خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 113826
ڈاؤنلوڈ: 4650

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113826 / ڈاؤنلوڈ: 4650
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا میں لوگ دو قسم پر عمل کرتے ہیں ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر دنیا کے لئے کام کرتا ہے دنیا نے اسے مشغول کر رکھا ہے اور آخرت سے غفل بنا دیا ہے_ ڈرتا ہے کہ اس کی اولاد اس کے مرنے کے بعد فقیر وجائے لیکن آخرت کے جہان میں خالی ہاتھ جانے سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اپنی عمر کو دوسروں کے منافع کے لئے خرچ کرتا ہے_ دوسرا وہ ہے جو دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے کام کرتا ہے_ اس کی روزی بعی بغیر کسی مشقت کے پہنچتی رہتی ہے یعنی دنیا اور آخرت کا حصہ اور نصیب اسے ملتا رہتا ہے اور یہ یہ دونوں جہانوں کا مالک ہو جاتا ہے یہ خدا کے نزدیک آبرومند اور محترم ہوگا اور جو کچھ خدا سے طلب کرے گا خدا سے قبول کریگا_(۲۳۰)

نیز امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا عبور کرجانے کی جگہ ہے یہ ٹھہر جانے کا گھر نہیں ہے لوگ دو قسم کے ہیں ایک وہ ہے جو اپنے نفس کو دنیا کی بے قیمت اشیاء کے عوض فروخت کردیتا ہے اور اپنے نفس کو ذلت اور خواری میں ڈالتا ہے دوسرا وہ ہے جو اپنے انسانی نفس کو خرید لیتا ہے اور آزاد کر لیتا ہے_(۲۳۱)

اہل دنیا اور اہل آخرت میں فرق اس میں نہیں ہوتا کہ دولتمند ہے یا فقیر دنیا کے کاموں میں مشغول ہے ہے یا بیکار ہے_ اجتماعی زمہ داریوں کو قبول کیا ہوا ہے یا نہ لوگوں کے درمیان زندگی کر رہا ہے یا گوشہ نشین ہے کسب و کار تجارت میں مشغول ہے یا تحصیل علم درس تدریس تالیف کتاب وعظ اور نصیحت کرنے میں مشغول ہے_ دنیا کے نعمتوں سے استفادہ کر رہا ہے یا نہ دنیا منصب اور عہدہ پر فائز ہے یا نہ بلکہ ان دو میں اصلی تفاوت اور فرق اس میں ہے کہ دنیاوی امور سے وابستگی اور عشق رکھتا ہے یا امور آخرت کا فریفتہ ہے_ دنیا سے دل لگا رکھا ہے یا آخرت کی زندگی سے _ دنیا کی طرف متوجہہ ہے یا خدا کی طرف_ اپنی زندگی کی غرض اور ہدف حیوانی خواہشات کو قرار دے رکھا ہے یا مکارم اخلاق اور فضائل انسانی کا حصول اور تربیت کرنا_

جو چیز انسان کو اپنے میں مشغول رکھے اور خدا کی یاد آور آخرت کے جہاں کے

۱۲۱

لئے سعادت اور کوشش سے روکے رکھے وہ دنیا شمار ہوگی گرچہ انسان تحصیل علم اور تدریس اور تالیف کتاب اور وعظ اور نصیحت امامت جماعت یہاں تک کہ گوشہ نشینی اور دنیا سے زہد اور عبادت بجالا رہا ہو اگر یہ تمام کے تمام غیر خدا کے لئے ہوں تو یہ بھی دنیا شمار ہوگی پس واضح ہوگیا کہ تمام دنیا کے لوگ ایک مرتبے اور قطار میں نہیں ہوتے اسی طرح تمام اہل آخرت بھی ایک رتبے میں نہیں ہوا کرتے بلکہ ایک گروہ اہل دنیا کا سوفیصدی اور بطور کامل دنیا سے لگاؤ رکھتا اور بطور کلی خدا اور آخرت کے جہان سے غافل ہوتا ہیں اس طرح کے ان لوگوں کو دنیا دار اور دنیاپرست کا نام دیا جانا ہوتا ہے_ ان کے مقابلے میں ایک گروہ لوگوں کا ہے جو اللہ تعالی کے خالص بندے ہیں کہ ان کی ساری توجہہ خدا اور آخرت کے جہان کے لئے ہوتی ہے اور سوائے اللہ کی رضا کے انکا کوئی اور ہدف نہیں ہوتا_ پھر ان دونوں گروہوں میں بہت زیادہ درجات اور مراتب ہوتے ہیں جو جتنا دنیا سے لگاؤ اور محبت رکھے گا وہ اسی مقدار کا دنیا دار ہوگا اور اللہ تعالی کے قرب سے دور ہوگا اس کے برعکس جو جتنا زیادہ خدا کی یاد میں آخرت کے جہاں کی فکر میں ہوگا وہ ا تنا تارک دنیا شمار ہوگا خلاصہ دنیادار ہونا اور اہل آخرت ہونا یہ دونوں امر اصطلاحی لحاظ سے اضافی اور نسبی ہوا کرتے ہیں_

۱۲۲

تقوی تزکیہ نفس کا اہم عامل

اسلام میں تقوی کو ایک بہت اہم مقام حاصل ہے_ مومنین میں سے متقیوں کو ممتاز شمار کیا جاتا ہے_ تقوی کی لفظ قرآن مجید نہج البلاغہ اور احادیث کی کتابوں خاص طور پر نہج البلاغہ میں بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے_ قرآن انسان کی شرافت اور قیمت کا معیار تقوی کو قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ محترم اور معزز وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور متقی ہو_(۲۳۲)

تقوی کو آخرت کے لئے بہترین زاد راہ اور سعادت کا بہت بڑا وسیلہ بتلایا گیا ہے قرآن مجید میں آیا ہے کہ ''تم اپنی آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کرو قرآن مجید میں آیا ہے کہ تم اپنی آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کرو اور بہترین زاد راہ تقوی ہے_(۲۳۳)

