خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 113877
ڈاؤنلوڈ: 4650

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113877 / ڈاؤنلوڈ: 4650
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

نفس پر اعتماد نہ کرے اور اس کی بابت خوش عقیدہ نہ ہو کیونکہ نفس بہت ہی مکار اور امارہ سو ہے_ سینکڑوں حیلے بہانے سے اچھے کام کو برا اور برے کو اچھا ظاہر کرتا ہے_ انسان کو اپنے بارے اپنی ذمہ داری کو نہیں سوچنے دیتا تا کہ انسان اس پر عمل پیرا ہو سکے_ گناہ کے ارتکاب اور عبادت کے ترک کرنے کی کوئی نہ کوئی توجیہ کرے گا_ گناہوں کو فراموشی میں ڈال دے گا اور معمولی بتلائے گا_ چھوٹی عبادت کو بہت بڑا ظاہر کرے گا اور انسان کو مغرور کردے گا_ موت اور قیامت کو بھلا دے گا اور دور دراز امیدوں کو قوی قرار دے گا_ حساب کرنے کو سخت اور عمل نہ کئے جانے والی چیز بلکہ غیر ضروری ظاہر کردے گا اسی لئے انسان کو اپنے نفس کی بارے میں بدگمانی رکھتے ہوئے اس کا حساب کرنا چائے_ حساب کرنے میں بہت وقت کرنی چاہئے اور نفس اور شیطن کے تاویلات اور ہیرا پھیری کی طرف کان نہیں دھرنے چائیں_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کی یاد کے لئے کچھ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالی کے ذکر کو دنیا کے عوض قرار دے رکھا ہے لہذا ان کو کار و بار اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ گزارتے ہیں_ گناہوں کے بارے قرآن کی آیات اور احادیث غافل انسانوں کو سناتے ہیں اور عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں_ منکرات سے روکتے ہیں اور خودبھی ان سے رکتے ہیں گویا کہ انہوں نے دنیا کو طے کرلیا ہے اور آخرت میں پہنچ چکے ہیں_ انہوں نے اس دنیا کے علاوہ اور دنیا کو دیکھ لیا ہے اور گویا برزخ کے لوگوں کے حالات جو غائب ہیں ان سے آگاہ ہوچکے ہیں_ قیامت اور اس کے بارے میں جو وعدے دیئے گئے ہیں گویا ان کے سامنے صحیح موجود ہوچکے ہیں_ دنیا والوں کے لئے غیبی پردے اس طرح ہٹا دیتے ہیں کہ گویا وہ ایسی چیزوں کو دیکھ رہے ہوں کہ جن کو دنیا والے نہیں دیکھ رہے ہوتے اور ایسی چیزوں کو سن رہے ہیں کہ جنہیں دنیا والے نہیں سن رہے_ اگر تو ان کے مقامات عالیہ اور ان کی مجالس کو اپنی عقل کے سامنے مجسم کرے تو گویا وہ یوں نظر آئیں گے کہ انہوں نے اپنے روز

۱۶۱

کے اعمال نامہ کو کھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کرلینے سے فارغ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے کاموں سے کہ جن کاانہیں حکم دیا گیا ہے اور ان کے بجالانے میں انہوں نے کوتاہی برتی ہے یا جن سے انہیں روکا گیا ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کریا ہے ان تمام کی ذمہ داری اپنی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے بجالانے اور اطاعت کرنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور زار زار گریہ و بکاء کرتے ہیں اور گریہ اور بکاء سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں_ ان کو تم ہدایت کرنے ولا اور اندھیروں کے چراغ پاؤگے کہ جن کے ارد گرد ملا مکہ نے گھیرا ہوا ہے اور اللہ تعالی کی مہربانی ان پر نازل ہوچکی ہے_ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھول دیئےئے ہیں اور ان کے لئے محترم اور مکرم جگہ حاضر کی جاچکی ہے_(۳۱۱)

۱۶۲

توبہ یا نفس کو پاک و صاف کرنا

نفس کو پاک اور صاف کرنے کا بہتریں راستہ گناہوں کا نہ کرنا اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے اگر کوئی شخص گناہوں سے بالکل آلودہ نہ ہو اور نفس کی ذاتی پاکی اور صفا پر باقی رہے تو یہ اس شخص سے افضل ہے جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کر لے_ جس شخص نے گناہ کا مزہ نہیں چکھا اور اس کی عادت نہیں ڈالی یہ اس شخص کی نسبت سے جو گناہوں میں آلودہ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ گناہوں کو ترک کردے بہت آسانی سے اور بہتر طریقے سے گناہوں سے چشم پوشی کر سکتا ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''گناہ کا ترک کردینا توبہ کے طلب کرنے سے زیادہ آسان ہے_(۳۱۲)

لیکن جو انسان گناہوں سے آلودہ ہوجائیں انہیں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کا راستہ کسی وقت بھی بند نہیں ہوتا بلکہ مہربان اللہ تعالی نے گناہگاروں کے لئے توبہ کا راسنہ ہمیشہ لے لئے کھلا رکھا ہوا ہے اور ان سے چاہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف پلٹ آئیں اور توبہ کے پانی سے نفس کو گناہوں کی گندگی اور پلیدی سے دھوڈالیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' میرے ان بندوں سے کہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے کہہ دو کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا تمام گناہوں کو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۳)

