خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 113907
ڈاؤنلوڈ: 4650

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113907 / ڈاؤنلوڈ: 4650
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

کسی کام کے انجام دینے سے پہلے سوچنا چاہئے اور اس کام کے نتائج اور آثار اور دنیاوی اخروی اثرات کو خوب دیکھناچاہئے اور یہ عہد کرلیں کہ کسی کام کو بھی اس کی عاقبت اندیشی سے پہلے انجام نہ دیں تا کہ آہستہ آہستہ سوچنے اور تفکر کے ذریعے اپنی روح کو آگاہ کیا کریں_

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' تفکر انسان کو اچھے کاموں اور ان پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے_(۱۲۵)

نیز حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' کام کرنے سے پہلے انجام کو سوچنا تجھے پشیمانی سے محفوظ کردے گا_(۱۲۶)

ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے کسی کام کی فرمائشے کریں''_ آپ(ص) نے فرمایاکہ '' کیا تم میرے کہنے پر عمل گروگے؟'' اس نے کہا'' ہاں یا رسول اللہ (ص) ''_ اس سے یہ سوال اور آپ کا یہ جواب تین دفعہ رد و بدل ہوا_ اس وقت رسول خدا نے فرمایا کہ '' میری فرمائشے یہ ہے کہ جب تم کسی کام کو انجام دینا چاہو تو اس کے انجام کے بارے میں پہلے خوب غور و فکر کرلو اگر اچھا ہوا تو اسے بجالائو اور اگر شک اور اشتباہ ہو تو اسے بجانہ لائو_(۱۲۷)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جلد بازی لوگوں کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہے اگر لوگ اپنے کاموں میں تدبر کرتے تو کبھی ہلاک نہ ہوتے_(۱۲۸)

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' انجام کو سوچنا اور جلد بازی نہ کرنا خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطن کی طرف سے _(۱۲۹)

معصوم کی حدیث میں یوں آیا ہے کہ '' غور و فکر شیشہ کی طرح ہے جو تمہیں اچھائی اور برائی ظاہر کردے گا_(۱۳۰)

حیوانات اپنے کاموں میں غرائز اور حیوانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور غور اور فکر نہیں رکھتے لیکن انسان چونکہ اس کے پاس عقل ہے لہذا اسے پہلے کاموں میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اسے عاقبت اندیش ہونا چاہئے گرچہ انسان بھی وہی حیوانی غرائز

۶۱

اور خواہشات رکھتا ہے اسی وجہ سے جب کسی حیوانی خواہش کا طالب ہوتا ہے تو فورا اس کے بجالانے میں دوڑتا ہے اور اس کی حیوانی خواہش اور غریزہ اسے غور و فکر کی مہلت نہیں دیتا کہ کہیں عقل اس میدان میں نہ آجائے اور اس کی حیوانی خواہش کے لئے سد راہ نہ بن جائے لہذا اگر ہم سے ہو سکے کہ ہم اپنے آپ کو یوں عادت دیں کہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس میں خوب غور اور فکر کریں کے راستے کو کھول دیں اور اسے اس میدان میں کام کرنے دیں اور جب عقل اس میدان میں وارد ہوگا تو وہ اس اقدام کے واقعی مصالح اور مفاسد کو درک کرے گا اور حیوانی خواہش اور تمایلات میں اعتدال پیدا کرے گا اور ہمیں تکامل انسانی کے صراط مستقیم کی راہنمائی کرے گا اور جب عقل طاقت ور ہوگا اور جسم کی مملکت میں حاکم ہوجائے گا تو پھر وہ انسانیت کے داخلی دشمنوں اور نفسانی بیماریوں سے ہمیں آگاہ کردے گا اور اس کے علاج اور روکنے کی طرف متوجہ ہو جائیگا اسی لئے قرآن اور احادیث میں غور و فکر اور تعقل و تدبر کی بہت زیادہ تاکید اور سفارش کی گئی ہے_

۳_ نفس کے بارے میں بدبینی: اگر انسان اپنے اندر کو دیکھے اور اپنی نفسانی صفات کو انصاف کی نگاہ سے تو لے تو پھر وہ اپنی نفسانی بیماریوں اور عیوب سے آگاہ ہوجائے گا کیونکہ انسان سب سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہے (یعنی اپنے اندر نیکی اور بدی کے وجود کو سب سے زیادہ سمجھتا ہے لیکن عذر لانے کے پردے اپنی بصیرت کی آنکھ پر ڈالنا رہتا ہے_(۱۳۱)

لیکن ہم میں سب سے مشکل اور مصیبت یہ ہے کہ ہم فیصلے اور حکم دینے میں غیر جانبدار نہیں رہتے بلکہ اکثر اوقات ہم اپنے بارے میں خوش بین اور خودپسند ہوتے ہیں ہم اپنے آپ کو اور اپنے افعال اور صفات اور گفتار کو اچھا اور بلا عیب سمجھتے ہیں_ انسانی نفس امارہ ہمارے حیوانی کاموں کو ہمارے سامنے ایسا خوشنما بناتا ہے کہ ہم اپنے برے کاموں کو بھی اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں_ قرآن ارشاد فرماتا ہے کہ وہ شخص کہ جس کے کام اس کے سامنے خوشنما بنائے گئے ہیں اور انہیں نیک سمجھتا ہے ( آیا تو

۶۲

نے نہیں دیکھا؟)

'' پس خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے_(۲۳۲)

اسی لئے ہم اپنے عیبوں کو نہیں دیکھ پاتے تا کہ ان کی اصلاح کی کوشش کریں_ اس مشکل کا حل یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے نفس پر بد گمان اور بدبین رہیں اور یہ احتمال دیں بلکہ یقین کریں ہم بہت سی برائیوں اور بیماریوں میں گرفتار ہیں ایسی حالت میں ہم اپنے نفس کے بارے میں سوچیں_

امیر ا لمومنین علیہ السلام نے متقیوں کے صفات میں فرمایا ہے کہ '' انکا نفس ان کے نزدیک مورد تہمت اور بدگمانی میں قرار پایا ہے اور وہ اپنے کاموں میں خوف کھاتے ہیں جب بھی ان میں سے کوئی کسی کی تعریف کا مورد قرار پاتا ہے تو وہ اپنی تعریف کئے جانے میں ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے نفس سے زیادہ واقف ہیں اور خدا ہم سے بہت زیادہ آگاہ ہے_(۳۳۳)

