امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

صحابہ کی حیثیت

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ انسان ہیں ۔ غیر معصوم ہیں اور عام لوگوں کی طرح ان پر بھی وہی چیزیں واجب ہیں جو کہ تمام انسانوں پر واجب ہیں اور جو حقوق صحابہ کے ہیں وہی دیگر افراد کے ہیں ۔ ہاں انھیں نبی(ص) کیصحبت کا شرف حاصل  ہے جب کہ انھوں نے صحبت کو  محترم سمجھا ہو  اور  کما حقہ اس کی رعایت کی ہو ورنہ دوگنا عذاب کے بھی مستحق قرار پائیں گے۔ کیوں کہ خدا کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ دور والے کو اتنا عذاب نہ دیا جائے جتنا قریب والے کو دیا جانا چاہئے، کیوںکہ دور والا ایسا نہیں ہے جیسا کہ وہ شخص ہے جس نے بالمشافہ نبی(ص) سے کوئی حدیث سنی ہے، نورِ نبوت کو دیکھا ہے اوسر معجزات کا مشاہدہ کیا ہے اور خود نبی(ص) کی تعلیمات سے مستفید ہوا ہے۔ چنانچہ نبی(ص) کے بعد والے زمانہ میں زندگی گزارنے والوں نے نہ آپ(ص) کو دیکھا ہے اور نہ بالمشافہ کوئی بات آپ(ص) کی زبانِ مبارک سے سنی ہے۔
رسول(ص) کےساتھ رہنے والے اس صحابی پر جو کہ آپ(ص) کے ساتھ رہا لیکن اس کے دل میں ایمان داخل نہ ہوا زبردستی اسلام قبول کیا یا نبی(ص) کی حیات میں تو صحابی متقی و پرہیزگار تھا لیکن آپ(ص) کی وفات

 کے بعد مرتد ہوگیا ایسے صحابی پر عقل و وجدا ن اس شخص کو فضیلت دینا ہے جو کہ ہمارے زمانہ میں زندگی گزارتاہے لیکن قرآن وحدیث اور ان دونوں کی تعلیمات کا احترام کرتا ہے۔
اور اسی چیز کو قرآن و حدیث اورعقل و ضمیر بھی صحیح قرار دیتے ہیںاور جو شخص قرآنو حدیث کا تھوڑا سا بھی علم رکھتا ہے وہ اس حقیقت  میں قطعی شک نہیںکرسکتا اورنہ اس سے فرار کی راہ مل سکتی ہے۔
مثال کےطور پر خداوندِ عالم کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:
"يا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ كانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيراً " (احزاب ۳۰)
"اے نبی(ص) کی بیویوں جو بھی تم میں سے کھلی برائی کی مرتکب ہوگی اس کا عذاب بھی دھرا کر دیا جائے گا اور خدا کے لئے یہ بات بہت آسان ہے۔
پھر صحابہ میں وہ مؤمن بھی ہے جس نے اپنا ایمان کامل کیا۔ ان میں ضعیف الایمان بھی ہیں اور ان میں وہ بھی ہے جس کے قلب میں ایمان (کبھی) داخل نہ ہوا، ان میں متقی و پرہیز گار بھی ہے۔ ان میں بدعت گزار جاہل بھی ہیں۔ ان میںمخلص بھی ہیں، ان میں منافقین ، ناکثین ، صادقین اور مرتدین بھی ہیں۔
جب قرآنِ مجید ، حدیث نبی(ص) اور  تاریخ نے مذکورہ اقسام کو بیان کردیا ہے اور کھلے لفظوں میں اس کی  وضاحت کی ہے تو پھر اہل سنت کے اس قول کی کوئی حیثیت اور اعتبار نہیں رہ جاتا کہ تمام صحابہ عادل ہیں کیوںکہ انکو یہ قول قرآن و حدیث ، عقل و تاریخ کے خلاف ہے۔ یہ محض تعصب ہے اور ایسی بات ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
ان امور کےسلسلہ میں ایک محقق کو اہل سنت والجماعت کی عقل پر  تعجب ہوگا جو کہ

