خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 113920
ڈاؤنلوڈ: 4650

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113920 / ڈاؤنلوڈ: 4650
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

پانچواں وسیلہ

خدمت خلق اور احسان

خداوند عالم سے تقرب اور قرب صرف نماز روزہ حج اور زیارت ذکر اور دعا میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی مساجد اور معابد میں منحصر ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو انجام دینا اور احسان اور نیکوکاری مخلوق خدا کی خدمت کرنا بھی جب اس میں قصد قربت ہو تو وہ بھی بہترین عبادت ہے کہ جس کے ذریعے سے اپنے آپ کو بنانا اور نفس کی تکمیل کرنا اور نفس کی تربیت کرنا اور ذات الہی کے تقرب کا موجب ہوتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں اللہ کا قرب اور سیر و سلوک اور تعبد کے معنی لوگوں سے کنارہ کشی اور گوشہ نشینی نہیں ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے لوگوں میں رہ کر لوگوں کے ساتھ احسان اور نیکی انجام دینا اور مومنین کے ضروریات کو پورا کرنا اور انہیں خوش کرنا محروم طبقے کا دفاع مسلمانوں کے امور میں اہتمام کرنا اور ان کے مصائب کو دور کرنا اور خدا کے بندوں کی مدد کرنا یہ تمام اسلام کی نگاہ میں ایک بہت بڑی عبادتیں ہیں کہ جن کا ثواب حج اور عمرے کے کئی برابر زیادہ ہوتا ہے_ اس کے متعلق سینکٹروں احادیث پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں _ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میری مخلوق میرے عیال ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب انسان وہ ہے جو میری مخلوق پر مہربان ہو اور ان کے ضروریات کے بجا

۲۸۱

لانے میں زیادہ کوشش کرلے_(۵۰۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' لوگ اللہ کہ اہل و عیال ہیں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب انسان وہ ہے جو اللہ کے اہل و عیال کو فائدہ پہنچائے اور ان کے دلوں کو خوشنود کرے_(۵۰۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی مومن کا کسی دوسرے مومن کے سامنے مسکرانا ایک حسنہ اور نیکی ہوا کرتا ہے اور اس کی تکلیف اور گرفتاری کو دور کرنا بھی ایک نیکی ہے خدا کسی ایسی چیز سے عبادت نہیں گیا کہ جو اس کے نزدیک مومن کے خوش کرنے سے زیادہ محبوب ہو_(۵۰۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو کسی مومن کو خوش کرے اس نے مجھے خوش کیا ہے اور جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوش کیا ہوا اس نے خدا کو خوش کیا ہے اور جس نے خدا کو خوش کیا ہو اور وہ جنت میں داخل ہوگا_(۵۰۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک مومن کی حاجت اور ضرورت کو پورا کر دینا اللہ تعالی کے نزدیک بیس ایسے حج سے کہ جسمیں ایک لاکھ خرچ کیا ہو زیادہ محبوب ہے_(۵۰۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مسلمان کی ضرورت اور حاجت کے پورے کرنے میں کوشش کرنا خانہ کعبہ کے ستر دفعہ طواف کرنے سے بہتر ہے_(۵۰۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے ایسے بندے ہیں جو لوگوں کو ان کی حاجات میں پناہ گاہ بنتے ہیں یہ وہ ہیں کہ جو قیامت میں اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ ہونگے_(۵۰۸)

جیسے کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ احسان نیکوکاری اللہ کے بندوں کی خدمت لوگوں کے مصائب دور کرنے میں کوشش اسلام کی نگاہ میں ایک بہت بڑی عبادت شمار ہوتے ہیں کہ اگر انسان اسے قصد قربت سے بجالائے تو یہ تکمیل نفس اور اس کی تربیت اور قرب الہی کا وسیلہ بنتا ہے_ افسوس کہ اکثر لوگ صحیح اسلام کو نہ پہنچاننے

۲۸۲

کی وجہ سے اس بہت بڑی اسلامی عبادت سے غفلت برتتے ہیں اور عبادت اور قرب الہی کو فقط نماز روزہ دعا اور زیارت ذکر اور ورد میں منحصر جانتے ہیں_

۲۸۳

چھٹا وسیلہ

دعا

تکمیل روح اور قرب خدا کی بہترین عبادت اور سبب دعا ہے اسی لئے خداوند عالم نے اپنے بندوں کو دعا کرنے کی دعوت دی ہے_ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے ''مجھ سے مانگو اور دعا کرو تا کہ میں تمہیں عنایت کروں جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلدی اور خواری کی حالت میں جہنم میں داخل ہونگے_(۵۰۹) پھر اللہ تعالی نے فرمایا ہے '' تضرع اور مخفی طور سے خدا سے مانگو یقینا خدا تجاوز اور ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا_(۵۱۰) اور فرمایا '' اے میرے بندو مجھ سے سوال کرو ان سے کہہ دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اگر مجھ پکاریں تو میں ان کا جواب دونگا_(۵۱۱)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت کی روح اور مغز ہے_(۵۱۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت ہے_ خدا فرماتا ہے کہ لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں_ خدا کو پکار اور یہ نہ کہہ کہ بس کام ختم ہوچکا ہے_(۵۱۳)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی دعا کو ترک نہ کرو کیونکہ تم ایسا عمل پیدا نہیں کرو گے جو دعا سے زیادہ تقرب کا موجب ہو یہاں تک کہ معمولی چیزوں

