شیعہ آنحضرت(ص) کے اقوال میں
رسول خدا(ص) نے شیعوں کے متعلق بارہا گفتگو کی ہے اور ہر مرتبہ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے ہی کامیاب ہیں چون کہ انھوں نے حق کی پیروی کی ہے اور حق کی مدد کی ہے، باطل سے دور رہے ہیں اور اسے ذلیل کیا ہے۔
اسی طرح آںحضرت(ص) نےتصدیق کی ہے کہ علی(ع) کے شیعہ ہمارے شیعہ ہیں ہم اس جگہ اس حدیث پر تکیہ کرتے ہیں جسے ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے۔ اور دیگر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا:
” کیا تم خوش نہیں ہو کہ حسن(ع) و حسین(ع) کے ہمراہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوگے۔اورہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری عورتیں ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ ہمارے داہنے اور بائیں ہوں گے۔“
آںحضرت(ص) نے کئی مرتبہ علی(ع) اور ان کےشیعوں کو یاد کیا اور فرمایا :
اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ (علی(ع)) اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔
اور یہ فبری بات ہے کہ آںحضرت(ص) حق کی پیروی کرنے والوں کو یاد کریں اور ان کی صفات بیان کریں کہ وہ ہر زمانہ میں پہچانے جاسکیں تا کہ مسلمان پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھاسکیںاور نزدیک ترین راستے سے ہدایت پاسکیں۔
آںحضرت(ص) کے ہی پیہم تذکرہ کے پیش نظر بزرگ اصحاب کے ایک گروہ نے قفات رسلو(ص) کے بعد علی(ع) کی پیروی کی اور بنام شیعہ مشہور ہوگئے ۔ ان میں حضرت سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، حذیفہ بن یمان، مقداد بن اسود سہر فہرست ہیں حتی کی فقط شیعہ ان کا لقب بن گیا۔ جیسا کہ ڈاکٹر مصطفی شیمی اپنی کتاب ( الصلة بين التصوف و التشيع) اور ابو حاتم اپنی کتاب ( الزينة) میں رقم طراز ہیں۔
ابوحاتم کہتے ہیں :
اسلام میں جس مذہب کا سب سے کم نام ہوا وہ شیعہ ہے اور یہ اصحاب کے ایک گروہ کا لقب بھی تھا جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، مقداد بن اسود وغیرہ۔۔۔
اس طرح مستشرقین کا یہ شبہ غلط ثابت ہوجاتا ہے جس کی پیروی بعض مسلمان محقیقن نے بھی کی کہ تشیع کا وجود میں آنا ایک سیاسی مسئلہ تھا جسے امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے سیاسی حالات نے پیدا کیا تھا۔
اسی طرح ان دشمنوں کی نادانی بھی کھل جاتی ہے جو تشیع کو ایرانیوں سے وابستہ کرتے ہیں۔
اس لیے کہ اس سے ان کا جہل و تعصب ظاہر ہو جاتا ہے۔
پھر یہ محققین امام علی(ع) کی زندگی میں ان کے اصحاب کے تشیع کی کس طرح تفسیر کرتے ہیں؟ اور یہ کس طرح بیان کرتے ہیں کہ آغاز اسلام اور جنگ جمل و صفین میں کوفہ شیعوں کا مرکز تھا؟
یہ خود غرض دشمن کس طرح بیان کرتے ہیں کہ عربی اور افریقی ممالک میں شیعہ حکومتیں موجود تھیں۔ جیسے شمالی افریقہ میں مراکش، تیونس، مشرق میں مصر و حلب جب کہ اس وقت ایران تشیع سے آشنا تھی نہ تھا۔ اس لیے مراکش میں اوریسیوں کی حکومت دوسری ہجری میں تھی اور تیونس میں فاطمیوں کی حکومت تیسری ہجری کے خاتمہ پر تھی اسی طرح تیسری ہجری کے اواسط میں فاطمیوں کی مصر پر حکومت تھی ۔ اور حلب(شام) اور عراق میں شیعہ حمدانیوں کی حکومت ؟؟؟؟ہجری میں تھی جب کہ ایران میں صفویوں کی حکومت دسویں ہجری میں قائم ہوئی؟؟؟؟؟ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تشیع کے آغاز کو ایرانیوں سے وابستہ سمجھیں۔
ہم نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں ذکر کیا ہے کہ اکثریت اہل سنت علماء اور ائمہ ایرانی تھے۔ اور یہ کہ شیعہ نہ تھے بلکہ شیعوں اور تشیع کی نسبت شدید تعصب کا اظہار کرتے تھے بس یہی جان لینا کافی ہے کہ اہل سنت کے سب سے بڑے مفسر زمخشری ہیں اور وہ ایرانی ہیں اور ان کے سب سے بڑے محدث بخاری و مسلم بھی ایرانی ہیں اور ابوحنیفہ جنھیں اہل سنت امام اعظم کہتے ہیں یہ بھی ایرانی ہیں ان کا نحوی امام سیبویہ ایرانی ہے۔ امام المتکلمین واصل بن ؟؟ ایرانی ہے۔ امام لغت، فیروز آبادی ( صاحب قاموس المحیط) ایرانی ہے۔ فخر رازی ، ابن سینا، ابن رشد سبھی تو ایرانی ہیں اور یہ سب کے سب اہل سنت کے علماء اور پیشوا سمجھتے جاتے ہیں۔
اے کاش ! اس روز، تمام مسلمان شیعہ ہوجاتے !
عید غدیر نہایتہیباعظمتاورعظیم عیدوں میں شمار ہوتی ہے۔
دنیا کے مشرق و مغرب میں مسلمان دو عیدوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ پہلی عید، عید فطر جہے جو ماہ مبارک رمضان کے بعد آتی ہے اور دوسری عید، عید الاضحیٰ ہے جو اعمال حج کے بعد آتی ہے۔
بسلمانوں نے شروع سے لیکر اب تک ان دونوں عیدون کو محفوظ رکھا ہے اور اس موقع پر تمام عالم میں جشن مناتے ہیں تیسری بڑی عید، جسے عید ” غدیر“ کہتے ہیں یہ وہی دن ہے جب دین کامل ہوا اور خدا کی نعمت مسلمانوں پر تمام ہوئی لیکن افسوس کہ اس میں انھوں نے اختلاف کیا۔
محققین تاریخ کو اس کا اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی علت وفات رسول(ص) کے بعد سقیفہ بنانے والوں کی سیاسی سرگرمیاں تھیں ، انھوں نے خدا اور رسول (ص) کی جانب ںصوص کے مقابل اجتہاد کیا اور اپنی ذاتی رائے پر مسلمانوں سے زبردستی عمل کرایا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں امیر المومنین علی(ع) کو ایک طرف کر دیا گیا، گرچہ ںصوص کے مطابق وہ واقعی خلیفہ تھے اور ان کی جگہ پر وہ خلیفہ بنا جسے قریش نے نفسانی خواہشات کی بنیاد پر چنا تھا۔ وفات حضرت رسول(ص) کے بعد یہ سب سے تلخ واقعہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان پیش آیا اور جس نے انھیں مصیبت سے دوچار کیا اور حق و باطل، جاہلیت و اسلام کے درمیان پیکار کی ابتدا کا باعث بنا۔
بے شک یہ آیت کریمہ جس میں خدا فرماتا ہے:
محمد(ص) سوائے رسول کے کچھ نہیں ہیں ان سے پہلے بھی رسول بھیجے گئے پس اگر (محمد(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں ( اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے۔ ( آل عمران⁄۱۴۴)
اس کا عید غدیر سے براہ راست رابطہ ہے۔
رسول خدا(ص) نے عید غدیر کا جشن منایا جس وقت پروردگار عالم نے آنحضرت(ص) کو حکم دیا کہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنادیں اور امت پر اچھی طرح واضح کردیں۔ چنانچہ حاضریں غدیر کی جب علی(ع) کے ہاتھوں پر بیعت ہوچکی اور آںحضرت(ص) نے بھی مبارک باد دے دی اور جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔
”الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتمَْمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتىِ وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَامَ دِينًا“ ( مائدہ⁄ ۳)
