شب قدر نزولِ قرآن کی رات
قرآن کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے :” شهر رمضان الذی انزل فيه القراٰن “ (بقرہ۔ ۱۸۵) اور اس تعبیر کا ظاہر یہ ہے کہ سارا قرآن اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔
اور سورہ قدر کی پہلی آیت میں مزید فرماتا ہے : ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا “۔ (انّآ انزلناہ فی ليلة القدر)
اگر چہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہیں ہوا ، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ” انّا انزلناہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور اس کا ظاہری ابہام اس کی عظمت اور اہمیت کے بیان کے لیے ہے ۔
” انّا انزلناہ“ ( ہم نے اسے نازل کیا ہے ) کی تعبیر بھی اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت کی طرف ایک اور اشارہ ہے جس کے نزول کی خدا نے اپنی طرف نسبت دی ہے مخصوصاً صیغہ متکلم مع الغیر کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور یہ عظمت کی دلیل ہے ۔
اس کا شب” قدر“ میں نزول وہی شب جس میں انسانوں کی سر نوشت اور مقدرات کی تعین ہوتی ہے ۔ یہ اس عظیم آسمانی کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔
اس آیت کو سورہ بقرہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے ، لیکن وہ کون سی رات ہے قرآن سے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن روایات میں اس سلسلہ میں بھی اور دوسرے مسائل کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے بھی اور قرآن کے مضمون کے پیغمبر اکرم کی زندگی سے ارتباط کے لحاظ سے بھی یہ مسلم ہے کہ یہ آسمانی کتاب تدریجی طور پر اور ۲۳ / سال کے عرصہ میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بات اوپر والی آیات سے جو یہ کہتی ہیںکہ ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوئی، کس طرح ساز گار ہوگی؟
اس سوال کا جواب:۔ جیسا کہ بہت محققین نے کہا ہے ۔ یہ ہے کہ قرآن کے دو نزول ہیں ۔
۱۔ نزول دفعی :
جو ایک ہی رات میں سارے کا ساراپیغمبراکرم کے پاس قلب پریا بیت المعمور پر یا لوح محفوظ سے نچلے آسمان پر نازل ہوا۔۲۔ نزول تدریجی :
جو تیئس سال کے عرصہ میں نبوت کے دوران انجام پایا ۔ ( ہم سورہ دُخان کی آیہ ۳ جلد ۱۲ تفسیر نمونہ ص ۲۶سے آگے اس مطلب کی تشریح کے چکے ہیں )۔بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آغازِنزول ِ قرآن شب قدر میں ہواتھا، نہ کہ سارا قرآن ، لیکن یہ چیز آیت کے ظاہر کے خلاف ہے ، جو کہتی ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے سلسلے میں بعض آیات میں ” انزال“ اور بعض میں ” تنزیل“ تعبیر ہوئی ہے ۔ اور لغت کے کچھ متنوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” تنزیل “ کا لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی چیز تدریجاًنازل ہو لیکن ” انزال “ زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے جو نزول دفعی کو بھی شامل ہوتا ہے ۔ ۱
تعبیر کایہ فرق جو قرآن میں آیاہے ممکن ہے کہ اوپر والے دو نزولوں کی طرف اشارہ ہو۔
بعد والی آیت میں شب قدر کی عظمت کے بیان کے لیے فرماتاہے :” تو کیا جانے کہ شب قدر کیا ہے “۔( وما ادراک ماليلة القدر)۔
اور بلا فاصلہ کہتا ہے :” شب قدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے “۔( ليلة القدر خير من الف شهر )۔