۱۶۳

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' جب مومن تیرے پاس آئیں تو ان سے کہہ دے کہ تم پر سلام ہو_ خدا نے اپنے اوپر رحمت اور مہربانی لازم قرار دے دی ہے_ تم میں سے جس نے جہالت کی وجہ سے برے کام انجام دیئے اور توبہ کرلیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں اور اصلاح کرلیں تو یقینا خدا بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۴)

توبہ کی ضرورت

گمان نہیں کیا جا سکتا کہ گناہگاروں کے لئے توبہ کرنے سے کوئی اور چیز لازمی اور ضروری ہو جو شخص خدا پیغمبر قیامت ثواب عقاب حساب کتاب بہشت دوزخ پر ایمان رکھتا ہو وہ توبہ کے ضروری اور فوری ہونے میں شک و تردید نہیں کرسکتا_

ہم جو اپنے نفس سے مطلع ہیں اور اپنے گناہوں کو جانتے ہیں تو پھر توبہ کرنے سے کیوں غفلت کریں؟ کیا ہم قیامت اور حساب اور کتاب اور دوزخ کے عذاب کا یقین نہیں رکھتے؟ کیا ہم اللہ کہ اس وعدے میں کہ گناہگاروں کو جہنم کی سزا دونگا شک اور تردید رکھتے ہیں؟ انسان کا نفس گناہ کے ذریعے تاریک اور سیاہ اور پلید ہوجاتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی شکل حیوان کی شکل میں تبدیل ہوجائے پس کس طرح جرت رکھتے ہیں کہ اس طرح کے نفس کے ساتھ خدا کے حضور جائیں گے اور بہشت میں خدا کے اولیا' کے ساتھ بیٹھیں گے؟ ہم گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کے صراط مستقیم کو چھوڑ چکے ہیں اور حیوانیت کی وادی میں گر چکے ہیں_ خدا سے دور ہوگئے ہیں اور شیطن کے نزدیک ہوچکے ہیں اور پھر بھی توقع رکھتے ہیں کہ آخرت میں سعادتمند اور نجات یافتہ ہونگے اور اللہ کی بہشت میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں گے یہ کتنی لغو اور بے جا توقع ہے؟ لہذا وہ گناہگار جو اپنی سعادت کی فکر رکھتا ہے اس کے لئے سوائے توبہ اور خدا کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے_

۱۶۴

یہ بھی اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی مہربانی اور لطف اور کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہوا ہے زہر کھلایا ہوا انسان جو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہے کسی بھی وقت زہر کے نکالے جانے اور اس کے علاج میں تاخیر اور تردید کو جائز قرا ر نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے دیر کی تو وہ ہلاک ہوجائیگا جب کہ انسان کے لئے گناہ ہر زہر سے زیادہ ہلاک کرنے والا ہوتا ہے_ عام زہر انسان کی دنیاوی چند روزہ زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے تو گناہ انسان کو ہمیشہ کی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور انسان کی آخرت کی سعادت کو ختم کر دیتا ہے اگر زہر انسان کو دنیا سے جدائی دیتی ہے تو گناہ انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے_ اور اللہ تعالی سے قرب اور لقاء کے فیض سے محروم کر دیتا ہے لہذا تمہارے لئے ہر ایک چیز سے توبہ اور انابہ زیادہ ضروری اور فوری ہے کیونکہ ہماری معنوی سعادت اور زندگی اس سے وابستہ ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' مومنو تم سب اللہ تعالی کی طرف توبہ کرو_ شاید نجات حاصل کر لو_(۳۱۵)

خدا ایک اور مقام میں فرماتا ہے ''مومنو خدا کی طرف توبہ نصوح کرو شاید خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے اور تمہیں بہشت میں داخل کردے کہ جس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں_(۳۱۶)

پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ '' ہر درد کے لئے دوا ہوتی ہے_ گناہوں کے لئے استغفار اور توبہ دوا ہے_(۳۱۷)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کے دل یعنی روح میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے جب وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سفید نقطہ میں سیاہی وجود میں آجاتی ہے اگر اس نے توبہ کر لی تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے اور اگر گناہ کو پھر بار بار بجلاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہ سیاہ نقطہ زیادہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سارے سفید نقطہ پر چھا جاتا ہے اس وقت وہ انسان پھر نیکی کی طرف نہیں پلٹتا یہی مراد اللہ

۱۶۵

تعالی کے اس فرمان میں کلا بل ران عن قلوبہم بما کانوا یکسبون_(۳۱۸) یعنی ان کے دلوں پر اس کی وجہ سے کہ انہوں نے انجام دیا ہے زنگ چڑھ جاتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ '' توبہ کو دیر میں کرنا ایک قسم کا غرور اور دھوکہ ہے اور توبہ میں تاخیر کرنا ایک طرح کی پریشانی اور حیرت ہوتی ہے_ خدا کے سامنے عذر تراشنا موجب ہلاکت ہے_ گناہ پر اصرار کرنا اللہ تعالی کے عذاب اور سزا سے مامون ہونے کا احساس ہے جب کہ اللہ تعالی کے عذاب سے مامون ہونے کا احسان نقصان اٹھانے والے انسان ہی کرتے ہیں_(۳۱۹)