آج ہم نے تمہارے دین کو کمال کی منزل پر پہنچادیا تم پر اپنی نعمتیں تما کردیں اور دین اسلام کو تمہارے لیے بہترین دین و آئین قرار دیا تو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :
اللہ اکبر! اس خدا کا شکر جس نے میرے دین کو کامل کیا اور مجھ پر نعمتیں تمام کیں اور میرے بھائی اور چچا کے بیٹے کی ولایت سے راضی ہوا۔
چنانچہ مبارک باد کے لیے اسی روز ایک خیمہ ںصب کیا گیا اور حاضرین میں عورتوں اور مردوں میں کوئی نہ بچا جس نے علی(ع) کو ان کی ولایت پر مبارکباد نہ دی ہو۔
لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے اس الہی عید کے عظیم جشن کے ٹھیک دو ماہ بعد امت اپنی بیعت سے پلٹ گئی۔ اور اس عید اور صاحب عید کو بھلا بیٹھی اور ایسے کو اپنے لیے منتخب کر لیا جو خدا کو منظور نہ تھا۔ اور بہانہ کے لیے کبھی بزرگی اور کم سنی کو پیش کرتے تو کبھی کہتے بنی ہاشم کو نبوت جیسا عظیم شرف حاصل ہے لہذا یہ مناسب نہیں ہے کہ خلافت بھی انہیں کے درمیان رہے۔ اور کبھی یہ بہانہ کرتے کہ قریش ہرگز اس شخص کو اپنا امیر نہیں بناسکتے جس نے ان کے بہادروں کو قتل کیا ہے اور ان کے باحیثیت افراد کو موت گھاٹ اتارا ہے اور ان کی ناک مٹی میں رگڑ دی ہے۔
ہاں! فرزند ابوطالب(ع) کا کوئی گناہ نہیں، اگر ہے تو بس یہی کہ اس نے خدا کی رضا وخوشنودی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی، اور نصرت دین کی خاطر ہر چیز کو قربان کردیا وہ دین جو اس کے بھائی اور چچا کے بیٹے کا لایا ہوا تھا لہذا اسے کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں، وہ اپنے ارادہ وعزم کا مال دنیا سے معاملہ نہیں کر سکتا۔
میں ہرگز امام علی(ع) کے فضائل و مناقب کو شمار نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی خصوصیات اور امتیازات اکی وضاحت کرسکتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا پہلے ہی سے علم ہے کہ اگر سمندر میرے پروردگار کے کلمات کے لیے روشنائی ہوں اور اشجار قلم ہوں تو سمندر سوکھ جائیگا لیکن میرے پروردگار کے کلمات تمام نہ ہوں گے۔
اس عظیم شخصیت کی شرافت اور فخر و مباہات کےلیے یہی کافی ہے کیہ خدا نے اپنے دین کو ان کی ولایت و امامت سے کامل کیا ہے اور اپنی نعمت کو ان کی خلافت پر تمام کیا اورجن مسلمانوں نے ان کی خلافت کو دل و جان سے قبول کیا ان سے خدا خوشنود ہوا۔
آپ ک عزت و فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ رسول خدا(ص) نے آپ(ع) کو امام المتقین، مسلمانوں کا سید و سردار، مومنین کے لیے امیر اور دین و ایمان کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔
میں ہرگز اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ عید غدیر کی صحت اور اس کی سچائی پر برہان و دلیل پیش کروں۔ اس لیے کہ پوری امت اسلامیہ اس واقعہ کی صحت و سچائی پر ایمان رکھتی ہے اور اسے نقل کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ صرف شیعہ اس روز جشن مناتے ہیں اور اہل سنت اپنی خواہش کے مطابق اس کی تاویل کرتے ہیں۔
ہم جشن منانے والوں کی گفتگو سے بھی آگاہ ہوئے ، اور تاویل کرنے والوں کی باتوں سے بھی اور ولایت قبول کرنے والوں کے عقیدہ کا بھی مطالعہ کیا۔ انھوں نے واضح نص کے ذریعہ یہ سمجھا کہ امامت اصول دین کی ایک اصل ہے۔ اور ان کے مخالف گروہ کے عقیدہ پر بھی ہم نے بحث کی اور معلوم ہوا کہ انھوں نے نصوص کی تاویل یوں کی ہے : یہ محمد(ص) کی اپنے داماد اور چچا زاد بھائی کے متعلق سوائے ایک رائے اور نظر کے کچھ اور نہ تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس طرح علی(ع) کی نسبت ان کے دشمنوں کے دل نرم ہوجائیں۔
ہم ان کے پیروؤں کے مطمح نظر سے واقف ہوئے کہ جو فقیر اور نادار افراد تھے۔ چنانچہ مخالفین اور دشمنوں کی حالت کا بھی اندازہ ہوا جو کہ ثروت مندوں اور مستکبروں کا ایک بڑا گروہ تھا اور ان کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے اہل بیت رسول(ص) کی حرمت کے ساتھ بھی ہتک کی اور صرف سیدة الاوصیاء حضرت علی(ع) پر حملہ کرنے پر اکتفا نہ کی بلکہ سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا(س) کی بھی اہانت کی اور خاندان نبوت کے خلاف شدید جنگ کا آغاز کردیا جو ناکثین، قاسطین اور مارقین کی جنگ کی صورت میں تمام ہوئی۔
آخر کار امام کو محراب نماز میں شہید کیا اور شکر کا سجدہ بجا لائے۔ان مخالفین نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ آپ کےدونوں فرزند جو جوانان جنت کےسردار ہیں ان کو بھی شہید کردیا۔ امام حسن(ع) کو زہر کے ذریعہ امام حسین(ع) کو ان کے روشن ستاروں کےساتھ کربلا میں قتل کرڈالا۔
اس مقام پر سمجھ میں آجاتا ہے کہ عید غدیر اس امت کےلیے امتحان تھی لیکن افسوس یہ متفرق ہوگئی اور اختلاف سے دوچار ہوئی اور اس طرح ٹکڑوں میں بٹ گئی جیسے یہود نصاری نے اختلاف کیا تھا، رسول اسلام(ص) نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
یہ بھی ہم پر واضح ہو گیا کہ امامت جو اصول دین کی ایک اصل کنارے چھوڑ دی گئی اور اس سے نفرت کی جانے لگی۔ اور اس کے اہل افراد سوائے صبر وشکیبائی کے کچھ نہیں کرسکتے تھے اور اس کی جگہ بغیر سوچے سمجھنے اسی جھوٹی امارت کھڑی کردی کہ جس کے شر کو مسلمانوں کے سر سے سوائے خدا کے کوئی اور ختم نہیں کرسکتا ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آزاد کئے جانے والے ( طلقاء) اور مفسدوں نے بھی اس کی ہوس کر لی۔ اور جس کشتی نجات کو آںحضرت(ص) نے درست کیا تھا اور چلنےکے یے تیار کردیا تھا اس پر کچھ مخلص بندوں کے سوا کوئی سوار نہ ہوا اور تمام مسلمان دنیا کی محبت و ریاست کی خواہش میں ڈوب گئے اور جو ائمہ ہدایت اور راہنما تھے ان کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ ایسے خود پسدند راہ و مذہب کے پیرو بن گئے جس پر کتاب خدا اور سنت رسول(ص) سے قیامت تک کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔
یہ تھا عید غدیر اور صاحب غدیر کی سر گذشت کا خلاصہ اور غدیر کے بعد جو سازش کی گئی اسے بھی وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ میری دوسری کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کا مطالعہ فرمائیں۔