یہ تعبیر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس رات کی عظمت اس قدر ہے کہ پیغمبر اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک بھی اپنے اس وسیع وعریض علم کے باوجود آیات کے نزول سے پہلے واقف نہیں تھے ۔
ہم جانتے ہیں کہ ہزار ماہ اسّی (۸۰) سال سے زیادہ ہے ۔ واقعاً کتنی باعظمت رات ہے جو ایک پر برکت طولانی عمر کے برابر قدر و قیمت رکھتی ہے ۔
بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے لباسِ جنگ زیب تن کررکھا تھا ، اور ہزار ماہ تک اسے نہ اتا را ، وہ ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ( یا آمادہ ) رہتا تھا ، پیغمبر اکرم کے اصحاب و انصار نے تعجب کیا، اور آرزو کی کہ کاش اس قسم کی فضیلت و افتخار انہیں بھی میسر آئے تو اوپروالی آیات نازل ہوئیں ۔ اور بیان کیاکہ شب قدر ہزار ماہ سے افضل ہے ۔ ۲
ایک اور حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر نے بنی اسرائیل کے چار افراد کو ذکر کیا جنہوں نے اسی سال بغیر معصیت کیے خدا کی عبادت کی تھی۔ اصحاب نے آرزو کی کہ کاش وہ بھی اس قسم کی توفیق حاصل کرتے تو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات نازل ہوئیں۔۳
اس بارے میںکہ یہاں ہزار کا عدد” تعداد“ کے لئے ہے یا” تکثیر“ کے لیے بعض نے کہا ہے : یہ تکثیر کے لیے ہے ، اور شب قدر کی قدر و منزلت کئی ہزار ماہ سے بھی زیادہ ہے ، لیکن وہ روایات جوہم نے اوپرنقل کی ہیں وہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیںکہ عددِ مذکور تعداد ہی کے لئے ہے اور اصولی طور پر بھی عدد ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے مگر یہ تکثیر پر کوئی واضح قرینہ موجود ہو ، اوراس کے بعد اس عظیم رات کی مزید تعریف و توصیف کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے : ” اس رات میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں“۔ (تنزل الملائکة و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر)۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” تنزل“ فعل مضارع ہے اور استمرار پر دلالت کرتا ہے ( جو اصل میں ” تتنزل“ تھا)۔ واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ قدر پیغمبر اکرم اور نزولِ قرآن کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ یہ ایک امر مستمر ہے ، اور ایسی رات ہے جو ہمیشہ آتی رہتی ہے اور ہر سال آتی ہے ۔
اس بارے میں کہ روح سے کیا مراد ہے بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ” جبرئیل امین “ ہے ، جسے ” روح الامین “ بھی کہا جاتا ہے ، اور بعض نے ” روح“ کی سورہ شوریٰ کی آیہ ۵۲” و کذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا“ ” جیسا کہ ہم نے گزشتہ انبیاء پر وحی کی تھی، اسی طرح سے تجھ پر بھی اپنے نافرمان سے وحی کی ہے“۔
کے قرینہ سے ” وحی“ کے معنی میں تفسیر کی ہے ۔
اس بناء پر آیت کا مفہو م اس طرح ہوگا” فرشتے وحی الٰہی کے ساتھ، مقدرات کی تعیین کے سلسلہ میں ، اس رات میں نازل ہوتے ہیں “۔ یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے جو سب سے زیادہ قریب نظر آتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ” روح ایک بہت بڑی مخلوق ہے جو فرشتوں سے مافوق ہے ، جیساکہ ایک امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا : کیا روح وہی جبرئیل ہے “ ؟ امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:” جبرئيل من الملائکة، و الروح اعظم من الملائکة ان الله عز و جل يقول : تنزل الملائکة و الروح“۔
” جبرئیل تو ملائکہ میں سے ہے ، اور روح ملائکہ سے زیادہ عظیم ہے ، کیا خدا وند تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں ، ؟4
یعنی مقابلہ کے قرینہ سے یہ دونوں آپس میں مختلف ہیں لفظ ” روح“ کے لئے یہاں دوسری تفاسیر بھی ذکر ہوئی ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی ، لہٰذا ان سے صرف نظرکی گئی ہے
” من کل امر“ سے مراد یہ ہے کہ فرشتے سر نوشتوں کی تقدیر و تعین کے لئے ، او رہر خیر و برکت لانے کے لئے اس رات میں نازل ہوتے ہیں ، اور ان کے نزول کا مقصدان امور کی انجام دہی ہے ۔
یا یہ مراد ہے کہ ہر امر خیر اور ہر سر نوشت اور تقدیر کو اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔ 5
”ربھم“ کی تعبیر کو، جس میں ربوبیت اور تدبیر جہاں کے مسئلہ پر بات ہوئی ہے ، ان فرشتوں کے کام کے ساتھ قریبی مناسبت ہے ، کہ وہ امور کی تدبیر و تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں، اور ان کا کام بھی پروردگارکی ربوبیت کا ایک گوشہ ہے ۔
اور آخری آیت میں فرماتا ہے :” یہ ایک ایسی رات ہے ، جو طلوع صبح تک سلامتی اور خیر و برکت و رحمت سے پر رہتی ہے “۔
( سلام ھی حتی مطلع الفجر)۔
قرآن بھی اسی میں نازل ہوا، اس کا احیاء اور شب بیداری بھی ہزار ماہ کے برابر ہے ، خدا کی خیرات و برکات بھی اسی شب میں نازل ہوتی ہیں ، اس کی رحمتِ خاص بھی بندوں کے شامل حال ہوتی ہے ، اور فرشتے اور روح بھی اسی رات میں نازل ہوتے ہیں ۔
اسی بناء پر یہ ایک ایسی رات ہے جو آغاز سے اختتام تک سرا سر سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق تو اس رات میں شیطان کو زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی یہ ایک ایسی رات ہے جو سالم او رسلامتی سے تواٴم ہے ۔
اس بناء پر ” سلام “ کا اطلاق ، جو سلامت کے معنی میں ہے ۔( سالم کے اطلاق کے بجائے) حقیقت میں ایک قسم کی تاکید ہے ، جیسا کہ بعض اوقات ہم کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی عین عدالت ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس رات پر” سلام “کا اطلاق اس بناء پر ہے کہ فرشتے مسلسل ایک دوسرے پریا مومنین پر سلام کرتے ہیں ، یا پیغمبر کے حضور میں اور آپ کے معصوم جانشین کے حضور میں جاکر سلام عرض کرتے ہیں ۔
ان تفسیروں کے درمیان بھی ممکن ہے ۔
بہر حال یہ ایک ایسی رات ہے جو ساری کی ساری نور و رحمت ، خیر و بر کت، سلامت و سعادت، اور ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا ۔ کیاآپ جانتے ہیںکہ شب قدر کونسی رات ہے ؟ تو آپ نے فرمایا-
” کيف لانعرف و الملائکة تطوف بنا فيها“
” ہم کیسے نہ جانیں گے جب کہ فرشتے اس رات ہمارے گرد طواف کرتے ہیں“۔ 6
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آیا ہے کہ خدا کے کچھ فرشتے آپ کے پاس آئے اور انہیں بیٹے کے تولد کی بشارت دی اور ان پر سلام کیا ، ( ہود۔۶۹)۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی جو لذت ان فرشتوں کے سلام میں آئی، ساری دنیا کی لذتیں بھی اس کے برابرنہیں تھیں۔ اب غور کرنا چاہئیے کہ جب شب قدر میں فرشتے گروہ درگروہ نازل ہورہے ہوں، اور مومنین کو سلام کررہے ہوں ،تو اس میں کتنی لذت، لطف اور برکت ہوگی؟! جب ابراہیم کو آتش نمرودمیں ڈالا گیا ، تو فرشتوں نے آکر آپ کو سلام کیااور آگ ان پر گلزار بن گئی ، تو کیا شب قدر میں مومنین پر فرشتوں کے سلام کی برکت سے آتش دوزخ” برد“و” سلام “ نہیں ہو گی ؟ ۔
ہاں ! یہ امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کی نشانی ہے کہ وہاں تو خلیل پر نازل ہوتے ہیں اور یہاں اسلام کی اس امت پر ۔7