خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 114117
ڈاؤنلوڈ: 4660

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114117 / ڈاؤنلوڈ: 4660
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

کہا جائیگا کہ اگر ہوسکتا ہے تو دنیا میں واپس چلے جاؤ اور اپنے لئے نور کو حاصل کرو _(۸۸)

قلب روح احادیث میں

دین کے رہبروں اور حقیقی انسان کو پہچاننے والوں نے انسان کی روح اور قلب کے بارے بہت عمدہ اور مفید مطالب بتلائے ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے کہ بعض احادیث کی بناپر قلب اور روح کو تین گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے_ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''ہم تین طرح کے قلب رکھتے ہیں_ پہلی نوع_ ٹیڑھا قلب جو کسی خیر اور نیکی کے کاموں کو درک نہیں کرتا اور یہ کافر کا قلب ہے_ دوسری نوع وہ قلب ہے کہ جس میں ایک سیاہ نقطہ موجود ہے یہ وہ قلب ہے کہ جس میں نیکی اور برائی کے درمیان ہمیشہ جنگ و جدال ہوتی ہے ان دو میں سے جو زیادہ قوی ہوگا وہ اس قلب پر غلبہ حاصل کریگا_ تیسری نوع قلب مفتوح ہے اس قلب میں چراغ جل رہا ہے جو کبھی نہیں بجھتا اور یہ مومن کا قلب ہے_(۸۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ ''آپ نے فرمایا کہ قلب کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہے_ قلب گناہ کا سامنا کرتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یہاں تک کہ گناہ قلب پر غالب آجاتا ہے اور وہ قلب کو ان اور ٹیڑہا کردیتا ہے _(۹۰)

اور امام سجاد علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ '' انسان کی چار آنکھیں ہیں اپنی دو ظاہری آنکھوں سے دین اور دنیا کے امور کو دیکھتا ہے اور اپنی دو باطنی آنکھوں سے ان امور کو دیکھتا ہے جو آخرت سے مربوط ہیں جب اللہ کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے قلب کی دو باطنی آنکھوں کو کھول دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعے غیب کے جہان اور آخرت کے امر کا مشاہدہ کرسکے اور اگر خدا اس کی خیر کا

۴۱

ارادہ نہ کرے تو اس کے قلب کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے _(۹۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' قلب کے دو کان ہیں ایمان کی روح آہستہ سے اسے کار خیر کی دعوت دیتی ہے اور شیطن آہستہ سے اسے برے کاموں کی دعوت دیتا ہے جو بھی ان میں سے دوسرے پر غالب آجائے وہ قلب کو اپنے لئے مخصوص کرلیتا ہے_(۹۲)

امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نقل کیا ہے کہ ''آپ (ص) نے فرمایا کہ سب سے بدترین اندھاپن قلب کا اندھا پن ہے_(۹۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے قلب میں ایک سفید واضح نقطہ ہوتا ہے اگر گناہ کا ارتکاب کرلے تو اس کے قلب میں سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے اگر اس کے بعد توبہ کرلے تو وہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر گناہ کرنے پر اصرار کرے تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سفید نقطے کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں پھر اس قلب کا مالک انسان نیکیوں کی طرف رجوع نہیں کرتا اور اس پر یہ آیت صادق آجاتی ہے کہ ان کے اعمال نے ان کے قلوب پرغلبہ حاصل کرلیا ہے اور انہیں تاریک کردیا ہے_(۹۴)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس میں تقوی اور خوف خدا کم ہو اس کا قلب او ردل مرجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ جہنم میں داخل ہوگا _(۹۵)

حضرت امیرعلیہ السلام نے اپنے فرزند کو وصیت میں فرمایا کہ ''اے فرزند فقر اور ناداری ایک مصیبت اور بیماری ہے اور اس سے سخت بیماری جسم کی بیماری ہے اور دل کی بیماری جسم کی بیماری سے بھی زیادہ سخت ہے_ مال کی وسعت اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے اس سے افضل بدن کا سالم رہنا ہے اور اس سے افضل دل کا تقوی ہے_(۹۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے_ کہ '' حضرت داود پیغمبر (ع) نے اللہ تعالی کی درگاہ میں عرض کیا خدایا تمام بادشاہوں کے خزانے میں تیرا خزانہ کہاں ہے؟

۴۲

اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا کہ میرا ایک خزانہ ہے جو عرش سے بڑا اور کرسی سے وسیع تر اور بہشت سے زیادہ خوشبودار اور تمام ملکوت سے زیادہ خوبصورت ہے اس خزانہ کی زمین معرفت اور اس کا آسمان ایمان_

اس کا سورج شوق اور اس کا چاند محبت اور اس کے ستارے خدا کی طرف توجہات اس کا بادل عقل اس کی بارش رحمت اس کا میوہ اطاعت اور ثمرہ حکمت ہے_ میرے خزانے کے چار دروازے ہیں پہلا علم، دوسرا عقل، تیسرا صبر، چوتھا رضایت، جان لے کہ میرا خزانہ میرے مومن بندوں کا قلب اور دل ہے_( ۹۷)

اللہ تعالی کے ان بندوں کے جو قلب اور دل اور روح کو پہنچانتے ہیں ان احادیث میں بہت مفید مطالب بیان فرمائے ہیں کہ کچھ کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں_

