کتاب الدعا
فضیلت دعا
عبادتِ خداوندی ایک ریاضت ہے جس کا صلہ ذاتِ احدیت نے دعا کے ذریعے سے بندے تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا ہے۔ خداوند تعالیٰ کو وہ عبادت پسند نہیں جس کی تکمیل پر قادر مطلق سے کچھ مانگا نہ جائے‘ لہٰذا دعا مانگنا ضروری ہے اور باعث خوشنودی خدا ہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ مزدوری کرنے کے بعد یعنی فریضہ عبودیت ادا کرنے کے بعد رحمت خداوندی کا طالب اس کا عبدصالح بن جاتا ہے اور اگر نہیں مانگتا تو اسے نخوت و رعونت میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو اپنے رب کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے لازم ہے کہ رب العالمین سے مانگا جائے اور مانگنے کا طریقہ صرف دعا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ارشاد ربانی ہے کہ جو لوگ میری عبادت میں تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔ پھر فرمایا: اس عبادت سے مراد دعا ہے۔هو الدعا افضل العباده
۔
علی بن ابراہیم روایت کرتے ہیں زرارہ نے کہا: ابراہیم علیہ السلام اَوّاہٌ حلیم تھے‘ اس سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: وہ بہت زیادہ دعا کرنے والے تھے۔
امام پنجم سے پوچھا گیا کون سی عبادت افضل ہے؟
فرمایا: اللہ کے نزدیک اس سے بڑی عبادت نہیں ہے کہ اُس سے سوال کیا جائے۔ خداکا دشمن وہ ہے جو دعا مانگنے میں تکبر کرتا ہے اور جو اللہ کے خزانوں میں ہے نہیں مانگتا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی میسربن عبدالعزیز سے فرمایا:
یامیسرُ انه لیس من باب یقرعُ اِلاَّ یُوشِک ان یفتح لِصَاحِبه
اے میسر جو دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا قریب ہے کہ وہ اس پر کھل جائے۔
کہا: ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا: امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اللہ کے نزدیک احسن عمل دعا ہے‘ اور افضل عبادت پاک دامنی ہے اور وہ خود سب سے زیادہ دعا کرنے والے تھے۔
دعا مومن کا ہتھیار ہے
فرمایا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
الدعاءُ سلاحُ المومِن وعمودُالدین ونورُ السموات والارض
"دعا مومن کا ہتھیار ہے‘ دین کا ستون ہے نیز آسمانوں اور رفیق کا نور ہے"۔
بسااوقات انسان دشمنوں میں گھر جاتا ہے‘ مصائب و آلام یکے بعد دیگرے اُسے پریشان کر دیتے ہیں۔ مصیبتیں چاروں طرف منڈلا رہی ہوتی ہیں‘ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لیے جی چاہتا اور کسی ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ کرکے اُسے شکست فاش دی جائے اور خود منزل کامرانی تک پہنچنے کی سعی جمیل کی جائے‘ وہ ہتھیار جو اس گرانی‘ پریشانی اور تنگ دامانی میں کام آئے وہ دعا ہے۔
لازم ہے کہ صبح و شام اپنے رب قدیر کو پکارا جائے تاکہ رزق فراواں ہو اور ہمہ قسم کے دشمنوں سے بھی نجات ملے۔ بعض اصحاب نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: دعا کیا ہے؟
فرمایا: انبیاء کا ہتھیار ہے تم بھی اپنے لیے لازم کرلو۔
عبداللہ بن سنان ابی عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: فرمایا : الدُّعا انفَذَ مِنَ السِّنان ۔
دُعا ردّ بلا ہے
