کیا اسلام پر عمل مشکل ہے؟
یہ وہ دعوی ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں اور جو بھی اس طرح کا دعوی کرے وہ یا تو جاہل اور بے وقوف ہے یا اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا ہے یا پھر اسلام کا دشمن ہے۔ اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کوشش میں ہےکہ لوگ اپنے دینی احکام سے دست بردار ہوجائیں۔
یا آخری صورت یہ ہے کہ وہ غلو کرنے والا دقیانوس ہے۔ جو ضدی فقہا کے علاوہ اور کسی کے نظریہ کو قبول نہیں کرتا جنہوں نے لوگوں پر خدا کی پرستش کو حرام کر ڈالا اور خود کو لوگوں کے لیے خدا کا جانشین مقرر کردیا ہے۔ لہذا یہ اپنی عقل یا اپنی مخصوص روایتوں کے تحت حلال وحرام کرتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں!
اس کے متعلق جو جملہ سب سے پہلے کہنا چاہیئے آںحضرت(ص) کا کلام ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
آسانی پیدا کرو اور لوگوں پر سختی نہ کرو۔ بشارت دو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔
خود پر بھی سختی بہ کرو تاکہ خداوند عالم تم پر سختی نہ کرے۔ جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔
اور اکثر اپنے اصحاب کے درمیان فرماتے تھے:
میں نہ تمھارے لیے بدبختی اور بیچارگی چاہتا ہوں اور نہ ہی ذلت و رسوائی۔ بلکہ مجھے تو خدا نے آسانی چاہنے والے معلم کی صورت مبعوث فرمایا ہے۔
اور یہ مشہور ہے کہ آںحضرت(ص) جب وہ باتوںکے درمیان کوئی چیز اختیار کرنا چاہتے تو سب سے آسان کو اختیار فرماتے تھے۔
اور اسی طرح جیسا کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) شارع نے تھے۔ آنحضرت(ص) کی امر و نہی سوائے پروردگار عالم کی تبلیغ کے اور کچھ نہیں تھی۔ آںحضرت(ص) جو کچھ پروردگار عالم کا حکم ہوتا اسے بغیر کسی کمی یا زیادتی کے لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ اور جو کچھ کہتے سوائے وحی الہی کے کچھ اور نہ ہوتا۔ اس لیے کہ وہ اپنی خواہش نفس کی بنیاد پر گفتگو نہ کرتے تھے بلکہ سب وحی ہوتی تھی۔
” وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَىإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى“(نجم⁄۴۔۳)
اب ہم قرآن سے استفتا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام مشکل و دشوار ہے؟ قرآن کے شروع کے مطالعہ میں ہی ہم اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ مشقت و تکلیف کو اپنے بندوں سے ختم کرتا ہے اور ان کے لیے ہرگز حرج مرج نہیں چاہتا۔ وہ فرماتا ہے:
خدا نے تم کو منتخب کیا اور تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی مشقت و تکلیف کو قرار نہیں دیا۔ ( حج⁄۷۸)
اور دوسری جگہ فرماتا ہے:
خدا تمہارے لیے ہرگز سختی و مشکل نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے ہے تمہیں ( آلودگیوں سے) پاک رکھے اور تم پر اپنی نعمت (دین اسلام) کو تمام کرے تاکہ تم شکر گزار رہو۔(مائدہ⁄٦)
اور ایک مقام پر فرماتا ہے:
خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشکل وسختی۔ (بقرہ⁄۸۵)
یہ آیات امت اسلامی سے مربوط ہیں جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا ہے اور عبادات و معاملات میں اس کے احکام قوانین کو اختیار کیا ہے لیکن پروردگار رحمت سبھی کے شامل حال ہے چاہے وہ کسی بھی دین و آئین کا پیرو ہو۔ وہ سب ہی پر مہربان ہے اور اس نے کبھی بھی کسی کو مشقت میں نہیں رکھا۔
خداوند عالم انسان کی خلقت کے متعلق فرماتا ہے:
اس نے اسے نطفہ کیا پھر راہ کو اس پر آسان کردیا۔ ( عبس⁄۱۹)
لہذا الہی راہ جسے انسان اپنی زندگی میں کوشش کے ساتھ طے کرتا ہے تاکہ اس کی طرف پلٹ سکے بہت ہی آسان راہ ہے اس میں ذرا بھی مشقت اور دشواری نہیں ہے۔
خداوند عالم نے اپنی کتاب میں چار جگہ انسان کو آسان باتوں کے لیے مکلف کیا ہے اور فرمایا ہے:
۱۔ خداوند عالم نے سکی کو بھی اس کی توانائی سے زیادہ حکم نہیں دیا ہے ( بقرہ⁄۲۸٦)
۲۔ کسی کو بھی اس کی قوت سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔( انعام⁄۱۵۲)
۳۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور اپنی توانائی کے مطابق نیک عمل انجام دیا۔ بے شک ہم کسی کو بھی اس کی قدرت سے زیادہ مکلف نہیں کرتے۔(اعراف⁄۴۲)
۴۔ اور ہم سکی شخص کو س کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہی نہیں اور ہمارے پاس تو لوگوں کے (اعمال کی) کتاب موجود ہے جو بالکل ٹھیک (حال) بتاتی ہے اور لوگوںکی ذرہ برابر حق تلفی نہیںکی جائے گی۔ ( مومنون⁄٦۲)
ان آیات شریفہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم نے کسی بھی شخص کو اس کی توانائی سے بڑھ کر تکلیف نہیں دی ہے اور یہ حضرت آدم(ع) کے زمانہ سے لے کر ابھی تک رہا ہے۔
اب اگر دین میں سختی پیدا ہوگئی ہے تو یہ لوگوں کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جنہوں نےشریعت کے اعلی مقاصد کو اپنی فہم کے مطابق تاویل کیا ہے یا پھر بعض بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ پھر اپنے کو مشقتوں میں مبتلا کرتے تھے اور تکلیف دیتے تھے تاکہ شاید خداوند عالم انہیں بخش دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ لہذا انہوں نے کچھ باتیں ایجاد کیں اور اپنے نفس پر سختی کی۔ خداوند عالم نے بھی ان کے لیے ان امور کو لازم و ضروری قرار دیا گرچہ آخر کار انہوں نے اسے پورا نہ کیا۔
اس کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے:
اور رہبانیت ( لذات سے کنارہ کشی) کی ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ مگر ( ان لوگوں نے) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خود ایجاد کر لیا) تو اس کو بھی جیسا بناہنا چاہیئے تھا نہ بناہ سکے۔( حدید⁄۲۷)
یہی وہ مقام ہے جہاں رسول خدا(ص) کا کلام نظر آتا ہے کہ :
اپنے آپ پر سختی نہ کرو تاکہ خدا بھی تم پ رسختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔
اس منطق کو پیش نظر رکھنے کے بعد خداوند عالم کا کلام بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جسے اس نے رسول اکرم(ص) کے متعلق فرمایا ہے:
( وہ نبی(ص)) جو انہیں اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک او پاکیزہ چیزیں ان پر حلال اور ناپاک اور گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے اور وہ ( سخت احکام کا) بوجھ جو ان کی گردنوں پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر (پڑے ہوئے) تھے اسے ہٹا دیتا ہے۔ (اعراف⁄۱۵۷)
لہذا انہوں نے خود یہ قید و بند اپنے لیے تیار کر رکھی تھی۔ خدا نے ایسا نہ کیا تھا۔
اس بحث سے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ دین اسلام میں کسی قسم کی مشقت، سختی، مشکل اور قید وبند نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سہل اور آسان دین ہے جو بندوں کے لیے سوائے رحمت و مہربانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہےجس نے ہمیشہ انسانوں کی جسمانی اور روحانی کمزوری کا پاس رکھا ہے جیسا کہ خود فرماتا ہے:
خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے بے شک انسان کمزور خلق ہوا ہے( نساء⁄۲۸)
اور تم پر یہ تمہارے پروردگار کیرحمت تضفیف کی وجہ سے ہے (بقرہ⁄۱۷۸)
اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اہل بیت(ع) کی شناخت کے مطابق اور عام مجتہدوں کے اجتہاد اور مشکل پرستوں کی مشقت سے قطع نظر اسلام کیسا سہل و آسان دین ہے کہ آج کا انسان بھی دیگر زمانوں کے انسانوں کی طرح بغیر کسی سختی اور مشکل کے اسلام کو اپنی دنیا وآخرت کےلیے منتخب کرسکتا ہے۔