امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اہل سنت اور واقعہ غدیر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس مقالہ میں ہماری کوشش یہ ہے کہ اہل سنت و الجماعت کی ان وجوہات کو بیان کریں جن کی بنا پر وہ حدیث غدیر کے امیر المومنین علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر واضح اور آشکار نص ہونے کو قبول نہیں کرتے۔ اور منصفانہ طور پر یہ فیصلہ کریں کہ آیا یہ حدیث جیسا کہ شیعہ دعویدار ہیں واقعا علی علیہ السلام کی خلافت پر دلالت کرتی ہے یا نہیں؟
سب سے پہلے ہم احادیث کی ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں حدیث غدیر بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد حدیث غدیر ، اسکے بارے میں نظریات اور ان کے اشکالات بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

حدیث غدیر امام حنبل کی نگاہ میں امام احمد حنبل نے اپنی مسند میں یوں بیان کیا ہے:
حدثنا عبد الله، حدثنی ابی، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمه، انا علی بن زید، عن عدی بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول الله[ صلی الله علیه و آله و سلم] فی سفر فنزلنا بغدیر خم فنودی فینا: الصلاة جامعة، و کسح لرسول الله[ صلی الله علیہ و آله و سلم] تحت شجرتین فصلی الظهر و اخذ بید علی [رضی الله عنه] فقال: الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسه؟ قالوا: بلی ، قال فاخذ بید علی فقال: من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه۔ قال فلقیه عمر بعد ذلک فقال له: هنیئا یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنه۔ [1]
براء بن عازب کا کہنا ہے: ایک سفر میں ہم رسول خدا [ ص] کے ہمراہ تھے غدیر خم کے مقام پر پہنچے ایک آواز دی گئی: الصلاۃ جامعۃ، [ نماز جماعت کے لیے تیار ہو جاو] دو درختوں کے نیچے رسول خدا [ص] کے لیے انتظام کیا گیا رسول خدا نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں آپ ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھےاور اس سےد شمنی رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔ پھرعمرآپ کے گلے ملے اور کہا مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے تم نے صبح وشام کی ہے اس حالت میں کہ تم ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہو۔
یہ روایت[مسند احمد ] میں مختلف مقامات پربہت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔[2]
حافظ ابن عبداللہ نیشاپوری نے بھی مستدرک میں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔منجملہ:
حدثنا ابوالحسین محمد بن احمد بن تمیم الحنظلی ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشی، ثنا یحیی بن حماد، وحدثنی ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنی ابی، ثنا یحیی بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقیه ببخاری، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادی، ثنا خلف بن سالم المخرمی، ثنا یحیی بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سلیمان الاعمش، قال ثنا حبیب بن ابی ثابت عن ابی الطفیل، عن زید بن ارقم ـ رضی اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلی اللّه علیه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غدیرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّی قد دعیت فاجبت. انی قد ترکت فیکم الثقلین احدہما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالی وعترتی فانظروا کیف تخلفونی فیهما فانّهما لن یفترقا حتی یردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولای وانا مولی کل مؤمن. ثم اخذ بید علی ـ رضی اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا ولیّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداہ. و ذکر الحدیث بطوله. هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله.[3]
اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو تکرار کیا ہے دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ" من کنت مولاہ " سے پہلے کہتے ہیں:
ثم قال: ان تعلمون انی اولی بالمؤمنین من انفسہم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّہ ـ صلی اللّہ علیہ وآلہ ـ من کنت مولاہ فعلی مولاہ.[4]

حدیث غدیر سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں ابن ماجہ لکھتے ہیں:
حدثنا علی بن محمد، ثنا ابوالحسین، اخبرنی حماد بن سلمه، عن علی ابن زید بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلی اللّه علیه وآله ـ فی حجّته التی حجّ فنزل فی بعض الطریق فامر الصلاة جامعة فاخذ بید علی فقال: الست اولی بالمؤمنین من انفسهم؟ قالوا: بلی قال: الست اولی بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلی. قال: فهذا ولىّ من انا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه۔[5]
ترمذی بھی " سنن" میں اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کرتے ہیں۔[6]
اس مقالہ میں ہم شیعوں کے منابع سے حدیث کو نقل نہیں کریں گے تاکہ ہمارا مقصد جو اہلسنت کے منابع سے حدیث غدیر کا اثبات ہے پورا ہو جائے ورنہ شیعہ منابع میں تو حدیث غدیر تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