بزرگ موانع میں سے ایک مانع جو اجازت نہیں دیتا کہ انسان اپنی نفسانی بیماریوں سے آگاہ ہو اور اس کی اصلاح کرے یہی اپنے آپ کو اچھا سمجھتا اور اپنے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوتا ہے اگر یہ مانع دور کردیا جائے اور بطور انصاف اور یہ احتمال دیتے ہوئے کہ ہم میں عیب موجود ہیں اپنے آپ کو پایا جائے تو اس وقت ہم اپنی بیماریوں کو بھی پہچان لیں گے اور ان کی اصلاح بھی کریں گے_

۴_ روحانی طبیب کی طرف رجوع: انسان کا اپنے عیبوں کو پہچاننے کے لئے ایک ایسا اخلاق کے عالم کی طرف کہ جس نے اپنے نفس کی تہذیب کر رکھی ہو اور اچھے اخلاق سے متصف ہوچکا ہو رجوع کرنا چاہئے اپنے اندرونی صفات اور احوال کو بطور کامل اس کے سامنے بیان کرنا چاہئے اور اس عالم سے خواہش کرے کہ وہ اس کے نفسانی عیوب اور برے صفات سے اسے آگاہ کرے_

ایک روحانی طبیب جو اسلامی، اخلاقی اور نفسیات کو جانتا ہو اور خودعامل اور مکارم

۶۳

اخلاق کا پابند ہو وہ تہذیب نفس اور سیر و سلوک کے راستے بتلانے کے لئے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور موثر ہوا کرتا ہے اگر انسان اس قسم کا آدمی پیدا کرلے تو اسے خداوند عالم کا اس بزرگ نعمت پر شکریہ ادا کرنا چاہئے لیکن صد افسوس کہ اس قسم کے ادمی بہت کمیاب ہیں_ قابل توجہ یہ بات ہے کہ روح کی بیماریوں کی تشخیص کرنا بہت مشکل ہے لہذا بیمار پر فرض ہے کہ اپنی اندرونی صفات اور افعال کو بغیر چھپائے روحانی طبیب کے سامنے وضاحت سے بیان کردے تا کہ وہ اس کی بیماری کی تشخیص کر سکے اور اگر بیمار نے اس بارے میں روحانی طبیب کی مدد نہ کی اور واقعات کے اظہار میں پس و پیش کیا تو وہ اس مطلوبہ نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے گا_

۵_ دانا دوست کی طرف رجوع کرنا: اچھا اور دانا اور خیر خواہ ادوست اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہوتا ہے جو تہذیب نفس اور بری صفات کے پہچان کے راستے میں انسان کی مدد کر سکتا ہے_ بشرطیکہ وہ دانا ہو اور بری اور اچھی صفات کو پہچانتا ہو اس کے علاوہ وہ خیر خواہ اور مورد اعتماد بھی ہو اس واسطے کہ اگر وہ اچھی اور بری صفات کو نہ پہچانتا ہو تو وہ اس کے متعلق اس کی مدد نہیں کر سکے گا اور اگر وہ مورد اعتماد اور خیر خواہ نہ ہوا تو ممکن ہے کہ وہ دوستی کی حفاظت اور ناراضگی کے مول نہ لینے کیوجہ سے اپنے دوست کے عیب کو چھپا لے بلکہ ممکن ہے کہ وہ خوشامد کرتے ہوئے اس کے عیب کو اس کے سامنے اچھا بیان کرے اور اس عیب پر اس کی تعریف اور تمجید شروع کردے اگر کوئی اس قسم کا دوست پیدا کرے اور اس سے خواہش کرے کہ جو نقص اور عیب اس میں دیکھے اسے اس کا تذکرہ کردے تو اسے اس کی یاد دھانی اور تذکر پر اس کی عزت اور قدردانی کرنی چاہئے_

اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ایسے دوست سے استفادہ کرنا چاہئے اس کے تذکرات سے استفادہ اور اس کی عزت اور قدردانی پر اسے یہ باور کرائے کہ اس کے عیب بیان کرنے پر نہ صرف اسے برا معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس سے وہ خوشحال بھی ہو جاتا ہے_ اس دوست پر کہ جسے خیرخواہ قرار دیا گیا ہے ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے

۶۴

اخلاص اور صداقت کو عملی طور پر ثابت کرے_ بطور انصاف اور بغیر محبت اور بغض کے دوست کے صفات کو پر کھے اور دقت کرے اور اس بارے جو اس کا نظریہ ہوا سے وہ خیرخواہی اور دوستانہ زبان میں اسے بتلائے اور جہاں تک ہو سکے یہ اسے تنہائی اور مخفی طور سے بتلائے اور اس کے عیب کو لوگوں کے سامنے اظہار کرنے سے پرہیز کرے اس کی غرض واقع کا بتلانا ہو اور مبالغہ آمیزی سے پرہیز کرے کیونکہ وہ اپنے مومن بھائی کے لئے بطور آئینہ ہوتا ہے جو خوبیوں اور اچھائیوں کو بغیر کم اور زیادہ کے ظاہر کرتا ہے_ البتہ ایسے مہربان اور اصلاح طلب دوست جو انسان کے عیوب کو اصلاح کے لئے بیان کردیں بہت ہی کمیاب ہوتے ہیں_ لیکن اگر کسی کو ایسا دوست مل جائے تو وہ ایک بہت بڑی سعادت پر فائز ہوتا جائیگا اسے اس کی قدر پہچاننی چاہئے اور اس کی یاد دھانیوں پر خوشحال ہونا چاہئے اس کے شکریہ کا اظہار کرے اور اسے متوجہ ہونا چاہئے کہ جو دوست اصلاح کی غرض سے انسان کے عیب کی یاد دھانی کرا رہا ہے اور یاد دھانی سے رنجیدہ خاطر ہو اور اس کے دفاع یا انتقام لینے پر اتر آئے_ اگر کسی نے تجھے بتلایا کہ کئی ایک بچھو تیرے لباس پر موجود ہیں کیا اس کے اس بتلانے سے تو رنجیدہ خاطرہ ہوگا اور اس سے انتقام لینے پر اتر آئے گا اس کے اس کہنے سے خوشحال ہوگا اور اس کی قدردانی کرے گا؟