قلب کافر

کافر کے دل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ الٹا اور ٹیڑہا ہے اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے_ اس طرح کا دل اپنی اصلی فطرت سے ہٹ چکا ہے اور عالم بالا کی طرف نگاہ نہیں کرتا وہ صرف دنیاوی امور کو دیکھتا ہے اسی لئے وہ خدا اور آخرت کے جہاں کا مشاہدہ نہیں کرتا اس کے بارے نیکی اور خوبی کا تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نیک کام اس صورت میں درجہ کمال اور قرب الہی تک پہنچتے ہیں جب وہ رضا الہی کے لئے انجام دیئےائیں لیکن کافر نے اپنے دل کو الٹا کردیا ہے تا کہ وہ خدا کو نہ دیکھ سکے وہ اپنے تمام کاموں سے سوائے دنیا کے اور کوئی غرض نہیں رکھتا وہ صرف دنیا تک رسائی چاہتا ہے نہ خدا کا قرب_ اس طرح کا دل گرچہ اصلی فطرت والی آنکھ رکھتا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھ کو اندھا کر رکھا ہے_ کیونکہ وہ واضح ترین حقیقت وجود خدا جو تمام جہاں کا خالق ہے کا مشاہدہ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں اندھا ہے اور آخرت میں بھی اندھا ہوگا_ اس نے اس دنیا میں امور دنیا سے دل لگا رکھا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے

۴۳

امور دنیا سے ہی وابستگی باقی رہے گی لیکن وہ اسے وہاں حاصل نہ ہوں گے اور وہ اس کے فراق کی آگ میں جلتا رہے گا_ اس قسم کے دل میں ایمان کا نور نہیں چمکتا اور وہ بالکل ہی تاریک رہتا ہے_

۲_ کافر کے دل مقابل مومن کامل کا دل ہے_ مومن کے دل کا دروازہ عالم بالا اور عالم غیب کی طرف کھلا ہوا ہوتا ہے ایمان کا چراغ اس میں جلتا ہوا ہوتا ہے اور کبھی نہیں بجھتا_ اس کے دل کی دونوں آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں اور عالم غیب اور اخروی امور کو ان سے مشاہدہ کرتا ہے_ اس طرح کا دل ہمیشہ ہمیشہ کمال اور جمال اور خیر محض یعنی خداوند تعالی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس کا تقرب چاہتا ہے وہ خدا کو چاہتا ہے اور مکارم اخلاق اور اعمال صالح کے ذریعے ذات الہی کی طرف حرکت کرتا رہتا ہے_ اس قسم کا دل عرش اور کرسی سے زیادہ وسیع اور بہشت سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کا مرکز انوار الہی اور خزانہ الہی قرار پائے_ اس طرح کے دل کی زمین اللہ کی معرفت اور اس کا آسمان اللہ پر ایمان اور اس کا سورج لقاء الہی کا شوق اور اس کا چاند اللہ کی محبت_ مومن کے دل میں عقل کی حکومت ہوتی ہے اور رحمت الہی کی بارش کو اپنی طرف جذب کرلیتا ہے کہ جس کا میوہ عبادت ہے اس طرح کے دل میں خدا اور اس کے فرشتوں کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں ہوتی_

ایسا دل تمام کا تمام نور ا ور سرور اور شوق اور رونق اور صفا والا ہوتا ہے اور آخرت کے جہان میں بھی اسی حالت میں محشور ہوگا_ (ایسے دل والے کو مبارک ہو)

۳_ مومن کا دل جب کبھی گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے تو ایسے مومن کا دل بالکل تاریک اور بند نہیں رہتا بلکہ ایمان کے نور سے روشن ہوجاتا ہے اور کمال الہی اور تابش رحمت کے لئے کھل جاتا ہے لیکن گناہ کے بجالانے سے اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ موجود ہوجاتا ہے اور اسی طریق سے شیطن اس میں راستہ پالیتا ہے_ اس کے دل

۴۴

کی آنکھ اندھی نہیں ہوتی لیکن گناہ کی وجہ سے بیمار ہوگئی ہے اور اندھے پن کی طرف آگئی ہے_ اس طرح کے دل میں فرشتے بھی راستے پالیتے ہیں اور شیطن بھی_ فرشتے ایمان کے دروازے سے اس میں وارد ہوتے ہیں اور اسے نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں شیطن اس سیاہ نقطہ کے ذریعے سے نفوذ پیدا کرتا ہے اور اسے برائی کی دعوت دیتا ہے_ شیطن اور فرشتے اس طرح کے دل میں ہمیشہ جنگ اور جدال میں ہوتے ہیں_ فرشتے چاہتے ہیں کہ تمام دل پر نیک اعمال کے ذریعے چھاجائیں اور شیطن کو وہاں سے خارج کردیں اور شیطن بھی کوشش کرتا ہے کہ گناہ کے بجالانے سے دل کو تاریک بلکہ تاریک تر کردے اور فرشتوں کو وہاں سے باہر نکال دے اور پورے دل کو اپنے قبضے میں لے لے اور ایمان کے دروازے کو بالکل بند کردے_ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کو دکھیلنے پر لگے رہتے ہیں اور پھر ان میں کون کامیاب ہوتا ہے اور اس کی کامیابی کتنی مقدار ہوتی ہے_ انسان کی باطنی زندگی اور اخروی زندگی کا انجام اسی سے وابستہ ہوتا ہے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں نفس کیساتھ جہاد کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ جس کی تفصیل بیان کی جائیگی_