 

شیعوں کا نظریہ

شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلام [ص] کی رحلت کے بعد لوگوں کی دنیاوی اور دینی رہنمائی کا اہم مسئلہ خود لوگوں کے انتخاب پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ رسول اکرم [ص] نے اسلام کی طرف پہلی دعوت [ دعوت ذوالعشیرہ] سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جگہ جگہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپنا بلافصل خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا۔ حدیث غدیر انہیں روایات میں سے ایک ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے۔

دوسرے مذاہب کا نظریہ دوسرے اسلامی مذاہب شیعوں کے نظریہ کے مقابلہ میں استدلال لاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت نہیں کر سکتی۔ ہم یہاں پر ان کے نظریات کے بارے میں بحث و تحقیق کرتی ہیں۔
۱: ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو دوسرے الفاظ میں، صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس کا پیغمبر اسلام [ص] سے صادر ہونا یقینی ہو۔ خاص کر کے شیعہ عقیدہ کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس مہم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے بعض اہل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ہوئے اسے استدلال کے قابل نہیں سمجھا۔ جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کہتے ہیں:
ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ہونے کا دعوی، بے دلیل ہے۔ کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔[7]
ابن حجر ھیثمی کا کہنا ہے: شیعہ فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ جو چیز امامت کے اوپر دلیل کے عنوان سے پیش ہونا چاہیے اسے متواتر ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ہونا معلوم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پہلے گزر چکا ہے بلکہ وہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ " خبر واحد" ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[8]
ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یہی بات کہی ہے۔[9]