فی زمانہ تقریباً ہر آدمی گرفتار بلا ہے۔ وہ کسی نہ کسی مصیبت میں ضرور مبتلا ہے‘ خواہ وہ پریشانی کاروبار کی ہو‘ اولاد کی طرف سے ہو‘ رشتہ داروں نے تنگ کر رکھا ہو یا پڑوسی وبالِ جان بنے ہوں‘ بہرحال بلاؤں کا جم غفیرہے جس نے بیچارے بنی نوع انسان کو چہار جہت سے محصور کر رکھا ہے۔ ایسی کیفیت میں چھٹے امام نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دعا کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دعا نازل ہونے والی بلا کو اس طرح توڑ دیتی ہے جیسے دھاگا توڑ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ مستحکم ہو۔ اسی زمرے میں چوتھے امام کا فرمام بھی ملتا ہے کہ روزِ قیامت تک بلا اور دعا ساتھ ساتھ ہیں لیکن دعا بلا کو ردّ کر دیتی ہے اگرچہ بلا کیسی ہی سخت ہو۔
فلسفہ دعا سمجھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بلا ہمیشہ سخت ناگوار‘ ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوتی ہے اور یہ مومن/مومنہ کے امتحان کے لیے یاشامت اعمال کا شاخسانہ بن کر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک قضا بھی ہے جو نازل ہو چکی ہوتی ہے یا نازل ہونے والی ہے۔ بہرحال دونوں (بلا و قضا)سخت ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے صبروتحمل اور ضبط و نظم کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں معصومین نے ہمارے لیے کچھ ہدایات بطور مشعل راہ چھوڑی ہیں۔ فرمایا کہ اکثر دعا کیا کرو کیونکہ وہ ہر رحمت کی کنجی ہے اور نجات کا ایک ذریعہ ہے۔ خزانہ خدا سے تب ہی ملے گا جب مانگو گے اور مانگنے کا انداز سوائے دعا کے نہیں ہے۔ دستور زمانہ ہے جب دروازہ کھٹکھٹاؤ گے تب ہی کھلے گا۔ پس دعا سے رب کریم کے ہاں دروازہ ہائے حاجات وا ہوتے ہیں اور رحمن و رحیم کا دَر ایسا دَر ہے جس دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جانتا۔
ہمارے لیے بڑی بات ہے کہ ہم ارشادات آئمہ کے مطابق مانگنا سیکھ جائیں اور وہ الحمدللہ دعا کے توسل سے ہے۔ اس سلسلہ میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے جسے ابی ولاد نے ہمارے تک پہنچایا ہے۔ فرمایا امام الہدیٰ نے:"دعا کو اپنے لیے لازم قرار دو اور اللہ سے طلب کرو کیونکہ یہ طلب بلا کو رد کرتی ہے اگرچہ وہ مقدر ہو چکی ہو اور صرف جاری ہونا باقی ہو"۔ فرمایا جب اللہ سے دعا کی جائے گی اور عاجزی و انکساری سے سوال کیا جائے گا تو بلا رد کر دی جائے گی اور قضا بحکم خدا ٹل جائے گی۔
دعا شفائے مرض ہے
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عزیز ترین صحابی کمیل ابن زیاد کو جو دعا تعلیم فرمائی تھی اس میں دعا کا ذکر نہایت ارفع و اعلیٰ ہے اور اسی نام کے ساتھ پھر شفاء کو بھی منطبق کر دیا ہے۔ فرمایا‘ یوں پڑھو:
اِسمُه دَواءٌ وذِکرُه شِفَاءٌ
"اللہ کی یاد بطور عبادت دوا بھی ہے اور شفا بھی تو جس کا نام لینا شفا ہے"۔ اس کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنا کس قدر افراط شفاء کا موجب ہوگا۔
علابن کامل نے امام ششم کے الفاظ علی بن ابراہیم کے ذریعے سے ہم تک یوں پہنچائے ہیں:
قَالَ لِی ابوعبداللّٰه عَلَیکَ بِالدِّعَاءِ فَاِنّه شِفَآءُ مِن کُلِّ دَاءٍ
"دعا کرتے رہا کرو کیونکہ وہ ہر درد کی دوا ہے"۔
دُعا میں تقدم
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان مصائب و آلام سے گھبرا کر مبہوت ہو جاتا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے‘ ایسے میں اس کے دل میں خیال آتا ہے دعا کر کے دیکھیں شاید بلا ٹل جائے‘ دراصل مصلحت ایزدی سے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ میرے بندے دعا مانگ لے‘ جب نزول بلا کا خوف ہو تو گھبرایئے نہیں بلکہ کہیے اللہ ربی‘ اللہ ربی اور پھر دعا کی تیاری کیجیے۔ فرمایا‘ امام صادق نے:
