خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 113849
ڈاؤنلوڈ: 4650

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113849 / ڈاؤنلوڈ: 4650
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

کے نفس کے کامل ہونے اور قرب تک پہنچنے کا وسیلہ نہیں بن سکے گا اس واسطے کہ اس نے اس کام کو خدا اور اس سے قرب حاصل کرنے کے لئے انجام نہیں دیا ہے بلکہ اس کا مقصد دنیا کے لئے اسے انجام دینا تھا کہ جس کا نتیجہ اسے اسی دنیا میں مل جائے گا اور قیامت کے دن اس کے لئے کوئی اثر نہیں رکھتا ہوگا_

خدا قرآن میں فرماتا ہے _ '' ان لوگوں کی مثال جو اپنے پروردگار کے کافر ہوئے ہیں ان کے اعمال خاکستر اور راکھ کی طرح ہیں کہ جو ان میں سخت اندھیری کے خطرے سے دو چار ہوں اور ادھر ادھر بکھر جائیں اور جسے انہوں نے کمایا ہے اس کی حفاظت کرنے پر قدرت نہیں رکھتے یہی نجات کے راستے سے گمراہ اور دور ہیں_(۳۴۱)

بہرحال اعمال کی بنیاد اور اساس ایمان ہے اور ایمان ہی عمل کو ارزش اور قیمت دیتا ہے اگر مومن کی روح ایمان اور توحید سے مخلوط ہوئی تو وہ نورانی ہوجائیگی اور خدا کی طرف صعود اور رجوع کرے گی اور پھر نیک عمل بھی اس کی مدد کرے گا_ قرآن مجید میں ہے '' جو شخص عزت کا طلبکار تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ تمام عزت خدا کے پاس ہے_ توحید کا اچھا کلمہ خدا کی طرف بلند ہوتا ہے اور نیک عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_(۳۴۲)

نیک عمل انسان کی روح کو بلندی پر لے جاتا ہے اور قرب الہی کے مقام تک پہنچا دیتا ہے اور پاک و پاکیزہ اور خوشمنا زندگی اس کے لئے فراہم کرتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ایمان رکھتا ہو_ بغیر ایمان کے روح تا ریک اور ظلمانی ہے اور قرب الہی اور پاک و پاکیزہ زندگی کی لیاقت نہیں رکھتی قرآن مجید میں ہے_ ''جو بھی نیک عمل انجام دے خواہ مرد ہو یا عورت ایسی حالت میں کہ ایمان رکھتا ہو ہم اسے پاک و پاکیزہ زندگی کے لئے زندہ کریں گے_(۳۴۳)

لہذا کمال حاصل کرنے والے انسان کو پہلے اپنے ایمان کو قوی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ جتنا اس کا ایمان قوی تر ہوگا اتنا ہی وہ قوی درجات کمال کو حاصل کر سکے گا_ قرآن فرماتا ہے کہ '' خدا تم میں سے جو ایمان رکھتا ہوا سے بالا اور بلند لے جاتا

۱۸۱

ہے اور ان کو جو علم رکھتے ہوں بلند کرتا ہے خدا اس سے کو جو تم انجام دیتے ہو عالم اور آگاہ ہے_(۳۴۴)

۱۸۲

تکامل اور قرب حاصل کرنیکے اسباب

نفس کی تکمیل اور قرب خدا کئی ایک وسیلے اور ذریعے سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ان میں مہم ترین کی طرف ہم اشارہ کریں گی_

۱_ ذکر خدا_ ۲_ فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت_ ۳ _ نیک عمل_ ۴_ جہاد اور شہادت_ ۵_ احسان اور خدمت خلق خدا_ ۶_ دعا_ ۷_ روزہ_ کہ ان تمام کو یہا_ں بیان کریں گے_

پہلا وسیلہ

ذکر خدا

ذکر کو نفس کی اندرونی اور باطنی قرب الہی کی طرف حرکت کرنے کا نقطہ آغاز جانتا چاہئے_ قرب کی طرف حرکت کرنے والا انسان ذکر کے ذریعے مادی دنیا سے بالاتر ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ عالم صفا اور نورانیت میں قدم رکھتا ہے اور کامل سے کامل

۱۸۳

تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے قرب کا مقام حاصل کر لیتا ہے _ اللہ تعالی کی یاد اور ذکر عبادات کی روح اور احکام کے تشریع کرنے کی بزرگترین غرض اور غایت ہے_ اور ہر عبادت کی قدر و قیمت اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کیوجہ سے ہوا کرتی ہے_ آیات اور احادیث میں اللہ کے ذکر اور یاد کی بہت زیادہ سفارش کی گئی ہے_ جیسے قرآن مجید میں ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ اللہ کے ذکر کو بہت زیادہ کرتے ہیں_(۳۴۵)

نیز فرماتا ہے کہ '' عقلمند وہ انسان ہیں کہ جو قیام و قعود یعنی اٹھتے بیٹھتے ہوتے جاگتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمان کی خلقت میں فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں_ اے پروردگار اس عظیم خلقت کو تو نے بیہودہ اور بیکار پیدا نہیں کیا تو پاک اور پاکیزہ ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا_(۳۴۶)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور اللہ تعالی کو یاد کیا اور نماز پڑھی وہی نجات پاگیا_(۳۴۷) خدا فرماتا ہے _ اپنے پروردگار کا نام صبح اور شام لیا کرو_(۳۴۸)

نیز فرمایا هے که اپنے خالق کو زیاده یاد کیاگر اور اس کی صبح اور شام تسبیح کیالر _(۲۴۹)

اور نیز فرمایا ہے کہ '' جب تم نے نماز پڑھ لی ہو تو خدا کو قیام او رقعود اور سونے کے وقت یاد کیا کر_(۳۵۰)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کا ذکر زیادہ کرے خدا اسے بہشت میں اپنے لئے لطف و کرم کے سائے میں قرار دے گا_(۳۵۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جتنا ہو سکتا ہے خدا کو یاد کیا کرو_ دن اور رات کے ہر وقت میں_ کیونکہ خداوند عالم نے تمہیں زیادہ یاد کرنے کا حکم دیا ہے_ خدا اس مومن کو یاد کرتا ہے جو اسے یاد کرے اور جان لو کہ کوئی مومن بندہ خدا کو یاد نہیں کرتا مگر خدا بھی اسے اچھائی میں یاد کرتا ہے_(۳۵۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرمایا کہ دن اور رات میں مجھے زیادہ یا د کیا اور ذکر کرتے وقت خشوع اور

۱۸۴

خضوع کرنے والا اور مصیبت کے وقت صبر کرنے والا اور مجھے یاد کرنے کے وقت آرام اور سکون میں ہوا کر_ میری عبادت کر اور میرا شریک قرار نہ دے تم تمام کی برگشت اور لوٹنا میری طرف ہی ہوگا_ اے موسی مجھے اپنا ذخیرہ بنا اور نیک اعمال کے خزانے میرے سپرد کر_(۳۵۲)

ایک اور جگہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد اور انتہا ہوتی ہے مگر خدا کے ذکر کے لئے کوئی حد اور انتہا نہیں ہے_ خدا کی طرف سے جو واجبات ہیں _ ان کے بجالانے کی حد ہے_ رمضان المبارک کا روزہ محدود ہے_ حج بھی محدود ہے کہ جسے اس کے موسوم میں بجالانے سے ختم ہوجاتا ہے_ مگر اللہ کے ذکر کے لئے کوئی حد نہیں ہے اور اللہ تعالی نے تھوڑے ذکر کرنے پر اکتفاء نہیں کی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی_

یا ایہا الذین امنوا ذکروا اللہ ذکر کثیرا و سبحوہ بکرة و اصیلا_ ایمان والو اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو اور اس کی صبح اور شام تسبیح کیا کرو_ اللہ تعالی نے اس آیت میں ذکر کے لئے کوئی مقدار اور حد معین نہیں کی آپ نے اس کی بعد فرمایا کہ میرے والد بہت زیادہ ذکر کیا کرتے تھے_ میں آپ کے ساتھ راستے میں جا رہا تھا_ تو آپ ذکر الہی میں مشغول تھے اگر آپ کے ساتھ کھانا کھاتا تھا تو آپ ذکر الہی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ لوگوں کے ساتھ بات کر رہے ہوتے تھے تو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہ ہوتے تھے اور میں دیکھ رہا ہوتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک آپ کے دھن مبارک کے اندر ہوتی تھی تو آپ لا الہ الا اللہ فرما رہے ہوتے تھے_ صبح کی نماز کے بعد ہمیں اکٹھا بٹھا دیتے اور حکم دیتے کہ دن نکلتے تک ذکر الہی کرو_ اور پھر آپ نے فرمایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ کیا میں تمہیں بہترین عمل کی خبر نہ دوں جوہر عمل سے پہلے تمہارے درجات کو بلند کر دے ؟ اور خدا کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہو؟ اور تمہارے لئے در ہم اور دینار سے بہتر ہو یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد سے بھی افضال ہو؟ عرض

۱۸۵

کیا یا رسول اللہ _ ضرور فرمایئےآپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ذکر زیادہ کیا کرو پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک آدمی نے رسول خدا کی خدمت میں عرض کی کہ مسجد والوں میں سب سے زیادہ بہتر کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو دوسروں سے زیادہ اللہ تعالی کا ذکر کرے_ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص ذکر کرنے والی زبان رکھتا ہو اس کو دنیا اور آخرت کی خیر عطاء کی جا چکی ہے_(۳۵۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' قرآن کی تلاوت کر اور اللہ تعالی کا ذکر بہت زیادہ کر تیرے لئے ذکر کا اجز آسمان میں ہوگا اور زمین میں تیرے لئے نور ہوگا_(۳۵۵)

امام حسن علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ '' آپ نے فرمایا ہے کہ جنت کے باغات کی طرف سبقت اور جلدی کرو اصحاب نے عرض کیا کہ بہشت کے باغ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ذکر کے حلقے اور دائرے_(۳۵۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو غافل لوگوں میں اللہ تعالی کے فکر کرنے والا ہو تو گویا وہ جہاد سے بھاگنے والوں کے درمیان مجاہد ہے اور اس طرح کے مجاہد کے لئے بہشت واجب ہے_(۳۵۷)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا ہے کہ '' بہشت کہ باغوں سے استفادہ کرو_ عرض کیا گیا_ یا رسول اللہ _ بہشت کے باغ کیا ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ ذکر کی مجالس_ صبح شام اللہ کا ذکر کرو_ جو شخص چاہتا ہے کہ خدا کے ہاں اپنی قدر اور منزل معلوم کرے تو دیکھے کہ خدا کی قدر اور منزلت اس کے نزدیک کیا ہے کیونکہ خدا اپنے بندے کو اس مقام تک پہنچاتا ہے کہ جس مقام کو بندے نے خدا کے لئے اختیار کر رکھا ہے اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں سے بہترین عمل خدا کے نزدیک اور اعمال میں پاکیزہ ترین عمل جوہر ایک عمل سے بہتر ہو اور تمہارے درجات کو بلند کرے اور تمہارے لئے اس سے بہتر ہو کہ جس پر سورج چمکتا ہے وہ اللہ تعالی کا ذکر ہے_(۳۵۸)

۱۸۶

یہ آیات اور روایات کہ جو بطور نمونہ ذکر ہوتی ہیں ان سے ذکر الہی کی قدر اور قیمت کو آپ نے معلوم کر لیا ہے_ اب یہ دیکھا جائے کہ ذکر خدا سے مراد کیا ہے؟

ذکر خدا کا مراد

یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر عبادت میں سے ایک بڑی عبادت ہے اور نفس کے پاک و پاکیزہ اور اس کی تکمیل اور سیر و سلوک الی اللہ کا بہترین وسیلہ ہے اب دیکھیں کہ ذکر خدا سے جو آیات اور روایات میں وارد ہوا ہے کیا مراد ہے_ کیا اس سے مراد یہی لفظی ذکر مثل سبحان و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ یا اس سے مراد کوئی اور چیز ہے؟ کیا یہ الفاظ بغیر باطنی توجہ کے اتنا بڑا اثر رکھتے ہیں یا نہ؟

لغت میں ذکر کے معنی لفظی ذکر کے بھی آئے ہیں کہ جو زبان سے کئے جاتے ہیں اور توجہ قلب اور حضور باطن کے معنی بھی آئے ہیں احادیث میں بھی ذکر ان دو معنوں میں استعمال ہوا ہے_ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے مناجات کرتے وقت عرض کی کہ '' اے خالق_ اس کی جزاء اور ثواب کہ جس نے تجھے زبان اور دل میں یاد کیا ہو کیا ہے؟ جواب آیا اے موسی(ع) میں اسے قیامت میں عرش کے سایہ اور اپنی پناہ میں قرار دونگا_) ۳۵۹) '' اس حدیث کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں ذکر لفظی جو زبان پر ہوتا ہے اور قلبی ذکر دونوں میں استعمال ہوا ہے اور دوسری بہت سی روایات موجود ہیں کہ جن میں ذکر ان دونوں میں استعمال ہوا ہے لیکن غالبا اور اکثر ذکر کو توجہ قلبی اور حضور باطنی میں استعمال کیا گیا ہے اور حقیقی اور کامل ذکر ابھی یہی ہوا کرتا ہے_ خدا کے ذکر سے مراد ایک ایسی حالت ہے کہ خدا کو روح کے لحاظ سے دیکھ رہا ہو اور باطن میں جہاں کے خالق کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ خدا کو حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے جانے جو شخص اس طرح کی حالت میں خدا کو یاد کرتا ہو تو و ہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے گا اور واجبات کو بجالائیگا اور حرام چیزوں کو ترک کرے گا_ اس معنی کے لحاظ سے اللہ کا ذکر آسان ہے_ امام جعفر صادق

۱۸۷

علیہ السلام نے فرمایا ہے '' سب سے مشکل ترین عمل کہ جو ہر شخص سے نہیں ہو سکتا_ تین ہیں اپنے آپ سے لوگوں کو اس طرح انصاف دینا اور عدل کرنا کہ را ضی نہ ہو دوسروں کے لئے وہ چیز کہ جس کو وہ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا_

۲_ مومن بھائی کے ساتھ مال میں مساوات اور غمگساری کرنا_ ۳_ ہر حالت میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا_

ذکر سے فقط سبحا ن اللہ اور لا الہ اللہ مراد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کا ذکر یہ ہے کہ جب کوئی واجب کام سامنے آئے تو اسے بجالائے اور جب حرام کام سامنے ائے تو اسے ترک کرے_( ۳۶۰)

رسولخدا نے فرمایا کہ '' تین چیزیں ایسی ہیں جو اس امت کے لئے بلند و بالا اور مشکل ہیں_ ۱_ مومن بھائی کے ساتھ مال میں مساوات اور برابری اور غمگساری_ ۲_ اپنے آپ سے لوگوں کو انصاف دینا_ ۳_ تمام حالات میں خدا کا ذکر_ یہاں ذکر سے مراد سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ نہیں ہے بلکہ ذکر سے مراد انسان کا خدا کو اس طرح یاد کرنا ہے کہ جب کوئی حرام کام سامنے آئے تو خدا سے ڈرے اور اسے ترک کردے_(۳۶۱)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا کا سہو اور غفلت میں ذکر نہ کر اور اسے فراموش نہ کر_ اللہ تعالی کا کامل ذکر اس طرح کر کہ تیرا دل اور زبان ایک دوسرے کے ہمراہ ہوں تیرا باطن اور ظاہر ایکدوسرے کے مطابق ہو تو اللہ تعالی کا حقیقی ذکر سوائے اس حالت کے نہیں کرسکتا مگر تب جب کہ تو ذکر کی حالت میں اپنے نفس کو فراموش کردے اور بالاخرہ تو اپنے آپ کو نہ پائے_(۳۶۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے جو شخص حقیقتاً اللہ تعالی کی یاد میں ہو گاہ وہ اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہوگا جو شخص اللہ سے غافل ہوگا وہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی کرے گا_ اللہ تعالی کی اطاعت ہدایت کی علامت ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی گمراہی کی نشانی ہے_ ذکر اور غفلت معصیت اور اطاعت کی بنیاد میں ہے_ ''

لہذا اپنے دل کو قبلہ قرار دے اور زبان کو سوائے دل کے حکم اور عقل اور

۱۸۸

رضا الہی کی موافقت کے حرکت نہ دے کیونکہ اللہ تیرے باطن ظاہر سے آگاہ ہے اس شخص کی طرح ہو کہ جس کی روح قبض ہو رہی یا اس شخص کی طرح جو اعمال کے حساب دینے میں اللہ تعالی کے حضور کھڑا ہے_ اپنے نفس کو سوائے الہی احکام کے جو تیرے لئے بہت اہم ہیں_ یعنی اوامر اور نواہی الہی اور اس کے وعدے اور عہد کے علاوہ کسی میں مشغول نہ کر حزن اور ملال کے پانی سے اپنے دل کو دھوئے اور پاک و پاکیزہ کرے_ جب کہ خدا تجھے یاد کرتا ہے تو تو بھی خدا کو یاد کر کیونکہ خدا نے تجھے اس حالت میں یاد کیا کہ وہ تجھ سے بے نیاز ہے اسی لئے خدا کا تجھے یاد کرنا زیادہ ارزش اور قیمت رکھتا ہے اور زیادہ لذیذ اور کاملتر ہے اور تیرے یاد کرنے سے بہت پہلے ہے_

تیری اللہ تعالی کی صفت اور اس کا ذکر تیرے لئے خضوع اور حیاء اور اس کے سامنے تواضع کا موجب ہوگا اور اس کا نتیجہ اس کے فضل اور کرم کا مشاہدہ ہے اس حالت میں اگر تیری اطاعت زیادہ بھی ہوئی تو وہ اللہ تعالی کے عطاء کے مقابلے میں کم ہوگی لہذا اپنے اعمال کو صرف خدا کے لئے بجالا_ اگر اپنے خدا کے ذکر کرنے کو بڑا سمجھے تو یہ ریا اور خودپسندی جہالت اور لوگوں سے بداخلاقی اپنی عبادت کو بڑا قرار دینے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے غفلت کا موجب ہوگا_ اس طرح کا ذکر سوائے اللہ تعالی سے دور ہونے کے اور کوئی ثمر اور نتیجہ نہیں دے گا اور زمانے کے گذرجانے سے سوائے غم اور اندوہ کے کوئی اور اثر نہیں رکھے گا_ اللہ تعالی کا ذکر دو قسم پر تقسیم ہوجاتا ہے_ ایک خالص ذکر کہ جس میں دل بھی ہمراہی کر رہا ہو_ دوسرا وہ ذکر جو غیر خدا کی یاد کی نفس کردیتا ہو جیسے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تیری مدح نہیں کرسکتا تو اس طرح ہے کہ جس طرح تو نے اپنی صفت خود بیان کی ہے_

لہذا رسول خدا نے اپنے ذکر کی کوئی وقعت اور ارزش قرار نہیں دی کیونکہ اس مطلب کی طرف متوجہ تھے کہ بندے کا خدا کے ذ کر کرنے پر اللہ تعالی کا بندے کا ذکر

۱۸۹

کرنا مقدم ہے لہذا وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے کمتر ہیں وہ اپنے اللہ کے ذکر کو ناچیز اور معمولی قرار دینے کے زیادہ سزاوار ہیں لہذا جو شخص اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک اللہ اسے توفیق نہ دے اور خود بندے کو یاد نہ کرے وہ اللہ کے ذکر کرنے پر قدرت نہیں رکھے سکتا_(۳۶۳)

جیسے کہ ملاحظہ کر رہے ہیں ان روایات میں قلبی توجہ اور باطنی حضور کو ذکر کرنے کا مصداق بتلایا گیا ہے نہ صرف قلبی خطور اور بے اثر ذہنی تصور کو بلکہ باطنی حضور جو یہ اثر دکھلائے کہ جس کی علامتوں میں سے اوامر اور نواہی الہی کی اطاعت کو علامت قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ لفظی اور زبانی ذکر و اذکارش لا الہ الا اللہ سبحان اللہ الحمد و غیرہ کے اللہ کے حقیقی ذکر کا مصداق نہیں ہیں بلکہ خود یہ کلمات بھی اللہ تعالی کے ذکر کا ایک مرتبہ اور درجہ ہیں علاوہ اس کے کہ یہ اذکار بھی قلب اور دل سے پھوٹتے ہیں_

جو شخص ان لفظی اذکار کو زبان پر جاری کرتا ہے وہ بھی دل میں گرچہ کم ہی کیوں نہ ہو خدا کی طرف توجہ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا کی طرف توجہ رکھتا تھا تب ہی تو اس نے ان اذکار کو زبان پر جاری کیا ہے_ اسلام کی نگاہ میں ان کلمات اور اذکار کا کہنا بھی مطلوب ہے اور ثواب رکھتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قصد قربت سے ہوں جیسے کہ ظاہری نماز انہیں الفاظ اور حرکات کا نام ہے کہ جس کے بجالانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے گرچہ نماز کی روح قلب کا حضور اور باطنی توجہ ہے_

ذکر کے مراتب

ذکر کے لئے کئی ایک مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے کمتر مرتبہ اور درجہ لفظی اور ززبانی ذکر سے شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ انقطاع کامل اور شہود اور فتا تک جا پہنچتا ہے_

۱۹۰

پہلا درجہ

پہلے درجے میں چونکہ ذکر کرنے والا خدا کی طرف توجہ کرتا ہے اور قصد قربت سے خاص اور مخصوص زبان پر بغیر معانی سمجھے اور متوجہہ ہوئے جار ی کردیتا ہے_

دوسرا درجہ _

قصد قربت سے ذکر کرتا ہے اور ذکر کرنے کی حالت میں ان کے معانی کو بھی ذہن میں خطور دیتا ہے_

تیسرا درجہ

زبان قلب کی پیروی کرتی ہے اور ذکر کہتی ہے اس معنی میں کہ جب دل خدا کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنے باطن ذات میں ان اذکار کے معانی پر ایمان رکھتا ہے تو پھر وہ زبان کو حکم دیتا ہے کہ وہ خدا کا ذکر شروع کردے_

