آیا غدیر کا ہدف امام کاتعین تھا ؟
واقعہ غدیر کے مقاصد کے اذہان سے پوشیدہ رہنے کی ایک اور افسوسناک وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے قصیدوں یا تقاریر میں یہ کہتے ہیں کہ روز غدیر اسلامی امّت کے لئے امامت کی تعیین کا دن ہے ، روز غدیر ’’ حضرت امیر المؤمنین ۔ ‘‘ کی ولایت کا دن ہے ۔
یہ تنگ نظری اور محدودفکر اس قدر مکرّر بیان ہوئیں کہ بہت سے لوگ غدیر جیسے عظیم واقعہ کے دیگر نکات کی طرف توجّہ دینے سے قاصر رہے ۔
کوتاہ نظر ببین کہ سخن مختصر گرفت:
غدیر کے مختلف پہلوؤں پر لوگوں کی جانب سے تنگ نظری : افسوس کہ آج بھی اگر مشاہدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہمارے لوگ اس دن کو صرف ’امام علی ۔ کی ولایت ‘ کی نسبت سے یاد کرتے ہیں اور غدیر کے دیگر اہم اور تاریخ ساز پہلوؤں سے غافل نظر آتے ہیں ۔
غدیر کے اصلی اہداف، نہ ہونے کے برابر تصانیف اور کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں اور جس طرح غدیر کے وسیع اور با مقصد جہتوں کو منابر کے ذریعے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کیاجانا چاہیے بیان نہیں کئے جاتے ، مجلّوں اور اخباروں میں بھی صرف ’’ولایت امام ۔ کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ روز غدیر لوگوں کے درمیا ن فقط ولایت علی ۔ کے ساتھ خاص ہو کر رہ گیا ہے۔
۱۔ پہلے سے تعیین شدہ امامت :
شیعہ نظریہ ،یہ ہے کہ حضرت علی ۔ اور انکے گیارہ بیٹوں کی امامت غدیر سے پہلے ہی معیّن ہو چکی تھی اس دن کہ جب موجودات اور ہماری اس کائنات کی خلقت کی کوئی خبر نہ تھی اس دن کہ جب ابھی تک پیغمبر انِ الٰہی کی ارواح بھی خلق نہ ہوئی تھیں ۔
جناب رسولِ خدا [ص] اور پنجتن آلِ عباء علیہم السلام کی ارواح خلق ہوچکی تھیں ، جناب رسول خدا [ص] اور حضرت علی ۔ کے وجود کے انوار اس وقت خلق کئے جا چکے تھے کہ جب بھی آدم ؑ خلق نہ ہوئے تھے ۔
سارے پیغمبران خدا اپنے خدا ئی انقلاب کی ابتدا میں پنجتن آلِ عباء علیہم السلام کے اسمائے مبارک کی قسم کھاتے تھے ،اور سخت مشکلات کے وقت خدا وند عالم کو محمّد ، علی فاطمہ ، حسن اور حسین صلوٰۃُ اﷲِ عَلیہِم اجمعین کے ناموں کے واسطہ قسم دیتے اور انکی برکت سے توبہ کرتے اور خدا وند منّان کی بارگاہ میں عفو اور بخشش طلب کرتے تھے ۔
حضرت آدم ۔ نے ان اسمائے مبارک کو جب عرش معلّیٰ پر دیکھا؛انکی نورانیّت کیو جہ سے حضرت آدم ۔ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اورخدا وند عالم سے ان ناموں کے ذریعے بات کی۔
حضرت نوح ۔ نے ا نھیں مبارک اسما ء کو اپنی کشتی کے تختے پر لکھا اور جب شدید اور سخت طوفان میں گھر گئے تو ان ہی ناموں کا واسطہ دے کر خدا وند عالم سے مدد طلب کی، تمام پیغمبران خدا جانتے تھے کہ ایک پیغمبر خاتم [ص] آئیں گے اور انکے اس راستے کو کمال کے درجہ تک پہنچائیں گے ،اور اس بات سے بھی واقف تھے کہ آپ [ص] کے بعد آنے والے امام کون ہونگے اور دین و بشریت کو کمال تک پہنچانے میں اُن ائمّہ کو کن کن ناگوار حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
انہوں نے حضرت علی ۔ کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی اور امام حُسین ۔ کی کربلا کو یاد کر کے اشک بہائے ،ا ن کے نام اور پیش آنے والے حوادث کواپنی امّتوں کے لئے بیان کئے؛ اسی لئے جب یہودی عالم نے امام حُسین ۔ کو گہوارہ میں دیکھا تو اس کو وہ تمام نشانیاں یاد آگئیں جوذکرکی گئیں تھیں ؛وہ اسلام لے آیا اور امام حُسین ۔ کے بوسے لینے لگا۔
تو معلوم ہو اکہ روز غدیر صرف’’ تعیین امامت ‘‘کا دن نہیں تھا ؛بلکہ آغاز بعثت میں ہی پیغمبر گرامی [ص] نے امام کو معیّن کر دیا تھا ، جس وقت عالم شیر خواری میں حضرت علی ۔ کو پیغمبر [ص] کے مبارک ہاتھوں میں دیا گیا تو حضرت علی ۔ نے پیغمبر گرامی [ص] پر درود و سلام بھیجا اور قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت فرمائی جب کہ بظاہر ابھی قرآن نازل نہیں ہوا تھا۔
آپ [ص] نے جب بھی اور جہاں بھی ضرورت محسوس کی بارہ ا ئمہ علیہم السّلام کے اسمائے مبارک ایک ایک کرکے بیان فرمائے ، اور اپنے بعد آنے والے امام ۔ کو مختلف شکلوں اور عبارتوں کے ذریعے بیان فرمایا، ائمہ علیہم السّلام کے ادوار میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلییوں کو آشکار کیا ؛مدینہ کے منبر سے بار بار ائمّہ علیہم السّلام کے اسماء مبارک انکی تعداد،حالات زندگی ، انکے زمانے کے ظالم حکمرانوں اور انکے نابکار قاتلوں کا تعارف کروایا۔
