شیعہ ! قرآن کریم کی روشنی میں
خداوند عالم فرماتا ہے :
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
( سورہ البینہ⁄۷)
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی سب سے بہتر ہیں۔
جلال الدین سیوطی ( عظیم اہل سنت عالم) اپنی معروف تفسیر ( الدر المنثور فی تفسیر الماثور) می اس آیت کی تفسیر یوں تحریر کرتے ہیں:
ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ کیا خدا کے نزدیک فرشتوں کے مقام منزلت پر تعجب کرتے ہو؟ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بہ تحقیق روز قیامت خدا کے نزدیک بندہ مومن کا مقام فرشتوں سے کہیں بالاتر ہوگا اور اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو:
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
حضرت عائشہ کہتی ہیں :
میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سوال کیا: خدا کےنزدیک سب سے با منزلت کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتیں :
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں :
ہم رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی(ع) وارد ہوئے تو رسول خدا(ص) نے فرمایا : جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم یہ اور اس کےشیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔ اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
اس کے بعد جب بھی اصحاب رسول(ص)، علی(ع) کو آتے دیکھتے تو کہتے خير البرية آئے۔
ابو سعید کہتے ہیں :
علی(ع) (خير البرية) اور لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں :
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : بے شک روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ خداسے راضی اور خدا تم سے خوشنود ہے۔
حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:
رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے خدا کے اس کلام کو نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے :
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
( اس سے مراد) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔۔۔ ہمارا وعدہ حوض کوثر ہے اس جگہ ساری امتیں حساب وکتاب کے لیے آئیں گی اور تم اور تمہارے شیعہ خوبصورت اور عزت کے ساتھ وارد ہوں گے۔
جن اہل سنت علماء نے اس تفسیر کو بیان کیا ہے وہ بکثرت ہیں بطور مثال جلاالدین سیوطی کے عالوہ طبری نےاپنی تفسیر میں حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، شوکانی نے فتحالقدیر میں، آلوسی نے روح المعانی میں، مناوی نے کنوز الحقائق میں اسے بیان کیا ہے اس طرح خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، شبلنجی نے نور الابصار میں، ابن الجوزی نے تذکرة الخواص میں، قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں، متقی ہندی نے کنز العمال میں اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ میں بھی یہی تفسیر بیان کی ہے۔
اس محکم اور معقول دلیل کے بعد کوئی سبب نہیں کہ تحقیق کرنے والے ان بعض تاریخ نگاروں کی بات پر قانع اور مبمئن ہوجائیں جو معتقد ہیں کہ تشیع کی پیدائش امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد ہوئی ہے۔