قسی القلب

انسان کی روح اور دل ابتداء میں نورانیت اور صفاء اور مہربانی اور ترحم رکھتے ہیں_ انسان کا دل دوسروں کے دکھ اور درد یہاں تک کہ حیوانات کے دکھ اور درد سے بھی رنج کا احساس کرتا ہے اسے بہت پسند ہوتا ہے کہ دوسرے آرام اور اچھی زندگی بسر کریں اور دوسروں پر احسان کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے اور اپنی پاک فطرت سے خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور عبادت اور دعا راز و نیاز اور نیک اعمال کے بجالانے سے لذت حاصل کرتا ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے فوراً متاثر اور پشیمان ہوجاتا ہے_ اگر اس نے فطرت کے تقاضے کو قبول کرلیا اور اس کے مطابق عمل کیا تو

۴۵

دن بدن اس کے صفا قلب اورنورانیت اور مہربان ہونے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے_

عبادت اور دعا کے نتیجے میں دن بدن عبادت اور دعا اور خدا سے انس و محبت میں زیادہ علاقمند ہوتا جاتا ہے_ اور اگر اس نے اپنے اندرونی اور باطنی خواہشات کو نظرانداز کیا اور اس کے مخالف عمل کیا تو آہستہ آہستہ وہ پاک احساسات نقصان کی طرف جانا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ ممکن ہے وہ بالکل ختم اور نابود ہوجائیں_ اگر اس نے دوسروں کے درد کے موارد کو دیکھا اور ان کے خلاف اپنے رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان کے دیکھنے سے معمولی سا اثر بھی نہیں لیتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ دوسروں کے فقر اور فاقہ اور ذلت و خواری بلکہ ان کے قید و بند اور مصائب سے لذت حاصل کرنا شروع کردے_ انسان ابتداء میں گناہ کرنے پر پشیمان اور ناخوش ہوتا ہے لیکن اگر ایک دفعہ گناہ کا ارتکاب کرلیا تو دوسری دفعہ گناہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے اور اسی طرح دوسری دفعہ گناہ کے بعد تیسری دفعہ گناہ کرنے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اور گناہ کرنے کے اصرار پر ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر گناہ کرنے سے پیشمانی کا احساس تو بجائے خود بلکہ گناہ کرنے کو اپنی کامیابی اور خوشی قرار دیتا ہے_ ایسے انسانوں کے اس طرح کے دل سیاہ اور الٹے ہوچکے ہوتے ہیں اور قرآن اور احادیث کی زبان میں انہیں قسی القلب کہا جاتا ہے شیطین نے ایسے دلوں پر قبضہ کرلیا ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کو وہاں سے نکال دیا ہوتا ہے_ اس کے نجات کے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہیں کہ اس کے لئے توبہ کرنے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''جب ہماری مصیبت ان پر وارد ہوتی ہے تو توبہ اور زاری کیوں نہیں کرتے؟ ان کے دلوں پر قساوت طاری ہوچکی ہے اور شیطان نے ان کے برے کردار کو ان کی آنکھوں میں خوشنما بنادیا ہے_(۹۸)

نیز خدا فرماتا ہے_ '' افسوس ہے ان دلوں پر کہ جنہیں یاد خدا سے قساوت نے گھیر رکھا ہے ایسے لوگ ایک واضح گمراہی ہیں پڑے ہوئے ہیں_(۹۹)

۴۶

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''ہر مومن کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے اگر اس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور دوبارہ اس گناہ کو بجالایا تو ایک سیاہ نقطہ اس میں پیدا ہوجاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کرنے پر اصرار کیا تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس دل کے سفید نقطہ کو بالکل ختم کردیتا ہے اس وقت ایسے دل والا آدمی کبھی بھی اللہ تعالی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور یہی خداوند عالم کے اس فرمان سے کہ ان کے کردار نے ان کے دلوں کو چھپا رکھا ہے مراد ہے_(۱۰۰)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے آنسو قساوت قلب کی وجہ سے خشک ہوجاتے ہیں اور قلب میں قساوت گناہون کے اثر کیوجہ سے ہوتی ہے_(۱۰۱)

رسول خدا نے فرمایا ہے '' چار چیزیں انسان میں قساوت قلب کی علامتیں ہیں_ آنسوں کا خشک ہوجانا_ قساوت قلب_ روزی کے طلب کرنے میں زیادہ حریص ہونا_

اور گناہوں پر اصرار کرنا_(۱۰۲)

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں_ '' اے میرے خدا میں دل کے سخت ہوجانے سے آپ سے شکایت کرتا ہوں ایسا دل جو وسواس سے ہمیشہ تغیرپذیر ہے اور آلودگی اور خشم سے جڑا ہوا ہے_ میں آپ سے ایسی آنکھ سے شکایت کرتا ہوں جو تیرے خوف سے نہیں روتی اور اس کی طرف متوجہ ہے جو اسے خوش رکھتی ہے_(۱۰۳)

پس جو انسان قلب کی سلامتی اور اپنی سعادت سے علاقمند ہے اس کو گناہ کے ارتکاب سے خواہ گناہ صفیرہ ہی کیوں نہ ہو بہت زیادہ پرہیز کرنی چاہئے_ اور ہمیشہ اپنی روح کو نیک کاموں عبادت دعا اور خدا سے راز و نیاز مہربانی احسان اور دوسروں کی مدد مظلوموں اور محروموں کی حمایت اور خیرخواہی نیک کاموں میں مدد عدالت خواہی اور عدالت برپا کرنے میں مشغول رکھے تا کہ آہستہ آہستہ نیک اعمال بجالانے کی عادت پیدا کرے اور باطنی صفا اور نورانیت کو حاصل کرلے تا کہ اس کی روح ملائکہ کا مرکز قرار پائے_