جواب: یہ اشکال ہر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بہت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے واضح ہے کہ تعصب اور کینہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنہوں نے واقعیت کے موجود ہونے کا انکار کیا، یا ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا۔ جو اسلام کے مسلمات میں سے ہیں۔
ہم مختصرا یہاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کوجاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں "الغدیر" علامہ امینی، " عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور " احقاق الحق و ملحقاتہ" شہید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف ارجاع دیتے ہیں۔
کتاب احقاق الحق میں علماء اہل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فہرست نقل ہوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذہبی شامل ہیں ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔[10]
ابن حزم نے بھی منھاج السنہ میں یہی کہا ہے۔[11]
علامہ امینی " الغدیر" میں اہل سنت کے تینتالیس بڑے اور بزرگ علماء [منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی] کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں جو حدیث غدیر کے صحیح السند ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ [12]نیز اہل سنت کے تیس بڑے مفسرین[ منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی] کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک و ان لم تفعل۔۔۔" کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت کو اس حدیث سے واضح ربط دیا ہے۔ [13]
کتاب " احقاق الحق" میں حدیث غدیر کو اہلسنت کے پچاس معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔جیسے سسن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔[14]
یہاں پر ہم اہل سنت کے بعض بزرگان کے حدیث غدیر کے بارے میں اقوال کو الغدیر سے نقل کرتے ہیں:
ضیاء الدین مقبلی کا کہنا ہے: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نہیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نہیں ہے۔
غزالی کہتے ہیں: جمہور مسلمین کا اجماع ہے حدیث غدیر کے متن پر۔
بدخشی کہتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کوئی اس کی صحت پر شک نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ جل رہی ہو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔
آلوسی کا کہنا ہے: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نہیں ہے اور ہمارے نزدیک اس کی صحت ثابت ہے ۔ رسول خدا [ص] سے بھی اور حضرت علی [ع] سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
حافظ اصفہانی کہتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے سو افراد نے اسے نقل کیا ہے اور " عشرہ مبشرہ" بھی انہیں سو آدمیوں میں سے ہیں۔[15]
حافظ سجستانی کا کہنا ہے کہ حدیث غدیر ایک سو بیس صحابیوں کے ذریعے نقل ہوئی ہے اور حافظ اب العلاء ھمدانی نے ایک سو پچاس افراد کو بیان کیا ہے۔[16]
حافظ ابن حجر عسقلانی " تہذیب التھذیب" میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابن جریر طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث شمار کیا ہے اور ابو العباس ابن عقدہ نے بھی اسے صحابہ میں سے ستر افراد کے ذریعے سے نقل کیا ہے۔ [17]
نیز کتاب" فتح الباری بشرح صحیح البخاری" میں آیا ہے:
حدیث" من کنت مولاه فعلی مولاه" کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کے نقل کے راستے اور سندیں بہت زیادہ ہیں کہ ان سب کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور اس کی بہت ساری سندیں صحیح اور حسن ہیں۔ اور ہمارے لیے امام احمد حنبل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جو کچھ علی [ع] کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پہنچا ہے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں نہیں ملتا۔ [18]
قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو پچھتر طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام " الولایۃ" اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں ایک سو پچاس طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔[19]
حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے امیر المومنین[ع] کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:
یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے جیسا کہ رسول اسلام سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے بہت سارے گروہ نے بہت سارے دوسرے گروہوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے پس جو لوگ اس حدیث کی سند کو ضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی باتوں کی طرف توجہ دینا فضول ہے۔ اس لیے کہ وہ علم حدیث سے بے خبرہیں۔[20]
حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ہر گز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ بہت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نہیں ہے انہوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ہو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نہیں ہو جاتا۔
دوسری طرف سے خود بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ ہم ان کتابوں میں لائے ہیں وہ صحیح ہے نہ یہ کہ جو کچھ صحیح تھا ہم نے ذکر کر دیا۔ بلکہ بہت ساری صحیح احادیث کو دوسری وجوہات کی بنا پر ذکر نہیں کیا۔[21]
مذکورہ مطالب کے علاوہ، علامہ امینی [رہ] حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم کے اساتید اور بزرگان میں سے انتیس افراد سے نقل کرتے ہیں۔[22]
گفتگو کے اس حصہ کے آخر میں اس سلسلے میں کئے جانے والے ایک اشکال کو ذکر کرتے ہیں:
ابن حجر لکھتے ہیں:
حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ اور اسے ترمذی، نسائی او احمد حنبل جیسوں نے نقل کیا ہے اور بہت سارے طریقوں سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے منجملہ اصحاب میں سے سولہ افراد نے اسے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اسے تیس صحابیوں نے رسول اسلام [ص] سے سنا اور جب امیر المومنین کی خلافت پر جھگڑا ہوا تو انہوں نے گواہی دی۔[23]
پھر دوسری جگہ تکرار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حدیث غدیر کو تیس صحابیوں نے رسول خدا[ص] سے نقل کیا ہے اور بہت سارے اس کے نقل کے طریقے صحیح یا حسن ہیں۔[24]
پس خود اشکال کرنے والوں کی نظر میں جیسے ابن حجر غیرہ کہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت پر اشکال کیا ہے توجہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ ابن حجر خود دوسری جگہ کہتے ہیں: ولا التفات لمن قدح فی صحتہ۔[25][ اس شخص کی بات پر کوئی توجہ نہیں کی جائے گی جو حدیث غدیر کے صحت پر شک کرے]۔
استاد محمد رضا حکیمی اپنی کتاب " حماسہ غدیر" میں اہل سنت کے ۱۵ معاصر علماء کے نام بیان کرتے ہیں جنہوں نے حدیث غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں: احمد زینی دحلان، محمد عبدہ مصری، عبد الحمید آلوسی، احمد فرید رفاعی، عمر فروخ۔[26]
قابل توجہ ہے کہ شیعہ امامت سے مربوط روایات میں تواتر اور یقینی ہونےکو شرط سمجھتے ہیں اور حدیث غدیر شیعہ کتب روائی میں متواتر اور قطعی ہے۔ جیسا کہ بہت سارے سنی مصادر میں بھی اس کا قطعی الصدور ہونا ثابت ہے۔ اور سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق کسی حدیث سے امامت کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے فروع دین کی طرح اس کا صحیح السند ہونا کافی ہے اس کے تواتر کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا یہ اشکال خود بخود رفع دفع ہو جاتا ہے۔
دوسرا اشکال جو قاضی عضد الدین ایجی نے اپنی کتاب " مواقف" میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام غدیر کے دن پیغمبر کے ساتھ نہیں تھے، لکھتے ہیں:
علی [ع] حجۃ الوداع میں غدیر کے دن پیغمبر اسلام کے ہمراہ نہیں تھے بلکہ وہ یمن میں تھے۔[27]
بہتر ہے اس اشکال کو بیان کرنے سے پہلے " مواقف" کی شرح لکھنے والے کی بات کو بیان کریں۔ سید شریف جرجانی نے مواقف پر شرح لکھتے ہوئے اس مقام پر بیان کیا ہے:
یہ اشکال مردود ہے اس لیے کہ حضرت علی [ع] کا غائب ہونا حدیث کے صحیح ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ مگر یہ کہ روایت میں یہ آیا ہو کہ پیغمبر اسلام نے علی کو اپنے پاس بلایا یا ان کا ہاتھ پکڑا۔ بہت ساری روایات میں یہ جملہ نقل نہیں ہوا ہے۔[28]
ابن حجر ہیثمی اس شبہ کے جواب میں لکھتے ہیں:
وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حدیث غدیر صحیح نہیں ہے یا یہ اشکال کرتا ہے کہ حضرت علی یمن میں تھے اس کی بات غلط ہے اس لیے کہ حضرت علی یمن سے واپس آچکے تھے اور حج کو انہوں نے پیغمبر اسلام کے ساتھ بجا لایا تھا۔[29]
اگر چہ تاریخی اعتبار سے امیر المومنین کا یمن سے واپس لوٹنا اور پیغمبر اسلام کے ہمراہ حج کے ارکان کا بجا لانا مسلم ہے لیکن پھر بھی نمونہ کے طور پر چند ایک نکات کو ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے اس مسئلہ کو چھیڑا ہے بیان کرتے ہیں:
طبری [ تاریخ طبری، ج۲، ص۲۰۵] ابن کثیر[ البدایہ و النھایۃ ، ج۲ ص۱۸۴ اور نیز اسی جلد کے صفحہ ۱۳۲ پر مفصل طور پر امیر المومنین کے یمن سے واپس پلٹنے کی بحث کو بیان کرتے ہیں اور آپ کی واپسی کو ثابت کرتے ہیں،] ابن اثیر [ الکامل ، ج ۲ ص ۳۰۲]۔
۳: تیسرا اشکال جو زیادہ اہم اور مضبوط ہے وہ ہے کلمہ "مولا" کے بارے میں کہ یہ کلمہ مختلف معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے ''چچا کا بیٹا''، "غلام کو آزاد کرنے والا"، "پڑوسی" " دوست" ، " اولی بالتصرف" "ولی اور سرپرست" وغیرہ۔ شیعہ حدیث غدیر کے شواہد و قرائن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ مولا ولی، سرپرست اور اولی بالتصرف کے معنی میں ہے۔ لیکن بعض سنی علماء کلمہ مولا میں شبہہ ایجاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں پر مولا دوست وغیرہ کے معنی میں ہے بظاہر یہ شبہہ فخرالدین رازی نے کتاب " نھایۃ العقول" میں ایجاد کیا اور دوسروں جیسے قاضی عضد الدین ایجی، [30] ابن حجر[31] اور فضل بن روزبھان[32] نے فخر رازی سے اسے نقل کیا ہے۔
قاضی عضد الدین ایجی کتاب مواقف میں لکھتے ہیں:
کلمہ " مولا" سے مراد "ناصر" ہے اس لیے کہ حدیث کے بعد پیغمبر اسلام کے دعائیہ جملہ سے یہی معنی سمجھ میں آتے ہیں اور مولا سے مراد "اولی" نہیں ہے اس لیے کہ کبھی بھی مفعل کا وزن افعل کے معنی میں نہیں آتا ہے۔ [33]
ابن حجر ہیثمی نیز کہتے ہیں:
ہم اس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ " مولا" کے معنی وہی ہوں جو شیعہ کہتے ہیں بلکہ اس کے معنی "ناصر" کے ہیں اس لیے کہ مولا کے معنی متعدد ہیں جیسے " آزاد کرنے والا"، " امور میں تصرف کرنے والا"، " ناصر" " محبوب" ۔ ہم اور شیعہ دونوں معترف ہیں کہ اگر اس روایت میں مراد " محبوب" ہو اس کے معنی صحیح نکلیں گے اس لیے کہ علی [ع] ہمارے اور ان کے محبوب ہیں ۔ لیکن یہ کہ مولا کے معنی " امام" ہوں نہ شریعت میں یہ معنی ہیں اور نہ لغت میں۔ شریعت میں یہ معنی بیان نہیں ہوئے اس کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ واضح ہے لیکن لغت میں بھی یہ معنی نہیں آئے ہیں یہ بھی لغت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عرب لغت دان نے "مفعل" کے معنی ''افعل" بیان نہیں کئے ہیں۔[34]
بعض دوسرے لوگوں کی باتیں بھی انہیں الفاظ کے ساتھ تکرار ہوئی ہیں۔