نیز فرماتا ہے '' جو لوگ نیک اور تقوی رکھتے ہیں ان کے لئے بہت بڑی جزاء ہوگی_( ۲۳۴)

اور پھر فرمایا ہے_ کہ '' جس نے تقوی اختیار کیا اور اچھے کام انجام دیئے اس کے لئے کوئی خوف و ہراس نہیں ہے_(۲۳۵) اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالی کی مغفرت کی طرف جلدی کرو اور بہشت کی طرف جلدی کرو کہ جس کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے اور جو متقیوں کے لئے آمادہ کی گئی ہے_(۲۳۶)

اور فرماتا ہے کہ ''متقی بہشت میں اور نعمت میں زندگی کرتے ہیں اور ان نعمتوں

۱۲۳

سے کہ جو اللہ تعالی نے انہیں عطا کی ہیں خوش اور خرم ہیں_(۲۳۷)

اسی طرح نہج البلاغہ اور احادیث کی کتابوں میں تقوی کو اخلاق کا سردار اور سعادت حاصل کرنے کا بزرگترین وسیلہ بتلایا گیا ہے جیسے_

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''تقوی کو تمام اخلاق کا راس ورئیس قرار دیا گیا ہے_(۲۳۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' ایک صفت ایسی ہے جو اسے نہ چھوڑے اور پکڑے رکھے تو اس کے اختیار میں دنیا اور آخرت ہوگی اور وہ بہشت حاصل کرلے گا_ آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ_ وہ صفت کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تقوی ہے_ جو شخص چاہتا ہے کہ تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہو تو تقوی کو اپنا پیشہ بنائے آپ نے اس کے بعد یہ آیت پڑھی کہ جو شخص تقوی کو اپنا پیشہ قرار دے تو خداوند عالم اس کے لئے گشائشے قرار دے دیگا اور اس کے لئے روزی وہاں سے دے گا کہ جس کا اسے گمان تک نہ ہوگا_(۲۳۸)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''تقوی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ وہ تمام خوبیوں اور خیرات کا جامع ہے_ سوا_ے تقوی کے کوئی اچھائی وجود نہیں رکھتی جو اچھائی تقوی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے تقوی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی خواہ وہ دنیا کی اچھائی اور نیکی ہو یا آخرت کی_(۲۳۹)

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر کام کی شرافت اور قیمت تقوی کے واسطے سے ہوتی ہے صرف متقی سعادت اور نجات کو حاصل کرتے ہیں_ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تحقیق سعادت اور نجات صرف متقیوں کے لئے ہے_( ۲۴۰) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خدا کے بندو_ آگاہ رہو کہ دنیا اور آخرت کی نعمتیں صرف متقی حاصل کرتے ہیں_ دنیاداروں کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرنے میں شریک ہوتے ہیں لیکن دنیاداروں کے ساتھ آخرت کی نعمتوں میں شریک نہیں ہوتے_ بہترین طریقے سے دنیا میں زندگی کرتے ہیں اور بہترین طریقے سے کھانے والی چیزوں سے

۱۲۴

فائدہ حاصل کرتے ہیں_ متقی انہیں نعمتوں سے کہ جن سے مالدار اور سرکش اورمتکبر استفادہ کرتے ہیں وہ بھی استفادہ کرتے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ زاد راہ اور منافع لیکر آخرت کے جہان کی طرف منتقل ہوتے ہیں_ دنیا میں زہد کی لذت کو حاصل کرتے ہیں اور علم رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی رحمت کے جوار میں زندگی کریں گے اور جو کچھ خدا سے چاہئیں گے دیئے جائیں گے اور ان کا لذات سے بہرور ہونا ناقص نہیں ہوگا_(۲۴۱)

بعض احادیث میں تقوی کو نفس کے پاک کرنے اور نفس کی بیماریوں کو شفا دینے والا قرار دیا گیا ہے امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں_ ''یقینا تقوی تمہارے دل کی بیماریوں کا شفا دینے والا دارو ہے اور تمہارے نابینا دل کو روشنی دینے والا ہے اور تمہارے بدن کی بیماریوں کے لئے شفا بخش ہے اور تمہارے سینے کے فساد کا اصلاح کرنے والا ہے اور تمہارے نفس کی کثافتوں کو پاک کرنے والا ہے اور تمہاری دید کے پردوں کو جلا بخشنے والا ہے اور تمہارے اندرونی اضطرابات کو آرام دینے والا اور تمہاری تاریکیوں کو روشن کردینے والا ہے_(۲۴۲)

احکام کی غرض تقوی ہے

تقوی اسلام میں پردازش اخلاقی اصل اور احکام اسلامی کی تشریع کی غرض بتلائی گئی ہے_ جیسے

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے_ '' لوگو اپنے پروردگار کی جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو خلق فرمایا ہے عبادت کرو شاید باتقوی ہوجاؤ_(۲۴۳)

نیز فرماتا ہے '' روزہ تم پر ویسے واجب ہوا ہے جیسے تم سے پہلے والوں پر واجب ہوا تھا شاید تم با تقوی ہوجاؤ_(۲۴۴)

اور فرماتا ہے کہ ''خون اور قربانیاں خدا کو نہیں پہنچتیں لیکن تمہارا تقوی خدا کو

۱۲۵

پہنچتا ہے_(۲۴۵) اور فرماتا ہے ''آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کرو اور بہترین توشہ اور زاد راہ تقوی ہے_(۲۴۶)

