر سکوں_ احب الصالحین و لست منہم نیکوں کو دوست رکھتا ہوں گر چہ ان میں سے نہیں ہوں_

اہم نقطہ

اس بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک مہم مطلب کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ خودسازی (اپنے آپ کو سدھارنا) اور تزکیہ نفس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان گوشہ نشین اور دنیاوی مشاغل کو ترک کردے اور اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داریوں اور عہدوں سے دست بردار ہوجائے بلکہ خود اس کتاب کے مباحث میں واضح ہوجائیگا کہ گوشہ نشینی اور فردی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرنا خودسازی اور تکمیل و تہذیب نفس کے منافی ہے_ اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ با وجودیکہ عام لوگوں میں زندگی بسر کریں اور فردی اور اجتماعی وظائف انجام دیں اپنے آپ سے غافل نہ ہوں اور خودسازی اور تہذیب نفس کی تربیت کو اہمیت دین اور اسے مورد عنایت قرار دیں_

مؤلف

۶

پیغمبروں کے بعثت کی اہم غرض نفوس کا پاکیزہ کرنا تھا

پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانی نفوس کی پرورش کرنا اور نفوس انسانی کو پاک و پاکیزہ بنانا تھا_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان سے ایک رسول ان کے درمیان بھیجا ہے تا کہ وہ ان کے لئے قرآنی آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاک و پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ایک کھلی ہوئی گمراہی میں غرق تھے_(۱)

تعلیم و تربیت کا موضوع اس قدر مہم تھا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کی غرض قرار پایا اور خداوند عالم نے اس بارے میں اپنے بندوں پر احسان کیا_ انسان کی فردی اور اجتماعی شخصیت کی سعادت اور دنیوی اور اخروی شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے کہ کس طرح انسان نے اپنے آپ بنایا ہے اور بنائے گا_ اسی وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگی ساز سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے_ پیغمبر(ص) آئے ہیں تا کہ خودسازی اور نفس انسانی کی پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور مہم ا ور سرنوشت ساز کام کی

۷

رہنمائی اور مدد فرمائیں پیغمبر آئے ہیں تا کہ نفوس انسانی کو رذائل اور برے اخلاق اور حیوانی صفات سے پاک اور صاف کریں اور اچھے اخلاق اور فضائل کی پرورش کریں_ پیغمبر علیہم السلام آئے ہیں تا کہ انسانوں کو خودسازی کا درس دیں اور برے اخلاق کی شناخت اور ان پر کنٹرول اور خواہشات نفسانی کو قابو میں رکھنے کی مدد فرمائیں اور ڈرانے اور دھمکانے سے ان کے نفوس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے پاک و صاف کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ فضائل اور اچھے اخلاق کے پودے کو انسانی نفوس میں پرورش دیں اور بار آور بنائیں اور اپنی راہنمائی اور تشویق اور ترغیب سے ان کے مددگار بنیں_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں اچھے اخلاق کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۲)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں اسلئے بھیجا گیا ہوں تا کہ اچھے اخلاق کو نفوس انسانی میں مکمل کروں_(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم نے پیغمبروں کو اچھے اخلاق کے لئے منتخب کیا ہے جو شخص بھی اپنے آپ میں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرے اور جو شخص اپنے آپ میں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع اور زاری کرنی چاہئے اور اللہ تعالی سے اچھے اخلاق کو طلب کرنا چاہئے_(۴)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر بالغرض میں بہشت کی امید نہ رکھتا ہوتا اور دوزخ کی آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب کا عقیدہ بھی نہ رکھتا ہوتا تب بھی یہ امر لائق تھا کہ میں اچھے اخلاق کی جستجو کروں کیونکہ اچھے اخلاق کامیابی اور سعادت کا راستہ ہے_(۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایمان کے لحاظ سے کاملترین مومنین وہ

۸

ہیں کہ جن کے اخلاق بہتر ہوں_'' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن نامہ اعمال میں کوئی چیز حسن خلق سے افضل نہیں رکھی جائیگی_(۶)