مَن تخوّف من بلاء یصیبه فتقدم فیه بالدعاء لم یره اللّٰه عزَّوجّلَ ذٰلِکَ البَلاء ابدَاً
جس کو نزول بلا کا خوف ہو اس صورت میں اسے پہلے دعا کرنی چاہیے اللہ اُسے کبھی اس بلا کی صورت نہ دکھائے گا۔
ان حالات میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ راحت کے وقت زحمت کے متوقع مکافات کی دعا مانگا کرے‘ ہو سکتا ہے اس بلا کا نزول نہ ہو اور آئندہ لمحات میں آسودہ رہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دعا کرنے والا خدا کے شاکر بندوں میں شمار ہوگا۔
رب العزت اسے نگاہ التفات سے دیکھے گا کیونکہ اس نے آسودگی میں آلودگی کو مدنظر رکھا ہے۔ دعا کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کو یاد کرتا رہا ہے اور آنے والی مصیبتوں سے اپنے آپ کو اپنی عاجزی اور انکساری سے بچا لیا ہے۔ اس زمرے میں خصوصی طور پر یاد رکھنا ہوگا کہ اپنی دعا پر یقین کامل ہونا مساعد حالات میں بھی دعا کو فراموش نہ کرے اور اس اطمینانِ قلب کے ساتھ انے تیقن کو مستحکم رکھے کہ وہ یقینا باب اجابت تک پہنچے گی۔
نیت دُعاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کیا دعا کے لیے نیت ضروری ہے؟
فرمایا: ہاں‘ کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
اس دعا سے قبل نیت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے دعا قبول ہی نہ ہو‘ جس کی نیت نہ کی جائے۔ ایسی دعا بھی رد کی جاتی ہے جس میں کامل توجہ نہ ہو یا صرف دکھاوے کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے ہوں۔
صادق آل محمد نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت کی کہ بے پروا دل کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ پھر فرمایا: اگر کسی مردہ کے لیے دعا کرے تو ایسے دل سے نہ کرے جو مردہ کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ کوشش کرے دعا میں نیت بھی شامل ہو کہ فلاں مرحوم یا مرحومہ کے لیے دعا کر رہا ہوں۔ یہ بھی ذہن میں محفوظ رہے کہ سخت دل کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
دعا میں الحاح و زاری
عن ابی جعفر قال لا واللّٰهِ لَا یُلِحُّ عبدُ علی اللّٰهِ عزَّوجلَّ الا استجَابَ اللّٰهُ لَه
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جب بندہ خدا سے الحاح و زاری کرتا ہے تو خدا اس کی دعا قبول کرتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ دعا کے آخر پر یہ آیت پڑھی:
آیت ؟؟؟
"اے رب میری دعا ہے کہ میں سختی اٹھانے والا نہ بنوں"۔
مطلب واضح ہے کہ دعا مانگنے کی سختی جھیلوں پھر اس میں عاجزی و انکساری نہ کروں اور جب دعا مستجاب نہ ہو تو اپنے آپ کو سخت و سست کہوں کیوں نہ پہلے ہی اپنے قادر مطلق کے سامنے الحاح و زاری کروں۔ اپنی دعا قبول ہونے سے فیض یاب ہوں اور کوفت تھکاوٹ شکوہ و شکایت کی جملہ سختیوں اور صعوبتوں سے بچ جاؤں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری حاجات کو جانتا ہے کیونکہ وہ سمیع وبصیر ہے مگر اپنی تمناؤں اور آرزؤں کو زبان پر لانا ضروری ہے:
اِنَّ اللّٰهَ عزَّوجَلَّ یَعلمُ حَاجتکَ وَمَا تریدُ وَلٰکِنَّ یُحِبُّ اَن ثُبتَ اِلَیهِ الحَوائِج
قبولیتِ دُعا کے اوقات
معصومین کے فرامین کے مطابق ان اوقات اور لمحات میں دعا قبول ہوتی ہے: ہواؤں کے چلتے وقت‘ سایہ ڈھلتے وقت‘ بارش کے وقت‘ وقت نمازِ فجر‘ ظہر‘ مغرب‘ قرأت قرآن کے وقت‘ وقتِ اذان‘ مومن کی شہادت کے وقت‘ جس وقت دل نرم ہو اور وقت سحر کچھ کیفیات ایسی ہیں جوذات احدیت کو بہت پسند ہیں مثلاً رو کر دُعا مانگنا‘ تنہائی میں آہ و زاری کرنا‘ صمیم قلب اور نرم دلی سے دُعا مانگنا اور اللہ پر مکمل توکل رکھ کے دعا طلب کرنا وغیرہ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اذا اقشعر جلدک ودمعت عیانک فدُونک دُونک فقد قصد قصدُک
جب خوفِ خدا سے تیرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور تیری آنکھوں سے آنسو آجائیں پس مقصد تیرا قریب ہے اور ارادہ پورا ہے۔
امام نے ایک خاص اشارہ فرمایا ہے جب نصف رات گزر جائے باقی کے اول نصف کا چھٹا حصہ استعجاب دُعا کاوقت ہے۔
انداز دُعاء
دُعا مانگنے کا ایک طریقہ ہے جو آئمہ معصومین نے ہمیں تعلیم فرمایا اس میں خداوندمتعال کی حمدوثنا ہے۔ پھر رسول پاک کی ذات گرامی پر درود ہے اور بعدازاں طلب دعا ہے۔ ایک روایت میں فرمایا:
الثناء ثم لا عترافُ بالذنب
اول‘ خدا کی حمدوثنا بیان کرو‘ پھر اپنے گناہ کا اعتراف کرو‘ تمہاری دعا مستجاب ہوجائے گی۔
ایک اور روایت میں جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اندازِ دعا کو یوں ترتیب دیا ہے‘ فرمایا:
اِذَا ارَدْتَ اَن تَدعُوا فمَجِّدَ اللّٰه عزَّوجَلِّ وَاحمَدهُ وَسَبِّحهُ وَهلِّلهُ وَامَن عَلَیهِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ النَّبِی وَالٰه
جب تم دعا کرنا چاہو تو خدا کی تمجید اور تحمید‘ تسبیح و تہلیل کرو‘ اس کی ثنا کرو پھر محمدوآل محمد پر درود بھیجو۔
یہ وہ طریقہ ہے جس سے مراد ملتی ہے‘ دعا مستجاب ہوتی ہے اور سوال پورا ہوتا ہے کیونکہ جب کسی سے حاجت بیان کرنا ہوتی ہے تو عرضداشت پیش کرنے سے پہلے اس سے متعلق کچھ کلمات خیر کہنے ہوتے ہیں۔
مل کر دعا کرنے میں اجابت دعا کا ایک پہلو مضمر ہے‘ ہو سکتا ہے ان میں کوئی مقرب الٰہی ہو اور اس کی وساطت سے سب کا بھلا ہوجائے۔
روایت میں ملتا ہے اگر چار آدمی کسی امر پر اتفاق کر کے خدا سے دعا طلب کریں تو ان کے متفرق ہونے سے پہلے خدا دعا قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح جماعتی انداز میں عورتوں اور بچوں کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک دعا کرے اور دوسرے آمین کہیں تو سب دعا میں شامل ہو جاتے ہیں اور اجتماعی دعا خدا کو بہت پسند ہے۔ آمین کہنے والے مطمئن رہیں کیونکہ وہ تمام دعا اور اجر میں برابر کے شریک ہیں۔
دعا کے مستجاب ہونے میں ایک امر سرفہرست ہے پاک کمائی یعنی رزقِ حلال!
تاخیر فی قبول الدعاء
بسااوقات دعا قبول ہونے میں تاخیر ہوجاتی ہے اور انسان گھبرا جاتا ہے کہ میرا کام نہیں بن رہا۔ یہ ایک امتحان ہوتا ہے جس میں معبود اپنے عبد کی آواز زیادہ دیر تک سننا چاہتا ہے اور اس کی انکساری کے جواب میں اُسے مانگے سے زیادہ عطا کرتا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک دعا تین سال بعد مستجاب ہوئی تھی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے عروج اور فرعونِ مصر کے زوال کے درمیان ۴۰ سال کا فرق ہے۔ امام زمانہ کے ظہور میں تعجیل کے لیے مومنین صدیوں سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ مگر مصلحت ایزدی کے سامنے ہم بے بس ہیں۔لہٰذا دعا میں اگر تاخیر ہو جائے اور مقصد برآری نہ ہوسکے تو پریشان اور شاکی ہونے کی ضرورت نہیں۔ اپنی آزمائش میں پورا اترنے کے لیے کوشاں رہو۔
ایک صحابی نے امام ششم سے پوچھا کہ مولا! ایسا کیوں ہوتا ہے؟
فرمایا: اس لیے کہ دعا کرنے والا زیادہ دعا کرے اور دیر تک اپنی تضرع اور زاری درگاہ احدیت تک پہنچاتا رہے اور پھر اجرِعظیم کا سزاوار ہو۔
صادق آل محمد علیہ السلام سے نہایت خوبصورت کلمات وارد ہیں‘ فرمایا:
روزِ قیامت خدا ہاتف غیبی سے اپنے ایک بندے کو مخاطب فرمائے گا:
"میرے پاس تیری دعا محفوظ ہے۔ میں نے اس کی اجابت میں تاخیر کی اب تیرا ثواب اتنا اتنا ہے۔ اس وقت مومن وہ مقدار ثواب دیکھ کر کہے گا اچھا ہوا میری دعا قبول نہ ہوئی اور آج میں اس قدر اجر سے مثاب ہوا"۔
اس سلسلے میں مومنین کو مخزون و مغموم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دعا کو قبول کرنے کا اختیار قادر مطلق کوہے۔ اگر وہ اپنے بندے کے لیے مفید سمجھتا ہے تو دعا جلدی قبول کر لیتا ہے اور اگر اس کا ظرف اس وقت متحمل ہونے کی تاب نہیں لاسکتا تو رب العزت حسب موقع دعا کوموخر کر دیتا ہے مگر اس تاخیر کے ساتھ اجر میں ایک خاص اضافہ کر دیتا ہے۔ پھر بھی دعا نذرِ التواء ہو جائے تو حسرت بن جاتی ہے اور حسرتوں کا ثوابِ عظیم انسان کے نامہ اعمال میں بہت بڑا سرمایہ بن جاتاہے۔
دُعا اور درُود
دعا کی قبولیت کے لیے درود بہترین وسیلہ ہے کیونکہ جب اول و آخر محمد وآل محمد پر درود بھیجا جائے گا‘ ساتھ ہی درمیان میں اپنی استدعا بارگاہِ ایزدی میں ارسال کر دی جائے گی تو یقینا مستجاب ہوگی۔
صادق آل محمد نے فرمایا: دعا درود کے ساتھ بھیجو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ رکی رہے۔
دعا مع درود دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے کافی ہے۔ نیز فرشتے بھی محمدوآل محمد پر درود بھیجتے ہیں اور اس بندے کے حق میں ہوتے ہیں جومصروفِ صلوٰة ہے اور اپنی دعا کا بھی طلب گار ہے۔ درود کی اس لیے بھی تاکید کی گئی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کی دعا ردّ نہیں ہوتی۔ جب درود قبول ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ جو دعا درمیان میں ہے اسے ساقط کر دیا جائے لہٰذادونوں جانب کا درود موجب استعجاب دعائے بندہ مومن/مومنہ ہے تکلیف بے جا نہیں ہے۔
تعجیل برائے قبولیت
دعا کو جلد یا تاخیر کے ساتھ قبول کرنا قادر مطلق مالک کُن فَیَکُون سے متعلق ہے۔ مگر کچھ وسائل ایسے ہیں جو مسائل کو جلدی سے حل کرانے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اوشَکُ دَعوةٍ واَسرعَ اجَابَةٍ دُعاء المَرءِ لِاَخِیهِ بِظَهرِ الغَیبِ
جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو پوشیدہ طور پر برادر مومن کے لیے کی جائے اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔
جب ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دعا کرتا ہے حالانکہ وہ سامنے نہیں ہوتا‘ فرمان خداوندی ہوتا ہے کہ تو نے برادر مومن کے لیے مجھ سے مانگا ہے اس کا دوگنا تیرے لیے ہے چونکہ تجھے اپنے بھائی سے الفت ہے۔ ساتھ ہی جو سوال تو نے کیا ہے اُسے بھی پورا کیا جاتا ہے۔ غائبانہ دعا کرنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ روزِ قیامت وہ اشخاص ہمدردی کے طور پر اُس کی سفارش کریں گے جن کے لیے آپ دعا کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز شب میں مومنین کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے۔
قبولیت دُعا
کچھ اشخاص اللہ کے ہاں اس قدر تقرب حاصل کر چکے ہیں کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے:
۱- حج پر جانے والے کی دعا‘ خدا کی راہ میں جاہدکرنے والا اور مریض جب کمزور‘ دوسروں کے رحم و کرم پر ہو۔
۲- امام عادل کی دعا‘ مظلوم جس پر ظلم روا رکھا گیا ہو‘ نیک اولاد کی دعا والدین کے حق میں۔
۳- چالیس مومنین کومقدم رکھنے سے دعا قبول ہوتی ہے۔ والد کی دعا بیٹے کے حق میں اور عمرہ کرنے والے کی واپسی تک۔
دعا قبول نہیں ہوتی
۱- جسے اللہ مال دے اور وہ سرمائے کو غیرمستحق امور میں خرچ کر دے پھر اللہ سے مانگے کہ مجھے رزق دے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی۔
۲- جو اپنی بیوی کے لیے دعا کرے کہ وہ مر جائے۔
۳- جو پڑوسی کے لیے بددعا کرے قبول نہ ہوگی۔
۴- جو اپنے گھر میں بیٹھا اور کہے خداوندا مجھے روزی دے۔
۵- جو بغیر گواہ کے کسی کو قرض دے اور جب مانگے تو مایوس ہو۔
۶- جو میانہ روی اختیار نہ کرے اور اپنی دولت کو ضائع کرنے کے بعد دعا کرے‘ قبول نہ ہوگی۔
اورادِ دُعا
فرمایا‘ امام جعفرصادق علیہ السلام نے جو ایک سانس بھر یارب‘ یارب‘ یارب‘ یااللہ‘ یااللہ کہے اس سے کہا جائے گا بیان کر تیری حاجت کیا ہے۔
جو دس بار یااللہ یااللہ کہے اس سے کہا جائے گا لبیک تیری حاجت کیا ہے۔
جب کوئی دعا کرے اور بعددعا کہے:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ
۔ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے اقرار ضرور کیا ہے اور اپنا معاملہ میرے امرکے تابع کر دیا ہے۔ پس اے ملائکہ اس کی حاجت بر لانے کے اسباب میں نے مہیا کردیے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو کوئی بعدفریضہ نماز اپنے زانو بدلنے سے پہلے یہ کلمات تین بار کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ اگرچہ وہ کفِ دریا کے مثل ہوں:
اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ الْحَیِّ القَیُومُ وَاتُوبُ اِلَیْهِ
جو فریضہ نماز کے بعد تین مرتبہ کہے جو سوال کرے پورا ہوگا مداومت شرط ہے۔
یَامن یَّفعَلُ مَا یَشاءُ وَلَا یَفْعَلُ مَا یَشاءُ اَحَدُ غَیرهُ
اکسیرالدُعا
امیرالمومنین علیہ علیہ السلام نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا: تمھیں ایسی دعا دیتا ہوں کہ جب تم کسی مہلکہ یا بلاء میں مبتلا ہو تو کہو:
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ العَلِیِّ العَظِیْم
اللہ تبارک وتعالیٰ ہر قسم کی بلا تم سے ہٹا دے گا۔ اس طرح دعا مانگو مستجاب ہوگی۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ بِجَلاکَ وَجَمالِکَ وَکَرَمِکَ اَن تَفعَلْ بِی
اہمیت دعا
جو شخص معرفت خدا کا طلب گار ہو اور چاہتا ہو کہ میری چھٹی حِس بیدار ہو جائے اس کے لیے دعا ایک بہترین وسیلہ ہے۔
الدّعا مخ العبادة
"دعا عبادتوں کا مغز ہے"۔
بلکہ دعا خود ایک عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص اظہارِ عبودیت کے بعد دعا نہیں مانگتا تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے اجر سے دستبردار ہوگیا۔ ہو سکتا ہے دعا سے منحرف ہونے والے کو متکبرین میں شامل کر دیا جائے کیونکہ خدائے رحیم و کریم سے طلب نہیں کرنا چاہتا یہی امر عبد کے لیے موزوں نہیں ہے بلکہ نامناسب ہے۔
دعا فی القرآن
سورة الزمر‘ آیت ۸ ۔ الروم آیت ۳۳‘ حم السجدہ آیت ۵۱ تین مقامات پر ایک مفہوم کے ساتھ ذکر فرمایا:
"جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے توپروردگار کو پکارتا ہے اور رجوع کر کے دعا مانگتا ہے"۔
سورہ نمل ( ۶۲) میں قرآن مقدس نے سوالیہ انداز میں پوچھ لیا ہے:
"کون ہے جو مضطر کی دعا قبول کرتا ہے جس وقت وہ پکارے اور وہی خدا مصیبت کو دُور کر دیتا ہے"۔
دعا نہ مانگنے والے کی تکسیر بیان کرتے ہوئے سورہ مومن ( ۱۴) میں فرمایا:
"پس تم اس کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارو اور اس سے ہی دعا مانگو اگرچہ کافروں کو بُرا لگے"۔
انسان کی بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے سورہ یونس میں ارشاد ہوتا ہے:
"اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹا اور کھڑا ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دُور کر دیتے ہیں تو ایسا بے پروابن جاتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں ہمیں پکارا ہی نہ تھا"۔
اس مقام پر کلامِ پاک نے ہمارا شکوہ کیا ہے کہ انسان کیسا عجیب ہے‘ گڑگڑا کے مانگتا ہے اور جب مطلب پورا ہوجاتا ہے توبے رخی اختیار کر لیتا ہے۔ شاید سمجھتا ہے میں نے خود ہی وسائل مہیا کر لیے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قادرِ مطلق مسبب الاسباب ہے جو وسیلہ بہم پہنچاتا ہے اور بلا ردّ ہوجاتی ہے۔
پارہ نمبر ۲۴‘ سورة مومن آیت ۶۰ کی وضاحت کو اگر غور سے پڑھ لیا جائے تو آنکھیں کھل جائیں گی:
"اور تمھارے پروردگار نے کہا کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں انھیں ذلت کی زندگی کے ساتھ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا"۔
ان آیات کی روشنی میں ضروری ہے کہ بندہ اپنے خالق سے مانگتا رہے‘ نعمتیں ملنے پر شکر ادا کرتا رہے اور جملہ آفات و بلیات سے محفوظ رہے۔ ہر دعا کرنے والا اپنے ذہن میں راسخ کر لے کہ دعا کے لغوی معنی بلانے اور پکارنے کے ہیں اورنظریہ معرفت میں علامہ اقبال نے کہا:
"وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہم سے اور ہماری دنیا سے بے تعلق نہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اُسی سے کہتے ہیں وہ کہتا ہے مجھ ہی سے دعا کرو میں تمہاری دعا سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں۔ فی الحقیقت زندگی کیا ہے؟ ایک مسلسل دعا ہے۔
(بحوالہ اقبال کے حضور‘ اقبال اکادمی پاکستان)
تمام انبیاء علیہم السلام خدا کے تصور کے مبلغ تھے‘ جب وہ پوری کائنات پر محیط ہے اور ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے‘ سمیع وبصیر ہے تو پھر بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن مجید میں انبیاء کی دعائیں موجود ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ بدر میں دعا مانگی:
اللهم انجزنی ما وعدتنی اللهم انشرک عهدک ووعدک
"اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا فرما‘ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں"۔
یہ اتنی صمیم قلب سے نکلی ہوئی دعا تھی کہ جنگ کے اختتام سے پہلے ہی یقین کامل کے ساتھ اپنی پیش گوئی بھی فرما دی۔
(
سَیُهْزَمُ الجَمْعُ وَیُولَّونَ الدُّبُرَ
)
(القمر: ۴۵)
"عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا"۔
میدانِ اُحد میں جب صرف نو صحابہ کی ذرا جتنی نفری کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے صحیح مسلم کی روایت یہی کہتی ہے کہ آپ بار بار کہہ رہے تھے‘ دعائیہ کلمات یوں تھے:
(
رب اغفر لقومی فانهم لا یعلمون - اللهم اهد قومی فانهم
)
(
لا یعلمون
)
اے میرے رب میری قوم کو بخش/ہدایت دے وہ نہیں جانتی (میری معرفت نہیں ہے)
Prof. William James, An American Psychologist: "It seems probable that in spite of all that science may do to the contrary, men will continue to pray to the end of time, unless their mental nature changes in a manner ".
علامہ اقبال کی دانست کے مطابق : دعا ایک حیاتی عمل ہے جس میں ہم دفعتاً محسوس کرتے ہیں کہ ہماری بے نام سی شخصیت کی جگہ بھی ایک بہت بڑی اور وسیع تر زندگی میں ہے لہٰذا دعا خواہ انفرادی ہو‘ خواہ ہماری بے نام سی شخصیت کی جگہ بھی ایک بہت بڑی اور وسیع تر زندگی میں ہے لہٰذا دعا خواہ انفرادی ہو خواہ اجتماعی‘ ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے کہ کائنات میں وہ اپنی پکار کی آواز سنتا ہے۔ جب بندہ اللہ کے اسمائے حسنہ سے اسے پکارتا ہے اس کی شانِ ربوبیت کے تصور سے سرشار ہوکر اس کا شکرگزار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس بندے کو یاد کرتاہے۔
(
فاذکرونی اذکرکم واشکرولی ولا تکفرون
)
(البقرہ: ۱۵۲)
"تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور شکرگزار بنو اور میری ناشکری نہ کرو"۔
نماز ایک جامع دعا ہے۔ عربی میں صلوٰة فی الحقیقت دعا کے معنی میں مستعمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(
وَاقمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ
)
(طٰہٰ: ۱۴)
مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کرو۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر‘ اٹھتے ہیں حجاب آخر
قرآن مقدس نے سورة البقرہ کی آیت نمبر ۱۸۶ میں فلسفہ و دعا کی بہت عمدہ توضیح کی ہے:
"اور جب تم سے میرے بارے پوچھیں تو میں بے شک قریب ہی ہوں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکارتا ہے پس چاہیے کہ وہ مجھے جواب دیں/ میرا حکم مانیں/ میری ندا سنیں اور یقین رکھیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں"۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے دعا کا فلسفہ ایک پُراثرانداز میں پیش کیا ہے جو صمیم قلب پر جاکر منتج ہوتا ہے۔
شہید محراب آیت اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین دستغیب نے اپنی کتاب "برزخ" میں حضرت علی علیہ السلام کی فریاد لکھی ہے جو آپ نصف شب میں عبادت کے وقت خداوندعالم سے امان چاہتے ہوئے مناجات فرماتے تھے۔
الٰهی اسئلک الا مان یوم لا ینفع مال ولا بنون الامین اتی اللّٰه بقلب سلیم
"اے خدا تجھ سے روزِ قیامت امان طلب کرتا ہوں۔ وہ دن جب کہ مال و آل کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا مگر اُن لوگوں کو جنہیں اللہ نے قلبِ سلیم عطا فرمایاہے"۔
مکان میں داخل ہونے کی دعا
بِسمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰهِ وَاشَهدُ اَن لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰه وَحدَه لَا شَرِیْکَ لَه وَاشهد اَنَّ مُحَمدًا عبدُه وَرسُولُه
گھر سے نکلنے کی دعا
بِسمِ اللّٰهِ اٰمنتُ باللّٰهِ وَتوکَّلْتُ عَلَی اللّٰهِ مَاشَاءَ اللّٰهُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ
نیند سے بیدار ہوتے وقت کلمہ طیبہ مکمل خلیفة بلافصل تک پڑھے اور خدا کا شکر ادا کرے۔
سلام بھی دعا ہے
جب کسی سے ملو‘ کہو السلامُ علیکم۔ اگر دوسرا کہے تو جواب میں کہو وعلیکم السلام۔ یاد رکھیے صرف ہاتھ ہلا دینا یا اشارہ کر دینا سلام نہیں ہے۔ اسی طرح سلام لیکم کہنا بھی غلط ہے یا صرف سلام کہہ دینا بھی ناکافی ہے۔ اگر غیرمسلم سلام کرے یا سلام کہے تو انھیں لفظوں میں لوٹا دیں کافی ہے یا صرف یہ کہہ دیں وعلیکم۔
جب سواری پر بیٹھے
(
سُبحَانَ الَّذِی سَخرلنَا هٰذَا وَمَا کُنَّا لَه مقرنین
)
"قابل تسبیح ہے وہ اللہ جس نے اس سواری کو ہمارا مطیع کر دیا حالانکہ اسے قابو میں لانے کی طاقت ہم میں نہ تھی"۔
کشتی یا جہاز پر بیٹھے تو دعا پڑھے
(
بِسمِ اللّٰهِ مجریها ومرسها ط ان ربی لغفور الرحیم
)
واپسی پر شکراً للّٰہِ کہو۔
دعائے اولاد
اگر اولاد نہ ہوتی ہو تو پڑھے:
۱-رب لا تذرنی فردًا وانت خیرالوارثین
۲- رب ھب لی من لدنک ذرَّیةً طیبةً انک سمیع الدعا
۳-اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّی وَاتُوبُ اِلَیْهِ
ایک تسبیح روزانہ پڑھے یقینا اولاد ہوگی۔
مشکلات کے حل کے لیے بہترین دعا
بِسمِ اللّٰه الرَّحمٰنَ الرَّحیم - وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ العَلِیِّ العَظِیْم وَصلِّ عَلٰی مُحَمّد والِه الطیِّبین
نظربد سے بچنے کے لیے
قرآن پاک کی آخری دو سورتیں الفلق اور الناس پڑھا کرے۔
ناد علی بہترین دعا اور ردّ بلا ہے۔
(
وَقَالَ رَبُّکُم اَدْعُونِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَ
)
(سورہ المومن ۶۰)