امامت اور حج کا تعلق
- شائع
-
- مؤلف:
- سید جواد ورعی
- ذرائع:
- مترجم : سید قاسم شاہ رضوی پیشکش موسسہ امام حسین علیہ السلام
بسم الله الرحمٰن الرحیم
امامت اورحج کاتعلق
امامت اور ولایت سے جن امور کا بہت گہرا اور مضبوط تعلق ہے ان میں سے ایک "حج" ہے .حج ایک ایسی عبادت ہے جسکا انفرادی ،اجتماعی ،سیاسی ،اقتصادی ،ثقافتی اور بہت سی جہتوں سے ابتدا آفرینش سے گزشتہ امتوںمیں امامت اور رہبری سے تعلقرہا ہے اورآخری امام و حجت خدا (ع)کے ظہور تک اس سے گہرا تعلق رہے گا۔
عبادتوں میںسے شاید کوئی ایسی جامع عبادت نہیں مل سکتی ہے جوحج کی طرح امامت اور رہبری سے اس حد تک وابستہ ہو۔
سر زمین وحی اور حرم خدا کےچپے چپے اور حج کے معارف و منا سک (اعمال) کے اندر امامت کو واضح اور روشن طور پرمشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
اس مقالہ میں یہ کو شش کی گئی ہے کہ اس گہرے پیوند اور رابطے کی ایک جھلک اور جلوہ نمایاں ہو جائے تاکہ اس کے مختلف اثرات اور برکات پر نظر رہے اور اس رابطے کے نہ ہونےسے حاصل ہونے والے عواقب اور نقصانات سے غافل نہ رہیں۔
امامت اور تعمیر کعبہ
خلیل خدا حضرت ابراہیم (ع)اور انکے فرزند حضرت اسماعیل(ع)کے ہاتھوں کعبہ کو خدا کے گھر اور اسکی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا۔حضرت ابراہیم (ع)جو کہ اولو العزم پیامبران میں سے تھے۔انکو مقام نبوت پرفائز ہونے کے بعد اس سے بڑے مقام و منزلت (امامت) تک پہنچنے کیلیئے بہت سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا قرآن کریم واضح طور پر اس کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور فرماتا ہے کہوَ إِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ۔ (4)
مفسرین کا اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم(ع)نے کن امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے مقام امامت کو حاصل کیا۔ہر ایک کی دلیل معصو مین علیہم السلام کی مختلف روایات ہیں۔بعض روایات میں حضرت ابراہیمؑ(ع)کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیلؑکی ولادت ہو نا ، انکی مادر گرامی حضرت ہا جرہ کا حجاز کیآب و علف سے خالی خشک سرزمین کی طرف لے جانا اور آخر میں حضرت اسماعیل(ع) کو جوانی میں ذبح کرنے کی ما موریت کو آیت مذکورہ میں موجود (کلمات) اور امتحانات کا مصداق قرار دیا گیا ہے-(2)بعض دوسری روایات میں بھی حضرت اسماعیل(ع) کے ذبح کرنے کے واقعہ کو (۳) اور بعض روایات میں خانہ کعبہ تعمیر کرنے کی ماموریت اور حج کے اعمال بجالانے کو ان امتحا نات کے عنوان کے طور پر بیان کیا گیا ہے جن کا حضرت ابراہیم ؑ کو سامنا کرنا پڑا۔(۴)
بہر حال روایات اور مفسرین کے نظریات سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امتحانات جن میں کامیابی کی وجہ سے آپ(ع)مقام امامت کے لائق و حامل قرار پائےان کا براہ راست خانہ خدا اور حج سے تعلق ہے وہ امتحانات یہہیں۔آپؑ کا اپنی زوجہ محترمہ اور فر زند کو سرزمین حجاز کی طرف لے جانا اور اس سرزمین کو آب زمزم کے چشمہ کے ذریعہ آباد کرنا اور لو گوں کا وہاں جمع ہونا اورخدا کے بندوں کے لیے عبادت کا ایک مرکز تیار کرنا اور حج کے اعمال بجالانا جن میں سے ایک اپنے فرزند کو منٰی کی قربان گاہ میں قربانی کے لیےلے جانا ہے۔مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ حج کی بنیاد رکھنے کے عمل نے حضرت ابراہیم(ع) کو امامت کے لائق بنادیا۔