۲۸۴

کو کبھی خدا سے طلب کرو اور ان کے معمولی ہونے کی وجہ سے دعا کرنے کو ترک نہ کرو کیونکہ معمولی چیزوں کا مالک بھی وہی ہے جو بڑے امور کا مالک ہے_(۵۱۴)

لہذا خدا کے بندے کو دعا کرنی چاہئے کیونکہ وہ تمام وجود میں خدا کا محتاج ہے بلکہ عین احتیاج اور فقر ہے اگر ایک لحظہ بھی اللہ تعالی کا فیض قطع ہو جائے تو وہ نابود ہوجائیگا_ جو کچھ بھی بندے کو پہنچتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے لہذا بندے کو اس تکوینی اور طبعی احتیاج کو زبان سے اظہار کرنا چاہئے اپنی احتیاج اور فقر اور بندگی کو عملی طور سے ثابت کرنا چاہئے اور اس کے سوا کوئی عبادت کا اور مفہوم اور معنی نہیں ہے_ انسان دعا کرنے کی حالت میں خدا کی یاد میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ راز اور نیاز کرتا ہے اور تضرع اور زاری جو عبادت کی رسم ہے غنی مطلق کے سامنے پیش کرتا ہے_

دنیا جہاں سے اپنے فقر اور احتیاج کو قطع کرتا ہے خیرات اور کمالات کے مرکز اور منبع کے ساتھ ارتباط برقرار کرتا ہے_ عالم احتیاج سے پرواز کرتا ہے اور اپنی باطنی آنکھ سے جمال حق کا مشاہدہ کرتا ہے_ اس کے لئے دعا اور راز و نیاز کی حالت ایک لذیذ ترین اور بہترین حالت ہوتی ہے_ خدا کے نیک بندے اور اولیاء اسے کسی قیمت پر کسی قیمت سے معاملہ نہیں کرتے صحیفہ سجادیہ اور دوسری دعاؤں کی کتابوں کی طرف رجوع کیجئے کہ کس طرح ائمہ اطہار علیہم السلام راز و نیاز کرتے تھے_ خدا سے ارتباط اور دعا کی قبولیت کی امید دعا کرنے والے کے دل کو کس طرح آرام اور دل کو گرمی دیتی ہے_ اگر انسان مصائب اور مشکلات کے حل کے لئے خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگی کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟

دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جس کے وسیلے سے ناامید اور یاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب کی خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگی کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟

۲۸۵

دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جن کے وسیلے سے نا امیدی اورپاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب طاقت سے مدد طلب کرتا ہے_ پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اس ہٹھیار سے استفادہ کیا کرتے تھے اور مومنین کو ان سے استفادہ کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے_

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ '' انبیاء کے ہتھیار سے فائدہ حاصل کرو_ پوچھا گیا کہ انبیاء کا ہتھیار کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ دعا_(۵۱۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا اپنے بندوں میں اسے زیادہ دوست رکھتا ہے جو زیادہ دعا کرتا ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہؤں کہ سحر کے وقت سے لے کر سورج نکلنے تک دعا کیا کرو کیونکہ اس وقت آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور لوگوں کا رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور ان کی بڑی بڑی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں_(۵۱۶)

دعا ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کی روح ہے اور آخرت میں اس کا اجر دیا جاتا ہے اور مومن کی معراج ہے اور عالم قدس کی طرف پرواز ہے روح کو کامل اور تربیت دیتی ہے اور قرب خدا تک پہنچاتی ہے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا ہتھیار دعا ہے اور دعا دین کا ستون اور زمین اور آسمان کا نور ہے_(۵۱۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نیک بختی اور سعدت کی چابی دعا ہے_ بہترین دعا وہ ہے _ جو پاک اور تقوی والی دل سے ہو خدا سے مناجات کرنا نجات کا سب ہوتا ہے اور اخلاص کے ذریعے نجات حاصل ہوتی ہے جب مصائب اور گرفتاری میں شدت آجائے تو خدا اسے پناہ لینی چاہئے_(۵۱۸) لہذا دعا ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر اس کے شرائط موجود ہوں اور درست واقع ہو تو نفس کے کمال تک پہنچنے اور قرب خدا کا موجب ہوتی ہے اور یہ اثر یقینی طور سے دعا پر مرتب ہوتا ہے_ اس لئے خدا کے بندے کو کسی حالت اور کسی شرائط میں اس بڑی عبادت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کسی وقت بھی بغیر اثر کے نہیں ہوا کرتی گرچہ اس کا فوری طور سے ظاہر بظاہر اثر مرتب نہ ہو رہا ہو_ ہو سکتا ہے کہ

۲۸۶

دعا کرنے والے کی خواہش اور سوال کو موخر کر دیا جائے یا دنیا میں بالکل پوری ہی نہ کی جائے لیکن ایسا ہونا بھی بغیر مصلحت کے نہ ہوگا_ کبھی مومن کی دنیاوی خواہش کے قبول کرنے میں واقعاً مصلحت نہیں ہوتی _ خداوند عالم بندے کی مصلحتوں کو اس سے زیادہ بہتر جانتا ہے لیکن بندے کو ہمیشہ اپنے احتیاج اور فقر کے ہاتھ کو قادر مطلق کے سامنے پھیلاتے رہنا چاہئے اور اپنی حاجتوں کو پورا کیا جائیگا لیکن خدا کبھی مصلحت دیکھتا ہے کہ اپنی بندے کی حاجت کو موخر کر دے تا کہ وہ اللہ تعالی سے زیادہ راز و نیاز اور مناجات کرے اور وہ اعلی مقامات اور درجات تک جا پہنچے اور کبھی اللہ تعالی اپنے بندے کی مصلحت اس میں دیکھتا ہے کہ اس کی حاجت کو اس دنیا میں پورا نہ کیا جائے تا کہ ہمیشہ وہ خدا کی یاد میں رہے اور آخرت کے جہان میں اس کو بہتر اجر اور ثواب عنایت فرمائے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس بندے پر اپنی رحمت نازل کرے_ جو اپنی کو خدا سے طلب کرے اور دعا کرنے میں اصرار کرے خواہ اس کی حاجتیں پوری کی جائیں یا پوری نہ کی جائیں آپ نے اس وقت یہ آیت تلاوت کیوادعوا ربی عسی الا اکون بدعا ربی شقیاً _(۵۱۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی مومن اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرتا ہے لیکن خدا اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میری بندے کی حاجت کے پورے کئے جانے کو موخر کر دو کیونکہ دوست رکھتا ہے کہ اپنے بندے کی آواز اور دعا کو زیادہ سنتا رہے پس قیامت میں اس سے کہے گا اے میرے بندے تو نے مجھ سے طلب کیا تھا لیکن میں نے تیرے قبول کئے جانے کو موخر کر دیا تھا اب اس کے عوض فلاں ثواب اور فلاں ثواب تجھے عطا کرتا ہوں اسی طرح فلانی دعا اور فلانی دعا_ اس وقت مومن آرزو کرے گا کہ کاش میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ کی جاتی یہ اس لئے تمنا

۲۸۷

کرتا ہے_ جب وہ آخرت کا ثواب دیکھتا ہے_(۵۲۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ دعا کے آداب کو حفظ کر اور متوجہ رہ کہ کس کے ساتھ بات کر رہا ہے اور کس طرح اس سے سوال کر رہا ہے اور کس لئے اس سے سوال کرتا ہے_ اللہ تعالی کی عظمت اور بزرگی کو یاد کر اور اپنے دل میں جھانک اور مشاہدہ کر کہ جو کچھ تو دل میں رکھتا ہے_ خدا اسے جانتا ہے اور تیرے دل کے اسرار سے آگاہ ہے تیرے دل میں جو حق یا باطل پنہاں اور چھپا ہوا ہے اس سے مطلع ہے اپنی ہلاکت اور نجات کے راستے کو معلوم کر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے ایسی چیز کو طلب کرے کہ جس میں تیری ہلاکت ہو جب کہ تو خیال کرتا ہے کہ اس میں تیری نجات ہے_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' کبھی انسان خیر کی جگہ اپنے شر کو چاہتا ہے انسان اپنے کاموں میں جلد باز اور جلدی کرنے والا ہے_ پس ٹھیک فکر کر کہ خدا سے کس کا سوال کر رہا ہے اور کس لئے طلب کر رہا ہے_ دعا اپنے دل کو پروردگار کے مشاہدے کے لئے پگھلانا ہے_ اور اپنے تمام اختیارات کو چھوڑنا اور تمام کاموں کو اللہ تعالی کے انتظار میں نہ رہ کیونکہ خدا تیرے راز اور سب سے زیادہ مخفی راز سے بھی آگاہ اور مطلع ہے_ شاید تو خدا سے ایسی چیز طلب کر رہا ہے جب کہ تیری نیت اس کے خلاف ہے_(۵۲۱)

۲۸۸

ساتواں وسیلہ

روزہ

تزکیہ نفس اور اس کی پاک کرنے اور خودسازی کے لئے ایک بہت بڑی عبادت کہ جس کے بہت زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں وہ روزہ ہے_ روزے یک فضیلت میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' روزہ جہنم کی آگ سے حفاظت کرنے والی ڈھال ہے_(۵۲۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دونگا_(۵۲۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ رکھنے والا بہشت میں پھرتا ہے اور فائدہ حاصل کرتاہ ے اس کے لئے فرشتے افطار کرنے تک دعا کرتے ہیں_(۵۲۴)

پیغمبر علیہ السلامم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص ثواب کے لئے ایک مستحبی روزہ رکھے اس کے لئے بخشا جانا واجب ہے_ (۲۵۵ ) حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ دار کا سونا بھی عباد ہے اور اس کا چپ رہنا تسبیح ہے_ اور اس کا عمل مقبول اور اس کی دعا قبول کی جاتی ہے_(۵۲۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے نیک

۲۸۹

بندوں کے اعمال دس برابر سے سات سو برابر ثواب رکھتے ہیں سوائے روزے کہ جو میرے لئے مخصوص ہو تو اس کی جزاء میں دونگا پس روزے کا ثواب صرف خدا جانتا ہے_(۵۲۷)

امیر المومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے معراج کی رات فرمایا _ ''اے میرے خالق_ پہلی عبادت کونسی ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ پہلی عبادت ساکت رہنا اورروزے _ پیغمبر علیہ السلام نے عرض کی اے میرے خالق روزہ کا اثر کونسا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ روزے کا اثر دانائی ہے اور دانائی معرفت کا سبب ہوتی ہے_ اور معرفت یقین کا سبب بنتی ہے اور جب انسان یقین کے مرتبے تک پہنچتا ہے تو پھر اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سختی میں یا آرام میں زندگی کرے_(۵۲۸)