جیسا کہ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ بعض عبادتوں کی غرض بلکہ اصل عبادت کی غرض یہ تھی کہ لوگ اس کے بجالانے سے باتقوی ہوجائیں بلکہ اسلام کی نگاہ میں تقوی اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ تمام اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور راس بتلایا گیا ہے اور عمل بغیر تقوی کے مردود اور بے فائدہ ہوتا ہے قر آن مجید میں سے ہے کہ خداوند عالم نیک اعمال کو صرف متقیوں سے قبول کرتا ہے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا کہ '' تقوی کے حاصل کرنے میں بہت زیادہ عمل اور کوشش کر کیونکہ کوئی عمل بھی جو تقوی کے ساتھ ہو چھوٹا نہیں ہوتا اور کس طرح اسکو چھوٹا شمار کیا جائے جب کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں مورد قبول ہوتا ہے جب کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ خدا متقیوں سے قبول کرتا ہے_(۲۴۷) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی کا رونا تجھے دھوکا نہ دے کیونکہ تقوی دل میں ہوتا ہے_(۲۴۸)

قرآن میں ہے کہ '' اگر صبر کرو اور تقوی رکھتے ہو تو یہ بہت بڑا کام ہے_(۲۴۹)

جیسا کہ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ قرآن اور احادیث میں تقوی ایک اصلی ارزشمند اور آخرت کے لئے بہترین زاد راہ اور توشہ ہے اور دل کی اہم بیماریوں کے لئے شفا دینے والا دارو ہے اور نفس کو پاک کرنے کا بہت بڑا وسیلہ بتلایا گیا ہے اس کی اہمیت کے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ احکام الہی کے جعل اور تشریع کی غرض اور ہدف قرر پایا ہے_ اب ہم تقوی کی وضاحت کرتے ہیں_

تقوی کی تعریف

عام طور سے تقوی کو ایک منفی یعنی گناہوں سے پرہیز اور معصیت سے اجتناب

۱۲۶

بتلایا جاتا ہے اور یوں گمان کیا جاتا ہے کہ امور اجتماعی میں شریک کرنے کی وجہ سے تقوی کو محفوظ رکھنا ایک بہت مشکل کام بلکہ ایک نہ ہونے والا کام ہے کیونکہ نفس کی سرشت میں گناہوں کی طرف میلان ہونا ہوتا ہے لہذا یا تقوی کو اپنائے اور پرہیزگار بنے یا اجتماعی کاموں سے کنارہ کشی کرے یا اجتماعی ذمہ داریوں کو عہدے پرلے اور تقوی کو چھوڑے کیونکہ ان دونوں کو اکٹھا ممکن نہیں ہوتا_ اس فکر اور نظریہ کا لازمہ یہ ہے کہ جتنا انسان گوشہ نشین ہوگا اتنا زیادہ تقوی رکھنے والا بنے گا_ لیکن بعض آیات اور احادیث اور نہج البلاغہ میں تقوی کو ایک مثبت پر ارزش عمل بتلایا گیا ہے نہ منفی_

تقوی کے معنی صرف گناہوں کا ترک کردینا نہیں ہے بلکہ تقوی ایک اندرونی طاقت اور ضبط نفس کی قدرت ہے جو نفس کو دائمی ریاضت میں رکھنے اور پے در پے عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور نفس کو اتنا طاقتور بنا دیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی کے احکام کا مطیع اور فرمانبردار ہوجاتا ہے اور نفس اتنا قوی ہوجاتا ہے کہ نفس غیر شرعی خواہشات کا مقابلہ کرتا ہے اور ثابت قدم ہوجاتا ہے_ لغت میں بھی تقوی اسی معنی میں آیا ہے_

تقوی کا مصدر وقایہ ہے کہ جس کے معنی حفظ اور نگاہداری کے ہیں تقوی یعنی اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنے نفس پر کنٹرول کرنا ہوتا ہے_ تقوی ا یک اثباتی صفت ہے جو حفاظت دیتی ہے اور یہ منفی اور سلبی صفت نہیں ہے_ تقوی یعنی انسان کا عہد کرلینا کہ احکام شرعیت اور دستور الہی کی اطاعت کرونگا_ ہر گناہ کے ترک کا نام تقوی نہیں ہے بلکہ ترک گناہ اور کنٹرول کرنے کی قدرت اور طاقت اور نفس کو مضبوط رکھنے کی سرشت اور ملکہ کا نام تقوی رکھا جاتا ہے_ تقوی آخرت کے لئے بہترین زاد راہ ہے زاد راہ اور توشہ ایک مثبت چیز ہے منفی اور سلبی صفت نہیں ہے_ امیرالمومنین علیہ السلام کے چند جملات پر غور کیجئے_ آپ فرماتے _ ''اے خدا کے بندو میں تمہیں تقوی کی سفارش کرتا ہوں_ کیونکہ یہ نفس کے لئے ایک مہار ہے کہ جو نفس کو اچھائیوں

۱۲۷

کی طرف کھینچ لے جاتا ہے_ تقوی کے مضبوط رسے کو پکڑے رکھو اور اس کے حقائق کی طرف رجوع کرو تا کہ تمہیں آرام اور رفاہیت وسیع اور عریض وطن مضبوط پناہ گا اور عزت کے منازل کی طرف لے جائے_(۲۵۰)

آپ فرماتے ہیں ''یقینا'' تقوی آج کے زمانے میں تمہارے لئے پناہ گا اور ڈھال ہے اور کل قیامت کے دن کے لئے جنت کی طرف لے جانے کا راستہ ہے ایسا واضح راستہ ہے کہ جس پر چلنے والا فائدہ حاصل کرتا ہے اور ایسی ودیعت ہے کہ جو اسے پکڑنے والے کی حفاظت کرتا ہے_(۲۵۱)