بہتر ہے کہ ہم ذرا اپنے آپ میں فکر کریں گذرے ہوئے گناہوں کو یاد کریں اور اپنی عاقبت کے بارے میں خوب سوچیں اور اپنے سامنے حساب و کتاب کے موقف میزان اعمال خدا قہار کے سامنے شرمندگی فرشتوں اور مخلوق کے سامنے رسوائی قیامت کی سختی دوزخ کے عذاب اللہ تعالی کی لقاء سے محرومیت کو مجسم کریں اور ایک اندرونی انقلاب کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئیں اور توبہ کے زندگی دینے والے پانی سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں کو دھوئیں اور نفس کی پلیدی اور گندگی کو دور کریں اور حتمی ارادہ کر لیں کہ گناہوں سے کنارہ کشی کریں گے_ اور آخرت کے سفر اور ذات الہی کی ملاقات کے لئے مہیا ہوجائیں گے لیکن اتنی سادگی سے شیطن ہم سے دستبردار ہونے والا نہیں ہے؟ کیا وہ توبہ اور خدا کی طرف لوٹ جانے کی اجازت دے دیگا؟

وہی شیطن جو ہمیں گناہوں کے ارتکاب کرنے پر ابھارتا ہے وہ ہمیں توبہ کرنے سے بھی مانھ ہوگا گناہوں کو معمولی اور کمتر بتلائے گا وہ گناہوں کو ہمارے ذہن سے ایسے نکل دیتا ہے کہ ہم ان تمام کو فراموش کردیتے ہیں_ مرنے اور حساب اور کتاب اور سزای فکر کو ہمارے مغز سے نکال دیتا ہے اور اس طرح ہمیں دنیا میں مشغول کردیتا ہے کہ کبھی توبہ نور استغفار کی فکر ہی نہیں کرتے اور اچانک موت سرپر آجائے گی اور پلید اور کثیف نفس کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں گے_

۱۶۶

توبہ کا قبول ہونا

اگر درست توبہ کی جائے تو وہ یقینا حق تعالی کے ہاں قبول واقع ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ تعالی کے لطف و کرم میں سے ایک لطف اور مہربانی ہے_ خداوند عالم نے ہمیں دوزخ اور جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا_ بلکہ بہشت اور سعادت کے لئے خلق فرمایا ہے پیغمبروں کو بھیجا ہے تا کہ لوگوں کو ہدایت اور سعادت کے راستے کی رہنمائی کریں اور گناہگار بندوں کو توبہ اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیں توبہ اور استغفار کا دروازہ تمام بندوں کے لئے کھلا رکھا ہوا ہ ے پیغمبر ہمیشہ ان کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اور اولیاء خدا ہمیشہ لوگوں کو توبہ کی طرف بلاتے ہیں_ خداوند عالم نے بہت سی آیات میں گناہگار بندوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان کی توبہ کو قبول کرے گا اور اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار نے سینکٹروں احادیث میں لوگوں کو خدا کی طرف پلٹ آنے اور توبہ کرنے کی طرف بلایا ہے اور انہیں امید دلائی ہے_ جیسے_

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس سے آگاہ ہے_(۳۲۰)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' میں بہت زیادہ انہیں بخشنے والا ہوں جو توبہ کریں اور ایمان لے آئیں اور نیک اعمال بجالائیں اور ہدایت پالیں_(۳۲۱)

اگر خدا کو یاد کریں اور گناہوں سے توبہ کریں_ خدا کے سوا کون ہے جو ان کے گناہوں کو بخش دے گاہ اور وہ جو اپنے برے کاموں پر اصرار نہیں کرتے اور گناہوں کی برائی سے آگاہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کی جزا بخشا جانا اور ایسے باغات ہیں کہ جن کے درمیان نہریں جاری ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہاں زندگی کریں گے اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسے جزا کتنی ہی اچھی ہے_(۳۲۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی

۱۶۷

طرح ہے کہ جسنے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو اور جو گناہوں کو بجالانے پر اصرار کرتا ہے اور زبان پر استغفار کے کلمات جاری کرتا ہے یہ مسخرہ کرنے والا ہوتا ہے_(۳۲۳) اس طرح کی آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں لہذا توبہ کے قبول کئے جائے میں کوئی شک اور تردید نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداوند عالم توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_ قرآن مجید میں فرماتا ہے '' یقینا خدا توبہ کرنے والے اور اپنے آپکو پاک کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_(۳۲۴) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کا اس بندہ سے جو توبہ کرتا ہے خوشنود ہونا اس شخص سے زیادہ ہوتا ہے کہ جو تاریک رات میں اپنے سواری کے حیوان اور زاد راہ اور توشہ کو گم کرنے کے بعد پیدا کر لے_(۳۲۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب کوئی بندہ خالص توبہ اور ہمیشہ کے لئے کرے تو خداوند عالم اسے دوست رکھتا ہے اور اللہ تعالی اس کے گناہوں کو چھپا دیتا ہے_ راوی نے عرض کی _ اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی کس طرح گناہوں کو چھپا دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہے کہ وہ دو فرشتے جو اس کے اعمال کو لکھتے ہیں اس کے گناہ کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالی اس کے اعضاء اور جوارح زمین کے نقاط کو حکم دیتا ہے کہ توبہ کرنے والے بندے کے گناہوں کو چھپا دیں ایسا شخص خدا کے سامنے جائیگا جب کہ کوئی شخص اور کوئی چیز اس کے گناہوں کی گواہ نہ ہوگی_(۳۲۶)