ایک آدمی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' وہ آدمی اٹھا اور آپ(ص) کے دائیں جانب آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' یعنی اچھا اخلاق_ پھر وہ گیا اور آپ کے بائیں جانب پلٹ آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے ؟ آپ(ص) نے اس کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کیا تو نہیں سمجھتا؟ کہ دین یہ ہے کہ تو غصہ نہ کرے_(۷)

اسلام کو اخلاق کے بارے میں خاص توجہہ ہے اسی لئے قرآن مجید میں اخلاق کے بارے میں احکام کی نسبت زیادہ آیات قرآنی وارد ہوئی ہیں یہاں تک کہ قرآن کے قصوں میں بھی غرض اخلاقی موجود ہے_ تمہیں احادیث میں اخلاق کے بارے ہزاروں حدیثیں ملیں گی اگر دوسرے موضوعات سے زیادہ حدیثیں نہ ہوئیں تو ان سے کمتر بھی نہیں ہیں_ اخلاق کے بارے میں ثواب اور خوشخبریاں جو ذکر ہوئی ہیں دوسرے اعمال کے ثواب سے کمتر نہیں ہیں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بیان ہوئی ہے وہ دوسرے اعمال سے کمتر نہیں ہیں_ اسی لئے اسلام کی بنیاد اخلاقیات پر تشکیل پاتی ہے_ مناسب نہیں کہ اسے دین کے احکام میں دوسرا درجہ دیا جائے اور دینداروں کے لئے آرائشے اور خوبصورتی کا درجہ دیا جائے اگر احکام میں امر اور نہی ہیں تو اخلاق میں بھی امر اور نہی موجود ہیں اور اگر احکام میں تشویق اور تخویف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق میں بھی یہی امور موجود ہیں_

پس احکام شرعی اور اخلاق میں کونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور کمال کے طالب ہیں تو اخلاقیات سے لاپرواہی نہیں برت سکتے ہم اخلاقی واجبات کو اس بہانے سے کہ یہ اخلاقی واجبات ہیں ترک کردیں اور اخلاقی محرمات کو اس بنا پر کہ یہ اخلاقی محرمات ہیں بجالاتے رہیں_ اگر نماز واجب ہے اور اس کا ترک کرنا حرام اور موجب

۹

سزا ہے تو عہد کا ایفا بھی واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھی سزا ہوگی پس ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

واقعی متدین اور سعادت مند وہ انسان ہے کہ جو احکام شرعیہ اور تکالیف الہی کا پابند ہو اور اخلاقیات کا بھی پابند ہو بلکہ سعادت اور کمال معنوی اور نفسانی میں اخلاقیات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جیسے کہ بعد میں ذکر کریں گے_

بزرگ شناسی و خودسازی

گرچہ انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ مختلف جہات اور اوصاف رکھتا ہے_ انسان کے وجود کا ایک مٹی کے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر یہ جوہر مجرد ملکوتی تک جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میںفرماتا ہے کہ '' خداوند وہ ہے کہ جس نے ہر چیز کو اچھا پیدا کیا ے اور انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور اس کی نسل کو بے وقعت پانی یعنی نطفہ سے قرار دیا ہے پھر اس نطفہ کو اچھا اور معتدل بنایا ہے اور پھر اس میں اپنی طرف منسوب روح کو قرار دیا ہے اور تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل بنایا ہے اس کے باوجود تم پھر بھی بہت کم اس کا شکریہ ادا کرتے ہو_(۸)

انسان مختلف مراتب اور جہات رکھتا ہے ایک طرف تو وہ ایک جسم طبعی ہے اور اس جسم طبعی کے آثار رکھتا ہے دوسری طرف وہ جسم نامی ہے کہ وہ اس کے آثار بھی رکھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ایک حیوان ہے اور وہ حیوان کے آثار بھی رکھتا ہے لیکن بالاخرہ وہ ایک انسان ہے اور وہ انسانیت کے آثار بھی رکھتا ہے جو حیوانات میں موجود نہیں ہیں_

