خلفائے راشدین اہلِ سنت کی نظر میں
وہ چار خلیفہ جو وفاتِ رسول(ص) کے بعد تختِ خلافت پر متمکن ہوئے خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے اہلہِ سنت والجماعت انھیں نبی(ص) کے تمام صحابہ سے افضل سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ آج اہلِ سنت کی زبان سے ہم سنتے ہیں۔ پہلے بھی ہم اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) کو اہلِ سنت دیگر خلفا میں بھی شمار نہیں کرتے تھے چہ جائے کہ خلفائے راشدین میں انھیں گنتے ہوں۔ عرصہ دراز کے بعد امام احمدبن حنبل نے علی(ع) کو زمرہ خلفا میں شامل کیا جچکہ اس سے قبل تمام اسلامی شہروں کے منبروں سے اور اموی بادشاہوں کی طرف سے آپ(ع) پر لعنت کی جاتی تھی۔
مزید تحقیق اور قارئین کو اس افسوس ناک حقیقت سے مطمئن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آنے والی عبارت کو مدِّ نظر رکھا جائے۔
ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہی کہ عبداللہ بن عمر اہلِ سنت والجماعت کے بڑے فقہا میں سے ایک ہیں۔ موطا میں مالک نے اور بخاری و مسلم نے صحاح میں ان پر بہت اعتماد کیا ہے اور دیگر محدثین نے بھی بڑے باپ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے انھیں اہمیت دی ہے۔
جب کہ عبداللہ بن عمر پکا ناصبی ہے۔ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) سے جس کا بغض آشکار ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اس نے خدا، امیر المؤمنین (ع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا۔ جبکہ دشمن خدا و رسول(ص) حجاج ملعون کی بیعت کے لئے دوڑ پڑا تھا۔ ( حجاج بن یوسف ثقفی اپنے فسق و کفر اور جرائم میں مشہور تھا اور دوسروں کی نظروں میں دین کو حقیر بنارکھا تھا۔ حاکم نے مستدرک ج۳ ص ۵۵۶، ابن عساکر نے ج۴ ص۶۹ پر تحریر کیا ہے کہ حجاج کہتا تھا کہ ابنِ مسعود یہ گمان کرتے ہیں کہ انھوں نے خدا کا قرآن پڑھا ہے! قسم خدا کی وہ قرآن نہیں ہے بکلہ عربوں کا ایک رجز ہے۔ وہ کہتا تھا کہ جہاں تک تم سے ہوسکے اس سے ڈرتے رہو! اس کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ امیرالمؤمنین عبدالملک بن مروان کی بات سنو اور اطالعت کرو۔ کیوں کہ یہی کارِ ثواب ہے ابنِ عقیل نے کتاب النصائح الکافیہ کے ص۸۱ پر تحریر کیا ہے کہ حجاج نے کوفہ میں خطبہ دیا اور نبی(ص) کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں کہا ہلاکت ان لوگوں کے لئے ہے جو لکڑی اور گیلی مٹی کا طواف کرتے ہیں ۔ امیرالمؤمنین عبدالملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ لوگوں کا خلیفہ وہ شخص ہے جو ان کے رسول(ص) سے بہتر ہے۔)
عبداللہ بن عمر نے اپنی دلی کیفیت اور پوشیدہ راز کا اس وقت انکشاف کیا جب اس نے علی(ع) کی کسی ایک بھی فضیلت و شرافت و منقبت کا اعتراف نہ کیا یہاں تک کہ عثمان بن عفان کے بعد چوتھے درجے میں بھی آپ(ع) کو نہ رکھا۔
اس کی نظروں میں ابوبکر وعمر اور عثمان سب سے افضل ہیں جبکہ علی(ع) کو ایک عام انسان سمجھتا ہے آپ کے سامنے میں ایک اور حقیقت پیش کرتا ہوں جس کو محدثین و مورخین نے نقل کیا ہے اس سے عبداللہ بن عمر کی علی(ع) اور تمام ائمہ اطہار(ع) سے دشمنی اور کینہ توزی واضح ہوجائے گی۔
نبی(ص) کی الائمہ اثناعشری بعدی حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے عبداللہ بن عمر کہتا ہے کہ رسول(ص) کی یہ حدیث کہ میرے بعد بارہ(۱۲) خلیفہ ہوں گے اور سب قریش سے وں گے کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ ہیں۔
ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالںورین، معاویہ اور مقدس زمین کا بادشاہ وہ اس کا بیٹا، سفاح، سلام ، منصور ، جابر، مہدی، امین، اور میرے العصیب یہ سب بنی کعب بن لوی کی اولاد میں سے ہیں اور سب صالح ہیں ان کی مثال نہیں ہے۔ ( تاریخ الخلفا ، سیوطی ص۱۴۰، کنزالعمال جلد۶ ص۶۷ تاریخ ابن عساکر و ذہبی۔)
قارئین محترم اہلِ سنت والجماعت کے اس عظیم فقیہہ کے بارے میں پڑھئے اور تعجب کیجئے کہ وہ کس طرح حقائق کو بدل دیتا ہے اور معاویہ، اس اس کے بیٹے یزید اور سفاح کو تمام بندگان خدا سے افضل قرار دیتا ہے اور صریح طور پر کہتا ہے، وہ سب صالح تھے ان کی مثال نہیں ہے۔
بغض و عداوت نے اسے اندھا بنادیا تھا ۔اسی طرح حسد و بغض نے اس کی بصیرت چھین لی تھی چنانچہ امیرالمؤمنین علی(ع) کی اسے کوئی فضیلت ہی نظر نہیں آتی تھی اسی لئے تو اس نے آپ(ع) پر معاویہ اور اس کے بیٹے یزید زندیق اور مجرم سفاح کو مقدم کیا ۔ پڑھئے اور اس قولِ رسول(ص) کو فراموش نہ کیجئے کہ جس کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے کہ علی بن ابی طالب(ع) کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض نفاق ہے اور زمانہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں منافقین بغضِ علی(ع) ہی سے پہچانے جاتے تھے۔)
عبداللہ بن عمر یقینا اپنے باپ کا حقیقی بیٹا تھا۔ کیوںکہ برتن میں جو ہوتا ہے اس سے وہی ٹپکتا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے باپ نے علی(ع) کو خلافت سے الگ رکھنے اور لوگوں کی نظروں میں حقیر بنانے کی حتی المقدور کوشش کی تھی۔
یہ ان ہی کا کینہ توزی اور شقی بیٹا ہے۔ عثمان کے بعد علی(ع) کے خلیفہ ہونے اور انصار و مہاجرین کے بیعت کر لینے کے باوجود عبداللہ بن عمر نے علی(ع) کی بیعت نہ کی اور آپ(ع) کی شمع حیات کو گل کرنے کے درپے رہا اور آپ(ع) کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتارہا۔ اسی لئے تو مسلمانوں سے کہتا تھا کہ علی(ع) کی حیثیت تھوڑی ہی ہے وہ تو ایسے ہی ہیں جیسے عام آدمی۔
لیکن عبداللہ بن عمر اموی حکومت کی بے لوث خدمت کرتا اور معاویہ و یزید(لع) کو جھوٹی خلافت کا تاج پہناتا ہے اور نبی(ص) پر بہتان لگاتا ہے ۔ منصور و سفاح اور بنی امیہ کے تمام فاسق و فاجر کی خلافت کو تسلیم کرتا ہے اور انھیں مسلمانوں کے سردار ، نص قرآن و سنت سے مومنین کے ولی پر مقدم کرتا ہے اور علی(ع) کی خلافت کا اعتراف نہیں کرتا ہے یہ چیزیں یقینا تعجب خیز ہیں۔
آنے والی بحثوں میں ہم عبداللہ بن عمر سے پھر ملاقات کریں گے تاکہ ان کی حقیقت کا انکشاف کرسکیں۔ اگر چہ ان کو غیر معتبر قرار دینے اور دائرہ عدالت سے خارج کرنے اور دائرہ نواصب میں رکھنے کے لئے ہمارا گذشتہ بیان کافی ہے۔ یہ ہیں مذہبِ اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھنے والے ابنِ عمر چنانچہ آج وہی ان کے بڑے فقیہہ اور عظیم محدث بھی ہیں۔
اگر آپ مغرب و مشرق کی خاک چھانیں اور اہلِ سنت والجماعت کی ساری مسجدوں میں نماز پڑھیں اور ان کے علما سے گفتگو کریں تو ان کے علما سے یہ " عن عبدالله بن عمر" سنتے سنتے آپ کے کان پک جائیں گے۔