توبہ کیا ہے؟

گذرے ہوئے اعمال اور کردار پر ندامت اور پشیمانی کا نام توبہ ہے اور ایسے اس شخص کو توبہ کرنے والا کہا جا سکتا ہے جو واقعا اور تہہ دل سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمان اور نادم ہو_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ پشیمان اور ندامت توبہ ہے_(۳۲۷)

یہ صحیح اور درست ہے کہ خداوند عالم توبہ کو قبول کرتا اور گناہوں کو بخش دیتا ہے لیکن صرف زبان سے استغفراللہ کا لفظ کہہ دینا یا صرف پشیمانی کا اظہار کر دینا یا گریہ

۱۶۸

کر لینا دلیل نہیں ہے کہ وہ واقعا تہ دل سے توبہ کر چکا ہے بلکہ تین علامتوں کے ہونے سے حقیقی اور واقعی توبہ جانی جاتی ہے_

پہلے تو تہہ دل سے دل میں گذرے گناہوں سے بیزار اور متنفر ہوا اور اپنے نفس میں غمگین اور پشیمان اور شرمندہ ہو دوسرے حتمی ارادہ رکھتا ہو کہ پھر آئندہ گناہوں کو بجا نہیں لائے گا_

تیسرے اگر گناہ کے نتیجے میں ایسے کام انجام دیئے ہوں کہ جن کا جبران اور تدارک کیا جا سکتا ہے تو یہ حتمی ارادہ کرے کہ اس کا تدارک اور جبران کرے گا اگر اس کی گردن پر لوگوں کا حق ہو اگر کسی کا مال غضب کیا ہے یا چوری کی ہے یا تلف کر دیا ہے تو پہلی فرصت میں اس کے ادا کرنے کا حتمی ارادہ کرے اور اگر اس کے ادا کرنے سے عاجز ہے تو جس طرح بھی ہو سکے صاحب حق کو راضی کرے اور اگر کسی کی غیبت اور بدگوئی کی ہے تو اس سے حلیت اور معافی طلب کرے اور اگر کسی پر تجاوز اور ظلم و ستم کیا ہے تو اس مظلوم کو راضی کرے اور اگر مال کے حق زکواة خمس و غیرہ کو نہ دیا و تو اسے ادا کرے اور اگر نماز اور روزے اس سے قضا ہوئے ہوں تو ان کی قضا بجالائے اس طرح کرنے والے شخص کو کہا جا سکتا ہے کہ واقعا وہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہوگیا اور اس کی توبہ قبول ہوجائیگی_ لیکن جو لوگ توبہ اور استغفار کے کلمات اور الفاظ تو زبان پر جاری کرتے ہیں لیکن دل میں گناہ سے پشیمان اور شرمندہ نہیں ہوتے اور آئندہ گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھے یا ان گناہوں کو کہ جن کا تدارک اور تلافی کی جانی ہوتی ہے ان کی تلافی نہیں کرتے اس طرح کے انسانوں نے توبہ نہیں کی اور نہ ہی انہیں اپنی توبہ کے قبول ہوجانے کی امید رکھنی چاہئے گرچہ وہ دعا کی مجالس او رمحافل میں شریک ہوتے ہوں اور عاطفہ رقت کیوجہ سے متاثر ہو کر آہ و نالہ گریہ و بکاء بھی کر لیتے ہوں_

ایک شخص نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے استغفار کے کلمات زبان پر جاری کئے تو آنحضرت نے فرمایا '' تیری ماں تیری عزاء میں بیٹھے کیا جانتے ہو کہ

۱۶۹

استغفار او توبہ کیا ہے؟ توبہ کرنا بلند لوگوں کا مرتبہ ہے توبہ اور استغفار چھ چیزوں کا نام ہے_ ۱_ گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمانی ہونا_ ۲_ ہمیشہ کے لئے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا_۳_ لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا کہ جب تو خدا کے سامنے جائے تو تیری گردن پر لوگوں کا کوئی حق نہ ہو_ ۴_ پوری طرح سے متوجہ ہو کہ جس واجب کو ترک کیا ہے اسے ادا کرے_ ۵_ اپنے گناہوں پر اتنا غمناک ہو کہ وہ گوشت جو حرام کے کھانے سے بنا ہے وہ ختم ہوجائے اور تیری چمڑی تیری ہڈیوں پر چمٹ جائے اور پھر دوسرا گوشت نکل آئے گا_ ۶_ اپنے نفس کو اطاعت کرنے کی سختی اور مشقت میں ڈالے جیسے پہلے اسے نافرمانی کی لذت اور شیرینی سے لطف اندوز کیا تھا ان کاموں کے بعد تو یہ کہے کہ استغفر اللہ) ۳۲۸) تو گویا یہ پھر توبہ حقیق ہے_ گناہ شیطن اتنا مکار اور فریبی ہے کہ کبھی انسان کو توبہ کے بارے میں بھی دھوکا دے دیتا ہے_ ممکن ہے کہ کسی گنہگار نے وعظ و نصیحت یا دعا کی مجلس میں شرکت کی اور مجلس یا دعا سے متاثر ہوا اور اس کے آنسو بہنے لگے یا بلند آواز سے رونے لگا اس وقت اسے شیطن کہتا ہے کہ سبحان اللہ کیا کہنا تم میں کیسی حالت پیدا ہوئی_ بس یہی تو نے توبہ کرلی اور تو گناہوں سے پاک ہوگیا حالانکہ نہ اس کا دل گناہوں پر پشیمان ہوا ہے اور نہ اس کا آئندہ کے لئے گناہوں کے ترک کردینے کا ارادہ ہے اور نہ ہی اس نے ارادہ کیا ہے کہ لوگوں اور خدا کے حقوق کو ادا کرے گا اس طرح کا تحت تاثیر ہوجانا توبہ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی نفس کے پاک ہوجانے اور آخرت کی سعادت کا سبب بنتا ہے اس طرح کا کا شخص نہ گناہوں سے لوٹا ہے اور نہ ہی خدا کی طرف پلٹا ہے_