لہذا انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت وجود کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات کی حامل ہے_ جب یہ کہتا ہے کہ میرا وزن اور میری شکل و صورت تو وہ

۱۰

اپنے جسم نامی ہونے کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میری شکل و صورت تو وہ اپنے جسم نامی ہونے کی حکایت کر رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حیوانی درجہ کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا سوچنا اور عقل اور فکر تو وہ اپنے انسان اعلی درجہ کا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان کی میں اور خود مختلف موجود ہیں_ ایک جسمانی میں اور ایک میں نباتی اور ایک میں حیوانی اور ایک میں انسانی لیکن ان میں سے انسانی میں پر ارزش اور اصالت رکھتی ہے وہ چیز کہ جس نے انسان کو انسان بنایا ہے اور تمام حیوانات پر برتری دی ہے وہ اس کی روح مجرد ملکوتی اور نفخہ الہی ہے_

خداوند عالم انسان کی خلقت کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ٹی سے خلق کیا ہے پھر اسے نطفہ قرار دیا ہے اور اسے ایک مضبوطہ جگہ رحم مادر میں قرار دیا ہے اور پھر نطفہ کو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ کو نرم گوشت بنایا ہے اور پھر نرم گوشت کو ہڈیاں بنایا ہے پھر ان ہڈیوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس میں روح مجرد ملکوتی کو پھونکا ہے جس سے اسے ایک نئی مخلوق بنایا ہے_ شاباش اس کامل قادر پر جو بہترین خلق کرنے والا ہے_

انسان کی خلقت کے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارک اللہ احسن الخالقین اسی ملکوتی روح کی وجہ سے انسان کایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ '' میں نے آدم (ع) کو پیدا کیا ہے اور اس روح کو جو میری طرف نسبت رکھتی ہے اس میں پھونکا ہے لہذا تم سب اس کی طرف سجدہ کرو_(۹)

اگر انسان تعظیم کا مورد قرار پایا ہے اور خدا نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو محترم قرار دیا ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا ہے اور ہر قسم کی پاکیزہ اور لذیذ غذا اس کی روزی قرار دی ہے اور اپنی بہت سی مخلقو پر اسے

۱۱

برتری دے ہے(۱۰) تو یہ سب اسی روح ملکوتی کے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازی یعنی اپنے آپ کو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی انسانی میں کو سنوارے اور تربیت دے نہ وہ اپنی حیوانی میں یا جسمانی میں کی پرورش کرے پیغمبروں کی غرض بعثت بھی یہی تھی کہ انسان کو خودسازی اورجنبہ انسانی کی پرورش میں اس کی مدد کریں اور اسے طاقت فراہم کریں_ پیغمبر(ص) انسانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے انسانی میں کو فراموش نہ کرو اور اگر تم نے اپنے انسانی خود اور میں کو خواہشات حیوانی پر قربانی کر دیا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصیب میں آجائیگا_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے '' اے پیغمبر_ ان سے کہہ دے کہ نقصان میں وہ اشخاص ہیں جو اپنے نفس انسانی اور اپنے اہل خانہ کے نفوس کو قیامت کے دن نقصان میں قرار دیں اور یہ بہت واضح اور کھلا ہوا نقصان ہے_(۱۱)

جو لوگ حیوانی زندگی کے علاوہ کسی دوسرے چیز کی سوچ نہیں کرتے در حقیقت وہی لوگ ہیں جنہوں نے انسانی شخصیت کو کھو دیا ہوا ہے کہ جس کی تلاش میں وہ کوشش نہیں کرتے_(۱۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''میں اس شخص سے تعجب کرتا ہوں کہ ایک گم کی ہوئی چیز کی تلاش تو کرتا ہے جب کہ اس نے اپنے انسانی روح کو گم کیا ہوا ہے اور اس کے پیدا کرنے کے درپے نہیں ہوتا_'' اس سے بدتر اور دردناک تر کوئی نقصان نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنی انسانی اور واقعی اور حقیقی شخصیت کو کھو بیٹھے ایسے شخص کے لئے سوائے حیوانیت کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا_