حضرت مہدی عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانۂ غَیبت کے بارے میں بار بار بات کی اورغَیبت کے دوران انکی راہنمائی کے بارے میں سننے والوں کے اعتراضات کے جواب دئے ؛ حضرت مہدیعجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ساری دنیا پر حکومت کے بارے میں اتنا بیان کیا کہ اُمَوی و عبّاسی دور میں بعض لوگوں نے اس خیال سے کہ وہ اُمّت کے مہدی ہو سکتے ہیں قیام کیا تاکہ جو لوگ حضرت مہدی عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار میں ہیں اُ ن کو آسانی سے گمراہ کیاجا سکے۔ لہٰذا امامت کا عہدہ خدا وند عالم کی جانب سے مقرّر کردہ ہے جو ہمیشہ سے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کرتا رہا ہے اور تا قیام قیامت انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کرتا رہے گا،اگر انسان کی ہدایت ضرور ی ہے تو امام کا وجود بھی ضروری ہے ؛ اور صرف خدا وند عالم کی پاک اور بابرکت ذات ہی پیغمبروں اور ائمہ ۔ کاتعین اور انتخاب کر سکتی ہے۔ ( وﷲُ اعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰالَتَه)
خداوند عالم سب سے زیادہ آگاہ ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے) کیونکہ ایک انسا ن کے لئے دوسرے انسان کی شناخت مشکل ہے اور وہ ایک دوسر ے کے باطن سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتے، لہٰذا اسی دلیل کے تحت کہ جس کے تحت خدا کے پیغمبروں کاانتخاب اور چناؤ خدا کی طرف سے ہوتا ہے ائمّۂ معصومین علیہم السّلام کا تعیّن اور انتخاب بھی خدا وند عالم کی جانب سے ہے اور فرشتۂ وحی کے توسّط سے رسول خدا [ص] پر ابلاغ حکم ہوا۔
واقعیت یہ ہے کہ ا س حقیقت (تعیین امامت )کا غدیر کے دن سے کوئی تعلّق نہیں ہے بلکہ آغاز بعثت ہی میں اس کو ذکر کیا جا چکا تھا،ہجرت کے دوران اور مختلف جنگوں کے درمیان رسول گرامی اسلام [ص] نے امامت کا تعیّن اور تعار ف کروا دیا تھا جب حضرت زہرا علیہا سلام کے یہاں امام حسین ۔ کی ولادت کا وقت نزدیک آیا تو جناب ختمی مرتبت [ص] نے حضرت زہرا علیہا سلام کو خبر دی کہ تمہارے یہاں بیٹے کی ولادت ہو گی اور اسکا نام حُسین ۔ ہوگا جس کا ذکر گذشتہ آسمانی کتابوں میں آچکا ہے جناب زہرا علیہا سلام کے چہرے پر خو شی کے آثار نمودار ہوے ا ور جب آپ ؐ نے امام حُسین ۔کی کربلا میں شہادت کی خبر دی تو جناب زہراعلیہا سلام نے فرمایا:
’’ یٰا ابَتٰاه مَنْ یَقْتُلُ وَلَدٖیْ وَ قُرَّة عَیْنٖیْ وَثَمَرَة فُؤَادٖیْ ؟ قٰالَ [ص] ! شَرُّ أُمَّة مِنْ أُمَّتٖیْ .قٰالَتْ! یٰا ابَتٰاه إِقْرَأْ جِبْرَئیْلَ عَنّٖیْ السَّلٰامَ وَقُلْ لَه في ایِّ مَوْضِعٍ یُقْتَلُ ؟(۱) قال[ص] في مَوْضِعٍ یُقٰالَ لَه کَرْبَلٰا!! )
اے بابا جان! میری آنکھوں کے قراراوردل کے ثمر بیٹے کو کون قتل کریگا ؟ آپ [ص] نے فرمایا: میری امت کے سب سے زیادہ بدترین اور برُے لوگ، دوبارہ پوچھا ؛اے بابا جان: جبرئیل کو میرا سلام کہیے اور پوچھیے کہ میرے بیٹے حُسین ۔ کو کس جگہ شہید کیا جائے گا ؟ جناب رسولِ خدا [ص] نے فرمایا اس سر زمین پر جس کو کربلا کہا جاتا ہے ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت زہراعلیہا سلام نے فرمایا :
’’ یٰا ابَۃَ سَلَّمْتُ وَ رَضٖیْتُ وَ تَوَکَّلْتُ عَلَی اﷲ‘‘اے بابا جان: میں خواستہ خدا پر تسلیم اور راضی ہوں اور خدا وند عالم کی ذات پر توکّل کرتی ہوں (۲) جب جناب زہر 236 کے یہاں حضرت امام حُسین ۔ کی ولادت ہونے والی تھی خدا کے رسول [ص] نے اپنی بیٹی کو اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ: (حضرت جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ ؛ تمہار ا بیٹا کربلا میں شہید کر دیا جائے گا ۔)
جناب فاطمہ علیہا سلام نے انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں ارشاد فرمایا:
( لَیْسَ لي فيه حٰاجَه یٰا ابَه ) اے بابا جان ! مجھے ایسے بیٹے کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔
جناب رسول خد ا [ص] نے فرمایا :(میری بیٹی تمہارا یہ بیٹا حُسین ۔ ہے اور نو معصوم امام اسکے وجود سے پیدا ہونگے جودین خدا کی بقا کا سبب ہونگے ۔)
جناب زہرا علیہا سلام نے فرمایا:’’ یٰا رَسُوْلَ اﷲِ قَدْ رَضٖیْتُ عَنِ اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ‘‘ (اے خدا کے رسول [ص]! میں خدا وند بزرگ و برتر سے راضی ہوں )(3) اس قسم کے اظہارات بہت سطحی فکر اور کوتاہ نظری ہیں کہ یہ کہا جائے :
غدیر خم کے دن لوگوں کی امامت مشخّص ہوئی، غدیر کا دن امامت کے تعیّن کا دن ہے ۔ غدیر کا دن ولایت کے تعیّن کا دن ہے ،کیونکہ امامت، رسالت ہی کی طرح الٰہی اصولوں میں سے ایک اصل ہے جو خلقت کے آغاز میں ہی معین ہو گئی تھی اور گذشتہ پیغمبروں کی لائی ہوئی آسمانی کتابوں میں اس کو بیان کر دیا گیا تھا ،اور بعثت سے غدیر تک سینکڑوں بار بے شمار احادیث وروایات میں پیغمبر گرامی اسلام [ص] نے جہان والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے امامت کا تعارف کر وا دیا تھا۔
۲۔ لوگ اور انتخاب :
یہ درست ہے کہ شیعوں کے امام خدا وند عالم کی طرف سے پہلے سے ہی منتخب ہو گئے تھے اور بعثت کے بعد سے ہر اہم مقام اورموقع پر خود رسول گرامی اسلام [ص] کی زبانی انکا تعارف ہو چکا تھا لیکن ابھی بھی یہ کام مکمّل نہیں ہوا کہیں لوگ خود امام کا انتخاب نہ کرلیں ، اور اپنی کج فکری اور گمراہی کے سبب اءِمّہ معصومین علیہم السّلام کی امامت کو قبول نہ کریں نیز اسلام کی اصلی ثقافت اور امامت کے درمیان فاصلہ ڈال دیں اور حضرت علی ۔اوربا قی ا ماموں کی بیعت نہ کریں تو رسول اکرم [ص] کا بتا یا ہوا راستہ خطرے میں پڑجائیگا اور پیغمبر اسلام [ص] کی رسالت ان تمام ز حمتوں اور قربا نیو ں کے باوجود نامکمّل ر ہے، چنانچہ خدا وند عالم نے بھی ہوشیار کرنے والے کلمات کے ساتھ فرمایا:
(وَ إِنْ لَم تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰا لَتَکَ )
اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو میری رسالت کا کوی کام نہیں کیا اگر لوگ امام بر حق کی بیعت نہ کریں اور امام کو لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہو تو امام سیاسی طاقت اور قدرت اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ،بعنوان امام اور حاکم دستور نہیں دے سکتا؛ امر و نہی نہیں کرسکتا حکومتی کام انجا م دینے والے افراد کا تعیّن نہیں کرسکتا۔
یہ جو سیاسی جما عتوں کے سربراہوں ، جاہ طلب منافقوں اور سقیفہ کے مکاّروں نے غدیر کے دن تک سکوت اختیار کیا اور کوئی خطرناک اقدام نہیں کیا صرف اس وجہ سے تھا کہ ابھی تک امّت کی رہنمائی و رہبری کا مسئلہ تحریرو تقریر تک محدود تھا، صرف رسول خدا [ص] کی تقاریر میں ولایت امیرالمؤمنین ۔ کا ذکر ہوا تھا اور وہ لوگ بھی تحمّل کر رہے تھے ۔
لیکن غدیر کے دن ، اس عظیم اور کم نظیر اجتماع کے درمیان اور چونکا دینے والی خصوصیات کے ساتھ ؛ سب نے دیکھا کہ جناب رسول خدا [ص] نے صرف خطبہ اور بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملاً سب سے پہلے حضرت علی ۔ کا ہاتھ بلند کرکے خود بیعت کی اور اسکے بعد سب لوگوں کو حضرت علی ۔ کی بیعت کرنے کا دستور دیا اور آخر کار ایک زیبا اور شانداربیعت وجود میں آئی، مخالفین اور منافقین بھی ایسے حالات اور شرائط سے دُچار ہو گئے تھیکہ اب انکے پاس سوائے بیعت کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا تھا،یہاں انکی خواہشات کو ٹھیس پہنچی اور انہوں نے اپنی تمام سیاسی آرزوؤں اور شیطانی امیدوں پر پانی پھرتا محسوس کیا ،وہ یہ بات صاف طور پر محسوس کر رہے تھے کہ اب انکے لیے اور حکومت کے پیاسے سیاستدانوں کی لئے کوئی مقام نہیں ہے اوریہ کہہ رہے تھے کہ!
علی ۔ خدا کی طرف سے بھی معیّن ہوئے ہیں اور پیغمبر اسلام [ص] نے بھی انکی بیعت کی ہے اور سارے مسلمانوں نے بھی انکی بیعت کی ہے ،عقلی اور عقیدتی حمایت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سیاسی حمایت بھی ہے ، او ر پھر فرشتۂ وحی نے بھی ا نہی کو معیّن کیا ہے اور اس طرح حضرت علی ۔کے لیے عمومی بیعت نے حقیقت کا روپ بھی دھارا ہے ۔ لہٰذا پیغمبر اسلام [ص] کے بعد سیاسی طاقت اور حکومت حاصل کرنے کے تمام راستے اور طریقے بند ہیں،اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پیغمبر [ص] کو قتل کر دیا جائے اور (سازشی اور قابل نفرین ) تحریر لکھی جائے، اسکے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا کہ ایک فوجی بغاوت کی جائے اور مخالفوں کا قتل عام کیا جائے ، اگر غدیر کے دن عمومی بیعت نہ ہوئی ہو تی تو منا فق اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ اتنے غضب ناک نہ ہوتے اور رسول خدا ؐ کے مسلّحانہ قتل کا منصوبہ نہ بناتے، لہٰذ ا غدیر کا دن صرف تعیین امامت کا دن نہیں تھا بلکہ: روز غدیر ’’ امام اور عترت کی ولایت‘ کے تحقق کا دن تھا، غدیر کا دن مسلمانوں کی حضرت علی ۔ کے ساتھ اور دوسرے ائمّہ کے ساتھ تا قیامت عمومی بیعت کا دن تھا۔
غدیر کا دن وہ دن ہے ! جس دن رسول خدا [ص] کے بعد مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا مسئلہ روشن ہوا ؛ خاندان علی ابن ابی طالب ۔ سے گیارہ ائمّہ کی تا قیامت جاری رہنے والی امامت کا اعلان ہو ا اور اس سلسلے میں عمومی بیعت لی گئی ،ولایت کے غاصبوں پر لعنت ملامت ہوئی اور امامت و رہبری کے تعیّن اور مسلمانوں کی قیامت تک کے لئے بیعت عام نے راہ رسالت کو دو ا م بخشا ۔
۳۔ تحقق امامت کے مراحل :
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں چونکہ خدا وند عالم نے امام کو چنا اور معیّن فرمایا تھا اور رسول اسلام ؐ نے بھی اس امر کی تبلیغ کر دی تھی تو بس یہ کافی ہے ، ائمّہ معصومین علیہم السّلام (حضرت امیرالمؤمنین ۔ سے لے کر حضرت مہدی ’عجل فرجہ الشریف ‘ تک ) انسانوں کے امام ، رہبر اور پیشوا خدا کی طرف سے منصوب کئے گئے ہیں ۔أُمّت مسلمہ کے حقیقی اور واقعی رہبر تو ائمّہ ہیں ؛ چاہے لوگ انکو منتخب کریں یا نہ کریں ،چاہے ظاہری امامت کے حامل ہوں یانہ ہوں سیاسی قدرت کواسلامی معاشرے میں اسلامی آئین و قوانین کا اجرا کر یں یا نہ کریں یہ نظریہ اور طرز تفکّر ’’ شخصی اعتقاد ‘ ‘کے لحاظ سے تو صحیح ہے حضرت علی ۔ اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السّلام جہان کی خلقت کے شروع ہونے سے بھی پہلے منتخب ہو چکے تھے اور انکے بابرکت اور نورانی اسماء دیگر آسمانی کتابوں بھی ذکر کئے گئے ہیں چاہے لوگ ان بزرگوں اور رہبران حق کو پہچانے یا نہ پہچانے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جب حضرت علی ۔ کو غربت و فقر کی ہی زندگی گزارنی ہے اور سیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں نہیں لینی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لوگ انکو پہچانے یا نہ اور ا ن کے مقام و منزلت سے واقف ہوں یا نہ؟کیونکہ امام علی ۔ کو خدا وندعالم نے منتخب کیا ہے اور وہ تمام لیاقتیں اور اوصاف جو ایک امام بر حق میں ہونا ضروری ہیں ان سب کے حامل ہیں ، اس بات پر یقین اور اعتقاد بھی محکم ترین عقائد میں سے ایک ہے، لیکن اس عقیدے کا اجتماعی فائدہ کیا ہے ؟مقام إجراء میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
اس کی مثا ل بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک ما ہر طبیب اور قابل ولائق ڈاکٹر ایک شہر میں گوشہ نشینی اختیار کر لے اور غریبانہ ، تنہا اور گمنام زندگی گزارے جبکہ مختلف امرا ض میں مبتلا ہزاروں مریض اس طبیب کے علاج و درمان سے محروم رہیں معا لجے کے لئے اس کا انتخاب نہ کریں ، اس کے پا س نہ جا ئیں اور اس کے علم ودانش سے استفادہ نہ کر یں ۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ امام اسلامی حکومت کی سیاست میں عمل دخل رکھتا ہو سیاسی قدرت اس کے ہا تھ میں ہو اور احکام دین کا اجرا ہو ، اجتماعی عدالت کاتحقق اور اس میں توسیع ہو،
وہ کون ہے جسے احکام الہی کی تفسیر کرنی چاہیے،
وہ کو ن ہے جسے اسلامی اقتدار کو اسلامی معاشرے پر حاکم بنانا چاہیے ،
وہ کون ہے جسے حدود الہی کا پاس رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے پر قانون لاگو کرنا چاہیے وہ کون ہے جو قصاص کرے ، شرعی حد جاری کرے ،وجوہات شرعی کی جمع آوری کرے اور صلح وجنگ میں رہنمائی کرے، خدا اور اسکے فرشتے تو مسلمانوں کی سیاسی اور اجرائی قدرت کو عملاً اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے ، لہذا خدا کے منتخب بندوں کو ہونا چاہیے جومعاشرے میں یہ سارے امور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں لیکن کو ن اور کیسے ؟۔
یہیں پر لوگوں کا انتخاب اپنا کردار ادا کرتا ہے لوگوں کا قبو ل کرنا امام کی سیاسی اور اجرائی قدرت کیے لئے موثر ہو تا ہے لھذا اس بنا پر امامت کا تحقق پانا چند مراحل میں بہت اہم اور ضروری ہے جیسے۔
اوّل ۔ انتخاب الٰہی :
کیونکہ لوگ انسان شناس نہیں ہیں اور دوسروں کے باطنی رموزو اسرارسے واقفیت نہیں رکھتے ، لہٰذا امام بر حق کا انتخاب خدا وند عالم کو کرنا چاہیے جو کہ خالق انسان بھی ہے اور اسکی باطنی کیفیت سے بھی آگاہ ہے ۔ ( اَﷲُ اعْلَمُ حَیْثَ یَجْعَلَ رِّسٰا لَتَه )
(خدا وند عالم بہتر جانتا ہے کہ رسالت و امامت کو کس خاندان میں قرار دے ، خدا وند عالم نے ہی تمام قوموں کے لئے پیغمبروں اور اماموں کا انتخاب کیا ہے اور انکا تعارف کرایا ہے ۔
دوّم۔ پیغمبرا ن خدا کا اعلان :
خدا وند عالم کے انتخاب کر لینے کے بعد آسمانی رہنماؤں اور ائمّہ معصو مین علیہم السّلام کا تعارف خدا کے پیغمبروں کے توسّط سے ہونا چاہیے ،انکی اخلاقی خصوصیات کا ذکر ہونا چاہیے ،انکی اجرائی اور سربراہی طاقت کو لوگوں کے درمیان بیان ہونا چاہیے،تاکہ یہ بر گزیدہ ہستیاں پیغمبر خاتم [ص]کے بعد سے تا قیام قیامت امت کی رہنمائی کر سکیں اور احکام خدا وندعالم کو معاشرے میں عام کر سکیں۔
چنانچہ جناب امیر المؤمنین ۔ نے ارشاد فرمایا:
’’4وَخَلَّفَ فٖیْکُمْ مٰاخَلَّفَتِ الْانْبِیٰاءُ فٖیْ أُمَمِها،إِذْلَمْ یَتْرُکُوْهم همَلاً، بِغَیْرٍ طَرٖیْقٍ وَاضِحٍ وَلَا عَلَمٍ قٰاءِمٍ.‘‘ رسول گرامی اسلام [ص] نے تمہارے درمیان ایسے ہی جانشین مقرر کئے جیسے کے گذشتہ پیغمبروں نے اپنی اپنی امت کے لئے مقرّر کئے کیونکہ وہ اپنی امت کو سر گردان اور لاوارث چھوڑ کر نہیں گئے ، واضح و روشن راستہ نیز محکم نشانیاں بتائے بغیرلوگوں کے درمیان سے نہیں گئے ۔(۱)
لیکن اب بھی منتخب ائمّہ کی ولایت عمل و اجرا کے لحاظ سے نامکمّل ہے کیونکہ اگر خدا وند عالم معصوم رہنماؤں کا انتخاب بھی کرلے اور اسکا رسول [ص] انکا ابلاغ بھی کر دے لیکن مقام عمل اور میدان زندگی میں لوگ انکو قبول نہ کرتے ہوں تو ولایت کا وقوع معاشرے میں نا تمام و نا مکمّل ہے ۔ اس لئے ایک تیسرے عامل ( لوگوں کا انتخاب ) کا وجود لازمی و ضروری ہے۔
سوّم۔لوگوں کی بیعت عام:
اگر لوگ انتخاب الٰہی اور پیغمبر خدا [ص] کے ابلاغ کے بعد راستے کو پہچان لیں ، اپنے اما م بر حق کو چن لیں ، کارہائے امامت میں ممد و معاون ہوں ، اپنے امام کا دل وجان سے انتخاب کریں،اسلامی اقدار کے تحقق کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں اور شہادت کی آرزو کے ساتھ امام کے حکم جہاد کو بجا لانے میں دریغ نہ کریں ، عقیدے و یقین میں بھی اور زندگی کے میدان عمل میں بھی امام پر ایمان رکھتے ہوں تب ہی امامت کا تحقق اور ایک واقعی وجودقائم ہوتا ہے ،امام کو احکام الٰہی کے اجراء کی قدرت و طاقت ملتی ہے اور انسانوں کی میدان زندگی میں دین خدا کو وجود ملتا ہے ۔
جیسا کہ امام ۔ نے فرمایا !