اشکال کا جواب

اس اشکال کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ اگر فرض کریں یہ قبول کر لیتے ہیں کہ کلمہ "مولا" چند معنی میں مشترک ہے اور عربی لغت دانوں نے بعد والے زمانے میں مولا کے معنی اولی نہیں کئے لیکن رسول اسلام کے زمانے میں اور اس حدیث کو بیان کرتے وقت مخاطبین نے ان معنی کو اس کلمہ سے سمجھا ہے۔ اس مدعی پر ہمارے پاس کئی دلیلیں ہیں:
۱: حسان بن ثابت کہ جو صدور حدیث کے وقت موجود تھے کہ جن کے ادبی مقام کا انکار کرنے والا کوئی نہیں ملتا، [35] انہوں نے رسول خدا [ص] سے اجازت چاہی تاکہ اس واقعہ کو اپنے منظوم کلام میں بند کرے ان کے منجملہ اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:

فقال له قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماما و هادیا

علامہ امینی نے ان اشعار کو اہل سنت کے بارہ مآخذ اور اہل تشیع کے چھبیس مآخذ سے نقل کیا ہے۔[36]
قیس بن سعد بن عبادہ نے بھی اپنے اشعار کے اندر یوں کہا:
و علی امامنا و امام
لسوانا اتی به التنزیل
یوم قال النبی من کنت مولاه
فهذا مولاه خطب جلیل

علامہ امینی نے ان اشعار کو بارہ مآخذ سے نقل کیا ہے۔[37]
عمر عاص نے بھی اپنے اشعار میں کہا:
و فی یوم خم رقی منیرا
یبلغ و الرکب لم یرحل
الست بکم منکم فی النفوس
باولی؟ فقالوا: بلی فافعل
فانحله امرۃ المومنین
من الله مستخلف المنحل
و قال فمن کنت مولا له
فهذا له الیوم نعم الولی

ان اشعار کو بھی علامہ امینی نے شیعہ سنی آٹھ مصادرسے نقل کیا ہے۔ [38]
اس کے علاوہ علامہ امینی الغدیر میں بہت سارے شعراء اور عرب ادبا کے کلمات کو بیان کرتے ہیں جو کلمہ مولا سے امامت اور ولایت کے معنی سمجھتے پر دلالت کرتے ہیں۔[39]
خود مولا علی[ع] نے ایک شعر کے اندر جو معاویہ کو لکھا ہے اس بات کی تائید کے طور پر لکھا ہے:
و اوجب لی ولایته علیکم
رسول الله یوم غدیر خم