جن چیزوں سے توبہ کی جانی چاہئے

گناہ کیا ہے اور کس گناہ سے توبہ کرنی چاہئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالی کی طرف جانے اور سیر و سلوک سے مانع ہو اور دنیا سے علاقمند کر دے اور توبہ کرنے سے روکے رکھے وہ گناہ ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور نفس

۱۷۰

کو اس سے پاک کرنا چاہئے گناہ دو قسم پر ہوتے ہیں_ ۱_ اخلاقی گناہ_ ۲_ عملی گناہ_

۱ _ اخلاقی گناہ

برے اخلاق اور صفات نفس کو پلید اور کثیف کر دیتے ہیں اور انسانیت کے صراط مستقیم کے راستے پر چلنے اور قرب الہی تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں_ بری صفات اگر نفس میں رسوخ کر لیں اور بطور عادت اور ملکہ کے بن جائیں تو ذات کے اندر کو تبدیل اور تغیر کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کے کس درج پر رہے اسے بھی متاثر کردیتے ہیں_ اخلاقی گناہوں کو اس لحاظ سے کہ اخلاقی گناہ ہیں معمولی اور چھوٹا اور غیر اہم شمار نہیں کرنا چاہئے اور ان سے توبہ کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ نفس کو ان سے پاک کرنا ایک ضروری اور زندگی ساز کام ہے_ برے اخلاق نام ہے_ ریائ، نفاق، غضب، تکبر، خودبینی، خودپسندی، ظلم، مکر و فریب و غیبت، تہمت نگانا، چغلخوری، عیب نکالنا، وعدہ خلافی، جھوٹ حب دنیا حرص اور لالچ، بخیل ہونا حقوق والدین ادا نہ کرنا، قطع رحمی_ کفر ان نعمت ناشکری، اسراف، حسد، بدزبانی گالیاں دینا اور اس طرح کی دوسری بری صفات اور عادات

سینکٹروں روایات اور آیات ان کی مذمت اور ان سے رکنے اور ان کے آثار سے علاج کرنے اور ان کی دنیاوی اور اخری سزا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ اخلاقی کتابوں میں ان کی تشریح اور ان کے بارے میں بحث کی گئی ہے_ یہاں پر ان کے بارے میں بحث نہیں کی جا سکتی_ اخلاقی کتابوں اور احادیث میں ان کے بارے میں رجوع کیا جا سکتا ہے_

۲_ عملی گناہ

عملی گناہوں میں سے ایک چوری کرنا_ کسی کو قتل کرنا_ زناکاری، لواطت، لوگوں کا مال غصب کرنا، معاملات میں تقلب کرنا، واجب جہاد سے بھاگ جانا_

۱۷۱

امانت میں خیانت کرنا، شراب اور نشہ آور چیز کا پینا، مردار گوشت کھانا، خنزیر اور دوسرے حرام گوشت کھانا، قمار بازی، جھوٹی گواہی دینا، بے گناہوں لوگوں پر زنا کی تہمت لگانا، واجب نمازوں کو ترک کرنا، واجب روزے نہ رکھنا، حج نہ کرنا، امر بہ معروف اور نہی منکر کو ترک کرنا، نجس غذا کھانا، اور دوسرے حرام کام جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کہ جن کی تشریح اور وضاحت یہاں ممکن نہیں ہے_ یہ تو مشہور گناہ ہیں کہ جن سے انسان کو اجتناب کرنا چاہئے اور اگر بجالایا ہو تو ان سے توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرے لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جو مشہور نہیں ہیں اور انہیں گناہوں کے طور پر نہیں بتلایا گیا لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولیاء خدا کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں جیسے مستحبات کا ترک کر دینا یا مکروہات کا بجالانا بلکہ گناہ کے تصور کو او رذات الہی سے کسی غیر کی طرف توجہہ کرنے کو اور شیطانی وسوسوں کو جو انسان کو خدا سے غافل کر دیتے ہیں_ یہ تمام اولیاء خدا اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو جو ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی کے خاص منتخب بندوں کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں اور ان سے وہ توبہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس سے بالا تر ذات الہی اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو ج و ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی اور اس طرح کے نقص کے احساس سے ان کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور گریہ نالہ و زاری سے خدا کی طرف رجوع کرتے تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے_ پیغمبروں اور ائمہ اطہار کے توبہ کرنے کو اسی معنی میں لیا جانا چاہئے_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر روز ستر دفعہ استغفار کرتے تھے جبکہ آپ پر کوئی گناہ بھی نہیں تھا_(۳۲۹) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' کبھی میرے دل پر تاریکی عارض ہوتی تھی تو اس کے لئے میں ہر روز ستر دفعہ استغفار کیا کرتا تھا_(۳۳۰)