برے صفات بھی بچھو کی طرح ہوا کرتے ہیں بلکہ اس سے بدتر ہوتے ہیں اور انسان کے جسم پر ڈیگ مارتے ہیں اور ہمیشہ اس کے اندر چھپے رہتے ہیں جو ایسے بچھو سے بچانے میں ہماری مدد کرے اس نے ہماری بہت بڑی خدمت انجام دی ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' میرا بہترین بھائی وہ ہے جو میرے عیب کو میرے لئے بیان کرے_(۱۳۴)

۶_ دوسروں کے عیب سے نصیحت لینا: انسان غالبا اپنے عیب سے غافل ہوتا ہے

۶۵

لیکن دوسروں کے عیب کو دیکھتا ہے اور اس کی برائی کو خوب سمجھتا ہے اور مثال مشہور ہے کہ دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اسے پہاڑ سمجھتا ہے لیکن پہاڑ کو اپنی آنکھ میں نہیں دیکھتا لہذا ایک راستہ اپنے نفسانی عیوب کی پہچان کا دوسروں کے عیوب کو دیکھتا ہے_ جب کسی عیب کو دوسروں میں دیکھے تو اس پر اعتراض کرنے سے پہلے اسے اپنے میں ڈھونڈے اور اپنے آپ میں اسے مورد تفتیش قرار دے اور اپنے آپ میں رجوع کرے اگر وہی عیب اس میں موجود ہو تو اس کی اصلاح کرنے کی سعی اور کوشش کرے_ لہذا ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے عیب سے نصیحت حاصل کرے اور اپنے نفس کو اس سے پاک کرلے رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ'' وہ سعادتمند انسان ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے_(۱۳۵)

۷_ اعتراض کئے جانے سے نصیحت حاصل کرے: دوست اکثر عیب کے ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اس کے بر عکس دشمن اکثر عیب پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں گرچہ وہ اعتراض کرنے میں مخلص نہیں ہوتے بلکہ حسد بغض انتقام لینے کی غرض انہیں تنقید کرنے پر ابھارتی ہے بہر حال انسان اپنے دشمنوں کے اعتراض اور تنقید اور عیب جوئی سے استفادہ کر سکتا ہے انسان اپنے دشمنوں کے اعتراض سے دو طریق میں سے کسی ایک سے روبرو ہو سکتا ہے پہلے یا تو وہ اپنے آپ کو ان اعتراضات سے دفاع کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ عیب جوئی دشمن سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ اس کے بیان کرنے میں اچھائی کی نیت نہیں رکھتا لہذا جس طرح سے بھی ہو وہ اپنے لئے دفاع کی حالت پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس کی اس طرح کی آواز کو خاموش کرنے کے در پے ہوتا ہے اس طرح کا انسان نہ فقط اپنے عیب کی اصلاح نہیں کرتا بلکہ اس سے بڑھ کر دوسری غلطی اور خطا اور اشتباہ میں اپنے آپ کو گرفتار کر لیتا ہے دوسرے وہ دشمنوں کے اعتراضات کو اچھی طرح سے سنتا ہے اور پھر حقیقت شناسی کی نیت سے اپنے آپ میں رجوع کرتا ہے اور بطور انصاف اس اعتراض کی تحقیق کرتا

۶۶

ہے اگر اس نے دیکھا کہ دشمن کا اعتراض درست ہے اور اس کا نفس معیوب ہے تو فورا اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اگر مصلحت کا تقاضا ہو کہ ایسے دشمن سے کہ جس نے اس کا عیب بیان کیا ہے اور وہ اس کے نفس کے پاک کرنے کا وسیلہ بنا ہے شکریہ ادا کرے ایسا دشمن اس لحاظ کرنے والے دوست سے کہ جو اس کے عیب کو چھپاتا ہے اور اس کی اس عیب پر تعریف کرتے ہوئے چاپلوسی کر کے اسے جہالت اور نادانی میں رکھے رہتا ہے بہت زیادہ بہتر اور مفید ہوگا اور اگر اس نے سوچ و بچار کے بعد دیکھا کہ دشمن کا بیان کردہ عیب اس میں موجود نہیں ہے تو پھر خدا کا شکریہ ادا کرے اور اپنے نفس کی حفاظت کرے کہ کہیں اس برے عیب میں بعد میں مبتلا نہ ہوجائے اس صورت میں انسان ایسے دشمن سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس کا اس طرح کرنا اس سے مانع نہیں ہوگا کہ وہ عقلدئی اور شرعی طریقے سے دشمن کی سازش اور خیانت کے نقشے کو ناکام بنادے_

۸_ روح کی بیماریوں کی علامتیں: بیماری کی پہچان کا ایک بہترین طریقہ اس کی علامتوں سے ہوا کرتا ہے_ جسم کی بیماری دو میں سے ایک طریقے سے پہچانی جاتی ہے یا تو درد کے محسوس کرنے سے اور یا کسی عضو کے اس کام کے انجام دینے سے کمزور پڑ جانے سے جو اس کے ذمہ قرار پایا ہے کیونکہ بدن کے نظام کے برقرار رہنے میں اس کے ہر عضو کا مخصوص عمل ہوا کرتا ہے اگر کوئی عضو اس کام کے انجام دینے میں کمزور ہو جائے تو معلوم ہوجائیگا کہ وہ عضو مریض ہوگیا ہے مثلا آنکھ اگر سالم ہو تو وہ خاص شرائط کے ساتھ دیکھتی ہے پس اگر شرائط کے ہوتے ہوئے یا تو بالکل نہ دیکھے یا اچھی طرح نہ دیکھے تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ بیمار ہے اسی طرح بدن کے بقیہ تمام اعضاء اور جوارح مثل کان ، زبان، ہاتھ، پائوں، دل ، جگر، گردے و غیرہ ان میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص کام ہوا کرتا ہے کہ جسے وہ سلامتی کی حالت میں انجام دیتے ہیں اگر انہوں نے وہ مخصوص کام انجام نہ دیئے تو معلوم ہوجائیگا کہ وہ بیمار ہیں انسان کی روح اور نفس

۶۷

بھی اسی طرح ہے کہ اس کے لئے فطرت اور خلقت کے لحاظ سے مخصوص کام قرار دیئے گئے ہیں جنہیں اس کو بجالانے ہوتے ہیں_ روح عالم ملکوت سے آئی ہے علم اور رحمت قوت احسان انصاف پسندی محبت معرفت نورانیت اور دوسرے کمالات اور مکارم اخلاق سے اسے سنخیت حاصل ہے اور ان سے مربوط ہے یہ فطرت کے لحاظ سے علت کو معلوم کرتی ہے اور خدا طلب ہے ایمان اور خدا کی طرف توجہ اور اس ذات سے محبت اور علاقمندی اس کی عبادت اور اس سے دعا اور راز و نیاز روح کی سلامتی اور صحت کی علامتیں ہیں_ اسی طرح علم و دانش اور اللہ کے بندوں کی رضا الہی کے لئے خدمت_ قربانی اور ایثار، عدالت خواہی اور دوسرے مکارم اخلاق روح کی صحت اور سلامتی کی علامتیں شمار ہوتی ہیں اگر انسان اس قسم کی صفات اپنے میں موجود پائے تو معلوم ہوجائیگا کہ اس کی روح سالم اور صحیح ہے اور اگر اسے حاصل ہو کہ وہ خدا کی طرف توجہہ نہیں رکھتا اور عبادت اور دعا اور مناجات سے لذت حاصل نہیں کرتا اور اس سے بھاگتا ہے خدا کو دوست نہیں رکھتا اور صرف مقام اور مرتبہ جاہ و جلال دولت اور ثروت اور اولاد اور بیوی شہوترانی اور لذات حیوانی کو اللہ کی رضا پر ترجیح دیتا ہے اور زندگی سے صرف منافع شخصی کا ہدف رکھتا ہے اور فداکاری اور قربانی اور ایثار اور احسان اور خدمت خلق سے لذت حاصل نہیں کرتا اور دوسروں کے درد اور مصیبت سے دردناک نہیں ہوتا_ ایسے شخص کو جان لینا چاہئے کہ اس کی روح واقعا بیمار ہے اگر وہ اپنی سعادت کو چاہتا ہے تو اسے بہت جلدی اپنی روح کی اصلاح اور علاج کرنا چاہئے_

علاج کرنے کا عزم

جب ہم نے نفس اور روح کی بیماریوں کو پہچان لیا اور یقین کر

۶۸

لیا کہ ہم بیمار ہیں تو ہمیں فورا علاج شروع کرنا چاہئے اور سب سے اہم اس مرحلہ میں انسان کا ارادہ اور عزم ہے اگر واقعا ہم چاہئیں اور حتمی ارادہ کرلیں کہ ہم اپنے آپ کو برائیوں اور برے اخلاق سے اپنی روح کو پاک کریں گے تو یسا کر سکتے ہیں لیکن اگر اس کو معمولی شمار کریں اور ارادہ اور عزم نہ کریں تو پھر روح کی سلامتی اور اس کام صحیح ہوجانا غیر ممکن ہوگا یہ وہ وقت ہے کہ شیطن اور نفس امارہ اپنا کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور مختلف بہانوں کو سامنے لاتا ہو تا کہ ہمیں روح کی اصلاح کرنے سے روکے رکھے لیکن ہمیں بہت زیادہ ہوشیار ہونا چاہئے تا کہ اس کے حیلے اور بہانوں کا فریب نہ کھائیں_ ممکن ہے کہ ہماری بری عادت کو یوں بتلایا جائے کہ تم نے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے دوسرے بھی ایسی صفت رکھتے ہیں_ فلان فلان فلان کو دیکھو اسی صفت بلکہ اس سے بدتر صفت رکھتا ہے کیا تم تنہا زندگی گذار سکتے ہو؟ اگر تو چاہتا ہے کہ رسوائے زمانہ نہ ہو تو زمانے کی طرح چال چلو_ لیکن انسان کو اس فریب اور دھوکے کے سامنے ڈٹ جانا ہوگا_ اگر دوسرے اس مرض میں مبتلا ہیں تو ان کا مجھ سے کیا ربط ہے کسی دوسروں کا اس بیماری میں گرفتار ہوجانا میرے اس کے ارتکاب کا جواز نہیں بنتا_ اسے یوں کہنا ہوگا کہ یہ عیب اور بیماری تو مجھ میں موجود ہے اگر میں اس بیماری کے ساتھ مرگیا تو ہمیشہ بدبختی اور شقاوت میں جا پڑوں گا_ لہذا مجھے اس کا علاج کرنا چاہئے اور اپنے نفس کو اس سے پاک کرنا ہوگا_

ممکن ہے کبھی اور حیلے کے ذریعے سے کہ جس سے وقت گذرتا جائے اور تاخیر ہوجائے شیطن میدان میں آجائے اور ہمارے ارادہ کو منصرف کردے اور یوں خیال میں لائے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ عیب تو تجھ میں موجود ہے اور اس کی اصلاح بھی کرنی چاہئے لیکن اتنی جلدی کیا ہے اور کیا دیر ہوگئی ہے؟ رہنے دو میں فلان کام انجام دے لوں_ اس وقت فارغ البال ہو کر نفس کے پاک کرنے میں مشغول ہو جائونگا_ ابھی تو میں جوان ہوں اور عیش کرنے کا زمانہ ہے جب بوڑھا پے میں جائونگا تو پھر توبہ کر لونگا اور نفس کے پاک کرنے میں مشغول ہوجائونگا_ انسان کو متوجہ رہنا چاہئے

۶۹

کہ یہ بھی شیطن کا ایک فریب اور حیلہ ہے_ کیا معلوم کہ اس وقت تک انسان زندہ رہے گا؟ شاید اس سے پہلے مرجائے اور انہیں نفسانی بیماریوں میں فوت ہوجائے اس وقت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ اور بالغرض اس وقت تک ز ندہ بھی رہ جائے تو کیا اس وقت شیطن اپنی حیلہ گری اور فریب دینے کو چھوڑ دے گا_ اور ہمیں آزاد چھوڑ دے گا تا کہ اپنے نفس کو پاک کر سکیں اس وقت شیطن کوئی اور فریب دے کر نفس کے پاک کرنے سے ہمیں روک دے گا لہذا کتنا ہی اچھا ہے کہ ابھی سے نفس کے پاک کرنے میں شروع ہوا جائے اور نفس امارہ پر قابو پایا جائے_ ممکن ہے کہ نفس امارہ ہمیں کہے کہ تم نے فلاں صفت کی عادت کر رکھی ہے اور عادت کا چھوڑنا تیرے لئے ممکن نہیں ہو گا تو خواہشات نفس کا قیدی ہے کس طرح تو اپنے آپ کو اس قید سے رہائی دلا سکتا ہے؟ تیری روح گناہ اور معصیت کی وجہ سے تاریک ہوچکی ہے ابھی اسے گلو خلاصی ممکن نہیں ہے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بھی شیطن کی ایک فریب کاری اور دھوکا دہی ہے تجھے اپنے نفس کو کہہ دینا چاہئے کہ عادت کا چھوڑنا غیر ممکن نہیں ہوتا بلکہ یہ ممکن ہے گرچہ یہ مشکل تو ہے لیکن اصلاح کرنے کے عمل میں شروع ہو جانا چاہئے اور اپنے نفس کو پاک کرنے میں کوشش کرنے چاہئے اگر گناہ اور بری عادت کا چھوڑنا ممکن نہ ہوتاتو یہ سارے حکم جو پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار کے اس بارے میں آئے ہیں تو ان سے صادر نہ ہوتے اور توبہ کے دروازے کسی وقت بند نہ ہوتے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے لہذا حتمی ارادہ کر لینا چاہئے اور روح کے پاک کرنے میں مشغول ہو جانا چاہئے_ ہو سکتا ہے کہ شیطان نفسانی بیماریوں اور بری صفات کو معمولی اور کم بتلائے اور کہے کہ تم واجبات کے بجالانے کے تو پابند ہو اور فلان فلان مستحب کام بھی بجالاتے ہو خدا تمہیں بخش دے گا اور تیری جگہ بہشت ہے اور یہ کئی ایک بری صفات جو تم میں موجود ہیں یہ اتنی اہم نہیں ہیں تیرے مستحبات کے بجالانے کی وجہ سے ان کا تدارک ہو جائیگا اور وہ بخش دی جائیں گی اس صورت میں بھی ملتفت رہنا چاہئے کہ اس قسم کے خیالات اور امیدیں دلانا بھی شیطن کا ایک مکر اور فریب ہوتا ہے

۷۰

اور ہمیں اپنے نفس ا مارہ سے کہنا چاہئے کہ نیک اعمال تو صرف متقیوں سے قبول ہوتے ہیں اور تقوی کا حاصل کرنا نفس کو پاک کئے بغیر حاصل نہیں ہوتا اگر ہمارا نفس برائیوں سے پاک نہ ہوا تو نفس میں اچھائیوں کی نشو و نما نہیں ہو سکے گی اور اگر نفس سے شیطن باہر نہ گیا تو فرشتہ رحمت اس میں داخل نہیں ہو سکے گا اگر گناہ اور برے اخلاق سے نفس آلودہ ہوا تو آخرت کے جہان میں اس کے لئے نور نہ ہوگا_

ہمیں ہمیشہ ان بیماریوں کے انجام کی طرف جو پہلے بیان کی جاچکی ہیں متوجہ رہنا چاہئے اس کے ساتھ احادیث اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعہ سے ان نفسانی بیماریوں اور ان کی اخروی سزا اور عقاب کو مورد توجہ قرار دینا چاہئے اس ذریعے سے ہمیں نفس امارہ کے حیلے اور بہانے اور نفس امارہ کے توہمات کا مقابلہ کرنا چاہئے اور نفس کی اصلاح اور اسے پاک کرنے میں حتمی اور جزمی ارادہ کر لینا چاہئے اگر ہم نے ارادے کا مرحلہ طے کر لیا تو پھر عمل کرنے کا مرحلہ قریب تر ہوجائیگا_

نفس پس غلبہ کرنا

تمام اعمال اور افعال اور برائیاں اور اچھائیوں کو بجالانے والی در حقیقت روح ہوا کرتی ہے اگر روح سالم اور صحیح ہو تو انسان کی دنیا اور آخرت آباد ہوگی اور اگر روح فاسد ہوئی تو پھر وہ برائیوں کے بجالانے کا موجب ہوگی اور دنیا اور آخرت کی ہلاکت اسے لاحق ہوجائیگی اگر انسان نے انسانیت کے راستے پر قدم رکھا تو اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی بالاتر ہوجائیگا اور اگر اسے نے انسانی شرافت کو نظر انداز کیا اور حیوانیت کے راستے پر گامزن ہوا تو حیوانات سے بھی بدتر ہوجائیگا بلکہ وہ شیطنت کے مقام تک پہنچ جائیگا ان دونوں راستوں کے طے کرنے کے اسباب اور عوامل انسان کی فطرت میں رکھ دیئے گئے ہیں_

۷۱

وہ عقل بھی رکھتا ہے اور فطرت کے ما تحت انسانی فضائل اور کمالات کا چاہنے والا بھی ہوتا ہے اور یہ حیوان بھی ہے اور حیوانی غرائز اور خواہشات بھی رکھتا ہے اور یوں بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حیوانی خواہشات اور غرائز بالکل اور نقصان وہ ہوتی ہیں اور انسان کو پستی کی طرف دکھیل دیتی ہیں نہ بلکہ ان کا ہونا بھی انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے_ اگر ان سے صحیح اور تھیک استفادہ کیا جائے تو انہیں انسانی تکامل اور اللہ کی طرف سیر و سلوک کے لئے کام میں لایا جا سکتا ہے لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ حیوانی خواہشات اور تمنیک ایک معین حد تک نہیں تھہر تیں اور دوسروں کا لحاظ نہیں کرتیں اور نہ ہی انسانی خصوصیات کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور نہ ہی دوسرے غرائز کا لحاظ کرتی ہیں بلکہ ان کی غرض اور غایت صرف اپنے آپ کو آخر تک پہچانا ہوتا ہے_

حیوانی غریزہ کی غرض صرف اسی غریزہ کو بطور کامل حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی غرض نہیں ہوتی تمام حیوانی خواہشات اور غرائز جیسے کھانے پینے کی چیزوں سے لذت حاصل کرنا مقام اور منصب کی محبت حکومت اور شہرت مال اور دولت سے وابستگی زندگی کے تجملات اسی طرح غصہ انتقام لینا اور تمام وہ صفات جو ان سے پھوٹتی ہیں یہ تمام کی تمام کسی ایک معین حد تک نہیں تھہرتیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کو آخر تک حاصل کرنا مقصود ہوجاتا ہے_

اسی وجہ سے انسان کا نفس اور روح مختلف خواہشات اور غرائز کے لئے میدان جنگ اور شکست و ریخت کا میدان بنا رہتا ہے اور کبھی آرام اور سکون میں نہیں رہتا جو بھی اس جنگ میں کامیاب ہو جاتا ہے وہی روح اور نفس کو پوری طرح اپنا اسیر اور قیدی بنا لیتا ہے لیکن ان کے درمیان عقل بہت قدرت اور بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے_ عقل شرعیت کی راہنمائی میں حیوان خواہشات اور تمینات پر کنتڑل کر سکتی ہے اور انہیں اعتدال کی حالت میں قرار دے سکتی ہے اور افراط اور تفریط سے مانع بن سکتی ہے عقل اپنی حکومت کو کام میں لا سکتی ہے_ خواہشات کے درمیان اعتدال برقرار کر

۷۲

سکتی ہے_ عقل اس وسیلے سے نفس اور روح کی مملکت کو گڑ بڑ اور نا آرامی اور زیادہ طلبی سے نجات دلا سکتی ہے اور انسانیت کے سیدھے راستے اور سیر اور سلوک کی راہ نمائی کر سکتی ہے_

لیکن عقل کا اسپر حاکم اور مسلط ہوجانا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ وہ باقی طاقت ور قوتوں اور خواہشات کے روبرو ہوتی ہے اور دھوکے باز دشمن کہ جس کا نام نفس امارہ ہے اور اس کے بہت زیادہ مددگار اور ساتھی ہیں جو اس کی حمایت کرتے ہیں_ اسے اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ'' نفس ہمیشہ برے کاموں کا حکم دیتا ہے مگر خدا رحم کردےں_(۱۳۶)

رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود دہے_(۱۳۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں علم عقل کی مدد کرتا ہے اور ہوی اور ہوس شہوت کی تائید کرتے ہیں_ انسانی نفس دو قوتوں کی لڑائی کا میدان ہوتا ہے ان میں سے جو دوسری قوت پر غلبہ حاصل کر لے انسانی نفس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے_(۱۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برائی اور شر ہر ایک نفس میں موجود ہیں اگر نفس کے مالک نے اس پر غلبہ حاصل کر لیا تو وہ مخفی ہوجاتا ہے اور اگر اس پر غلبہ نہ کیا تو وہ ظاہر ہوجاتا ہے_(۱۳۹)

لہذا عقل بہت اچھا حاکم ہے لیکن مدد کئے جانے کا محتاج ہے اگر اس جنگ میں عقل کی مدد کریں اور نفسانی خواہشات اور شہوات اور ہوی و ہوس پر شورش کریں اور جسم کی مملکت کے انتظام کا کاکم عقل کے سپرد کردیں تو ایک بہت بڑی فتح اور کامرانی کو حاصل کر لیں گے_

یہی دو چیز ہے کہ جو دین کے پیشوائوں اور رہبروں اور شریعت اور طریقت پر

۷۳

چلنے والوں نے ہم سے طلب کی ہوئی ہے اور اس کے متعلق بہت زیادہ تاکید کر رکھی ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہوشیار رہنا کہ کہیں شہوات تمہارے دلوں پر غالب نہ آجائیں کیونکہ پہلے وہ تمہیں اپنی ملکیت میں لیں گی اور آخر میں تجھے ہلاک کردیں گی_(۱۴۰)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جس نے اپنی خواہشات کو اپنی ملکیت میں قرار نہ دیا تو وہ اپنی عقل کا مالک بھی نہیں رہے گا_(۱۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جو شخص خوف اور رغبت اور شہوت اور غضب کے وقت اپنے نفس پر مسلط ہوا تو خدا اس کے بدن کو جہنم کی آگ پر حرام قرار دے دے گا_(۱۴۲)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایاہے کہ'' تم اپنے نفس پر مسلط ہوجائو اور اسے گناہوں سے روکو تا کہ تم اسے اللہ کی اطاعت کی طرف آسان کردو_(۱۴۳)

روح انسانی کو پاکیز بنانے کے لئے نفس اور اس کی خواہشات اور ھوی اور ہوس پر کنتڑل کرنا ایک ضروری اور زندگی ساز کام ہے_ انسان کا نفس اور روح مثل ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے اگر وہ ریاضت کے ذریعے مطیع اور آرام میں ہوا اور اس کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھی اور اس کی پشت پر سوار ہوا تو پھر اس سے فائدہ حاصل کر سکے گا اور اگر وہ مطیع اور فرمانبردار نہ ہوا اور جس طرف چاہے وہ جانے لگا تو وہ تجھے اپنی پشت سے تہہ غار میں گرا دے گا لیکن سرکش نفس کو مطیع اور فرمانبردار بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے وہ ابتداء ہی میں تجھ سے مقابلہ کرے گا_ لیکن اگر تو مقاومت کرے اور مضبوط بنے تو وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائے گا_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر تیرا نفس تیرے سامنے سختی سے پیش ائے اور مطیع اور فرمانبردار نہ ہو تو بھی اس پر سختی کر تا کہ وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائے تو اس کے ساتھ حیلے اور بہانے سے پیش آتا کہ وہ تیری اطاعت میں آ

۷۴

جائے _(۱۴۴)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان خواہشات اور شہوات مار دینے والی بیماریاں ہیں اور انکا بہترین علاج اور دوا، صبر اور استقامت اور اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے_(۱۴۵)

۷۵

نفس کے ساتھ جہاد

انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے اور وہ برابر عقل کے ساتھ جنگ اور تجاوز کی حالت میں رہتا ہے_ شیطان کے وسوسوں سے الہام لیتا ہے اور لاو لشکر کے ساتھ عقل پر حملہ آور ہوتا ہے تا کہ اسے جدا اور خاموش کردے اور وہ تن تنہا میدان پر قابو پائے رکھے اس کی غرض یہ ہے کہ فرشتوں کو نفس کی دنیا سے باہر نکال دے اور اسے پوری طرح شیطن کے قبضے میں دے ے ایسے غدار دشمن کو سرنگوں کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے_ اراہ حتمی اور مقابلہ بلکہ جہاد کرنا اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے اور وہ بھی ایک دفعہ اور دو دفعہ یا ایک دن یا دو دن ایک سال یا دو سال نہیں بلکہ تمام عمر پے در پے جہاد کرنا ضروری ہے _ اس سے سخت مقابلہ اور متصل جہاد چاہئے اور نفس اور روح کو رام کرنے اور اس کی خواہشات پر قابو پانے کے لئے بہت سخت جنگ کرنی پڑتی ہے_

پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ طاہرین سے الہام لے کر عقل کی مدد سے اس کے لائو لشکر سے جنگ کریں اور نفس کے تجاوزات اور زیادتیوں کو روکے رکھیں اور اس کی فوج کو گھیرا ڈال کر ختم کردیں تا کہ عقل جسم کی مملکت پر حکومت کر سکے اور شرعیت سے الہام لے کر کمال انسانی اور سیر و سلوک تک پہنچ سکے _ نفس کے ساتھ صلح اور آشتی نہیں کی جا سکتی بلکہ اس سے جنگ کرنی چاہئے تا کہ اسے زیر کیا جائے اور وہ اپنی

۷۶

حد تک رہے اور شازش کرنے سے باز رہے سعادت تک پہنچنے کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے _ اسی وجہ سے نفس کے ساتھ جنگ کرںے کو احادی میں جہاد کہا گیا ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس پر پے در پے جہاد کرنے سے تسلط پیدا کرو_(۱۴۶)

آپ نے فرمایا '' نفس خواہشات اور ھوی اور ہوس پر غلبہ حاصل کرو اور ان سے جنگ کرو اگر یہ تمہیں جکڑ لیں اور اپنی قید و بند میں قرار دے دیں تو تمہیں بدترین درجہ میں جاڈالیں گے_(۱۴۷)

آپ نے فرمایا کہ '' نفس کے ساتھ جہاد ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جس کے ذریعے بہشت خریدی جا سکتی ہے_ پس جو آدمی اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے وہ اس پر مسلط ہوجائیگا_ اور بہشت اس کے لئے جو اس کی قدر پہچان لے بہترین جزا ہوگی_(۱۴۸)

آپ نے فرمایا '' جہاد کر کے نفس کو اللہ کی اطاعت پر آمادہ کرو_ اس کے ساتھ یہ جہاد ویسا ہو جیسے دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس پر ایسا غلبہ کرو جو ایک ضد دوسری ضد پر غلبہ کرتی ہے لوگوں سے قوی ترین آدمی وہ ہے جو اپنے نفس پر فتح حاصل کرے_(۱۴۹)

آپ نے فرمایا کہ '' عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو نفس کے ساتھ جہاد میں مشغول رکھے اور اس کی اصلاح کرے اور اسے ھوی اور ہوس اور خواہشات سے روکے رکھے اور اس طرح سے اس کو لگام دے اور اپنے کنتڑل میں لے آئے_ عقلمند انسان اس طرح اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول رہتا ہے کہ وہ دنیا اور جو کچھ دنیا اور اہل دنیا میں ہے اس میں اتنا مشغول نہیں رہتا_(۱۵۰)

نفس کے ساتھ جہاد ایک بہت بڑی اہم جنگ اور نتیجہ خیز ہے ایسی جنگ کہ ہمیں کس طرح دنیا اور آخرت کے لئے زندگی بسر کرنی اور ہمیں کس طرح ہونا اور کیا کرنا ہے سے مربوط ہے اگر ہم جہاد کے ذریعے اپنے نفس کو کنتڑل کر کے نہ رکھیں

۷۷

اور اس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ رکھین وہ ہم پر غلبہ کر لے گا اور جس طرف چاہئے گا لے جائیگا اگر ہم اسے قید میں نہ رکھیں وہ ہمیں اسیر اور اپنا غلام قرار دے دیگا اگر ہم اسے کردار اور اچھے اخلاق اپنا نے پر مجبور نہ کریں تو وہ ہمیں برے اخلاق اور برے کردار کی طرف لے جائیگا_ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بہت اہم کام اور سخت ترین راستہ ہے جو اللہ کی طرف سیر و سلوک کرنے والے کے ذمہ قرار دیا جا سکتا ہے _ جتنی اس راستے میں طاقت خرچ کی جائے وہ قیمتی ہوگی_

جہاد اکبر

نفس کے ساتھ جہاد اس قدر مہم ہے کہ اسے پیغمبر اکبر نے جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے اتنا اہم جہاد ہے کہ جنگ والے جہاد سے بھی اسے بڑا قرار دیا ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے نقل فرمایا ہے کہ'' رسول خدا(ص) نے ایک لشکر دشمن سے لڑنے کے لئے روانے کیا اور جب وہ جنگ سے واپس آیا آپ نے ان سے فرمایا مبارک ہو ان لوگوں کو کہ جو چھوٹے جہاد کو انجام دے آئے ہیں لیکن ابھی ایک بڑا جہاد ان پر واجب ہے آپ سے عرض کی گئی یا رسول اللہ(ص) بڑا جہاد کونسا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا اپنے نفس سے جہاد کرنا_(۱۵۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' بہترین جہاد اس شخص کا جہاد ہے کہ جو اپنے نفس سے جو اس کے دو پہلو میں موجود ہے جہاد کرے_(۱۵۲)

پیغمبر اکرم(ص) نے اس وصیت میں جو حضرت علی(ع) سے کی تھی فرمایا کہ '' جہاد میں سے بہترین جہاد اس شخص کا ہے جب وہ صبح کرے تو اس کا مقصد یہ ہو کہ میں کسی پر ظلم نہیں کرونگا_(۱۵۳)

ان احادیث میں نفس کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اکبر اور افضل جہاد کے نام

۷۸

سے پہنچوانا گیا ہے یہ ایسا جہاد ہے کہ جو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے سے فضیلت اور برتری رکھتا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد بہت ہی پر ارزش اور بہترین عبادت شمار ہوتا ہے اس سے جہاد نفس کا پر ارزش اور بااہمیت ہونا واضح ہوجاتا ہے نفس کے جہاد کا برتر ہونا تین طریقوں سے درست کیا جا سکتا ہے_

۱_ ہر ایک عبادت یہاں تک کہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا بھی نفس کے جہاد کرنے کا محتاج ہے_ ایک عبادت کو کامل اور تمام شرائط کے ساتھ بجالانا نفس کے ساتھ جہاد کرنے پر موقوف ہے کیا نماز کا حضور قلب کے ساٹھ جالانا اور پھر اسکے تمام شرائط کی رعایت کرنا جو معراج مومن قرار پاتی ہے اور فحشا اور منکر سے روکتی ہے بغیر جہاد اور کوشش کرنے کے انجام پذیر ہو سکتا ہے؟ آیا روزہ کا رکھنا جو جہنم کی آگ کے لئے ڈھال ہے بغیر جہاد کے میسر ہو سکتا ہے_ کیا نفس کے جہاد کے بغیر کوئی جہاد کرنے والا انسان اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جنگ کے میدان میں حاضر ہو سکتا ہے اور اسلام کے دشمنوں سے اچھی طرح جنگ کر سکتا ہے؟ اسی طرح باقی تمام عبادات بغیر نفس کے ساتھ جہاد کرنے کے بجالائی جا سکتی ہیں؟

۲_ ہر ایک عبادت اس صورت میں قبول کی جاتی ہے اور موجب قرب الہی واقع ہوتی ہے جب وہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے انجام دی جائے اور ہر قسم کے شرک اور ریاء خودپسندی اور نفسانی اغراض سے پاک اور خالص ہو اس طرح کے کام بغیر نفس کے ساتھ جہاد کئے واقع ہونا ممکن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ جنگ کرنے والا جہاد اور شہادت بھی اس صورت میں قیمت رکھتی ہے اور تقرب اور تکامل کا سبب بنتی ہے جب خالص اور صرف اللہ کی رضاء اور کلمہ توحید کی سربلندی کے لئے واقع ہو اگر یہ اتنی بڑی عبادت اور جہاد صرف نفس کی شہرت یا دشمن سے انتقام لینے یا نام کے باقی رہ جانے یا خودنمائی اور ریاکاری یا مقام اور منصب کے حصول یا زندگی کی مصیبتوں سے فرار یا دوسری نفسانی خواہشات کے لئے واقع ہو تو یہ کوئی معنوی ارزش اور قیمت نہیں رکھتی اور اللہ تعالی کے پاس تقرب کا موجب نہیں بن سکتی اسی وجہ سے نفس کے

۷۹

ساتھ جہاد تمام عبادات اور امور خیریہ یہاں تک کہ اللہ تعالی کے راستے والے جہاد پر فضیلت اور برتری اور تقدم رکھتا ہے س واسطے کہ ان تمام کا صحیح ہونا اور باکمال ہونا نفس کے جہاد پر موقوف ہے یہی وجہ ہے کہ نفس کے جہاد کو جہاد اکبر کہا گیا ہے_

۳_ جنگ والا جہاد ایک خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتا ہے اور پھر وہ واجب عینی بھی نہیں ہے بلکہ واجب کفائی ہے اور بعض افراد سے ساقط ہے اور بعض زمانوں میں تو وہ بالکل واجب ہی نہیں ہوتا اور پھر واجب ہونے کی صورت میں بھی واجب کفائی ہوتا ہے یعنی بقدر ضرورت لوگ شریک ہوگئے تو دوسروں سے ساقط ہو جاتا ہے اور پھر بھی عورتوں اور بوڑھوں اور عاجز انسانوں اور بیمار لوگوں پر واجب نہیں ہوتا لیکن اس کی برعکس نفس کا جہاد کہ جو تم پر تمام زمانوں اور تمام حالات میں اور شرائط میں واجب عینی ہوا کرتا ہے اور زندگی کے آخر لمحہ تک واجب ہوتاہے اور سوائے معصومین علیہم السلام کے کوئی بھی شخص اس سے بے نیاز نہیں ہوتا_

۴_ نفس سے جہاد کرنا تمام عبادات سے یہاں تک کہ جنگ والے جہاد سے کہ جس میں انسان اپنی جان سے صرفنظر کرتی ہوئے اپنے آپ کو شہادت کے لئے حاضر کردیتا ہے_ مشکل تر ہے اور دشوار اور سخت تر ہے اس واسطے کہ محض اللہ کے لئے تسلیم ہو جانا اور تمام عمر نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اور تکامل کے راستے طے کرنا اس سے زیادہ دشوار اور مشکل ہے کہ انسان جنگ میں جہاد کرنے والا تھوڑے دن دشمن سے جنگ کے میدان میں جنگ کرے اور مقام شہادت پر فیض یاب ہوجائے_ نفس کے ساتھ مقابلہ کرنا اتنا سخت ہے کہ سواے پے در پے نفس کے ساتھ جہاد کرنے اور بہت زیادہ تکالیف کو برداشت کرنے کے حاصل نہیں ہو سکتا اور سوائے اللہ تعالی کی تائید کے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے_ اسی لئے نماز میں ہمیشہ اھدنا الصراط المستقیم بڑھنے ہیں_ صراط مستقیم پر چلنا اتنا دشوار اور سخت ہے کہ رسول گرامی اللہ تعالی سے کہتا ہے _الہی لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابدا_

۸۰