روح انسانی اور نفس حیوانی

جو روایات اور آیات روح اور نفس انسانی کی بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ د و

۱۲

قسم پر ہیں ایک قسم نفس انسانی کو ایک در بے بہا اور شریف ملکوتی کہ جو عالم ربوبی سے آیا ہے اور فضائل اور کمالات انسانی کامنشا ہے بیان کرتی ہیں اور انسان کو تاکید کرتی ہیں کہ ایسے کمالات اور جواہر کی حفاظت اور نگاہ داری اور تربیت اور پرورش میں کوشش کرے اور ہوشیار رہے کہ ایسے بے بہا در کو ہاتھ سے نہ جانے دے کہ اس سے اسے بہت زیاد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' اے محمد (ص) آپ سے روح کی حقیقت کا سوال کرتے ہیں ان کے جواب میں کہہ دے کہ یہ پروردگار کے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے_(۱۳)

اس آیت میں روح کو ایک موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار دیا ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے روح کے بارے میں فرمایا ہے کہ ''روح ایک در بے بہا ہے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وہ اعلی مرتبہ تک پہنچائیگا اور جس نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی یہ اسے پستی کی طرف جائیگا_(۱۴)

آپ نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص نے اپنی روح کی قدر پہچانی وہ اسے پست اور فانی کاموں کے بجالانے کی طرف نہیں لے جائی گی_(۱۵)

آپ نے فرمایا ''جس شخص نے روح کی شرافت کو پالیا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمینات سے حفاظت کردے گی_(۱۶)

''روح جتنی شریف ہوگی اس میں اتنی زیادہ مہربانی ہوگی_(۱۷)

آپ نے فرمایا کہ '' جس کا نفس شریف ہوگا وہ اسے سوال کرنے کی خواری سے پاک کردے گا_(۱۸)

اس قسم کی آیات اور روایات کے بہت زیادہ نمونے موجود ہیں_ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی ایک بیش بہا قیمتی در ہے کہ جس کی حفاظت و نگاہ داری اور تربیت کرنے میں کوشش کرنی چاہئے_

دوسری قسم کی روایات وہ ہیں کہ جس میں نفس انسانی کو ایک انسان کا سخت دشمن

۱۳

تمام برائیوں کا مبدا بتلایا گیا ہے لہذا اس سے جنگ کی جائے اور اسے سرکوب کیا جائے ور نہ وہ انسان کے لئے بدبختی اور شقاوت کے ا سباب مہیا کردے گا_ نمونے کے طور پر جیسے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس کو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس کی جگہ جنت ہے_(۱۹)

قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ '' میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ ہمیشہ برائیوں کی دعوت دیتا ہے مگر جب خدا رحم کرے_(۲۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بدترین دشمن وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود ہے_(۲۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے جو شخص اسے امین قرار دے گا وہ اس سے خیانت کرے گا جس نے اس پر اعتماد کیا وہ اسے ہلاکت کی طرف لے جائیگا، جو شخص اس سے راضی ہوگا وہ اسے بدترین موارد میں وارد کردےگا_(۲۲)

نیز آپ نے فرمایا '' نفس پر اطمینان کرنا شیطان کے لئے بہترین اور مضبوط موقعہ ہوا کرتا ہے_(۲۳)

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اے پروردگار کہ میں آپ سے نفس کی شکایت کرتا جو ہمیشہ برائی کی دعوت دیتا ہے اور گناہ اور خطاء کی طرف جلدی کرتا ہے او ربرائی سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ کو تیرے غضب کا مورد قرار دیتا ہے اور مجھے ہلاکت کے راستوں کی طرف کھینچتا ہے_(۲۴)

اس قسم کی آیات اور روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس ایک ایسا موجود ہے جو شریر اور برائیوں کا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے کہ جہاد کر کے اس کی کوشش کو سرکوب کیا جائے_

۱۴

ممکن ہے کہ بعض لوگ تصور کریں کہ ان دو قسم کی آیات اور روایات میں تعارض اور تزاحم واقع ہے یا خیال کریں کہ انسان میں دو نفس اور روح ہیں کہ ایک اچھائیوں کامنبع ہے اور دوسرا نفس حیوانی ہے جو برائیوں کا سرچشمہ ہے لیکن یہ دونوں تصور اور خیال غلط ہیں_ پہلے تو ان دو قسم میں تعارض ہی موجود نہیں ہے دوسرے علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی ایک حقیقت ہے اور ایک روح ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ انسانیت اور حیوانیت انسان میں ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہوں_

بلکہ نفس انسانی میں دو مرتبے اور دو وجودی حیثیت ہیں نیچے اور پست مرتبے میں وہ ایک حیوان ہے کہ جس میں حیوان کے تمام آثار اور خواص موجود ہیں اور ایک اعلی مرتبہ ہے کہ جس میں وہ ایک انسان ہے اور وہ نفخہ الہی اور عالم ملکوت سے آیا ہے_

جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس شریف اور قیمتی اور اچھائیوں کا مبدا ہے اس کے بڑھانے اور پرورش اور تربیت میں کوشش کرنی چاہئے یہ اس کے اعلی مرتبے کی طرف اشارہ ہے اور جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس تیرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ کرو تجھے ہلاکت میں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور کوشش کر کے قابو میں رکھ یہ اس کے پست مرتبے کی طرف اشارہ ہے یعنی اس کی حیوانیت کو بتلایا گیا ہے_ جب کہا جاتا ہے کہ نفس کی تربیت اور پرورش کر اس سے مراد انسانی مرتبہ ہوتا ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کو سرکوب اور مغلوب کر دے تو اس سے مقصود اس کا پست حیوانی مرتبہ ہوتا ہے_

ان دو مرتبوں اور دو حیثیتوں اور دو وجودوں میں ہمیشہ کشمکش اور جنگ رہتی ہے_ حیوانی مرتبہ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنی خواہشات اور تمینات کو پورا کرنے میں لگا رہے اور قرب الہی اور ترقی اور تکامل سے نفس انسانی کو روکے رکھے اور اسے اپنا غلام بنائے رکھے اس کے برعکس نفس انسانی اور مرتبہ عالی وجود انسانی ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے کہ کمالات انسانی کے اعلی مراتب طے کرے اور قرب الہی کی مقام پر فائز

۱۵

ہوجائے اس مقام تک پہنچنے کے لئے وہ خواہشات اور تمایلات حیوانی کو قابو میں کرتا ہے اور اسے اپنا نوکر اور غلام بنا لیا ہے اس کشمکش اورجنگ میں ان دو سے کون دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے اگر روح انسان اور ملکوتی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر انسانی اقدار زندہ ہوجائیں گی اور انسان قرب الہی کے بلند مرتبے اور قرب الہی تک سیر و سلوک کر تا جائیگا اور اگر روح حیوانی اور حیثیت بہیمی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر عقل کا چراغ بچھ جائیگا اور وہ اسے گمراہی اور ضلالت کی وادی میں دھکیل دے گا اسی لئے پیغمبر آئے ہیں کہ انسان کو اس مقدس جہاد اورجنگ میں حتمی اور یقینی مدد میں_

۱۶

انسانی ارزش

انسان کی دو حیثیتیں اور دو وجود ہیں ایک وجود انسانی اور ایک وجود حیوانی_ انسان کی قدر اور قیمت انسانی وجود سے ہے اور حیوانی وجود سے نہیں ہے_ حیوانی وجود تو اس کا طفیلی ہے اور در حقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہے_ گر چہ انسان حیوان تو ہے ہی اور اسے حیوانی وجود کے لئے اس کے لوازم زندگی حاصل کرنے کو اہمیت دینی بھی چاہئے_ لیکن انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ حیوانی زندگی بسر کرے بلکہ انسان اس اس جہان میں اسلئے آیا ہے کہ وہ اپنی حیوانی زندگی سے انسان زندگی کی تکمیل کرے اور اس حیوانی زندگی سے انسان زندگی کا فائدہ حاصل کرے انسان دونوں انسانی حیوانی زندگی میں کئی ایک چیزوں کا محتاج ہوتا ہے کہ جن کے تقاضے خود اس کے وجود میں رکھ دیئے گئے ہیں_ اس لحاظ سے کہ وہ ایک حیوان ہے اور نامی ہے پانی غذا مکان لباس ہوا محتاج ہے تا کہ وہ زندہ رہے پانی اور غذا کا محتاج اور اس لحاظ سے کہ ان کو پورا کرے اسے تلاش اور کوشش کرنی ہوتی ہے_ بھوک پیاس لذت پانی اور غذا کی طلب یہ اس کے وجود میں رکھ دی گئی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے کہ نسل انسانی باقی رہے جنسی غریزہ اور بیوی کی طرف میلان اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے_ انسان

۱۷

اپنے باقی رہنے کا علاقمند ہوتا ہے زندگی کے باقی رکھنے میں حیوانی زندگی اور اس کے آثار کا پابند ہے جب غذا کو دیکھتا ہے اور بھوک کا احساس کرتا ہے تو غذا کھانے کی طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اپنے آثار سے کہتا ہے کہ مجھے غذا حاصل کرنی چاہئے اور اسے کھانا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ کرتا ہے_ یقینا ایسا احساس پر انہیں ہے کیونکہ اپنی زندگی کے دوام کے لئے انسان کو کام کرنا چاہئے تا کہ کھائے اور پیئے_ اسلام میں نہ صرف اس سے روکا نہیںگیا بلکہ اس کی سفارش بھی کی گئی ہے_ لیکن اس مطلب کو بھی جاننا چاہئے کہ حیوانی زندگی اخروی زندگی کا مقابلہ اور تمہید ہے یہ خود انسان کی خلقت کی غرض نہیں ہے بلکہ یہ طفیلی ہے اصیل نہیں ہے_ اگر کسی نے حیوانی زندگی کو ہی اصل اور ہدف قرار دے دیا اور دن رات خواہشات و تمینات حیوانی زندگی میں لگا رہا اور اس کی کوشش اور تلاش کرتا رہا اور اپنی زندگی کا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام کرنا اور شہوت رانی اور غرائز حیوانی کا پورا کرنا قرار دے دیا تو وہ ضلالت اور گمراہی میں ہی جا پڑے گا_ کیونکہ اس نے ملکوتی روح اور عقل انسانی کو حاکمیت سے دور کر کے فراموشی کے خانے میں ڈال دیا ہے ایسے شخص کو انسان شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ایک حیوان ہے جو انسان کی شکل و صورت میں ہے_ اس کے پاس عقل ہے لیکن وہ ایسی دور ہوئی ہے کہ جس سے انسانی کمالات اور فضائل کو نہیں پہچان رہا وہ کان اور آنکھ رکھتا ہے لیکن حقایق اور واقعات کو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا_ قرآن ایسے انسان کو حیوان بلکہ اس سے بھی گمراہ تر جانتا ہے کیونکہ حیوان تو عقل ہی نہیں رکھتا لیکن ایسا شخص عقل رکھتا ہے اور نہیں سمجھتا _

قرآن مجید میں ہے کہ '' اے پیغمبر اگر تیری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو سمجھ لے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں اور کونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور اللہ تعالی ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کر ے گا_(۲۵) قرآن مجید فرماتا ہے _ کہ ''ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں کہ وہ اپنے سوء اختیار سے جہنم میں جائیں گے_

۱۸

اس واسطے کہ ان کے پاس دل تو ہو لیکن اس سے سمجھتے نہیں_ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں_ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ترین یہ غافل ہیں_(۲۶)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے با وجودیکہ وہ عالم ہے لیکن خدا نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں آپ نے دیکھا؟ کہ سوائے خدا کے اسے کون ہدایت کرے گا؟ وہ کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتا_(۲۷)