۱۷۲

دوسرا حصہ

نفس کی تکمیل اور تربیت

۱۷۳

نفس کی تکمیل اور تربیت

نفس کو پاک صاف کرنے کے بعد اس کی تکمیل اور تربیت کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے اصطلاح اخلاقی میں تحلیہ_ کہا جاتا ہے_ علوم عقلیہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا نفس ہمیشہ حرکت اور ہونے کی حالت میں ہوتا ہے_ اس کی فعلیت اس کی استعداد اور قوت سے ملی ہوئی ہے_ آہستہ آہستہ اندر کی قوت اور استعداد کو مقام فعلیت اور بروز و ظہور میں لاتا ہے اور اپنی ذات کی پرورش کرتا ہے اگر نفس نے صراط مستقیم پر حرکت کی اور چلا تو وہ آہستہ کامل کامل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر کمال تک پہنچ جاتا ہے اور اگر صراط مستقیم سے ہٹ گیا اور گمراہی کے راستے پر گامزن ہوا تو پھر بھی آہستہ آہستہ کمال انسانی سے دور ہوتا جاتا ہے اور حیوانیت کی ہولناک وادی میں جا گرتا ہے_

خدا سے قرب

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کی حرکت ایک حقیقی اور واقعی حرکت ہے نہ کہ اعتباری محض اور یہ حرکت انسان کی روح اور نفس کی ہے نہ جسم اور تن کی اور روح کا حرکت کرنا اس کا ذاتی فعل ہے نہ کہ عارضی_ اس حرکت میں انسان کا جوہر اور گوہر حرکت کرتا ہے اور متغیر ہوتا رہتا ہے_ لہذا انسان کی حرکت کا سیر اور راستہ ایک واقعی

۱۷۴

راستہ ہے نہ اعتباری اور مجازی_ لیکن اس کا مسیر اس کی متحرک ذات سے جدا نہیں ہے بلکہ متحرک اور حرکت کرنے والا نفس اپنی ذات کے باطن میں حرکت کرتا ہے اور مسیر کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے_ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حرکت کے لئے کوئی غایت غرض ہوتی ہے_ انسان کی ذات کی حرکت کی غرض اور غایت کیا ہے؟ انسان اس جہان میں کس غرض اور غایت کی طرف حرکت کرتا ہے اور اس حرکت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟

روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حرکت کی جو غرض معین کی گئی ہے وہ قرب الہی ہے لیکن تمام انسان صراط مستقیم پر نہیں چلتے اور قرب الہی تک نہیں پہنچتے _ قرآن انسانوں کو تین گروہ میں تقسیم کرتا ہے_ ۱_ اصحاب میمنہ_ ۲_ اصحاب مشئمہ_ ۳_ سابقو کے جنہیں مقربین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' تم انسان تین گروہ ہو_ اصحاب میمنہ آپ کیا جانتے ہیں کہ اصحاب میمنہ کون اشخاص ہیں؟ اصحاب مشئمہ اور آپ کیا جانتے ہیں کہ وہ کون اشخاص ہیں ؟ بہشت کی طرف سبقت کرنے والے اور اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے بھی سبقت کرتے ہیں یہ وہ اشخاص ہیں جو خدا کے مقرب بندے ہیں ور بہشت نعیم میں سکونت رکھیں گے_''(۳۳۱)

اصحاب میمنہ یعنی سعادت مند حضرات اور اصحاب مشئمہ یعنی اہل شقاوت اور بدبخت_ اور سابقین وہ حضرات ہیں کہ جو صراط مستقیم کو طے کرنے میں دوسروں پر سبقت کرتے ہیں اور قرب الہی کے مقام تک پہنچتے ہیں_ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرکت نفس کی غرض اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے_ خدا ایک اور آیت میں فرماتا ہے _ '' اگر خدا کے مقربین سے ہوا تو قیامت کے دن آرام والی بہشت اور نعمت الہی سے جو خدا کا عطیہ ہے استفادہ کرے گا_ اور اگر اصحاب یمین سے ہوا تو ان کی طرف سے تم پر سلام ہے اور اگر منکر اور گمراہوں سے ہوا تو اس پر دوزخ کا گرم پانی ڈالا جائیگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا_(۳۳۲)

۱۷۵

نیز ایک اور آیت میں ہے کہ '' اس طرح نہیں ہے کہ کافرون نے گمان کیا ہوا ہے یقینا ابرار اور نیک لوگوں کا دفتر اور کتاب (اور جو کچھ اس میں موجود ہے) علین یعنی اعلی درجات میں ہے آپ کیا جانتے ہیں کہ علین کیا چیز ہے وہ ایک کتاب ہے جو خدا کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور اللہ کے مقرب اس مقام کا مشاہدہ کریںگے_(۳۳۳) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا انتہائی کمال اور اسکے سیر اور حرکت کی غرض اور غایت اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے تا کہ انسان حرکت کر کے اس مقام تک جا پہنچیں لہذا مقربین کا گروہ سعادتمندوں میں سے ایک ممتاز گروہ ہے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جب ملائکہ نے کہا اے مریم خداوند عالم نے تجھے ایک کلمہ کی جو خداوند عالم کی طرف سے ہے یعنی عیسی بن مریم کی بشارت دی ہے کہ جو دنیا اور آخرت میں خدا کے نزدیک عزت والا اور اس کے مقرب بندوں میں سے ہے_(۳۳۴)