’’امٰاوَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّه،وَبَرَاالنَّسَمَه،لَوْلاَحُضُوْرُالحٰاضِر وَقِیٰامُ الْحُجَّة بِوُجُوْ دِ ا لنّٰاصِرِ،وَمٰا اخَذَاﷲُ عَلیَ الْعُلَمٰاءِ الا یُقٰا رُّوْا عَلیٰ کِظَّة ظٰالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ،لَا لْقَیْتُ حَبْلَها عَلیٰ غٰارِبِها،وَلَسَقَیْتُ آخِرَها بِکَأْسِ اوَّلِها،وَلَالْفَیْتُمْ دُنْیٰاکُمْ هذِه ا زْهدَعِنْدِیْ مِنْ عَفْطَة عَنْزٍ!.‘‘(5)
اس خدا کی قسم! کہ جس نے دانے میں شگاف ڈالا اور جان کو خلق کیا ، اگر بیعت کرنےوالوں کی بڑی تعداد حاضر نہ ہوتی اور چاہنے والے مجھ پر حجّت تمام نہ کرتے اور خدا وند عالم نے علماء سے عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالموں کی ہوس اور شکم پری، اور مظلوموں کی گرسنگی پر خاموشی اختیار نہ کریں تو میں آج بھی خلافت کی رسّی انکے گلے میں ڈال کر ہا نک دیتا اور خلافت کے آخر کو اول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے ۔ (6
اگرانتخاب الھی وابلاغ ر سا لت کے بعدلوگ ائمہ معصومین کو قبول نہ کریں اور امام برحق کو تنہا چھوڑ دیں یا قتل کر دیں تو اس صورت میں امامت اور ولایت کا تحقق نہیں ہو گا اور امام سیاسی طور پر لوگوں میں حاضر نہیں ہو سکتے اور کوئی بھی ان کے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہیں کرے گا اور اگرفرمان صادرفرمائیں گے تو کوئی اطاعت نہیں کرے گا۔
حضرت علی ۔ نے فرما یا :
دَعُونِِِِِِِِِي وَالَتمِسُوا غَیرِی ،فَاِنََّا مُستَقبِلُون اَمراً لَہُ وُجُوہُ وَاَلوَانُ، لَاتَقُومُ لَه القُلُوبُ،وَلَاتَثبُتُ عَلَیه العُقُولُ وَاِن الافَاقَ قَد اَغَامَت،وَالمحَجَّه قَدتَنَکَّرَت وَاعلَمُوا اَنَّي اِن اَجَبتُکُم رَکِبتُ بِکُم مَااَعلَمُ وَلَم اُصغِ اِ لَی قَولِ اَلقَاءَل وَعَتبِ اَلعَا تِب وَاِن تَرَکتُمُونِي فَاَنَاکَاَحَدِکُم،وَلَعَلِّي اَسمَعُکُم وَاَطوَعُکُم لِمَن وَلَّیتُمُوه اَمرَکُم،وَ اَنَا لَکُم وَزِیراً ،خَیرُلَکُم مِنِّی اَمِیراً :(7
جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کی بیعت کا ارداہ کیا تو آپ نے فرما یا: مجھے چھوڑ دو جاؤ کسی اور کو تلاش کر لو (8) ہمارے سامنے وہ معاملہ ہے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ہیں جن کی نہ دلوں میں تاب ہے اور نہ عقلیں انہیں برداشت کر سکتی ہیں دیکھو افق کس قدر ابر آلودہے اور راستے کس قدر انجانے ہیں ، یاد رکھو اگر میں نے تمہاری بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمہیں اپنے علم ہی کے راستے پر چلاؤں گا اور کسی کی کوئی بات او ر سرزنش نہیں سنوں گا لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہارے ہی ایک فرد کی طرح زندگی گزاروں گا بلکہ شاید تم سب سے زیادہ تمہارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے ا میر کی بہ نسبت ز یادہ بہتر رہوں گا(9) نا پختہ اور سست عقائد کے مالک کوفیوں کی سرزنش کرتے ہوئے ایک تقریر میں حضرت امیر المؤمنین ۔ نے واضح طور پر اساسی اور بنیادی اصل کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر لوگ امام کی اطاعت نہ کریں تو امام عملاً ایک اسلامی معاشرہ میں معاشرہ ساز فعالیّت نہیں انجام دے سکتا۔
* : امیر المؤ منین ۔ کے اس ارشاد سے تین باتوں کی مکمّل وضاحت ہوتی ہے۔ (خطبہ ۹۲ نہج البلاغہ)
۱۔ آپ ۔کو خلافت کے سلسلے میں کوئی حرص اور طمع نہیں تھی اور نہ ہی آپ ۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی تگ و دو کرنے کے قائل تھے ۔ الٰہی عہدہ عہدیدار کے پاس آتا ہے عہدیدار خود اسکی تلاش میں نہیں جاتا۔
۲۔ آپ ۔ کسی قیمت پر اسلام کی تباہی برداشت نہیں کر سکتے تھے آپ کی نظر میں خلافت کا لفظ اپنے اندر مشکلات اور مصائب لئے تھا اور قوم کی طرف سے بغاوت کا خطرہ نگاہ کے سامنے تھا لیکن اسکے باوجود اگر ملت کی اصلاح اور اسلام کی بقا ء کا دارومدار اس خلافت کو قبول کرنے میں ہے تو آپ اس راہ میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے آمادہ و تیارہیں ۔
۳۔ آ پ ۔ کی نگاہ میں امت کے لئے ایک درمیانی راستہ وہی تھا جس پر آج تک چل رہی تھی کہ اپنی مرضی سے ایک امیر چن لے اور وقتاً فوقتاً ضرورت پڑنے پر آپ ۔ سے مشورہ کرتی رہے آپ ۔ مشورہ دینے سے بہر حال گریز نہیں کرتے ہیں جس کامسلسل تجربہ ہو چکا ہے ، اور اس مشاورت کو آپ نے وزارت سے تعبیر کیا ہے ، وزارت فقط اسلامی مفاد تک بوجھ بانٹنے کے لیے حسین ترین تعبیر ہے ، ورنہ جس حکومت کی امارت قابل قبول نہیں اسکی وزارت بھی قابل قبول نہ ہوگی ۔(مترجم)
’’10یٰااشْبٰاه الرِّجٰالِ وَلاَرِجٰالَ!حُلُوْمُ الْاطْفٰالِ،وَعُقُوْلُ رَبَّات الْحِجٰالِ لَوَدِدْتُ ا نِّیْ لَمْ ا رَکُمْ وَلَمْ اعْرِفکُمْ مَعْرِفَۃً وَاﷲجَرَّتْ نَدَماً وَا عَقَبَت سَدَ ماً قَا تَلَکُمُ اﷲُ ! لَقَدْ مَلَأْتُمْ قَلْبٖی قَیْحاً وَشَحَنْتُمْ صَدْرٖی غَیْظاً وَجَرَعْتُمُوْنٖیْ نُغَبَ التَّهمٰام انْفٰاساً وَافْسَدْتُمْ عَلَیَّ رٰأْیِیْ بِالْعِصْیٰان وَالْخِذْلاَنِ حَتّیٰ لَقَد قٰالَتْ قُرَیْش إِنَّ أبْنَ ابٖیْ طٰالِبٍ رَجُلٌ شُجٰاعٌ ، وَلٰکِنْ لاَعِلْمَ لَه بِالْحَرْبِ لِلّٰه ابُوْهمْ وَهلْ احَدٌمِنْهمْ اشَدُّلَهامِرٰاسا وَا قْدَمُ فٖیْهامَقٰاماً مِنِّیْ لَقَدْنَهضْتُ فِیْهاوَمٰابَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ وَهاانَذَا قَدْذَرَّفْتَ عَلَی السِّتِّیْنَ وَلٰکِنْ لاَ رَأْیَ لِمَنْ لاَ یُطٰاعُ .‘‘(۱)
ترجمہ ( اے مرد وں کی شکل وصورت والو! اور واقعا نا مردو ، تمہاری فکریں بچوں جیسی اور تمہاری عقلیں حجلہ نشین دلہنوں جیسی ہیں میری خواہش تھی کاش میں تمہیں نہ دیکھتا اور تم سے متعارف نہ ہوتا، جس کا نتیجہ صرف ندا مت اور رنج و ا فسوس ہے اﷲ تمہیں غارت کرے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا، اور میرے سینہ کو رنج وغم سے چھلکا دیا ہے ، تم نے ہر سانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ، اور اپنی نافرمانی ا ور سر کشی سے میری رائے کو بھی بیکار و بے ا ثر بنا دیا ہے ،یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے ہیں کہ فرزند ابو طالب ۔بہادر تو ہیں لیکن انھیں فنون جنگ کا علم نہیں ہے ،
ا ﷲ ان کا بھلا کرے ، کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے ، جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو ، اور مجھ سے پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو ، میں نے جھاد کے لئے اس وقت قیام کیا ہے جب میری عمر ۲۰ سال بھی نہیں تھی اور اب تو(۶۰) سال ہو چکی ہے لیکن کیاکیا جائے جس کی ا طاعت نہیں کی جاتی اس کی رائے بھی کوئی رائے نہیں ہوتی ۔
اب اس مقام پر یعنی انتخاب الہی اور ابلاغ پیغمبر اکرم [ص] کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت اور ملت کا انتخاب احکام الہی کے اجرا میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے اور حکومت امام کے لئے عملی راہ فراہم کر تی ہے ، غدیر خم کے ر وزیہ تینوں مراحل بخوبی اور تمام تر ز یبایوں کے ساتھ ا پنے ا نجام کو پہنچے یہاں تک کہ حکومت کے پیاسوں کے د لوں میں دشمنی کی آگ بھڑک ا ٹھی ا نہوں نے جو کچھ بھی چاہا انجام دیا ، اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو بد نام کر لیاکیونکہ :
الف: خدا وند عالم کے انتخاب کا تحقق فرشتہ وحی کے توسّط سے آیات کی صورت میں (بلّغ ما اُنزِل اِلیک)اور( الیوم اکملت لکم دینکم) کے نزول کے ساتھ ہوا۔
ب: وحی الہی کا ابلاغ اس عظیم و کم نظیر اجتماع میں پیغمبر اکرم [ص] کے توسط سے انجام پایا:
ج: مردوں اور عو ر توں پر مشتمل عمومی بیعت تا دم صبح جاری رہی اور بخیر و خوبی انجام پذ یر ہوئی کیونکہ امامت کو اس کا صحیح وارث اور مقام مل گیا اور لوگوں کی عمومی بیعت بھی انتخاب الٰہی کے لئے حامی واقع ہوئی ؛ لوگوں کا انتخاب ، انتخاب الٰہی اور رسولِ خدا [ص] کی ابلاغ و اعلان نے ایک ساتھ مل کر امامت کو پائدار اور زندہ و جاوید کیا ؛ تو اس وجہ سے منافقین اور حاسدین غضبناک ہوگئے ، یہاں تک کہ ایک شخص نے موت کی آرزو کی اور آسمان سے ایک پتھر نے آکر ا س کو نیست ونابود کر دیا۔
بعض گروہ آپ [ص] کے قتل کے درپے ہوگئے لیکن خدائی امداد نے انہیں ناکام اور رسوا کردیا اور بعض دوسروں نے وہ شرمناک اور قابل مذمّت تحریر لکھی کہ جس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ؛ لیکن آخر کار ان کے پاس سکوت اختیار کرنے ،بغض و نفاق اور شیطانی انتظار کے علاوہ کوئی اورچارہ نہ تھا یہاں تک کہ جناب رسولِ خدا [ص] کی وفات کے بعدتمام بغض اور کینہ توزیوں کو یکجا کرکے جو بھی چاہا ایک مسلّحانہ بغاوت (فوجی بغاوت) کی صورت میں انجام دیا۔
لہٰذا یہ غدیر کا دن صرف’’ امام کے تعیّن ‘‘ کا دن نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کا امام غدیر کے عظیم واقعہ سے پہلے ہی معیّن ہو چکا تھا اور حضرت امیر المؤمنین ۔ کے بعد آنے والے ائمہ علیہم السّلام کا ناموں کے ساتھ تعارف کروایا جاچکا تھا ؛ کسی کو امامت اورائمہ علیہم السّلام کے ناموں میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا، غدیر کے دن ( مسلمانوں کی عمومی بیعت) اور خود جناب رسول خدا [ص] کی حضرت علی ۔ کے ساتھ بیعت نے حقیقت کا روپ اختیار کیا اور منکرین ولایت کے لئے تمام راستے بند کر د ئے تاکہ آفتاب ولایت کا انکار نہ کر سکیں ۔
..................
( 1)۔جعفر بن محمّد القراری معنعناً عن ابی عبداﷲ ۔
(2)۔ ( الف ) تظلم الزہراء علیہا سلام ، ص ۹۵
(ب) بحارالانوار ، ج ۴۴ ص ۲۶۴ : علّامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
(ج) تفسیر فرات الکوفی ، ص ۵۵ : فرات الکوفی ( متوفّیٰ ۳۰۰ ھ )
( 3)۔ (الف) بحار الانوار ، ج ۲۵ ص ۴۴ /۲۲۱/۳۳۳ اور ج ۲۳ ص ۲۷۲ اور ج ۳۶ ص ۱۵۸ : علامہ مجلسیؒ
(ب) علل الشرایع ، ص ۷۹ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۱ ھ )
( ج ) کمال الدّین ، ج ۲ ص ۸۷ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۱ ھ )
( د ) تفسیر البرہان ، ج ۴ ص ۱۷۳ : علامہ بحرانی اصفہانی ( متوفّیٰ ۱۱۰۷ ھ )
(4۱)۔ خطبۂ ۱/ ۴۴ : نہج البلاغہ معجم المفہرس مؤلّف ۔ اسناد و مدارک
۱۔ عیون المواعظ والحکم : واسطی ( ۴۵۷ میں لکھی گئی )
۲۔ بحار الانوار ، ج ۷۷ ، ص ۳۰۰ / ۴۲۳ : مرحوم علّامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۳۔ ربیع الابرار ( باب السماء والکواکب ) : زمخشری ( متوفّیٰ ۵۳۸ ھ )
۴۔ شرح نہج البلاغہ ، ج ۱ ،ص ۲۲ : قطب راوندی ( متوفّیٰ ۵۷۳ ھ )
۵۔ تحف العقول : ابن شعبۂ حرانی ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۶۔ اصول کافی ، ج ۱، ص ۱۴۰/۱۳۸ : مرحوم کلینی ؒ ( متوفّیٰ ۳۲۸ ھ )
۷۔ الاحتجاج ، ج ۱ ،ص ۱۵۰ /۱۹۸ /۲۰۹ : مرحوم طبرسی ؒ ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۸۔ مطالب السؤول : محمّد بن طلحہ شافعی ( متوفّیٰ ۶۵۲ ھ )
۹۔ دستور معالم الحکم ، ص ۱۵۳ : قاضی قضاعی ( متوفّیٰ ۴۵۴ ھ )
۱۰۔ تفسیر فخر رازی ، ج ۲، ص ۱۶۴ : فخر رازی ( متوفّیٰ ۶۰۶ ھ )
۱۱۔ الحکمۃ و المواعظ : ابن شاکر واسطی ( ۴۵۲ میں تدوین ہوئی )
۱۲۔ ارشاد ، ج ۱، ص ۱۰۵/۲۱۶/۲۱۷ : شیخ مفید ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )
۱۳۔ توحید ، ص ۲۴ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۱۴۔ عیون الاخبار : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۱۵۔ أمالی ، ج ۱ ،ص ۲۲ : شیخ طوسی ؒ ( متوفّیٰ ۴۶۰ ھ )
۱۶۔ کتاب أمالی ، ص ۲۰۵ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۱۷۔ اختصاص ، ص ۲۳۶ : شیخ مفید ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )
۱۹۔ تذکرۃ الخواص ، ص ۱۵۷ : ابن جوزی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ھ )
۲۰۔ کتاب البدء والتاریخ ، ج ۱، ص ۷۴ : مقدّسی ( متوفّیٰ ۳۵۵ ھ )
۲۱۔ بحار الانوار ، ج ۴، ص ۳۲/۴۴/ ۵۳/ ۵۴ : علامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۲۲۔ کتاب محاسن : علامہ برقی ( متوفّیٰ ۲۷۴ ھ )
۲۳۔ بحارالانوار ، ج ۴ ، ص ۲۴۷/۲۸۵/۳۰۴/۳۲/۴۴/۵۲/۵۳/۵۴ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۲۴۔ بحارالانوار ، ج ۱۰ ،ص ۱۱۸/ ج ۱۱ ،ص ۶۰/۱۲۲ : علامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۲۵۔ بحارالانوار ، ج ۱۶، ص ۲۸۴ / ج ۵۴ ، ص ۱۷۶ : علامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۲۶۔ بحارالانوار ، ج ۶۰ ،ص ۲۱۲ : علامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۲۷۔ غررالحکم ، ج ۳، ص ۳۰۱/ ج ۴ ،ص ۳۸۹ : مرحوم آمدی ؒ ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۲۸۔ غررالحکم ، ج ۵ ،ص ۹۹/۱۰۲/ ج ۶ ،ص ۴۲۱ : مرحوم آمدی ؒ ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۲۹۔ بحارالانوار ، ج ۴ ،ص ۲۴۸ / ج ۵۷ ،ص ۱۷۸ : علامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۳۰۔ بحارالانوار ، ج ۱۸ ، ص ۲۱۷ / ج ۱۱ ،ص ۱۲۳ /۶۱طبع جدید : علامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۳۱۔ اصول کافی ، ج ۱، ص ۱۳۵ / ۱۳۹/ ۱۴۱ : مرحوم کلینی ؒ ( متوفّیٰ ۳۲۸ ھ )
۳۲۔ روضۂ کافی ، ج ۸، ص ۳۱ : مرحوم کلینی ؒ ( متوفّیٰ ۳۲۸ ھ )
(5)نہج البلاغہ خطبۂ ۳/۱۶
(6)۔ اسناد و مدارک خطبۂ /۳ ۱۔ کتاب الجمل ، ص ۶۲/۹۲ : شیخ مفید ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )
۲۔ الفہرست ، ص ۹۲ : نجاشی ( متوفّیٰ ۴۵۰ ھ )
۳۔ الفہرست ، ص ۲۲۴ : ابن ندیم ( متوفّیٰ ۴۳۸ ھ )
۴۔ الانصاف فی الامامۃ : ابی جعفر ابن قبۂ رازی ( متوفّیٰ ۳۱۹ ھ )
۵۔ معانی الاخبار ، ص ۳۴۳ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ
۶۔ علل الشرایع ، ص ۱۴۴ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۷۔ العقد الفرید ، ج ۴ : ابن عبد ربہ ( متوفّیٰ ۳۲۸ ھ )
۸۔ بحار الانوار ، ج ۸ ص ۱۲۰ ( کمپانی ؛متوفّیٰ ۱۰۳۷ ھ ) : مرحوم مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )
۹ شرح نہج البلاغہ : قطب راوندی ( متوفّیٰ ۵۷۳ ھ )
۱۰۔ المناقب : ابن جوزی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ھ )
۱۱۔ الغارات : ابن ہلال ثقفی ( متوفّیٰ ۲۸۳ ھ )
۱۲۔ الفرقۃ الناجیۃ : قطیفی ( متوفّیٰ ۹۴۵ ھ )
۱۳۔ ارشاد ، ج ۱ ص ۱۳۵/۲۸۴/۲۸۶ : شیخ مفید ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )
۱۴۔ المغنی : قاضی عبدالجبّار ( متوفّیٰ ۴۱۵ ھ )
۱۵۔ نثرالدرر : وزیر ابو سعید آبی ( متوفّیٰ ۴۲۲ ھ )
۱۶۔ نزہۃ الادیب : وزیر ابو سعید آبادی ( متوفّیٰ ۴۲۲ ھ )
۱۷۔ الشافی ، ص ۲۰۳ : سیّد مرتضیٰ ( متوفّیٰ ۴۳۶ ھ )
۱۸۔ الامالی : ہلال بن محمد بن الحفار ( متوفّیٰ ۴۱۷ ھ )
۱۹۔ الامالی : شیخ الطائفۃ طوسی ؒ ( متوفّیٰ ۴۶۰ ھ )
۲۰۔ تذکرۃ الخواص ، ص ۱۳۳ : سبط ابن الجوزی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ھ )
۲۱۔ تحف العقول ، ص ۳۱۳ : ابن شعبۂ حرانی ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۲۲۔ شرح الخطبۃ الشقشقیۃ : سیّد مرتضیٰ ( متوفّیٰ ۴۳۶ ھ )
۲۳۔ الافصاح فی الامامۃ ، ص ۱۷ : شیخ مفید ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )
۲۴۔ الاحتجاج ، ج ۱، ص ۲۸۱/۱۹۱ : طبرسی ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۲۵۔ المحاسن والادب : علّامہ برقی ( متوفّیٰ ۲۸۰ ھ )
۲۶۔ المستقصیٰ ، ج۱ ،ص ۳۹۳ : زمخشری ( متوفّیٰ ۵۳۸ ھ )
۲۷۔ مجمع الامثال ، ج ۱، ص ۱۹۷ : میدانی ( متوفّیٰ ۵۱۸ ھ )
۲۸۔ المجلی ، ص ۳۹۳ : ابن ابی جمہور احسائی ( متوفّیٰ ۹۰۹ ھ )
۲۹۔ المواعظ ولزواجر ( کتاب الغدیر ، ج ۷، ص ۸۲ سے نقل ) : ابن سعید عسکری ( متوفّیٰ ۲۹۱ ھ )
۳۰۔ ابن خشاب کہتا ہے ! خدا کی قسم میں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں پڑھا ہے جو سیّد رضی کی پیدائش سے ۲۰۰/سال پہلے تدوین ہو ئی ہیں : ماھو نہج البلاغہ ، ص ۹۸ : شہرستانی
۳۱۔ کتاب الانصاف : ابن کعبی بلخی ( متوفّیٰ ۳۱۹ ھ )
۳۲۔ الاوائل : ابن ہلال عسکری ( متوفّیٰ ۳۹۵ ھ )
۳۳۔ غرر الحکم ، ج ۳ ، ص ۴۶ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۳۴۔ غرر الحکم ، ج ۶ ،ص ۲۳۲/ ۲۵۶ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۳۵۔ رسائل العشر ، ص ۱۲۴ : شیخ طوسی ؒ ( متوفّیٰ ۴۶۰ ھ )
(7)۔خطبہ ۹۲، نہج البلاغہ معجم المفھرس
(8)۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی ۔ خدا وند عالم کی طرف سے امامت پر منصوب ہوئے اور اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوں نے غدیر خم کے میدان میں خدا وند عالم کے حکم سے اور پیغمبر [ص] کے ابلاغ کے بعد امام کے ساتھ بیعت کی ، لیکن ۲۵سال بعد ،ان تینوں کی خلافت کے دور میں لوگوں کے سیاسی انحراف اوراقدار میں تغییر کے سبب اس وقت اتمام حجّت کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ’’ مجھے چھوڑ دو‘یعنی تم لوگ عدل کی حکومت کا تحمّل نہیں کر سکتے۔
(9)۔ خطبۂ / ۹۲ کے اسناد و مدارک : ۱۔ تاریخ طبری ، ج ۶ ص ۳۰۶ : طبری ( متوفّیٰ ۳۱۰ ھ )
۲۔ النّہایۃ ( ۳۵ ھ کے حوادث سی مربوط ) : ابن اثیر ( متوفّیٰ ۶۰۶ ھ )
۳۔ کتاب جمل ، ص ۴۸ : شیخ مفید ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )
۴۔ تذکرۃ الخواص ، ص ۵۷ : ابن جوزی ( متوفّیٰ ۵۶۷ ھ )
۵۔ شرح قطب راوندی ، ج ۱ ص ۴۱۸ : ابن راوندی ( متوفّیٰ ۵۷۳ ھ )
۶۔ نسخۂ خطّی ۴۹۹ ھ ، ص ۷۳ : مؤلفہ ابن مؤدب، پانچویں صدی کے عالم دین
۷۔ نسخۂ خطّی نہج البلاغہ ، ص ۷۰ : مؤلّفہ ۴۲۱ ھ
۸۔تجارب الامم:، ج ۱ ، ص ۵۰۸ : ابن مسکویہ ( متوفّی ۴۲۱ ھ)
۹۔ بحارالانوار ، ج ۳۲ ،ص۳۵۔ مرحوم مجلسیؒ ( متوفی ۱۱۱۰ ھ )
( 10)۔اسناد و مدارک خطبۂ / ۲۷ ۱۔ البیا ن و التبیین ، ج ۱ ،ص ۱۷۰ : جاحظ ( متوفّیٰ ۲۵۵ ھ )
۲۔ البیا ن و التبیین ، ج ۲ ، ص ۶۶ : جاحظ ( متوفّیٰ ۲۵۵ ھ )
۳۔ عیون الاخبار ، ج ۲ ،ص ۲۳۶ : ابن قتیبۃ ( متوفّیٰ ۲۷۶ ھ )
۴۔ اخبار الطوال ، ص ۲۱۱ : دینوری ( متوفّیٰ ۲۹۰ ھ )
۵۔ الغارات ، ج ۲ ، ص ۴۵۲/۴۹۴ : ابن ہلال ثقفی ( متوفّیٰ ۲۸۳ ھ )
۶۔ الکامل ، ج ۱ ، ص ۱۳ : مبرد ( متوفّیٰ ۲۸۵ ھ )
۷۔ اغا نی ، ج ۱۵ ، ص ۴۵ : ابو الفرج اصفہانی ( متوفّیٰ ۳۵۶ ھ )
۸۔ مقاتل الطالبین ، ص ۲۷ : ابو الفرج اصفہانی ( متوفّیٰ ۳۵۶ ھ )
۹۔ معانی الاخبار ، ص ۳۰۹ : شیخ صدوق ؒ ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ )
۱۰۔ انساب الاشراف ، ج ۲ ص ۴۴۲ : بلاذری ( متوفّیٰ ۲۷۹ ھ )
۱۱۔ مروج الذہب ، ج ۲ ص ۴۰۳ : مسعودی ( متوفّیٰ ۳۴۶ ھ )
۱۲۔ عقدالفرید ، ج ۲ ص ۱۶۳ : ابن عبد ربہ ( متوفّیٰ ۳۲۸ ھ )
۱۳۔ فروغ کافی ، ج ۵ ص ۴/۶/۵۳/۵۴ : مرحوم کلینی ؒ ( متوفّیٰ ۳۲۹ ھ )
۱۴۔ دعائم الاسلام ، ج ۱ ص ۴۵۵ : قاضی نعمان ( متوفّیٰ ۳۶۳ ھ )
۱۵۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۲۵۱ / ۱۷۴ : مرحوم طبرسی ؒ ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ )
۱۶۔ تہذیب ، ج ۶ ص ۱۲۳ : شیخ طوسی ؒ ( متوفّیٰ ۴۶۰ ھ )