امام ھادی علیہ السلام کا آلام ومصائب برداشت کرنا
معتصم نے خواہ اپنی ملکی پریشانیوں کی وجہ سے جو اسے رومیوں کی جنگ اور بغداد کے دارالسلطنت میں عباسیوں کے فساد وغیرہ کی وجہ سے درپیش تھیں اور خواہ امام علی نقی علیہ السّلام کی کمسنی کا خیال کرتے ھوئے بھر حال حضرت سے کوئی تعرض نھیں کیا اور آپ سکون واطمینان کے ساتھ مدینہ منورہ میں اپنے فرائض پورے کرنے میں مصروف رھے .
معتصم کے بعد واثق نے بھی آپ کے خلاف کوئی اقدام نھیں اٹھایا . مگر متوکل کا تخت سلطنت پر بیٹھنا تھا کہ امام علی نقی علیہ السّلام پر تکالیف کا سیلاب امڈ آیا . یہ واثق کا بھائی او معتصم کا بیٹا تھا , اور آلِ رسول کی دشمنی میں اپنے تمام آباؤ اجداد سے بڑھا ھوا تھا .
اس سولہ برس میں جب سے امام علی نقی علیہ السّلام منصب امامت پر فائز ھوئے تھے آپ کی شھرت تمام مملکت میں پھیل چکی تھی اور تعلیمات اھل بیت علیہ السّلام کے پروانے اس شمع ھدایت کے برابر چکر لگا رھے تھے . ابھی متوکل کی سلطنت کو چار برس ہی ھوئے تھے کہ مدینے کے حاکم عبدالله بن حاکم نے امام علیہ السّلام سے مخالفت کا آغاز کیا . پھلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی تکلیفیں پھنچائیں پھر متوکل کو آپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق سلاطین کے پاس آپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پھنچائی جاتی تھیں . مثلاً یہ کہ حضرت علیہ السّلام اپنے گردو پیش اسباب سلطنت جمع کررھے ھیں . آپ کے ماننے والے اتنی تعداد میں بڑہ گئے ھیں کہ آپ جب چاھیں حکومت کے مقابلہ کے لیے کھڑے ھوسکتے ھیں-
حضرت کو اس تحریرکی بروقت اطلاع ھوگئی اور آپ نے اتمام حجت کے طور پراسی کے ساتھ متوکل کے پاس اپنی جانب سے ایک خط تحریر فرما دیا جس میں حاکم مدینہ کی اپنے ساتھ ذاتی مخالفت کا تذکرہ اور اس کی غلط بیانیوں کا اظھار فرمایا تھا- متوکل نے ازراہ سیاست امام علی نقی علیہ السّلام کے خط کو وقعت دیتے ھوئے مدینہ کے اس حاکم کو معزول کر دیا مگر ایک فوجی رسالے کو یحیٰی بن ھرثمہ کی قیادت میں بھیج کر حضرت علیہ السّلام سے بظاھر دوستانہ انداز میں باصراریہ خواھش کی کہ آپ مدینہ سے درالسلطنت سامرا تشریف لا کر کچھ دن قیام فرمائیں اور پھر واپس مدینہ تشریف لے جائیں-
امام علیہ السّلام اس التجا کی حقیقت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے یہ نیاز مندانہ دعوت تشریف آوری حقیقت میں جلا وطنی کا حکم ھے مگر انکار سے کوئی حاصل نہ تھا- جب کہ انکار کے بعد اسی طلبی کے انداز کا دوسری شکل اختیار کر لینا یقینی تھا- اور اس کے بعد روانگی ناگزیر تھی- بے شک مدینہ سے ھمیشہ کے لئے جدا ھونا آپ کے قلب کے لئے ویسا ھی تکلیف دہ صدمہ تھا جسے اس کے پھلے حضرت امام حسین علیہ السّلام, امام موسٰی کاظم علیہ السّلام, امام رضا علیہ السّلام اور امام محمد تقی علیہ السّلام آپ کے مقدس اور بلند مرتبہ اجداد برداشت کر چکے تھے- وہ اب آپ کے لئے ایک میراث بن چکا تھا- پھر بھی دیکھنے والے بیان کرتے ھیں کہ مدینہ سے روانگی کے وقت آپ کے تاثرات اتنے شدید تھے جس سے احباب و اصحاب میں ایک کھرام برپا تھا-
متوکل کا عریضہ بارگاہ امام علیہ السّلام میں بڑے اخلاص اور اشتیاق قدم بوسی کا مظھر تھا-جو فوجی دستہ بھیجا گیا تھا وہ بظاھر سواری کے تزک و احتشام اور امام علیہ السّلام کی حفاظت کا ایک سامان تھا مگر جب حضرت علیہ السّلام سامرے میں پھنچ گئے اور متوکل کو اس کی اطلاع دی گئی تو اس کا پھلا ھی افسوسناک رویہ یہ تھا کہ بجائے امام علیہ السّلام کے استقبال یا کم از کم اپنے یھاں بلا کر ملاقات کرنے کے اس نے حکم دیا کہ حضرت کو »خاف الصعالیک« میں اتارا جائے,اس لفظ کے معنی ھی ھیں »بھیک مانگنے والے گداگروں کی سرائے« اس سے جگہ کی نوعیت کا پورے طور پر اندازہ کیا جا سکتا ھے۔ یہ شھر سے دور ویرانے میں ایک کھنڈر تھا- جھاں امام علیہ السّلام کو فروکش ھونے پر مجبور کیا گیا-
اگرچہ یہ مقدس حضرات خود فقراء کے ساتھ ھم نشینی کو اپنے لئے ننگ و عار نھیں سمجھتے تھے اور تکلفات ظاھری سے کنارہ کش رھتے تھے مگر متوکل کی نیت تو اس طرز عمل سے بھرحال تحقیر کے سوااور کوئی نھیں تھی- تین دن تک حضرت کا قیام یھاں رھا- اس کے بعد متوکل نے آپ کو رزاقی کی حراست میں نظر بند کر دیا اور عوام کے لئے آپ سے ملنے جلنے کو ممنوع قرار دیا وھی بے گناھی اور حقانیت کی کشش جو امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کی قید کے زمانہ میں سخت سے سخت محافظین کو کچھ دن کے بعد آپ کی رعایت پر مجبور کر دیتی تھی اسی کا اثر تھا کہ تھوڑے ھی عرصہ بعد رزاقی کے دل پر امام علی نقی علیہ السّلام کی عظمت کا سکہ قائم ھو گیا اور وہ آپ کو تکلیف دینے کے بجائے آرام و راحت کے سامان بھم پھنچانے لگا مگر یہ بات زیادہ عرصہ تک متوکل سے چھپ نھیں سکتی تھی- اسے علم ھو گیا اور اس نے رزاقی کی قید سے نکل کر حضرت علیہ السّلام کو ایک دوسرے شخص سعید کی حراست میں دے دیا-
یہ شخص بے رحم اور امام علیہ السّلام کے ساتھ سختی برتنے والا تھا- اسی لئے اس کے تبادلے کی ضرورت نھیں پڑی اور حضرت پورے بارہ برس اس کی نگرانی میں مقید رھے- ان تکالیف کے ساتھ جو اس قید میں تھے حضرت علیہ السّلام شب و روز عبادت الٰھی میں بسر کرتے تھے- دن بھر روزہ رکھنا اور رات بھر نمازیں پڑھنا آپکا معمول تھا- آپ کا جسم کتنے ھی قید و بند میں رکھا گیا ھو مگر آپ کا ذکر چار دیواری میں محصور نھیں کیا جا سکتا تھا- نتیجہ یہ تھا کہ آپ تو تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مقید تھے مگر آپ کا چرچہ سامرے بلکہ شاید عراق کے ھر گھر میں تھا اور اس بلند سیرت و کردار کے انسان کو قید رکھنے پر خلق خدا میں متوکل کے مظالم سے نفرت برابر پھیلتی جا رھی تھی-
اب وہ وقت آیا کہ فتح بن خاقان آلِ رسول سے محبت رکھنے کے باوجود صرف اپنی قابلیت اپنے تدبر اور اپنی دماغی وعملی صلاحیتوں کی بنا پر متوکل کا وزیر ھو گیا , تو اس کے کھنے سننے سے متوکل نے امام علی نقی علیہ السّلام کی قید کو نظر بندی سے تبدیل کردیا اور آپ کو ایک مکان دے کر مکان تعمیر کرنے اور اپنے ذاتی مکان میں سکونت کی اجازت دے دی مگر اس شرط سے کہ آپ سامرے سے باھر نہ جائیں اور سعید آپ کی نقل وحرکت اور مراسلات وتعلقات کی نگرانی کرتا رھے گا .
اس دور میں بھی امام علیہ السّلام کا استغنائے نفس دیکھنے کے قابل تھا .دارلسلطنت میں مستقل طور پر قیام کے باوجود نہ کبھی متوکل کے سامنے کوئی درخواست پیش کی نہ کبھی کسی قسم کے ترحم یا تکریم کی خواھش ۔کی وھی عبادت وریاضت کی زندگی جو قید کے عالم میں تھی . اس نظر بندی کے دور میں بھی رھی . جو کچھ تبدیلی ھوئی تھی وہ ظالم کے رویّہ میں تھی . مظلوم کی شان جیسے پھلے تھی ویسی ھی اب بھی قائم رھی . اس زمانے میں بھی ایسا نھیں ھوا کہ امام کو بالکل آرام وسکون کی زندگی بسر کرنے دی جاتی .
مختلف طرح کی تکالیف سے آپ کے مکان کی تلاشی لی گئی کہ وھاں اسلحہ ھیں یا ایسے خطوط ھیں جن سے حکومت کی مخالفت کاثبوت ملتا ھے حالآنکھ ایسی کوئی چیز ملی نھیں مگر یہ تلاشی ھی ایک بلند اور بے گناہ انسان کے لیے کتنی باعث تکلیف چیز ھے اس سے بڑہ کر یہ واقعہ کہ دربار شاھی میں عین اس وقت آپ کی طلبی ھوتی ھے جب کہ شراب کے دور چل رھے ھیں . متوکل اور تمام حاضرین دربار طرب ونشاط میں غرق ھیں . اس پر طرہ یہ کہ سرکش, بے غیرت اور جاھل بادشاہ حضرت علیہ السّلام کے سامنے جامِ شراب بڑھا کر پینے کی درخواست کرتا ھے .
شریعت اسلام کے محافظ معصوم کو اس سے جو تکلیف پھنچ سکتی ھے وہ تیر وخنجر سے یقیناً زیادہ ھے مگر حضرت نے نھایت متانت اور صبروسکون کے ساتھ فرمایا کہ »مجھے ا س سے معاف کرو , میرا میرے آباؤ اجداد کا خون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نھیں ھوا ھے۔
اگر متوکل کے احساسات میں کچھ بھی زندگی باقی ھوتی تو وہ اس معصومانہ مگر پر شکوہ جواب کا اثر لیتا مگر اس نے کھا کہ اچھا یہ نھیں تو کچھ گاناھی ھم کو سنائیے. حضرت نے فرمایا کہ میں اس فن سے بھی واقف نھیں ھوں۔ آٓخر اس نے کہا کہ آپ کو کچھ اشعار جس طریقے سے بھی آپ چاھیں بھرحال پڑھنا ضرور پڑھیں گے .
کوئی جذبات کی رو میں بھنے والا انسان ھوتا تو اس خفیف الحرکات بادشاہ کے اس حقارت انگیز یا تمسخر آمیز برتاؤ سے متاثر ھو کر شاید اپنا دماغی توازن کو کھو دیتا مگر وہ کوہ حلم ووقار , امام کی ھستی تھی جو اپنے کردار کو فرائض کی مطابقت سے تکمیل تک پھنچانے کی ذمہ دارتھی ,منھیات کے دائرہ سے نکل کر جب فرمائش اشعار سنانے تک پھنچی تو امام علیہ السّلام نے موعظہ وتبلیغ کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجہ کر اپنے دل سے نکلی ھوئی پرُ صداقت آواز سے ایسے اشعار پڑھنا شروع کئے جنھوں نے محفل طرب میں مجلس وعظ کی شکل پیدا کردی .
اشعار کچھ ایسے حقیقی تاثرات کے ساتھ امام علیہ السّلام کی زبان سے ادا ھوئے تھے کہ متوکل کے عیش ونشاط کی بساط الٹ گئی .
شراب کے پیالے ھاتھوں سے چھوٹ گئے اور تمام مجمع زارو قطار رونے لگا . یھاں تک کہ خود متوکل دھاڑھیں مار مار کر بے اختیار رو رھا تھا . جوں ھی یہ گریہ و زاری اور رونا موقوف ھوا اس نے امام علیہ السّلام کو رخصت کر دیا اور آپ اپنے مکان پر تشریف لے گئے .
ایک اورنھایت شدید روحانی تکلیف جو امام علیہ السّلام کو اس دور میں پھنچی وہ متوکل کے احکام تشدّد تھے جو نجف اور کربلا کے زائرین کے خلاف ا س نے جاری کیے . اس نے یہ حکم تمام قلم رو حکومت میں جاری کردیا کہ کوئی شخص جناب امیر علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام کے روضوں کی زیارت کو نہ جائے , جو بھی اس حکم کی مخالفت کرے گا اس کا خون حلال سمجھا جائے گا-
اتنا ھی نھیں بلکہ اس نے حکم دیا کہ نجف اور کربلا کی عمارتیں بالکل گرا کر زمین کے برابر کردی جائیں . تمام مقبرے کھود ڈالے جائیں اور قبر امام حسین علیہ السّلام کے گرد وپیش کی تمام زمین پر کھیت بودیئے جائیں . یہ ناممکن تھا کہ زیارت کے امتناعی احکام پر اھل بیت رسول کے جان نثار آسانی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے تیار ھوجاتے . نتیجہ یہ ھوا کہ اس سلسلہ میں ھزاروں بے گناھوں کی لاشیں خاک وخون میں تڑپتی ھوئی نظر آئیں۔ کیا اس میں شک ھے کہ ان میں سے ھر ایک مقتول کا صدمہ امام علیہ السّلام کے دل پر اتنا ھی ھوا تھا جتنا کسی اپنے ایک عزیز کے بے گناہ کے قتل کیے جانے کا حضرت علیہ السّلام کو ھوسکتا تھا .
پھر آپ تشدّد کے ایک ایسے ماحول میں قید کرکے رکھے گئے تھے کہ آپ وقت کی مناسبت کے لحاظ سے ان لوگوں تک کچھ مخصوص ھدایات بھی نھیں پھنچا سکتے تھے جو ان کے لیے صحیح فرائض شرعیہ کے ذیل میں اس وقت ضروری ھوں۔ یہ اندوھناک صورتِ حال ایک دوبرس نھیں بلکہ متوکل کی زندگی کے آخری وقت تک برابر قائم رھی .
علاوہ از ایں متوکل کے دربار میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام کی نقلیں کی جاتی تھی اور ان پر خود متوکل اور تمام اھل دربار ٹھٹے لگاتے تھے۔ .
یہ ایسا اھانت آمیز منظر تھا کہ ایک مرتبہ خود متوکل کے بیٹے سے رھا نہ گیا . اس نے متوکل سے کھا کہ خیر آپ اپنی زبان سے حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں کچھ الفاظ استعمال کریں مگر جب آپ اپنے کو ان کا عزیز قرار دیتے ھیں تو ان کم بختوں کی زبان سے حضرت علی علیہ السّلام کے خلاف ایسی باتوں کو کیونکر گوارا کرتے ھیں اس پر بجائے کچھ اثر لینے کے متوکل نے اپنے بیٹے کا فحش آمیز تمسخر کیا اور دو شعر نظم کرکے گانے والوں کو دئیے جس میں خود اس کے فرزند کے لیے مادرانہ گالی موجود تھی . گویّے ان شعروں کو گاتے تھے اور متوکل قھقے لگاتا تھا .
اسی دور کا ایک واقعہ بھی کچھ کم قابل افسوس نھیں ھے ۔ ابن السکیت بغدادی علم نحوولغت کے امام مانے جاتے تھے اور متوکل نے اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے لیے انھیں مقرر کیا تھا . ایک دن متوکل نے ان سے پوچھا کہ تمھیں میرے ان دونوں بیٹوں سے زیادہ محبت ھے یا حسن وحسین سے ۔ ابن السکیت محبت اھل بیت علیہ السّلام رکھتے تھے۔ اس سوال کو سن کر بیتاب ھوگئے اور انھوں نے متوکل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے دھڑک کہہ دیا کہ حسن وحسین علیھما السّلام کا کیا ذکر , مجھے تو علی کے غلام قنبر کے ساتھ ان دونوں سے کہیں زیادہ محبت ھے . اس جواب کا سننا تھا کہ متوکل غصّے سے بیخود ھو گیا , حکم دیا کہ ابن السکیت کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے . یہی ھوا اور اس طرح یہ آل ُ رسول کے فدائی درجہ شھادت پر فائز ھوئے .
ان واقعات کابراہ راست جسمانی طور پر حضرت امام علی نقی سے تونہ تھا مگر بخدا ان کی ھر ھر بات ایک تلوار کی دھار تھی جو گلے پر نھیں دل پر چلا کرتی تھی , متوکل کا ظالمانہ رویّہ ایسا تھا جس سے کوئی بھی دور یا نزدیک کا شخص ا س سے خوش یامطمئن نھیں تھا . حدیہ ھے کہ اس کی اولاد تک اس کی جانی دشمن ھوگئی تھی , چنانچہ اسی کے بیٹے منتصر نے ا س کے بڑے مخصوص غلام باغر رومی کو ملا کر خود متوکل ھی کی تلوار سے عین اس کی خواب گاہ میں اس کو قتل کرا دیا . جس کے بعد خلائق کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور منتصرکی خلافت کا اعلان ھوگیا .
منتصر نے تخت حکومت پر بیٹھتے ھی اپنے باپ کے متشد انہ احکاکم کو یکلخت منسوخ کردیا. نجف اور کربلا زیارت کے لیے عام اجازت دے دی اور ان مقدس روضوں کی کسی حد تک تعمیر کرا دی . امام علی نقی علیہ السّلام کے ساتھ بھی اس نے کسی خاص تشدد کا مظاھرہ نھیں کیا مگر منتصر کی عمر طولانی نھیں ھوئی . وہ چھ مھینوں کے بعد دنیا سے اٹہ گیا منتصر کے بعد مستعین کی طرف سے امام علیہ السّلام کے خلاف کسی خاص بدسلوکی کا برتاؤ نظر نھیں آتا .
امام علیہ السّلام نے چونکہ مکان بنا کر مستقل قیام اختیار فرما لیا تھا اس لیے یا تو خود آپ ھی نے مناسب نہ سمجھا یا پھر ان بادشاھوں کی طرف سے آپ کے مدینہ واپس جانے کو پسند نھیں کیا گیا ھو . بھر حال جو بھی وجہ ھو آپ قیام کا سامرہ ھی میں رھا . اتنے عرصے تک حکومت کی طرف سے مزاحمت نہ ھونے کی وجہ سے علوم اھلبیت علیہ السّلام کے طلب گارذرا اطمینان کے ساتھ کثیر تعداد میں آپ سے استفادہ کے لیے جمع ھونے لگے جس کی وجہ سے مستعین کے بعد معتز کو پھر آپ سے پر خاش پیدا ھوئی اور اس نے آپ کی زندگی ھی کا خاتمہ کردیا .