روزہ ایک خاص عبادت ہے کہ جس میں دو پہلو نفی اور ثبات موجود ہوتے ہیں پہلا اپنے نفس کو کھانے پینے اور عزیز لذت سے جو شرعا جائز ہے روکنا اور محافظت کرنا_ اسی طرح خدا اور رسول پر جھوٹ نہ باندھنا اور بعض دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہوتا ہے_ دوسرا_ قصد قربت اور اخلاص کو جو در حقیقت اس عبادت کے روح کے بمنزلہ ہے_ روزے کی حقیقت نفس کو روکنا اورمادی لذات سے حتمی طور سے قصد قربت سے محافظت کرنا ہوتا ہے_ کھانا پینا جنسی عمل خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنا روزے کو باطل کردیتے ہیں فقہی کتابوں میں روزے کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ اگر کوئی ان امور یعنی کھانے پینے جماع خدا اور رسول پر جھوٹ باندھے _ انزال منی_ حقنہ کرنا_ غسل ارتماسی _ جنابت پر باقی رہنا کو قصد قربت سے ترک کرے تو اس کی عبادت صحیح ہے اور اس کی قضاء اور کفارہ نہیں بتلایا گیا ہے بلکہ روزہ اس سے زیادہ وسیع معنی میں بیان کیا گیا ہے_ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی روزہ دار وہ ہے کہ حس کے تمام اعضاء اور جوارح گناہوں کو ترک کریں یعنی آنکھ آنکھوں کے گناہوں سے اسی طرح زبان اور کان ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء اپنے اپنے گناہوں کو ترک کریں ایسا روزہ اللہ کے خاص بندوں کا ہے_

۲۹۰

اس سے بلند اور بالا ایک وہ روزہ ہے جو خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے اور وہ ان چیزوں کے ترک کرنے کے علاوہ اپنے دل کو ہر اس خیال اور فکر سے فارغ کردے جو خدا کی یاد سے روکے اور ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کا مہمان جانے اور اپنے آپ کو خدا کی ملاقات کے لئے آمادہ کے_ نمونے کے طور پر اس حدیث کی طرف توجہ کیجئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں روزہ صرف کھانے اور پینے کو ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوتا_ جب روزہ رکھے تو پھر کان اور آنکھ اور زبان اور شکم اور شرمگاہ کو بھی گناہوں سے محفوظ کرے اور ساکت رہے سوائے نیکی اور مفید کلام کے بات کرنے سے رکا رہے اور اپنی خدمت کرنے والوں اور نوکروں سے نرمی کرے جتنا ہو سکتا ہے ساکت رہے سوائے خدا کے ذکر کے اور اس طرح نہ ہو کہ روزے والا دن اس طرح کا ہو کہ جس دن روزہ نہ رکھا ہوا ہو _ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے جو شخص ماہ رمضان کا روزہ ساکت ہو کر رکھے اور کان اور آنکھ اور زبان اور شرمگاہ اور دوسرے بدن کے اعضاء کو جھوٹ اور حرام اور غیبت سے اللہ کے تقرب کی نیت سے روکے رکھے تو وہ روزہ اس کے تقرب کا اس طرح سبب بنے گا کہ گویا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہم نشین ہو_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ صر ف نہ کھانے اور پینے کا نام نہیں ہے_(۵۲۹) بلکہ اس کے شرائط ہیں کہ ان کی محافظت کرنی چاہئے تا کہ روزہ کامل اور تام ہو سکے وہ ہے سکوت اور چپ رہنا_ کیا تم نے حضرت مریم علیہا السلام کی بات نہیںسنی کہ جو آپ نے لوگوں کے جواب میں کہا تھا کہ میں نے اللہ تعالی کے لئے نذر کی ہوئی ہے کہ آج کے دن کسی سے بات نہ کروں یعنی چونکہ روزے سے ہوں مجھے چپ رہتا چاہئے لہذا جب تم روزہ رکھو تو اپنی زبان کو جھوٹ بولنے سے روکو_ اور غصہ نہ کرو_ گالیاں نہ دو بری باتیں نہ کرو_ جھگڑا اور لڑائی نہ کرو_ ظلم اور ستم سے پرہیز کرو_ جہالت اور بد اخلاقی اور ایک دوسرے سے دوری سے پرہیز کرو_ اللہ تعالی کے

۲۹۱

ذکر اور نماز سے غافل نہ رہو_ سکوت اور تعقل اور صبر و صدق اور برے لوگوں سے دوری کا خیال کرو_ باطل کلام جھوٹ بہتان دشمنی سوء ظن غیبت چغل خوری سے اجتناب کرو_ اور آخرت کی طرف توجہ رکھو اور اس دن کے آنے کے انتظار میں رہو کہ جس دن خدا کا وعدہ پورا ہوگا اور اللہ تعالی کی ملاقات کا سامان مہیا کرو_ آرام اور وقار خشوع خضوغ ذلت کہ جب کوئی بندہ اپنے مولی سے ڈرتا ہے اس کی رعایت کرو_ خوف اور امید خوف اور ترس کی حالت میں رہو اور اگر اپنے دل کو عیبوں سے اور باطل کو دھوکا دینے سے اور بدن کو کثافت سے پاک اور صاف کرو_ اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک چیز سے بیزاری کرو_ اور اللہ کی حکومت کو روزے کے وسیلے سے اور ظاہر اور باطن کو جس سے خدا نے منع کیا ہے خالی کرنے سے قبول کر لیا اور اللہ تعالی سے خوف اور خشیت کو ظاہر اور باطن میں ادا کیا اور روزہ کے دنوں اپنے نفس کو خدا کے لئے بخش دیا اور اپنے دل کو خدا کے لئے خالی کر دیا اور اسے حکم دیا تا کہ وہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے اگر اس طرح اور اس کیفیت سے روزہ رکھا تو پھر تو واقعا روزہ دار ہے اور اپنے وظیفہ پر عمل کیا ہے اور ان چیزوں میں جتنی کمی اکرو گے اتناہی تیرا روزہ ناقص ہوجائیگا کیونکہ روزہ رکھنا صرف نہ کھانے اور پینے سے نہیں ہوتا بلکہ خدا نے روزے کو تمام افعال اور اقوال جو روزے کو باطل کردیتے ہیں حجاب اور مانع قرار دیا ہے پس روزے رکھنے والے کتنے تھوڑے ہیں اور بھوکے رہنے والے بہت زیادہ ہیں_(۵۳۰)

اپنے آپ کو سنوار نے میں روزے کا کردار

اگر روزے کو اسی طرح رکھا جائے کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے چاہا ہے اور اسی کیفیت اور شرائط سے بجالا جائے کہ جو شرعیت نے معین کیا ہے تو پھر روزہ ایک بہت بڑی قیمتی اور مہم عبادت ہے اور نفس کے پاک کرنے میں بہت زیادہ اثر کرتا ہے روزہ ہر حالت میں نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے خالی کرنے اور نفس کو کامل اور

۲۹۲

زینت دیئے جانے والے اور اللہ تعالی کے اشراقات سے استفادہ کرنے میں کامل طور سے موثر ہوتا ہے_ روزہ رکھنے والا گناہوں کے ترک کرنے کے وسیلے سے نفس امارہ پر کنٹرول کر کے اپنے قابو میں رکھتا ہے_ روزے کے دن گناہوں کے ترک کرنے سے نفس کی ریاضت اور عملی تجربے کا زمانہ ہوتا ہے_ اس زمانے میں نفس کو گناہوں اور کثافت سے پاک کرنے کے علاوہ جائز لذات کھانے پینے سے بھی چشم پوشی کرتا ہے اور اس وسیلے سے اپنے نفس کو صفا اور نورانیت بخشتا ہے کیونکہ بھوک باطن کے صفا اور خدا کی طرف توجہہ کا سبب ہوتی ہے_ انسان بھوک کی حالت میں غالباً خوش حالی کی حالت پیدا کر لیتا ہے کہ جو پیٹ بھری حالت میں اسے حاصل نہیں ہوتی_ خلاصہ روزہ تقوی حاصل کرنے میں بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں تقوی حاصل کرنے کو روزے کے واجب قرار دینی کی غرض بتلایا گیا ہے_ قرآن میں ہے _ ''اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے روزہ تم پر واجب کیا گیا ہے جیسے کہ پہلے لوگوں پر واجب کیا گیا تا کہ تھا تم اس وسیلے سے صاحب تقوی ہو جاؤ_(۵۳۱) جو شخص ماہ رمضان میں روز رکھے اور چونکہ روزہ دار پورے مہینے میں گناہوں اور برے اخلاق سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے تو وہ ماہ رمضان کے بعد بھی گناہوں کے ترک کرنے کی حالت کو باقی رکھے گا_

یہاں تک جو کچھ کہااور لکھا گیا ہے وہ روزے کا نفس انسانی کے پاک کرنے اور نفس کو گناہوں اور کثافتوں سے صاف کرنے کا اثر لیکن روزہ کچھ مثبت اثرات بھی رکھتا ہے جو نفس کو کمال تک پہنچنے اور باطن کے خوشمنا ہونے اور ذات الہی تک تقرب کا موجب اور سبب بنتا ہے _ جیسے_

۱_ روزہ یعنی نفس کو مخصوص مفطرات سے روکنا ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں اخلاص اور قصد قربت سے نفس کی تکمیل اور تربیت ہوتی ہے اور قرب الہی کا دوسری عبادتوں کی طرح سبب بنتی ہے_

۲_ گناہوں اور اور لذات کے ترک کرنے سے روزہ دار کا دل صاف اور پاک ہو جاتا

۲۹۳

ہے اور خدا کے سوا ہر فکر اور ذکر سے فارغ ہوجاتا ہے اس وسیلے سے اللہ تعالی کے اشراقات اور افاضات اور القاء اللہ کی استعداد اور قابلیت پیدا کر لیتا ہے اور اس حالت میں اللہ تعالی کے الطاف اور عنایات اسے شامل حال ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کے جذبے سے قرب الہی کو حاصل کر لیتا ہے_ اسی لئے احادیث میں وارد ہوا ہے کہ روزے دار کا سانس لینا اور سونا بھی ثواب اور عبادت ہے_

۳_ روزے کے دن عبادت اور نماز اور دعا اور قرآن پڑھنے ذکر اور خیرات اور مبرات کے بہترین دن ہوتی ہیں کیونکہ نفس حضور قلب اور اخلاص اور اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے لئے دوسرے دلوں سے زیادہ آمادہ اور حاضر ہوتا ہے_ ماہ رمضان عبادت کی بہار اور خدا کی طرف توجہ کرنے کے لئے بہترین وقت ہوا کرتا ہے اسی لئے احادیث میں ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے فرزند سے سفارش کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ '' عبادت کرنے میں کوشش کرو کیونکہ اس مہینے میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے_ اور اجل اور موت لکھی جاتی ہے_ اس میں وہ لوگ جو خدا کے پاس جائیں گے لکھے جاتے ہیں_ ماہ رمضان میں تک ایک رات ایسی کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینے سے زیادہ افضل ہے_(۵۳۲) امیرالمومنین نے لوگوں سے فریاد کہ '' ماہ رمضان میں دعا زیادہ کیاکرو اور توبہ اور استغفار کرو کیونکہ دعا کے وسیلے سے تم سے مصیبتیں دور کی جائیں گی اور توبہ اور استغفار کے ذریعے سے تمہارے گناہ مٹ جائیں گے_(۵۳۳)

امیرالمومنین نے روایت کی ہے کہ '' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دن ہمارے لئے خطبہ بیان کیا اور اس میں فرمایا لوگو_ ماہ رمضان کا مہینہ برکت اور رحمت اور مغفرت کی ساتھ تمہارے طرف آیا ہے یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے_ اس کے دن دونوں سے بہترین دن ہیں اور راتیں راتوں میں سے بہترین راتیں ہیں اس کی گھڑیاں گھڑیوں میں سے بہترین گھڑیاں ہیں یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تم خدا کی طرف اس میں دعوت دیئے گئے ہو اور اللہ تعالی کی نزدیک

۲۹۴

صاحب کرامت قرار دیئے گئے ہو_ اس میں تمہارا سانس لینا تسبیح کا ثواب رکھتا ہے اور تمہارا سونا عبادت کا ثواب رکھتا ہے_ اس مہینے میں تمہارے اعمال قبول کئے جاتے ہیں اور تمہاری دعائیں قبول کی جاتی ہیں پس تم سچی نیت اور پاک دل سے خدا کو پکارو کہ اس نے تمہیں اس میں روزہ رکھتے اور قرآن پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے کیونکہ بدبخت اور شقی ترین وہ شخص ہے جو اس بزرگ مہینے میں اللہ تعالی کے بخشنے جانے سے محروم رہے اس میں اپنی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو_ فقراء اور مساکین کو صدقہ دو اور بڑوں کا احترام کرو اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کرو_ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو_ اپنی زبان کی حفاظت کرو اور حرام چیزوں سے اپنی آنکھوں کو بندہ کرو اور کانوں کو احرام کے سننے سے بند کرو_ یتیموں پر رحم اور مہربانی کرو_ اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو_ اور نماز کے اوقات میں اپنے ہاتھوں کو دعا کرنے کے لئے بلند کرو کیونکہ یہ وقت بہترین وقت ہے کہ خدا لوگوں پر رحمت کی نگاہ ڈالتا ہے اور ان کی مناجات کو قبول کرتا ہے اور ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے جب کوئی سوال کرے اسے عطا کرتا ہے اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہے_ لوگو تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے مقابلے میں گروہی میں پس استغفار کے ذریعے انہیں آزاد کراؤ_

تمہاری پشت گناہوں کی وجہ سے سنگین ہوچکی ہے طویل سجدوں سے اس بار سنگین کو ہلکار کرو اور جان لو کہ خدا نے اپنے عزت کی قسم کھا رکھی ہے کہ نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہ کرے اور ان کو قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ڈرائے_

لوگو جو شخص اس مہینے میں روزہ دار کو افطاری کرائے اسے ایک بندے کے آزاد کرنے کا ثواب دیا جائیگا اور گذرے ہوئے گناہوں کو معاف کردیا جائیگا_ کہا گیا_ یا رسول اللہ_ ہم تمام افطاری دینے پر قدرت نہیں رکھتے _ آپ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ سے بچو خواہ ایک ٹکڑا یا پانی کا ایک گھونٹ پلانا ہی کیوں نہ ہو _ لوگو جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا کرے قیامت کے دل پل صراط سے عبور کرے گا_ اور خدا

۲۹۵

اسے آزاد کرے گا_ جو شخص اس مہینے میں کسی بندے کے کام کو آسان کردے خداوند عالم قیامت کی دن اس کے کام کو آسان کردے گا_ جو شخص اس مہینے میں اپنی برائی کو لوگوں سے روکے خدا قیامت کے دن اپنے غضب کو اس سے روکے گا_ جو شخص کسی یتیم کی عزت کرے خدا قیامت کے دن اسے اپنی رحمت سے متصل کرے گا جو شخص قطع رحمی کرے خدا قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کردے گا_ جو شخص اس مہینے میں مستحب نمازیں پڑھے خدا اس کے لئے جہنم سے برات لکھ دے گا_ جو شخص اس مہینے میں مجھ پر زیادہ درود بھیجے خدا اس کے نامہ اعمال کے ترازو کو بھاری قرار دے گا_ جو شخص اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت پڑھے اس کو ایک قرآن کے ختم کرنے کا جو دوسرے مہینوں میں پڑھے گا ثواب دیا جائیگا_ لوگو اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اللہ تعالی سے طلب کرو کہ وہ تم پر بند نہ کرے _ اس مہینے میں دوزخ کے دروازے بند کردیئےاتے ہیں_ خدا سے طلب کرو کہ وہ تم پر کھول نہ دیئے جائیں_ اس مہینے میں شیطانوں کو زنجیروں میں بند کر دیا جاتا ہے خدا سے طلب کرو کہ ان کو تم پر تسلط اور غلبہ نہ دیا جائے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا_ یا رسول اللہ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابوالحسن_

اس مہینے میں محرمات سے پرہیز کرنا سب سے زیادہ افضال عمل ہے_(۵۳۴)

جیسے کہ ان حادیث سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ماہ رمضان پر برکت اور بافضیلت مہینہ ہے یہ عبادت اور اپنے آپ کو بنانے دعا اور تہجد نفس کی تکمیل اور تربیت کا مہینہ ہے_ اس مہینے میں عبادت دوسرے مہینوں کی نسبت کئی برابر ثواب رکھتی ہے یہاں تک کہ اس مہینے میں مومن کا سانس لینا بھی عبادت ہے_ اس مہینے مین جنت کے دروازے مومنین کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں_ اللہ تعالی کے فرشتے خدا کے بندوں کو عبادت کی طرف بلاتے

۲۹۶

رہتے ہیں بالخصوص سحری اور شب قدر کہ جس میں جاگتے رہنا اور عبادت کرنا ہزار مہینے سے افضل ہے خدا نے اس مہینے میں عام دربار لگایا ہے اور تمام مومنین کو اپنی طرف مہمانی کے لئے بلایا ہے اس دعوت کا پیغام پیغمبر علیہم السلام لائے ہیں_

میزبان جواد مطلق ہے _ اللہ کے مقرب فرشتے مہمان مومنین کے خدمت گزار ہیں_ اللہ تعالی کی نعمتوں کا عام دسترخوان بچھا ہوا ہے_ مختلف قسم کی نعمتیں اور جوائز کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے_ اور نہ کسی کے دل پر خطور کیا ہے مہیا کر دی گئی ہیں_ رمضان کا مہینہ پر برکت اور با فضیلت مہینہ ہے_اللہ تعالی کی توفیق ہر طرف سے آمادہ اور مہیا ہے_ دیکھیں کہ ہماری ہمت اور لیاقت کتنی ہے اگر ہم نے غفلت کی تو قیامت کے دن پشیمان ہونگے لیکن اس دن پشیمانی کوئی قائدہ مند نہ ہوگی_ ماہ رمضان کی دعائیں مفاتیح الجنان اردو اور دوسری دعاؤں کی کتابوں میں موجود ہیں جیسے مفاتیح الجنان جدید و غیرہ_ خلوص اور توجہہ کے ساتھ اللہ تعالی کے تقرب اور سیر و سلوک کے لئے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے_

آخر میں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ باقی تمام عبادات بھی نماز اور روزے ذکر اور دعا کی طرح اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے اور تکمیل اور تربیت نفس میں مفید اور موثر ہوتے ہیں چونکہ ہماری بنا اختصار پر تھی لہذا ان کو توضیح اور تشریح سے صرف نظر کیا ہے_

۲۹۷

حواشی-۱

۱_لقد منّ الله علیه المؤمنین اذ بعث فیهم رسولاً من انفسهم یتلوا علیهم آیاته و یزکیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین_ آل عمران/ ۱۶۴

۲_ قال رسول الله صلّی الله علیه و آله: علیکم بمکارم الاخلاق فانّ الله عزوجل بعثنی بها_ بحار/ ج ۶۹ ص ۳۷۵_

۳_ عن النبی صلی الله علیه و آله انه قال: انّما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق_ مستدک /ج ۲ ص ۲۸۲_

۴_ قال ابوعبدالله علیه السلام: انّ الله تبارک و تعالی خصّ الانبیا_ بمکارم الاخلاق، فمن کانت فیه فلیحمد الله علی ذلک، و من لم یکن فلیتضرع الی الله و لیسئله_ مستدرک/ ج ۲ ص ۲۸۳_

۵_ قال امیرالمؤمنین علیه السلام: لو کنّا لا نرجو جنة و لا نخشی ناراً و لا ثواباً و لا عقاباً لکان ینبغی لنا ان نطلب مکارم الاخلاق فانها مما تدّل علی سبیل النجاح_ مستدرک/ ج۲ ص ۲۸۳_

۶_ عن ابی جعفر علیه السلام قال: انّ اکمل المؤمنین ایماناً احسنهم خلقاً_ کافی/ ج ۲ ص ۹۹_

۷_ جاء رجل الی رسول الله علیه و آله من بین یدیه فقال: یا رسول الله ماالدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من قبل یمینه فقال: یا رسول الله ما الدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من قبل شماله فقال: ما الدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من ورائه فقال: ما الدین؟ فالتفت الیه فقال: اما تفقه؟ هو ان لا تغضب_ محجة البیضائ/ ج ۵ ص ۸۹_

۸_الذی احسن کلّ شیء خلقه و بدا خلق الانسان من طین، ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهین ثمّ سوّاه و نفخ فیه من روحه و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدة قلیلاً ما تشکرون _ سجدة/ ۷_

۲۹۸

۹_فاذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین _ حجر/ ۲۹_

۱۰_و لقد کرّمنا بنی آدم و حملناهم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضّلناهم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً _ اسرائ/ ۷۰_

۱۱_قل ان الخاسرین الذین خسروا انفسهم و اهلیهم یوم القیامة الا ذالک هو الخسران المبین _ زمر/ ۱۵_

۱۲_ قال علی علیه السلام: عجبت لمن ینشد ضالته و قد اضلّ نفسه فلا یطلبها_ غرر الحکم/ ص ۴۹۵_

۱۳_و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی و ما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً _ اسرائ/ ۸۵_