اے خدا کے بندو جان لو کہ تقوی ایک مضبوط پناہ گاہ ہے_ فسق اور فجور اور بے تقوائی ایک ایسا گھر ہے کہ جس کی بنیاد کمزور ہے اور رہنے والے کی حفاظت نہیںکرسکتا اور اس میں پناہ لینے والے کو محفوظ نہیں کرسکتا اور جان لو کہ تقوی کے ذریعے گناہوں کی زہر اور ڈنگ کو کاٹا جاسکتا ہے_ اے خدا کے بندو، تقوی خدا کے اولیاء کو گناہوں سے روکے رکھتا ہے اور خدا کاخوف ان کے دلوں میں اس طرح بٹھا دیتا ہے کہ وہ رات کو عبادت اور اللہ تعالی سے راز و نیاز میں مشغول رہ کر بیدار رہتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں_ اور جان لو کہ تقوی تمہارے لئے اس دنیا میں پناہ گاہ اور مرنے کے بعد سعادت ہے_ جیسے کہ آپ نے ان احادیث کا ملاحظہ کیا ہے ان میں تقوی کو ایک با قیمت اور اہم اور ایک مثبت طاقت اور قدرت بتلایا گیا ہے کہ جو انسان کو روکے رکھتا ہے اور اسکی حفاظت کرتا ہے ایک ایسی طاقت جو کنٹرول کرتی ہے_ بتلایا گیا ہے کہ تقوی حیوان کی مہار اور لگام کی طرح ہے کہ جس کے ذریعے سے انسان کے پرکشش نفس اور اس کی خواہشات پر کنٹرول کیا جاتا ہے اور اسے اعتدال پر رکھا جانا ہے_ تقوی ایک مضبوط قلعہ کی مانند ہے کہ انسان کو داخلی دشمنوں یعنی ہوی اور ہوس اور غیر شرعی اور شیطانی خواہشت سے محفوظ رکھتا ہے_ تقوی ڈھال کی مانند ہے کہ جو شیطانی کے زہر آلودہ تیر اور اس کے ضربات کو روکتا ہے_ تقوی انسان کو ہوی و ہوس اور خواہشات نفس کی قید سے آزادی دلواتا ہے اور حرص اور طمع حسد اور

۱۲۸

شہوت غصب اور بخل و غیرہ کی رسیوں کو انسان کی گردن سے اتار پھینکتا ہے_ تقوی محدود ہوجانے کو نہیں کہتے بلکہ نفس کے مالک اور اس پر کنٹرول کرنے کا نام ہے_ انسان کو عزت اور شرافت قدرت اور شخصیت اور مضبوطی دیتا ہے_ دل کو افکار شیطانی سے محفوظ کرتا ہے اور فرشتوں کے نازل ہونے اور انوار قدسی الہی کے شامل ہونے کے لئے آمادہ کرتا ہے اور اعصاب کو طفیان اور آرم دیتا ہے_ تقوی انسان کے لئے مثل ایک گھر اور لباس کے ہے کہ جو حوادث کی گرمی اور سردی محفوظ رکھتا ہے خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہےلباس التقوی ذلک خیر ) ۲۵۲) تقوی ایک قیمتی وجود رکھتا ہے اور آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ ہے یہ ایک منفی صفت نہیں ہے البتہ قرآن اور حدیث میں تقوی خوف اور گناہ کے ترک کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے لیکن یہ تقوی کے لوازمات میں سے ہیں نہ یہ کہ تقوی کا معنی یہی ہے_

تقوی اور گوشہ نشینی

گوشہ نشینی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے قبول نہ کرنے کو نہ صرف تقوی کی علامتوں سے شمار نہیں کیا جائیگا بلکہ بعض موارد میں ایسا کرنا تقوی کے خلاف بھی ہوگا_ اسلام میں گوشہ نشینی اور رہبانیت نہیں ہے_ اسلام انسان کو گناہ سے فرار کرنے کے لئے گوشہ نشینی اور مشاغل کے ترک کرنے کی سفارش نہیں کرتا بلکہ انسان سے چاہتا ہے کہ اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول کرے اور امور اجتماعی میں شریک ہو اور پھر اسی حالت میں تقوی کے ذریعے اپنے نفس پر کنٹرول کرے اور اسے قابو میں رکھے اور گناہ اور کجروی سے اپنے آپ کو روکے رکھے_

اسلام یہ نہیں کہتا کہ شرعی منصب اور عہدے کو قبول نہ کرو بلکہ اسلام کہتا ہے کہ اسے قبول کرو اور اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اللہ تعالی کے بندوں کی خدمت کرو اور صرف منصب اور مقام کا غلام بن کر نہ رہ جاؤ_ اور اپنے منصب اور عہدے کو نفسانی

۱۲۹

خواہشات اور شہوات کے لئے وسیلہ قرار نہ دو اور حق کے راستے سے نہ ہٹو_ اسلام نہیں کہتا کہ تقوی حاصل کرنے کے لئے کام اور کار و کسب سے ہاتھ اٹھا لو اور حلال رزق طلب کرنے کے لئے کوشش نہ کرو بلکہ اسلام کہتا ہے کہ دنیا کے قیدی اور غلام نہ بنو_اسلام نہیں کہتا کہ دنیا کو ترک کردے اور عبادت میں مشغول ہوجانے کے لئے گوشہ نشین ہوجا بلکہ اسلام کہتا ہے کہ دنیا میں زندگی کر اور اس کے آباد کرنے کے لئے کوشش کر لیکن دنیا دار اور اس کا فریفتہ اور عاشق نہ بن بلکہ دنیا کو اللہ تعالی سے تقرب اور سیر و سلوک کے لئے قرار دے اسلام میں تقوی سے مراد یہی ہے کہ جسے اسلام نے گراں بہا اور بہترین خصلت بتلایا ہے_

تقوی اور بصیرت

قرآن اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی انسان کو صحیح بصیرت اور بینش دیتا ہے تا کہ دنیا اور آخرت کی واقعی مصلحتوں کو معلوم کر سکے اور اس پر عمل کرے جیسے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے _ '' اے ایمان والو اگر تقوی کو پیشہ قرار دو تو خدا تمہارے لئے فرقان قرار دے گا_(۲۵۳) یعنی بصیرت کی دید اور شناخت عطا کرے گا تا کہ سعادت اور بدبختی کی مصلحتیں اور مفسدوں کو پہنچان سکو_ ایک اور آیت میں ہے کہ ''صاحب تقوی بنو تا کہ علوم کو تم پر نازل کیا جائے اور اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھتا ہے_(۲۵۴)

گرچہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نازل ہوا ہے لیکن صرف متقی ہیں جو ہدایت دیئے جاتے ہیں اور نصیحت حاصل کرتے ہیں_

اسی لئے قرآن لوگوں کے لئے بیان ہے اور اہل تقوی کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے_(۲۵۵)

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' تقوی دل کی بیماریوں کے لئے شفا دینے

۱۳۰

والی دواء ہے اور دل کی آنکھ کے لئے بینائی کا سبب ہے_(۲۵۶)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر شیطان کا آدم کی اولاد کے دل کے اردگر چکر لگانا نہ ہوتا تو وہ علم ملکوت کا مشاہدہ کر لیتے_(۲۵۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ '' دل کے فاسد ہوجانے کے لئے گناہ کے بجالانے سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی_ دل گناہ کے ساتھ جنگ میں واقع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ گناہ اس پر غلبہ کر لیتا ہے اور اسے اوپر نیچے کردیتا ہے یعنی پچھاڑ دیتا ہے_(۲۵۸)

اس قسم کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی عقل کی بینائی اور بصیرت کا سبب بنتا ہے اور سمجھنے اور سوچنے کی قوت کو طاقت ور بناتا ہے اور عقل ایک گوہر گران بہا ہے جو انسان کے وجود میں رکھدیا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعے مصالح اور مفاسد خیرات اور شرور سعادت اور شقاوت کے اسباب خلاصہ جو ہونا چاہئے اور جو نہ ہونا چاہئے کو اچھی طرح پہچان سکے اور تمیز دے سکے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' بدن میں عقل حق کارسول ہے_(۲۵۹)

جی ہاں اس طرح کی رسالت اور پیغام عقل کے کندھے پر ڈال دی گئی ہوئی ہے اور وہ اس کے بجالانے کی قدرت بھی رکھتا ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ جسم کی تمام طاقتیں اور غرائز عقل کی حکومت کو قبول کر لیں اور اس کی مخالفت اور اس کی احکام کی خلاف ورزی نہ کریں_ خواہشات اور ہوس اور ہوس عقل کے دشمن ہیں عقل کو ٹھیک کام انجام نہیں دینے دیتے_(۲۶۰)

نیز آپ(ص) نے فرمایا '' جو شخص اپنے نفس کی خواہشات کا مالک نہیں ہوتا وہ عقل کا مالک بھی نہیں ہوگا_(۲۶۱)

آپ نے فرمایا ہے کہ '' خودبینی اور خودپسندی عجب اور تکبر عقل کو فاسد کردیتے ہیں_(۲۶۲)

آپ نے فرمایا ہے کہ '' لجباز اور ضدی انسان صحیح فکر اور فیصلہ نہیں کر سکتا_(۲۶۳)

۱۳۱

یہ تو درست ہے کہ بدن پر حکومت اور اس کو چلانا عقل کے سپرد کیا گیا ہے اور عقل اس کی طاقت بھی رکھتا ہے لیکن خواہشات اور غرائز نفسانی اس کے لئے بہت بڑی مانع اور رکاوٹ ہیں اگر ایک غریزہ یا تمام غرائز اعتدال کی حالت سے خارج ہو جائیں اور بغاوت اور طغیان کرلیں اور کام نہ کردیں تو پھر عقل کیسے اپنی ذمہ داریوں کے انجام دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے_ اس طرح کا انسان عقل تو رکھتا ہے لیکن بغیر سوچ اور فکر والا_ چراغ موجود ہے لیکن خواہشات اور شہوات اور غضب نے سیاہ بادل یا مہہ کی طرح اسے چھپا رکھا ہے اس کے نور کو بجھا دیا ہے اور واقعات کے معلوم کرنے سے روک دیا ہے_ ایک شہوت پرست انسان کی طرح اپنی واقعی مصلحتوں کو پہچان سکتا ہے اور شہوت کے طغیان اور سرکشی کی طاقت کو قابو کر سکتا ہے؟ خودپسند اور خودبین انسان کس طرح اپنے عیوب کو پہچان سکتا ہے تا کہ ان کے درست کرنے کی فکر میں جائے؟ اسی طرح دوسری بری صفات جیسے غصے حسد طمع کینہ پروری تعصب اور ضدبازی مال اور جاہ و جلال کا منصب مقام ریاست اور عہدہ ان تمام کو کس طرح وہ اپنے آپ سے دور کر سکتا ہے؟ اگر ان میں سے ایک یا زیادہ نفس پر مسلط ہوجائیں تو پھر وہ عقل عملی کو واقعات کے پہچاننے سے روک دیتی ہیں اور اگر عقل ان کی خلاف عمل کرنا بھی چاہئے تو پھر اس کے سامنے رکاوئیں کھڑی کر دیتی ہیں اور داد و فریاد شروع کر دیتی ہیں اور عقل کے محیط کو تاریک کر دیتی ہیں اور اسے اپنی ذمہ داری کے انجام دینے سے کمزور کر دیتی ہیں جو انسان ہوی اور ہوس اور خواہشات کا قیدی بن جائے تو پھر وہ وعظ اور نصیحت سے بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے گا بلکہ قرآن اور مواعظ اس کے دل کی قساوت کو اور زیادہ کردیں گے لہذا تقوی کو بصیرت روشن بینی اور وظیفہ شناسی کا بہترین اور موثر ترین عامل شمار کیا جا سکتا ہے_

آخر میں اس بات کی یاد دھانی ضروری اور لازم ہے کہ تقوی عقل عملی اور ذمہ داریوں کی پہچان اور یہ جاننا کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے_ بصیرت کی زیادتی کا موجب ہے نہ صرف عقل کے حقائق کو جاننے اور پہچاننے کے لئے کے جسے اصطلاحی

