سقیفہ کی کاروائی
1:حضرت ابو بکر صدیق
سابقہ گفتگو کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ : حضرت علی (ع) پوری طرح سے خلافت بلافصل کی اہلیت وقابلیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ علی (ع) کا رسول اسلام اور خود اسلام سے گہرا ارتباط تھا اور اسلام اور رسول اسلام بھی انہیں خلافت وامامت کے لائق سمجھتے تھے ۔
اگر بالفرض سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمان علی علیہ السلام کے حق کے لئے یوں دلیل دیتے کہ
(1):-علی رسالت مآب کے سب سے قریبی ترین فرد ہیں ۔
(2):-علی رسول خدا کی آغوش کے پروردہ ہیں ۔
(3):- ہجرت کی شب امانتوں کے امین وہی تھے ۔
(4):- رسول خدا نے انہیں اپنا بھائی مقرر کیا تھا ۔
(5):- رسول خدا کے داماد ہیں ۔
(6):-رسول خدا کی نسل ان کے صلب سے جاری ہوئی ۔
(7):-رسول خدا کی تمام غزوات میں امیر لشکر اور علمدار تھے ۔
(8):- وہ ہارون محمدی ہیں ۔
(9) :- وہ شہر علی کا دروازہ ہیں ۔
(10):-وہ بیت حکمت کا دروازہ ہے ۔
(11):- وہ صفات انبیاء کے آینہ دار ہیں ۔
(12):- نور نبوی کے وہ شریک ہیں ۔
(13):-وہ نبوت کے مربّی کے فرزند ہیں ۔
(14):-انکی ولادت کعبہ میں ہوئی ۔
(15) :-ان کی پیشانی کبھی بتوں کے سامنے نہیں جھکی ۔
(16) :- ان کی مودت اجر رسالت ہے ۔
(17) :- وہ مباہلہ میں صداقت اسلام کے گواہ ہیں ۔
(18) :- وہ چادر تطہیر کے طاہر فرد ہیں ۔
(19) :- وہ صاحب علم الکتاب ہیں ۔
(20) :- وہ اپنی جان کے بد لے مرضات خداوندی کے خریدار ہیں ۔
الغرض اگر ایسا ہوتا اور مسلمان علی علیہ السلام کو ہی اپنی حکومت وزعامت کے لئے منتخب کرلیتے تو وہ انحراف ک شکار نہ ہوتے اور آج کے دور میں اسلامی تاریخ کو سنہری حروف سے لکھا جاتا ڈاکٹر طہ حسین نے اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے بالکل صحیح لکھا ہے :-
"علی اپنی قربت ،سبقت الی الاسلام ،اپنی فداکاریوں ،اپنی غیر منحرف سیرت ،دین سے تمسک ،کتاب وسنت کے علم اور استقامت رائے کے سبب بلاشبہ خلافت بلافصل کی صلاحیت رکھتے تھے (1)"۔
ابن حجر عقلانی امام علی علیہ السلام کے اہم خصائص بیان کرتے رقم طراز ہیں :-
"علی ابن ابی طالب اکثر اہل علم کے قول کے مطابق مسلم اول ہیں نبی اکرم کی آغوش میں تربیت پائی ۔کسی مرحلہ میں نبی سے جدا نہیں ہوئے ۔غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک رہے ۔اور غزوہ تبوک میں بھی وہ رسول خدا کے حکم کے تحت مدینہ میں ٹھہرے اور رسول خدا نے فرمایا تھا "اما ترضی یا علی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لانبی بعدی " علی کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کی موسی سے تھی ۔مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
اکثر غزوات میں حضرت علی ہی اسلامی لشکر کے علم بردار تھے ۔جب رسول خدا نے صحابہ میں مواخات قائم کی تو علی کو اپنا بھائی قرار دیا ۔آپ کے بے شمار مناقب ہیں ۔امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ :کسی صحابی کے لئے اتنی فضائل کی احادیث منقول نہیں ہیں ۔جتنی کہ علی کے لئے منقول ہیں (2)۔"