علامہ امینی نے اسے شیعوں کے گیارہ منابع اور سنیوں کے چھبیس منابع سے نقل کیا ہے۔[40]
نیز اس حدیث سے ولی کے معنی سمجھنے پر بہترین دلیل حضرت ابوبکر اور عمر کا مبارک باد دینا ہے جو رسول خدا [ص] کے خطبہ کے تمام ہونے کے بعد انہوں نے علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے مبارک باد دی:
بخ بخ لک یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنۃ۔
علامہ امینی نے شیخین کی تبریک کو ساٹھ سنی مصادر سے نقل کیا ہے [ منجملہ: مسند احمد، تاریخ الامم و الملوک، تاریخ بغداد، مصنف ابن ابی شیبہ ہیں] [41]
سچ مچ اگر پیغمبر اسلام [ص] کی مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہوتی تو علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کی کون سی جگہ تھی؟ اس کے علاوہ بعض لوگوں کا غدیر خم کے مقام پر شدید اعتراض کرنا [جیسے حارث بن نعمان فہری] اور خدا سے عذاب کی درخواست کرنا اور اللہ کی طرف سے اس پر عذاب کا نازل ہونا یہ سب کس لیے تھا؟ صرف اس لیے کہ علی پیغمبر اسلام کے ناصر اور محبوب ہو گئے؟ وہ تو پہلے بھی تھے بغیر کہے انہوں نے اپنی زندگی نصرت اسلام اور رسالت کے لیے وقف کر دی تھی۔
علامہ امینی نے اس واقعہ کو اہل سنت کے تیس منابع سے نقل کیا ہے جن میں الکشف و البیان، دعاۃ الھداۃ اور احکام القرآن شامل ہیں۔[42]
انصاف سے بتائیں کہ کیا اگر حدیث غدیر میں مولا کے معنی ناصر اور محبوب کے ہوتے تو کیا یہ اتنے غضب اور انکار کی جگہ تھی حارث بن نعمان فھری جیسوں کو آتش غضب میں جلایا جاتا؟ اس حدیث کے علاوہ بہت ساری دوسری حدیثیں حتی قرآن کی آیتیں موجود ہیں جو صریحا امیر المومنین کی محبت اور نصرت پر دلالت کرتی ہیں کیوں جب وہ صادر ہوئی تو کسی نے اعتراض نہیں کیا؟
یہ چیز بھی ہمارے دعوے پر دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام حدیث غدیر کو بیان کرنے سے خوف کھا رہے تھے اور اس مسئلہ کو تاخیر میں ڈال رہے تھے یہاں تک کہ آیہ کریمہ نازل ہوئی اور کھلے الفاظ میں پیغمبر اسلام کی حفاظت کا وعدہ دیا " واللہ یعصمک من الناس" خدا آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ آپ کو جو حکم دیا گیا ہےاسے انجام دیں۔
تو کیا یہ علی علیہ السلام کی محبوبیت اور ناصریت کا اعلان تھا جو منافقین کے مزاج سے سازگار نہیں تھا اور پیغمبر اسلام جن سے خوف کھا رہے تھے۔ واضح اور آشکار ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی محبوب یا ناصر ہونے کے اعلان سے منافقین کی صحت پر کوئی اثر پڑنےوالا نہیں تھا اس لیے کہ روز اول سے وہ اس اعلان سے واقف تھے اور جگہ جگہ آپ کی مدد اور نصرت کے کرشمہ ملاحظہ کر چکے تھے۔ لہذا اگر دسیوں بار پیغمبر[ص] علی [ع] کے ناصر ہونے کا اعلان کردیں تو ان کی پیشانی پر کوئی بل نہ نہیں آئے گا۔ لہذا اتنے سارے شواہد و قرائن ملاحظہ کرنے کے بعد یہ کہنا کہ مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہے انصاف سے دور اور تعصب کے نزدیک ہے۔ غدیرخم میں رسول اسلام [ص] کا عظیم انتظام اورانصرام یہ بتا رہا ہے کہ مسئلہ بہت حساس موڑ پر ہے اور جو بات وہ کہنے جا رہے ہیں وہ معمولی سی بات نہیں ہے وہ اسلام کے مستقبل کی تقدیر ہے۔ لہذا حدیث غدیر میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ، ولی و سرپرست ہے۔