۴۷

قلب کے طبیب اور معالج

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دل اور روح بھی جسم کی طرح سالم ہوا کرتا ہے اور بیمار_ انسان کی اخروی سعادت اس سے مربوط ہے کہ انسان سالم روح کے ساتھ اس دنیا سے جائے_ ہمارے لئے ضروری ہے کہ روح کی سلامتی اور بیماریوں سے واقف ہوں_

ان بیماریوں کی علامات کو پہچانیں تا کہ روح کی مختلف بیماریوں سے مطلع ہوں ان بیماریوں کے اسباب اور علل کو پہچانیں تا کہ ان بیماریوں کو روک سکیں کیا ان بیماریوں کی پہچان میں ہم خود کافی معلومات رکھتے ہیں یا ان کی پہچان میں پیغمبروں کے محتاج ہیں_ اس میں کسی شک کی گنجائشے نہیں کہ ہم روح کی خلقت اور اس کے اسرار اور رموز سے جو اس موجود ملکوتی میںرکھے گئے کافی معلومات نہیں رکھتے_

قاعدتا ہم اپنی روحانی اور باطنی زندگی سے بے خبر ہیں_ نفسانی بیماریوں کے اسباب کو اچھی طرح نہیں جانتے اور ان بیماریوں کی علامتوں کی بھی اچھی طرح تشخیص نہیں کرسکتے اور ان مختلف بیماریوں کا علاج اور توڑ بھی نہیں جانتے اسی لئے پیغمبروں کے وجود کی طرف محتاج ہیں تا کہ وہ ہمیں اس کے طریق کار کی ہدایت اور رہبری کریں_ پیغمبر روح کے معالج اور ان بیماریوں کے علاج کے جاننے والے ہوتے ہیں_ اور اللہ تعالی کی تائید اور الہامات سے روح کے درد اور اس کے علاج کو خوب جانتے ہیں وہ انسان شناسی کی درسگاہ میں بذریعہ وحی انسان شناس بنے ہیں اور اس ملکوتی وجود کے اسرار اور رموز سے اچھی طرح مطلع اور آگاہ ہیں_ وہ صراط مستقیم اور اللہ کی طرف سیر و سلوک کو خوب پہچانتے ہیں اور انحراف کے اسباب اور عوامل سے واقف ہیں اسی لئے وہ انسان کی اس سخت راستے کو طے کرنے میں مدد کرتے ہیں اور انحراف اور کجروی سے روکتے ہیں_ جی ہاں پیغمبر اللہ کی طرف سے معالج ہیں کہ تاریخ انسانی

۴۸

میں انہوں نے انسان کی خدمت انجام دی ہے اور ان کی ایسی خدمات کئی درجہ زیادہ بدن کے معالجین سے بڑھ کر کی ہے پیغمبروں نے جوہر ملکوتی ورح کو کشف کرتے ہوئے انسانوں کو اس کی پہچان کرائی ہے اور ان کی انسانی شخصیت کو زندہ کیا ہے_ پیغمبر(ص) تھے کہ جنہوں نے انسانوں کا مکارم اخلاق اور معارف اور معنویات سے روشناس کیا ہے اور قرب الہی کے راستے اور سیرو سلوک کی نشاندہی کی ہے_ پیغمبر تھے کہ جنہوں نے انسان کو خدا اور جہان غیب سے آشنا اور واقف کیا ہے اور انسان کے تزکیہ نفس اور تہذیب کے پرورش کرنے میں کوشش اور تلاش کی ہے_ اگر انسان میں معنویت محبت اور عطوفت اور مکارم اخلاق اور اچھی صفات موجود ہیں تو یہ اللہ کے بھیجے ہوئے معالجین کی دائمی اور متصل کوشش بالخصوص خاتم پیغمبر علیہ السلام کی دائمی کوشش کی برکت سے ہیں واقعا پیغمبر اللہ تعالی کے صحیح اور ممتاز بشریت کے معالج ہیں اسی لئے احادیث میں ان کی عنوان طبیب اور معالج کے عنوان سے پہچان کرائی گئی ہے_

امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر گرامی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ '' محمد(ص) چلتا پھر تا طبیب ہے کہ ہمیشہ انسانی روحوں کی طبابت کرنے میں کوشان تھا اور بیماریوں کے علاج کے لئے مرہم فراہم کر رکھی تھی اور اسے مناسب مورد میں کام میں لاتا تھا_ اندھی روح اور بہرے کان گنگی زبان کو شفا دیتے تھے_ اور داؤوں کو انسانوں پر استعمال کرتے تھے جو حیرت اور غفلت میں غرق اور تھے ان انسانوں کو جو حکمت اور علم کے نور سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور حقائق اور معارف الہی کے ناشناس تھے اسی لئے تو ایسے انسان حیوانات سے بھی بدتر زندگی بسر کرتے تھے_(۱۰۴)

قرآن کو روح کے لئے شفاء دینی والی دواء بیان کیا گیا ہے_

خدا ارشاد فرماتا ہے کہ '' اللہ کی طرف سے موعظہ نازل ہوا ہے اور وہ قلب یعنی روح کے درد کے لئے شفا ہے_(۱۰۵)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' قرآن میں ہم نے بعض ایسی چیزیں نازل کی ہیں جو مومنین