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل کی احادیث کی نشر واشاعت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بنی امیہ کے سلاطین نے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب کو چھپانے کے لیے تمام حربے استعمال کئے ۔اسی لئے حفاظ حدیث نے اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے فضائل علی (ع) کی احادیث کی نشر واشاعت کی ۔چشم فلک نے آج تک علی علیہ السلام جیسا عالم اور مفتی نہیں دیکھا ۔غزوہ خیبر میں رسول خدا(ص) نے اعلان کیاتھا ۔ :- "کل میں اسے علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (ص) سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول (ص) کا محبوب ہوگا ۔ اللہ اس کے ہاتھ پر خیبر فتح کرے گا ۔ " دوسرے روز آپ نے علم علی علیہ السلام کے حوالہ فرمایا ۔حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ : مجھے صرف اسی دن ہی امارت کا شوق ہوا تھا ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ براءت کی آیات دے کر علی علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا کہ قرآنی آیات کی تبلیغ یا تو میں خود کرسکتا ہوں یا وہ کرسکتا ہے جو مجھ سے ہو ۔
علاوہ ازیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "علی ولی فی الدنیا والآخرۃ " دنیا اور آخرت میں علی میرا جانشین ہے ۔
آپ نے علی وفاطمہ اور حسن وحسین علیھم السلام کو اپنی چادر میں داخل کرکے فرمایا : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا " اے اہل بیت ! اللہ کا بس یہی ارادہ ہے کہ تم سے رجس کو دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک رکھے جیسا کہ پاکیزگی کا حق ہے ۔
علی علیہ السلام شب ہجرت رسول خدا کی چادر پہن کر ان کے بستر پر سوئے تھے اور رسول خدا کی جان بچائی تھی ۔
رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا تھا : انت ولی کل مومن من بعدی" تم میرے بعد ہر مومن کے سردار ہو ۔رسول خدا (ص) نے مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرادئیے لیکن علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رہنے دیا ۔علی (ع) حالت جنابت میں بھی مسجد سے گزرا کرتے تھے ، مسجد کے علاوہ علی (ع) کے گزرنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا رسول کریم نے پالانوں ک منبر بنا کر لاکھوں افراد کے سامنے علی (ع) کا بازو بلند کرکے اعلان فرمایا :- "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔
اور جب "فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم ونساءنا ونسآءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین "۔ علم آجانے کے بعد جو تم سے جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹے اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو لے آئیں اور تم اپنی جانوں کو لے آؤ پھر ایک دوسرے کو بد دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں " کی آیت مجیدہ نازل ہوئی تو رسول اکرم (ص) نے علی وفاطمہ وحسن وحسین علیھم السلام کو بلایا اور فرمایا :-خداوندا ! یہ ہیں میرے اہلبیت ۔ امام ترمذی عمران بن حصین سے روایت کرتے ہیں رسول خدا (ص) نے فرمایا :-" ماتریدون من علی ؟ ان علیا منی وانا من علی وھو ولی کل مومن بعدی " آخر تم علی (ع) سے کیا چاہتے ہو ۔بلاشبہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ۔میرے بعد ہر وہ مومن کا سردار ہے ۔
اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے مناقب وفضائل کے باوجود علی خلافت سے محروم کیوں رہے ؟۔
اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات کومد نظر رکھنا چاہیئے اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضرت علی (ع) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہز وتکفین ونماز جنازہ میں مصروف رہے ۔جب ان کے سیاسی حریف رسول خدا (ص) کے جنازہ کو چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں چلے گئے اور وہاں اپنی خلافت قائم کی (3)۔
حضرت علی کو خلافت سے محروم رکھنے کی ایک وجہ حضرت عمر نے یہ بیان کی تھی کہ عرب ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت کا اجتماع برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ 11ھ میں رسولخدا (ص) نے وفات پائی اور حضرت علی رسول خدا(ص) کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ میں مشغول ہوگئے ۔
رسول خدا (ص) کے گھر سے باہر سیاسی فضا بڑی دھماکہ خیز تھی ۔جس میں سر فہرست خلیفۃ الرسول کا مسئلہ تھا ۔
سعد بن ابو عبادہ اوس وخزرج کے سرکردہ افراد کو لے کر سقیفہ بن ساعدہ میں آگئے ۔اور حضرت عمر اور ابو عبیدہ مسجد میں مسئلہ خلافت پر بحث کر رہے تھے ۔ اور اس کے علاوہ کئی اور گروہ دوسرے مقامات پر مصروف مشورہ تھے ۔
حضرت ابو بکر نے جب وفات رسول(ص) کی خبر سنی تو محلہ سخ سے رسول خدا (ص) کے گھر آئے اور حضرت عمر کو دیکھا کہ وہ دروازے پر تلوار ننگی کرکے کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ جس نے رسول خدا (ص) کی وفات کی بات کی میں اسے قتل کردونگا ۔حضور کی وفات نہیں ہوئی ،وہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح آسمان پر چلے گئے ۔کچھ دنوں بعد واپس آئیں گے اورمنافقوں کے ناک اور کان کاٹیں گے ۔
اس سانحہ دلخراش کی وجہ سے حضرت عمر بظاہر اپنے ہوش وحواس کھو
بیٹھے تھے ۔عین سی وقت کسی آدمی نے انہیں سقیفہ کی کاروائی کی اطلاع دی ۔غم رسول میں "حواس باختہ " شخصیت فورا ہوش وحواس میں آگئی اور حضرت ابو بکر کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور اس شخص نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ عمر آپ سے ایک عظیم کام کے متعلق مشورہ کرنا چاہتے ہیں ۔
یہ اطلاع ملتے ہی حضرت ابو بکر گھر سے باہر نکل آئے اور پھر یہ دونوں بزرگوار سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے ۔جہاں اوس وخزرج کے سرکردہ افراد سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔
مگر ان حالات میں حضرت علی (ع) نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئیے تھا ۔ حضرت علی رسول خدا(ص) کی تجہیز وتکفین کے معاملات میں مصروف رہے ۔رسول خدا (ص) کے چچا حضرت عباس وفات رسو(ص) کی وجہ سے بہت غمگین تھے مگر ان دردناک لمحات میں انہوں نے حضرت علی (ع) کی بیعت کرنے کاقصد کیا تھا جسے حضرت علی (ع) نے یہ کہ کہر ٹھکرادیا کہ :"ابھی تورسول کریم کا جسد مبارک بھی دفن نہیں ہوا میں خلافت کو کیسے قبول کرسکتا ہوں ؟"
ابو سفیان بن حرب تین دفعہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور ان کو خلافت سنبھالنے کی ترغیب دی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس ناپسندیدہ حکومت کو ختم کرنے کے لئے میں مدینہ کی گلیوں کو اونٹوں اور پیادہ لوگوں سے بھر دوں ۔مگر حضرت علی علیہ السلام نے اسے سختی سے ڈانٹ دیا اور کہا : تم اسلام کے خیر خواہ کب تھے ؟
اب تم خلیفہ گر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہو؟۔
سقیفہ کا اجتماع اگر چہ انصار نے ہی منعقد کیا تھا لیکن اس اجتماع سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔اس کاروائی کی مختصرا روئیداد یہ ہے ۔:-
قبیلہ اوس وخزرج کے افراد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ۔ ان میں سعد بن عبادہ بھی موجود تھے ۔سعد بیمار تھے اور بلند آواز سے گفتگو کرنے سے قاصر تھے ۔انہوں نے اپنے ایک فرزند سے کہا کہ تم میری گفتگو سن کر سامعین کو اس سے آگاہ کرتے رہو چنانچہ بیٹا ان کی مدہم گفتگو کو سن کر بلند آواز سے لوگوں کوسناتا ۔سعد نے کہا :-
"اے گروہ انصار ! تمہارا دین میں بڑا مقام ہے اور تمہیں اسلام میں فضیلت حاصل ہے اور ایسی فضیلت پورے عرب میں کسی قبیلہ کو حاصل نہیں ہے ۔جناب رسولخدا(ص) کئی سال تک مکہ میں اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت دیتے رہے ۔چند افراد کے سوا باقی قوم نے ان کی شدید مخالفت کی ۔اللہ تعالی نے تمہیں اس عزت سے سرفراز کیا ۔اللہ نے اپنے نبی کو تمہارے پاس بھیج دیا اور اللہ نے تمہیں دین کی مدد کیلئے منتخب فرمایا ۔
تم دین کے دشمنوں پر سخت ثابت ہوئے اور دوسرے مسلمان کی بہ نسبت اسلام میں تمہاری قربانیوں زیادہ ہیں اللہ نے اپنے حبیب کو اس حال میں وفات دی کہ وہ تم سے راضی تھے ۔اپنے آپ کو مضبوط بناؤ ۔تمام لوگوں کی بہ نسبت تم حکومت کے زیادہ حقدار ہو"۔
یہی اطلاع غم رسول میں "حواس باختہ "شخصیت حضرت عمر کو ملی ۔اطلاع ملتے ہی وہ رسول خدا کے دروازے پر آئے اور حضرت ابو بکر کو بلایا اور یہ دونوں دوست سقیفہ کی طرف چلے گئے ۔وہاں حضرت ابو بکر نے خطاب کرتے ہوئے کہا :-
"ہم مہاجرین سب سے پہلے اسلام لائے اور ہم رسول خدا(ص) کا خاندان ہیں ۔اور تم لوگ اللہ کے مدد گار ہو اور کتاب خدا میں ہمارے بھائی ہو اور دین میں ہمارے شریک ہو۔تم ہمیں تمام لوگوں سے محبوب ہو اور تم ہمیں بڑے عزیز ہو اور تم لوگوں نے ہمیشہ ایثار سے کام لیا ہے اور میں اب بھی تم سے اسی ایثار کی توقع رکھتا ہوئن اس وقت تمہارے درمیان ابو عبیدہ اور عمربن خطاب موجود ہیں ۔ان دونوں میں سے تم جس کی بھی چاہو بیعت کر سکتے ہو میں ان دونوں کو اس کا م کے اہل سمجھتا ہوں "۔
حضرت عمر اور ابو عبادہ نے کہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی اور شخص مسند خلافت کو نہیں سنبھال سکتا ۔آپ ہی مستحق خلافت ہیں ۔اس وقت انصار میں سے حباب بن منذر نے کھڑے ہوکر کہا ۔
گروہ انصار ! اپنے اتفاق واتحاد کو قائم رکھو ۔تمہاری ہی سرزمین پہ کھل کر اللہ کی عبادت ہوئی ہے ۔تم نے ہی رسول کو پناہ دی تھی تم نے ہی ان کی نصرت کی تھی اور رسول خدا ہجرت کرکے تمہارے ہی پاس آئے تھے ۔۔۔۔۔اگر اس کے باوجود یہ لوگ تمہاری حکومت پر راضی نہیں تو پھر ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک ان میں سے ہو ۔
حضرت عمر نے کہا : ایسا ناممکن ہے ۔
بشیر بن سعد خزرجی نے دیکھا کہ انصار سعد بن سعادہ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن میں اوس وخزرج کی سابقہ خانہ جنگیاں عود کر آئیں اور وہ سعد کو اس لئے ناپسند کرتا تھا کہ سعد کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا اور بشیر نے سوچا کہ اگر حکومت اوس قبیلہ میں چلی گئی تو یہ ان کی نسلوں کے لئے اعزاز ثابت ہوگی ۔جب کہ خزرج کی کمزوری کا پیش خیمہ بنے گی ۔اسی لئے اس کے ذہن نے فیصلہ کیا کہ خلافت میرے قبیلہ میں تو ویسے ہی نہیں آسکتی تو اوس میں بھی نہیں جانی چاہئے ۔کیوں نہ کسی مہاجر کی حکومت کو تسلیم کرلیا جائے ۔
یہ سوچ کر وہ کھڑا ہوا اور حاضرین سے کہا :
گروہ انصار! یہ سچ ہے کہ ہم نے اسلام کی خدمت کی ۔لیکن یہ حقیقت بھی ہمیں پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمارے جہاد اور اسلام کا مقصود صرف اپنے اللہ کی رضا اور نبی کی اطاعت تھی ۔
محمد کا تعلق قریش سے تھا اور ان کی قوم ہی ان کی میراث کی حقدار ہے اللہ سے ڈرو اور ان سے مت جھگڑو۔حضرت ابو بکر نے کھڑے ہوکر کہا ! یہ عمر اور ابو عبادہ ہیں ۔ان میں سے تم جس کی بیعت کرنا چاہتے ہوکرلو ۔
ان دونوں نے کہا ! خدا کی قسم ہم آپ پر حکومت نہیں کریں گے ۔ آپ ہاتھ بڑھائیں ۔ہم بیعت کرتے ہیں ۔
حضرت ابو بکر نے ہاتھ بڑھایا ،حضرت عمر اور ابوعبادہ سے پہلے بشیر بن سعد نے ان کی بیعت کی ۔
حباب بن منذر نے اسے آوازدی "اے نافرمان اور قوم کے دشمن بشیر ! تو نے یہ سب کچھ اپنے چچا زاد کے حسد کی وجہ سے کیا ہے ۔خزرج کے سردار بشیر بن سعد کی بیعت کے بعد اوس قبیلہ نے سوچا کہ اگر ہم بیعت میں پیچھے رہ گئے تو خزرج قبیلہ حکومت کا مقرّب بن جائے گا ۔اسی لئے اوس میں اسے اسید بن حضیر نے خزرج ک ضد اور سعد بن عبادہ کی مخالفت کی وجہ س بیعت کی ،اس کے بعد اس کے قبیلہ نے بھی بیعت کرلی ۔
بیمار سعد بن عبادہ کو چار پائی پر لٹا کر گھر لے گئے اور انہوں نے مرتے دم تک بیعت نہیں کی تھی ۔
پھر حضرت سعد شام چلے گئے اور حضرت ابوبکر کی خلافت کے آخری ایام میں انہیں قتل کردیا گیا اور مشہور کیاگیا کہ رات کی تاریکی میں جنات نے انہیں تیر مار کر ہلاک کردیا ۔ جب کہ باخبر حلقے اس کو خالد بن ولید کی کارستانی قراردیتے ہیں ۔
اس بیعت کے کچھ دیر بعد براء بن عازب نبی اکرم کے گھر آئے ۔ابھی تک رسول خدا کا جسم بھی دفن نہیں ہوا تھا ۔ انہوں نے آتے ہی اطلاع دی کہ میں نے اپنی آنکھوں سے عمر اور ابو عبادہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہر گزرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر ابو بکر کے ہاتھ پر رکھ کر بیعت لے رہے ہیں (4)۔
واقعات سقیفہ کا تجزیہ
ہم سقیفہ کی کاروائی بلا کم وکاست اپنے قارئین کے حضور پیش کرچکے ہیں ۔
ان واقعات میں حضرت عمر کا جو کردار رہا ہے اس سے کوئی بھی صاحب نظر چشم پوشی نہیں کرسکتا ۔