 عقل ونقل اور تاریخ کی مخالفت کرتے ہیں۔
لیکن جب وہ اس عقیدہ ۔ یعنی صحابہ کی تعظیم اور انھیں برا نہ کہنا بلکہ عادل ماننے کے رسوخ کے سلسلہ میں بنی امیہ کے کرتوت اوران کے اتباع میں بنی عباس کے کارنوموں کو دیکھے گا تو اس کا سارا تعجب زائل ہوجائے گا اور اس بات میں قطعی شک نہیں کرے گا کہ انھوں نے صحابہ کے سلسلہ  میں کسی بھی گفتگو کو س لئے منع کیا ہے تاکہ ان کے افعال پر تنقید و تجزیہ کی نوبت ہی نہ آئے کہ جن کے ارتکاب سے انھوں نے اسلام کے دامن  کو نبی اسلام(ص)  اور ملتِ اسلامیہ کے دامن کو داغدار کیا ہے۔
کیوںکہ ، ابوسفیان ، معاویہ، یزید، عمرو ابن العاص، مروان ابن حکم، مغیرہ ابن شعبہ اور ابن ارطاۃ سب ہی صحابی ہیں ، یہ مؤمنین کے امیر و حاکم بھی رہ چکے ہیں تو ہو کیسے صحابہ کے حالات کی چھان بین کو منع نہ کرتے اور ان کیعدالت و فضیلت کے لئےکیسے جھوٹی حدیث نہ گھڑتے اور پھر اس وقت ان کے افعال وکردار پر تنقید کرنے کی کس میں ہمت تھی۔
اور اگر کسی مسلمان نے ایس کردیا تو اسے کافر و زندیق قرار دیدیا اور اس کے قتل اور بے گورو کفن چھوڑدینے کا فتوا دیدیا۔ ظاہر ہے اس مسلمان کو لکڑی سے ڈھکیل کر ہی دفن کیا جاتا تھا جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ اور جب وہ شیعوں کو قتل کرنا چاہتے تھے تو ان پر صحابہ کو  برا بھلا کہنے کی تہمت لگادیتے تھے اور پھر صحابہ پر تقید و تبصرہ ہی کو وہ سبِ شتم کہتے تھے اور  یہ چیز قتل اور عبرت ناک سزا کے لئے کافی ہوتی تھی ظلم کی انتہا ہوگئی تھی اگر کوئی شخص حدیث کا مفہوم پوچھ لیتا تھا اور وہی اسکی موت کے لئے کافی ہوجاتا جیسا کہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے ہارون رشید کے  سمانے ابوہریری کی بیان کردہ یہ حدیث نقل ی گئی کہ موسی(ع) نے آدم(ع) سے ملاقات کی اور ان سے کہا : آپ ہی وہ آدم(ع) ہیں جس نے ہمیں جنت سے نکلوادیا؟ یہ جملہ سنکر مجلس میں موجود ایک قرشی نے کہا: موسی(ع) نے آدم(ع) سے کہاں ملاقات کی تھی؟ یہ سنکر ہارون رشید کو غصہ آگیا اور اس قرشی کے قتل کا حکم دیدیا، اور کہا زندیق رسول(ص) کی حدیث پر اعتراض کرتا ہے۔( تاریخ بغدادی، ج۱۴، ص۷) ظاہر ہے  حدیث کا مفہوم پوچھنے والا کوئی با حیثیت آدمی تھا کیوںکہ رشید  کی مجلس میں موجود تھا