کون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملکوتی نفس اور اپنی انسانی سعادت اور کمالات کو خواہشات نفس اور حیوانی زندگی پر قربان کر دیتا ہے؟ اور نفس انسانی کو حیوانی لذات کے مقابلے فروخت کر دیتا ہے؟

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''کہ خسارت میں وہ شخص ہے جو دنیا میں مشغول ہے اور اخروی زندگی کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے_(۲۸)

آپ نے فرمایا '' اپنے نفس کو پست کاموں سے روکے رکھ گرچہ تجھے ان امور کی طرف رغبت ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ جتنا تو اپنے نفس کو اس میں مشغول رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی عوض حاصل نہ ہوگا_

اپنے آپ کو دوسروں کا غلام نہ بنا جب کہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے_ وہ خیر جو شر کے وسیلے سے حاصل ہو وہ خیر نہیں ہے اور گشایش حاصل نہیں ہوتی مگر سختی کے ذریعے سے_(۲۹) _

آپ نے فرمایا '' وہ بری تجارت ہے کہ جس میں تو اپنے نفس کو اس کی قیمت قراردے اور جو تیرا ثواب اور اجر اللہ کے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت کا عوض قرار دے دے_(۳۰)

انسان فقط حیوانی وجود کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسانی وجود بھی رکھتا ہے اسی حیثیت سے وہ جوہر مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم قدس سے آیا ہے اور حیوانی

۱۹

خواہشات کے علاوہ بھی ارزش رکھتا ہے _ اگر انسان اپنی باطنی ذات اور ملکوتی روح میں فکر کرے اور اپنے آپ کو خوب پہچانے اور مشاہدہ کرے کہ وہ عالم قدرت و کرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خیر و عدالت خلاصہ عالم کمال سے آیا ہے اور اسی عالم سے سنخیت اور مناسب رکھتا ہے_ تو اس وقت انسان ایک اور دید سے ایک اور عالم کو دیکھے گا اور کمال مطلق کو نگاہ کرے گا اور اسی عالم کی صفات سے علاقمند ہوگا اور اس گران بہار سرمایہ کیوجہ سے اپنے حیوانیت کے پست مرتبے سے حرکت کرے گا تا کہ کمال کے مدارج کے راستے طے کرے اور مقام قرب الہی تک جاپہنچے یہ وہ صورت ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی اقدر واضح ہوجائیں گی اگر اخلاق اقدار مثل علم احسان، خیر خواہی، ایثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے کی حمایت سچائی امانتداری کا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو عالم کمال سے دیکھے گا اور ایسے مراتب اور اقدار کو اپنے انسانی بلند مقام کے مناسب پائیگا اور اسے اسی وجہ سے دوست رکھے گا یہاں تک کہ حاضر ہو گا کہ وہ حیوانی وجود اور اس کی خواہشات کو اس بلند مقام تک پہنچنے کے لئے قربان کر دے_

اخلاق اقدار اور مکارم روحانی اور معنوی جو ملکوتی روح انسان سے متناسب ہیں کہ ایک سلسلہ کا نام ہے اور انسان کمال تک پہنچنے کے لئے ان کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے_

اور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے انہیں انجام دینا چاہئے اور اخلاقی انجام دی جانے والی اشیاء کا سرچشمہ شرافت اور کرامت نفس ہوا کرتا ہے_ اور کمال روحانی اور بلندی مقام تک پہنچنے کے لئے بجا لایا جاتا ہے_ جب انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے راہ حق میں ایثار کرنا چاہئے یعنی ایثار تکامل ذات اور بلندی مرتبے کے لئے فائدہ مند ہے اور ضروری ہے کہ ایسے مرتبہ تک پہنچنا چاہئے_ معنوی کمالات تک پہنچنے کا راستہ صرف ایک ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان کی ضد کی پہچان میں مساوی خلق ہوئے ہیں_ اگر انسان اپنی محبوب اور پاک فطرت کی طرف رجوع کرے اور خواہشات اور ہوی

۲۰