ان آیات اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے لائق اور ممتاز بندے کہ جنہوں نے ایمان اور نیک اعمال میں دوسروں پر سبقت حاصل کرلی ہے بہت ہی اعلی جگہ پر سکونت کریں گے کہ جسے قرب الہی کا مقام بتلایا گیا ہے اور شہداء بھی اسی مقام میں رہیں گے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو راہ خدا میں مارے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ گمان نہ کر کہ وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۳۳۵)

لہذا انسان کا انتہائی اور آخری کمال خداوند عالم کا قرب حاصل کرنا ہوتاہے_

قرب خدا کا معنی

یہ معلوم کیا جائے کہ خدا کے قرب کا مطلب اور معنی کیا ہے؟ اور کس طرح تصور کیا جائے کہ انسان خدا کے نزدیک ہوجائے_ قرب کے معنی نزدیک ہونے کے ہیں اور کسی کے نزدیک ہونے کو تین معنی میں استعمال کیا جاتا ہے_

قرب مکان

دو موجود جب ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک

۱۷۶

دوسرے کے قریب ہیں_

قرب زمانی

جب دو چیزیں ایک زمانے میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ہمعصر ہیں_ اور یہ واضح ہے کہ بندوں کا خدا کے نزدیک اور قریب ہونا ان دونوں معنی میں نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کسی مکان اور زمانے میں موجود نہیں ہوا تھا تا کہ کوئی چیز اس مکان اور زمان کے لحاظ سے خدا کے قریب اور نزدیک کہی جائے بلکہ خدا تو زمانے اور مکان کا خالق ہے اور ان پر محیط ہے

قرب مجازی

کبھی کہا جاتا ہے کہ فلان شخص فلان شخص کے قریب اور نزدیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلان کا احترام او ربط اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی خواہش کو وہ بجالاتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے انجام دے دیتا ہے اس طرح کی نزدیکی اور قرب کو مجازی اور اعتباری اور تشریفاتی قرب اور نزدیکی کہا جاتا ہے یہ قرب حقیقی نہیں ہوا کرتا بلکہ مورد احترام قرا ردینے والے شخص کو اس کا نزدیک اور قریبی مجازی لحاظ سے کہا جاتا ہے_ کیا اللہ کے بندوں کو خدا سے اس معنی کے لحاظ سے قریبی اور نزدیکی قرار ددیا جا سکتا ہے؟ آیا خدا سے قرب اس معنی میں ہو سکتا ہے یا نہ؟

یہ مطلب ٹھیک ہے کہ خدا اپنے لائق بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے علاقمند ہے اور ان کی خواہشات کو پورا بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی بندے کا قرب خدا سے اس معنی میں مراد نہیں لیا جا سکتا_ کیونکہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ علوم عقلیہ اور آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی حرکت ذاتی اور اس کا صراط مستقیم پر چلنا اور مسیر ایک امر واقعی ہے نہ کہ امر اعتباری اور تشریفاتی خدا کی طرف رجوع کرنا کہ جس کے لئے اتنی آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں ایک حقیقت فرماتا ہے_ ''اے نفس مطمئن تو اللہ تعالی کی طرف رجوع کر اس حالت میں کہ جب اللہ تعالی

۱۷۷

تجھ سے راضی ہے اور تو اللہ تعالی سے راضی ہے_(۳۳۶)

نیز فرماتا ہے ''جس نے نیک عمل انجام دیا اس کا فائدہ اسے پہنچے گا اور جس نے برا عمل انجام دیا اس کا نقصان اسے پہنچے گا اس وقت سب اللہ کی طرف پلٹ آؤ گے_(۳۳۷)

خدا فرماتا ہے '' جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کا ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے_(۳۳۸)

بہرحال اللہ تعالی کی طرف رجوع اور صراط مستقیم اور سبیل اللہ اور نفس کا کامل ہونا یہ ایسے امور ہیں جو واقعی ہیں نہ اعتباری اور تشریفاتی_ انسان کا خدا کی طرف حرکت کرنا ایک اختیاری اور جانی ہوئی حرکت ہے کہ جس کا نتیجہ مرنے کے بعد جا معلوم ہوگا_ وجود میں آنے کے بعد یہ حرکت شروع ہوجاتی ہے اور موت تک چلی جاتی ہے لہذا خدا سے قرب ایک حقیقی چیز ہے_ اللہ تعالی کے لائق بندے واقعا اللہ تعالی کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور گناہنگار اور نالائق اللہ تعالی سے دور ہوجاتے ہیں لہذا غور کرنا چاہئے کہ خدا سے قرب کے کیا معنی ہیں؟

خدا سے قرب وہ قرب نہیں کہ جو متعارف اور جانا پہچانا ہوا ہوتا ہے بلکہ ایک علیحدہ قسم ہے کہ جسے قرب کمالی اور وجودی درجے کا نام دیا جاتا ہے _ اس مطلب کے واضح ہونے کے لئے ایک تمہید کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے _ فلسفہ اسلام اور کتب فلسفہ میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وجود اور ہستی ایک حقیقت مشکک ہے کہ جس کے کئی درجات اور مراتب ہیں_ وجود بجلی کی روشنی اور نور کی طرح ہے جیسے نور کے کئی درجے زیادہ اور کم ہوتے ہیں ایک درجہ مثلا کمتر ایک ولٹ بجلی کا ہے کہ جس میں روشنی تھوڑی ہوتی ہے اور اس کے اوپر چلے جایئےہ زیادہ سے زیادہ درجے پائے جاتے ہیں یہ تمام کے تمام نور اور روشنی کے وجود ہیں اور درجات ہیں کمتر اور اعلی درجے کے درمیاں کے درجات ہیں جو سب کے سب نور ہیں ان میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے بعینہ اس طرح وجود اور ہستی کے مختلف مراتب اور

۱۷۸

درجات ہیں کہ جن میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے _ وجود کا سب سے نیچا اور پشت درجہ اسی دنیا کے وجود کا درجہ ہے کہ جسے مادہ اور طبیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وجود کا اعلی ترین درجہ اور رتبہ ذات مقدس خدا کا وجود ہے کہ جو ذات مقدس کمال وجود کے لحاظ سے غیر متناہی ہے ان دو مرتبوں اور درجوں کے درمیان وجود کے درجات اور مراتب موجود ہیں کہ جن کا آپس میں فرق شدت اور ضعف کا ہے_ یہیں سے واضح اور روشن ہوجائیگا کہ جتنا وجود قوی تر اور اس کا درجہ بالاتر اور کاملتر ہوگا وہ اسی نسبت سے ذات مقدس غیر متناہی خدائے متعال سے نزدیک تر ہوتا جائیگا اس کے برعکس وجود جتنا ضعیف تر ہوتا جائیگا اتنا ہی ذات مقدس کے وجود سے دور تر ہو جائیگا اس تمہید کے بعد بندہ کا اللہ تعالی سے قرب اور دور ہونے کا معنی واضح ہوجاتا ہے_ انسان روح کے لحاظ سے ایک مجرد حقیقت ہے جو کام کرنے کے اعتبار سے اس کا تعلق مادہ اور طبیعت سے ہے کہ جس کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور کامل سے کاملتر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے انتہائی درجے تک جا پہنچتا ہے_ حرکت کی ابتداء سے لے کر مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ ایک شخص اور حقیقت ہی ہوا کرتا ہے_ لیکن جتنا زیادہ کمال حاصل کرتا جائیگا اور وجود کے مراتب پر سیر کرے گا وہ اسی نسبت سے ذات الہی کے وجود غیر متناہی کے نزدیک ہوتا جائیگا_ انسان ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے اپنے وجود کو کامل کاملتر بنا سکتا ہے یہاں تک کہ وہ قرب الہی کے مقام تک پہنچ جائے اور منبع ہستی اور چشمہ کمال اور جمال کے فیوضات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر لے اور خود بھی بہت سے آثار کا منبع اور سرچشمہ بن جائے _ اس توضیح کے بعد واضح ہوگیا کہ انسان کی حرکت اور بلند پروازی ایک غیر متناہی مقصد کی طرف ہوتی ہے ہر آدمی اپنی کوشش اور تلاش کے ذریعے کسی نہ کسی قرب الہی کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اللہ تعالی کے قرب کے مقام کی کوئی خاص حد اور انتہا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے مقام قرب کی حقیقت کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ قرب ایک اضافی امر ہے کہ انسان جتنی زیادہ محنت اور عمل کرے گا ایک اعلی مقام اور اس سے اعلی مقام تک پہنچتا جائیگا اور ذات اللہ کے فیوضات اور برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرمند ہوتا جائیگا_

۱۷۹

کمالات انسان کی بنیاد ایمان ہے

نفس انسانی کے کمالات تک پہنچنے اور ذات الہی کے قرب کی طرف حرکت کرنے کی اساس اور بنیاد ایمان اور معرفت ہے ایک کمال تک پہنچنے والے انسان کو اپنے مقصد اور حرکت کی غرض و غایت کو اپنے سامنے واضح رکھنا چاہئے اور اسے معلوم ہو کہ وہ کدھر اور کہاں جانا چاہتا ہے اور کس طریقے اور راستے سے وہ حرکت کرے ورنہ وہ مقصد تک نہیں پہنچ سکے گا_ اللہ تعالی پر ایمان اس کی حرکت کی سمت کو بتلاتا ہے اور اس کے مقصد اور غرض کو واضح کرتا ہے_ جو لوگ خدا پر ایمان نہ رکھتے ہونگے وہ صراط مستقیم کے طے کرنے سے عاجز اور ناتواں ہونگے_ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے منحرف ہیں_(۳۳۹)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے بلکہ وہ لوگ کہ جو آخرت کے عالم پر ایمان نہیں رکھتے وہ کمال کے عالم سے دور ہوا کرتے اور صرف مادیات اور اپنے نفس کی حیوانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں_(۳۴۰) اسی لئے اس کا مقصد اور غرض سوائے مادی جہان کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ کمال کے راستے پر ہی نہیں ہے تا کہ قرب الہی تک پہنچنے کا اس کے لئے کوئی امکان باقی ہو اس کے حرکت کی سمت صرف دنیا ہے اور انسانیت کے صراط مستقیم کے مرتبے سے دور ہوچکا ہے اگر کافر کوئی اچھا کام بھی کرے تو وہ اس

۱۸۰