۱۳۲

لحاظ سے عقل نظری کہا جا تا ہے کیونکہ اس طرح نہیں ہوتا کہ جو ا نسان تقوی نہیں رکھتا وہ ریاضی اور طبعی کے مسائل سمجھنے سے عاجز رہتا ہے گرچہ تقوی سمجھنے اور ہوش اور فکر کے لئے بھی ایک حد تک موثر واقع ہوتا ہے_

تقوی اور مشکلات پر قابو پانا

تقوی کے آثار میں سے ایک اہم اثر زندگی کی مشکلات اور سختیوں پر غلبہ حاصل کرلینا ہے_ جو بھی تقوی پر عمل کرے گا خداوند عالم اس کی مشکلات کے دور ہونے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا اور ایسے راستے سے کہ جس کا اسے گمان تک نہ ہو گا اسے روزی فراہم کردے گ)۲۶۴) خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جس نے تقوی پر عمل کیا خداوند عالم اس کے کام آسان کر دیتا ہے_(۲۶۵) '' امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جو شخص تقوی پر عمل کرے گا تو اس کی سختیاں اور مشکلیں جب کہ نزدیک تھا کہ اس پر وارد ہو جائیں دور ہوجائیں گی تلخیاں اس کے لئے شیرین ہوجائیں گی مشکلات کی لہریں اس کے سامنے پھٹ جائیں گی اور سخت سے سخت اور دردناک کام اس کے لئے آسان ہوجائیں گے_(۲۶۶) ''

اس قسم کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات کے حل ہونے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے میں تقوی انسان کی مدد کرتا ہے_ اب دیکھا جائے کہ تقوی ان موارد میں کیا تاثیر کر سکتا ہے_ زندگی کی سختیوں اور مشکلات کو بطور کلی دو گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے _ پہلا گروہ_ وہ مشکلات کہ جن کا حل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے جیسے کسی عضو کا نقص اور ایسی بیماریوں میں مبتلا ہونا کہ جو لا علاج ہیں اور ایسے خطرات کہ جن کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی اور اسی طرح کی دوسری مشکلات کہ جنہیں روکنا اور دور کرنا انسان کے امکان اور قدرت سے باہر ہے_

دوسرا گروہ_ ایسی مشکلات اور سختیاں کہ جن کے دور کرنے اور پیش بینی کرنے میں

۱۳۳

ہمارا ارادہ موثر واقع ہو سکتا ہے _ جیسے اکثر نفسیاتی اور جسمی گھریلو اور اجتماعی اور کار و کسب کی بیماریاں و غیرہ_

تقوی ان دونوں مشکلات کے حل میں ایک مہم کردار ادا کر سکتا ہے_ گرچہ پہلے مشکلات کے گروہ کو روکنا اور ان کو دور کرنا ہمارے لئے عملی طور سے ممکن نہیں ہوتا لیکن ان مشکلات کے ساتھ کس طرح عمل کیا جائے یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے_ وہ انسان جو با تقوی ہے اور اپنے نفس کی حفاظت کے لئے پوری طرح تسلط رکھتا ہے اور دنیا کے مشکلات اور خود دنیا کو فانی اور ختم خونے والا سمجھتا ہے اور آخرت کی زندگی کو حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی سمجھتا ہے_

اور اللہ تعالی کی ذات لایزال کی قدرت پر اعتماد کرتا ہے_ دنیا کے واقعات اور مشکلات کو معمولی اور وقتی جانتا ہے اور ان پر جزع اور فزع نہیں کرتا تو ایسا انسان اللہ تعالی کی مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا_ تقوی والا انسان آخرت کے جہان اور خدا سے مانوس اور عشق کرتا ہے ایسے انسان کے لئے گذر جانے والے مشکلات اور واقعات اس کی روح اور دل کے سکون کو مضطرب اور پریشان نہیں کر سکیں گے کیونکہ خود مشکلات اور حوادث اور مصائب درد نہیں لاتیں بلکہ نفس کا انہیں برداشت اور تحمل نہ کر سکنا_ انسان کیلئے ناراحتی اور نا آرامی کو فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے تقوی انسان کے لئے زیادہ مدد کر سکتا ہے_

دوسرا گروہ_ اکثر مشکلات اور سختیاں کہ جو انسان کی زندگی کو تلخ کردیتی ہیں ہماری بری عادات اور انسانی ہوی اور ہوس اور خواہشات کی وجہ سے ہم پر وارد ہوتی ہیں اور یہی بری صفات ان کا سبب بنتی ہیں_ گھریلو زندگی کے اکثر مشکلات کو شوہر یا بیوی یا دونوں خواہشات نفسانی پر مسلط نہ ہونے کی وجہ سے وجود میں لاتے ہیں اور اس آگ میں جلتے رہتے ہیں_

جسے خود انہوں نے جلایا ہے اور پھر داد و قیل جزع اور فزع زد خورد کرتے ہیں_

۱۳۴

دوسری مشکلات بھی اکثر اسی وجہ سے وجود میں آتی ہیں_ برا اخلاق جیسے حسد _ کینہ پروری، انتقام لینا، ضدبازی، تعصب، خودپسندی، خودبینی ، طمع، بلندپروازی، تکبر و غیرہ وہ بری صفات ہیں کہ انسان کے لئے مشکلات اور مصائب غم اور غصہ وجود میں لاتی ہیں اور بہترین اور شیرین زندگی کو تلخ اور بے مزہ کر دیتی ہیں _ ایسا شخص اتنا خواہشات نفسانی کا قیدی ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے درد اور اس کی دواء کے پہچاننے سے عاجز ہوجاتا ہے_ سب سے بہتر چیز جو ان حوادث کے واقع ہونے کو روک سکتی ہے وہی تقوی ہے اور اپنے نفس پر کنٹرول کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہے_ متقی انسان کے لئے اس طرح کے دردناک واقعات بالکل پیش ہی نہیں آتے وہ سکون قلب اور آرامش سے اپنے زندگی کو ادامہ دیتا ہے اور آخرت کے لئے توشہ ور زاد راہ حاصل کرتا ہے _ دنیا کی محبت ان تمام مصائب اور گرفتاریوں کا سرچشمہ ہوتی ہے لیکن متقی انسان دنیا اور مافیہا کا عاشق اور فریفتہ نہیں ہوتا تا کہ اس کے نہ ہونے سے رنج اور تکلیف کو محسوس کرے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دنیا کی محبت سے پرہیز کر کیونکہ یہ دنیا کی ہر مصیبت کی جڑ اور ہر تکلیف کی کان ہے_(۲۶۷)