یہاں پر اس نکتہ کی طرف متوجہ کر دوں کہ پیغمبر اسلام [ص]کو اپنی جان کا خطرہ اور خوف نہیں تھا کہ منافق ان کی جان لے لیں گے بلکہ آپ [ص] دین میں اختلاف اور امت میں پراکندگی سے خوف کھا رہے تھے لیکن پرورگار عالم نے انہیں اطمینان دلایا کہ اعلان ولایت اختلاف سے بڑھ کر ہے اگر سلسلہ ولایت کا اعلان نہیں ہو گا تو دین خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے کہ اس کا محافظ نہیں رہے گا۔ اور ایسا خوف کھانا کوئی عیب بھی نہیں ہے حضرت موسی کے بارے میں بھی خدا فرماتا ہے: فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔[43]
اور مزید عرض کر دوں کہ علامہ میر حامد حسین نے حدیث غدیر کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ بعض جگہوں میں بجائے "من کنت مولاہ" کے حدیث " من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی ولیہ" کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔[44] ان الفاظ کے بعد یہ بحث کہ مولا کے معنی کیا ہے خود بخود ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ حدیث نے خود واضح طور پر بیان کر دیا کہ جس طریقے سے رسول اسلام [ع] مسلمانوں کے نفوس پر اولویت اور حاکمیت رکھتے ہیں علی بھی ویسے ہی تصرف اور حاکمیت کا حق رکھتے ہیں۔ حموینی نے بھی اپنی کتاب " فرائد السطین" میں انہیں کلمات کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے: من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی اولی بہ من نفسہ۔ فانزل اللہ تعالی ذکرہ: الیوم اکملت لکم دینکم۔[45]
اس بات پر بھی ایک نگاہ کرنا ضروری ہے کہ آیا لغت میں کلمہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ نہیں؟ چلبی مواقف پر حاشیہ کے دوران قاضی عضد الدین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اس اشکال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ مولا کا " متولی"، "صاحب امر"، " اولی بالتصرف '' کے معنی میں استعمال کرنا عربی لغت کی اندر شایع ہے اور عربی لغت دانوں کے ذریعے یہ استعمال نقل ہوا ہے۔ ابو عبیدہ کا کہنا ہے " ھی مولاکم ای اولی بکم" اور پیغمبر اکرم [ص] نے فرمایا ہے: ایما امراۃ نکحت بغیر اذن مولاھا؛ یعنی اس شخص کی اجازت کے بغیر جو اس پر اولی بالتصرف ہے۔ پس یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مولا کے معنی اولی کے نہیں ہو سکتے اس لیے کہ مولا بر وزن مفعل ہے اور ولی فعیل کے وزن پرہے۔ مولا اسم ہے جو اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نہ اولی کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔[46]
علامہ میر حامد حسین نے ایک مکمل جلد کو اس بات سے مخصوص کیا ہے کہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں، وہ لوگ جنہوں نے یہ دعوی کیا ہے مولا " اولی" کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ان کے بارے میں تفصیل سے انہوں نے اس کتاب کے اندر بیان کیا ہے۔[47]
مزید جانکاری کے لیے ان کی کتاب عبقات الانوار کی طرف رجوع کریں۔
..............