1:- خدارا ہمیں بتایا جائے کہ حضرت رسول خدا(ص) کے گھر میں تعزیت تسلی کے لئے کیوں نہیں گئے ۔اگر بالفرض انہیں علی (ع) اور اولاد علی (علیھم السلام) سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تو اس دلخراش صدمہ کے وقت کم از کم اپنی بیوہ بیٹی کے سرپر ہی ہاتھ رکھنے کیلئے چلے جاتے اور یوں رسو لخدا(ص) کی تجہیز وتکفین میں شرکت کا اعزاز حاصل کرلیتے ۔
2:-موصوف اگر غم زدہ خاندان کو تسلی دینا نہیں چاہتے تھے ۔تو جس وقت انہیں اوس وخزرج کے اجتماع کا علم ہوا تو اس وقت حضرت ابو بکر کو بلانے کے لئے خود اندر تشریف کیوں نہ لےگئے ؟
3:- خود جانے کے بجائے انہوں نے کسی اور فرد کو حضرت ابو بکر کو بلانے کے لئے کیوں بھیجا اور خود دروازے پر کھڑے رہنے کو کیوں پسند فرمایا ؟
4:- غم زدہ خاندان کے پاس اس وقت اور بھی اصحاب موجود ہوں گے اس کے باوجود حضرت عمر نے صرف حضرت ابوبکر کو ہی مشہورہ کیلئے طلب کیوں فرمایا ؟
5:- ہمیں بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر کا گھر کے اندرہونا اور حضرت عمر کا باہر دروازے پر کھڑا ہونا یہ محض ایک اتفاق تھا یا پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا ؟
6:- حضرت ابوبکر کے آنے سے پہلے حضرت عمر اور ابو عبیدہ کی جو باہمی گفتگو ہوئی تھی ۔اس میں کن نکات پر اتفاق ہواتھا ؟
7:- حضرت ابوبکر نے مہاجرین کی جو فضیلت بیان فرمائی تھی ۔اس فضیلت میں تمام مہاجر برابر کے شریک تھے یا صرف حضرت عمر اور ابو عبیدہ ہی تمام فضیلت کے مالک تھے ؟
8:-حضرت ابو بکر نےمہاجرین کے استحقاق خلافت کے لئے دو وجوہات بیان فرمائیں ۔
(الف):- انہیں اسلام میں سبقت کا شرف حاصل ہے ۔
(ب):- وہ حضور کریم کا خاندان ہیں
اگر مذکورہ بالا دو وجوہات ہی خلافت کا معیار ہیں تو اس معیار پر حضرت علی علیہ السلام زیادہ اترتے ہیں کیونکہ
(1):- ان کی اسلام میں سبقت مسلم ہے ۔
(2):- وہ حضرت ابو بکر کی بہ نسبت رسول خدا(ص) کے زیادہ قریب ہیں ۔
پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر کے بیان کردہ معیار کے مطابق علی علیہ السلام کو خلافت کا حق دار نہیں سمجھا گیا ؟
9:- خلافت اگر مہاجرین کاہی حق ہے تو پھر حضرت ابو بکر نے مہاجرین میں صرف دو افراد یعنی حضرت عمر اور ابو عبیدہ کے نام ہی کیوں پیش کیے ؟
مذکورہ ناموں کی تخصیص کی کوئی وجہ بیان کی جاسکتی ہے ؟ اور کیا یہ "ترجیح بلا مرجح " تو نہیں تھی ؟
10:-خلافت کو مہاجرین میں ہی محدود کرنا ضروری تھا تو کیا حضرت ابو بکر انصار کو یہ مشہورہ نہیں دے سکتے تھے کہ وہ جس مہاجر کو امیر بنانا چاہیں بنا لیں آخر ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟
11:- بزم مہاجرین میں سے صرف دو افراد کے نام پیش کرنے میں کونسی حکمت تھی ؟طالبان تحقیق کے لئے اس حکمت کو آشکار کیا جائے ۔
12:-حضرت عمر اور ابوعبیدہ نے اس پیش کش کو کیوں مسترد کردیا اور انہوں نے حضرت ابو بکر کی امارت کو کیوں ترجیح دی ؟ اس کی کوئی معقول وجہ بیان فرمائی جائے ۔
13:- سقیفہ کی کاروائی کی تمام کڑیاں اتفاقیہ انداز میں ملتی گئیں یا پہلے سے کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت انہیں جوڑا گیا تھا ؟ علم تاریخ کے طلباء کے لئے اس سوال کا جاننا انتہائی ضروری ہے ۔
علمائے اہل سنت سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں تسلی بخش جواب دیں ۔
14:- کیا سقیفہ کی کاروائی اور لشکر اسامہ کا بھی آپس میں کوئی تعلق ہے ؟ اور حضرت عمر اور ابو عبیدہ نے مسجد میں بیٹھ کر جو مشورہ کیا تھا ۔سقیفہ کا اس مشورہ سے بھی کوئی واسطہ تھا ؟۔
حضرت ابو بکر کی رفاقت میں دونوں شخصیات جب سقیفہ کی طرف روانہ ہوئیں ،تو کیا تینوں بزرگوں کی رفاقت تو سقیفہ میں کامیابی کا ذریعہ نہیں بنی ؟
15:- جب چند افراد خلافت کے لئے سقیفہ میں جمع ہوئے تھے تو اس وقت دوسرے مہاجرین کہاں تھے ؟
16:- اوس وخزرج کی پرانی دشمنیاں سقیفہ میں عود کرآئی تھیں ۔کیا ایسا اتفاقی طور پر ہوا تھا یا کوئی خفیہ ہاتھ اس دشمنی کو بھڑکانے پر تلے ہوئے تھے ؟
17:- اور اگر اس آتش عداوت کو بھڑکانے میں خفیہ ہاتھ کارفرما تھے تو ان خفیہ ہاتھوں کی نشاندہی کرنا آپ پسند فرمائیں گے ؟
18:- کیا خلیفہ کا انتخاف تدفین رسول سے بھی زیادہ ضروری تھا ؟۔
19:- کیا حضرت ابو بکر رسول خدا (ص) کی تدفین تک مسلمانوں کو انتظار کرنے کا مشورہ نہيں دے سکتے تھے ؟
آخر ایسی جلدی بازی کی بھی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالی کے آخری پیغمبر جو کہ رشتہ میں ان کے داماد بھی تھے ،دفن نہیں ہوئے تھے کم از کم ان کے دفن ہونے کا تو انتظار ہی کرلیتے اور کیا اتنی جلدی بازی کرکے انہوں نے اپنے داماد سے حق محبت ادا کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی ؟
20:- کیا سقیفہ کی اس پیچیدہ کاروائی اور کاغذ اور قلم دوات مانگنے کی حدیث اور جیش اسامہ کے واقعات کا کوئی باہمی ارتباط تو نہیں ہے ؟ تاریخ کے طلاب کے لئے درج بالا سوالات کے جواب انتہائی لازمی ہیں ۔میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس پوری کاروائی میں حضرت عمر نے مرکزی کردار ادا کیا ۔انہوں نے ہی ابو عبیدہ سے اس معاملہ میں پہلے مشہورہ کرلیا تھا ۔اور ایک منصوبہ تیار کرلیا تھا ۔جس کی تکمیل کے لئے حضرت ابوبکرکو بلایا گیا بعد ازاں اسلام کے ان "چاند تاروں" نے اثنائے راہ اپنے منصوبے کی باقی جزئیات طے کرلیں ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر فقط ان دو حضرات (عمر اور ابو عبیدہ)کو ہی پیش کرتے تھے اور یہ دونوں بزرگ حضرت ابو بکر کو پیش کرتے تھے ۔
تو کیا پوری ملت اسلامیہ نے انہیں اپنا نمائندہ بنا کر سقیفہ میں بھیجا تھا ؟۔جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ سقیفہ کے اجلاس میں امت کے افراد کا ایک عشر عشیر تک نہ تھا ۔
تو اتنی اقل القلیل تعداد کو امت اسلامیہ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت کس نے دی تھی ؟
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ابو بکر کو جب بلا یا گیا تو نہ تو اس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کسی مسلمان سے مشورہ کیا گیا تھا کہ اسلام کی قیادت کے لئے کون سی شخصیت سب سے زیادہ موزوں ہے ۔سقیفہ کی پوری کاروائی کو اتفاقی حادثہ سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن ہے یہ ایک طویل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔جس میں حضرت عمر کا کردار سب سے نمایاں ہے ۔
اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست
٭٭٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