چوتھا درجہ

خدا کی طرف رجوع کرنے والا انسان خالق جہان کے بارے میں حضور قلبی اور توجہ کامل رکھتا ہے اور اسے حاضر اور ناظر اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے حاضر دیکھتا ہے_ خدا کی طرف رجوع کرنے والے انسان اس حالت میں درجات رکھتے ہیں اور مختلف ہوتے ہیں بعض کاملتر ہیں جتنی مقدار غیر خدا سے قطع قطع کرے گا اتنی ہی مقدار خدا سے مانوس اور اس سے علاقمند ہوگا یہاں تک کہ انقلاع کامل اور لقاء اور فتاء کی حد تک پہنچ جائیگا_ اس درجے میں خدا کی طرف رجوع کرنے والا انسان اعلی ترین درجے پر ہوتا ہے_ اس کے سامنے دنیا کے حجاب اٹھ جاتے ہیں_ اور غیر حقیقی اور مجازی علاقہ اور ربط اس نے ختم کردیئے ہوتے ہیں اور خیرات اور کمال کے مرکز سے متصل ہوجاتا ہے لہذا اس کے سامنے تمام چیزیں یہاں تک کہ وہ اپنی ذات کو کبھی

۱۹۱

چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کرتا ہے_ غیر خدا سے قطع روابط رکھتا ہے اور صرف ذات الہی سے اپنی محبت کو مختص کردیتا ہے_ سوائے خدا کے اور کوئی کمال نہیں دیکھتا تا کہ اس سے دل کو لگائے اور وابستہ کرے کسی کو مونس نہیں دیکھتا تا کہ اس سے انس اور محبت کرے_ اس طرح کے خاص بندوں نے عظمت اور جلال و کمال او رخیر اور نور و ایمان کے سرچشمہ کو پالیا ہوتا ہے اور اپنی باطنی آنکھ سے جمال الہی کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں_ یہاں تک کہ ایک لحظہ بھی وہ دنیا کی مجازی چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور انہیں ا پنا دل نہیں دیتے چونکہ وہ کمالات کے منبع تک پہنچ چکے ہیں لہذا ان کی نگاہ میں مجازی اور عارضی کمالات کوئی حیثیت نہیں رکھتے وہ اللہ تعالی کے لقاء اور عشق اور محبت میں جلتے رہتے ہیں اور خدا سے انس اور محبت کی لذت کو دنیاوی چیزوں سے تبادلہ نہیں کرتے اور اگر جہاں کی ظاہری چیزوں کو بھی دیکھتے ہیں تو اس میں بھی نو رجمال الہی اور وجود کامل کی نشانی اور علامت کا عکس مشاہدہ کرتے ہیں_(۳۶۴)

امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' کس طرح تیرے وجود کے ثابت کرنے کے لئے اس چیز سے استدلال کیا جائے کہ جو وہ خود تیری محتاج ہے؟ کیا تیرے غیر کے لئے ظہور ہے جو تیری ذلت کے لئے موجود نہیں ہے تا کہ تو اس کے ظہور کے ذریعے ظاہر کیا جائے؟ کب تو دور تھا تا کہ آثار اور علائم تیرے تک پہنچنے کے اسباب بن سکیں؟ وہ آنکھ اندھی ہے جو تجھے اپنا مراقب اور مشاہدہ کرنے والا نہیں دیکھتی؟ کتنا نقصان میں ہے وہ بندہ کہ جسے تو نے اپنی محبت سے کچھ حصہ نہیں دیا؟_(۳۶۵)

امیرالمومنین علیہ السلام شعبانیہ مناجات میں فرماتے ہیں_ '' اے خدا پوری طرح اپنے میں غرق اور کامل ہونے کو مجھے عطا کر اور میرے دل کی آنکھوں کو اپنے جمال کے نور کے مشاہدہ کرنے کا نور عطا فرما تا کہ میرے دل کی آنکھیں نور کے حجاب کو پار کر کے تیری عظمت تک پہنچ جائیں اور ہماری روحیں تیرے مقام قدس سے جا وصل ہوں_( ۳۶۶)

۱۹۲

امام زین العابدین علیہ السلام اس طرح کے خاص بندوں کے حق میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:

'' خدایا تیر ی ثناء اور تعریف جو تیرے لائق اور سزاوار ہے زبان سے بیان کرنے میں وہ تیرے بندے عاجز ہیں تیری ذات کے جمال حقیقت تک پہنچنے سے وہ عاجز ہیں_ تیرے جمال کے انوار کو دیکھنے کی آنکھیں قدرت نہیں رکھتی _ تو اپنے بندوں کے لئے تیری معرفت کے مقام تک پہنچنے کے لئے سوائے عجز کے اظہار کے اور کچھ نہیں رکھا_ خدایا ہمیں ان بندوں سے قرار دے کہ تیرے لقاء کے شوق کا پودا جن کے دلوں میں بویا گیا ہے_ اور محبت کی آتش نے ان کی دلوں کو گھیر رکھا ہے لہذا وہ عالی افکار کے آشیانہ میں اترتے ہیں اور مقام قرب و شہود الہی کے باغات سے نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور محبت کے چشمے سے لطف و کرم کے جام پیتے ہیں_ صفا اور محبت اور مودت کے چشمہ میں وارد ہوتے ہیں_ ان کے دل کی آنکھوں سے پردہ اٹھ گیا ہے اور عقائد میں شک و تردید اور تاریکی ان کے دلوں سے دور ہوگئی ہے اور ان کے دلوں میں شک کا گذر زائل ہوچکا ہے_ تحقیق کے ذریعے ان کے دلوں کی معرفت نے وسعت پیدا کرلی ہے_ اور زہد کی دوڑ لگانے میں ان کی ہمت بلند ہوچکی ہے_ خدا کے ساتھ معاملہ کرنے میں پسندیدہ خاطر ہوتے ہیں اور خدا کے ساتھ انس کی مجلس میں پاکیزہ باطن رکھتے ہیں اور خوف کے مقامات میں امن اور آرام کا راستہ موجود پاتے ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرنے میں مطمئن نفس رکھتے ہیں_ سعادت اور نجات کے راستے میں یقین کے مرتبہ تک پہنچے ہوئے ہیں_ محبوب کے مشاہدہ کرنے میں ان کی آنکھیں روشن ہیں اور اس کے پانے میں کہ جس کی امید کرتے باطنی آرام اور اطمینان رکھتے ہیں_ دنیا کے معاملات میں آخرت کے لئے فائدہ حاصل کیا_ اے خدا_ تیرے ذکر کے الہام کے تصورات دلوں پر کتنے لذت آور ہوتے ہیں_ اور تیری طرف غیب کے تفکر کے ذریعے آنے میں کتنا مٹھاس اور شرینی ہے_ اور تیری محبت کا طعام کتنا مزے دار ہے_

۱۹۳

اور تیرے قرب کا پانی کتنا لذیذ اور خوشگوار ہے_ ہمیں دور کرنے او رنکال دیئےانے سے پناہ دے اور ہمیں مخصوص تر عارف اور اپنے بندوں میں صالح ترین بندہ اور اطاعت کرنے میں صادق ترین اور عبادت کرنے والوں میں خالص ترین عبادت کرنے والا قرار دے_ اے بزرگتر اور عظیم اور کریم اور احسان کرنے والا خدا_ تجھے تیری عطا اور رحمت کی قسم_ اے ارحم الرحمین_''(۳۶۷)

خلاصہ چوتھا مرتبہ اور مقام بہت ہی عالی اور بلند و بالا ہے اور پھر اس کے کئی ایک درجات اور مراتب ہیں جو ذات مقدس واجب الوجود اور کمال و جمال غیر متناہی تک جاتے ہیں_ اہل اللہ اور عارفین کی اصطلاح میں ان کے مختلف نام ہیں جیسے مقام ذکر مقام انس مقام انقطاع مقام محبت، مقام شوق، مقام رضا، مقام خوف، مقام شہود، مقام عین الیقین، مقام حق الیقین، اور آخری مقام جسے مقام فنا نام دیتے ہیں یہ تعبیرات اکثر آیات اور احادیث سے لی گئی ہیں او رہر ایک نام کی کچھ نہ کچھ مناسبت بھی ہے_

جب عارف اور عبادت گذار واجب الوجود ذات الہی کے جمال اور عظمت غیر متناہی کی طرف توجہ کرے اور اس کی محبت اور فیوضات کو سامنے رکھے اور اپنی تقصیر اور ناتوانی اور مقام اعلی تک نہ پہنچنے کی مسافت سے دور ہونے کا احساس کرے تو پھر اس کے دل میں شوق اور عشق سوز اور گداز پیدا ہوتا ہے تو اس کیفیت اور مقام کا نام شوق کا مقام دیا جاتا ہے_ جب کمالات کے درجات اور مقامات پر کوئی پہنچ جائے تو وہ انہیں درجات اور معلومات سے انس کرنے لگتا ہے اور خوش اور شاد ہوجاتا ہے تو اسی مناسبت سے اس درجے اور رتبے کو مقام انس سے تعبیر کرتے ہیں اور جب عظمت اور کمال غیر متناہی ذات الہی کی طرف توجہ کرے اور اس عظمت کے مقام کے پانے میں اپنی کمزوری اور عجز اور قصور پر مطلع اور واقف ہو تو اس کا دل لرزتا او ردکھتا ہے اس کے تمام وجود پر خوف اور ڈر چھاجاتا ہے تو پھر وہ گریہ و زاری کرنے لگتا ہے تو اسی مناسبت سے اس حالت کا نام مقام خوف رکھ دیا جاتا ہے_ اسی طرح باقی تمام مقامات کسی نہ کسی انسان کی کیفیت اور حالت کی مناسبت سے رکھے جاتے ہیں_

۱۹۴

بہتر یہی ہے کہ یہ ناچیز بندہ جو یہ کتاب لکھ رہا ہے او رجو خواہشات نفس اور مادی تاریکیوں اور ظلمات کا قیدی_ مقامات معنوی کے حاصل کرنے سے محروم ہے اس بحر بیکراں میں وارد نہ ہو اور ان مقامات عالیہ کی شرح اور توضح انہیں لوگوں کے لئے چھوڑ دے جو اس کی قابلیت اور اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ جس نے محبت اور انس اور لقاء اللہ کا ذائقہ ہی نہ چکا ہو وہ ان مقامات عالیہ کی توضیح اور تشریح سے عاجز اور ناتوان ہوگا_ نیکوں کو دوست رکھتا ہوں اگر چہ انہیں سے نہیں ہوں_

خدایا ہمیں اپنے ذکر کی حلاوت عنایت فرما اور ہمیں حالات چکھنے والے افراد سے قرار دے یہاں بہتر ہوگا کہ جو اس کے اہل تھے ان کی بات اور گفتگو کو نقل کیا جائے_ عارف ربانی فیلسوف عالی ملاصدرا شیرازی لکھتے ہیں_ اگر کسی بندے پر اللہ تعالی کی رحمت کے سائے پڑ جائیں تو وہ خواب غفلت اور جہالت سے بیدار ہوجاتا ہے اور جان لیتا ہے کہ اس محسوس جہان کے علاوہ بھی کوئی دوسرا جہان ہے_ حیوانی لذت سے اعلی اور بھی لذات ہیں تو اس حالت میں وہ باطل اور بے ارزش امور سے روگردانی کرلیتا ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے اللہ تعالی سے توبہ کرتا ہے پھر اللہ تعالی کی آیات اور نشانیوں میں فکر اور غور شروع کردیتا ہے اور مواعظ الہی کو سنتا ہے اور پیغمبر اکرم کی احادیث میں غور کرتا ہے اور شرعیت کے مطابق عمل کرتا ہے اور آخرت کے کمالات حاصل کرنے کے لئے دنیا کے لغویات اور فضولیات جیسے جاہ و جلال مقام و منصب مال اور متاع سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اگر اس سے زیادہ اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہوجائے تو حتمی ارادہ کرلیتا ہے کہ غیر خدا سے چشم پوشی کرے اور اللہ تعالی کی جانب حرکت کرے اور خواہش نفس کے مقام کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی طرف حرکت کرے اس حالت میں اس پر اللہ تعالی کے انوار ملکوتی ظاہر ہو جاتے ہیں او رعالم غیب کا دروازہ اس کے لئے کھل جاتا ہے اور عالم قدس کے صفحات آہستہ آہستہ اس کے لئے آشکار ہوجاتے ہیں اور غیبی امور کی مثالی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے جب وہ امور غیبی کے مشاہدے کی لذت کو چکھ لے تو پھر خلوت او ر دائمی ذکر

۱۹۵

کرنے سے علاقمند ہوجاتا ہے اس کا دل حسی مشاغل سے خالی ہوجاتا ہے اور تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف توجہ پیدا کرلیتا ہے_ اس حالت میں اس پر علوم لدنی آہستہ آہستہ اترنے لگتے ہیں اور معنوی انوار کبھی کبھی اس کے لئے ظاہر ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ کامل تمکن اور تحقق حاصل کرلیتا ہے_ تلون مزاجی اور تغیر دور ہو جاتی ہے اور آرام اور سکون اس پر نازل ہوجاتا ہے اس حالت میں وہ عالم جبروت میں وارد ہوجاتا ہے اور عقول مفارقہ کا مشاہدہ کرتا ہے او ران کے انوار سے نورانی ہوجاتا ہے اور اس کے لئے قدرت اور سلطان الہی اور عظمت اور کبریاء کا نور آشکار ہوجاتا ہے اور اس کی انانیت اور وجود کو متلاشی اور ھباء منشوارا کردیتا ہے اور ذات احدیت کی عظمت اور قدرت کے سامنے ساقط ہوجاتا ہے اس حالت اور مقام کو مقام احدیت کہا جاتا ہے اور اغیار سالک کی نگاہ میں مستہلک ہوجاتے ہیں اورلمن الملک الیوم الواحد القهار کی آواز کوسنتا ہے_(۳۶۸)

عارف ربانی ملا فیض کاشانی لکھتے ہیں کہ خدائی محبت اور اس کی تقویت اور رویت خدا اور اس کے لقاء کے لئے اسباب مہیا کرنے کا طریقہ معرفت اور اس کو تقویت دینا ہوا کرتا ہے_ معرفت حاصل کرنے کا طریقہ قلب کو دنیاوی علائق اور مشاغل اور کامل طور پر انقطاع الی اللہ کا وسیلہ اور ذریعہ صرف ذکر اور فکر اور غیر خدا کی محبت کو دل سے نکالنا ہے_ کیونکہ دل ایک برتن کی مانند ہے_ اگر برتن پانی سے بھرا ہوا ہو تو پھر اس میں سرکہ ڈالنے کی گنجائشے نہیں ہوتی پانی کو برتن سے خالی کیا جائے تا کہ اس میں سرکہ ڈالا جاسکے_ خداوند کریم نے کسی کے لئے دو دل پیدا نہیں کئے کامل محبت یوں ہوگی کہ سارے دل میں خدا کو دوست رکھے جب غیر خدا کی طرف توجہ رکھے گا تو دل کا کچھ حصہ غیر خدا میں مشغول ہوگا پس انسان جتنا غیر خدا کے ساتھ مشغول رہے گا اتنی مقدار خدا کی محبت میں کمی واقع ہوگی مگر غیر خدا کی طرف توجہ اس نیت سے ہو کہ وہ بھی خدا کی مخلوق اور خدا کا فعل ہے اور ہ اللہ تعالی کے اسماء اور صفات کا مظہر ہے_ خدا نے قرآن مجید میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے

۱۹۶

قل اللہ ثم ذرہم یہ حالت شوق کے غلبہ سے حاصل ہوتی ہے بایں معنی کہ انسان کو شش کر

ے کہ جو کچھ اس کے لئے آشکار ہوا ہے اس سے زیادہ آشکار ہو اور اس کی طرف جو اسے ابھی تک حاصل نہیں ہوا ہے شوق پیدا کرے کیونکہ شوق اس چیز سے متعلق ہوتا ہے کہ کوئی چیز کچھ آشکار ہو اور کچھ آشکا رنہ ہو ہمیشہ ان دو میں رہے گا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اس واسطے کہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہیں ان کی کوئی انتہا نہیں ہے اس واسطے کہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہیں ان کی کوئی انتہا نہیں ہے اسی طرح خدا کے کمال اور جمال جو باقی ہیں ان کی زیادتی کا کوئی کنارہ نہیں_ بلکہ وصال کے حاصل ہوجانے سے وہ لذت بخش شوق کا احساس کرتا ہے کہ جس میں کوئی الم اور درد نہیں ہوا کرتا پس شوق کبھی بھی ختم نہیں ہوتا بالخصوص جب بہت سے بالا درجا کو مشاہدہ کرتا ہے_ یسعی نورہم بین ایدیہم و بایمانہم یقولون ربنا اتمم لنا نورنا_(۳۶۹)

۱۹۷

ذکر اور بقاء کے آثار اور علائم

جیسے کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ذکر اور شہود اور لقاء ایک باطنی مقام اور معنوی اور روحانی پایہ تکمیل نفس کا ذریعہ ہے_ عارف انسان اس مقام تک جب پہنچ جائے تو وہ ایک ایسے مقام تک پہنچا ہے کہ وہ اس سے پہلے یہاں تک نہیں پہنچا تھا اگر یہ کہا جاتا ہے کہ مقام شہود ایک حقیقت اور واقعیت ہے اور اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ مقام انس یا مقام رضا یا مقام محبت یا مقام شوق یا مقام وصال یا مقام لقاء تو یہ مجاز گوئی اور مجازی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ سب حقیقت ہیں لہذا مقام ذکر وجود واقعی کا ایک مرتبہ ہے اور رتبہ اور وہ نئے علائم اور آ ثار رکھتا ہے اس کمال کا وجود اس کے آثار اور علامتوں سے پہچانا جاتا ہے_ ہم یہاں اسکے کچھ اثرات بتلاتے ہیں:

خداوند عالم کی اطاعت

جب کوئی آدمی مقام شہود اور ذکر تک پہنچ چکا ہو اور اپنے باطن میں ذات احدیت کے جمال کا مشاہدہ کرلے اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے پائے تو پھر بغیر کسی شک کے سوفیصدی اس کے احکام کی پیروی کرے گا اور جو کچھ خدا کہے گا اس بجالائیگا اور جس سے روکا ہوگا اسے ترک کرے گا اگر انسان یہ معلوم کرنا چاہے کہ آیا اس مقام تک پہنچا ہے یا نہ تو اسے اوامر اور نواہی الہی کی پابندی سے معلوم کرے اور جتنی اس میں پابندی کی نسبت ہو اسی نسبت سے اس مقام تک پہنچے کو سمجھ لے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان مقام شہود اور انس تک پہنچا ہوا ہو اور پھر اللہ تعالی کے

۱۹۸

احکام کی کامل طور سے پابندی نہ کرے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ذکر کی شناسائی او رتعریف میں فرمایا ہے کہ '' ذکر کے یہ معنی ہیں کہ جب تیرے سامنے اللہ تعالی کی کوئی حکم آئے تو اسے بجالائے اور اگر منع کیا ہو تو اس سے رک جائے_(۳۷۰)

امام حسین علیہ السلام نے عرفہ کی دعا میں فرمایا ہے '' اے وہ ذات کہ جس نے اپنے ذکر کی مٹھاس اور شرینی کو اپنے دوستوں کے موہنہ میں ڈالا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تیری عبادت کے لئے تیرے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں_(۳۷۱)

اور تیرے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں_ اے وہ ذات کہ جس نے ہیبت کا لباس اپنے اولیاء کو پہنایا ہے کہ وہ تیرے سامنے کھڑے ہوں اور استغفار کریں_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' ان سے کہہ دو کہ اگر واقعی خدا کودوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا کہ خدا بھی تمہیں دوست رکھے_(۳۷۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص واقعی خدا کا ذکر کرنے والا ہوگا تو وہ ذات الہی کا فرمانبردار اور مطیع بھی ہوگا اور جو شخض غافل ہوگا وہ گنہگار ہوگا_(۳۷۳)

خضوع اور عاجزی

جو انسان خدا کی عظمت اور قدرت کا مشاہدہ کرے گا تو وہ مجبوراً اس کے سامنے خضوع کرے گا اور اپنے قصور اور ناتوانی سے شرمندہ اور شرمسار ہوگا_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تیرا یہ جان لینا کہ تو خدا کا مورد توجہہ ہے تو یہ تیرے خضوع اور حیا اور شرمندگی کا باعث بنے گا_(۳۷۴)

عشق اور محبت_ مقام شہود کی ایک علامت اور اثر عبادت سے زیادہ علاقہ اور اس سے لذت حاصل کرنا ہوتا ہے کیونکہ جس نے لذت الہی کی عظمت اور قدرت کو پالیا ہو اور اپنے آپ کو اس کے حضور میں سمجھتا ہو اور عظمت اور کمال الہی کا مشاہدہ کرلیا

۱۹۹

ہو تو پھر وہ مناجات اور انس اور راز و نیاز کی لذت کو ہر دو سری لذت پر ترجیح دے گا_ جو لوگ معنوی لذات سے محروم ہیں وہ مجازی لذات اور جلدی ختم ہوجانے والی لذات سے جو در حقیقت سوائے الم اور غم کے ختم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں اپنا دل لگا لیتے ہیں_ لیکن جنہوں نے حقیقی لذات اور پروردگار کی مناجات اور عبادت کو چکھ لیا ہو تو وہ اپنی خوش حالی او رزیبائی کو کسی دوسری لذت سے معاملہ نہیں کرتے_ یہی وہ اللہ کے خالص بندے ہیں کہ جو خدا کی عبادت اس لحاظ سے کرتے کہ وہ عبادت کا سزاوار ہے نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ سزا کا خوف_

پیغمبر علیہ السلام اور حضرت علی علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی عبادات اور سوز و گداز کو آپ نے سناہی ہے_

اطمینان اور آرام_ دنیا مصائب اور گرفتاری رنج و بلا کا گھر ہے_ دنیا کے ابتلات اور گرفتاریوں کو تین قسم پر تقسیم کیا جاسکتا ہے_

۱_ کئی طرح کی مصیبتیں جیسے اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی بیماریاں_ خود مرنا اور لواحقین کی موت_ ظلم اور تجاوز دوسروں کی حق کشی اور ایک دوسرے سے مزاحمت اور لڑائی جھگڑنے_

۲_ دنیاوی امور کے نہ ہونے کہ جنہیں حاصل نہیں کرسکتا_

۳_ اس کا خوف کہ جو ہاتھ میں وہ نہ نکل جائے اپنے مال کے چوری ہوجانے یا تلف ہوجانے کا ڈریا زمانے کے حوادث کیوجہ سے اولاد نہ چلی جائے اپنے بیمار ہونے یا اپنی موت کا خوف اور ڈر اور اس طرح کے د وسرے امور کے اکثر انسان کے آرام اور سکون کو ختم کردیتے ہیں ان تمام کی اصل وجہ دنیا سے علاقمندی اور محبت اور خدا کے ذکر سے غافل رہنا ہوا کرتا ہے_

قرآن مجید میں ہے کہ '' جو ہمارے ذکر سے روگردانی کرتا ہے_ اس کی زندگی سخت ہوگی_(۳۷۵)

۲۰۰