[1] امدی، علی‌ بن محمد؛ الاحکام؛ بیروت: مؤسسہ النور، 1387ق.
[2] ابن ابی‌ الحدید؛ شرح نہج‌البلاغہ؛ بیروت: داراحیاء الکتب العربیہ، [بی‌تا
[3] ابن ابی‌ شیبہ کوفی؛ لامصنف؛ بیروت: دارالفکر، [بی‌تا].
[4] ابن‌ اثیر، علی؛ اسدالغابہ؛ تہران: اسماعیلیان، [بی‌تا].
[5] ابن‌ الجارود نیشابوری؛ المنتقی؛ بیروت: مؤسسہ الکتب الثقافیہ، [بی‌تا].
[6] ابن الدمیاطی، المستفاد؛ بیروت: دارالکتب العلمیہ، [بی‌تا].
[7] ابن حبان، عبداللہ؛ البدایة و النہایة؛بیروت: دارالحیاء التراث العربی، [بی‌تا].
[8] ________، تقریب التہذیب؛ بیروت، دارالمکتبة العلمیہ، 1995م.
[9] ________، تہذیب التہذیب؛ بیروت: دارالفکر، 1984م.
[10] ________، طبقات المحدثین؛ بیروت: مؤسسہ الرسالہ، 1992م.
[11] ________، غریب الحدیث؛ بیروت: دارالکتب العلمیہ، [بی‌تا].
[12] ابن‌ حبان، علی‌ بن بلیانی؛ صحیح‌ ابن حبان؛ الطبعة الثانیہ، [بی‌نا]،[بی‌تا] 1993م.
[13] ابن ‌حجر عسقلانی، شہاب‌الدین؛ فتح‌ الباری؛ بیروت: دارالمعرفة، [بی‌تا].
[14] ابن‌ حزم، ابومحمد علی؛ الفصل فی ‌الملل والاہواء؛ بیروت: [بی‌نا]۔[ بی تا].
[15] ابن‌خلدون؛ تاریخ ابن ‌خلدون؛ بیروت: مؤسسہ الاعلمی، [بی‌تا].
[16] ابن خلکان، احمد بن محمد؛ وفیات الاعیان؛ بیروت: داراحیاء التراث العربی، 1397م.
[17] ابن‌ سعد، محمد؛ الطبقات الکبری؛ بیروت: دار صادر، [بی‌تا].
[18] ابن عساکر، ابوالقاسم؛ تاریخ مدینہ دمشق؛ بیروت: دارالفکر، 1995م.
[19] ابن قتیبہ دینوری؛ الامامة والسیاسة؛ قم: شریف رضی، [بی‌تا].
[20] ابن‌ کثیر، اسماعیل؛ تفسیر القرآن ‌الکبیر؛ بیروت: دارالمعرفة، 1992م
[21] ابن ‌ماجہ، محمد بن یزید قزوینی؛ سنن ابن ماجہ؛ بیروت: دارالفکر، [بی‌تا].
[22] ابن‌ نجار، محمد؛ ذیل تاریخ بغداد؛ بیروت: دارالکتب العلمیہ، [بی‌تا].
[23] ابن‌ ہشام، محمد؛ سیرة النبی؛ مصر: مکتبة محمد، [بی‌تا].
[24] ابن مزاحم منقری، نصر؛ واقعة الصفین؛ قاہر: مدنی، [بی‌تا].
[25] ابی‌ داوود، ابن ‌اشعث؛ سنن ابی ‌داوود؛ بیروت: دارالفکر، [بی‌تا].
[26] احمد بن حنبل؛ فضائل‌ الصحابہ؛ بیروت: دارالکتب العلمیہ، [بی‌تا].
[27] ________، مسند احمد؛ بیروت: دار صادر، [بی‌تا].
[28] اسکافی، ابوجعفر؛ المعیار والموازنہ؛ قم: تحقیق محمدباقر محمودی، [بی‌نا]، [بی‌تا].
[29] اصفہانی، ابی‌نعیم؛ ذکر اخبار اصبہان؛ لیدن: بریل، 1934م.
[30] البانی، محمدناصر؛ ارواءالغلیل؛ بیروت: مکتب‌الاسلامی، [بی‌تا].
[31] امینی، عبدالحسین(علامہ)؛ الغدیر؛ بیروت: دارالکتاب العربی، 1379ق.
[32] بخاری، محمد بن اسماعیل؛ تاریخ ‌الکبیر؛ دیاربکر: مکتبةالاسلامیہ، [بی‌تا].
[33] بلاذری، احمد؛انساب الاشراف؛ بیروت: مؤسسہ الاعلمی، [بی‌تا].
[34] ________، فتوح‌ البلدان؛ مصر: لجنة البیان ‌العربی، [بی‌تا].
[35] بیہقی، ابوبکر؛ سنن ‌الکبری؛ بیروت: دارالفکر، [بی‌تا].
[36] ترمذی، محمد بی ‌عیسی؛ سنن ترمذی؛ بیروت: دارالفکر، [بی‌تا].
[37] حاجی خلیفہ؛ کشف‌ الظنون؛ بیروت: دار احیاءالتراث العربی، [بی‌تا].
[38] حاکم حسکانی، عبیداللہ ‌بن احمد؛ شواہد التنزیل؛ ایران: مجمع احیاء الثقافة الاسلامیہ، 1411ق.
[39] حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ؛ المستدرک؛ بیروت: دارالمعرفہ، [بی‌تا].
[40] ________، معرفة علوم ‌الحدیث؛ بیروت: دارالافاق‌الجدید، [بی‌تا].
[41] حموی، یاقوت؛ معجم ‌البلدان؛ بیروت: داراحیاء التراث‌ العربی، 1979م.
[42] خطیب بغدادی، احمد بن علی؛ تاریخ بغداد؛ بیروت: دارالکتب العلمیہ، [بی‌تا].
[43] طہ، ۶۷
[44] دینوری، ابن قتیبہ؛ تاویل مختلف الحدیث؛ بیروت: دارالکتب العلمیہ، [بی‌تا].
[45] ذہبی، ابوعبداللہ؛ تذکرة الحفاظ؛ بیروت: داراحیاء التراث العربی، [بی‌تا].
[46] ________، سیر اعلام النبلاء؛ بیروت: مؤسسہ الرسالہ، [بی‌تا].
[47] رازی، محمد بن عمر؛ المحصول؛مؤسسہ الرسالہ، [بی‌تا].

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک