خلافت علی (ع) کے دلائل
مسلمانوں کا وہ گروہ جو خلافت و امامت کو مصو ص من اللہ قرار دیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں انکا موقف بڑا ٹھوس اور واضح ہے ۔وہ گروہ یہ کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے ہجرت کے دسویں سال حج بیت اللہ کا ارادہ کیا اور تمام عرب میں اس کی منادی کرائی گئی ۔مسلمان پورے جزیرہ عرب سے سمٹ کر حج کے لئے آئے اور اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے ۔
جناب رسول خدا(ص) مناسک حج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مدینہ واپس آرہے تھے اور جب غدیر خم پر پہنچے اور یہ مقام جحقہ کے قریب ہے اور یہاں سے ہی مصر اور عراق کی راہیں جداہوتی ہیں ۔
اس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب پر یہ آیت نازل فرمائی :- "یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس ان الله لایهدی القوم الکافرین "(المائده نمبر 67)"
اے رسول ! اس حکم کو پہنچائیں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا ۔ بے شک اللہ منکر قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔
اس آیت مجیدہ کے نزول کے بعد آپ نے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنوایا اور تمام لوگ جمع ہوگئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور حضرت علی کے بازو کو بلند کرکے اعلان کیا :-" ان اللہ مولای و انا مولی المومنین " اللہ میرا مولا ہے اور میں اہل ایمان کا مولا ہوں پھر فرمایا :- "من کنت مولاه فعلی مولاه "(1) جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی :- " الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا " (المائدہ)
آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے شکر کرتے ہوئے کہا
"الحمد الله علی اکمال الدین واتمام النعمة ۔۔۔۔۔۔۔و الولایة لعلی " تکمیل دین اور تمام نعمت اور ولایت علی پر اللہ کی حمد ہے
۔
اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقعہ کی یاد گار کے طور پر شیعہ عید غدیر کا جشن منانے لگے ۔مقریزی نے اس جشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
"جاننا چا ہئیے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں عید غدیر کے نام سے کوئی عید نہیں منائی جاتی تھی اور سلف صالحین سے بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔یہ عید سب سے پہلے سن 352 ھ میں معز الدولہ علی بن بابویہ کے دور میں عراق میں منائی گئی اور اس کی بنیاد اس حدیث پر تھی ۔جس کی روایت امام احمد نے اپنی مسند کبیر میں براء بن عازب کی زبانی کی ہے وہ کہتے ہیں :-
ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو "الصلواۃ جامعۃ " کی منادی ہوئی اور دو درختوں کے درمیان جھاڑو دی گئی اور
حضور اکرم نے نماز ظہر آدا کی اور خطبہ دیا ۔ خطبہ کے دوران لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا :- الستم تعلمون انی اولی بالمو منین من انفسھم " کیا تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں مومنوں کی جان سے بھی زیادہ ان پر حق حکومت رکھتا ہوں ؟
سامعین نے کہا جی ہاں ! پھر آپ نے علی (ع) کا بازو پکڑ کر بلند فرمایا اور اعلان کیا :- من کنت مولاہ فعلی مولاه ،اللهم وال من والاه وعادمن عاداه " جس کا میں ہوں اس کا علی مولا ہے ۔اے اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ۔اس کے بعد حضرت عمر ،حضرت علی (ع) کو ملے اور کہا :- ھنیا لک یا بن ابی طالب اصبحت مولی کل مومن ومومنۃ " ابو طالب کے فرزند ! تمہیں مبارک ہو تم ہر مومن مرد وعورت کے مولا بن گئے ہو ۔
غدیر خم کا مقام جحفہ سے بائیں طرف تین میل کے فاصلے پر ہے وہاں پر ایک چشمہ پھوٹتا ہے اور اس کے ارد گرد بہت سے درخت ہیں ۔
اس واقعہ کی یاد کے طور پر شیعہ اٹھارہ ذی الحجہ کو عید مناتے تھے ۔ ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دورکعت نماز شکر انہ ادا کرتے تھے ۔ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرتے تھے اور اس دن نیا لباس پہنتے تھے اور غلام آزاد کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ خیرات بانٹتے اور جانور ذبح کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے جب ۔شیعوں نے یہ عید منانی شروع کی تو اہل سنت نے ان کے مقابلہ میں پورے آٹھ دن بعد ایک عید منانی شروع کردی اور وہ بھی اپنی عید پر خوب جشن مناتے تھے اور کہتے تھے کہ اس دن رسول خدا (ص) اور حضرت ابو بکر غار میں داخل ہوئے تے (2)۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):- تفصیلی حوالے کے لئے عبقات الانوار جلد حدیث ولایت کے مطالعہ فرمائیں
(2):-کتاب المواعظ والاعتبار۔