تقوی اور آزادی

ممکن ہے کہ کوئی گمان کرے کہ تقوی تو آزادی کو سلب کر لیتا ہے اور ایک محدودیت اور قید و بند وجود میں لے آتا ہے اور زندگی کو سخت اور مشکل بنا دیتا ہے لیکن اسلام اس گمان اور عقیدہ کو قبول نہیں کرتا اور رد کر دیتا ہے بلکہ اس کے بر عکس تقوی کو آزادی اور آرام اور عزت اور بزرگواری کا سبب قرار دیتا ہے اور انسان بغیر تقوی والے کو قید اور غلام شمار کرتا ہے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تقوی ہدایت اور استقامت اور آخرت کے زاد راہ اور توشہ کی چابی ہے_ تقوی غلامی سے آزادی اور ہلاکت سے نجات پانے کا وسیلہ ہے_(۲۶۸)

۱۳۵

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اسلام سے بالاتر کوئی شرافت نہیں ہے_ تقوی سے کوئی بالاتر عزت نہیں ہے_ اور سب سے زیادہ قوی تقوی سے اور کوئی پناہ گاہ نہیں_(۶۶۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جو شخص تقوی کو وسیلہ بنائے تو وہ سختیاں اور دشواریاں جو نزدیک آچکی ہوں گی اس سے دور ہوجائیں گی تلخ کام اس کے لئے شیریں ہوجائیں گے_ گرفتاریوں کی سخت لہریں اس سے دور ہوجائیں گی اور سختیاں اس کے لئے آسان ہوجائیں گی_(۲۷۰)

ان احادیث میں تقوی کو مشکلات کے حل کرنے اور انسان کی عزت اور آزادی کا سبب مصائب اور گرفتاریوں سے نجات زندگی کی دشواریوں اور تلخیوں کے لئے بہترین پناہ گاہ بتلایا گیا ہے_ لہذا تقوی انسان کے لئے محدودیت اور آزادی سلب کرنے کا موجب نہیں ہوتی بلکہ انسان کی شخصیت کو زندہ کرتا ہے اور تقوی، شہوت ، غضب، انتقام جوئی، کینہ پروری، خودخواہی، خودپسندی، تعصب، لج بازی، طمع، دولت پرستی ، خودپرستی، شہوت پرستی، مقام و منصب پرستی، شکم پرستی، شہرت پرستی سے آزاد کرتا ہے انسان کی شخصیت اور عقل کو قوی کرتا ہے تا کہ وہ غرائز اور طغیان کرنے والی قوتوں پر غالب آجائے اور انہیں اعتدال پر رکھے اور واقعی مصلحتوں کے لحاظ سے ہدایت اور رہبری کرے اور افراط اور تفریط کے کاموں سے رکاوٹ بنے_

قرآن مجید فرماتا ہے'' ان لوگوں کو دیکھتا ہے کہ جنہوں نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے اس کے باوجود جانتا ہے کہ خدا نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر تاریکی کے پردے ڈالے گئے ہیں پس کون اسے خدا کے بعد ہدایت کرے گا؟ کیا وہ نصیحت حاصل نہیں کرتا؟(۲۷۱)

۱۳۶

درست ہے کہ جو شخص اپنی نفس خواہشات کے سامنے سر تسلیم کر چکا ہے اور ان کے حاصل کرنے میں کسی برائی اور قباحت کی پروا نہیں کرتا اور دیوانوں کی طرح اس کی تلاش اور کوشش کرتا ہے اور عقل کی بھلائی آواز کو نہیں سنتا اور پیغمبروں کی راہنمائی پر کان نہیں رھرتا ایسا شخص یقینا خواہشات نفس کا قیدی اور غلام اور نوکر اور مطیع ہے_ نفس کی خواہشات نے انسان کی شخصیت اور گوہر نایاب کو جو عقل ہے اسے مغلوب کر رکھا ہے اور اپنے دام میں پھنسا لیا ہے ایسے شخص کے لئے آزاد ہونے طور آزادی حاصل کرنے کے لئے تقوی کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے لہذا تقوی محدود نہیں کرتابلکہ انسان کو آزاد بخشتا ہے_

تقوی اور بیماریوں کا علاج

یہ مطلب پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ برے اخلاق جیسے حسد ، بغض، انتقام جوئی، عیب جوئی، غضب، تعصب، طمع، خودبینی، تکبر، خوف، بے آرادگی، وسوسہ و غیرہ یہ تمام نفسانی بیماریاں ہیں ان مرضوں میں مبتلا انسان مجازی طور سے نہیں بلکہ حقیقی لحاظ سے بیمار ہے اور یہ مطلب بھی علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ نفس اور جسم میں فقط مضبوط ربط اور اتصال ہی برقرار نہیں ہے بلکہ یہ دونوں متحد ہیں اور اسی ربط اور اتصال سے ایک دوسرے پر اثر انداز اور متاثر ہوتے ہیں_ جسمانی بیماریاں نفس انسان کو ناراحت اور پریشان کرتی ہیں اس کے بر عکس روحانی اور نفسانی بیماریاں جیسے معدے اور انتڑیوں میں زخم اور ورم اور بد ہضمی اور غذا کا کھٹا پن ہوجانا سر اور دل کا درد ممکن ہے کہ وہ بھی برے اخلاق جیسے حسد_ بغض اور کینہ طمع اور خودخواہی اور بلند پروازی سے ہی وجود میں آجائیں_ مشاہدہ میں آیا ہے کہ مضر اشیاء کی عادت شہوات رانی میں افراط اور زیادہ روی کتنی خطرناک بیماریوں کو موجود کر دیتی ہیں جیسے کہ پہلے گذر چکا ہے کہ نفسانی بیماریوں کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے تقوی لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ

۱۳۷

انسانی کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں اور ان سے سلامتی اور صحت میں تقوی بہت ہی زیادہ تاثیر کرتا ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے تقوی کے بارے میں فرمایا ہے کہ '' تقوی تمہارے جسموں کی بیماریوں کی دواء ہے اور تمہارے فاسد دلوں کی اصلاح کرتا ہے اور تمہارے نفوس کی کثافتوں کو پاک کرتا ہے؟(۲۷۲)

۱۳۸

متقیوں کے اوصاف

اگر تقوی کو بہتر پہچاننا چاہئیں اور متقین کی صفات اور علامتوں سے بہتر واقف ہونا چاہئیں تو ضروری ہے کہ ہمام کے خطبے کا جو نہج البلاغہ میں سے اس کا ترجمہ کر دیں_

ہمام ایک عابد انسان اور امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھا ایک دن اس نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا یا امیر المومنین_ آپ میرے لئے متقین کی اس طرح صفات بیان فرمائیں کہ گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں_ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے جواب میں تھوڑی دیر کی اور پھر آپ نے اجمالی طور سے فرمایا اے ہمام تقوی کو اختیار کر اور نیک کام انجام دینے والا ہو جا کیونکہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ خدا متقین اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے ھمام نے آپ کے اس مختصر جواب پر اکتفا نہیں کی اور آنحضرت کو قسم دی کہ اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں_ اس وقت آنحضرت(ع) نے حمد و ثناء باری تعالی اور پیغمبر (ص) پر درود و سلام کے بعد فرمایا _ خداوند عالم نے لوگوں کو پیدا کیا جب کہ ان کی اطاعت سے بے نیاز تھا اور ان کی نافرمانیوں سے آمان اور محفوظ تھا کیونکہ گناہگاروں کی نافرمانی اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی اور فرمانبرداری کی اطاعت اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی_ ان کی روزی ان میں تقسیم کردی اور ہر آدمی کو اس کی مناسب جگہ پر برقرار کیا_ متقی دنیا میں اہل فضیلت ہیں_ گفتگو میں سچے _ لباس پہننے میں میانہ رو_

راستہ چلنے میں متواضع _ حرام کاموں سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں_ جو علم

۱۳۹

انہیں فائدہ دیتا ہے اے سنتے ہیں مصیبتوں اور گرفتاریوں میں اس طرح ہوتے ہیں جس طرح آرام اور خوشی میں ہوتے ہیں_ اگر موت ان کے لئے پہلے سے معین نہ کی جا چکی ہوتی تو ثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ایک لحظہ بھی ان کی جان ان کے بدن میں قرار نہ پاتی_ خدا ان کی نگاہ میں بہت عظیم اور بزرگ ہے اسی لئے غیر خدا ان کی نگاہ میں معمولی نظر آتا ہے_ بہشت کی نسبت اس شخص کی مانند ہیں کہ جس نے بہشت کو دیکھا ہے اور بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مندہ ہو رہا ہے_ اور جہنم کی نسبت اس شخص کی طرح ہیں کہ جس نے اسے دیکھا ہے اور اس میں عذاب پا رہا ہے_ ان کے دل محزون ہیں اور لوگ ان کے شر سے امان میں ہیں_ ان کے بدن لاغر اور ان کی ضروریات تھوڑی ہیں_ ان کے نفس عفیف اور پاک ہیں_ اس دنیا میں تھوڑے دن صبر کرتے ہیں تا کہ اس کے بعد ہمیشہ کے آرام اور خوشی میں جا پہنچیں اور یہ تجارت منفعت آور ہے جو ان کے پروردگار نے ان کے لئے فراہم کی ہے_ دنیا ان کی طرف رخ کرتی ہے لیکن وہ اس کے قبول کرنے سے روگرداغن کرتے ہیں_ دنیا انہیں اپنا قیدی بنانا چاہتی ہے لیکن وہ اپنی جان خرید لیتے ہیں اور آزاد کرا لیتے ہیں_ رات کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوجائے ہیں_ قرآن کی آیات کو سوچ اور بچار سے پڑھتے ہیں_ اس میں سوچنے اور فکر کرنے سے اپنے آپ کو غمگین اور محزون بناتے ہیں اور اسی وسیلے سے اپنے درد کی دواء ڈھونڈتے ہیں جب ایسی آیت کو پڑھتے ہیں کہ جس میں شوق دلایا گیا ہو تو وہ امید وار ہوجاتے ہیں اور اس طرح شوق میں آتے ہیں کہ گویا جزا اور ثواب کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں _ اور جب ایسی آیت کو پڑھتے ہیں کہ جس میں خوف اور ترس ہو تو دل کے کانوں سے اس کی طرف اس طرح توجہ کرتے ہیں کہ گویا دوزخ میں رہنے والوں کی آہ و زاری اور فریاد ان کے کانوں میں سنائی دے رہی ہے_ رکوع کے لئے خم ہوتے ہیں اور سجدے کے لئے اپنی پیشانیوں اور ہتھیلیوں اور پائوں اور زانوں کو زمین پر بچھا دیتے ہیں اپنے نفس کی آزادی کو خدا سے تقاضا کرتے ہیں_ جب دن ہوتا ہے تو بردبار دانا نیکوکار اور باتقوی ہیں_

۱۴۰