۱۴_ قال علی علیه السلام: ان النفس لجوهرة ثمنیة من صانها رفعها و من ابتذلها وضعها_ غرر الحکم/ ص ۲۲۶_

۱۵_ قال علی علیه السلام: من عرف نفسه لم ینهنا بالفانیات_ غرر الحکم/ ص ۶۶۹_

۱۶_ قال علی علیه السلام: من عرف شرف معناه صانه عن دنائة شهوته و زور مناه_ غرر الحکم/ ص ۷۱۰_

۱۷_ قال علی علیه السلام: من شرف نفسه کثرت عواطفه_ غرر الحکم / ص ۶۳۸_

۱۸_ قال علی علیه السلام: من شرف نفسه نزّها عن ذلّه المطالب_ غرر ا لحکم/ ص ۶۹۹_

۱۹_و امّا من خاف مقام ربّه و نهی النفس عن الهوی فانّ الجنة هی الماوی _ نازعات/ ۴۱_

۲۰_و ما ابرّء نفسی انّ النفس لا مّارة بالسوء الا ما رحم ربّی _ یوسف/ ۵۳_

۲۱_ قال النبی صلی الله علی و آله: اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک_ بحار/ ج ۷۰ ص ۶۴_

۲۲_ قال علی علیه السلام: انّ النفس لامّارة بالسوء فمن ائتمنها خانته و من استنام الیها اهلکته و من رضی عنها اوردته شرّ الموارد_ غرر الحکم/ ص ۲۲۶_

۲۳_ قال علیه بن الحسین علیه السلام فی دعاه: الهی الیک اشکو نفساً بالسوء امّارة و الی الخطئیة مبادرة و بمعاصیک مولعة و لسخطک متعرضه تسلک بی مسالک المهالک_ بحار/ ج ۹۴ ص ۱۴۳_

۲۵_فان لم یستجیبوا لک فاعلم انّما یتّبعون اهوائهم من اضلّ ممن اتّبع هواه بغیر هدی من الله انّ الله لایهدی القوم الضالمین _ قصص/ ۵۰_

۲۶_و لقد ذرانا لجهنم کثیراً من الجن و الانس لهم قلوب لا یفقهون بها و لهم اعین لایبصرون بها و لهم اذان لایسمعون بها اولئک کالانعام بل هم اضلّ اولئک هم الغافلون _ اعراف/ ۱۷۹_

۲۹۹

۲۷_افرا یت من اتخذ الهه هواه و اضلّه الله علی علم و ختم علی سمعه و قلبه و جعل علی بصره غشاوة فمن یهدیه من بعد الله افلا تذکرون _ جاثیہ/ ۲۳_

۲۸_ قال علی علیه السلام: المغبون من شغل بالدنیا و فاته حظه من الاخرة_ غرر الحکم/ ج ۱ ص ۸۸_

۲۹_ قال علی علیه السلام: اکم نفسک من کل دنيّه و ان ساقتک الی الرغائب، فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا و لا تکن عبد غیرک و قد جعلک الله حرّاً و ما خیر خیرا لا ینال الا بشّر و یسر لا ینال الّا بعسر_ نهج البلاغه صبحی صالح/ ص ۴۰۱ کتاب ۳۱_

۳۰_ قال اامیرالمؤمنین علیه السلام: لبئس المتجر ان تری الدنیا لنفسک ثمناً و ممالک عند الله عوضا_ نهج البلاغه / خطبه ۳۳_ ۷۵_

۳۱_و نفس و ما سوّیها فا لهمها فجورها و تقوی ها، قد افلح من زكّیها و قد خاب من دسی ها _ شمس/ ۷ تا ۱۰_

۳۲_ قیل لعلی بن الحسین علیه السلام: من اعظم الناس خطراً؟ قال: من لم یر الدنیا خطراً لنفسه_ تحف العقول/ ص ۲۸۵_

۳۳_ قال علی علیه السلام: من کرمت علیه نفسه هانت علیه شهواته_ نهج البلاغه/ قصار ۴۴۹_

۳۴_یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا و هم عن الاخرة غافلون _ روم/ ۷_

۳۵_لقد کمنت فی غفلة من هذا فبصرک الیوم حدید _ ق/ ۲۲_

۳۶_کل نفس بما کسبت رهینة _ مدثر/ ۳۸_

۳۷_ثم توفی کل نفس ما کسبت و هم لا یظلمون _ آل عمران/ ۱۶۱_

_لا یؤاخذکم الله باللغو فی ایمانکم و لکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم و الله غفور حلیم _ بقرہ/ ۲۲۵_

۳۸_لا یکلّف الله نفساً الّا وسعها لها ما کسبت و علیه ما اکتسبت _ بقرہ/ ۲۸۶_

۳۹_یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضراً و ما عملت من سوئ: تودّ لو انّ بینها و بینه امداً بعیداً _ آل عمران/ ۳۰_

۴۰_من عمل صالحاً فلنفسه و من اساء فعلیها ثم الی ربکم ترجعون _ جائیہ/ ۱۵_

۴۱_فمن یعمل مثقال ذرّه خیراً یره و من یعمل مثقال ذرّة شرّاً یره _ زلزال/ ۷_

۴۲_و ما تقدّموا لا نفسکم من خیر تجدوه عندالله _ بقرہ/ ۱۱_

۴۳_یوم لا ینفع مال و لا بنون الّا من اتی الله بقلب سلیم_ شعرائ/ ۸۵_

۳۰۰