پس حج ایک ایسی حقیقت تھی کہ خلیل خدا حضرت ابراہیم(ع)نے اس کی بنیاد رکھی اسی کے ذریعے سے آبؑ مقام امامت حاصل کرسکے۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسی عظیم شخصیت کےہاتھوں اس کیفیت کے ساتھ حج کی بنیاد رکھنے سے حج اور امامت میںگہرے رابطے کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ہے؟اور بہت سے رموز اور اسرار موجود ہونے کی گواہی موجود نہیں ہے؟البتہ بعض روایتوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم(ع)کو امامت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد اپنے فرزند کو قربانکرنےکا حکم ہوا ہے۔ایسیقربانی تو امامت کے عہدہ دار کے علاوہ کسی اور سے نہیں ہو سکتی۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں حضرت ابراہیم(ع)نے جب اعمال حج انجام دینے کے بعد منی میں تشریف لائے اورانہیںاپنے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو اپنے فرزند کو ساتھ لے جا رہے تھے راستے میں ایک بوڑھے شخص سے ملے اس نے پو چھا اے ابراہیمؑاس بچے کو کیا کرنا چاہتے ہو؟آپ (ع)نے فرمایا :اسے ذبح کرنا چاہتا ہوں ۔ اس نے عرض کیا :سبحان اللہ ایک ایسے بچے کو ذبح کرنا چاہتے ہو جو ایک لحظہ بہی خدا کی معصیت کا مرتکب نہیں ہوا ہے؟ آپ نےفرمایا: خدا نےمجہےاس کا حکم فرمایا ہے۔ اس نےعرض کیا آپؑکا پروردگار اس کام سے روکتا ہے اور شیطان تجھےاس کام کا حکم کرتا ہے۔آپؑ نے فرمایا:وائےہو تجھ پر ،خدا نے مجھے اس مقام تک پہنچا یاہے اور مجھے اس کا حکم دیا ہے اور اس بات کو میری کانوں میں ڈال دیا ہے۔ اس نے عرض کیا خدا کی قسم شیطان کےعلاوہ کوئیتجھے اس کام کا حکم نہیں دے رہا ہے۔آپ نے فرمایا:نہیں خدا کی قسم تجھ سے بات نہیں کروں گا ۔اس کے بعد آپؑ نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو اس بوڑھے نے کہا ۔ اے ابراہیم(ع) تو امام ہے لوگ تیری پیروی کرتے ہیں ۔اگر تو نے اس کی قربانی کی تو لوگ بہیاپنے بیٹوںکو بھی قربانی کریںگے۔ حضرت ابراہیم(ع)نےاس سےبات نہیں کی اور اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوئے،ان سے ان کی قربانی کےبارےمیںمشورہ کیا ،جب دونوں پروردگار کےحکم کے سامنے سر تسلیم خم ہوگئے تو بیٹےنےکہا:میرے چہرے کو چھپا ئیں اور ہا تھوں کو باندھیں۔(۵)
امامت اور قرآن
حضرت ابراہیم(ع) کو مشکل امتحانات مثال کے طور اپنے فرزند کو ذبح کرنا ،سے گزرنے کے بعد ملنے والی امامت کا کیا معنٰی و مفہوم بنتا ہے؟توجواب میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ امام کے دو معنٰی تصور ہو سکتے ہیں۔
(ا) امام وہ ہے جو اپنے کردار اور گفتا ر میں دوسروں کے لیئے نمونہ عمل ہو۔اور لوگ زندگی کے تمام امور میں اسکی اقتداء و پیروی کریں۔ کعبہ اور حج کی بنیاد رکھنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ(ع) کا ایسے مقام تک پہنچنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ ؑسے لئے جا نے والے نمو نوں میں سے واضح و روشن ترین نمونہ حج ہے اور ضروری ہے کہ حج کے مناسک و اعمال میں آپؑ کی پیروی کی جائے۔
حج میں یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی تمام وابستگیوں سے ہا تھ اٹھا ئیں اور اپنی ہستی اور وجود کو اپنے حقیقیمحبوب کے سپرد کریں۔ اگرچہ وابستگی اپنے عزیز فرزند سے کیوں نہ ہو۔ حضرت ابرہیم(ع)نے اپنے فرزندوں کیلئے بھی مقام و منزلت کی درخواست کی اور آپکے فرزندان اگرچہ امامتکی تمام خصو صیات حاصل نہ کرسکے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرسکے۔
(ب)لوگوں پر حکومت و ولایت
امامت کے امور میں سے ایک لوگوں پر حکومت اور ولایت ہے. آ یت مبارکہ میں موجود لفظ امام کی دوسری تفسیر اسی معنٰی میں ہے یعنی امام سے مراد وہ شخص ہے جو امت کے امور میں تدبیر کرےاور انکی سیاست کیلئے کھڑے ہو جائے۔ معاشرے کی اصلاح کرنا ، لوگوں کے حقوق پائمال کرنے والوں کو اد ب سکھا نا ،حکومت کیلئے کام کرنے والے افراد کا تعین کرنا ،شریعت و قا نون کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزاؤو ں کا اجراء کرنا اور دشمنوں سے جنگ کیلئے قدم اٹھا نا سب امام کے امور میں سے ہیں۔
حضرت اسماعیلؑ(ع)کے بیٹے اسی معنٰی میں امام تھے اور کئی سالوں تک حکومت کرتے رہے اور معاشرے کے امور میں تد بیر کرتے رہے۔
امام صادق(ع) نے فرمایا: کہ اسماعیلؑ ایک سو تیس (۱۳۰)سال کی عمرمیں انتقال کرگئے اور اپنی مادر گرامی کے ساتھ حجر (اسماعیلؑ) میںدفن ہوئے حضرت اسماعیلؑ(ع)کے بیٹے ہمیشہ والی اور حاکم تھے۔لوگوں کیساتھ حج کرتے تھے اور انکے دینی امور انجام دیتے تھے یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے جانشین ہوئے تھے اور سرداری کو میراث کے طور پر حاصل کرتے تھے یہ سلسلہ عدنان ابن ادد تک چلتا رہا۔(6)
بہر حال خانۂ خدا کی تعمیر اور اعمال حج کا امامت سے گہرا تعلق ہے. لہذا طول تاریخ میں ظہور حضرت بقیۃ اللہ اعظمؑ تک نہ ٹوٹنے والا یہ رابطہ امامت کیساتھ رہے گا۔
اسلام اور امامت کا حج سے رابطہ
کعبہ اور حج کا امامت سے تعلق اسکی ابتدائی تاسیس وتعمیر کیساتھ منحصر نہیں ہے بلکہ یہ تعلق تسلسل کےساتھ برقرارہے.یہ ایک ایسا تعلقہے جو رحلت پیغمبر اکرم ﷺکےبعدسرزمین وحی اور حج کے موسممیں معاشرے کے رہبر وامام کےابلاغ اور مستحکم کرنے کا تقا ضا کرتا ہے۔
رسول خداکو ۱۰ہجری میں حکومت اسلامی قائم ہونے کے بعد پہلی دفعہ حج کیلئے جانے اور اعمال حج لوگوں کو سکھانے کا حکم ہوا۔وَ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالًا وَ عَلى كُلّ ضامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ(7)-اور اسکی طرف بلانے کا حکم ہوا (خُذُوا عنّي مَنَاسکَکم) اس سفر میںحضرت علی ابن ابی طالب (ع)کیامامت اور رہبری کو آپﷺکے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنےاعلان کرنے کا حکم ہوا ۔
یہ ایک ایسا پیغام تھا کہ اس کے اعلان کے بغیر کار رسالت کا العدم تھا. امام محمدباقر(ع)اس بارے میں فرماتے ہیں کہحَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنَ الْمَدِينَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ جَمِيعَ الشَّرَائِعِ قَوْمَهُ غَيْرَ الْحَجِّ وَ الْوَلَايَةِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِيلُ(ع) فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ اسْمُهُ يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّي لَمْ أَقْبِضْ نَبِيّاً مِنْ أَنْبِيَائِي وَ لَا رَسُولًا مِنْ رُسُلِي إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِينِي وَ تَأْكِيدِ حُجَّتِي وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَاكَ فَرِيضَتَانِ مِمَّا تَحْتَاجُ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِيضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِيضَةُ الْوَلَايَةِ وَ الْخِلَافَةِ مِنْ بَعْدِكَ فَإِنِّي لَمْ أُخَلِّ أَرْضِي مِنْ حُجَّةٍ وَ لَنْ أُخَلِّيَهَا أَبَداً فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ يَأْمُرُكَ أَنْ تُبَلِّغَ قَوْمَكَ الْحَجَّ وَ تَحُجَّ وَ يَحُجَّ مَعَكَ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا مِنْ أَهْلِ الْحَضَرِ وَ الْأَطْرَافِ وَ الْأَعْرَابِ وَ تُعَلِّمَهُمْ مِنْ مَعَالِمِ حَجِّهِمْ مِثْلَ مَا عَلَّمْتَهُمْ مِنْ صَلَاتِهِمْ وَ زَكَاتِهِمْ وَ صِيَامِهِمْ و...
رسول خدا 9مدینہسے حج پر تشریف لے گئے اسوقت آپ حج اور ولایت کے علاوہ تمام احکام اور شرائع الہٰی کا ابلاغ کرچکے تھے ،اسوقت جبرئیل آپ کی خدمت میں آئے اور کہا :اے محمد9 :خدا وندمتعال آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے میں نے تمام انبیا ء و رُسل میں سے کسی نبی یا رسول کو دین مکمل اور حجت پر تاکید کرنے سے قبل اسکی روح قبض نہیں کی ہے،اسوقت آپ کے دین کے دو فرائض باقی رہتے ہیں، آپ پر لازم ہے کہ انہیں اپنی قوم تک پہنچائیں وہ حج اور آپ کے بعد والی خلافت و ولایت کے فرائض ہیں،میں نے اپنی زمین کو کبھی اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے اور نہ کبھی خالی رکھوں گا ۔ پس خداوند متعال آپکو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو حج کی تبلیغ کریں ۔ اور آپ بھی حج بجا لائیں اور مدینہ اور اس کے اطراف کے لوگ اور اعراب میں سے صا حبان استطاعت بھی آپ کے ساتھ حج بجالا ئیں اور انہیں حج کے آداب کی تعلیم دیںجسطرح آپ نےانہیں نماز، زکات اور روزے وغیرہ کی تعلیم دیاو ر آداب سکھائے(8)
آیا خداکےاسیپیغمبر او ررسول ﷺ کو معاشرے کے دواہم امور (مناسک حج) اور(ولایت و امامت)کوایکسفرکےاندرابلاغکرنےکاحکمہونااندوحقیقتوںکےدرمیانرابطےکیحکایتنہیںکرتا؟
پیغمبر اکرم ﷺعازم سفر ہو تے ہیں اور اعمال و مناسک حج بجالاتے ہیں۔ پہلے عرفات میں پھر منٰی میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں آپؑ دوسرے پیغام الہٰی (ولایت)کے ابلاغ پر مامور ہوتے ہیں لیکن منافقین اور دشمنوں کی سازشوںاور انکی بغاوت کا خوف ہے (۹) یہاں تک کہ ( خداوند متعال کی طرف سے) خوف و امید سے بھرا ایک خطاب صادر ہو تا ہے کہ اگر اس پیغا م کونہ پہنجایا تو گویا آپ ﷺ نے اپنی رسالت انجام ہی نہیں دی اور ہم تمہیں لوگوں کی شر سے محفوظ رکھیں گے.يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ- وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ(۱۰) اسی ترتیب سے کعبہ اور حج کی حضر ت ابراہیم(ع)کے توسط سے بنیاد رکھی گئ لیکن کئی سال گزرنے کے ساتھ حج ابراہیمی(ع)ایک بار پھرحج جا ہلی میں بدل گیا اور حضرت پیغمبر اسلامﷺاس دفعہ حج ابراہیمی (ع)کو دوبارہ زندہ کر نے پرمامور ہوئےلیکن اسکو زندہ کرنا (امامت و رہبری) کےساتھ اس کے تعلق کو بتائے بغیر امکانپذیرنہیں تہا . اسی لئے پیغمبر ﷺدونوں کا ساتھ ساتھ ابلاغ کرتے ہیں- حج ایک ایسی فرصت اور ظرفیت کا حامل ہے کہ اس میں امامت و ولایت کے پیغام کا ابلاغ کیا جاسکتا ہے یہ ایسا پیغامہےکہ جس کا ابلاغ رسالت رسول خدا کے ساتھاس طرح کاگٹھ جوڑ ہے کہ اسکاابلاغ نہ ہونا رسالت کی تبلیغ نہ ہونے کےبرابر ہے۔
حج اور پیغام برائت:۔
پیغمبر اسلامﷺ بتدریج (آہستہ آہستہ) لوگوں کو حج ابراہیمی (ع)کے لئے آمادہ کرتے ہیں اور آٹھویں ہجری میںآپ اپنی عظیم فوج کے ساتھ مکہ فتح کر تے ہیں اور حضرت علی ابن ابی طالب(ع) (جوکہ خدا کےحکم کے مطابق پیغمبرﷺکا جانشیناور آنے والا رہبرتہا) کو آپﷺ اپنے دوش پر اٹھاتے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ وہ بہی بتوں کو اتار کر توڑیں اور حضرت ابراہیم(ع)کی بت شکنی کی یاد تازہ کریں۔آیا یہ سب اسی لئے نہیں کہ خدا کے گھر کو بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کا کام پہلی دفعہ معاشرے کے امام و رہبر کے ہاتھوں انجام پائےاور ہر ایک کیلئے نمونہ عمل بن سکے- توحید کے ہیڈ کوارٹر میں بت کو توڑنا حضرت ابراہیم(ع)کی سیرت اور بنی نوع انسان بالخصوص امت اسلامیکیلئے نمونہ عمل ہے۔پیغمبر عظیم الشانﷺ بھی انکی پیروی کرنے پر مامور تھے لہذا آپﷺ اورآپ کے جانشین نے حضر ت ابراہیم(ع)کی پیروی کی اور خدا کے اس عظیم گھر کو بتوں سے پاک کردیاقَدْ كانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْراهِيمَ وَ الَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنا بِكُمْ وَ بَدا بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةُ وَ الْبَغْضاءُ أَبَداً حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ(۱1)
نویں ہجری میں بھی حضرت علی ابن علی ابی طالب (ع)کو حکمخدا کے مطابق سورہ برائت کی تبلیغ کیلیے سرزمین وحی اور توحید و یکتا پرستی کےمرکز کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ حضرت علی(ع) کو حکم ہو تا ہے کہ ابو بکر سے پیغام واپس لے کر خود اسکی ابلاغ کیلئے حج کے موسم میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میںاقدام کریں ۔(۱۲)یہ پیغام جسکا ابلاغ خلیل خدا اور توحید کےفداکار اور تاریخ کے بت شکن کی پیروی میں انجا م پا تا ہے ،ایک ایسی شخصیت کے توسط سے انجام ہوتا ہے جو مقام امامت پر فا ئز ہونے والی ہے۔ اور امامت کے جتنے امور ہوں گے وہ سب رسول خدا ﷺ کی رحلت کے بعد انکے توسط سے انجام پا ئیں گے۔یہ سب اس گہرے تعلق اور رابطےکی حکایت اور اظہار ہے جس کے ایک طرف کعبہ اور حج اور دوسری طرف معاشرے کے امام و رہبر ہیں اور خداوند سبحان مختلف مناسبات سے اس تعلق کو نمایاں کرتا ہے۔
حجت الوداع کے موقع پررسول خدا ﷺ کے دیئے گئے خطبات کے اہم نکات:
رسول گرامیﷺ کے رفتار کی علاوہ آپ ﷺ کا حجت الوداع کے موقع پر دیا ہوا خطبہ اور اسی طرح مکہ میں یو م الترویہ،عرفات کے میدان، عید الضحی کے روز، ایام تشریق کے دوران اور منی میں یوم النفر کے روز اور صحرای غدیرمیں دئے گئے خطبات ،حج اورمختلف امور میں ولایت و رہبری کےدرمیان تعلق کی حکایت کرتے ہیں۔
آپ9 ایسی تعلیمات کے بارے میں گفتگو فرماتے ہیں جن کی سو ائے ولایت و رہبری اور حجکے سایے میںمشق ممکن نہیں ہے۔ (ان میں سے کچھ یہ ہیں)۔
۱۔ وحدت انسانی پر تاکید اور قومی و قبائلی اور ذات پات کے امتیازات کی نفی
۲۔ خواتین اور لڑکیوں کیساتھ انسانی رفتار
۳۔ جاہلیت کے آثار و بقا یا جات کی نفی
۴۔مسلمانوں کے درمیان اسلامی اخوت و بھائی چارگی کو برقرار رکھنا
۵۔ معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام
۶۔ ثقلین (کتاب و عترت) کیساتھ تمسک کی تاکید
۷۔حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کی امامت اور جانشینی کی بشارت
۸۔ اولاد علی ابن ابی طالب(ع) کی امامت کی بشارت
۹۔امام و رہبر کی پیروی کی تاکید
مذکورہ بالاکلمات (جو آنحضرت 9نے اس سفر اور سرزمین وحی میں لوگوں کو ابلاغ کردئے تہے)میں دقت اور تامل کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ حج اگر ولایت و رہبریکےسائےمیںہو تو معاشرے کو اصلاح و فلاح کی سمت لے جا سکتا ہے۔
حضرت امام خمینی (قدس سرہ )جو عصر حاضر میں حج ابرہیمی زندہ کرنے والی شخصیت سمجھے جاتےہیں ، فرماتے ہیں
کہ اسلامی معاشرہ کی ہر نسل و قوم کےلئےضروری ہے کہ ابراہیمی ہوںتاکہ امت محمدی کے لشکر سے جاملیں اور متحد ہو کر ید واحد بن جائیں۔حج اسی توحیدی زندگی کی مشق اور مجسمہ ہے۔
جی ہاںبد یہی بات ہے کہ ایسی مشق کے بغیر انسانی و الٰہی اقدار اسلامیمعاشرے میں واقعی طور پرتحقق نہیںپاسکتیںاور انسانی و الہی اقدار کی تمرین اور مشق فقط حج ابراہیمی(ع)اور محمدی9میںامکان پذیر ہے۔
ولایت سے وابستگی قبولیت حج کی شرط
ولایت و حج کے مابین باہمی تعلق کی اور بہی علامتیں ہیں۔ زید شحام کہتا ہے کہ قتادہ ابن دعامہ امام باقرؑ(ع)کی خدمت میں آیا وہ بصرہ والوں میں فقیہکےعنوان سےمعروف تھا. امام(ع)نے اس سے آیت مبارکہ وَ قَدَّرْنا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ وَ أَيَّاماً آمِنِينَ(۱۷)کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آدمی جو اپنا حلال زاد و راحلہ لے کر مکہ جاتا ہے وہ امان میں ہوتا ہے امام(ع) نے فرمایا:«وَيْحَكَ يَا قَتَادَةُ ذَلِكَ مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ بِزَادٍ وَ رَاحِلَةٍ وَ كِرَاءٍ حَلَالٍ يَرُومُ هَذَا الْبَيْتَ عَارِفاً بِحَقِّنَا يَهْوَانَا قَلْبُهُ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ- فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِم»(۱۸)اس کے بعد آپؑ نے فرمایا : یہاں قلوب کے مائل ہو نے کا مطلب کعبہ کی طرف نہیں ہے اگر ایسا ہو تاتو ضمیر مفرد لائی جاتی یعنی (الیہ) فرماتے نہ کہ جمعیعنی ( الیہم) نہ فرماتے۔
خدا کی قسم ابراہیم(ع)نے جس چیز کی طرف قلوب مائل ہونے کی دعوت دی ہے وہ ہم ہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتو اسکا حج قبول ہوگا ورنہ قبول نہیںہوگا اور ایسے شخص کو روز قیامت جہنم سے امن نہیں ملے گا ۔(۱۹)
آپ ملاحظہ کیجئے کہ ولایت و رہبری جوحق ائمہ ؑہے اسکی معرفت اور پہچان اور انکی طرف دل کا مائل ہونا ایسے شخص کے حج کی قبولیت کی شرط ہے جو اپنا حلال زاد و راحلہ لے کر بیت اللہ الحرام کی طرف جاتا ہے اور قیامت کے روزامان اس سے وابستہہے-
ولایت سے وابستگی حج تکمیل ہونے کی شرط
بعض احادیث میںامام زمانہؑ سے ملاقات اور انکی اطاعت اور حمایت کے لئے تیار ہونے کے اعلان کو حج کی تکمیل کیلئے شرط شمار کیا گیا ہے .امام محمدباقر(ع) اس بارے میںفرماتے ہیں «فِعَالٌ كَفِعَالِ الْجَاهِلِيَّةِ أَمَا وَ اللَّهِ مَا أُمِرُوا بِهَذَا وَ مَا أُمِرُوا إِلَّا أَنْ يَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَ لْيُوفُوا نُذُورَهُمْ (20)فَيَمُرُّوا بِنَا فَيُخْبِرُونَا بِوَلَايَتِهِمْ وَ يَعْرِضُوا عَلَيْنَا نُصْرَتَهُمْ.»(21)
یعنی (حج کے ) یہ اعمال زمانہ جاہلیت کے اعمال جیسے ہیں. آگاہ ہو جاؤ خدا کی قسم لوگوں کو حج کا حکم نہیں ہوا ہے مگر اس لئے کہ مناسک و اعمال حج اور حلق و تقصیر کے اعمال بجالائیں اپنے کئے ہوئے عہدوں اور نذروں کو ادا کریں( یعنی امام (ع)سےملاقات کیلئے آ ئیں) اور ہم سے ملاقات کریںاورہماریولایت اور محبت کے بارے میںہمیں اطلاع دیں اور اپنی نصرت و مدد کو ہما رے لئے پیش کریں.امام باقر(ع) جاہلیت کے اعمال اور ظہور اسلام کے بعد کے حج کے اعمال میں جس عمدہ ترین فرق کے قا ئلاور جس چیز کو معین فرماتےہیں وہ ( امامت و ولایت)ہے۔ امامؑ(ع)کے اعلٰی اہدافتک پہنچے کے لیئے امام سے محبت و ارادت کا ا ظہار اور اسکی نصرت کے لئے تیا ر ہونے کا اعلان وغیرہ. حقیقت میں کونسا راز و رمز امامت و ولایت میں چھپا ہوا ہے جو حج ابراہیمی ؑ کو حج جاہلی سے مختلف و ممتاز بنادے؟
حرم الٰہی میں امن کی رہبر و امام سے وابستگی
بعض احادیث میں حرم پاکمیں امن جو کہ حضرت ابراہیم(ع)کی درخواست سے بر قرار ہوا تھا،اسےحضور امام اور امام کیساتھ وابستگی کو جانا گیا ہے۔
جب حجاج نے منجنیق کے ذریعے کعبہ کو بند کردیا اور ابن زبیر کعبہ کے اندر تھا تو اس وقت امام صادق(ع) نے آیۃ مبارکہ«و من دخلہ کان آمناً»کے بارے میں ابو حنیفہ سے سوال کرتے ہیں کہ اس آیۃ مبارکہ میںمراد کونسا امن ہے؟ ابو حنیفہ اس کے جواب دینےسے عاجز آگیا امام(ع)نے فرمایا۔«سِيرُوا فِيها لَيالِيَ وَ أَيَّاماً آمِنِين» (22)یعنی مع قائمنا أهل البیتؑ «ومن دخله کان آمناً»(23) فمن بایعه و دخل معه ومسح یده ودخل فی عقده اصحابه کان آمناً» (24)
ترجمہ ۔ ان دیہاتوں اور شہروں میں دن رات مکمل امن و امان سے سفر کریں یعنی ہم اہل بیتؑ کے قائم ؑکےساتھ «اور جو بھی اس ( بیت اللہ الحرام)میںداخل ہوگا امن پائے گا»پس جو بھی ہمارے قائمؑ کی بیعت کرے گا اور انکے ساتھ خانہ خدا میں داخل ہوگا اور انکے ہاتھ تھا مے ہوگا اور انکی مدد کرنے والوں کے عقد و پیمان میں شامل ہوگا تو امن پائے گا۔
شاید یہاں امام(ع) کا مقصد اس نکتہ کو بیان کرنا ہو کہ امام زمانہ(ع) کی بیعت اور انکی نصرت و حمایت سے خانہ خدا میںامن برقرار ہوگا .پھر اسکے نتیجے میں اس سر زمین پر انکو حاکمیت حاصل ہوگی .جسکا گواہ یہ ہے کہ مختلف زمانوں میںظالم حکمرانوں کی حاکمیت نے اس امنیت کو مخدوش کیا ہےیہاں تک کہ امام حسین ؑ(ع)جیسی عظیم شخصیت کو بھی اس سرزمین میں شہید کرنے کی دہمکی دی گئی ہے۔
حج کا امامت کیساتھ دائمی تعلق
نہ فقط کعبہ و حج کی بنیاد اپنی بقاء کو دوام دینے میں امامت و رہبری کیساتھ گہرا رابطہ رکھتیہے بلکہ انکی ابدی سرنوشت کابھی ولایت و رہبری کیساتھگہراگٹھ جوڑ ہے۔ امام عصر منجی عالم بشر ( عج) کا ہر سال موسم حج میںحا ضر ہونا ، اور مسلمانوں کے رفتار و کردار پر نظارت ، اور پھر آخر میںاس سرزمین وحی میںخانہ خدا سے آپ (ع)کا ظہور ہونا، اور مقام ابراہیم سے توحید کی صدا بلند کرنا، اور سب کو توحید کی طرف دعوت دینا،(۲۵)مسجد الحرام اور رکن و مقام کے درمیان (۲۶) میں اپنے یاران سے بیعت لینا، اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ حج اور امامت کے درمیان گہرا اور ابدی رابطہ ہے. وحی کی سرزمین اور خانہ خدا سےشرک و کفر ،اور ظلم و بے عدالتی کے خلاف وسیع و عریض مقابلے کا آغاز ہوگا ۔ بعض روایتوں میںآیۃ مبارکہ و آذانٌ مِنَ الله ِ وَ رَسُولِهِ إلَی النَاسِیَومَ الحَجِ الاَکبَرِ(27)میں((یوم الحج الاکبر) سے مراد امام زمانہ ( عج) کے ظہور کو قرار دیا گیا ہے جو خدااور اسکے رسولﷺ کی طرف سے( ظلم کے خلاف )قیام کرنے کی دعوت کردیں گے (۲۸) سرزمین وحی ، توحید اور شرک و بت پرستی کےمقابلہ کا مرکز ہوگی۔ جسطرح حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت محمد ﷺ نے اس مرکز سے اپنے اہداف کی طرف حرکت کا آغاز کردیا تھا ۔ اسی لئے امام زمانہؑ بھی اسی سرزمین سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا.لہذا یہ اس سرزمین مرکزتوحید اور حج ابراہیمی کا امامت سے رابطہ ہونے کی نشانی ہے۔
حکومت اسلامی کےسائے میں حج ابراہیمی(ع)ادا کرنا
ان متعدد مظاہر کے علاوہ جو حج اور امامت کے درمیان رابطہ کے متعلقبیان ہوئے. ابنیادی طور پر حج ابرہیمیؑ اور حج محمد یﷺ کو ان کے تمام خصوصیات کے ساتھ انجام دینا حکومت اسلامی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔خصوصا حج کے اھداف کو حا صل کرنے کے لیے امیر الحجاج کا کردار بہت اہم ہے .حج کے موسم میں امیر الحجاج کی کی مختلف جہات سے ضرورت اور صدر اسلام سے اسلامی حاکموں اور بعد کے حاکموں کا امیر الحجاج کومنصوب کرنا حج میں حکومت کے کردارکو اجاگر کرتا ہے اور حکومت کے نہ ہونے سے حج کے مراسم امیرکے بٖغیر تو پا ئیں گے لیکن انکے بہت سارے اھداف حاصل نہ ہوپائیںگے۔
طویل تاریخ سے اسلامی حکمران ایک صالح شخص کو امیر الحجاج کے عنوان سے منصوب کرنے کے مقید رہے ہیں .انقلاب اسلامی کی کامیابی کےبعد انقلاب اسلامی کے رہبر حضرت امام خمینی (قدس سرہ )کی طرفسےاس خاص نظریے کے ساتھ جو آپ حج اور حاجیوں کے پیغام کے متعلق رکھتے تھےاور جسکی روشنی میں حج کے اندر ایک بڑی تبدیلی آتی ہےدشمن اور نادان دوستوں کی طرف سے پیش آ نے والےبہت ساری رکاوٹوں کے باوجودکم از کم ایرانی حاجیوں کے لئے ایک سرپرست و امیر کا منصوب کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فقط حکومت ہی اس کام کو انجام دے سکتی ہےاور بغیر حکومت کے ممکن نہیں ہے۔
حوالہ جات:
بقرہ:124
علامہ محمد باقر مجلسی،بحار الانوار،ج:12،ص113
امین الاسلام،طبرسی ،مجمع البیان،ج:1،ص200
ایضاً
بحارالانوار،ج:12،ص:127-125
ایضاً
سورہ حج:27
ابو منصور طبرسی،احتجاج،ج:1،ص:134
ایضاً ،ص: 139-135
مائدہ:67
بحارالانوار،ج:21، ص:275
ممتحنہ:4
ابن شعبہ حرانی،تحف العقول،ص:30
علی ابن ابراہیم،تفسیر القمی،ج:1،ص:171
تحف العقول،ص:30
امام خمینی،صحیفہ نور،حک20،ص:228
سبأ:18
ابراہیم:37
بحارالانوار،24،ص:237
20-حج:29
21-الحویزی،تفسیر نور الثقلین،ج:3،ص:491
22-سبأ:18
23-آل عمران:97
24-شیخ صدوق،علل الشرائع،ص:89
25-بحار الانوار،ج:51،ص:59
26- ایضاً ، ج:12،ص:304
27-توبہ:5
28- عیاشی،تفسیر عیاشی،ج:2،ص:76