اور اس بات پر اس کی گردن اڑادی گئی کہ اس نے وہ جگہ دریافت کر لی تھی کہ جہاں موسی(ع) نے آدم(ع) سے ملاقات کی تھی۔ تو اس شیعہ کی حالت پوچھئے کیا ہوئی ہوگی جو کہ ابوہریرہ کو کذاب و جھوٹا کہتا ہے جیسا کہ صحابہ اور ان کے راس و رئیس عمر ابن خطاب ابوہریرہ کو جھٹلا چکے ہیں۔ یہیں سے ایک محقق حدیث میں وارد غلط و محال اور کفریات باتوں نیز تناقضات سے واقف ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان روایات کو صحیح کہا جاتا ہے اور انھیں تقدس کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ تنقید و جرح کے ممنوع ہونے اور ہلاکت و تباہی کے خوف سے ہوتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس شخص کو بھی قتل کردیا جاتا تھا جو حقیقت تک پہنچنے کے لئے کسی لفظ کے معنی کو پوچھ لیتا تھا اس کے بعد کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
اور پھر انھوں نےلوگوں کو یہ بات باور کرادی تھی کہ جو شخص ابوہریرہ یا کسی عام صحابی کی  حدیث پر اعتراض کرتا ہے  تو گویا وہ رسول(ص) کی حدیث پر اعتراض کرتا ہے در اصل اس سے انھوں نے ان جعلی حدیثوں کا حصار بیادیاتھا جو کہ وفات نبی(ص)  کے بعد صحابہ نے گھڑی تھیں اور پھر وہ مسلمات میں شمار ہونے لگیں۔
میں اپنے بعض علماء  سے اس موضوع پر بہت بحث  کرتا تھا کہ صحابہ خود بھی اپنے کو اتنا مقدس  نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کی حدیث کو مشکوک سمجھتے تھے خصوصا جب کسی کی نقل کردہ حدیث قرآن کے مخالف ہوتی تھی چنانچہ عمرابن خطاب نے ابوہریرہ کو درے مارے اور حدیث نقل کرنے  سے منع کیا اور اس پر جھوٹ کی تہمت لگائی، لیکن وہ علما ہمیشہ مجھے یہ جواب دیتے تھے کی صحابہ کو ایک دوسرے پر اعتراض کرنے کا حق ہے لیکن ہم صحابہ کے ہم پلہ نہیں ہیں کہ ان کے اوپر اعتراض و تنقید کریں ۔
میں کہتا ہوں۔ اللہ کے بندو! انھوں نے ایک دوسرے سے جنگ کی ایک نے دوسرے کو کافر کہا اور بعض نے بعض کو قتل کیا ؟!وہ کہتے ہیں: وہ (صحابہ) سب مجتہد تھے پس ان میں سے جس کا اجتہاد صحیح تھا اس کو دو اجر اور جس کا اجتہاد غلط تھا اسے اجر ملیگا اور ہمیں ان کے حالات کی تحقیق کا حق نہیں ہے۔

انھیں یہ دعوی ان کے آباؤ  اجداد اور سلف سے خلف کو میراث میں ملا ہے۔ پس یہ بغیر سوچے سمجھے طوطے کی طرح وہی رٹتے ہیں جو انھیں رٹا دیا گیا ہے۔
اور جب ان کے امام غزلی کا خود یہی نظریہ ہے اور انھوں نے لوگوں کےدرمیانااسی کو  رواج دیا ہے تو حجت الاسلام بن گئے وہ اپنی کتاب " المستصفیٰ" میں لکھتے ہیں :  اور جس چیز پر سلف اورخلف جمہور ہیں وہ یہ ہے کہ صحابہ  کی عدالت ثابت ہے، خدا عزوجل نے انھیں عادل قرار دیا  ہے اور اپنی کتاب میں ان کی مدح کی اور ان( صحابہ) کے بارے میں یہی ہمارا اعتقاد ہے۔
مجھے غزالی اور عام اہل سنت والجماعت کے اس استدلال پر تعجب ہے جو  کہ وہ قرآن کے ذریعہ صحابہ کیعدلات پر کرتے ہیں جب کہ قرآن  میں ایک  آیت بھی ایسی نہیں ہے جو صحابہ کی عدالت پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کےبرعکس قرآن میں ایسی بہت سی آیات ہیں جو کہ صحابہ کی عدالت کی نفی کرتی ہیں اور ان کی حقیقتوں  سے پردہ ہٹاتی ہیں اور ان کے نفاق کا انکشاف کرتی ہیں۔
میں نے انی کتابِ " فالسئلوا اہل الذکر" میں اس موضوع سے متعلق پوری ایک فصل  معین کی ہے۔ تفصیل کے شائق مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ تا کہ انھیں صحابہ کے سلسلہ میں خدا و رسول(ص)  کے اقوال کا علم بھی ہوجائے ، تاکہ محقق کو یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ نے اپنی اس عظمت ومنزلت کا کبھی خواب نہیں دیکھا ہوگا جو کہ بعد میں اہل سنت والجماعت  کے ایجاد کی ہے۔ محقق پر واجب ہےکہ وہ حدیث و تواریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرلے جو کہ صحابہ  کے برے افعال سے بھری پڑی ہیں اور بعض کو کار قرار دے رہی ہیں اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ ان میں سے بعض اپنے منافق ہونے کے بارے میں شک کرتے تھے۔چنانچہ بخاری نے اپی صحیح میں روایت کی ہے کہ ابن ملیکہ نے تین اصحابِ نبی(ص) سے ملاقات کی اور تینوں کو اپنے منافق ہونے کا ڈرتھا اور کسی کو یہ دعویٰ نہیں کہ وہ جبرئیل کے ایمان پر قائم ہے۔(صحیح بخاری جلد۱، ص۱۷)
خود غزالی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ عمر ابن خطاب حذیفہ ابن یمان نے پوچھا کرتے

 تھے کہ رسول(ص)  نےجو تمھیں منافقین کے نام بتائے ہیں ان مین میرا نام تو شامل نہیں ہے۔( احیاء علوم الدین ۔ غزالی جلد۱،ص۱۲۹، کنز العمال جلد۷، ص۲۴)کسی کہنے ولاے کےاس قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ ، منافقین  کا صحابہ سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان کا الگ گروہ تھا جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر شخص جس کا رسول(ص)  پر ایمان اور اس نے آپ(ص) کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے چاہے وہ آپ(ص) کی مجلس میں نہ بیٹھا ہو۔ان کے اس قول میں کہ جو رسول(ص) پر ایمان رکھتا تھا، ضعف ہے کیوں کہ جو نبی(ص) کی صحبت میں رہتے تھے وہ کلمۃ شہادتین پڑھ لیتے تھے اور نبی(ص) بھی ان کےظاہری اسلام کو قبول فرماتے تھے چنانچہ آپ(ص) ہی کا ارشاد ہے، مجھے ظاہر پر حکم لگانے کا حکم دیا گیا ہے اور باطنی چیزوں کی ذمہ داری خدا پر ہے آپ(ص)  نے اپنی حیات مین کسی صحابی سے بھی یہ نہیں کہا کہ تم منافق ہو۔ لہذا تمھارا اسلام قابل قبول نہیں ہے!ہم تو نبی(ص) کو منافقین کو بھی اپنے صحابی فرماتے ہوئے دیکھتے ہیں جب کہ آپ(ص) ان کے نفاق سے واقف تھے بطور دلیل ملاحظہ فرمائیں۔
بخاری نے روایت کی ہےکہ عمر ابن خطاب نے رسول(ص) سے عبداللہ ابن ابی منافق کی گردن مار دینے کی اجازت طلب کی تو آپ(ص) نے فرمایا : جانے دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد(ص) تو اپنے اصحاب ہی کو قتل کررہے ہیں۔( صحیح بخاری جلد۶، ص۶۵، کتاب الفضائل القرآن سورہ منافقین، تاریخ ابن عساکر ج۴، ص۹۷)اہل سنت والجماعت کے بعض علما ہمیں یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ منافقین تو مشہور تھے تو ہم انھیں صحابہ میں نہ ملائٰیں یہ محال بات ہے جسے قبول کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے بلکہ منافقین صحابہ ہی کے درمیان موجود تھے کہ جن کے باطن کو خدا  ہی جانتا  ہے۔ اگرچہ وہ  نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، خدا کی عبادت کرتے تھے اور ہر طرح نبی(ص) کا تقرب ڈھونڈتے تھے ۔ بطور دلیل ملاحظہ فرمائیں۔بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ عمر ابن خطاب نے رسول(ص) سے اس وقت ذی خوبصرہ کی گردن مار دینے کی اجازت مانگی جب اس نے نبی(ص) سےکہا تھا کہ عدل سے کام لیجئیے لیکن نبی(ص) نے عمر سے فرمایا : جانے دو اس کے اور بہت سے ساتھی ہیں جو ک نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور قرآن

پڑھتے ہیں لیکن ان کے حلق سے نہیں اترتا اور دین سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔( صحیح بخاری،جلد۴، ص۱۷۹)
میری اس بات میں مبالغہ نہیں ہے کہ اکثر صحابہ منافق تھے جیسا کہ کتابِ خدا  کی متعدد آیتوں اور رسول(ص) کی متعدد حدیثوں نے یہ بات ثابت ہے۔ خدا وند عالم کا ارشاد  ہے:
( رسول(ص)) تو ان (صحابہ) کے پاس حق بات لے کر آیا ہے لیکن ان میں سے اکثر حق بات سے نفرت کرتے ہیں۔(مؤمنون/۷۰)
نیز ارشاد ہے۔
عرب کے گنوار کفر و نفاق میں بڑے سخت ہیں ۔( توبہ/۹۷)
دوسری آیت میں ہے:
اہل مدینہ میں سے  بعض نفاق پر اڑ گئے ہیں آپ(ص) انھیں نہیں جانتے ۔(توبہ/۰۱۰)
پھر ارشاد فرماتا ہے:
    مسلمانو! تمھارے پاس جو یہ گنوار بیٹھے ہیں ان میں سے بعض منافق ہیں۔(توبہ/۱۰۱)
مناسب ہےکہ س بات کی طرف اشارہ کردیا جائے کہ اہل سنت والجماعت کے بعض علما حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ وہ آیت میں واردلفظ اعراب یعنی وہ گنوار کے وہ تفسیر کرتے ہیں کہ صحابہ سے ان کا کوئی تعلق نہٰیں ہے بلکہ وہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں بسنتے والے صحرا نشین ہیں۔
لیکن عمر ابن خطاب کو مرتے وقت وصیت کرتے دیکھتے ہیں وہ اپنے بعد والے خلیفہ سے کہتے ہیں کہ میں اسے وصیت کرتا ہوں کہ وہ عرب کے گنور دیہاتیون کےساتھ نیکی سے پیش آئے  کیوں کہ وہی اصل عرب اور اسلام کا مادہ ہیں۔ ( صحیح بخاری جلد۴، ص۲۰۶)

پس جب اہل عرب اور مادہ اسلام  ہی کفر و نفاق پر آڑے ہوئے ہیں اور اسی قابل ہیں کہ جو کتابِ خدا نے اپنے رسول(ص) پر نازل کی ہے اس ے احکام نہ جانیں اور خدا تو جاننے والا اور حکمت والا  ہے۔ تو پھر اہل سنت والجماعت کی اس بات کا کوئی وزن نہیں رہ جاتا کہ تمام صحابہ عادل ہیں۔
وضاحت : قاری پر یہ ثابت ہوجائے کہ عام صحابہ ہی اعراب ، گنوار دیہاتی تھے جیسا اعراب کے کفر  ونفاق کے ذکر کے بعد کہ قرآن مجید میں نازل ہوا ہے۔
        " اور کچھ دیہاتی تو ایسے بھی ہیں جو خدا اور  روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے خدا کی بارگاہ میں  نزدیکی اور رسول(ص) کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں آگاہ ہوجاؤ واقعی یہ ضرور ان کے تقرب کا ذریعہ ہے خدا انھیں بہت جلدی اپنی رحمت میں داخل کرے گا بے شک خدا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (توبہ/۹۹)
رسول(ص) کا ارشاد ہے:
    میرے صحابی کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو میں عرض کروں گا : پروردگار یہ میرا صحابی ہے جواب آئے گا ، تم نہیں جانتے انھوں نے تمھارے بعد کیا کیا بدعتیں کی ہیں ۔ میں  عرض کروں گا  جس نے میرے  بعد بدعت کی خدا اسے غارت کرے، میں ان (صحابہ) میں سے کسی کو مخلص نہیں دیکھتا ہوں یہ چوپایوں  کی طرح ہیں۔ ( صحیح بخاری، جلد۷،ص۲۰۹، باب الحوض)
اور بہت سی احادیث ہیں جنھیں اختصار کے پیش نظر ہم نے نظر انداز کردیا ہے در حقیقت اس سے ہمارا مقصد صحابہ کی زندگی کی تحقیق نہیں ہے کہ جس سے ان کی عدالت پر اعتراض

کیا جائے اس سلسلہ میں تاریخ کافی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ان (صحابہ) میں سے بعض زناکار ، بعض شراب خور ، بعض مرتد اور بعض امت کے خیانت کار اور  نیکوکاروں کے حق میں ظالم تھے، لیکن ہم اس بات کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کل صحابہ کی عدالت والا مقولہ بے عقلی کی بات ہے جس کو اہل سنت والجماعت نے اپنے ان بزرگ اور سردار صحابہ کی پردہ پوشی کے لئے ایجاد کیا ہے کہ جنہوں نے دین میں بدعتیں ایجاد کیںاور اس کے احکام کو بدل ڈالا ۔
ایک مرتبہ پھر ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت والجماعت نے جو اپنی گردن میں تمام صحابہ کی عدالت کا قلادہ ڈالا ہے اس سے ان کی حقیقی صورت سامنے آگئی ہے آگاہ ہوجاؤ وہ ہے  منافقین کی محبت اور ان کی اس بدعتوں کی اقتداء جو کہ انھوں نے لوگوں کو جاہلیت کی طرف پلٹانے کے لئے تراشی تھیں۔
اس کے ساتھ اہل سنت والجماعت نے ان ( منافقین) کے اتباع میں صحابہ پر تنقید کرنے کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اپنے اوپر دروازہ اجتہاد بند کرلیا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ خلفائے بنی امیہ اور مذاہب کی ایجاد کے وقت سے چلی  آرہی ہے۔ ان کے پیروکاروں کو یہ عقیدہ میراث میں ملا اور وہ اپنے بیٹوں کے لئے بطور میراث چھوڑ گئے جس کا سلسلہ بعد نسل چلا آرہا ہے ۔اس طرح اہل سنت والجماعت صحابہ کے سلسلہ میں آج تک تحقیق کو منع کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور سب کو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اور جو شخص صحابہ میں سے کسی پر تنقید کرتا ہے اسے کافر کہتے ہیں۔
بحث کا خلاصہ :
اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والے " شیعہ" صحابہ کو وہی حیثیت و عظمت دیتے ہیں

 جس کے وہ مستحق ہیں وہ متقین صحابہ کو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔اور دشمنان خدا و رسول(ص) اور منافقین و فاسقین سے برائت کا اظہار کرتے ہیں اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ حقیقی اہل سنت ہیں۔ اس لئے وہ صحابہ میں سے ان سے محبت کتے ہیں کہ جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں۔ اور خدا و رسول(ص) کے ان دشمنوں سے برائت کرتے ہیں کہ  جنھوں نے مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ کیا ہے۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک