اہلِ سنّت کی صلوٰت میں تحریف
خدا آپ کو سلامت رکھے اس فصل میں غور فرمائیں تا کہ اہلِ سنت کی خفیہ سازشوں سے آگاہ ہوجائیں اور اس بات کا انکشاف ہو جائے کہ ان کو عترتِ نبی(ص) سے کتنی دشمنی تھی انھوں نے ہر ایک فضیلت میں تحریف کرڈالی۔
ان ہی تحریف شدہ امور میں سے ایک محمد وآل محمد پر صلوٰت بھیجنا ہے خدا نے قرآن میں محمد و آل محمد پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اہلِ سنت کے تمام محدثین نے خصوصا بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ جب آیۃ : انّ اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی الخ، نازل ہوئی تو صحابہ نبی(ص) کے پا س آئے اور عرضکی یا رسول اللہ(ص) ہم آپ پر کس طرح صلوٰت بھیجیں؟ ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا طریقہ معلوم نہیں؟
نبی(ص) نے فرمایا: اللهم صلی علیٰ محمد و آل محمد کما صليت علی ابراهيم و علیٰ آل ابراهيم انک حميد مجيد۔( صحیح بخاری جلد ۴ ص۱۱۸)
اور بعض لوگوں نے رسول(ص) کے اس قول کا بھی اضافہ کیا لہے کہ تم مجھ پر ناقص صلوٰت نہ بھیجا کرو۔ اصحاب نے دریافت کیا یا رسول اللہ(ص) ناقص صلوٰت کونسی ہے؟ فرمایا: تم اللہم صلی علی محمد کہکر خاموش ہو جاتے ہو، خدا کامل ہے اور وہ کامل ہی چیز کو قبول کرتا ہے۔
امام شافعی نے اس کی وضاحت کی ہے کہ جو محمد(ص) اور ان کے اہلِ بیت(ع) پر درود نہیں بھیجتا خدا اس کی نماز قبول نہیں کرتا ہے۔
سنن دار قطنی میں ابی مسعود انصاری کی سند سے منقول ہے کہ : رسول (ص) نے فرمایا: جو شخص نماز میں مجھ پر اور میرے اہلِ بیت(ع) پر درود نہ بھیجتا خدا اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔( سنن دار قطنی ص۱۳۶)
ابنِ حجر صواعق میں لکھتے ہیں کہ دیلمی نے روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے فرمایا: جب تک مجھ پر اور میرے اہلِ بیت(ع) پر درود نہیں بھیجی جائے گی اس وقت تک دعا محجوب رہے گی۔ ( صواعق المحرقہ ص۸۸)
طبرانی نے اوسط میں حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: ہر ایک دعا محجوب ہے جب تک محمد وآلِ محمد پر درود نہ بھیجی جائے۔( فیض القدیر جلد۵ ص۱۹ کنز العمال جلد۱ ص۱۷۲)
اور جب ہم اہلِ سنت والجماعت کی صحاح سے درود کی کیفیت کو سمجھ گئے تو یہ بھی سمجھ گئے کہ خدا اس بندہ کی نماز قبول نہیں فرماتا جو اپنی نماز میں محمد وآل محمد پر درود نہیں بھیجتا اور اسی طرح اس مسلمان بندہ کی دعا بھی محجوب رہتی ہے جو محمد وآل محمد پر درود نہیں بھیجتا ۔
قسم اپنی جان کی یہ بہت بڑی فضیلت اور واضح منقبت ہے۔ جو محّمد و آلِ محمّد کو تمام انسانوں پر دی گئی ہے۔ پس انھیں کے ذریعہ مسلمان کو خدا کا تقرّب ڈھونڈھنا چاہئے۔
لیکن اہلِ سنت والجماعت نے اہلِ بیت(ع) کی اس فضیلت کو چھوڑدیا اوراس کے بھیانک نتائج کو محسوس کرلیا۔
کیونکہ ابوبکر، عمر وعثمان اور تمام صحابہ کے جھوٹے فضائل اور خیالی مناقب گھڑ دیئے جانے کے بعد بھی وہ اس منزل پر فائز نہ ہوسکے اور اس لند مقام پر نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ خدا ان کی اور ان کی جماعت کی نماز قبول نہیں فرماتا اس لئے کہ وہ محمّد(ص) کے بعد علی بن ابی طالب(ع) جو کہ عترت کے سردار ہیں، ان پر درود نہیں بھیجتے۔
اس لئے اہلِ سنت نے صلوٰۃ میں تحریف کر کے اپنے محبوب خلفاء کے نام کا اضافہ کر دیا۔ تاکہ ان کی عظمت بڑھا سکیں۔
جبکہ رسول (ص) نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا۔ چنانطہ وہ پہلی صدی ہی سے ناقص صلوٰۃ پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ان کی کتابوں میں ناقص صلوٰۃ مرقوم ہوتی ہے۔
وہ صرف محمد یا نبی یا رسول (ص) لکھتے ہیں اور آل کے ذکر کے بغیر صلی الله علیه و سلم تحریر کردیتے ہیں۔
اور اس زمانہ میں اگر آپ ان میں سے کسی سے گفتگو کریں اور اس سے کہیں کہ محمد پر درود بھیجئے تو وہ جواب میں صلی اللہ علیہ وسلم کہے گا اورف آل کا ذکر نہیں کرے گا۔ اگر چہ ان میں سے بعض بڑی ہی پیچ دار صلوٰۃ پڑھتے ۔ چنانچہ آپ صل و سلم کے علاوہ کچھ نہیں سمجھ پائیں گے۔
لیکن جب آپ کسی بھی عربی یا عجمی شیعہ سے درود بھیجنے کے لئے کہیں گے ۔ تو وہ اللهم صلّ علٰی محمد و آل محمد پوری صلوٰۃ پڑھے گا۔
جبکہ اہل سنت والجماع کی کتابوں میں نبی(ص) کا یہ قول، قولو! اللهم صلی علیٰ محمد و آل محمد منقول ہے۔ جو کہ حاضر اور مستقبل کے صیغہ کی صورت میں ہے اور خداسے طلب دعا ہے۔
لیکن اہلِ سنت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر اکتفا کرتے ہیں جو کہ ماضی کا صیغہ ہے جو کہ خبر دے رہا ہے۔
اہل سنت والجماعت کے سردار معاویہ ابن ابی سفیان کی تو پوری یہ کوشش تھی کہ اذان سے بھی محمد (ص) کا نام صاف کردیا جائے۔ ( ملاحظہ فرمائیں اہلِ ذکر)
اس کے پیروکاروں کے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ صلوات میں تحریف کردیں اور یہی نہیں اگر ان میں صلوات کو حذف کرنے کی طاقت ہوتی تو ضرور حذف کردیتے لیکن اب تو ان کے لئے افسوس ہی افسوس ہے۔
آج آپ ان کے ہر ایک منبر سے خصوصا وہابیوں کے منبروں سے تحریف شدہ صلوات سن سکتے ہیں۔ ان کی ناقص صلوات کی گونج رہتی ہے۔ لیکن اگر وہ مجبورا پوری صلوات پڑھتے ہیں تو اس میں " وعلی اصحابه اجمعین" کا اضافہ کردیتے ہیں۔ یا اس سے بھی آگے بڑھ کر کہتے ہیں۔ وعلی اصحابہ الطیبین الطاہرین، اور اس طرح وہ یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ آیت تطہیر صحابہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ لہذا صحابہ اور اہلِ بیت علیہم السلام برابر ہیں۔
اور اس فریب کاری اور تحریف کا علم انھوں نے اپنے فقیہ اوّل اور قائد اکبر عبداللہ بن عمر سے حاصل کیا ہے جو کہ اہلِ بیت(ع) کا کٹر دشمن تھا۔
مالک نے اپنی موطا میں تحریر کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر نبی(ص) کی قبرِ مبارک کے پاس آتے تھے اور آپ پر درود بھیجنے کے ساتھ ساتھ ابوبکر و عمر پر درود بھیجتے تھے۔( تنویر الحوالک فی شرح موطا مالک جلد۱ ص۱۸۰)
قارئین محترم جب آپ سنجیدگی سے غور فرمائیں گے تو نہ قرآن میں لفظ صحابہ ملے گا اور نہ سنت میں نظر آئے گا۔
کیابِ خدا اور سنتِ نبی(ص) نے تو صرف محمد وآل محمد(ص) پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے اور یہ امر ( صلوات بھیجنا) تمام مکلفین سے پہلے صحابہ پر واجب ہے۔
اور صلوات میں یہ صحابہ کا اضافہ اہلِ سنت والجماعت ہی کے ہاں ملے گا اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے انھوں نے تو نہ جانے دین میں کتنی بدعتین ایجاد کر کے انھیں سنّت کا نام دیدیا ہے اس سے ان کا مقصد فضیلت کو چھپانا اور حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے۔
یہ لوگ اپنے منہ سے ( پھونک مار ) کر نورِ خدا کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ اگر چہ یہ بات کافرین کو ناگوار ہی کیوں نہیں لگے۔( الصف/۸)
" اور اس سے ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حقیقی اہلِ سنت کون ہیں"۔