۴۹

کے لئے شفاء اور رحمت ہیں_(۱۰۶)

امیر المومنین علیہ السلام قرآن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''قرآن کو سیکھو کہ وہ بہترین کلام ہے اس کی بات میں خوب غور کرو کہ عقل کی بارش روح کو زندہ کرتی ہے اور قرآن کے نور سے شفاء حاصل کرو کہ وہ دلوں کو یعنی روحوں کو شفا بخشتا ہے_(۱۰۷)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ '' جو شخص قرآن رکھتا ہو وہ کسی دوسری چیز کا محتاج نہ ہوگاہ اور جو شخص قرآن سے محروم ہوگاہ کبھی غنی نہ ہوگا_ قرآن کے واسطے سے اپنے روح کی بیماریوں کا علاج کرو اور مصائب کے ساتھے مٹھ بھیڑ میں اس سے مدد لو کیونکہ قرآن بزرگترین بیماری کفر اور نفاق اور گمراہی سے شفا دیتا ہے_(۱۰۸)

جی ہاں قرآن میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نفوس کے طبیب ہیں_ ہمارے درد اور اس کے علاج کو خوب جانتا ہے اور ایسے قرآن کو لایا ہے جو ہمارے باطنی درد کے لئے شفا دیتے کا ضابطہ ہے اور ہمیں ایسا قرآن دیا ہے_ اس کے علاوہ کئی اقسام کی باطنی بیماریوں اور ان کے علاج پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے واضح کیا ہے اور وہ حدیث کی شکل میں ہمارے لئے باقی موجود ہیں لہذا اگر ہمیں اپنے آپ کے لئے روح کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو ہمیں قرآن اور احادیث سے استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی روح کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو ہمیں قرآن اور احادیث سے استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی روح کی سعادت اور سلامتی کے طریق علاج کی مراعات کرنی چاہئے اور قرآن اور پیغمبر(ص) اور ائمہ اطہارعلیہم السلام کی راہنمایی میں اپنی روح کی بیماریوں کو پہچاننا چاہئے اور ان کی علاج کے لئے کوشش اور سعی کرنی چاہئے اور اگر ہم اس امر حیاتی اور انسان ساز میں کوتاہی کریں گے تو ایک بہت بڑے نقصان کے متحمل ہونگے کہ جس کا نتیجہ ہمیں آخرت کے جہان میں واضح اور روشن ہوگا_

تکمیل اور تہذیب نفس

پہلے بتاتا جا چکا ہے کہ روح کی پرورش اور تربیت ہمارے لئے سب سے زیادہ

۵۰

ضروری ہے کیونکہ دنیا اور آخرت کی سعادت اسی سے مربوط ہے اور پیغمبر علیہم السلام بھی اسی غرض کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے ہیں_ روح کی تربیت اور خودسازی دو مرحلوں میں انجام دینی ہوگی_

پہلا مرحلہ: روح کی برائیوں سے پاک کرنا یعنی روح کو برے اخلاق سے صاف کرنا اور گناہوں سے پرہیز کرنا اس مرحلہ کا نام تصفیہ اور تخلیہ رکھنا گیا ہے_

دوسرا مرحلہ: روح کی تحصیل علم اور معارف حقہ فضائل اور مکارم اخلاق اور اعمال صالحہ کے ذریعے تبریت اور تکمیل کرنا اس مرحلہ کا نام تحلیہ رکھا گیا ہے یعنی روح کی پرورش اور تکمیل اور اسے زینت دینا_

انسان کو انسان بنانے کے لئے دونوں مرحلوں کی ضرورت ہوتی ہے اس واسطے کہ اگر روح کی زمین برائیوں سے پاک اور منزہ نہ ہوئی تو وہ علوم اور معارف حقہ مکارم اخلاق اعمال صالح تربیت کی قابلیت پیدا نہیں کرے گاہ وہ روح جو ناپاک اور شیطان کا مرکز ہو کس طرح انوار الہی کی تابش کا مرکز بن سکے گا؟ اللہ تعالی کے مقرب فرشتے کس طرح ایسی روح کی طرف آسکیں گے؟ اور پھر اگر ایمان اور معرفت اور فضائل اخلاق اور اعمال صالح نہ ہوئے تو روح کس ذریعے سے تربیت پا کر تکامل حاصل کرسکے گی_ لہذا انسان کو انسان بنانے کے لئے دونوں مرحلوں کو انجام دیا جائے ایک طرف روح کو پاک کیا جائے تو دوسری طرف نیک اعمال کو اس میں کاشت کیا جائے _ شیطن کو اس سے نکالا جائے اور فرشتے کو داخل کیا جائے غیر خدا کو اس سے نکالا جائے اور اشراقات الہی اور افاضات کو اس کے لئے جذب کیا جائے یہ دونوں مرحلے لازم اور ملزم ہیں یوں نہیں ہو سکتا کہ روح کے تصفیہ کے لئے کوشش کی جائے اور نیک اعمال کو بجا لانے کو بعد میں ڈالا جائے جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ باطنی امور کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے اور نیک اعمال بجالانے میں مشغول ہوا جائے بلکہ یہ دونوں ایک ہی زمانے میں بجا لائے جانے چاہئیں برائیوں اور برے اخلاق کو ترک کر

۵۱

دینا انسان کو اچھائیوں کے بجالانے کی طرف بلاتا ہے اور نیک اعمال کا بالانا بھی گناہوں اور برے اخلاق کے ترک کر دینے کا موجب ہوتا ہے لہذا اس بحث میں ہم مجبور ہیں کہ ان دونوں مرحلوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیں لہذا پہلے ہم تہذیب نفس اور روح کی پاکی بحث کرتے ہیں_

۵۲

پہلا حصہ

تخلیہ یا تہذیب نفس

۵۳

تہذیب نفس

اس مرحلے میں ہمیں تین کام انجام دینے ہونگے_

۱_ باطل عقائد اور غلط افکار اور خرافات سے نفس کو پاک کرنا_

۲_ برے اخلاق اور رذائل سے نفس کو پاک کرنا_

۳_ گناہوں اور معاصی کا ترک کرنا_

خرافات اور عقائد باطل عین جہالت اور نادانی ہوتے ہیں اور انسان کی رو ح کو تاریک کر دیتے ہیں اور صراط مستقیم اور قرب الہی اور تکامل سے منحرف کر دیتے ہیں باطل عقائد رکھنے والے تکامل کے راستے کو نہیں بچانتے اسی واسطے گمراہی اور ضلالت کی وادی میں قدم رکھتے ہیں اور یقینا مقصد تک نہیں پہنچتے جو روح تاریک ہو کس طرح وہ انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار پا سکتی ہے؟ اسی طرح برے اخلاق اور ان کے ملکات حیوانی عادات کو تقویت پہچانتے ہیں اور انسانی روح کو آہستہ آہستہ خاموش اور تنہا ہو جانے کی طرف لے جاتے ہیں ایسا انسان انسانی غرض خلقت جو قرب الہی اور کمال تک پہنچنا ہوتا ہے کبھی نہیں پہنچے گا اسی طرح گناہوں اور معصیت کو بجالانا انسان کی روح کو تاریک اور آلودہ کر دیتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تکامل اور قرب الہی سے دور ہو جاتا ہے اور اس طرح انسان آخری غرض اور غایت تک نہیں پہنچنے پاتا_ اسی

۵۴

واسطے نفس کا پاک و پاکیزہ کرنا ہمارے لئے انتہائی اہم اور ضروری کام شمار ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ پہلے برے اخلاق اور گناہوں کو پہچانیں اور پھر عمل کے مرحلے میں قدم رکھیں اور اپنی روح کو پاک و پاکیزہ بنائیں_ اتفاق سے ہمیں پہلے مرحلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اس واسطے کہ ارواح کے اطباء اور خدا کے بھیجے ہوئے انسان شناسی یعنی پیغمبروں اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے برے اخلاق کو بطور کامل ہمارے لئے بیان کر دیا ہے اور ان کا علاج کرنا بھی بتلا دیا ہے_ معصیت اور نافرمانیوں کو ہمارے لئے شمار کر کے انکا علاج بھی بیان کر دیا ہے ہم تمام برے اخلاق کو جانتے اور پہچانتے ہیں اور ان کی برائیوں سے آگاہ ہیں _ ہم جانتے ہیں کہ نفاق ،تکبر ،حسد ،کینہ پروری، غضب چغلخوری خیانت ،خودپسندی ،برا چاہنا، شکایت کرنا، تہمت لگانا، برا بھلا کہنا، بد زبان ہونا، تندخوئی_ ظلم بے اعتمادی خوف، بخل، حرص، عیب جوئی، جھوٹ بولنا، حب دنیا اور مقام اور ریاست کی محبت ریاکاری، دھوکا دینا، حیلہ باز ہونا، براگمان، قسی القلب ہونا، ضعف نفس اور اس طرح کی دوسری صفات بری اور زشت ہیں_ اس کے علاوہ ہم فطرت کی رو سے ان کی برائیوں کو سمجھ پاتے ہیں_ سینکڑوں روایات اور آیات ان کی برائیوں اور قبیح ہونے کی گوہی دے رہی ہیں ہماری احادیث اس کے متعلق اتنی زیادہ ہیں کہ ان میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا_ اسی طرح تمام محرمات اور گناہوں کی وضاحت قرآن مجید اور انکی تشریح اور ان کا عذاب اور سزا احادیث میں موجود ہے_ غالبا ہم تمام کو جانتے ہیں لہذا برے اخلاق اور صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی پہچان میں ہمیں کوئی مشکل نہیں آتی اس کے باوجود ہم غالبا شیطن اور نفس امارہ کے قیدی ہیں اور توفیق حاصل نہیںکرتے کہ اپنی نفس گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کریں اور یہی اساسی مشکل ہے کہ جس کا علاج ہمیں سوچنا چاہئے_ میری نگاہ میں اس کا مہم ترین سبب دو چیزیں ہیں_ پہلی کہ ہم اپنی اخلاقی بیماریوں کو نہیں پہچانتے اور اپنے بیمار ہونے کا اقرار نہیں کرتے اور دوسرے اخلاقی بیماری کو معمولی قرار دیتے ہیں اور اس کے برے اور دردناک انجام سے غافل ہیں اسی لئے تو اس کے علاج کرنے میں

۵۵

کو شش نہیں کرتے یہی وہ دو مہم سبب ہیں کہ جنہوں نے ہمیں اپنی اصلاح اور تہذیب نفس سے غافل کر رکھا ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس میں بحث کریں اور اس کا علاج بتلائیں_

بیماری سے غفلت

ہم غالبا اخلاقی بیماریوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے برے ہونے کو بھی جانتے ہیں لیکن یہ صرف دوسروں میں نہ اپنے وجود میں_ اگر ہم کسی دوسرے میں برے اخلاق اور برے رفتار کو دیکھیں تو اس کی برائی کو اچھی طرح جان لیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہی بری صفت بلکہ اس سے بدتر ہم میں موجود ہو تو اس کی طرف ہم بالکل متوجہ نہیں ہوتے مثلا دوسرے کے حقوق کو ضائع کرنا برا سمجھتے ہیں اور اس کے بجا لانے والے سے نفرت کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہم خود دوسروں کے حقوق ضائع کر رہے ہوں لیکن اسے بالکل نہیں سمجھتے بلکہ اپنے کام کو تو دوسرے کے حقوق کو ضائع کرنا ہی نہیں جانتے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اپنے ایسے کام کو ایک اپنی نگاہ میں بہت عمدہ اور اخلاقی قدر والا گر دانتا ہو اسی طریقے سے اپنے نفس کو مطمئن کر دیتے ہیں یہی حال دوسرے بری صفات کا بھی ہو سکتا ہے یہی تو وجہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی کبھی اصلاح کرنے کی فکر میں نہیں جاتے کیونکہ اگر بیمار اپنے آپ کو بیمار نہ سمجھے تو وہ علاج کرنے کی فکر میں نہیں جاتا اور چونکہ ہم اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتے لہذا اس کے علاج کرنے کے درپے بھی نہیں ہوتے ہماری سب سے بڑے مصیبت اور مشکل یہی ہے_ لہذا اگر ہم اپنی سعادت کی فکر میں جائیں تو اس مشکل کا حل ہمیں تلاش کرنا ہوگا اور جس ذریعے سے بھی ممکن ہو ہمیں اپنی نفسانی بیماریوں کے پہچاننے میں کوشش کرنی چاہئے_

۵۶

نفس کی بیماریوں کے تشخیص کے راستے

بہتر ہوگا کہ نفس کی مختلف بیماریوں کی پہچان میں ان وسائل سے کہ جن سے ممکن ہے استفادہ کیا جائے یہاں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے_

۱_ تقویت عقل: ملکوتی انسان کا اعلی مرتبہ اور اس کے وجود کا کاملترین امتیاز جو انسان کے لئے تمام مخلوقات سے امتیاز دینے کا منشا اور مبدا ہے اسے قرآن اور احادیث میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے روح نفس قلب عقل یہ تمام نام ایک حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو مختلف جہات کیوجہ سے مختلف نام دیئے گئے ہیں_

اس لحاظ سے کہ وہ حقیقت موجب فکر اور سوچ اور سمجھنا اور تعقل ہے اسے عقل کا نام دیا گیا ہے احادیث کی کتابوں میں عقل کو ایک ممتاز مقام دیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے ایک علیحدہ فصل احادیث کے کتابوں میں مخصوص کی گئی ہے_ احادیث میں عقل کو موجودات سے شریف ترین موجود اور احکام اور ثواب اور عقاب کا منشاء بتلایا گیا ہے جیسے امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جب اللہ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اسے بولنے پر قدرت دی اور پھر اسے کہا کہ اے عقل آگے آ؟ عقل نے اطاعت کی اور آگے آئی_ پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ لوٹ جا_ عقل نے پھر اطاعت کی اور لوٹ گئی اس وقت خداوند عالم نے فرمایا کہ'' مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم کہ میں نے تجھ سے بہتر اور محبوب ترین مخلوق خلق نہیں کی تجھے کامل نہیں کرونگا مگر اس میں کہ جسے میں دوست رکھتا ہونگا_ جان لو کہ میرے اوامر اور نواہی تیری طرف متوجہ ہونگے اور تجھی ہی سے ثواب اور عقاب دونگا_(۱۰۹)

انسان عقل کے ذریعے فکر کرتا ہے اور حقائق کو معلوم کرتا ہے اچھائی اور برائی فائدہ مند اور ضرر رساں ذمہ داریوں کی تشخیص کرتا ہے اگر انسان کے پاس عقل نہ

۵۷

ہوتی تواس کے اور حیوانات کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا اسی لئے خداوند عالم نے قرآن کریم میں تعقل اور تفکر اور تامل اور تفقہ پر اعتماد کیا ہے اور انسان سے چاہتا ہے کہ اپنی عقل کو اپنے آپ میں کام میں لائے_

قرآن مجید میں آیا ہے کہ خداوند ایسی نشانیاں تمہارے لئے بیان کرتا ہے_ شاید تم تعقل کرو اور تفکر کرو_''(۱۱۰) نیز خدا فرماتا ہے '' وہ زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ ان کے لئے دل ہو کہ فکر و غور کریں_(۱۱۱)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' سب سے بدتر حرکت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بہرے گونگے اور سوچ نہیں کرتے_(۱۱۲)

خداوند عالم ان لوگوں کو جوعقل کان اور زبان رکھتے ہیں لیکن حقائق کی پہچان میں ان سے کام نہیں لیتے انہیں حیوانات کے زمرے میں شمار کرتا ہے بلکہ حیوانات سے بھی بدتر قرار دیتا ہے کیونکہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے_

خدا فرماتا ہے '' خدا پلیدی کو ان پر قرار دیتا ہے جو تعقل نہیں کرتے_(۱۱۳)

انسان میں جتنی اچھائی ہے وہ عقل سے ہے، عقل سے خدا کو پہچانتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے اور قیامت کو قبول کرتا ہے اور اس کے لئے مہیا ہوتا ہے_ پیغمبروں کو قبول کرتا ہے اور ان کی اطاعت کرتا ہے_ اچھے اخلاق کو پہچانتا ہے اور اپنے آپ کو ان میں ڈھالتا ہے برائیوں کو پہچانتا ہے اور ان سے پرہیز کرتا ہے_ اسی درجہ سے قرآن اور احادیث میں عقل کی عظمت اور جلالت بیان کی گئی ہے_

امام صادق علیہ السلام ایک سوال کرنے والے کے جواب میں فرماتے ہیں کہ '' عقل وہ چیز ہے کہ جس وجہ سے خدا کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سے بہشت حاصل کی جاتی ہے_(۱۱۴)

نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جو شخص عاقل ہوگا دین رکھتا ہوگا اور جو شخص دین رکھتا ہوگا وہ بہشت میں داخل ہوگا_(۱۱۵)

امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا کہ '' خدا کی لوگوں پر حجت اور

۵۸

دلیلیں دو ہیں ایک ظاہری اور دورسری باطنی_ ظاہری حجت انبیاء اور ائمہ علیہم السلام ہیں اور باطنی عقل ہے_(۱۱۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماتا ہے _ '' عقل کے لحاظ سے کامل تر لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق تمام سے بہتر ہوں_(۱۱۷)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا راہنما عقل ہے_(۱۱۸)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کا دوست عقل ہے اور اس کا دشمن جہالت_(۱۱۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' انسان کا خودپسند ہونا اس کے عقل کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے_(۱۲۰)

امام موسی بن جعفر علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا کہ '' جو شخص بغیر مال کے بے نیازی اور روح کو حسد سے آرام اور اطمینان میں رکھے اور دین میں سالم رہے اسے تضرع اور زاری سے خدا سے دعا مانگی چاہئے کہ خدا اس کی عقل کو کامل کردے _ جو شخص عاقل ہوگا وہ قدر کفایت پر قناعت کرے گا اور جو شخص کفایت کی مقدر ارپر قناعت کرے گا وہ غنی اور بے نیاز ہوگا اور جس نے مقدار کفایت پر قناعت نہ کی وہ ہرگز بے نیاز نہ ہوگا_(۱۲۱)

امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں '' عقلمند انسان دنیا کے زائد امور کو ترک کرتے ہیں چہ جائیکہ گناہوں کو جب کہ ترک دینیا افضال ہے تو گناہوں کا ترک کرنا تو واجب ہے_(۲۲۲)

آپ نے فرمایا کہ '' عقلمند انسان جھوٹ نہیں بولتا گر چہ اس کی روح اس کی طرف مائل ہی کیوں نہ ہو_(۱۲۳)

آپ نے فرمایا کہ '' جو شخص مروت نہیںرکھتا اور جو شخص عقل نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا وہ مروت نہیں رکھتا سب سے قیمتی انسان وہ ہے جو دنیا کو اپنے نفس کی

۵۹

قیمت قرار نہ دے اور جان لو کہ تمہارے جسم کی قیمت سوائے بہشت کے اور کوئی نہیں ہے لہذا اسے بہشت کے عوض کسی اور چیز کے مقابلے فروخت نہ کرو_(۱۲۴)

ان تمام احادیث سے عقل کے پردازش اور قیمتی ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس سے معارف اور علوم اور ایمان کا لانا عبادت خدا اور اس کی شناخت مکارم اخلاق سے استفادہ کرنا اور رذائل اور گناہوں سے اجتناب کرنا حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس نقطہ کی طرف متوجہہ ہونا چاہئے اور اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے_ عقل انسان کے بدن میں ایک عادل قاضی ہے اور حاکم ہے لیکن یہ اس صورت میں اچھا فیصلہ دیتا ہے جب اس کے لئے امن کا ماحول میسر ہو اور اس کے فیصلے کو مورد قبول قرار دیا جائے یہ اس دانا اور قدرت مند اور مدبر اور خیر اندیش حاکم کے قائم ہے لیکن بشرطیکہ اس کے فیصلے اور حکومت کی تائید کی جائے یہ ایک دانا مشورہ دینے والے اور مورد اعتماد اور خیر اندیش کے قائم ہے لیکن بشرطیکہ اس سے مشورہ طلب کیا جائے اور اس کے فرمان کو درست سنا جائے_

اگر بدن پر عقل کی حکومت ہو اور خواہشات اور غرائز نفسانی پر اس کا تسلط ہو تو وہ بدن کی مملکت پر بہترین طریقہ سے حکومت کرے گا_ غرائز اور قومی میں تعادل برقرار کرے گا_ اور تمام کو تکامل اور سیر و صعود الی اللہ پر برقرار رکھے گا لیکن اس سادگی سے حیوانی خواہشات اور تمایلات عقل کی حکومت کو قبول کرلیں گے اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے نہ بلکہ یہ اتنی فتنہ انگیزی اور خرابکاری کریں گے_ تا کہ وہ عقل کو میدان سے باہر نکال دیں اس کا علاج یہ ہے کہ عقل کو قوی کیا جاے کیونکہ عقل جتنا طاقت ور اور نافذ ہوگا وہ داخلی دشمنوں کو بہتر پہچانے گا اور ان پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں دبانے پر زیادہ قادر ہوگا_ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عقل کو مضبوط بنانے کی کوشش اور جہاد کریں_

۲_ عمل سے پہلے فکر کرنا: عقل کے قوی کرنے میں ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ

۶۰