فی الحال چاہے ہم سنی ہوں یا شیعہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم بھی تاریخ کی قربانی ہیں بلکہ ایک ایسی سازش کی قربانی جس کا نقشہ دوسروں نے تیار کیا اور اس کی داغ بیل ڈالی بلا شبہ ہم بھی طبیعت کے مطابق پیدا ہوئے، ہمارے شیعہ یا سنی ہونے کا سبب اور ہدایت و گمراہی کا باعث ہمارے والدین ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جس گمراہی و اںحراف کو چودہ(۱۴) صدیاں بیت چکی ہوں اس کا کچھ برسوں میں ختم ہونا ممکن نہیں ہے اور جو بھی یہ خیال کرتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ معصوم ائمہ(ع) نے امام علی(ع) سے لیکر امام حسن عسکری(ع) تک اپنی پوری توانائی کے ذریعہ امت میں اتحاد پیدا کرنے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کی کوشش کی اور اس راہ میں اپنی جان قربان کی اور اپنے نونہالوں کو بھی فدا کردیا تاکہدین محمد(ص) قائم رہے لیکن زیادہ تر لوگوں نے کفران نعمت کیا اور ان سے منہ موڑ کر حق کو پامال کردیا۔
اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ اصلاح کرنے والوں اور سچے مومنین سبھی کی کوششیں ناکام ہوئیں اور مسلمانوں کے اتحاد کی تمنا، جہل و نادانی اور اندھے تعصب کے پتھر سے ٹکرا کر رہ گئی۔ قومیتوں کے پہاڑ ، گوناگون نسلیں، اور مختلف حخومتیں، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے پس پشت ہمارے دشمن بھی ہیں جن کی محبت و دوستی کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رسول(ص) کی رسالت کے زمانہ سے لے محبت تک پوری قوت کے ساتھ ہمیشہ اس کی کوشش میں رہے ہیں کہ نور خدا کو خاموش کردیں۔
اور ان کے پیچھے بھی کچھ اورموقع پرست لوگ ہیں جو سوائے اپنے فائدہ کے اور کچھ نہیں سوچتے بلاشبہ مسلمانوں کا اتحادان کے مبافع کے لیے بڑا خطرہ ہے لہذا ان کی ہمیشہ یہی کشش رہتی ہے کہ لوگوں میں تفرقہ ڈال کر انھیں ہانٹ دیں۔
ان کے علاوہ ابلیس ملعون بھی تو بیکار نہیں بیٹھا ہے وہی تو ہے جس نے خداوند عالم سے کہا تھا:
میں یقینا تیرے بندوں کے راہ راست اور صراط مستقیم سے گمراہ اور منحرف کردوں گا۔ ( اعراف⁄۱٦)
یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وقت کافی گذر چکا ہے چودہ صدیاں بیت گئیں اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں۔ ہماری عقلوں پر دنیا کی زینت و ہوس نے غلبہ کررکھا ہے اور ہماری فکروں کو لاعلاج بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے دشمن علم اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مسلسل ترقی کررہے ہیں اور ہم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمارا خون بہا رہے ہیں ، ہماری دولت لوٹ رہے ہیں اور ہمیں ذلت و رسوائی کی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ ان کا دعوا یہ ہے کہ ہم ( مسلمان) پسماندہ ہیں۔ ہمیں متمدن بنانا چاہئے۔ ہم وحشی جانور ہیں جسے رام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے سارے راستے بند کر ڈالے گئے اور ہماری سانسوں کو بھی مقید کر دیا گیا، حتی کہ اگر ہم میں سے کسی کو چھینک بھی آجائے تو اس کا بھی ہزار طرح سے حساب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مصدر جو کہ زکام یا نزلہ ہے اسے مشخص کرو ایسا نہ ہوکہ انھیں بھی لگ جائے اور وہ بیمار ہوجائیں اور علاج مشکل ہوجائے۔
یہ سب اس لیے ہے کہ جب باتوں کا اسلام نے حکم دیا تھا انھوں نے اس پر عمل کیا اور اسے سیکھ لیا لیکن ہم نے خدا کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا اور ان پر توجہ نہ دی۔ اس سے زیادہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔
ہاں آج ہم نیند سے اٹھ بیٹھے ہیں لیکن کیسا جاگنا ! ہم نے اتحاد کے نغمہ پر تالیاں بجانا اور ناچنا شروع کردیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس بات کا معتقد ہے کہ ہم ہی اتحاد کے علمبردار ہیں اور یہ سمجھ لیا کہ چند کانفرنسوں یا چند نعروں کے ذریعہ امت میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔
میں نے جس روز اس دنیا میں آنکھ لھولی اسی روز لفظ اتحاد میرے کانوں سے ٹکرایا اور مدرسہ کے پہلے دن سب سے پہلے اتحاد کی نظم پڑھی لہذا اس کےمعنی میری رگ دپئے میں رچ بس گئے تھے۔ اور جیسے جیسے میں جوان ہوتا جاتا تھا اتحاد کا خواب دیکھتا تھا لیکن آج ہماری عمر پچاس سال سے زیادہ ہوگئی اور اتحاد کی کوئی تصویر اور خیال تک نظر نہیں آیا۔
مسلمانوں کی یکجہتی و اتحاد سے نامیدی و مایوسی کے بعد میں نے اسی اتحاد پر اطمینان کرلیا تھا جو دو پڑوسی ملک مصر اور شام کے درمیان پیدا ہوا تھا۔ لیکن جس صبح میںاس اتحاد پر خوشحال ہوا اسی شب اس پر رویا بھی۔ البتہ دونوں قومیں ساتھ ہیں اور سوائے حکومتی قوانین کی کوئی بھی چیز ان کو ایک دوسرے سے جدا نہ کرے گی۔ اور اسی روز ہماری سمجھ میں آیا کہ قوموں کی سرنوشت کچھ گئے چنے افراد کے ہاتھوں میں ہوا کرتی ہے۔ اور وہ جس طرح چاہتے ہیں نچاتے ہیں۔ لہذا تم دیکھو گے کہ وہی جو کل تک ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے اور ایک دوسرے کی پیشانی چومتے تھے آج ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور جنگ میں مصروف ہیں۔
جب دشمنوں کے پاس اس درجہ قدرت و نفوذ ہے کہ وہ ان قوموں کے اتحاد کو اختلاف میںبدل سکتے ہیں جو سینکڑوں سال سے متحد تھیں، اور ان کے اندر بخش و تناؤ پیدا کرسکتے ہیں جب کہ یہ قومیں با قدرت اور متحد تھیں پھروہ ان اسلامی قوموںکو ہرگز نہ چھوڑین گے۔جو سینکڑوں سال سے اختلاف و پراکنگی کا شکار ہیں اور اب متحڈ ہونے کی فکر میں ہیں یہ اتحاد ان کےمنافع کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ گرچہ یہ قومیں فقر،پسماندگی اور ڈھیروں قرضوں کےنیچے دبی ہوئی ہیں۔
خیر اگر ہم فرض لرلیںکہ اتحاد بھی پیدا ہوگیا تو ہم اس فقیری وجہالت کے ساتھ کیا کرسکتے ہیںاور اگر ہم استعمار کرنے والوں کو ترک کرنے اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی فکر میں ہیں تو ہمیں چاہئے کہ اس طاقت سے بہرہ ور ہوں جو ستمگروں کی جڑ کاٹ دے اور مفسدوں کو نیست و نابود کرسکے لیکن یہ بھی کیسے ممکن ہے ہم تو مسلسل انھی سے ہتھیار خریدے جارہے ہیںجس کا استعمال ملت اسلامیہ کے زحمت کش فرزندوں اور مسلمانوں کی نابودی کی خاطر ہوتا ہے۔
اگر ہم ایک روز آگے بڑھیں تو وہ ساتھ سال آگے بڑھ جاتے ہیں اور اگر ان سے مقابلے کےلیے کوئی ایک قوت پیدا کریں تو وہ اس طرح کی ستر(۷۰) قوتین ہماری نابودی چاہیں تو انھیں ہمارے مقابلہ میں کوئی خاص زحمت و مشکل نہ ہوگی اس لیے کہ وہ ہمارے دیگر مسلمان اور عرب بھائیوں کو چڑھائیں گے اور ہمیں آپس میں ہی لڑا کر ایک دوسرے کو خان بہانے میں لگا دیں گے اور خود دور سے تماشا دیکھیں گے اور تالی بجائیں گے۔
خلیج فارس کی جنگ ہمارے کانوں اور ہماری آنکھوں سے زیادہ دور نہیں۔ کل ہی تو تھا کہ اس جنگ میںکفار کےصرف کچھ فوجی قتل ہوئے لیکن دوری طرف لاکھوں مسلمان زندہ در گور ہوگئے۔ اور جو شخص یہ دعوی کرتا تھا کہ میں اسرائیل کو جلا کر راکھ کردوں گا اور بعض نادانوں کو اس کا یقین بھی ہوگیا تھا اورجس نے خود اپنے عوام کو کیمیکل ہتھیاروں کے ذریعہ نانود کرنا شروع کردیا اور ان کے خائن و ظالم فوجیوں سے مسجد اور مقامات مقدسہ بھی محفوظ نہ رہ سکے وہ کفار کے مقابل۔ بزدلوں اور ڈرپوکوں کی طرح پیچھے ہٹ گیا اور میدان خالی چھوڑ گیا۔ اسلامی جمہوری ایران اور اس کے دلاور مردوں نے پوری طاقت و توانائی، جدوجہود اور اپنے فرزندوں کے خون کی سنگین قیمت ادا کر کے اور مشرق و مغرب کی دشمنی، بین الاقوامی ناکہ بندی مول لے کر مسلمانوں کےھ اتحاد کے لیے قیام کیا۔ اور بالآخر اس کے رہبر اور بانی ( آپ پر خدا کی رحمت ہو) نے دنیا سے رحلت فرمائی جبکہ آپ کی جانب سے اسلامی اتحاد کی دعوت پر مسلمانوں کے لبیک نہ کہنے پ رآپ کو افسوس تھا۔ اسی طرح جیسے آپ کے جد امام المتقین کی رنج ملا تھا یہ امام خمینی کے جاودانی اقوال کا ایک حصہ ہے آپ نے فرمایا:
(اگر مسلمانوں کا ہر فرد مل کر تھوک دے تو اسرائیل ڈوب جائے گا۔)
پھر مسلمان جب تھوکنے تک سے بخل کرے ٹو اس سے جان و مال کی قربانی کی امید کہاں رکھی جاسکتی ہے لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان میں ےس بہت سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کررہے ہیں۔ لہذا یہ حماقت ہوگی کہ کوئی ان سے اسلامی اتحاد کی امید رکھے۔
کیا آپ بھول گئے ہر روز ۵۰ ہزار فلسطینی، اسرائیلی رحم و کرم کے منتظر رہتے ہیں اور ہر روز صبح سوریرے ذلت و رسوائی کے سایہ میںکام پر جاتے ہیںتاکہ اپنےاور اپنے بچوں کےلیے روٹی فراہم کرسکیں۔ اور اگر کسی روز اسرائیل ان پر اپنے دروازے بند کردے تو وہ بھوک سے مرجائیں گے جیسا کہ اخیرا ہوا بھی یہی ہے۔
پھر وہ مسلمان بھائی کہاں ہیں جنھیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے؟ اور اپنی رحمت کے ذریعہ انھیں بے نیاز کیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شاہزادہ کےپاس اتنی دولت ہے کہ وہ ان بیچاروں سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو مستغنی کر سکتا ہے جو اسرئیل سے نہیں لڑتے اور اس کو اپن اولی نعمت اور روزی دینے والا سمجھتے ہیں۔
خدا کا درود و سلام ہو امام علی(ع) پر آپ فرماتے ہیں
” نزدیک ہے کہ فقر، کفر پر تمام ہوا گر فقر کوئی شخص ہوتا تو میں اسے قتل کر ڈالتا۔“
یہ سچ ہے کہ اتحاد میںطاقت ہے لیکن اتحاد کے ہر عنصر میں طاقت ہونی چاہئے اور اگر تمام عناصر بیمار اور کمزور ہوں تو ان کا اتحاد سوائے مرض و شدت اور بدبختی کے کچھ اور نہ ہوگا۔ وہ کس طرح اتحاد کے لیے تیار ہوگا جو بیماری و بھوک میں مبتلا ہے؟
کن کن باتوں کے متعلق آپ سے گفتگو کروں؟ ان جوانوں کے متعلق جن کے پاس مقابلہ کے لیے پتھر کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں ہے اور پتھر بھی ٹوٹ چکے ہیں اس لیے کہ اس وقت بعض لوگ ایسے پتھر کی تلاش مین ہیں جنھیں باندھ کر بھوک سے کچھ نجات حاصل کریں ۔ اور عالم یہ ہے کہ اگر ایک اسرائیلی فوجی کسی ایک بچے کے پتھر مارنے کی وجہ سے زخمی ہوجائے تو دسیوں بچوں اور نوجوانوں کو مشین گن اور بم کے ذریعہ حملہ کر کے ختم کر ڈالتے ہیں۔
پس عرب ممالک کہاں ہیں جو دسیوں سال سے فلسطین کی آزادی کا وعدہ دوہرا رہے ہیں؟
اور وہ اسلامی ممالک کہاں ہیں جو اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کے زیر سایہ جمع ہوئے ہیں اور بیت المقدس کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں؟ کیا آپ نے ان ممالک میں سے کسی ایک کو دیکھا جسے نے ان جہاد کرنے والے بچوں کی معنوی یا مادی مدد کی ہوجن کے پاس سوائے پتھر کے کوئی ہتھیار نہیں۔ لیکن ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ ان ہی ممالک نے خلیج فارس کی جنگ میں پناہ گاہوں سےکس طرح ہتھیار نکالے اور اربوں ڈالر خرچ کیا اور شور مچایا کہ عراق کو نابود کردیں گے۔ لیکن درحقیقت انھوں نے سازش کی تھی کہ عراق کے شیعی انقلاب کچل دیں۔اس وقت عراقی اور اسرائیلی حکومت اور دوسری کٹر حکومتیں اپنی جگہ قائم ہیں لیکن شیعہ زندہ درگور ہوگئے۔ اور جو زندہ بچے وہ بیابانوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ لاکھوں بیچارے عراقی، سعودی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اور وہابیت کی ذلت و رسوائی اور اہانت کے زیر سایہ بہ زندگی بسر کررہے ہیں۔
مجھے افغانستان کےمسلمانوں کے انجام کے متعلق بھی کہ لینےدیجیے اور دلی بھڑاس نکال لینے دیجئے کہ خدا نے ان پر رحم کیا اور انھیں کفار پر کامیابی بخشی لیکن بعد میں یہ خود ایک دوسرے کی جان کے درپئے ہوگئے۔ گھروں کو ویران کرنے لگے، عورتوں اور بچوں کو قتل کر ڈالا اور یہ سارے مظالم کفار کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ انجام دیئے گئے اور اس وقت بھی جارہی ہیں۔
رکیئے ! ہم آپ کو یو گوسلا ویہ ( بوسینا) کے مسلمانوں کے متعلق بتاتے ہیں۔ کافر قوتوں نے ان پر حملہ کیا اور مشرقی یورب سے ان کی مکمل صفائی کے در پے ہوگئیں۔
مجھے ہندوستان کے مسلمانون کی حالت پر بھی گریہ کر لینے دیجیئے کہ میں نے اپنی آںکھوں سے دیکھاکہ ان کی ناموس کی کس طرح بے حرمتی کی جاتی ہے۔۔۔ اور کس طرح ان پر حملہ کیا جاتاہے۔ حتی کہ بعض مسلمان عورتیں حیوانوں کی طرح بازاروں میںخریدی اور بیچی جاتی ہیں۔!
اتھیوپیا، سومالیا، سوڈان او افریقی مسلمانوں کے متعلق ہم کیا کہیں روزانہ ہزاروں مسلمان بھوک سے مررہے ہیں جب کہ مغربی کتے اور بلیاں لذیذ کھانوں سے سیر ہیں!!
مسلمانوں کی آبرو پامال ہورہی ہے اور پیروں تلے روندی جارہی ہے جب کہ جانوروں کے حقوق کو دفاع کرنے والی تنظیمیں گھاس کی طرح اگ رہی ہیں۔
بہت ہوچکا ہے جھوٹ!
بہت ہوچکا ہے فریب!
بہت ہوچکا ہے نفاق!
بہت ہوچکا ہے دورنگی!
اگر ایک وطن کے جوانوں میں پراگندگی اس طرح پائی جاتی ہو تو پھر تمام مسلمانوں کے اتحاد کے خواہاں ہم کیسے ہوسکتے ہیں؟ بات زیادہ ہے اور کام کم!
۱۹۴۸ء اسے لے کر خلیج فارس کی جنگ تک، ایک مختصر نگاہ ہی کافی ہے۔ ہمیں صاف نطر آجائے گا کہ ہمیشہ کامیابی کفار کی رہی ہے اور مسلمانوں کو ناکامی، شکست، نقصان اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پس اے عقلمندو! خدا کے غضب سے ہوشیار رہو!
کیا یہ کل ہی کی بات نہیں ہے جب ہم کہتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پیدا نہ کریں گے اور جو کچھ زور اور طاقت کی بنیاد پر لیا گیا اسے روز اور باقت کی بنیاد پر واپس لیں گے۔ پھر آج کیوں ہم فقیروں کی طرح ان کے پیچھے پھر رہے ہیں اور ان سے گڑ گڑا کر التجا کر رہے ہیں کہ ہم سے زبردستی چھینی ہوئی زمین کا کچھ حصہ ہمیں واپس کردو، اور اس میں واسطہ اس کے نزدیکی دوست امریکا کو بناتے ہیں؟!
ہمارے دل تھک گئے اور ہماری عقلیں خبط ہوگئیںاورہمارےقلوبپراگندہہوچکےہیں۔نہابہمتمہارے اتحاد کا یقین کریں گے اور نہ ہی اس کامیابی کا جو تمہارے ذریعہ حاصل ہو! اور کیا یہ معقول بھی ہے کہ خلیج کے بادشاہ و امراء اور دیگر مسلمان بادشاہ سلاطین فقیروں، کمزوروں، بے کسوں اور ناداروں کے ساتھ اتحاد کریں؟!
ہاں ! ان کا اتحاد صرف کلمہ شہادتیں کہنے میں ہے وہ بھی صرف زبان سے۔ حتی کہ انکی نماز،روزہ، زکوة، حج بھی زبان سے آگے نہیں بڑھتے پھر مشکل کیا ہے؟ بس خطیب نماز جمعہ نے آواز لگا دی کہ اے لوگو! ہمارا خدا ایک ہے، ہمارا رسول(ص) ایک ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے، پس مسلمانوں تم میں اتحاد ہونا چاہئے۔۔۔۔ ! کتنا آسان ہے یہ نعرہ بلند کرنا کہ ( نہ شیعہ نہ سنی بس اسلامی اتحاد)لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کا ٹھیک ٹھیک حساب کرنا چاہئے اور بغیر و دھوکے کے حقیقت سے روبرو ہونا چاہئے۔
ادھر چند برسوں سے ایک نیا نطریہ پیش کیا جانے لگا ہے اور ایک نئی بات کہی جارہی ہے جو گویا ائمہ معصوم(ع) اور بزرگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ کہتے ہیں کہ : ان احادیث کو بیان نہ کرنا چاہئے جس میں تاریخ کا تذکرہ ہے اسلیے کہ اس سے بعض مسلمانوں کے جذبات بھڑکتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھے اور کہنے لگے ہیں کہ شیعہ و سنی میں سواے فروغ دین کے اور کوئی اختلاف ہی نہیں ہے اور نہ بھی ایسا ہی اختلاف ہے جیسا سنی فقہوں میں آپس میں اختلاف ہے اس طرح انھوں نے امامت جو اصول دین کی ایک اصل ہے اس سے ہاتھ اٹھالیا ۔
جو نتیجہ اس جدید صورت حال سے حاصل ہوا یہ تھا کہ ہمارے دماغ آزاد ہونے کے بعد خشک ہوگئے اور انھیں اب بحث کرکے حق تک پہنچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اور اس کے بعد ہمیں ایک ساتھ رہنا چاہئے دشمن کے سامنے ایک ہوکر کھڑے ہونا چاہئے۔ گویا اس بات سے غافل ہیں کہ ہمارا دشمن خود ہمارے اندر ہے اس نے ہمارے گھروں کو اپنا مسکن بنالیا ہے اور خود ہمارے زیر سایہ پرورش پا رہا ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے مارکس اور لینن کے متعلق بحث کریں تو خوش ہوتے ہیں اور ان ان کے سینے پھیل جاتے ہیں۔ اور آپ کو روشن خیال کہنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر ابوالحسن، علی(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کے پاک فرزندوں کے نام لیں تو یکا یک دل تنگ اور افسردہ ہوجاتے ہیں کہ تم نے خلفاءئے راشدین کی توہین کی ہے اور اس سے بھی عجیب و مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اگر دلیل و برہان کے ذریعہ ان زیر کردیا اور ان کے لیے سوائے تسلیم کے کوئی راہ نہ چھوڑی تو فورا اسلامی اتحاد کا نعرہ لگائیں گے اور آپ پر الزام لگائیں کہ آپ مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
کیا اس پر لعنت بھیجنا چاہئے جو کتاب خدا، سنت رسول(ص) ، اور ثقلین کی طرف رجوع کرنے کی بنیاد پر عقیدہ میں اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے اور کیا اس پر مسلمانوں میں اختلاف و افتراق ڈالنے کا الزام لگایا جاسکتا ہے؟
بعض علماء حق کو جانتے ہیں لیکن اسے پوشیدہ کرتے ہیں اور اگر ان سے سوال وجواب کریں تو اس خوف کی بنیاد پر جواب نہ دیں گے کہ کہیں اسلامی اتحاد کے مخالف قرار نہ دے دیئے جائیں۔
لیکن میرا خیال تو یہ ہے کہ حق تک پہنچے کے لیے صحیح بحث میں کوئی ایسا خطرہ نہیں ہوتا جو اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچائے۔ اس لیے کہ جذبات و احساسات کو بھڑکانے سے بڑھ کر تو اور کچھ نہیں ہوسکتا اور یہ صورت بھی بحث کے آخر میں حق کے واضح ہوجانے کے بعد آتی ہے۔
لیکن وہ خطرہ کہ جس سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ ہم منہ پ رلگام لگا دیں اور لوگوں کو بحث و جستجو سے روک دیں اپنی عقلوں کو معطل کردیں اور حق تک پہنچنے سے روک دیں۔ صرف اس لیے کہ اتحاد کے خواہاں ہیں! یہ وہی کام ہوگا جو عراق کی بعث پارٹی نے سنی و شیعہ میں تفرقہ ڈالنے کے لیے کیا تھا پس اس سلسلہ میں ہر گفتگو منع ہے تاکہ اہل سنت حضرات بات کی حقیقت کو نہ پہنچ سکیں۔
اور یہ بھی وہی کام ہے جسے سب سے پہلے خلفائے راشدین نے انجام دیا اور لوگوں کو نیزہ کی نوک پر رسول اسلام(ص) کی احادیث نقل کرنے سے روکا لہذا حقیقت بہت سے مسلمانوں پر پوشیدہ ہوگئی۔ انھوں نے عید غدیر کو نہ پہچانا۔ انھیں نہیں معلوم کہ عید غدیر کیا ہے؟ وہ نہیں جانتے کہ اس روز کیا ہوا؟
چنانچہ یہود و نصاری نے ان پر ملامت کی اور کہا اگر آیت
” اليوم اکلمت لکم دينکم“
ہمارے متعلق نازل ہوئی ہوتی تو اس روز ہم سبھی عید مناتے اور اس میں ایک آدمی ھی اختلاف نہ کرتا ۔ اور صحابہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
اور ایک گروہ پیدا ہوا ہے جو امیر المومنین(ع) کے کلام سے استدالال کرتا ہے کہ حضرت نے فرمایا:
”جب تک مسلمانوں کے امور ٹھیک ہیں میں بھی خاموش رہوں گا، رہنے دو صرف مجھ پر ستم ہوتا رہے۔“ ( نہج البلاغہ⁄ خ۷۴)
لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ خود حضرت نے غدیر کے واقعہ کو زندہ کیا جب کہ لوگوں نے اسے مکمل طور پر بھلا دیا تھا۔ اور تیس افراد جو اس واقعہ کے شاہد تھے ان کو گواہ بنایا اور جن لوگوں نے ان کو چھپایا ان پر نفرین کی۔ اسی طرح ان کے دونوں فرزندوں نے بھی حج کے موقع پر زائرین خانہ خدا کے سامنے اس اہم تاریخی واقعہ کو بیان کیا اور جشن منایا۔ کیا امیرالمومنین(ع) نے نہیں فرمایا :
”نفرین نہ کرو اور ناسزا بھی نہ کہو لیکن یہ یاد دلاؤ کہ انھوں نے کیا، کیا، کیا؟ تاکہ حجت مکمل ہوجائے اور استدلال پوری طرح واضح وروشن ہو جائے۔“ ( بحار الانوار ج۳۲، ص۳۹۹)
لہذا ہمیں امیرالمومنین(ع) کی اقتدا کرنی چاہئے اور ان کی پیروی کرنی چاہئے نہ کہ صرف تسلیم ہوجانے کا تذکرہ کریں جیسا کہ بنی اسرائیل کہتے تھے کہ:
”ہم آسمانی کتاب کی بعض آیتوں کو تو قبول کریں گے لیکن بعض کو قبول نہ کریں گے۔( نساء⁄۱۵۰)
لہذا جو نہج البلاغہ کو دلیل بنا کر ہم پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں انھیں پوری کتاب اور جوکچھ اس میں ہے سب کچھ قبول کرنا چاہئے۔ نہ کہ صرف کچھ جملے جو ان کی نفسانی خواہشات کے ساتھ سازگار ہوں اسے دلیل بناکر اعتراض کریں۔
مثلا نہج البلاغہ میں جس جگہ بھی کسی مجہول شخص کی تعریف ہوئی ہے فورا کہنے لگتے ہیں کہ حضرت(ع) کا یہ کلام حضرت فاروق کے متعلق ہے اور آپ نے ان کی تعریف ومدح کی ہے!
لیکن انھیں سے جب کہیئے کہ ( خطبہ شقشقیہ) جس میں امام(ع) نے خلفاء پر شدید اعتراض کیا ہے اس کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟ تو کہیں گے یہ شریف رضی کا جھوٹ ہے جس کا حضرت علی(ع) سے کوئی ربط نہیں! البتہ یہ حضرت علی(ع) کو دوست رکھتے ہیں اور اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آن جناب(ع) نے خلفاء کی اطاعت میں کوتاہی نہیں کی! یہ ان کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ یاد نہیں کہ علی(ع) نفس رسول(ص)ہیں اور قلب علی(ع) قلب محمد(ص) ہے۔ پروردگار عالم نے ان سے رجس وکثافت کو دور کیا ہے اور انھیںطاہر و مطہر قرار دیا ہے انھوں نے یہ بھلا دیا ہے کہ علی(ع) اصل کے عین مطابق ایک نسخہ ہیں۔ وہی اصل جسے پروردگار عالم نے خلق عظیم سے تعبیر کیا ہے اور اس کی توصیف کی ہے اور اسی طرح اہل بیت(ع) کے قلوب حسد و جلن سے خالی ہیں اور ان کے یہاں بغض و کینہ کا گذر نہیں ہے ۔ لہذا یہ رسول(ص) تھے اور وہ رسول (ص) کے وصی و با الفاظ دیگر محمد(ص) نذیر و بشیر تھے تو علی(ع) ہادی اور راستہ دکھانے والے، محمد(ص) نے تنزیل پر جنگ کی تو علی(ع) نے تاویل و تفسیر پر جنگ کی۔
یہی سبب تھا کہ اللہ نے علی(ع) کو چنا اور اپنی امامت کے لیے علی(ع) کو منتخب کیا ایسی امامت جس پر اپنے دین کو مکمل کیا اور نعمت کو تما کر دیا اور اس عظیم ہستی کے اکرام و احترام کےلیے تاج پوشی امامت کے دن کو عید اکبر قرار دیا۔
ہاں! علی(ع) نے صبر و خیر خواہی کے ساتھ ایک روز بھی اپنےحق سکوت اختیار نہ کیا۔ خود آپ لوگ اپنی صحیح میں تحریر فرماتے ہیں ۔ علی(ع) چھ ماہ تک بیعت کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس مدت میں واضح اور روشن دلیلوں کےساتھ ( غاصبین حقوق) پر احتجاج کرتے رہے اور اپنے حق کا دفاع کرتے رہے۔
یہاں تک کہ حضرت عمر سے کہا:
” ایسا دودھ دو ہو کہ اس کا آدھا تمہارا ہو۔ آج اس کے لیے زیادہ محنت کرو تا کہ وہ خلافت کل تمہارے حوالے کردے۔“( الامامہ والسیاست، ج ۱، ص۱۸، انساب الاشراف،ج ۱، ص۵۸۷)
خود آپ لوگوں نے روایت کی ہے کہ وہ اپنی زوجہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کے ساتھ باہر جاتے اور انصار سے ملاقات کرتے لیکن وہ معذرت کے ساتھ کہتے :
” اے رسول خدا(ص) کی نور چشم اگر آپ کے شوہر اور (آنحضرت(ص)) کے چچا زاد بھائی ہمارے پاس پہلے آتے ( اور ہم سے مدد چاہتے) تو ہم سوائے ان کےکسی اور کو خلافت کےلیے منتخب نہ کرتے“۔
اور ان کے جواب میں حضرت امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں :
کیا یہ صحیح ہوتا کہ میں رسول خدا(ص) کے جسم کو بلا غسل و کفن چھوڑ دیتا اور ( سقیفہ چلا جاتا) اور خلافت کے مسئلہ میں لوگوں سے جھگڑا کرتا؟
اور جناب فاطمہ(س) فرماتی ہیں :
” ابوالحسن(ع) نے جو کچھ کیا وہ ان کا فریضہ تھا لیکن جو کچھ ان لوگوں نے کیا اس کا حساب انھیں خدا کے یہاں دینا ہوگا۔“( الامامہ والسیاست، ج ۱، ص ۱۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٦،ص۱۳)
وہ علی(ع) ہی تو تھے جنھوں نے دل سوز آہ و نالہ کے ہاتھ اپنی زوجہ کو رات کے وقت سپردخاک کیا اور رسول خدا(ص) کو مخاطب کر کے فرمایا:
” اے خدا کے رسول(ص) آپ پر سلام ہو اور آپ کی بیٹی پر بھی جو آپ کی کے بغل میں محو آرام ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت نے کس طرح ہمارے خلاف شورش کی اور ہمارے حق کو غصب کیا۔ اے رسول(ص) خدا آپ ان ( فاطمہ(س)) سے کچھ نہ پوچھئے ان کی حالت دیکھئے، “( آپ خود سمجھ جائیں گے کہ ان پر کیا گذری ہے۔) نہج البلاغہ۔ خ، ۲۰۵)
وہ علی(ع) ہی تو تھے جنھوں نےخلافت کے لیے دو خلیفہ ( حضرت ابوبکر و حضرت عمر) کی سنت کو قبول کرنے کی شرط سے انکار کردیا اور قبول نہ کیا۔ یہ سب کیا ان لوگوں اور ان کی حرکتوں سےحضرت(ع) کی رضامندی کی دلیل ہے؟!
وہ علی(ع) ہی تو تھے جنھوں نے خلافت سے انکار کردیا اورجب ان کو مجبور کیا گیا تو بھی قبول نہ کیا یہاں تک کہ ۳۰ آدمیوں نے غدیر کے واقعہ کی گواہی دی اور اعتراف کیا کہ علی(ع) رسول خدا(ص) کی جانب سے تمام مسلمانوں کےلیے خلیفہ معین ہوئے تھے اور آنحضرت(ص) نےفرمایا تھا:
”جس کے مولا علی(ع) نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہوسکتا“
اس طرح علی(ع) نے غدیر کی واقعہ کی یاد اس وقت تازہ کی جب اسے پوری طرح فراموشی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ اس کے باوجود بہت سے مسلمان اس واقعہ سے بے خبر ہیں۔ اور اس واقعہ پر یقین نہیں کرتے۔ علی(ع) کا یہ کردار صرف اس بنیاد پر تھا کہ امام علی(ع) کی شجاعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ حق کے اوپر خاموشی اختیار کی جائے۔
میں ان لوگوں سے عرض کرتا ہوں کہ امام علی(ع) کی شجاعت رسول خدا(ص) کی شجاعت سے بڑھ کر نہیں ہے، علی(ع) فرماتے ہیں:
” جب بھی آتش جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے اور لڑائی شدت اختیار کر لیتی میں رسول خدا(ص) کی پناہ میں آجاتا تھا“۔ ( نہج البلاغہ)
لیکن اس کے باوجود آںحضرت(ص) نے اپنے حق کےمتعلق سکوت اختیار کیا اور مشرکین کے سامنے اسلام کی مصلحت کے لیے نرمی اختیار کی اور ان کی شرطوں کو قبول کیا حتی اصحاب نے آںحضرت(ص) پر ذلت قبول کرنے کا الزام لگایا۔ اور ایک شخص نے تو یہاں تک کہا:
” کیا واقعا تم رسول خدا(ص) ہو؟
( مسند احمد ج۴، ص۳۳۰، صحیح بخاری، ج۳، ص۲۰٦)
امام حسن(ع) نے مسلمانوں کے خون کے حفاظت کے لیے جس وقت معاویہ سے صلح کی تو اس وقت آپ پر بھی یہی تہمت لگائی گئی اور ( یا مذل المومنین) ( اے مومنین کو ذلیل کرنے والے) کہا گیا۔
لہذا عید غدیر حق و باطل کےدرمیان ایک مرکز ہے۔ عید غدیر نے دین کے کمال کو نمایاںکیا عید غدیر نے شورش کرنے والوں کے خلاف خدا کے غضب کو ظاہر کیا، عید غدیر نے خدا کی اس امامت کو ظاہر کیا جسے اس نے اپنے برگزیدہ بندوں میں قرار دیا تھا۔
عید غدیر نے اس غصب کی ہوئی خلافت کو واضح کیا جسے رہا ہونے والوں ( طلقاء) اور مفسدوں نے لباس کی طرح پہن لیا تھا۔
میں جب بھی شہید سعید آیت اللہ باقر الصدر کی بات کو یاد کرتا ہوں تو ایک لحظہ بھی تردید نہیں کرتا کہ اہل بیت(ع) کے حق سے دنیا کو روشناس کرانا چاہیے۔ وہ اپنے قریبوں سے ملاقات کے وقت فرماتے تھے:
جس وقت تیجانی کا خط مجھے ملا انھوں نے مجھے خوشخبری دی کہ ہمارے بھائیوں نے اس خطے میں پہلی مرتبہ عید غدیر کا جشن منایا ہے تو میں نے گریہ کیا اور خداکا شکر ادا کیا کہ انھوں نے اس خطے میں شیعیت کا بیج بودیا۔
حاضرین نے اس وقت یہ سمجھا کہ آیت اللہ شہید کا گریہ خوشحالی کی وجہ سے ہے اس لیے کہ مومنین کے ایک گروہ نے ہدایت پائی۔ لیکن برسوں بعد میری سمجھ میں آیا کہ آنجناب کا گریہ اس ظلم و ستم کی وجہ سے تھا جو امیر المومنین(ع) اور عترت پاک علیہم السلام پر روا رکھا گیا۔ اس لیے کہ ان پر ظلم، اسلام اور تمام مسلمین پر ظلم ہے۔ گویا آیت اللہ شہید اس پر رو رہے ہیں کہ اکثر مسلمان عید غدیر سے ناواقف ہیں اور ان کے کانوں تک یہ بات نہیں پہنچی ہے اور وہ خداوند عالم کے نزدیک اس کی قدر و قیمت کے متعلق لاعلم ہیں۔
عید غدیر کے متعلق اس مختصر بحث کے بعد ضروری ہے کہ اس پر میں اپنی رائے بیان کروں، البتہ یہ خود میری رائے نہیں ہے بلکہ خود کتاب و سنت کا اتباع ہے، ورنہ ہماری اورلوگوں کی رائے کتاب و سنت کی رائے کےبعد گمراہی کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ اتحاد اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک ایک محکم اور معقول اساس نہ ہو! اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب لوگ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔ اس لیے کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں : اگر( مسلمانوں نے) دین میں اختلاف کیا تو ابلیس کے گروہ کا حصہ بن جائیں گے۔اور رسول خدا(ص)ہی اتحاد کی بنیادوں کو واضح کیا اور فرمایا :
” میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں اگر ان دونوں سے تمسک کرو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (وہ دو چیزیں) کتاب خدا اورمیری عترت ، میرے اہل بیت(ع) ہیں اور اس لطف کرنے والے اور خبر رکھنے والے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں“۔
پس جو بھی ان دونوں سے تمسک کرے گا وہ ایسے اتحاد کا خواہاں ہے جس کو خدا اور رسول(ص) چاہتے ہیں اور اگر کوئٰ اس سے دوری اختیار کرے تو وہ دانستہ یا نہ دانستہ طور پرلوگوں کو تفرقہ کی دعوت دینے والا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ اتحاد و توحید کا رہبر ہے، تو سمجھ لو کہ ایسے شخص کو دعوی غلط اور باطل ہے۔ ہاں! صرف اس صورت میں صحت کا امکان ہے جب وہ ( ثقلین) کی طرف واپس آجائے۔
شاید وہ بات جو اہل سنت حضرات میں سے کسی عالم نے مجھ سے کہی اتحاد کی دعوت کرنے والوں کی صدق نیت پر دلالت کرتی ہے، وہی کہ جن کی آل محمد(ص) علیہم السلام سے محبت و دوستی میں کسی بھی مسلمان کو شک نہیں ہے۔
اس عالم نے مجھ سے کہا :
ہم ہرگز سے اتحاد نہ کریں گے۔ ہاں ! مگر اس وقت کہ جب تمہاری آیت اور معجزہ ظاہر ہوجائے۔ہم نے کہا : کیسی آیت؟ جواب دیا: مہدی(عج) وہی جن کے متعلق تم دعوی کرتے ہو کہ زندہ ہیں اور لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اگر وہ آجائیں تو ہم تم سے اتحاد کریں گے اور تمہارے عقیدے کا یقین کریںگے۔
یہ ایک دردناک نتیجہ ہے لیکن بہر حال ایک ایسا حق ہے کہ جس سے راہ فرار نہیں۔ کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے یہ امت ہرگز متحد نہ ہوگی مگر اس وقت جب حضرت مہدی(عج) ظہور فرمائیں۔ اور اگر ہم یہ خیال کریں کہ ظہور امام(عج) کے وقت اکثر اہل سنت، اہلبیت(ع) کی طرف آجائیں گے تو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ امت کے درمیان ہمیشہ کچھ ایسے افراد ہوں گے جو تا دم مرگ دشمنی اور انکار کرتے ہیں گے۔ یہ حضرت مہدی(عج) کے اجداد اور ان کے شیعوں کے دشمنوں کےساتھ رہیں گے۔ اور جو ظلم ان مقدس ہستیوں پر ہوئے ہیں یہ اس پر خاموش رہیں گے۔ یا ان کے قاتلوں کےساتھ ہم آواز ہوجائیں گے۔ اور جو کچھ انھیں ورثہ میں ملا ہے، اس کی پیروی کرتے رہیں گے۔ ابن عمر کے مانند جو یزید کےخلاف امام حسین(ع) بن علی(ع) کے انقلاب اور ان کی تحریک پر معترض رہتے تھے۔ ( البدایہ والنہایہ ج۸، ص۱٦۳)
جس وقت اہل مدینہ نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا تو یہ ان سے جدا ہوگئے اور اپنے بچوں اور گھر والوں کو حکم دیا کہ یزید کی بیعت پر باقی رہیں اور اہل مدینہ کی پیروی کریں۔ ( البدایہ والنہایہ، ج ۸، ص۲۱۸)
گویا ان کے دین کی بقا و سلامتی یزید حجاج، صدام جیسے ظالم حاکموں کی نسبت جہاد ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) میں نہیں ہے بلکہ ان کے لیے اہم یہ ہے کہ اطاعت حاکم میں ذرہ برابر فرق نہیں آنا چاہیے اور جماعت مسلمین سے کٹنا نہیں چاہئے۔ خواہ ایسے ظالم حکومت کرتے ہیں۔
اور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی دربار کا مفتی ( بن باز) یہ اعلان کرتا ہے کہ شیعوں کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے اس لیے کہ یہ مفسد اور مشرک ہیں اور ان کے یہاں شادی بھی نہیں کی جاسکتی لیکن یہی مفتی ( بن باز) غیر ملکی اور غیر مسلم فوجوں کا سعودی عرب میں استقبال کرتا ہے اور انھیں خیر مقدم کہتا ہے۔ اورامریکی فوجی عورتوں کے دربار میں نہانے اور (سن باتھ) کرنے کی برہنہ تصویروں پر کوئی رد عمل پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اسلامی ملک میں ان کی پوری آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی مفتی اسرائیل کے ساتھ صلح کو کار خیر کہتا ہے۔
والیان آل سعود کی اطاعت کا نتیجہ یہی تو ہے!!
پھر ہم کس طرح امام مہدی(عج) کا آمد کے منتظر نہ رہیں۔ اور کیونکر آپ کے ظہور میں تعجیل کی خدا سے دعا نہ کریں کہ آپ آکر عدل کو عام کریں اور زمین سے ظلم و ستم کو مٹا ڈالیں۔
اس بحث کے آخر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جمہوری اسلامی ایران کی بنیاد رکھنے والے امام خمینی(رح) کے خط کا ایک حصہ یاد دلاؤں اور اس کے ذریعہ ان لوگوں کے راستے بند کروں جو اتحاد کی خاطر سنی و شیعہ کی بحث کی حرمت کے قائل اور مدعی ہیں۔
اس بزرگ ہستی نے اپنی وصیت کا آغاز حدیث ثقلین سے کیا اور حدیث کی شرح و تفسیر کے بعد اس طرح فرمایا :
” یہ مسلم ہے کہ رسول اکرم(ص) کی ان دو امانتوں پر سرکشوں کی جانب سے جو ظلم ہوا ہے وہ صرف امت مسلمہ پر نہیں بلکہ بشریت پر ہے جسے قلم بیان کرنے سے عاجز ہے اور اس نکتہ کو ذکر ضروری ہے کہ حدیث ثقلین تمام مسلمانوں کے درمیان تواتر کے ساتھ موجود ہے اور اسے اہ سنت کی صحاح ستہ سے لے کر دوسری کتابوں نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ مختلف جگہوں پر پیغمبر اسلام(ص) سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یہ حدیث شریف تمام بشریت اور خصوصا مسلمانوں کے تمام فرقوں پر قطعی حجت ہے۔ اور تمام مسلمان جن پر حجت تمام ہوگئی ہے۔ جوابدہی کے لیے تیار ہوجائیں۔ جاہل عوام کےلیے عذر ہوسکتا ہے لیکن علماء مذاہب کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔
اس کے بعد امام خمینی ان سازشوں کے مختلف حصوں کو بیان کرتے ہیں۔ جن کے ذریعہ قرآن و عترت کو نشانہ بنایا گیا اور سرکشوں نے قرآن کی دشمن حکومتیں قائم کرنے کا وسیلہ بنایا۔ گرچہ رسول خدا(ص) کی ” انی تارک فيکم الثقلين“کی آواز گونچتی رہی اور کانوں تک برابر پہنچتی رہی۔ لیکن مختلف بہاںوں اور پہلے ہی سے تیارسازشوں سے انھوں نے کوشش کی کہ قرآن کے حقیقی مفسرین، اس کے حقائق سے آگاہ افراد اور رسول اکرم(ص) سے مکمل قرآن حاصل کرنے والوں کو راہ سے ہٹا دیں۔
اور پھر امام خمینی فرماتے ہیں:
ہمیں اس بات پر فخر ہے اور سرتا پا قرآن و اسلام کی پابند عزیز ملت بھی افتخار کرتی ہے کہ وہ ایسے مذہب کی پیرو ہے۔ جو ان حقائق قرآنی کو جو صرف مسلمانوں کے اتحاد ہی نہیں بلکہ پوری بشریت کا دم بھرتا ہے۔۔۔نجات دینا چاہتا ہے۔
ہمیں افتخار ہے کہ ہم ایسے دین کے پیرو ہیں جس کی بنیاد حکم خدا سے رسولص(ص) نے ڈالی اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) ، جیسا بندہ جو تمام قیدوں سے آزاد تھے بشر کو ہر طرح کی غلامی اور اسیری سے نجات دلانے کے لیے مامور کئے گئے۔
ہمیں فخر ہے کہ قرآن مجید کے بعد نہج البلاغہ معنوی اور مادی زندگی کےلیے سب سے بڑا دستور العمل اور بشر کی رہائی کے لیے عالی ترین کتاب ہے اور اس کے معنوی و حکومتی احکام ہماری نجات کا سب سے بڑا راستہ ہیں ہمارے معصوم اماموں کا سرمایہ ہے۔
ہمین فخر ہے کہ معصوم ائمہ، علی بن ابی طالب(ع) سے لہے کر بشریت کے نجات دہندہ حضرت مہدی(عج) صاحب الزمان( آپ پر ہزاروں درود و سلام) جو خداوند قادر کی قدرت سے زندہ اور امور کے نگراں ہیں ہمارے امام ہیں۔
اور پھر اپنی واصیت کے آخر میں فرماتے ہیں :
میں پوری عجز و انکسار کے ساتھ پوری ملت اسلامیہ سے چاہتا ہوں کہ وہ ائمہ اطہار(ع) کی پیروری کریں۔ اور حق و مذہب کےدشمن خناسوں کی بات پر کان نہ دھریں اور یہ جان لیں کہ گمرہی کا ایک قدم مذہب،احکام اسلامی اور حکومت عدل الہی کے سقوط کا مقدمہ ہے۔ من جملہ نماز جمعہ اور جماعت سے غفلت نہ کریں۔ اور ائمہ اطہار(ع) کے مراسم عزاداری خصوصا مظلوموں کے سردار سید الشہداء، حضرت ابی عبداللہ الحسین(ع) ( آپ کی شجاعانہ روح پر خدا، انبیاء، ملائکہ اور صلحاء کی بے شمار صلوات) کی عزاداری میں کوتاہی نہ کریں۔ اور یہ جان لیں کہ ااسلام کیتاریخ کی اس بے مثال روداد کی تکریم و تجلیل اور اہل بیت(ع) کے اوپر ستم کرنے والوں پ رلعنت و نفرین سے متعلق ائمہ اطہار(ع) کا جو حکم ہے یہ ابد تک کی تاریخ میں ظالم و ستمگر حکام کےسروں پر تمامملتوں کے سور ماؤں کی آواز ہے۔ اور یہ جان لو کہ بنی امیہ ( لعنہ اللہ علیہم) کے ظلم پر لعنت و نفرین کی آواز( اگر چہ ان کی نسل ختم ہوئی اور وہ جہنم واصل ہوگئے) دینا کےتمام ستمگروں کے خلاف ظلم شکن آواز ہے۔
اور ضروری ہے کہ اپنے نوحہ، اشعار، مرثیہ، مدح، جو ائمہ اطہار(ع) کی شان میں پڑھتے ہیں اس میں ہر عصرہ و ہر زمانہ کے ستمگروں کے ستم و ظلم کو رسوا کن انداز میں نظم کیا جائے۔ یہ زمانہ اسلام کی مظلومیت کا زمانہ ہے پس امریکہ اور روس اور ان کے حاشیہ نشینوں من جملہ آل سعود، حرم الہی کے خائن( ان پر خدا، رسول(ص) اور ملائکہ کی لعنت ہو) انکا رسوا کن اندزا میں تذکرہ ہو اور ان پر لعنت ونفرین ہو۔ اور ہم سبھی کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو چیز مسلمانوں کے اتحاد کا باعث ہے یہی سیاسی مراسم عزا ہیں اور یہی مسلمانوں خصوصا شیعوں کی ملت و اتحاد کے محافظ ہیں۔
اور ایک نکتہ جس کی یاد آوری ضروری ہے یہ ہے کہ میری یہ سیاسی و الہی وصیت ملت ایران سے مخصوص نہیں بلکہ یہ وصیت دنیا کی تمام اسلامی ملتوں اور ہر مذہب و قوم کے مظلوموں کے لیے ہے۔
اے میرے بھائیو! یہ امت کے رہبر کی وصیت ہے جو ظالموں کے ظلم و ستم کو یاد کرنے کے ساتھ ان پر لعنت و نفرین کو واجب قرار دیتا ہے۔ پس اگر کوئی ادعا کرتا ہے کہ امام(رح) نے اسے حرام جانا ہے تو اس کا دعوی باطل ہے جس کی کسی بھی عقلی ونقلی دلیل سے توجیہ نہیں کی جاسکتی۔
آخر میں تمام مسلمانوں کے لیے اعلان کرتا ہوں کہ اگر وہ واقعی اتحاد کے قائل ہیں تو کشتی نجات پر سوار ہوجائیں۔
اسی لیے حضرت ںوح(ع) نے خدا کے حکم سے ایک چھوٹی کشتی بنائی جو صرف حقیقی مومنوں کے لیے گنجائش رکھتی تھی۔
پیغمبر اسلام(ص) نے بھی خدا کے حکم سے ایک کشتی بنائی جو تمام امتوں کے لیے گنجائش رکھتی ہے اور تمام مومنین اس پر سوار ہوسکتے ہیں۔
اہل بیت(ع) صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خدا نے انھیں تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔
خدا ہمیں اسلام و مسلمین کی خدمت کی توفیق دے نیز امیرالمومنین(ع) اور ان کے معصوم فرزندوں کی ولایت کا دم بھرنے والوں میں قرار دے۔
”وآخر دعوانا ان الحمد الله رب العالمين والصلوة والسلام علی اشرف المرسلين سيدنا ومولانا محمد وآله الطيبين الطاهرين“