حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ شادی
- شائع
-
- مؤلف:
- مرکز تحقیقات اسلامی
- ذرائع:
- اقتباس از کتاب: تاریخ اسلام (زندگی پیامبرص)
حضرت خدیجہ (ع) رشتے میں پیغمبر اکرم (ص) کی چچازاد بہن لگتی تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصی بن کلاب سے جاملتا تھا، حضرت خدیجہ (ع) کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو دانا نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانہ کعبہ کا حامی(1) وپاسدار تھا اور خود حضرت خدیجہ (ع) اپنی عفت وپاکدامنی میں ایسی مشہور تھیں کہ دور جاہلیت میں بھی انہیں ''طاہرہ'' اور''سیدہ قریش'' کے لقب سے یاد کیاجاتا تھا ، ان کیلئے بہت سے رشتے آئے اگر چہ شادی کے خواہشمند مہر ادا کرنے کےلئے کثیر رقم دینے کیلئے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کیلئے آمادہ نہ ہوئیں_
جب رسول خدا (ص) ملک شام کے تجارتی سفرسے واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہ (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ (ص) سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا _(2)
رسول خدا (ص) نے اس مسئلے کو حضرت ابوطالب علیہ السلام اور دیگر چچائوں کے درمیان رکھا اور جب سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آ پ (ص) نے حضرت خدیجہ (ع) کے قاصد کو مثبت جواب دیا ، رشتے کی منظوری کے بعد حضرت ابوطالب علیہ السلام اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حصرت خدیجہ (ع) کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ (ع) کے گھر پر نکاح کی شایان شان تقریب منعقد ہوئی اور نکاح کا خطبہ دولہا اور دلہن کے چچائوں ''حضرت ابوطالب(ع) '' اور ''عمروابن اسد'' نے پڑھا_
جس وقت یہ شادی ہوئی اس وقت مشہور قول کی بنا پر رسول خدا (ص) کا سن مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ (ع) کی عمر چالیس سال تھی_(3)
حضرت خدیجہ (ع) سے شادی کے محرکات
ہر چیز کو مادی نظر سے دیکھنے والے بعض لوگوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہا ہے :
''چونکہ حضرت خدیجہ (ع) کو تجارتی امور کیلئے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اسی لئے انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کو شادی کا پیغام بھیجا، دوسری طرف پیغمبر اکرم (ص) یتیم ونادار تھے اور حضرت خدیجہ (ع) کی شرافتمندانہ زندگی سے واقف تھے اسی لئے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا حالانکہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا''_
جبکہ اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیاجائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو نظر آتے ہیںاس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا (ص) کی جانب
سے اور بعد میں حضرت خدیجہ (ع) کی جانب سے شادی کے اسباب اور محرکات کے بیان میں ذیل میں چند نکات بیان کریں گے:
1_ ہمیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ساری زندگی زہد وتقوی ومعنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت (ص) کی نظر میں دنیاوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی ، آپ (ص) نے حضرت خدیجہ (ع) کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائشے کی خاطر استعمال نہیں کیا _
2_ اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہ (ع) کی جانب سے کی گئی تھی نہ کہ رسول خدا (ص) کی طرف سے_
اب ہم یہاں حضرت خدیجہ (ع) کی جانب سے اس شادی کے محرکات بیان کرتے ہیں :
1_ چونکہ کہ وہ بذات خود عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اس لئے انہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو_
2_ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ''میسرہ'' غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ (ع) کو بتائے تو ان کے دل میں ''امین قریش'' کیلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی کمالات اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہ (ع) کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا_
3_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ (ع) نے آپ (ص) کو کبھی سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی _ اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول اکرم (ص) کو ضرور کئی مرتبہ سفر پر روانہ کرتیں تاکہ بہت زیادہ مال و دولت جمع ہوسکے، بلکہ اس کے برعکس حضرت خدیجہ (ع) نے اپنی دولت آنحضرت (ص) کے حوالے کردی تھی تاکہ اسے آپ (ص) ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں_
حضرت خدیجہ (ع) نے رسول خدا (ص) سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے:'' اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف ،دیانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی (اور شادی کے لئے پیغام بھیجا)''(4)
حوالہ جات
1_مثال کے طور پر جب یمن کے بادشاہ تبع نے حجر اسود کو مکہ سے یمن لے جانے کا عزم کیا تو حضرت خدیجہ (ع) کے والد خویلد نے اپنی سعی و کوشش سے تبع کو اس ارادے سے باز رکھا ملاحظہ ہو السیرة الحلبیہ ج 1 ص138_
2_ تاریخ کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت خدیجہ (ع) نے براہ راست پیغمبر اکرم (ص) کو شادی کا پیغام بھیجا ملاحظہ ہو سیرہ ابن اسحاق ص 60_
3_السیرة الحلبیہ ج 1 ص 137 _ 139_
4_السیرة الحلبیہ ج 1 ص 271_